Ahmadi Muslim VideoTube Rahe Huda,Youtube Rahe Huda – Kuran Kafiron Ko Qatal Karne Ka Hukum Deta Hai?

Rahe Huda – Kuran Kafiron Ko Qatal Karne Ka Hukum Deta Hai?



Rahe Huda – Kuran Kafiron Ko Qatal Karne Ka Hukum Deta Hai?

https://youtu.be/-SOyYPx4ja8

Rah-e-Huda-24 Gusht 2019-Rahe Huda-Kuran Kafiron Ko Qatal Karne Ka Hukum Deta Hai?


ہم تو رکھتے ہیں مسلمانوں کا دیں دل سے ہے خدا دی میں ختم کرے دل سے ہے خود دادا میں ختم المرسلیں ختم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ الرجیم بسم اللہ الرحمن الرحیم دارالامان سے پروگرام راہ داں کے ساتھ آپ کی خدمت میں حاضر ہے ابھی لائیو انٹرویو ہے اور یہ پروگرام آپ کی خدمت میں لائیو پیش کرنے کا ہمارا مقصد یہ ہے کہ آپ بھی ہونے کے ساتھ ساتھ آپ ہم سے رابطہ کرکے اپنے سوالات ہم تک پہنچائیں اور اسی پروگرام کے دوران اپنے سوالات کے جوابات حاصل کر کے ذریعے بھی اپنے سوالات کے پینل تک پہنچ کر اپنے سوالات کے جوابات حاصل کر سکتے ہیں سہیل ابھی سے ایکٹیویٹ ہے اور ہم سے رابطہ کی تمام تفاصیل آپ نے ٹیلی ویژن پر پورے پروگرام کے دوران موجود رہیں گی تو ان سے سے کسی بھی وقت آپ رابطہ کر کے لئے علمائے کرام تشریف فرما ہیں اور ان کے ساتھ تشریف رکھتے ہیں محترم مولانا مجاہد ہسپتال مجاہد علمائے کرام اس پروگرام کے رائل پیلس ہے میں آپ دونوں کا پروگرام خیر مقدم کرتا ہوں امن و آشتی کا مذہب ہے قرآن مجید کی تعلیمات جو انفرادی سطح سے لے کر قومی اور عالمی سطح تک ہر شعبہ زندگی کے بارے میں رہنما اصول بیان کرتی ہیں ان تعلیمات میں جبر و ظلم و تشدد دہشت گردی کا شائبہ تک نہیں پایا جاتا ہے مذہب جو راستے کے کانٹے اور پتھر کو ہٹانے کی تعلیم دیتا ہے کہ کسی کو تکلیف نہ ہو وہ مذہب جو پی سی بلی کو پانی پلانا باعث ثواب قرار دیتا ہے وہ مذہب جو شجر و حجر چرند و پرند جانورویدیو غرض ہر قسم کی مخلوق کے حقوق کی ضمانت دیتا ہے وہ مذہب جو کسی انسان کے ناحق قتل کو ساری انسانیت کا قتل قرار دیتا ہے ایسے مذہب کے بارے میں کیا کوئی تصور بھی کر سکتا ہے کہ وہ ظلم کی تعلیم دے گا جبر کی تعلیم دے گا یا تشدد کی تعلیم دے گا لیکن ناظرین کرامبن سکتے ہیں اپنے سوالات ہم تک پہنچا کر اسی پروگرام کے دوران اپنے سوالات کے جوابات حاصل کر سکتے ہیں ہم سے رابطے کی تمام تفصیلات کے ٹیلی ویژن سکرین پر موجود رہیں گی تو ضرور ہم سے رابطہ کیجئے گا اور آج سے پروگرام سے ریلیٹڈ یا جماعت احمدیہ کے عقائد سے متعلق جو بھی سوال آپ کے ذہن میں رہے گا پروگرام کے دوران آپ کے سوالات کے جوابات آپ تک پہنچایا جائے اس طرف مولانا محمد نعیم الدین صاحب سے درخواست کروں گا کہ وہ گفتگو کا آغاز فرمائیں اور میں آپ کی خدمت میں یہ آپ امجید کی روایت ہے کہ انہوں نے اس کے بارے میں بھی ہے اور اس کی کیا ہے رحمن رحیم شام کسی بھی بات کو سمجھنے کے لئے کے اس بات کا بھارت کا سیاق و سباق دیکھنا بہت ضروری ہوتا ہے ورنہ امن ہوتا یہ ہے کہ کہ بیا نا ت میں سے یا کسی عبارت میں سے ایک حصے کو بیان کر کے باقی حصے کو نظر انداز کر دینا یہ تحقیق کا راستہ نہیں ہوتا ہوتا ہے چنانچہ قرآن مجید میں بھی جو باتیں بیان کی گئی ہیں ان میں کے فضل سے سیاح کو اغواء کر کے مدنظر رکھ کر دیکھا جائے تو کوئی اعتراض کی بات بنتی ہی نہیں بلکہ قرآن مجید تو خود کہتا ہے القرآن ویلفیئر سربازہ قرآن مجید کی بعض آیتیں وہ خود قرآن کی دوسری آیتوں سے اس کی تشریح ہو جاتی ہے تو کسی ایک ٹکڑے کو لے کے اس کے بارے میں اعتراض کرنا یہ درست نہیں اور میں یہاں پر یہ بھی بتاتا چلوں کہ ہمارے ہیں یا غیر جماعتی دوست ہے وہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام یا جماعت احمدیہ کی بعض کتابوں کی عبارتوں کو سیاق و سباق سے ہٹا کر کسی رنگ میں پیش کرتے ہیں اور اس پر اعتراض کرتے ہیں اور غلط فہمیاں پیدا کرتے ہیں ورنہ اگر دیکھا جائے تو صبح کو دیکھا جائے تو حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی کتابیں ہوں تو ان کو آگے پیچھے دیکھے تھے وہ مسئلہ خود وہیں پر حل ہوجاتا ہے تو یہی بات قرآن مجید میں ہے تمہیں سب سے پہلے جو آیت کا ٹکڑا پیش کیا گیا ہے وقتلوھم حیث ثقفتموہم میں اس سے پہلے جو ہے امجد کی ہے سورۃ البقرہ کی 191 آئے ہیں فرماتے ہیں ہیں دونوں کو اور تم ان لوگوں سے اللہ کے راستے میں لڑوں لڑائی کرو جو تم سے لڑتے ہیں یا نہیں یا مذہب کو پھیلانے کے لیے لڑائی کرو بلکہ فرمایا کہ فی سبیل اللہ الذین یقاتلونکم کو جو تم سے لڑائی کرتے ہیں ان سے اللہ کی راہ میں تم بھی لڑائی کر سکتے ہو ولا تعد لیکن شرط یہ ہے کہ زیادتی نہیں کرنی تو یہاں پر یہ واضح کر دیا کہ اگر کوئی مخالف قوم پر حملہ کرتی ہے تم کو دفع کرنے کی اجازت ہے کتنی حد تک لڑائی کرنے کی اجازت ہے جس حد تک کہ دشمنوں پر حملہ کیا ہے لیکن زیادتی کرنے کا اختیار نہیں ہے اللہ تعالی فرماتا ہے وہ آتا تو کیوں زیادتی کرنے والوں کو پسند نہیں کرتا تو یہ اسے پہلے آئے تھے اس کے بعد اللہ تعالی فرماتا ہے کہ وہ اس آفت میں ہوں جہاں کہیں بھی یہ لڑائی کا کے سیاہ کرتا ہے کہ لڑائی کا واقعہ ہے لڑائی کے میدان میں اگر دونوں فریق مخالف اور مسلمان دونوں لڑائی کرتے ہیں تو ایسی صورت میں اللہ تعالی فرماتا ہے تو ہم اس وقت تم یہ تو نہیں کہنا ہے کہ کوئی ہم پر حملہ کر رہا ہے تو ہم جو ہے وہ جھکا کر بیٹھ جائیں یا جیسا کہ عام طور پر ہمارے ہندو دھرم کا اللہ تعالی فرماتا ہے وقت علوم ہفتم ہیں جو حلات اوپر بیان کئے گئے ہیں پہلی آیت میں ان حالات میں جہاں کہیں بھی تم لوگوں کو بولو تو یہ نہیں ہے کہ اس کے سامنے جھک جاؤ یہ ہتھیار ڈال دو بلکہ ان کے ساتھ لڑائی کرنی ہے وہ اخرجوہم من حیث اخرجوکم کو تمہارے گھروں سے اگر تم نے نکالا ہے ابھی تم نکال سکتے ہو تو یا کے جیسا کہ دوسری جگہ پر اللہ تعالی فرمائے جزاک اللہ سید حسن نصر اللہ کا بندہ ہوں تو نہیں دینا ہے جس طرح کی برائی کی گئی ہے اس سے زیادہ نہیں کرنی ہے تو منع فرمایا کہ دیکھو مسلمان ہمیشہ امن پسند اور صورت میں اس کو ظلم اور زیادتی کرنے کی اجازت نہیں جیسا کہ پہلے ذکر آیا کہ لائیو چل بہت دن سے ان کو پسند نہیں کرتا ہے تو آگے بھی اللہ تعالی نے فرمایا کہ تمہارا یہ ہونا چاہیے لڑائی کرنے کا یہ مقصد ہے کہ دین کو پھیلاؤ یا اور کوئی جبر و تشدد سے جو لوگوں کے اموال لوٹ لو یا ان کو قتل کرو بلکہ ہونا یہ چاہیے الفتنتو اشد ضرورت ہے اور شان سے قائم کرنی ہے پھر فرمایا یہ مقصد تو گویا کہ اسلام جو اس میں حکم دیتا ہے یہاں پر ایک بات کی وضاحت ضروری ہے کہ دیکھئےتمام معاشرے میں ہر آدمی ایک جیسا نہیں ہوتا ہے ہے بعد میں میں بھی لوگوں نے اسلام اور مسلمانوں کو مٹانے کے لیے حملہ کیا ہے اس ہے ان کو اجازت دی گئی تھی ان شاء اللہ آگے بھی اس کا بیان آئے گا تو اس حد تک کہ اللہ تعالی نے ڈیفنس طور پر ان کا مقابلہ کرنے کی اللہ تعالی نے اجازت دی ہے ورنہ زیادتی نہیں کرنی ہے تو ان مشرکین میں سے بھی یا جو غیر مسلم تھے ان میں سے بہت سارے لوگ ایسے تھے جو مسلمانوں سے ہمدردی رکھنے والے تھے تو ایسے وقت میں ہم اسلامی طور پر یہ اصطلاح استعمال کرتے ہیں کہ ایک ہوتا ہے وہ مشرق ہے اسلام کو مٹانے کے لیے اس مسلمانوں پر حملہ آور ہوتا ہے اس پر بھی مشرقی حربی کافر اور دوسرا وہ جو معتدل مزاج رکھنے والا ہے ہمدردی رکھنے والا ہے جبر و تشدد کا قائل نہیں ہے وہ مسلمانوں پر ظلم و زیادتی کرنے کے لیے نہیں آتا ان کو ہم کہتے ہیں یہ غیر حربی کافر یا غیر یہ صلاحیت اور مسلمانوں میں بھی اور ہمارے علماء میں بھی آئے ہوئے ہیں تو یہاں پر ان مشرکین کا ذکر آتا ہے جو جنگ وجدال کرنے والے ہیں جو اسلام کو مٹانے کی کوشش کر رہے تھے جو مسلمانوں کو گھروں سے نکال رہے تھے میری بات سے کہ اللہ تعالی پر ایمان لانے والے ہیں کفر اور شرک وہ لوگ چھوڑنے والے اس بنا پر ان لوگوں کو وہ لوگ مارنا چاہتے تھے تو ایسے وقت پر اللہ تعالی نے اجازت دی ہے کہ ان کے ساتھ اتنی لڑائی کرنی ہے جتنا انہوں نے زیادتی کی ہے اس پر بھی زیادتی نہیں کر رہی اب آگے دیکھئے اگر کوئی کہے کہ نہیں جی یہ تو ہم ہر بشر کو مارنے کے لیے حکم دیا گیا ہے یہ قرآنی تعلیم کے بالکل مخالف ھے کیونکہ اس بات سے کہ اللہ نے حکم دیا ہے کہ لائیو چل رہا ہے پھر دین کے معاملے میں کوئی جبر نہیں جیسا کہ ہم جاتا ہے مسلمانوں پر کہ اسلام جیسا کہ آپ نے بھی ذکر کیا تلوار کے زور سے پھیلا ہے کہ غلط ہے اس کو اٹھانی پڑی ہے جب ان پر ظلم کیا گیا ان کے گھروں سے نکالا گیا ہجرت کرنے کے باوجود ان کو وہاں پر جا کر ان کے اوپر حملہ آور لوگ ہوئے ہیں ایسی صورت میں اپنا حفاظت کرنے اور ہر حکومت اختیار دیتی ہے تو یہ کوئی گم ہو جاتی کی بات نہیں تھی تو اللہ تعالی نے حکم دیا جلائیں کریں پھر سے بنایا گیا یہ بالکل غلط ہے اسلامی تعلیمات کے خلاف ہے اسلام جبر و تشدد کو کلعدم قرار دیتا ہے بلکہ سختی سے یہ حکم دیتا ہے کہ بالکل دین کے معاملے میں کوئی جانپھر اسی طرح دیکھے اگر یہ حکم عام ہوتا کہ جہاں مشرق ملے اس کو مار دو یہ غلط نظریہ کیوں قرآن مجید کی اس بات کا ذکر کرتا ہے سورۃ توبہ کی چھٹی آئے تھے وہاں پر جا رہا ہوں تمہارے پاس ہوتا ہے تمہارے پاس آ کر بیٹھ جاتا ہے بھائی میں آپ کے پاس ملنے کے لئے آیا ہوں تو آج ہو اس کو تم بتا دو اس کا خیال رکھنا ہے حتی یسمع کلام اللہ ہی اللہ تعالی کا کلام سن لے تو مجھ کو کر سکتے ہیں اور اللہ تعالی فرماتا ہے کہ اس کے امن کی جگہ پر اسے حفاظت سے پہنچا دو یہ مسلمانوں کو حکم ہے کہ سے مشورہ کیا عیسائی کافر ہیں جو کہ مسلمانوں کے خلاف نہیں ہیں جو جنگ نہیں کرتے ہیں جو مسلمانوں پر زیادتی نہیں کرتے ہیں جو حربی کافر نہیں یار بھی مشرک نہیں ہے ان کے ساتھ حسن سلوک کرنا ہے کیوں کہ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ اگر کوئی تمہارے پاس آ گئے بات چیت کرنا چاہتا ہے سننا چاہتا ہے اس کو پناہ دو اس کے اوپر زیادتی نہیں کرنی ہے بلکہ اللہ کا کلام ہے اس کو سنا دو پھر اس کو حفاظت کے ساتھ اس کے گھر تک پہنچا دوں یعنی ہمارے قبضے میں آ گیا ہے جو گردن مار دو اس کی ایسا کوئی تو یہ غلط بات ہے کہ اسلام زیادتی کا حکم ہرگز نہیں دیتا پھر اسی طرح سے ہے اللہ تعالی عدل و انصاف کی تعلیم دیتا ہے بڑا وسیع مضمون ہے ان اللہ یامر بالعدل والاحسان وایتاء ذی القربیٰ اللہ تعالی جو ہے عدل کا اور احسان کا حکم دیتا ہے نہ ہونے کی وجہ سے لڑائی ہوتی ہے اور اسی کی وجہ سے فتنہ پیدا ہوتا ہے بدامنی پیدا ہوتی ہے تو آج کل ہمارے پیارے امام خلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ ہر جگہ پر جو امن کی راہ دکھا رہے ہیں وہ بنیادی طور پر آپ کسی بات کو بیان کر رہے ہیں کہ اگر امن قائم کرنا ہے تو پھر عدل اور احسان کو قائم کرو اور عدل اور احسان کیا تھا کہ اپنے رشتے داروں سے حسن سلوک کرتے ہوئے دوسروں سے شعر شروع کرو پھر اللہ تعالی فرماتا ہے برائے کرم نوا اللہ تعالی لو اے دل وہاں آکر آباد ہوا المائدہ سورۃ آیت نازل فرماتا ہے کہ کسی قوم کی دشمنی تمہیں اس بات پر آمادہ نہ کرے کہ تم ان پر زیادتی کرو بلکہ تم عدل سے کام لو کیوں اس واسطے کہ دل کا اختیار کرنا یہ تقوی کے زیادہ قریب ہے تو اللہ تعالی نے حکم دیا ہے کہ دشمن کا دشمن کی قوم ہو تب بھی اس کے ساتھ حسن سلوک کرنا اسلام اس کا حکم دیتا ہے کہ زیادتی کرنے کا کر دیکھئے ایک اور آیت قرآن مجید میں اس بات کی وضاحت کرتی ہے کہ ہر مشرک کو قتل کرنے کا حکم نہیں ہے بلکہ وہ جو کہ ہم سے لڑائی کرتا ہے اس کے ساتھ ہم بھی لڑائی کریں گے اللہ تعالیٰ فرماتا ہے یا سورۃ الملک سورۃ ممتحنہ کی آیت نمبر 9 اللہ تعالی فرماتا ہے لا ینہاکم اللہ عن الذین لم یقاتلوکم فی الدین کے بارے میں مذہب کے بارے میں جو لوگ تم سے لڑائی نہیں کرتے ہیں ان سے اللہ تعالی حسن سلوک کرنے سے تم کو نہیں روکتا ہے اور رحمتوں سے تو ایسا لگا کہ وہ تم ان سے جو ہے وہ حسن سلوک کرو اور ان کے ساتھ اچھا سلوک کرو تو اللہ تعالی فرماتا ہے اللہ زین علمی وقعت سے لوگوں پر دین مذہب کے بارے میں کوئی تم سے لڑائی نہیں کرتے ہیں ان سے اللہ تعالی نہیں روکتا ہے بلندیوں کو مانتے ہیں اپنے گھروں سے انہوں نے تم کو نہیں نکلا ہم سے تو ادھر ہی ہوں ان کے ساتھ نیک سلوک کرو اور ان کے ساتھ عدل و انصاف کا شروع کرواسلام میں بت پرستی بنا ہے لیکن مسلمانوں کو حکم ہے کہ تم ان لوگوں کو جن کی وہ لوگ پوجا کرتے ہیں ان کو گالی مت دو برا بھلا مت کہو کیونکہ اس واسطے کے بغیر وہ اللہ تعالی کو گالیاں دینا شروع کر دیں گے یہ تو ایسی بات ہے جیسے کہ اسلام نے فرمایا کہ لوگو تم اپنے ماں باپ کو گالی نہ دو ایک شخص نے عرض کیا یا رسول اللہ کوئی شخص اپنے ماں باپ کو خود بھی کر لیتا ہے تو دور فرمائے ہاں کیوں نہیں جب تم کسی کے بعد کوئی ماں کو گالی دوں گی تو وہ تمہارے ماں باپ کو گالی دے گا ویسے تم مجھے بھول جاؤ گے کہ تم اپنے ماں باپ کو گالی دینے والے بن گئے اس لحاظ سے تو اللہ تعالی فرماتا ہے کہ تو کبھی گالی نہیں دینی ہے اور تمام مخلوقات کو ہندو مسلمان سکھ عیسائی ہے کوئی بھی ہے وہ سب کے سب اللہ تعالی کا کنبہ ہے اور اللہ تعالی کے کندھے کے ساتھ جو حسن سلوک کرتا ہے پیارا ہے تو اتنی عمدہ تعلیمات ہیں جو آپس میں بھائی چارے کی کاشت کی امن کی تعلیمات اسلام دیتا ہے یہ کیسے ہوسکتا ہے کہ وہ کیا ہے کہ مشرکوں کے مر چلے جاؤ تو پھر مسلمان آئیں گے کہ اسے اسی طرح آخر میں ایک اور بات بیان کر کے میں اپنے اس بیان کو ختم کروں گا کہ اللہ حضرت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا مسلمان وہ ہے جس کے ہاتھ سے تمام امن پسند شہری کے ہاتھ سے بھی اس سے محفوظ رہے تو یہ تعلیم دی ہے ہمدردی اور معاہدات اور آپس میں بھائی چارے کے چائے بھی صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک اور حدیث میں کسی کے ساتھ رہتا ہے احمد بن حنبل میپ روایت ہے کہ مومن وہ ہے جس کے ساتھ دوسرے تمام لوگ ہر طرح سے محفوظ رہیں دوبارہ امن کی تعلیمات بہت وسیع ہے اور وقت کے محدود ہونے کے اعتبار سے مختصر طور پر چند باتیں بیان کی ہیں تو بھائی یہ بات یہی ہے کہ ہے کسی بھی بات کو سمجھنا ہے آگے پیچھے کے بعد دیکھیں پھر یہ کہ دوسری جگہوں پر بھی دیکھیں گے اس کے بارے میں اسلام یا قرآن مجید کی کیا تعلیمات ہیں اور یہی چیز ہر جگہ تحقیق کا طریق ہے چاہے وہ جماعت احمدیہ کے خلاف پیدا ہونے والے سوالات ہیں یا مسیح موعود علیہ السلام کی تحریرات پر اعتراض ہے تو سیاق و سباق دیکھیں کہ کن سیاسی اس میں وہ بات ہورہی ہے اور اس کے پھر آپ آگے پیچھے دیکھیں گے وہ مسئلہ حل ہو جاتا ہے تو اللہ کرے ہمارے بھائیوں کو یہ تحقیق کا حقیقی رنگ میں جو حق ہے وہ ادا کرنے کی توفیق ملے اور حقیقت یہی ہے کہ اسلام بدامنی کی تعلیم ہرگز نہیں دیتا جنگ و جدال کی تعلیم ہرگز نہیں دیتا ان لوگوں کے ساتھ مقابلہ کرنے کی اجازت ضرور دیتا ہے جیسا کہ ان شاء اللہ آگے بھی بیان آئے گا وہ لوگ جواسلام کو مٹانا چاہتے ہیں مسلمانوں کو تباہ کرنا چاہتے ہیں اور ان کے ساتھ لڑائی کی اجازت دی ہے اور ہر شریف آدمی یہ سمجھے گا کہ جس کے اوپر کوئی حملہ ہوا ہے اور اس کا حق ہے کہ وہ اپنا ڈیفنس کرے چاہے وہ کسی بھی ملک کا باشندہ ہوں ہر ملک کی حکومت کی کہتی ہے کہ جب کوئی ملک اس کے اوپر حملہ کریگا زوہا ڈیفنس کریں گے اس کے حملے کا جواب دے گی تو یہی چیز قرآن مجید نے بیان کی ہے کہ ان لوگوں پر ایک خلاف جنگ کرنے کا حکم دیا گیا جو اسلام کو بٹھانے کے لیے اور مسلمانوں کو قتل کرنے کے درپے تھے ورنہ عمومی طور پر تمام انسانیت کی بھلائی کی تعلیم قرآن مجید میں پائی جاتی ہے اور اپنے سوالات کے جوابات حاصل کرنا چاہتے ہیں سے بات کرنے کی کوشش کرتے ہیں عبدالحکیم صاحب کو کال کر رہے ہیں ان سے بات کرتے ہیں صاحب صاحبعاجزانہ درخواست یہ ہے کہ سیدنا حضرت امام مہدی مسیح موعود علیہ السلام نے جو عظیم الشان علمی روحانی اور مالی مشاہدات یہ نہیں چاہیے داد غزوہ ہند کہلاتے ہیں یہ ہے کہ اس حدیث میں مفتی محمد بن عبداللہ کی تقریریں بڑی مہربانی پروگرام کا حصہ ہے انشاءاللہ تیسرے نمبر پر استعمال کیا جائے گی آپ کے ساتھ پروگرام دیکھتے رہیئے انشاللہ آپ کے سوال کا تفصیلی جواب اسی پروگرام کے دوران آپ کی خدمت میں پیش کیا جائے گا اس کا ایک اور ٹیلی فون کب سے بات کرتے ہیں مگر معارف زمان صاحب بنگلہ دیش سے کال کریں ان سے بات کرتے ہیں یہاں کے بارے میں کیا تعلیم ہے ہے نمبر دو دیہات میں کس کے لیے حصہ لینا فرض ہے کام کیا ہے آپ نے پیش کیا جاتا ہے اللہ سب سے درخواست کروں گا ٹھیک ٹھاک کے ساتھ جو آپ کا یہ سوال کرے کہ صاحب آپ نے ایک ساتھ تین سوال پیش کئے ہیں اور وقت اس کی اجازت نہیں دیتا پھر بھی کوشش کروں گا کہ آپ کے سوالات کے جواب دو دو سب سے پہلے تو یہ جاننا ضروری ہے کہ جہاد کا لفظ اسلامی اصطلاح میں ایک وسیع معنی رکھتا ہے اور اس سے صرف یہ سمجھ لینا کہ جنگ و جدال ہی مراد ہیں یہ درست ہے بلکہ اس کے معنی اعلی مقصد کے لیے مسلسل محنت کرنا کوشش کرنا قربانیاں کرنا قرآن مجید اور احادیث رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے اسوہ حسنہ کی روشنی میں صلح امن قائم کرنا اصلاح نفس کرنا اور آئندہ آنے والی نسلوں کے لیے حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے اصولوں کو اپنانا اور اس کے لئے انتھک کوشش کرنا اور سب سے آخر میں دفاعی جنگ کی اجازت بھی جہاد کے اندر بھی شامل ہے پس یہ سارا کا سارا مضمون جہاد کے اندر آتا ہے لیکن بد قسمتی یہ ہے کہ آج کل کے ہمارے جو مسلمان بھائی ہیں وہ صرف جہاد سے یہ سمجھتے ہیں کہ یہ صرف جماعت والے تلوار کا ہی جہاد ہے اور اسی لیے یہ سوال اٹھتا ہے کہ قرآن مجید نے بڑے واضح الفاظ میں بتا دیا ہے کہ جہاد کی اقسام کے ہوتے ہیں مسنجر سے انہوں نے نفس سے جہاد کے حوالے سے پوچھا ہے تو آپ قرآن مجید کی سورہ البقرہ کی آیت نمبر 70 دیکھیں وہاں پر اللہ تعالی نے صاف الفاظ میں بیان فرمایا ہے کہ جہاد بالنفس کیا ہے اور اس کے فوائد کیا ہیں اللہ تعالی نے بیان فرمایا والذین جاھدو فینا لنھدینھم سبلنا وان اللہ لمع المحسنین اور جو لوگ ہمارے بارے میں کوشش کرتے ہیں ہم ضرور انہیں اور یقینا ایسا کرنے والوں کے ساتھ ہیں خدا تعالی کے حصول کے لیے جو نفس کی پاکیزگی اختیار کرتے ہیں جو نفس کو صاف کرتے ہیں اس کے اندر میل کچیل کو دور کرتے ہیں ان سے بچتے ہیں یہ ایک عظیم الشان جہاد ہے اس کا ایک واقعہ پیش کرنا چاہوں گا خود آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم جو قرآن مجید کا سب سے زیادہ عرفان رکھتے تھے قرآن مجید کی آیات کو سب سے بہتر سمجھتے تھے آپ نے ایک جنگ کے موقع پر جس سے آپ خود شامل تھے  صحابہ رضوان اللہ علیہم شامل تھے جو کہ جہاد کے لیے شہید ہونے کے لیے اپنے دلوں میں ولولے اور جوش کرتے تھے اس جنگ سے لوٹتے ہوئے آپ نے یہ بیان فرمائی کہ رجعنا من الجہاد الاصغر للجہاد الاکبر کہ ہم ایک چھوٹے جہاز سے یعنی یہ توصیف کا تلوار کا جہاز تھا اب ہم لوٹ رہے ہیں ایک بڑے جہاد کی طرف یعنی نفس کے جہاد کو اپنے عظیم الشان بڑا جہاد کر دیا اور حقیقت یہی ہے کہ نفس کو مارنا یا اس کو کنٹرول کرنا بہت مشکل ہے اور ہر ایک انسان کے بس کی بات نہیں جب تک کہ خدا تعالیٰ کا خاص فضل ہو جائے بس قرآن مجید نے جو نفس سے جہاد کی تعلیم دی ہے یہ ایک انتہائی اہم تعلیم ہے دوسری بات نہیں یہ بیان کی کہ شہید کا کیا مقام ہے قرآن مجید کی سورہ البقرہ آیت نمبر 155 میں اللہ تعالی نے بیان فرمائی ولا تقولوا لمن یقتلچھوٹی سی زندگی ہے وہ انعامات ہیں جو خدا تعالی کے پاس اس کو ملیں گے سورہ البقرہ میں اس لئے ان کو یہ کہا گیا پھر اعلان 170 171 میں اللہ تعالی نے بیان فرما دیا کہ بل احیاء عند ربہم یرزقون کہ وہ زندہ ہیں اللہ تعالی کے پاس سے ان کو رزق دیا جائے گا یہ وہ عظیم الشان عطااللہ کے پاس آنا ہے پھر اس کو دوسرے رنگوں سے آپ سمجھے کہ اسلام میں اللہ تعالی نے قرآن مجید کے اندر یہ بتایا کہ روحانیت کے چار نام ہیں اس کے اندر سے دوچار شہید اور سالے جو ایک شہید کا مقام ہے اور مرتبہ ہے جو ان کا سوال ہے کہ ان کا کیا مقام ہے وہ روحانیت کے چار مراتب ہیں اس مراتب میں سے اس مرتبہ ملتا ہے حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے اپنی تفسیر میں کئی مقامات پر یہ بیان فرمائی شہید در اصل خدا تعالی کی روایت کو دیکھتا ہے اس کو دیکھنے کو اللہ تعالیٰ کو اپنی آنکھوں سے دیکھ لیتا ہے اس کی پہنچ جاتا ہے پس یہ ان کا دودھ رسول کا تیسرا یہ کہ قرآن مجید کی رو سے اسلام کی رو سے جہاد کن پر فرض ہے اللہ تعالی نے قرآن مجید میں اس بارے میں بیان فرما دیا ہے کہ اللہ ہمیں راستے میں جہاد کرنے کا حکم ہے سورہ حج آیت نمبر 79 میں اللہ تعالی نے فرمایا اللہ کا جہاد ہی ہو اجتباکم وما جعل علیکم فی الدین من حرج اور اللہ کے تعلق میں جہاد کرو کا حق ہے ایک مسلمان پر جو زمانے کی ضرورت کے مطابق جہاد واجب ہوگا جس رنگ میں بھی اعتراضات اسلام پر ہوں گے ان سے جواب دیا جائے گا وہ جہاد واجب ہے اور اس کو کرنا چاہیے اس زمانے میں امام زمان سیدنا حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے ذریعہ جنگ کے جہاد کو ختم کر دیا گیا کیونکہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی حدیث مبارکہ تھے نیز ہر وہ امام مہدی ظاہر ہو گا تو جنگ کو ختم کر دے گا اب نفس کی پاکیزگی کا جہاد باقی ہے اب اسلام کی اشاعت کا جہاد باقی ہے اب قرآن مجید کی تعلیمات کو ساری دنیا میں پھیلانے کا جہاد باقی ہے بلکہ ان سے بھی بات کرنے کی کوشش کرتے ہیں مکرمہ مصنف صاحبہ یوپی سے کال کر رہے ہیں ان سے بات کرتے ہیں مسلمان ہوئے تھے اور جہاد میں بھی شامل ہوتے تھے ان کی طبیعت کا کیا انتظام کیا گیا تھا جن کے زمانے میں جو لوگ مسلمان نئے نئے مسلمان ہوتے تھے ان کی تربیت کا ایک تو یہ تھا کہ قرآن مجید کی سب سے بڑی ہدایت کا ذریعہ ہے اور امجد کو پڑھتے تھے اس کے علاوہ اس زمانے میں بہت سارے محدثین ایسے تھے جنہوں نے صحابہ سے روایتی سنی ہوئی تھی حضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی حیات کا بھی ذکر کیا کرتے تھے خاص طور پر حضرت امام مالک رحمہ اللہ کے بارے میں ذکر آتا ہے کہ یہ باقاعدہ درس دیا کرتے تھے اس کے بعد اور محدثین ہوئے ہیں دوبارہ سب سے بڑا ذریعہ قرآن مجید کی تعلیم قرآن مجید میں پڑھتے اور اس کے ساتھ ساتھ وسلم کی جو جو باتیں تھیں وہ صحابہ سے صحابہ کا دور تھا تو صحابہ سے دریافت بھی کیا کرتے تھے اور پھر سب سے بڑی بات یہ کہ خلافت کا جو مقام تھا وہ ان کی تربیت کے بہت کے لیے بہت اہم تھا کیونکہ خلفاء کی نظر تمام جہاز سے مسلمانوں کی اصلاح کی طرف رہتی تھی اور اس لحاظ سے ان کے تھے وہاں پر ان کی اصلاح کی بھی کوشش کرتے تھے تو ایسے وقت میں جب وہ مسلمان ہوئے ہیں تو قرآن کی تعلیم سے آراستہ ہوتے تھے پھر اندر وسلم کی احادیث کے بارے میں بھی پھرکے اللہ کافر قوم کے خلاف ہماری نصرت فرما تو اس آیت کی تفسیر ہے اس کے بارے میں بھی بات غلط فہمیاں پیدا کی جاتی ہے تو اس کی کیا وجہ ہے ہے خدا تعالیٰ کا ازلی ابدی کلام ہے جو تمام بنی نوع انسان کی ہدایت اور بھلائی کے لئے 23 سال کے عرصہ میں خاتم النبیین حضرت محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وسلم پر نازل ہوا قرآن کریم پر اعتراضات کا سلسلہ اس کے نزول کے وقت سے شروع ہو چکا تھا جو اسلام دشمنی میں پیش پیش تھے اس طرح کے الزامات عائد کیے کبھی سے بڑھی ہوئی کہانی اساطیر کہا کبھی اسے شعر کہا کبھی کہا نہیں کیا جادو گا پھر آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم جب مکہ سے مدینہ کی طرف ہجرت فرما گئے تو یہود کی جانب سے بھی قرآن مجید پر گرمالہ آزاد کیے گئے اور اسلام دشمنی کا نام دیا گیا اور وہ اعتراضات کا سلسلہ جو قرآن مجید کے نزول کے وقت سے جاری ہوا تھا وہ آج کے زمانے تک یہ سلسلہ جاری ہے مسلسل اس کی مختلف آیات پر مختلف صورتوں پر اس کے رب پر اس کے الفاظ پر اعتراضات کیے جاتے ہیں لیکن قرآن مجید چونکہ خدا  خدا تعالیٰ کا کلام ہے اور ازلی ابدی کلام ہے اسی لئے قرآن مجید خود ان کے جوابات دیتا ہے اس کے جوابات کے لیے ہمیں کوئی باہر تلاش نہیں کرنا پڑتا بلکہ قرآن مجید کے اندر ہیں ان کے جوابات مل جاتے ہیں آپ نے ابھی جو یہ سوال پیش کیا اس میں عموما یہ اعتراض کیا جاتا ہے کہ قرآن مجید نے اسلام کے علاوہ دیگر مذاہب کے ماننے والوں کے لئے کافر کا لفظ استعمال کیا ہے اور اس میں بغض نفرت اور حقارت پائی جاتی ہے اور اس کو پڑھ کر مسلمان دیگر لوگوں سے دور ہو جاتے ہیں اور ان کے ساتھ ان کے مطابق ایک جذبہ پیدا ہوتا ہے مولانا صاحب نے بیان کیا کہ قرآن مجید کی آیات کے مفہوم کو سمجھنے کے لیے اس کے سیاق و سباق کو جاننا بہت ضروری ہے بیچ سے ایک جملہ کو لے لینا اور جملہ معترضہ کی طرح اس کو پیش کر دینا کہ دیکھیں گے یہ جملہ کہا گیا ہے اس کی اس آیت پر بھی اعتراض ہے ہے وہ دراصل یہی ہے کہ اس ایک جملے کو لے لیا ہے کہ اس سے پہلے سیاق و سباق دیکھا جاتا تو بات واضح ہوجاتی ہے کہ یہ کس سلسلے میں بات چل رہی ہے اگر یہ مان لیا جائے جو کہ معترضین پیش کرتے ہیں کہ کافروں کو قتل کرنے کے لئے ان کے خلاف دعا مانگی ہے تو قرآن مجید آسمانوں کی تردید کرتا ہے بہت سی آیات ہیں وقت کے لحاظ سے صرف ایک پیش کروں گا سورہ الکافرون ہیں جو ہم میں سے اکثر ناظرین کو یاد ہوگی یہ سورت مکی ہے یعنی نے بیان فرمایا لیا کرو تو کہتے ہیں پھر آخر میں اللہ تعالی ان کو سارا دن ہمارے لئے ہمارا دے اگر یہ معنی تھے جیسے کہ معترضین کہتے ہیں کہ کفار کو قتل کر دو ان کو دعائیں مانگیں گے تو پھر چاہیے تھا کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا مقام ہے یہ آیت کے مطابق جیسے مترجم کہتے ہیں ان کے قتل کی کوشش کرتے ہیں ہے نہ کہ قتل کے ذریعہ سے پس اس کے آنسو نہ رکا اس سے یہ مطلب کے کافروں کے قتل کی تعلیم دی گئی ہے یہ درست نہیں ہے قرآن مجید کی دیگر کئی آیات بھی اس مفہوم کو یہ جو مطلب مہترزئی لیتے ہیں مثلا سورہ البقرہ آیت نمبر 257 میں اللہ تعالی نے بیان فرمایا لا اکراہ فی الدین کے معنی میں کوئی بھی جبر کی تعلیم نہیں ہے سورۃ الکہف آیت نمبر 30 کی طرف سے آ گیا ظاہر ہوگیا ایمان لائیں گے جو اعتراضات کی طرف سے ہوتے ہیں وہ درست نہیں ہے دراصل ہمیں یہ سمجھنا چاہیے کہ قرآن مجید کی یہ آیت کے اس تسلسل میں ہیں قرآن مجید میں یہقرآن میں بھی یہ جو آئے تھے اس کی 148 کو یہ ہے کہ جب نبی کے ساتھ شامل ہوکر دشمنوں کے مقابلے نکلے تو انہوں نے کہا کہ وہ گانا نکالو نکالو ربنا اغفر لنا ذنوبنا واسرافنا فی امرنا وثبت اقدامنا ان دونوں آیات میں قرآن مجید کے دو لفظ بڑے غور طلب ہے ایک لفظ ہے سب کا لفظ ہے کفر اور دونوں ہی آیتوں کے سلسلہ میں پہلے بیان کیا گیا ہے کہ صبر اور پھر یہ کہا کہ میں نے یہ بیان کیا گیا کہ نفس کو اپنے سختی کے ساتھ کسی بات پر قائم کرلینا شریعت کے اوپر مکمل طور پر پابندی اختیار کرلینے جو پریشانیاں گرائے کسی کوئی مصیبت آئے اس کے ساتھ قبول کرلینا ان تمام انسانوں کو اگر ہم سامنے رکھیں کہ ایک ایک شخص جو مسلمان ہونے کا دعوے دار ہے وہ صبر کرتا ہے اسلام کی شریعت پر مکمل طور پر عمل کرتا ہے اللہ تعالی کے احکامات پر عمل کرتا ہے تو وہ ممکن ہی نہیں کہ وہ ایسے لوگوں کے لئے جو کفر کرتے ہیں ان کے لیے بات کرے بلکہ کافر کے لفظی معنی یہ ہیں کہ شیطان کا انکار کردے کفر کر دے اس کا وہ خدا کے حکم پر مجبور ہو جاتا ہے بس یہ کہنا کہ کافر سے مراد یہ ہے کہ وہ لوگ جواسلام کو نہیں مانتے ان کو قتل کردیا جائے ان کو مار دیا جو ان کے لیے بات کہے گی یہ نہیں بلکہ دراصل یہی معنی ہیں کہ وہ لوگ جو اسلام کی حقانیت کی مخالفت کرتے ہیں اسلام کو برباد کرنے کے لئے تدبیر کرتے ہیں اسلام کو ہر طرح سے زک پہنچانے کی کوشش کرتے ہیں ان کے لیے تعالیٰ کے حضور دعا کی گئی ہے رحمۃ اللہ علیہ  نے اس آیت کی تفسیر بہت ہی اچھے لگے بیان فرمائی ہے آپ اپنی کتاب جو آپ کے دل کے حوالے سے ہے جو قرآن مجید کی انوار القرآن کے نام سے شائع شدہ اس کے صفحات میں اس آیت کے حوالے سے بیان فرماتے ہیں حضرت موسی علیہ فرماتے ہیں اللہ تعالی نے ہمیں اس دعا میں یہ سکھایا ہے کہ یہ دعا کیا کرو کہ اے خدا ہمیں کمال صبر عطا کر اور ہمیں سے بات کر دم بخش پاؤں میں بھی لفظ نہ آئے اور وہ جو تیرے اور تیرے محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے منکر اور مخالف اور تیری توحید کے خلاف محمد رسول اللہ صلی وسلم کی عظمت کے خلاف منصوبہ مانگنے والے یہ ہے اصل بنیادی بات یعنی تیری توحید کے خلاف اور محمد رسول اللہ صلی وسلم کی عظمت کے خلاف منصوبے ماننے والے اور سازش کرنے والے ہیں ان کے مقابلے میں خود ہماری مدد کو آ تاکہ تیری توحید کا ایم کو محمد صلی وسلم کی محبت اور عظمت کو انسان کا دل کو تسلیم کرنے لگے اور آپ کی برکات اور فیوض حصہ لے پس یہ قرآن مجید کی آیت کی بہترین تفسیر ہے جسے دو سال سے بیان کی قسم و تحسین کا یہ کہنا کہ کفار کے لیے یہ الفاظ استعمال کیے ہیں ان کو قتل کرے یہ حق پر مبنی نہیں معلوم نہیں ہوتی ہے لیکن ان سے رابطہ نہیں ہو رہا ہے چل ان سے رابطہ کرکے پھر ان کے سوال ملیں گے تب تک ہم اس پروگرام کا ہی ایک اور سوال مولانا محمد کریم صاحب سے پوچھیں گے یہ سوال کے تعلق سے پہلے بھی کالر نے بھی ہم سے پوچھا تھا غزل سے کیا مراد ہے اور میں دیکھ رہا ہوں کہ اسکرین پر ایک اور ہمارے دوست ہیں جو الرحمن صاحب جرمنی سے کال کر رہے ہیں انہوں نے بھی اسی تعلق سے سوال پوچھا ہے کہ وزن سے کیا مراد ہے اس کے تعلق سےرضی اللہ تعالی عنہ کی روایت ہے جو کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے غلام تھے اور یہ حدیث سنن نسائی میں بھی ہے مسند احمد بن حنبل میں بھی ہے اور المعجم الاوسط للطبرانی الفاظ قریب انصاف کے نہیں ہیں چنانچہ جو بیان کیا گیا ہے وہ حدیث میں پڑھتا ہوں اخبرنا محمد بن عبد اللہ بن عبد الرحیم د معروف محدث نہ باقی ہے تو یہاں تک ابوہریرہ کا کوئی نام نہیں ہے اس روایت میں انا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے غلام تھے ان سے یہ روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے اندر صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا جانے من امتی ہوں بنا لے کے دو گروہ میری امت میں سے ایسے ہیں جن پر اللہ تعالی نے آپ کو حرام قرار دیا ہے یا پاکستان کو محفوظ کر دیا ہے وہ کون کون سے ہیں حساب تو لہجہ ہے جو ہند میں ہے وہ ہے جو کہ عیسیٰ ابن مریم علیہ السلام کے ساتھ ہوگا اور یہی آخری بند ہے یہی الفاظ ملتے جلتے ہیں یہاں پر میرے بھائی بات یہ ہے کہ دو گروہوں کا جو ذکر کیا گیا یا مختلف لوگ اپنے اپنے ذوق کے مطابق یہ استدلال کرنے کی کوشش کرتے ہیں تو ہم یہ سمجھتے ہیں اور حضرت سلیمان علیہ السلام نے جن باتوں کو بیان کیا ہے ان کی روشنی میں اور حضرت خلیفۃ المسیح الثانی رضی اللہ تعالی عنہ نے جو تفسیر بیان کی ہے اس کی روشنی میں چند باتیں میں آپ کے سامنے رکھنا چاہتا ہوں کہ یہاں پر جو ذکر آیا کہ اب تو لہجہ ہند سے جنگ کرنے کا یہاں ذکر آتا ہے مخلوق میں سے کسی نے کہا کہ یہ محمد بن قاسم ہیں جنہوں نے اس پر حملہ کیا تھا بعض لوگ کسی اور کے بارے میں ایسا کیا کیا ہے دراصل بات یہ ہے کہ یہ باتیں جب وقت پھیلتی ہے تو بھی اس کی حقیقت معلوم ہوتی ہے کہ کوئی ہمیں بہت سارے روموز ہوتے ہیں بہت سارے ایسی باتیں ہوتی ہیں جو مختلف ہوتی ہیں اور کنایہ کے رنگ میں ہوتی ہیں اس شعر میں ہوتی ہیں ہیں لیکن جب وقت پر وہ ظاہر ہوتی ہیں تو حقیقت ان پر بولی جاتی ہے چنانچہ اس تعلق سے جب ہم تاریخ کا مطالعہ کرتے ہیں تو ہمیں معلوم ہوتا ہے غزوہ ہند میں جو سب سے زیادہ اہم کردار ادا کیا ہے وہ حضرت سید احمد بریلوی رحمۃ اللہ علیہ کا ہے وہ اپنے وقت کے مجدد تھے تیرہویں صدی کے اور جیسا کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے بھی ذکر کیا اور ہمارا بھی یہی تعریف ہے اور علماء نے بھی ان کو دینے وقت میں شمار کیا ہے تو ان کے زمانے میں جو انیسویں صدی کا زمانہ تھا ان کا زمانہ قرار دے سکتے ہیں تو اس دور میں ہندوستان کے اندر خصوصاً پنجاب میں اس وقت جو موجودہ حکومت تھی ان کی طرف سے مسلمانوں پر بڑے ظلم ڈھائے گئے گئے ان کی مرضی کرائی گئی ہیں ان کو اذان نہیں دی جانے کی اجازت نہیں ہوتی تھی ذرا بلند آواز سے کسی نے اذان دی تو ان کو یا تو قتل کر دیا جاتا تھا یا قید کر دیا جاتا تھا یا اسی طرح سے ان کے عورتوں کی عزت محفوظ نہیں تھی اور بہت سارے فسادات تو اس زمانے میں پیدا ہوگئے تھے کہ جس کی وجہ سے مسلمانوں کا جینا حرام ہو گیا تھا چنانچہ اس دور کے تعلق سے میں بعض تاریخی حقائق بھی پیش کرنا چاہتا ہوں کہآشیانہ بربریت جہادیوں کے مرتکب ہو سکتی تھی اور انتقام کی بھڑکتی ہوئی آگ سردیوں کی جانب رہنمائی کرسکتی تھی وہ صوبہ پنجاب کے تمام باشندوں پر پوری شدت سے نازل ہوئیں جہاں ان یونیورسٹیوں کے قدم پہنچے صرف ان لوگوں کو زندہ چھوڑا گیا جنہوں نے ان کی ہاں میں ہاں ملائی اور ان کی وضاحت تیار کرلیں یہ جان ملک میں جو ہے یہ ان کا حوالہ ہے اور اسی طرح سیرت سید احمد شہید کی کتاب سے لیا گیا ہے دوبارہ اس زمانے میں بعض لوگوں نے پوچھا کہ جب یہ ظلم اور بربریت ہو رہا تھا تو اس وقت پھر انہوں نے مسلمانوں کو توجہ دلائی کہ بھائی اتنا بڑا ظلم ہو رہا ہے اور قرآن مجید نے اجازت دی ہے کہ جب وہ دین کے بارے میں خبر کیا جا رہا ہوں مسلمانوں پر ظلم و زیادتی کی جارہی ہے تو ان سے جو ہے وہ دعا کریں کرنا ضروری ہے لہذا انہوں نے مسلمانوں کی جماعت کو اکٹھا کیا اور صوبہ سرحد کے اپنا جہاد کرنا شروع کیا تھا اس لڑائی کی اور اس کو حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام نے بھی یہ ذکر کیا ہے کہ کہ غالب پڑھ کر دیتا ہوں ہو دھوم کا حوالہ ہے حضور فرماتے ہیں کہ ان لوگوں کی نیت نیک تھی جن لوگوں نے جہاد کیا ہے اسے شورش پسندوں کے ساتھ فرماتے ہیں ان لوگوں کی نیت نیک تھی وہ چاہتے تھے کہ ملک ملک میں نماز اور اذان اور قربانی کی جوڑی کا وٹس شرپسندوں نے کر رکھی تھی دور ہو جائے خدا نے ان کی دعا کو قبول کیا اور مقبولیت کو ان کے خفیہ اور انگریزوں کو اس ملک میں لانے سے کیا یہ ان کی نادانی تھی کہ انہوں نے انگریزوں کے ساتھ لڑائی نہیں کی بلکہ ان کے ساتھ جہاد کیا جائے مگر کیونکہ وہ زمانہ قریب تھا کہ مہدی موعود کے آنے سے جہاد بالکل بند ہو جائے اس میں ان کو کامیابی نہ ہوئی میں شہید ہو گئے تھے ہاں کے متعلق  ہوگی کہ اس ملک میں انگریز آگئے انہوں نے آکر یہاں پر امن قائم کیا اور سید احمد بریلوی صاحب سے بھی یہ سوال کیا گیا تھا لوگوں نے کیا آپ اتنی دور جاکر بری تو ہے یوپی میں اور یہاں سے کہیں پنجاب اور سرحد کے صوبے میں لڑائی کرنے کے لئے تو لوگوں نے پوچھا اتنی دور جا کے آج وہ یاد کر رہے ہیں لڑائی کر رہے ہیں جو کہ آپ کیوں اپنی لڑائی کرتے تو نے جواب دیا کہ بھائی انگریز تو ایسی ہے کہ ہمیں یہ بات آپ سے نہیں ہوتی ہے ہزاروں سے نہیں روکتی ہے مسجد بنانے سے نہیں روکتی ہے ملک میں جو ہے بدامنی نہیں کرتی ہے بلکہ مذہبی آزادی دی ہوئی ہے ان کے خلاف تو جہاز میں اور بھی نہیں یہی بات حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام ہے ابھی بیان کی ہے تو بات یہ ہے کہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کے زمانے میں چونکہ حضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی پیروی تھی وہ جنگ کو موقوف کر دیں گے حضرت مسیح موعود علیہ السلام تھے یہ بھی ایک عجیب بات ہے دیکھیے یہ اسلام کے آنے سے پہلے جو پہلے ہی تھے السلام کے وصال کے بعد حضرت عیسی علیہ السلام کے لیے پیش ہوئی موجود تھی بائبل میں کے وقت آئے گا جب کہ ایلیا آسمان سے نازل ہوگا ان کے اندر بھی غلط تھا کہ ایلیا آسمان پر بحث میں پڑ گیا ہے وہ آئے گا اور اس کے بعد جو ہے مسیح کا نزول مسیح آئے گاکا ذکر کیا گیا جو عیسٰی بن مریم کے ساتھ ہوگا یعنی مسیح موعود کے ساتھ ہوگا تو وہ اللہ تعالی کے فضل سے جماعت احمدیہ آئے جو اس زمانے میں وہ جہاد کر رہی ہے کہ جو اسلام کو پھیلانے کے لئے اللہ تعالی کا فضل ہے کہ قادیان کا نام سے ایک اکیلی آواز اٹھی اور وہ اس آواز کو روکنا چاہا لوگوں نے لیکن وہ آواز میں صرف پنجاب میں پھیلی ہندوستان میں پہلی بلکہ دنیا کے تمام ممالک میں پہلی آپ کی زندگی میں ہی کی وجہ سے میں بھی آپ کا یہ جو ہے وہ ایک اکیلا شخص جو قادیانیوں سے اٹھا اس نے یہ کہا تھا کہ اللہ تعالی نے مجھے خبر دی ہے کہ بہتری تبلیغ کو زمین کے کناروں تک پہنچ جاؤں گا تو آج دنیا کے دو سو بیس ممالک میں اللہ تعالی کے فضل سے مضبوط مشن اللہ کے فضل سے قائم ہیں اور برے لوگ جماعت احمدیہ کی رواداری کی تعلیم ہے جو امن بخش تعلیم ہے بلکہ جماعت احمدیہ کی نہیں بلکہ قرآن مجید کی اور اسلام کی جو شخص علم ہے اس سے چلے آرہے ہیں یہ سب سے بڑا جہاد ہے اس کے بارے میں بشارت دی ہے کہ یہ وہ لوگ ہیں جن کو اللہ تعالی کی تائید و نصرت حاصل ہے اور یقینا جس کو اللہ تعالی کی تائید حاصل ہو اور اللہ تعالی کی رضا کے راہ پر چلنے والا ہے وہ یہی طور پر اللہ تعالی کی بخشش کا حقدار ہوتا ہے اور اللہ تعالی اس کے ہاتھ سے ضرور محفوظ رکھے گا جس میں میں مزید حضرت خلیفۃ المسیح الثانی رضی اللہ تعالی عنہ جیسا کہ میں نے ذکر کیا تھا اس میں ایک دفعہ والے آپ کے سامنے رکھنا چاہتا ہوں ہو ہو حضرت مسیح موعودعلیہ الصلوٰۃ والسلام کا حوالہ دے پنجم صفحہ 356 کا حجر فرماتے ہیں ہیں جس طرح کہ حضرت عیسی سے پہلے ہی وہاں نبی خدا تعالی کی تبلیغ کرتے ہوئے شہید ہوئے تھے اسی طرح ہم سے پہلے اس ملک پنجاب میں سید احمد صاحب توحید کا وعظ کرتے ہوئے شہید ہوگئے یہ بھی مماثلت تھی جو خدا تعالی نے پوری کر دی پھر اسی طرح سے ایک اور مقام پر مذاق ہیں حوالہ ہے جو مکا فرماتے ہیں جن میں دو واقع ہوئے ایک سید احمد صاحب کا اور دوسرا ہمارا ہو گیا ہے حضور نے بھی یہاں پر تو گویا کہ تقسیم کر دیں کہ میں دو واقع ہوئے ہیں ایک سید احمد صاحب کا اور دوسرا ہمارا ان کا کام لڑائی کرنا تھا انہوں نے شروع کر دی مگر اس کا انجام ہمارے ہاتھوں پر تھا جو کہ اس زمانے میں بذریعہ قلم ہو رہا ہے اسی طرح اسلام کے وقت جو نہ مراد یہ تھی وہ چھ سو سال بعد حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے ہاتھوں سے مصافحہ وی پی فلم فرماتا ہے کہ وہ کامیاب ہوئیں اور وہ والا خلیفۃالمسیح کر کر کے اپنے بیان کو ختم کروں گا کہ حضور فرماتے ہیںلبیک اللہ بن عبد السمیع میں یہی خبر دی گئی تھی دوبارہ میرے بھائی بات یہی ہے کہ دو گروہوں کا جو ذکر کیا گیا ہے حالانکہ یہ بتا دیا کہ وہ دو گروہ ہیں ایک تو سید احمد شہید بریلوی رحمۃ اللہ علیہ کا گروہ تھا جنہوں نے ظاہری طور پر بھی لڑائی کی اور بعد میں حضرت موسی علیہ السلام کے بارے میں جو ذکر آتا ہے مسیح موعود علیہ السلام کی جماعت ہے جواب تبلیغ اسلام کا کام کر رہی ہے جنگی دینی جنگوں کا خاتمہ ہو چکا ہے جہاد جیسا کہ ذکر ہوا ہے جیسا کہ قرآن مجید میں آتا ہے وہ جاہدہم بہ جہادا کبیرا قرآن مجید کے ذریعے جہاد کبیر کرو بہت بڑا جہاد ہے جو جماعت احمدیہ کی کوشش کرتے ہیں سب سے پہلے ہم بات کریں گے مکرمہ عبدالرشید صاحب جو یوکے سے نکال رہے ہیں ان سے ہم بات کریں گے re السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ صاحبمسجد میں بیان فرمایا قل ارایتم ان کان من عند اللہ کافر تم بھی ہیں منازل کا ترجمہ ہے تو ان سے کہہ دے مجھے بتاؤ تو سہی اگر یہ قرآن اللہ کی طرف سے ہوں اور تم اس کا انکار کردوں تو اس شخص سے جو حق سے بہت دور بھاگ جائے کون زیادہ گمراہ ہوگا یہ بتانا چاہ رہے ہیں کہ قرآن مجید جیسے کھلی واضح کتاب ہے اللہ تعالی کی طرف سے یہ بیان طور پر ظاہر ہوئی لیکن باوجود اس کے استعمال میں بیان کیا گیا ہے اس کی مثال میں اس طرح دینا چاہوں گا ہم سارے جانتے ہیں کہ سورج نکلتا آسمان پر  پر یہ روشنی پہنچاتا ہے فیض ہے اور اس سے دنیا کی چل رہی ہے جسمانی رنگ میں سے فائدہ اٹھایا جا رہا ہے لیکن جو شخص ان ہے وہ سورج کی روشنی سے فائدہ نہیں اٹھا سکتا اس نے دکھائی دے رہا تھا بس جو لوگ انکار کرنے والے ہیں مجید کا انکار کرنے والے اس کی سچائیوں سے منہ موڑنے والے ہیں آنکھیں مرنے والے ہیں اور تعصب میں اس قدر آگے بڑھ چکے ہیں کہ ہدایت سے دور ہو چکے ہیں اللہ تعالی نے خود دوسری جگہ فرمایا تم اللہ پر مہر لگ جاتی ہے وہ اتنی دور چلے جاتے ہیں کہ وہ اس چیز کو سمجھ ہی نہیں ہوتے آپ یہ سمجھئے کہ قرآن مجید عربی زبان میں نازل ہوا حضرت علی علیہ وسلم کے وقت میں نازل ہوا ایک صحابی کو آیت کو سننے کے بعد اس کا دل کہاں ہوتا ہے وہاں سے سیلفی مان لیا ہے عمرہ کا واقعہ بے شمار واقعات ہیں کہ صحابہ نے قرآن کی ایک آیت سنی ایمان لے لیکن وہی تھے ان کے دلوں پر مہر تھی وہ کہہ رہا تھا تو یہی ہے کہ بیماری ان کے دلوں میں تھی وہی آنکھوں کے اندھے تھے ورنہ تو قرآن مجید میں صاف دوسری جگہ فرمایا سورہ بنی اسرائیل آیت نمبر 10 بیان فرمادیا القرآن یہدی للتی ہی اقوم مجھے تو وہ چیز ہے جو خدا تعالیٰ کی طرف سے نازل ہوئی ہے جو سب سے سیدھی اور سچی راہ کی طرف سے دعوت دیتی ہے بے شمار مثالیں پیش کر سکتے ہیں وہ زمانے کے حساب سے آپ دیکھ رہے تھے دنیا کے مختلف کتب میں حلال اور حرام کا فلسفہ پایا جاتا ہے قرآن مجید نے اس کے ساتھ بڑھ کے کسی زبان کی طبیعت کا فلسفہ بیان کیا یہ کہیں نظر نہیں آتا دنیا کی جگہ اور روحانیت کا نظام تو پایا جاتا ہے لیکن قرآن مجید کی آیات حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے بتایا کہ روحانی اور جسمانی نظام کا خطاب کر تے ہوئے پھر آپ اور دیکھے سورہ فاتحہ ہے سورہ فاتحہ کے اندر جو رب رحمان رحیم القیوم دین کے چار بنیادی صفات کے اندر اللہ تعالی نے مضامین بیان کی ہے کہیں اور نہیں مل سکتے ہو کے باوجود بھی قرآن مجید کا انکار کرنے والے دنیا میں موجود ہیں اسی طرح بانی جماعت احمدیہ سیدنا حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کی بے شمار سچائی اور صداقت قرآن مجید نے بیان کی ہیں وہی شخص فائدہ اٹھائے گا جو صدق دل سے خدا تعالیٰ سے دعا چاہے گا اور سب سے اچھا طریقہ جو انہوں نے بیان کیا کہ سچے دل سے دعا کرے ہم اپنے خطبات میں پیارے ماموں زخم سے خاموش کی زبانی بے شمار واقعات سنتے ہیں کہ جس نے سچے دل سے دعا ہے کہ اللہ تعالی نے کھولی ہمارا کام ہے تبلیغ کرتے جانا پیغام کو پہنچا دینا اتمام حجت کر دینا ہدایت دینا اللہ تعالی کا کام ہے اور اس کے لئے کر سکتے ہیں ان سے بات کرنے کی کوشش کرتے ہیں اسلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ سوال پیش کریں گے تو اللہ پاک کی طرف سے ان کو اور تمام صحابہ کرام اسلام علیکم فرما دیں تو مہربانی ہوگی آپ سب سے درخواست ہے کہ اختصار کے ساتھ کیا کرنا چاہیےاور جب جب کفار نے حد کر دی کے ہجرت کے بعد بھی جا کر ان کے اوپر حملہ آور ہوئے ہیں تو تب اللہ تعالی نے ان کو انشاءاللہ آگے اگلے سوال میں اس کا ذکر آئے گا تفصیل سے وہاں پر بھی ذکر کروں گا کہ جن لوگوں پر لڑائی ہوتی تھی ان پر اللہ تعالی نے پھر ان کا دفاع کرنے کی اجازت دی لڑائی کی جارہی ہے کیا گیا تھا ان کو اللہ تعالی کے تعلقات کی اجازت دیں اب یہ جو آپ کی حدیث بیان کی کہ انہیں امید تو اتنا سخت ہو لا الہ الا اللہ نہیں ہے کہ ان کو مسلمان بنانے کے لیے لڑائی کی گئی ہے بلکہ اللہ تعالی کا یہ حکم ہے کہ اگر لڑائی کے دوران میں ایمان لے آتا ہے اس سے ہم کوئی گریز نہیں کریں گے بلکہ اس سے درگزر کریں گے بچے کا واقعہ بڑا مشہور آتا ہے حضرت اسامہ رضی اللہ تعالی عنہ جو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے بڑے چہیتے تھے تو جنگ کے دوران ایک شخص نے جب دیکھا کہ میں آپ کا مقابلہ نہیں کر سکتا تو اس نے کہا شاید وہ لا الہ الا اللہ انہوں نے کہا کہ یہ تو ڈر کے مارے ایماندار ہیں انہوں نے اس کو قتل کر دیا جب یہ بات اگر صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں پہنچی تو حضور نے بڑا سخت ناراضگی کا اظہار فرمایا اور حضرت اسامہ کو بلا کر کہا کہ کیا تم نے اس کا دل چیر کر دیکھ لیا تھا کہ وہ ڈر کے مارے مارے جا رہا تھا یا حقیقی نمائندہ رہا تھا اور آپ نے فرمایا اس محاورے کا کیا حال ہوگا جب اس کی طرف سے لا الہ الا اللہ محمد رسول اللہ کلمہ جو ہے ڈیفنس کرتا ہوا آئے گا تو اس کا کیا جواب دے گا تو حضرت اسامہ کہتے ہیں کہ اس دن مجھے بھی شرمندگی ہوئی اور میرے دل میں خیال آیا کہ کاش اس سے پہلے مسلمان نہ ہوا ہوتا اتنی سخت ناراضگی اور غضب کی جھیلیں  بڑی دوبارہ بات یہی ہے کہ اگر لڑائی کے دوران میں کوئی ہو جاتا ہے تو پھر ہم اس کے اوپر ہاتھ نہیں اٹھائی لیکن اس کا یہ مطلب ہرگز نہیں ہے کہ تم لڑائی ہو اس وقت تک کرو جب تک کہ کوئی مسلمان نہ ہوجائے یہ بات نہیں ہے بلکہ اس میں حکم دیا گیا ہے کہ اگر کوئی شخص تو شہر ہی چھوڑ دیتا ہے نہیں تو ان سے کرنا ہے جو ہم سے لڑتے ہیں اور جو ہتھیار ڈال دیتا ہے اس کے خلاف ہے تو یہاں پر مطلبی ہے ہے یہ لاالہ اللہ کے اگر وہ لا پڑتے ہیں تو وہ ہمارے بھائی بن جاتے ہیں پھر ہم ان سے لڑائی نہیں کریں گے اس دور کی بات ہے جب کہ اس سے آگے مسلمانوں پر کی گئی تھی اور اس زمانے میں پھر جو شخص ایمان لاتا تھا اس پر بھروسہ کرکے اپنی جماعت میں شامل کر لیا جاتا تھا وہ اس کا ہرگز یہ مطلب نہیں کیوں کیا قرآن مجید میں آتا ہے کوئی اور ہے کہ تم لوگوں کے سامنے بیان کر دو یہ افسوس کی بات ہے اور چاہو تو بھول کرنا چاہے تو انکار کر دو اور تشدد ہرگز جائز نہیں لا اقرا فی دین تو یہ دو باتیں آپس میں ٹکراتی ہیں لہذا یہ ٹکراؤ کا حل یہی ہے کہ اس کا مطلب یہ ہے کہ جس کے دوران اگر مسلمان ہو جاتا ہے تو ہم اس سے کوئی گریز نہیں کریں گے یا ظلم و زیادتی پر اس طرح کے پروگرام کی شروعات سے ہم اس بات کو بتاتے جارہے ہیں کہ اسلام امن و سلامتی کا مذہب ہے ہے وہ کسی انسان کو مذہبی آمدنی معاشرتی یا اقتصادی آزادی میں محض اختلافات کی وجہ سے حمل نہیں ہوتا بلکہ وہ انسانی تعلقات کو وسیع سے وسیع تر کے آپس میں جوڑنے کی کوشش کرتا ہے اور اس اور محبت کو بلاتا ہے ہے ابتدا اللہ علیہ وسلم پر مخالفین کی ہےیہ کہا جاتا ہے کہ اسلام نے جو جنگ کی اجازت دی ہے یہ جارحانہ جنگ تھی یا جزیہ لینے کے لئے تھی یا اس کی کوئی اور وجہ تھی اب اصل سوال یہ ہے کہ ان کا مقصد قرار دیتا ہے اور اس میں انصاف کا مقصد ہے یا ظلم و زیادتی جو کہ بنیادی سوال ہے قرآن مجید کی کوئی ایک آیت احادیث میں سے کوئی ایک حدیث بھی نہیں بتاتا ہے کہ جنگ کا مقصد دنیا کمانا دولت کمانا یا جبر لوگوں کو اسلام میں داخل کرنا بلکہ متعدد آیات ہیں جو ان تینوں باتوں کو رد کرتی ہے کہ دنیا کا مال کمانا یا دولت حاصل کرنا یا جب سے لوگوں کو داخل کرنا یہ تینوں باتیں اس میں درد ہو جاتی ہے بلکہ قرآن مجید اس کے برعکس میں یہ بیان کرتا ہے کہ اسلامی جنگوں کے بنیادی مقاصد جیسے سورہ الحج کی مشہور کتابیں پڑھی گئی اس میں بیان کیا گیا اس نے روزہ رکھا کہ نہیں مندر ہے کہ جو لوگ گھروں سے نکال دیئے گئے اپنے مذہب کی رات نہیں کر پا رہے تھے مذہب پر عمل نہیں دی گئی اسی آیت کے اندر بیان کیا گیا کہ عبادت عبادت گاہوں کو ظالموں سے بچانے کے لیے جانے کی اجازت دی گئی ہے ہے پھر اسی طرح قرآن مجید کی سورہ البقراہ 292 ملتانی بیان مولانا عبداللہ ناصر ہو جاتا ہوں کہ زمین میں فساد کو دور کرنے کے لیے جانے کی اجازت دی گئی پھر ظالموں کے ظلم سے روکنے کے لیے جن کی اجازت دی گئی یہ جو جنگ کی اجازت دی گئی اس جنگ کی اجازت کے اندر بہت ساری شرائط تھی جو اسلام نے بھی ان کی صرف اصل جن کی اجازت نہیں دی بلکہ قرآن مجید کی کتنی آیات ہیں جیسے سورہ المائدہ کی مشہور آئے تھے آیت نمبر 89 میں بیان کیا والا یا جرمنوں کو میں نے کہا اگر تم نے جنگ کرنی ہے تو عدل و انصاف کو ضرور قائم رکھنا ہے یہ نہیں کہ غصے میں آ گئے بلکہ جتنا تم پر ظلم ہوا ہے تمہیں اتنا ہی حق پہنچتا ہے یہ نہیں کہ تم اس سے بڑھ کر ان پر ظلم کر دوں بلکہ سورہ نحل میں اللہ تعالی نے آیت نمبر 27 میں واضح بیان کر دیا وہ آپ کا بہت مبارک ہو 22 اتنی ہی دو جتنی کی گئی ہے پھر اسی طرح یہ بتایا گیا کہ جنگ میں عموما آج دیکھا جاتا ہے کہ آج دنیا بے شک مہذب ہو گئی ہے آپ اجازت دیں اور ساتھ میں یہ کہا کہ جنگ کی اجازت کے ساتھ ساتھ یہ بھی اس بات کو محفوظ رکھنے کی جنگ میں معاہدات کی پابندی لازمی ہے ہمارے سامنے نظر آتا ہے کہ صلح حدیبیہ کے موقع پر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے جب کفار مکہ کے ساتھ معاہدہ کر لیا کہ ان میں سے کوئی اگر واپس آجائے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس تو آپ اس کو واپس نہیں کریں گے ابھی ایسے ہی لکھی گئی تھی کہ ایک مشہور صحابی حضرت ابو جندل ویڈیو میں آئے اور آگے دیکھیں اور میری حالت ہے آپ نے اس کو کہا ان کو کہا کہ ابو جندل آپ کو صبر کرنا پڑے گا کیونکہ معاہدہ کر چکے ہیں بس اسلام جو جنگ کی اجازت دیتا ہے وہ صرف جنگ کے مدافعتی جنگ کی اجازت دیتا ہے اس کے ساتھ اس اسلام اس میں شرائط پیش کرتا ہے ان شرائط میں عدل و انصاف کا قیام ہے معاہدہ قائم کرنا ہے اور اسی طرح کرنا چاہیے کہ وہ یہ کہے کہ میں نے جنگ چھیڑ دی تھی اب میں صلح کی طرف مائل ہوں تو سبھی کر لینی چاہیے کہ زیادہ بہتر ہے المائدہ آیت 62 میں اللہ تعالی نے فرمایا میں اگر وہ صلح کی طرف جائیں تو بھی اس کے جا کرنا چاہتا ہوں یہ ہے کہ اسلام  حرام خور بنانے والا یا جنگ و جدل پھیلنے والا مذہب نہیں بلکہ اسلام انسان کے نفس کی حرمت کو قائم رکھنے لگا ہے پیار محبت کو پھیلانے والا مذہب ہے اسلام کی جنگوں کی بنیاد نکتہ اگر ہم سمجھنا چاہیں تو سورہ المائدہ آیت جس میں اللہ تعالی نے بیان فرما دیا ہے سن کر جمیع ماہیا ایسے نفوس کو قتل کیا جس نے کسی دوسرے کی جان لی ہے یا زمین میں فساد نہ پھیلایا ہو تو گویا اس نے تمام انسانوں کو قتل کر دیا یہی وہ بنیادی نقطہ اسلامی جنگ کا کے خلاف اعلان جنگ کی اجازت تو ہے لیکن کسی ایسے شخص پر بھی ہاتھ نہیں اٹھانا جو تمہارے خلاف جنگ کے میدان میں شریک نہیں اور اسی طرح وہ راشدین حاضر ہیںایک حکمت بیان کر دی ہے اور اس میں دیگر مذاہب کے نسبتا زیادہ بہتری کی تعلیم پائی جاتی ہے ہم جب دیگر مذاہب کو دیکھتے ہیں وہاں بھی لوگوں کی تعلیم پائی جاتی ہے اس آیت کو دیکھیے یہودیت کو دیکھیں گے تو آپ دیکھیں گے کہ حضرت موسی علیہ السلام کے بعد ان کی وفات کے بعد یوسف بن نون کے خلیفہ بننے کا نمونہ ہمارے سامنے ملتا ہے چنانچہ یہ سوال اب چھائے 21 میں آتا ہے کہ وہ انہوں نے ایک بس پر حملہ کیا اور اس کے بعد کیا ہوا انھوں نے لکھا اور انہوں نے ان سب کو جو شہر میں تھے کیا مرد یا عورت اور جواب کیا گیا اسلام نے قائم کیا ہے کہ آخری وقت اپنے دفاع کے لیے جنگ کی اجازت ہے اور اس کے اندر وہ تمام شرائط جو بیان کر دی گئی بس یہ کہنا کہ اسلام میں ظلم و زیادتی کی تعلیم دیتا ہے سراسر غلط ہے اور آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم اور خلفائے راشدین کے اسوہ حسنہ کے بالکل منافی ہے اسلامی تعلیمات کی رو سے جنگ کی اجازت دی جا سکتی ہے ہے بیان ہو چکا ہے دو تین دفعہ کا ذکر ہے کہ اسلام میں قرآن مجید کی تعلیم کے مطابق جن کی اجازت اس وقت کی گئی ہے جب کہ مسلمانوں پر تلوار اٹھائی گئی ان کو نیست و نابود کر رہے ہو گئے اور یہاں تک کہ ان کے گھروں سے بے گھر کر دیا گیا ان کا مقابلہ کر سکتے ہو کہ ابھی ابھی ذکر کیا پہلے بھی میں نے یہ آیت پڑھی تھی کہ نہیں وقاتلو نا کے ان لوگوں کو جن سے لڑائی کی جاتی ہے اب اجازت دی جاتی ہے کہ وہ بھی لڑائی کا طریقہ کار کریں کیوں کہ ان کے اوپر ظلم کیا گیا یا اللہ تعالی ان کی مدد کرنے پر قادر ہے اور فرمایا ہے وہ الذین اخرجوا من دیارہم گھروں سے نکالا گیا تھے تو یہ ہے کہ کوئی ایسی بات تھی جس کی وجہ سے گھروں سے ان کو نکالنا ضروری تھا ایسی کوئی بات نہیں تھی مگر بے غیرت کسی کے جوان کو گھروں سے نکالا گیا اللہ رب العزت نے کہا نہیں تھا وہ لولا دفع اللہ الناس بعضہم ببعض اگر اللہ تعالی کی طرف سے یہ قانون نہ ہوتا کہ ایک قوم کا دوسری قوم کے ذریعہ سے دعا کرنا ضروری ہوجاتا تو پھر کیا ہوتا اگر یہ قانون بنایا جاتا لاہور مدرسہ میں بالکل اجازت نہیں جاتی چلو بھی ہمارے اوپر ظلم ہو رہا ہے ہونے دو و اگر ہمیں قتل کرتے ہیں تو کرنے دو ہم کچھ نہیں کہیں گے ایسی بات ہوتی تو ملک میں بدامنی پھیل جاتی ہے فساد پھیل جاتا تھا اور اس کے نتیجے میں اللہ تعالی نے ایک بات یہ بھی بیان کی جو میرا خیال ہے کسی اور مذہب میں اس کا اس کی نظیر نہیں ملتی کہ دنیا میں جتنے بھی مزا ہے ان سب کا ذکر آگیا اس کے اندر ہے وہ یہودیوں کی عبادت گاہیں عیسائیوں کی عبادت گاہیں ہیں یا غیر مسلموں کی عبادت گاہیں یا اسی طرح مساجد ہیں یہ تباہ و برباد ہو جاتے ہیں دنیا سے اللہ تعالی کا نام و نشان مٹ جاتا ہے تو وہ ہوجاتی ہے تو پھر تو یہ بیان کی ہے کہ قیام امن کے لیے تمام مذاہب کا احترام قائم کرنا اور ان کی عبادت گاہوں کی حفاظت کرنا اور جیسا کہ بھی شاہ صاحب نے اس کا ذکر کیا ہے حضور صلی اللہ علیہ وسلم کا یہ حکم تھا آپ نے سنا کہروپے کے لیے بھی جنگی کی گئی ہے تو اللہ تعالی نے فرمایا کہ جو عبادت گاہیں ان کی حفاظت کرنا بھی اسلام کا یہ کہ قائم کیا گیا ہے یا اسلام کی ذمہ داری قرار دی گئی ہے کہ تمام جتنے بھی مظاہرہ سب کی عبادت گاہوں کا احترام کرنا ہے تو یہ غلط تھی وہ زمانے میں دفاعی جنگوں کی اور اس لحاظ سے ہم یہ دیکھتے ہیں کہ موجودہ زمانے میں یہ سوال ہے کہ کیا اس زمانے میں بھی اسلامی تعلیمات کے مطابق یہ جنگ کی جاسکتی ہے اور جیسا کہ میں نے ذکر کیا ہے نہ ہی نہیں کو مٹانے کے لیے ہتھیار نہ اٹھائے جارہے ہیں بلکہ دین پر حملہ آور ہو رہے ہیں تو قلم کے ذریعہ سے کتابوں کے ذریعے سے اخبارات کے ذریعہ سے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام نے یہی تعلیم دی ہے کہ آجکل جو زمانہ ہے کہ اسلام کو مٹانے کے لیے ہتھیار بھی استعمال کیے جا رہے ہیں بلکہ اسلام کو مٹانے کے لیے لیے بے شمار اعتراضات کیے جا رہا ہے کرنے کی کوشش کی جارہی ہے اللہ علیہ وسلم کو بد نام کرنے کی کوشش کی جارہی ہے قرآن مجید کی جو تعلیمات ہے ان کو جو ہے وہ خراب کرنے کی کوشش کی جا رہی ہے ان پر اعتراض کیا جا رہا ہے تو حضور نے فرمایا کہ میں نے جو مطالعہ کیا ہے وہ فرماتے ہیں کہ قریباً 3000 سے زائد ایسے اعتراضات ہیں جو کہ اسلام پرانا میں قرآن مجید پر کیا جارہا ہے تو اس کی وجہ سے کلی قلمی جہاد کا شوق ہو وقت ہے کا وقت نہیں ہتھیار اٹھائے گا اگر کوئی زمانہ ایسا آئے گا کہ اسلام کو مٹانے کے لیے ہتھیار اٹھائے گا تو پھر انشاء اللہ تعالی جو بھی خلیفہ ہیں وہ مناسب فیصلہ کریں گے اللہ تعالیٰ کے فضل سے جماعت احمدیہ  یہ میں نے موت کے بعد نظام کے خلاف قائم ہے اور انشاء اللہ تعالی نظام خلافت کے ذریعہ سے جماعت کی جو تربیت ہو رہی ہے اس سے ہی زمانے میں اس کی کوشش کی تیاری کیسے کی جائے گی تو خلیفہ کے حکم کے مطابق ہم کریں گے انشاءاللہ اور ٹیلیفون کالز تو کافی دیر سے آن لائن ہے اس سے بات کرنے کی کوشش کریں گے ہم مکرم طاہر انور صاحب پاکستان سے ہم سے رابطے میں ہیں السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ صاحب رحمتہ اللہ و برکاتہ میری چکا ہے لیکن پھر اسے دہرایا جاتا ہے اسلام نے جہاں کی کچھ شرائط ہیں جن کو مارا نہیں جائے گا اور بدلے نہیں چلائی جائیں گی اسی طرح عبادت گاہیں جائے تباہ کی جائے آج کل جملوں میں استعمال ہوتا ہے وہاں سے تو بھی مر جاتے ہیں اور ہوتی ہیں تو انہوں نے جہاد کیا جاسکتا ہے کہ ایسا ممکن ہے ہو جائے جس میں مومن بھی ہوں گے اور پھر بھی ہوں گے تو غالباً حضرت عائشہ رضی اللہ تعالی عنہ نے عرض کیا یا رسول اللہ اس میں مومن ہوں گے تو کیا وہ بھی مارے جائیں گے انہوں نے فرمایا کہ ہاں ایسی مصیبت آنے والی ہے سارے جائیں گے پھر اپنی باتوں کے مطابق ان کو اٹھایا جائے گا دوبارہ یہ الگ بات ہے باقی رہی یہ بات کہ موجودہ زمانے میں جو اسلحہ استعمال ہوتا ہے اس میں فصلیں بھی تباہ ہوتی ہے سب کچھ ہوتا ہے تو یہ تو انسانیت کا یہ عالم ہے کہ اس زمانے میں یہ بات ہورہی ہے لیکن اس کی وجہ سے ہم یہ نہیں کہہ سکتے کے بعد منسوخ ہو گیا ہے جہاں یہ جہاد اس وجہ سے منسوخ ہو گیا ہے یہ بات درست نہیں ہے یہ ادب دینی جنگجو ہیں وہ موقوف کر دی گئی ہیں اس واسطے کے دین پر اب ہتھیار سے حملہ نہیں ہو رہا ہے ہمارا ہے اور میں یہاں تو اللہ تعالی کے صدر جماعت احمدیہ کے ساتھ مریں گے تو ایسی صورت میں پھر جیسے کہ اسلام نے فرمایا ان کو ان کی نیتوں کے مطابق دوبارہ اٹھایا جائے گا اور جو مومن ہو گیا ان کو ان کی سزا دی جائے گی اور باز اور بالکل کالر تھے ان سے معذرت کرتا ہوں کہ ہم ان سے بات نہیں کر پائے مکرمہ اکرام صاحبہ پاکستان سے مبارک محمود صاحب یوکے سے خرم رحمان صاحب جرمنی سے منصور نوجوان صاحب انڈیا سے اور محمد آصف بھائی صاحب لندن سے ہم سے رابطہ کرنے کی کوشش کر رہے تھے لیکن تھوڑا ہے آپ سے رابطہ نہیں کر پائے انشاءاللہ آئندہ کسی پروگرام میں آپ سے رابطہ کرنے کی کوشش کریں گے آپ پروگرام ختم ہوا چاہتا ہے پر حضرت مسیح موعودعلیہ الصلوٰۃ والسلام کا ایک مختصر اقتباس پیش کرتا ہوں حضور فرماتے ہیں دیکھو میں ایک کو لے کر آپ کے پاس آیا ہوا ہوں وہ یہ ہے کہ اب سے تلوارکے جہاد کا خاتمہ ہے مگر اپنے نفسوں کے پاک کرنے کا جہاد باقی ہے اور یہ بات میں نے اپنی طرف سے نہیں بلکہ خدا کا یہی راستہ ہے صحیح بخاری کی اس حدیث کو امام ہند کی تاریخ میں لکھا ہے کہ یہ عارضہ لاحق ہو جائے گا تو دینی جنگوں کا خاتمہ کر دے گا سم حکم دیتا ہوں کہ جو میری فوج میں داخل ہے وہ ان خیالات کے مقام سے پیچھے ہٹ جائیں دلوں کو پاک کریں اور اپنے انسان ہیں رحم کو ترقی دے اور درد مندوں کے ہمدرد بنے زمین پر صلح ہوئی پھیلے گا گورنمنٹ انگریزی اور جہاد روحانی خزائن جلد 17 17 20 گرام اسی کے ساتھ آپ پروگرامر ہیں خدا کا وقت ختم ہوگیا ہے ایک اور پروگرام لیکر مورخہ 31 اگست 2019 بی انڈین ٹائم کے مطابق رات ساڑھے نو بجے اور جی ایم پی اے کے مطابق ہے چار بجے آپ کی خدمت میں حاضر ہوں اجازت دیجئے اپنا خیال رکھیے گا السلام علیکم ورحمتہ اللہ وبرکاتہ کے یہی رول عورت خود اعتمادی کے تمہیں طارق تسلی دے کے مرا بتایا ہے کہ یہودی اور خدا کے ہیں ہم حکومت کی طرح اڑا ئیں گے ہم ہم

Leave a Reply