Rahe Huda – Islam Par Dehshatgardi Ka Ilzam Aor Jihad
Urdu Rahe Huda 17th Aug 2019 – Rahe Huda – Islam Par Dehshatgardi Ka Ilzam Aor Jihad
تو رکھتے ہیں مسلمانوں کا دے دل سے ہے میں علی سے ہے خدا میں ختم المرسلیں منت مدرسہ لیں تے شیطان الرجیم بسم اللہ الرحمن الرحیم ناظرین کرام اسلام علیکم ورحمتہ اللہ وبرکاتہ آج 17 اگست 2019 ہفتہ کا دن ہے انڈیا میں اس وقت رات کے ساڑھے نو بجے ہیں اور چیونٹی کے مطابق سہ پہر چار بجے ہیں اور ناظرین میں ہوتا پروگرام رہے ہو خدا کا قادیانی مسلمان سے پروگرام ہے اللہ کی سیرت کے ساتھ ایک نئی سیریز کے ساتھ اس وقت ہم آپ کی خدمت میں حاضر ہیں یہ پہلا ایپیسوڈ ہے جو اس وقت ہم آپ کی خدمت میں براہ راست پیش کر رہے ہیں ہمارے گھر بھی وہ جانتے ہیں کہ پروگرام راہِ خدا کے 4 ایپیسوڈ پر مشتمل ایک سیریز ہم آپ کی خدمت میں لے کر حاضر ہوتے ہیں اور ہمارا یہ پروگرام انٹری ہے جس میں اسلامی تعلیمات کے حوالے سے کچھ تفاصیل آپ کی خدمت میں پیش کرتے ہیں اور ہمارا یہ پروگرام لائیو انٹرویو ہم اپنے مجاہدین کے لئے کرتے ہیں تاکہ ہماری گفتگو کے ساتھ ساتھ ہم اپنے مجاہدین کو بھی اپنے ساتھ اس پروگرام میں جوڑ سکیں ان کے سوالات اور اساتذہ سکی اور جو بھی ان کے ذہنوں میں باتیں ہیں اس کو ہمارے اس پروگرام کے ذریعے سے شیئر کر سکیں اور ان کے استفسارات کا ہمارے جو علماء کرام پینل میں موجود ہوتے ہیں وہ اس پروگرام کے ذریعے سے ان کو ان کے سوالات کے جوابات بھی پیش کرتے ہیں ہمارے ساتھ رابطہ کرنے کے لیے ٹیلی فون لائن جو کہ اس وقت ہمارے مجاہدین کے لیے ایکٹیویٹڈ ہیں اس کے علاوہ ٹیکس میسج ٹیکسٹ میسجز اور ای میلز کی سہولت موجود ہے جس کے ذریعے اس پروگرام میں جڑ کر شریک گفتگو ہو سکتے ہیں اگر ہمارے ناظرین آج کے دور میں بھی ہمارے ساتھ شامل ہیں امید کرتا ہوں کہ اس وقت آپ کا کیا نام ہے یہ مکمل سیریز ہم ایک ایسے اہم موضوع پر اور ایسے اہم مسئلے پر منعقد کرنے جا رہے ہیں جس کے حوالے سے اکثر دیکھنے میں آتا ہے کہ غیرمذہب والے اسلام کو اعتراض کا نشانہ بناتے ہیں اور پھر دوسری طرف جب ہم مسلمانوں کی حالت کو دیکھتے ہیں وہ بھی اس مسئلے کو صحیح طرح نہ سمجھنے کے نتیجے میں اور اس مسئلے کے تعلق سے مختلف ہمیں ان کے نتیجے میں وہ بھی ایک طرف سے اسلام کے حوالے سے کرتے ہیں اور یہ مسئلہ جو آج کے سوٹ میں ہم گفتگو لانے والے ہیں یہ جہاد کا مسئلہ ہے اسلامی جنگوں کے تعلق سے حقائق آج کے سوٹ کے ذریعہ سے اس مکمل سیریز میں اس کے حقائق کے تعلق سے ہم آپ کی خدمت میں تفصیلات پیش کرتے چلے جائیں گے آج کے موضوع پر گفتگو کے لیے جو علماء کرام اس وقت ہمارے ساتھ رہتے ہیں ان کا میں تعارف کروا دیتا ہوں مولانا محمد یوسف صاحب ہیں اور ان کے ساتھ رہتے ہیں مولانا طارق جمیل صاحب 2017 کی قادیان سیریز کے فیملی لوگ ہیں آپ دونوں حضرات کا پروگرام راہ میں خیر مقدم کرتا ہوںکتاب کو کیا اور وہاں پر بھی آپ کو تکلیف دینے شروع کی جس کے نتیجے میں اللہ تعالی نے حضرت محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وسلم کو دفاعی جنگ کرنے کی اجازت دی گئی جنگوں میں بھی حضرت محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وسلم نے ہمیشہ صلح کو ترجیح دی ہے کہ جب بھی صلح کا موقع ملتا ہے آپ طور پر توجہ دیتے تھے اور امید کرتے اور ہر وقت اللہ کی خواہش رکھتے تھے اور جنگی میدان میں بھی آپ نے کبھی شفقت رحمت اور ہمدردی کا پہلو کو نہیں چھوڑا بلکہ ہر موقع پر جب دشمن پر بھی رحم کرنے کی بات آتی ہے تو آپ دشمن پر بھی رحم کرتے اور اس سے بھی شفقت کا سلوک فرماتے ہیں وقت آیا جب اسلام کی تعلیمات دنیا میں پھیلی اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی جنگیں لڑی ہیں آپ نے فرمایا کہ اب یہ جنگوں کو چھوڑتے ہیں اس کے نتیجے میں اسلامی کام اور اسلام کی تبلیغ متاثر ہوتا ہے اور اب ہم اصل چیز کی طرف جاتے ہیں جس میں دراصل انسان کے نفس کی اصلاح کی بات ہے جس کو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے تمام چیزوں پر مقدم رکھیں ہے لیکن افسوس آج ہم دیکھتے ہیں کہ امن اور سلامتی اور صلح کا جو پیغام دینے والا اسلام مذہب ہے اس کو تشدد اور دہشت گردی کا مذہب کے طور پر دنیا میں پیش کیا جاتا ہے اور اس پر مختلف اعتراضات لگائے جاتے ہیں ایک طرف سے مسلمان بھی اس کے قصور وار ہیں کیونکہ اسلامی تعلیمات کو صحیح سمجھنے کے نتیجے میں اور آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی عظیم الشان اس کی سیرت کے حوالے سے صحیح نہ رکھنے کے نتیجے میں اسلام کے نام نہاد پیروکار اپنے آپ کو مسلمان تو بتاتے ہیں لیکن اسلامی تعلیمات پر ان کا عمل نہیں ہوتا ہے بلکہ وہ اپنی نفسانی خواہشات کی پیروی کرتے ہیں اور ایسی حرکتوں کا اسلام کا نام دیتے ہیں جو امن اور آشتی سے بالکل ہٹ کر دور چیز کی طرف قادیانی جماعت احمدیہ حضرت مرزا غلام محمد قادیانی علیہ اسلام کی بحث ہوئی اور اپنے جماعت احمدیہ کی بنیاد رکھی آپ نے اکثر جہاد کے خیال کو چھوڑنے کے تعلق سے مسلمانوں کو نصیحت کی آپ نے فرمایا کہ تلوار کے ذریعہ سے جہاد ہوتا ہے اس کا یہ وقت نہیں ہے اور اس کا یہ زمانہ یہ بھی نہیں ہے کہ یہ زمانہ ہے اسلام کی خوبصورت تعلیمات کو پھیلانے کا اسلام کی خوبیوں کو لوگوں کو سمجھانے کا جمع جماعت احمدیہ اصلاح نفس اور اسلام کی خوبیوں کو دنیا میں پھیلانے کی کوشش کرتی ہے اور جہاد کے حوالے سے جو غلط مفہوم مسلمانوں میں اصلاح کی کوشش کرتی ہے اور دنیا کے سامنے ہے جو اپنے اندر رکھی ہوئی ہے اور جو بھی اسلام کا پرچار ہوتا ہے وہ خود دوسرے کو دیتا ہے اور حضرت محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وسلم نے بی ایک مسلمان کی تعریف فرمائی ہے کہ مسلمان وہ ہے جس کے ہاتھ اور زبان سے دوسرا انسان محفوظ رہتا ہے اور یہ جہاد کی حقیقت ہے ہم اس مکمل سیریز میں جو قادیانیوں کا پروگرام تھا کہ آپ کی خدمت میں پیش کریں گے اور اس میں جنگ لڑی گئی ہیں ان کا کیا پسند ہے تفصیلات ہم آپ کی خدمت میں پیش کرنے کی کوشش کریں گے اور جہاں تک تعلق سے جو غلط فہمیاں مسلمانوں میں بھی اور دیگر جو ہمارے غیر ذمہ دوست ہیں ان کے دلوں میں بھی رائج ہیں ان غلط فہمیوں کی بھی ہم اس سے مکمل سیریز کے ذریعے سے ان غلط فہمیوں کا ازالہ کی بھی ہم ان شاء اللہ العزیز کوشش کریں گے اس کے بعد آج کے مولانا محمد کو صاف کرنا چاہوں گا ہے تاکہ اس قسم کے دور سے گزرنا پڑا تو میں آپ سے تفصیل جاننا چاہتے ہیں تو 10 تاریخ کو اسلام کی ابتدا ہوئی اس کا آغاز ہوا ہوا یہ وہ زمانہ تھا جس کے بارے میں اللہ تعالیٰ قرآن مجید میں فرماتا ہے وہاں ہر نفس ادوفلم رہا تھا طاری بھی فساد تھا ہر جگہ فساد تھا مذہبی دنیا میں بھی فساد تھا سیاسی دنیا میں فساد تھا دنیا کے ہر میدان میں فساد ہی فساد اور خرابی ہی خرابی اور برائیاں ہی برائیاں تھیںصلی اللہ علیہ وسلم پر قرآن مجید کا نزول فرمایا اور غار حرا میں بھی چھو دسویں کو اس دور شروع ہوا خاص طور پر شیئر کرکے اپنے قریبیوں کو پہلے تو اٹھا حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے رشتہ داروں کو جمع کیا اور ان کو یہ کہا کہ دیکھو میں ایک بات تم کو سمجھاتا ہوں کہ یہ جو تین سو ساٹھ بتوں کی پوجا کر رہے ہو اور تم نے کعبہ میں رکھے ہوئے ہیں اس کی عبادت اس کی پوجا اس کی خدائے واحد کی عبادت کرتے تھے تو میں اس کی عبادت کرنی چاہئے اور لاالہ اللہ کے سوا کوئی معبود نہیں ہے اور میں اللہ کا رسول ہوں اس کا پیغمبر ہوں یہ ابتدائی تعلیم تھی جو رسول اکرم صلی اللہ ہر برائی ان میں پائی جاتی تھی اور ذرا لڑکیوں کو زندہ درگور کرنا یہ ایک معمولی بات تھی جو روزمرہ کا پیشہ تھا اور یہ برائیاں ان کے حق میں رکھی ہوئی تھی ایسی حالت میں رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کو اللہ کی عبادت اور ان برائیوں کو ترک کرنے کی نصیحت کی اور اس کا کچھ اثر لوگوں پر ہونے لگا اور جو غریب طبقہ تھا وہ رسول اکرم صل وسلم کی تعلیمات سے متاثر ہونے لگا اب مکہ والوں نے خاص طور پر قریش مکہ نے جب یہ دیکھا کہ اب حج کا موسم آ رہا ہے لوگ باہر سے آئیں گے اور بعض لوگ یہاں آتے ہیں ہم رسول کریم محمد صلی اللہ وسلم کو کیسے لوگوں کی نظروں کے اندر غیر اہم شخصیات اور ان تجاویز میں سے ایک تجویز دی تھی کہ ہم یہ کہتے ہیں کہ محمد صلی اللہ علیہ وسلم ہی جادوگر ہیں ان کو جنت جو ہے وہ ان کا اثر ہے لوگوں کے اوپر یہ بڑے اور برا اثر کرتے ہیں اور ان کے سر نہ تھے حضور سے اپنے ہی چچا ابو لہب لوگوں کو کہتے تھے کہ یہ شخص جو ہے وہ سحر ہے یہ شخص جنوں کا اس کے برعکس ہے اس کی بات بلکل نہ مانو جان جہاں حضور تبلیغ کے لیے جاتے یہ ان کے پیچھے پیچھے ہوجاتے اور ان کے ذہن کو عید الفطر انسان تھے وہ اسلام قبول کرتے مثال کے طور پہ دوست قبیلہ کے ایک سردار طفیل بن عامر شاعر تھے اپنے علاقے کے بہت بڑے معروف لیڈر تھے وہ مقام آئے قریش مکہ نے ان کو بھی یہ کہا کہ دیکھ ہمارے اس علاقے میں ایک ساحر آگیا ہے جو لوگوں پر جادو کرتا ہے اس کے اثر سے بچ کے رہنا اور اس کی بات نہیں سننا وہ اتنا ہی بڑا کہ انہوں نے اپنے کانوں میں روئی ٹھونس لی پھر وہ کعبہ کے پاس گئے تو دیکھا کہ حضور کعبہ کے کنارے پر وہ اللہ تعالی کی عبادت میں مشغول ہیں اور قرآن مجید پڑھ رہے ہیں تو انہوں نے اپنے عربی محاورے کے مطابق یہ کہا تیری ماں تجھے گرم کرے تجھے کیا ہوگیا تو اتنا پاگل تو نہیں ہے کل تو نہیں ہے کہ کسی کی بات سے متاثر ہو جائے کہ اس رویداد سنی ہے کیا کیا سونا اور اس کے بعد انہوں نے اسلام قبول کر لیا مکہ والوں نے کہا آپ نے تمہیں بتایا تھا بھی یہ کام نہیں کرنا اس کے باوجود اس کے جال میں پھنس گئے جو مکہ میں آتے عید الفطر ہوتے وہ دور دراز سے باتیں سنتے حضور کے اخلاق دیکھتے اور یہ ایک ابتدائی چند سال اس کے اندر گھس لے پھر وہ زمانہ آیا جب کہ انہوں نے دیکھا کہ ہماری یہ ترتیب بھی کارگر نہیں ہو رہی یہ سحر والے لوگ بھی لوگ قبول کرنے کے لیے تیار ہیںآ کے بیٹھے ہوئے یا گزر رہے تھے تو وہاں اخبار بن ابی معیط ایک زمانہ تھا جب انسان کے گلے میں اپنا کپڑا ڈال کے اتنے زور سے کھینچا حضور صل وسلم کی طرف سے بند ہونے لگا تھا وہ تو ابوبکر رضی اللہ تعالی عنہ آئے اور انہوں نے چھوڑ آیا تو صرف یہ کہہ رہا ہے کہ میرا اللہ میرا رب ہے اس جرم میں اسے قتل کر رہے ہو آپ کے پاس نماز پڑھتے تھے تو ابوجہل وغیرہ ہیں وہاں بیٹھے ہوئے تھے سارے گھروں کو ابوجہل نے کہا کہ وہ فلاں قبیلے کی اس نے دیا ہے کوئی ہے جو بچہ دانی وہاں سے اٹھ آئے اور محمد صاحب سجدے میں ہوں ان کی گردن پر رکھ نے حضور سائی دے میلے چار سجدے میں تھے ایک بدبخت گیا تاکہ وہ بچہ دانی لایا اور اللہ کے حضور کی پیشانی پر رکھ دیں حضور نے خبر دی اور وہ آئیں اور اس کو ہٹایا اس حد تک اس وقت کے وزیراعظم کو تکلیف ہوتی ہے بڑے صاحب کو بھی تکلیف دے گی ایسا لگتا ہے حضرت عثمان رضی اللہ تعالی عنہ کو ان کے اپنے چچا نے پیٹا سخت تکلیف پہنچای اسی طرح حضرت بلال رضی اللہ تعالی عنہ امیہ بن خلف جون کا سردار تھا تکلیف دیتا تھا اسی طرح یاسر ہیں اسی طرح ان کے والد محمد عمار ہیں اس کے بعد میں ہیں ان سب کو تقاریر کا سلسلہ شروع ہوا جب یہ تکالیف کا سلسلہ شروع ہوا تو رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے پھر کہا کہ دیکھو ہمیشہ اس زمانے میں ان لوگوں کی تجارت تھی حضور صلی وسلم نے ان کو اجازت دی کہ آپ لوگ ہیں اچھا چلے جائیں وہاں پر ایک عیسائی بادشاہ ہے اور وہ عمران خان سے آپ اپنی عبادت کرسکتے ہیں اللہ کو یاد کرتے رہے ہیں فرمایا یہاں سے نکلے مجھے اور ساحل جو کے باہر ہے وہاں سے یہ لوگ پار کرکے الصوم پہنچے جو اس وقت دارالحکومت تھا اور وہاں نجاشی کے پاس یہ لوگ رہے اب یہ لوگ جو رہے تھے آسمان اور رسول کی بیٹی رقیہ بھی شامل تھیں صرف اس وجہ سے اپنا وطن چھوڑا کہ ان پر مظالم کی انتہا ہوگئی تھی یہ لوگ جو کہتے ہیں خدا سے اسلام نے طاقت کا استعمال کرنے کی طاقت کا استعمال کر کے اپنے وطن کو چھوڑ دیا اور وہاں جا کے بجائے رہے اور ایک عرصہ میں وہاں پرگزارا اتنا ہی نہیں جب یہ وہاں چلے گئے تو یہ بات قریش مکہ کے لئے اور زیادہ غصہ دلانے والے بنیں ان کے غیض و غضب اور زیادہ بڑھ گیا کہ یہ لوگوں نے ایک دوسرا راستہ اختیار کر لیا یہ لوگ تو نہ جانے لگ پڑے ہیں اب ہمیں اس کا کوئی اور حل آج کرنا چاہیے اور اس کے بعد انہوں نے ایک میٹنگ بلائی 7 ستمبر 65 آئیسکو 7ستمبر ہے دار الزمان کی میٹنگ ہوئی آواز بھی وہاں پر جمع ہوئے ان کے مختلف قبائل کے اور یہ فیصلہ ہوا کہ محمد صلی اللہ علیہ وسلم کو تین باتوں میں سے کوئی ایک ان کو ان کا علاج کیا جائے وہ ایک ہی ہیں ان کو قید کیا جائے ان کو قتل کیا جائے یا ان کو وطن سے نکال دیا جائے اور اس پر یہ اتفاق ہوا کہ ساون نوجوان ان کے گھر کا محاصرہ کر لیں صبح جب یہ نکلے تو نکلتے ہیں ان کے اوپر حملہ کر دیا جائے تاکہ جو ان کا قبیلہ بنو منافق ہے وہ ہم پر کوئی خون کا الزام بھی لگا سکے گا اس طرح سے آپ دیکھیں کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم پر وطن میں ہیں اور وہاں سے حضور صلی اللہ علیہ وسلم کو اللہ تعالی نے ہجرت کا حکم دیا آپ اپنے گھر سے نکلے حضرت ابوبکر رضی اللہ تعالی عنہ کو ساتھ لیا اور غار ثور میں گئے اور وہاں ایک دو دن گزارنے کے بعد جب آپ گھر سے نکلے حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی بستی تو مجھے بہت عزیز تھی میں تجھے الوداع کہتے ہیں یہاں سے جا رہاجو بھی غلط بات ہے ایک دفعہ عبدالرحمن آف رسول اکرم صلی وسلم کے پاس آئے اور کہنے لگے جی ہم جا رہے تھے ہم کرنے والے لوگ تھے حمزہ ہمارے پاس ہے عمر رضی اللہ تعالی عنہ میں ہے بڑے بڑے سردار ہم میں ہیں آپ سے بھی آ جا سکتے ہیں ان کا مقابلہ کریں گے وہ ہمارے آقا محمد صلی علیہ وسلم نے کہا ہاں عمر تو بتا لاسٹ میں آگیا ہوں میں رحمت اللعالمین بنا کر بھیجا گیا ہوں مقابلے کا موجودہ وزن نہیں ہے اس لیے یہ بات ہے وہ مجسمہ رحمت آیا اور تھے اور مقابلہ نہیں کرنا نہ کریں لیکن ان کے خلاف بد دعا کریں کریں کس حد تک ہماری حالت بنائی ہے حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے کہا کہ دیکھو تجھ کو مارو سے چرائی گئی اوپر سے لے کر نیچے تک حق کے لئے یہ حالات تھے 13 سال آپ نے اس اس اذیت ناک میں یہ کہہ سکتا ہوں یا نہیں اگر وہاں کوئی طاقت تھی وہ صرف اسلام کی سچائی کی طاقت تھی وہ رسول اللہ کے اخلاق کی طاقت تھی وہ رسول حسن کی روحانیت کی طاقت تھی اس کی وجہ سے اسلام پھیلا اور ایک بات اور مصالح کو ختم کرتا ہوں آپ جو بات کہتے ہیں اسلام تک کا سب سے پہلا حضرت عمر رضی اللہ تعالی عنہ گھر سے اس لیے نکلے تھے تھے کہ آپ یہ کہہ رہے تھے میں محمد صلی اللہ علیہ وسلم کا ختم کر دوں گا اور سنوارنے کے نکل رہے تھے راستے میں مختلف روایات آتی ہے یہ کون سے بیان ہے کہ رستے میں کسی نے کہا محمد صاحب کو بعد میں قتل کرنا پہلے اپنی بہن اور بہنوئی کو جا کر دے وہ مسلمان ہو گئے وہاں گئے تو دیکھا وہ لمبا اخبارات محمد صلی وسلم کا خاتمہ کرے وہ تلوار سے اسلام کو مٹانے کے لیے نکلے تھے مگر جب انہوں نے قرآن مجید کے الفاظ لے کے اس کی تلاوت سندھی وہ اسلام کی سچائی اور تلام اللہ کی تلوار سے وہ خود قتل ہوگئے اور اسلام کے اندر داخل ہوتے ہیں ابھی کونسی طاقت تھی وہاں پر حضرت حمزہ رضی اللہ تعالی عنہ کے والد کے چچا تھے وہ بھی پھر ان کے ساتھ بھی ایک عجیب سا واقعہ ہوا ابوجہل نے رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو ایک دن کو گالیاں دی تھیں اور رسول ان سب باتوں سے وہ سنتے رہے ہیں اور اس کے بعد وہ ایک لمبی تھی حضرت حمزہ کی وہ یہ سارا کے ساتھ ہوئی تھی حضرت عمر پر نہیں تھے شکار کو گئے تھے جب وہ واپس آئے تو وہ لانڈی حضرت ہندہ کو کہنے لگے تم تو بہت بہادر بنتے پھرتے ہو آج تیرے بھتیجے کو ابوجہل نے اتنی گالیاں اتنا ذلیل کیا ہے کہ اگر تو میں تھوڑی بھی حمیت اور غیرت ہے تو اس کا علاج حضرت حمزہ کا رویہ غیر عطائی اور وہ اپنی قوال لے کے چل پڑے کعبہ کے پاس یا باہر بیٹھا ہوا تھا کہ زور سے اس کے سر پر ماری اور کہا آج سے میں دین محمد میں شامل ہو تم نے میرے بھتیجے کے ساتھ ایسا کیوں نہ لیا تو صبر کی تلوار تھی ہے یار تھا وہ صبر و سلام یہی وہ ہستیاں ہیں جو آپ نے مکہ میں استعمال کیے صبر اور نماز اور دعا اور اسی کے نتیجے میں ہمزہ رضی اللہ تعالی عنہ کا اسلام میں داخل ہوئے ابوبکر رضی اللہ تعالی عنہ عراق ہوئے عبدالرحمن بن عوف داخل ہوئے یہ بڑے بڑے ائمہ داخل ہوئے چاہتے رسول انسان تو وہ ان کا مقابلہ کیا جا سکتا تھا ان کی کی سزا دی جا سکتی تھی مگر رسول اللہ تعالی نے حرمت بنا کے بھیجا تھا وہ انسان نے یہی مناسب سمجھا کہ جاؤایک اعلی نمونہ تھا سلامتی تھی جو رسول کے انسان نے وہاں لوگوں کو سکھائی اپنے صحابہ کو سکھائی صبر کے ساتھ ہونے کے دن برداشت کیے اور یہ وہ اسلام کی ابتدا تھی اور یہ بھی عرض کرتا چلوں کہ لقد کان لکم فی رسول اللہ اسوۃ الحسنہ اسلام وہ ہے جو محمد صل وسلم نے اپنی ذات سے پیش کیا اور آپ کا ہی وہ نمونہ اور طریقہ کار وہ ہے اسلام میں مسلمانوں نے کیا کیا بادشاہ نے کیا کیا 200 نے کیا کیا وہ اسلام کے مطابق ہے تو ٹھیک ہے لیکن اگر اسلامی تعلیمات کے مطابق نہیں تو وہ اسلام نہیں ہے وہ کچھ اور ہے اسلام وہ ہے جو سیدنا محمد صلی وسلم نے اپنی زبان سے اپنے طریقہ کار سے اپنے اثاثے دنیا کے سامنے پیش کیا عبداللہ سان کارلوس وقت ہمارے ساتھ موجود ہیں اور ہمارے ساتھ ساتھ جڑے ہوئے ہیں ان کو بھی موقع دیتے ہیں اور ان کے ہیں سب سے پہلے بات کریں گے بنگلادیش فرمان صاحب ہیں جو کہ اس وقت ہمارے ساتھ فون پر موجود ہیں اسلام علیکم ورحمۃ اللہ الرحمٰن صاحب تمہیں سب کو سلام دے رہا ہوں میرا سوال ہے آخری زمانہ میں تلوار کی دیہات اور قلم کی صحت کے بارے میں جو بات ہوتی ہے اس کی تفصیل بتائیں ہم کو اس قدر ہمارے بہت مانتے ہیں وہ سننے کے لیے تیار ہے اتحاد اور تلوار کی جنگ کے لئے اکسیر ہے شکریہ قلم کے جہاد اور تلوار کے جہاد میں کیا فرق ہے میں محترم مولانا عطاالمومن صاحب سے درخواست کرنا چاہوں گا ہر ہیں توکل سے کیا جاتا ہے اور وہ ہے جو تلوار سے کیا جاتا ہے کہ جس کو جہاد صفدر کہتے ہیں اس نے بھی تفصیل بیان فرمائی اسلام کے ابتدائی حالات کی ان اسلام کے ابتدائی حالات کے بعد جب مظالم انتہاء کو پہنچ گئے دشمن کی طرف سے تلوار کا مقابلہ تلوار سے کرے تو چنانچہ اس اجازت کے بعد حضرت نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم اور آپ کے ساتھ صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین نے جو ان کے خلاف تشدد کیا جاتا تھا مظالم کیے جاتے تھے ان کا جواب دیا اور اللہ تعالی نے اسے کہا گے انشاءاللہ پانچ سوالات کے جوابات میں تفسیر ذکر بھی کیا جائے گا اللہ تعالی نے اجازت دی تو پھر اس کے ساتھ ساتھ اپنی تائید و نصرت کا وعدہ وعدہ بھی کیا اور اللہ تعالی نے اپنی تائید و نصرت سے مسلمانوں کو جہاد باسیف جب ان کے اس کی اجازت ان کو دیں تو یہ جہاد جس ہے جس کی اس کا خلاصہ تم نے بھی ذکر کیا ہے آگے چل کر اس کی تفصیل بھی آئے گی اس وقت مزید روشنی ڈالیں گے اور اس کے علاوہ دوسری بات جو انہوں نے اپنے سوال میں پوچھی ہے وہ قلم کا جہاد ہے اور قلم کا جہاد وہ جہاد ہے جو قلم سے کیا جاتا ہے اس کے لئے کوئی ہتھیار ہاتھ میں اٹھا کر دشمن کا مقابلہ نہیں کیا جاتا ہے اسلامی تعلیمات اور اسلامی تعلیمات کے حقائق و معارف کو مخالفین کے سامنے بیان کیا جاتا ہے تاکہ وہ اس پر غور کریں اور اس کو سمجھے اور پرکھے اور اسلامی تعلیمات سے واقف ہوں اور یہ قلم کا جہاد اس کے جہاد کا زمانہ حضرت مسیح موعودعلیہ الصلوٰۃ والسلام کا زمانہ تھا جیسا کہ ہم خود ہی اس بات سے واقف ہے کہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام نے جیسا کہ آپ نے کیا تھا کہ میں اس بات کا زمانہ نہیں کیونکہ جہاد صرف کی جو شرائط ہے مجھے مجھے میرے گھر کی لوکیشن کیا ہے کہ میں اسلام کی تعلیمات کو قرآن مجید کی تعلیمات کو قلم کے ذریعے دنیا کے سامنے بیان کرو چنانچہ اسلامی تعلیمات اور قرآن مجید کی تعلیمات کو دنیا کے سامنے پیش فرمایا اوراس جہاد کا حق ادا کیا جو اللہ تعالی نے آپ کے شوہر جہاد بالقلم کس سورۃ میں کیا القلم کا خطاب عطا فرمائے اور یہ آپ کیا چنانچہ آپ نے جہاد کیا اور بہت ہی وجہ سے مسلمان تھا اس لیے آپ نے قلم کے ذریعے جہاد کیا اور بخوبی کیا اور تعلیمات کو دنیا کے کونے کونے میں پہنچانے کا انتظام کرنا اللہ اس وقت ہمارے ساتھ جڑے ہوئے انڈیا سے ہی ممکن ہے عبدالحکیم صاحب ان سے بھی بات کرتے ہیں اور ان کا سوال سنتے ہیں السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ ہم نے ماضی کی تعریف مع غرض کی فلاسفی پر جو آپ نے میں کچھ خرابی ہے اور آپ کی بات ہم کسی طرح پہنچ نہیں پارہی ہے تاہم آپ نے جو سوال کیا خدا میں جو بات جس بات کا ذکر کیا ہے وہ ہم سنتے ہیں آپ یہ کہہ رہے تھے کہ جس طرح جماعت احمدیہ کی تعلیمات ہیں کہ موجودہ زمانے میں جو ہے وہ یہ زمانہ جہاد باسیف کا متقاضی نہیں ہے لیکن پھر بھی جو غیر محرم بھی مولوی صاحب ان کی طرف سے سب کو فروغ دیا جاتا ہے سید میں کیا دلائل ہیں کہ موجودہ زمانہ جو حادثہ کا متقاضی نہیں ہے آپ کا سوال تھا تو میں مولانا سے سے سے چاہیے تو یہ تھا کہ یہاں سے ختم ہوگئے مسلمان ہوا امانت ہے وہی تو ایک ہزار مشکل لے کے مسلمانوں کو تباہ و برباد کرنے کے لیے اب اس صورت میں کیا کرتے ہیں سوال پیدا ہوتا ہے اب مہابھارت لڑی بڑی با وجود این سہ کی تعلیم دینے کے بعد ہندی مقابلے میں جنگ 1971 لے کے ہر میدان میں جو بالکل بھی نہیں کرتے ہو کر رہے ہیں تو تمہیں قتال کی اجازت دی جاتی ہے اور اجازت اس لیے لیکن اسلام کو بیچ میں داخل نہ کریں سال کے طور پر میری امیدوں کرو آپس میں لڑ رہے ہیں اور مسلمان دونوں اللہ اکبر کہہ رہے ہیں دونوں اپنے آپ کو اسلامی جہاد کر رہے ہیں اور اس سے تم قبضہ اقتدار چاہتے ہو تو آپس میں لڑنا اسلام کو داخل کر رہے ہو گینظام ہے جس کے لئے تم لڑ رہے ہو تو اسلام کو کیوں بد نام کر رہے ہو تم لوگ ایک بات تو یہ کہ ہر بار اللہ کہنا اسلامی نظام کے مطابق جب رضی اللہ کہنے کی وجہ سے اجازت دیتا ہے اس میں شرط لگائی ہے اس پر قادر ہے اور کون رہتا ہے اور اس کی واضح مثال یہ تھی کہ بدر کے میدان میں ایک طرف ہزاروں تھا جو کہ جدید ترین اس طرح کے اسلحوں سے لیس تھا اور مقابل پر صرف تین سو تیرہ دن کے بعد کیا میں پوری نہیں ملا نصر اللہ قدیر نے ثابت کیا کہ اللہ تعالی نے ان کی مدد کی اور ان کی نصرت و تائید فرمائی اور ان کو فتح حاصل ہوئی اب میں اس کی وجہ سے یہ بات میں جہاد کے خلاف فتویٰ دیا کہ یہ جو شکل جہاد کے تمنا کے پیش کر رہے ہو نا یہ جہاد نہیں فساد ہے یہ اسلام کو بد نام کر رہے ہو تم لوگ اسلامیہ نہیں جہاد کر جو تم کیا کر رہے ہو ہو تو نے انیس سو ایک مسئلہ ان کے خلاف طوفان کھڑا کر دیا ان کو یہاں یہ بھی بتایا کہ مسیح موعود اصل وجوہات کو منسوخ نہیں کیا ابھی اس کی ضرورت پڑے گی تو حالات کا جائزہ لیں گے اجازت دیں یا نہ دیں وہ ان کی صوابدید کے اوپر ہے تو یہاں یہ بات ضرور یاد رکھیں کہ مسلح جہاد منسوخ نہیں کیا التوا میں ڈالنے ہیں کہ اس زمانے میں اس کو ایک میں مسلمان نے گورنمنٹ نرسیں اور جہاد کتاب لکھی خطبہ الہامیہ میں حضور نے یہ بات کا اعلان کیا سوال یہ 1901 سے لے کر 2019 میں ہے 119 مجھے یہ بتا دیں کہ یہ جو مسلمان ایک ارب اور بیس کروڑ اس وقت دنیا میں موجود ہے کہ انہوں نے جہاد کرکے کو فتح حاصل کی کی اللہ الحلقۃ 17 والی دنیا کے کس خطے میں اللہ تعالی نے تم پر لگ رہے ہو وہ نہیں جس کی اللہ تعالی تائید و نصرت کرے تمہاری مدد کرے بلکہ تم خود بھی ذلیل ہو رہی ہیں اور اسلام کوبدنام کر تو یہ ہے کہ قرآن مجید کی تعلیم اور سیدنا محمد صلی اللہ علیہ وسلم نے واضح طور پر فرمایا تھا کہ جب مسیح موعود آئے گا یا اللہ لڑائی کو ایک طرف رکھ دے گا دوسری روایت میں مجید کا یہ حکم ہے تو اس کی خلاف ورزی کر کے مسلمان کہا دنیا میں جیت حاصل کر سکتے ہیں کہ ان کو اللہ تعالی کی تائید و نصرت حاصل ہو سکتی ہے سوائے ذلت کے اور ملک کے آ رہا ہے کہ اللہ کے مسیحا قرآن اور حدیث کے خلاف ورزی کر کے اور بناوٹی طور پر جیسا کہ صاف پانی کو آپ یا شراب کو پانی کا نام لے کے اور اس کے بعد یہ کہے کہ یہ ہے اتنا وہ اللہ کی تائید حاصل نہیں تو ثابت ہوا ہے کہ وہ جہاد ہی نہیں جس کا کہ اللہ تعالی نے اجازت دی تھی اور حکم دیا تھا آگے بڑھاتے ہیں اور مولانا عطاء الرحمن صاحب سے میں پوچھنا چاہوں گا جیسے کیا حضور صلی وسلم کے مکی دور کی زندگی کے تعلق سے بھی تفصیلی بات ہوئی کہ وہاں پر کس قسم کی اذیت اور ظلم اور تشدد کا دور وہ مسلمانوں کو سہنا پڑا جس کے نتیجے میں نبی اکرم صلی اللہ وسلم کو بھی اللہ تعالی کے فضل سے ہجرت کرنی پڑی تو ہجرت کرنے کے بعد بھی دشمنوں نے آپ کو اللہ تعالی نے آپ کو دفاعی جنگ لڑنے کی جو ہے وہ اجازت دی ہے تو اس کا کیا آپ سن رہے ہیں بلکہ دشمن کی طرف سے جو ہے وہ حملہ ہوتا اور مسلمانوں نے دفاع کی کوشش کی اور وہ جنگ کی صورت بنی ہے تو یہ ساری صورت حالاور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے دین سے تنگ تھے وہاں ان کو تنگ کر رہے تھے تو اب تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم اپنے صحابہ کے ساتھ ہجرت کر کے مدینہ تشریف لے گئے تھے تو اب تو کوئی پریشانی نہیں ہوئی تھی لیکن باوجود اس کے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو چھوڑ کر دوسرے شہر میں جانا پڑا اس کے باوجود جو کفار تھے انہوں نے تعاقب کیا انہوں نے پیچھا کیا اور اس بات کی کوشش کی کہ مدینہ جا کر مسلمانوں کو ختم کیا جائے اور زبان کو نیست نابود کیا جائے اور آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے قتل کے ارادے تو انہوں نے مکہ میں ہی شروع کر دیے تھے تو چونکہ اس میں ناکام ہوگئی تھی ان کو تو اس ذلت کو وہ برداشت نہیں کر پا رہے تھے اور مدینے تک جا کر نعوذ باللہ حضرت نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کو ہمیشہ کے لئے ختم کرنا چاہتے ہیں تو ایسی صورت حال جب ہوئی جب مکہ میں تکالیف برداشت کے مسلمانوں نے صبر سے کام لیا پھر اتنی حد ہوگئی کہ وہاں سے ان کو ہجرت کرنی پڑی پہلے حبشہ کی طرف پھر اب مدینہ کی طرف ہجرت صلی اللہ علیہ وسلم کو خود ہجرت کرنی پڑی اس جنگ کی صورتحال پیدا کرنے پر تلے ہوئے تھے تو ایسی صورتحال میں پھر اللہ تعالی نے مسلمانوں کو بھی اجازت دی کہ وہ بھی دفاعی طور پر اپنے آپ کو بچانے کی خاطر سے بچانے کی خاطر تشدد سے بچانے کی خاطر اپنی جانوں کی حفاظت کی خاطر اب وہ بھی کفار کا مقابلہ کرسکتے ہیں چنانچہ سب سے پہلی آیت سلسلہ میں سورۃ الحج ہوئی اس کا کچھ حصہ بھی محترم کوثر صاحب نے بیان کیا میں چاہتا ہوں کہ یہ دونوں آیات نمبر 40 بیان کرو اس کا ترجمہ بھی ناظرین کی خدمت میں پیش کروں اللہ تعالی نے فرمایا کہ اہل کتاب ان الذین اخرجوا من دیارہم بغیر حق کے بعد اللہ وصلوات ومساجد یذکر فیہا اسم اللہ کثیرا من الظن ان بعض یعنی اجازت دی جاتی ہے لڑنے کی مسلمانوں کو جن کے خلاف کفار نے تلوار اٹھائی ہے کیونکہ وہ مظلوم ہے اور ضرور اللہ تعالی انکی رہی ہے ظلم کے ساتھ اپنے گھروں سے نکالے گئے صرف اس بنا پر کیا انہوں نے کہا کہ ہمارا رب اللہ ہے اور اگر اللہ کی دفاعی جنگ کی اجازت دے کر ایک قوم کو دوسری قوم کے خلاف تو یقینا راہوں کے سونے اور عیسائیوں کے گرجا یہودیوں کے معبد اور مسلمانوں کی مسجدیں جن میں کثرت کے ساتھ خدا کا نام لیا جاتا ہے ایک دوسرے کے ہاتھ سے تباہ و برباد کر دے اور اللہ تعالی ضرور اس کی مدد کرے گا جو اس کی مدد کرتا ہے کبھی اور غالب ہوتا ہے تو یہ وہ ابتدائی آیات ہے جن میں اللہ تعالی نے مسلمانوں کو انتہائی ظلم و تشدد کے بعد کی تلوار سے جنگ کرنے کی اجازت مرحمت فرمائی ہے کہ اپنے سوال میں ذکر بھی کیا یہ جو ہے واضح طور پر رائج ہے اور اسی آیت میں انہیں دو آیات میں آپ کے سامنے پیش کی ان دو آیات میں بیان فرمائے کی طرف سے جنگ کرنے کی اجازت دی گئی یہ نہیں ہے کہ کوئی بھی مسلمان گروہ کھڑا ہو جائے اور خود بخود اس بات کا اعلان کردے اور اس بات کا فیصلہ کرنے کا حق جگہ پر تلوار اٹھا کے خلاف لوگوں کو قتل کریں گے اور آراستہ ایسی کوئی صورت حال اس آیت کریمہ میں اللہ تعالی نے بیان نہیں کی اور پھر دوسری اہم شرط جو اللہ تعالی نے جہاد بالسیف کی دفاعی جنگ کی اس آیت کریمہ میں بیان کی وہ یہ ہے کہ اللہ تعالی نے فرمایا بیان لیموںظلم کیا گیا تشدد کیا گیا جیسا کہ اس کی تفصیل بھی محترم کو سامنے بیان کی تفصیل کے ساتھ وہ ایک لمبی داستان ہے اس ظلم اور تشدد کی داستان کو بیان کیا جائے تو اس کے لئے کافی نہیں ہوگا جیسا کہ بیان کیا کہ حضرت عبدالرحمٰن بن عوف رضی اللہ تعالی عنہ جیسے لوگ تنگ آگئے کہ اتنے مظالم اور ہم خاموش ہو کر بیٹھے ہوئے لیکن پھر بھی حضرت نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے یہی تعلیم ان کو دیکھ کر مجھے پھر اللہ تعالی نے اجازت دی اور اس میں یہ بنیادی شرط جیسا کہ میں نے عرض کیا یہ بیان کی کہ کیونکہ ظلم ہوا ان کے اوپر اور بے انتہا ظلم ہوا اور ظلم کو انتہا تک پہنچایا گیا اس لئے ان کو اجازت دی ہے پھر دوسری چیز اللہ تعالی نے قرآن مجید کی آیت میں بیان فرمائی وہ یہ ہے کہ جینا ہے جو نیند نہیں آ رہی دیگی حادثہ کی جن کو اپنے گھروں سے نکالا گیا بغیر حق کے اور کس وجہ سے نکالا گیا کیونکہ اب وہ اللہ کہتے تھے اللہ تعالیٰ کو اپنا رب مانتے تھے تو صرف دین کی غرض تھی جس کی وجہ سے ان پر ظلم کیا جاتا تھا جس کی وجہ سے میں نے صاحب نے فرمایا کہ صرف اس بنا پر اجازت دی جارہی ہیں اور پھر اللہ تعالی نے اس کے ساتھ یہ بھی فرمایا کہ اگر یہ اجازت نہیں دی جاتی تو جو عیسائیوں کے گرجا یہودیوں کے سونگ مساجد وغیرہ یہ سب مسمار کر دی جاتی ہے اس بات کی طرف اشارہ فرمایا کہ یہ اجازت دی جارہی ہے یہ صرف اور صرف مذہبی امن پیدا کرنے کے لئے دی جارہی ہے یہ نہیں ہے کہ وہ فساد پیدا کر دیا جائے ہر سو تلوار لے کر مسلمان نکلے اور فتنے پیدا کر یہ طرف اس کی اجازت ہرگز نہیں دی اللہ علیہ وسلم اور پھر ہم جب قرآن مجید کا مطالعہ کرتے ہیں تو ہمیں واضح رہے کہ میں اس تعلق سے مزید ہدایات نظر آتی ہیں جن سے ہمیں پتہ لگتا ہے کہ یہ جو انتہائی اشد مجبوری کی بنا پر مسلمانوں کو جنگ کی اجازت دی گئی حادثہ کی اجازت دی گئی اس کی شرائط عائد کر دی گئی جگہ جگہ کھڑی ہوئی نظر آتا ہے ہر مرحلے پر شرط لگائی گئی اور رعیت کا قرآن مجید کی آیات کی رو سے اور بعض روایات بیان کرتا ہوں اللہ تعالی نے قرآن مجید میں ایک اور موقع پر فرمایا کہ وقاتلوا فی سبیل اللہ الذین یقاتلونکم ولا تھا صرف ان لوگوں سے تمہیں جنگ کرنے کی اجازت ہے جو تم سے جنگ کرتے ہیں ایسا نہیں ہے کہ چار ماہ سے بیٹھے ہوئے ہیں ان کے اوپر جائے اور ان کے اوپر حملہ کر دیں ایسی اجازت نہیں ہے اور پھر اجازت بھی ایسے لوگوں سے جو حملہ کرتے ہیں جو جنگ کرتے ان کے ساتھ جنگ کرنے کی اور اس کے ساتھ یہ ثابت کے حالات اردو ظلم نہیں کرنا زیادتی نہیں کرنا چاہتے ہیں جتنی تکلیف پہنچاتے سکتے اور پھر یہ بھی فرمایا انتہائی جنگ کے دوران بیجنگ کرتے ہوئے وہ بھاگ جاتے ہیں فتنہ پھیلانے سے بدامنی پیدا کرنے سے باز آتے ہیں تو تم بھی بھول جاؤ پھر جنگ کرنے کی اجازت نہیں ہے اور پھر یہ بھی فرمایا کہ جنگ کی اجازت صرف اس لیے ہے کہ فتنہ پیدا کیا جا رہا ہے مخالفین کی طرف سے وہ باقی نہ رہے خطر ختم تو جلدی ختم تم جب امن کی صورت پیدا ہوگئی مذہبی طور پر خاص طور پر مذہبی لحاظ سے تو پھر جنگ کی کوئی رات نہیں ہوسکتی اللہ تعالی نے یہ بھی فرمایا جیسا کہ آپ نے تمہیں بھی ذکر کیا کیا حضرت صلی اللہ علیہ وسلم ہمیشہ جنگ کی اجازت کے بعد بھی سنا کے اندر ہمیشہ یہ خواہش ان کی دل میں رہتی تھی کہ جنگ کسی نہ کسی طرح ختم ہو کر کے مخالفین ہے وہ صلح کی طرف آئے اور یہ تعلیم اللہ تعالی نے قرآن مجید میں بھی واضح بیان فرمائی کہ وہ ان جنحوا للسلم میں کیا کروں امن کی طرف آتے ہیں صلح کی طرف آتی تو اللہ کی طرف مائل ہوجائے مثالیں ہیں صلح حدیبیہ ہے زیادہ تفصیل میں نہیں جاؤں گا یہ شرائط کرنے کی کوشش کروں گا پھر اللہ تعالی نے 104 بھی بیان فرمائی کہ واوفو بالعھد ایسا نہ ہو کہ جنگ کرتے کرتے پھر تم ایسی باتوں کو بھول جاؤ جو اسلام کی بنیادی تعلیمات میں شامل ہیںایسا نہ ہو کہ تم ابھی مخالفین کو اپنا دشمن سمجھو اور دشمن سمجھنے کی وجہ سے تمہاری دشمنی اس حد تک بڑھ جائے کہ تم انصاف کو اپنے ہاتھ سے جانے نہیں بہت ہی پیاری اور واضح تعلیمات قرآن مجید نے بیان فرمائی اور امن و امان اللہ بخش ولیج وقوف بن علی کی دشمنی ہے تمہارے لئے یہ دشمن ہے تمہارے اوپر ظلم کیا ہے اور تمہیں اجازت دی گئی ہے کہ تم بھی ظلم کا بدلہ ظلم سے دو تلوار چلو لیکن یہ بات یاد رکھنا کہ انصاف کو ہاتھ سے نہ جانے دینا انصاف کو ہمیشہ میرے جیسا کہ میں نے عرض کیا تھا کہ یہ نصیحت کیا کرتے تھے کہ دیکھو کبھی بھی بے شک جنگ کی اجازت دی گئی ہے اللہ تعالی کی طرف سے لیکن جنگ کی تمنا نہیں کرنا یہ خواہش نہیں کرنا کہ جنگ ہو جائے اور ہمیں مال غنیمت ملے اور مال ملے وغیرہ وغیرہ بعض روایت میں تو یہ بھی آتا ہے کہ بعض صحابہ نے حضور صلی اللہ علیہ وسلم سے پوچھا کہ حضور ایک شخص جو ہے وہ جنگ میں شامل ہوتا ہے جہاد فی سبیل اللہ کی غرض سے اس کی نہیں ہوتی ہے لیکن اس کے دل میں یہ بھی ہوتا ہے کہ کچھ مال غنیمت بھی میسر آجائے گا تو ملے گا نہیں ملے گا تو کیا حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ یہ جنگجو ہے یہ دعوت دی گئی ہے اس کے لیے کیا کہ نیت اور خلوص انسان کے اندر ہونا چاہیے پھر حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے لوٹ کے مال کی نہایت سختی سے منع ہے فرمائے گا میں جو جاتے ہیں ان کو کہا اس بات کا خیال رہتا ہے کہ ہم کو لوٹ رہے ہیں یا کر رہے ہیں تاکہ ڈال رہے ہیں ان کے مال پہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ہمیشہ اس بات کا خیال رکھا ایک جنگ میں مسلمان بہت فاقہ کشی سے گزر رہے تھے تو انہوں نے کچھ بیڑوں کو پکڑ کر ان کو ذبح کیا اور گانا شروع کر دیا ان دونوں کو پتہ لگا تو سارا وہ انڈیا تھی وہ نیچے گرا دیا اور بہت سختی سے مسلمانوں کو صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین کو نصیحت کی کہ یاد رکھو یہ جو لوٹ کا مال ہے یہ مردار سے زیادہ بہتر لگے پھر تفسیر قرطبی ہے کیونکہ بہت مختصر ہے میں اپنی بات کو ختم کرتا ہوں خلاصہ یہ ہے کہ یہ جنگ کی جو اجازت دی گئی اس کی شرائط ہے اور جنگ کے بے شمار اور اللہ علیہ وسلم نے عائد کر دی اور ایسا لگتا ہے کہ کانٹوں کا جال ہے جو بنایا گیا ہے اس جنگ کے دوران بھی اور کانٹوں کے جال کے بیچ میں سے ہوتے ہوئے مسلمانوں کو جہاد کی اجازت دی گئی اور انہوں نے اسی انہی شرائط کے ساتھ لوگوں کو اس وقت پڑا اور یوں شرائط موجود تھی تھی اس لئے ان کو اس جنگ کی وجہ سے دوسروں کی اجازت دی اور اللہ تعالی نے اپنے وعدے کے مطابق ان کی مدد بھی کی اور کامیابی عطا اللہ تعالیٰ اس کی طرف جانا چاہوں گا سب سے پہلے بات کریں گے انڈیا سے ہی ایک ٹیلی فون کال رہے مکرمہ عبدالہادی ناصر صاحبہ ان سے بات کرتے ہیں ان کا سوال سنتے ہیں اسلام علیکم ورحمۃ اللہ اللہ صاحب موجود ہیں کہ ان پر پر ہم دوبارہ رابطہ کرنے کی کوشش کریں گے اس سلسلے میں لندن سے محمد عبد الرشید صاحب ابھی اس وقت ہمارے ساتھ ٹیلیفون لائن پر موجود ہیں ان سے بات کرنے کی کوشش کرتے ہیں اسلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ بڑا گرم گرم کا اس بارے میں خاص طور پر مسلمان ممالک میں ایران عراق اور عرب ممالک کیلئے میں یہ بات ہے کہ وہ تکبر کم اپنی خود غرضی اور قرآن مجید پر عمل نہ کرنے کی وجہ سے فساد ڈال رہے ہیں اور اس لئے اسلام کو بد نام کر رہے ہیں عیسائی لوگوں سے بات ہوتی ہے تو وہ کہتے ہیں کہ بھائی تم کیوں ہو مسیح ناصری آئے گا جادو کے ذریعے ہوا تھاسوال کا جواب بھی خود ہی دے دیا ہے ویسے تاہم ان کے تبصرے نے کیا ہے اس پر اگر آپ کی طرف سے بھائی نے جو مسلمانوں کی حالت بیاں نہیں کیا کریں گے اسلام کے نام پر ایک بدنما داغ ہے اور حقیقت میں حضرت محمد کا نام ان کے پاس رہ گیا ہے اسلامی تعلیمات خطرات کو دور سے واسطہ نہیں ہے یہ ظلم کرتے ہیں اسلامی تعلیمات پر اور جب اسلام کا نام بھی چلا کر غیروں کے لیے ایک نمونہ پیش کرتے ہیں اور خود ہمیں اس کا سامنا ہوتا ہے لیتے ہیں اور دوسرا اسلام سے لوگوں کو اس وجہ سے کرتے ہیں کہ یہ جو قتل و غارت ہے وہ لوگ اسلام کی بات سننے کے لیے تیار یار نہیں ہوتے بات یہ ہے کہ جیسے جیسے اللہ تعالی کے فضل سے جماعت احمدیہ کی تعلیمات حسیں ہوتی چلی جارہی ہے تو اس کے نتیجے میں لوگ اب احمدیت کو ہی صحیح اسلام سمجھنے لگ پڑے ہیں ہماری جو کانفرنس سے 35 منٹ اور پیشوا مذاہب کے جلسے ہوتے ہیں ایک مقرر نے بہت اچھی بات کہی کہ حقیقت میں اگر کوئی اس زمانے میں اسلام کی نمائندگی کرتا ہے مسلم جماعت احمدیہ ہے یہی اسلام ہے یہی حقیقی اسلام ہے جو کہ ہمیں سمجھنا چاہئے کہ یہ لوگ کیا کر رہے ہیں تو یہ اصل بات ہے کہ اسلام ایک سچا اور پتہ مذہب ہے اور یہ محبت کی تعلیم دیتا ہے سلام کی تعلیم دیتا ہے یہ نفرت کرتے ہیں تو لڑائی کی تعلیم دیتا بات کو آگے بڑھاتے ہیں اور مولانا محمد کوثر صاحب سے ہیں میں پوچھنا چاہوں گا جس طرح کے دفاعی جنگ کی اجازت کا کیا پسند ہے یہ سب باتیں تفصیل سے ہوئی ہیں تو حضور صلی اللہ علیہ وسلم کا اپنا ایک مثالی نمونہ بھی تھا جنگی میدان میں بھی کہ آپ شفقت اور رحمت اور سلسلہ کوہ ترجیح دیتے تھے تو قرآن مجید کی تعلیمات اعظم کا اس حوالے سے کیا ہے میں آپ سے ملنا چاہتا ہوں یہی اس کے بعد نقاط میں آپ سے پیار کرتا ہوں ہو آپ فرماتے تھے اور صوبہ اس کے نام سے تم جو ہے وہ کتا شروع کرو کہ اللہ کی اجازت سے اللہ کے نام سے تو یہ لڑائی شروع کرو کرو دو کا نہیں دینا تو کا نہیں دینا تو شام کو تند خو کا نہیں دینا na269 کا مسئلہ نہیں کرنا یعنی لاش گر گئی ہے اس کا ناک منہ یہ جو عربوں کے اندر تھا اس کو ذلیل نہیں کرتا بچوں عورتوں مذہبی عبادت گاہوں کے لوگوں کو قتل نہیں کرنا بوڑھوں کو قتل نہیں کرنا آسان کا معاملہ کرنا ہے ہے پھل دار درخت نہیں کاٹ سکتا آبادی کو ویران نہیں کرنا جو تم سے جنگ نہیں کر رہے ہیں برائیوں سے کیوں میں جنگ ہوتی ہیں بیچارے معصوم شہری مارے جاتے ہیں بھائی جو تمہارے ساتھ جنگ نہیں کرتے ان کو بلاوجہ کیوں مار رہے ہیں مسافر کی یہ سنہری تعلیمات تھی اور بھی ہیں لیکن یہاں اختصار سے یہ چند ایک تھیں اب اس کی میں آپکو مثال دیتا ہوں ہو سب سے بڑی بات یہ کہ احسان موقع اور محل کے لحاظ سے دیکھیں کہ یہ جو لوگ آئے ان سے ہم احسان کا سلوک کیا تھا ابھی تک کا واقعہ آپ نے سنا سب قیدی پکڑے گئےامریکہ مذاکرات بروھی بھی پڑھیں پھر حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ قیدی ہے وہ کچھ بھی ہے اس کے برابر یاد اور یکسانیت کا سلوک کیا جائے تھے ان کو باندھ دیا گیا تو حضرت عباس جو رسول اللہ کے چچا تھے رضی اللہ تعالی عنہ بعد میں اسلام قبول کیا آواز آ رہی تھی اور جس کی وجہ سے عضو خاص تکلیف محسوس کر رہے تھے اور حضور سورہ یس تو صحابہ نے یہ دیکھا تو ان کے بعد جو ہے وہ ڈیلی کرتی ہے اس نے پوچھا کیا بات ہے تو نہیں نظر انداز کر رہے ہیں تو صاحب ہیں یہ نہیں کہ یہ میرا خریدی ہے تم نے کرنی ہے سب ٹھیک کرے اور اگر قسم ہے تو پھر اچھا کھانا دو یہ کہتے تھے کہ ہم حیران ہے اور مسلمانوں کے اخلاق پر کہ خود یہ شعر جوری کھاتے اور ہمیں اچھی پکی ہوئی روٹی دیتے اور جب ہم ان کو کہتے ہیں ہم کھجوریں کھا لیں گے پہلے نہیں تم کہتی ہو تمہارے ساتھ حسن سلوک کرنا یا رسول اللہ نے ہمیں سکھایا ہے کہ آپ کو روٹی دے رہے ہیں آپ کرے اور اس کو اچھی طرح سے کھائے پھر میدان جنگ میں معاملہ ایک جنگ ہوئی جس کا نام تھا اور جنگ کے بعد عضو خاص میں واپس جانے لگے تو صحابہ جو تھا یوں وہ تھوڑا آرام کرنے کے لیے درختوں کے نیچے آرام کرنے لگ پڑے حضور صلی اللہ علیہ وسلم ایک درخت کے نیچے آرام کرنے لگے آپ نے اپنی تلوار تھی وہ ایک درخت کے ساتھ میں آیا اور حضور کی تلوار پکڑی اور حضور کو نیند سے جگایا اور تلوار پر کے کہنے لگا میں امن ہو کامنی اب تجھے مجھ سے کون بچا سکتا ہے حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے کسی خوف بڑے پورے اعتماد اور تحفظ فرما یا اللہ اللہ اللہ کے حضور یہ پہلی وحی سوال حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے کیا کہا آپ ہی ہیں جو مجھ پر رحم کریں آہ و زاریاں تو یہ گواہی دیتا ہے کہ اللہ کے سوا کوئی معبود نہیں اور میں اللہ کا رسول ہوں اس کے لیے تیار نہیں نہیں ہوں قتل کرنے آیا ہے دشمن کی فوج سے آ رہا ہے آپ پر حملہ آور ہوا ہے ہے جو انہیں اسلام قبول کرنے کا اس کے ساتھ برا ہی نہیں اور جب اس نے اپنا وعدہ کر لیا کہ ہاں میں آپ کے خلاف جنگ پر نہیں ہوگا حضور کا واقعہ اس طرح بیان کرتا ہوں ہو کہ سومامہ ابن اثال کال ایک یمامہ کے لیے رہی تھے تھے اور بہت ہی زیادہ مسلمانوں کے خلاف سازش کرنے والے تھے حضور کو بھی قتل کرنے کی ایک دفعہ مساج کی جو عادت کہ مسلمان کو مل جاتا ان کو یہ ختم کرتے تھے ایک دفعہ حضرت محمد بن مسلمہ وہ ایک مسلمان تھے وہاں سے آرہے تھے واپس کسی جہاد سے ہی انہوں نے اس کو دیکھا اس کو پکڑ لیا لیکن وہ اس کو پہچانتے تھے ثمامہ بن اثال کو پکڑ کے وہ مدینہ لے آئے حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کو پہچان لیا حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کو مسجد نبوی میں باندھ دیا اور وہاں ہی قیدیوں کی طرح رکھا اور آتے جاتے اسے حال پوچھتے کھانا عمامہ سے پوچھا سامان تمہارا کیا حال ہے میں نے آپ کروائیںاس کے سارے بندھن کھول دیئے گئے وہ قریب ہوا نکل گیا اور جا کے نہا کے بعد اسلام قبول کر لیا کیا اور اس وقت اس نے ایک بات کہی کہ ہم محمد صلی اللہ وسلم آج کے دن سے پہلے پہلے آپ کا شہر آپ کا چہرہ میرے نزدیک سب سے زیادہ قابل نفرت تھا مگر آج کے بعد آپ کا چہرہ آپ کا شہر دین مجھے سب سے زیادہ پسند ہے احسان جو رسول کی اساس د میدان جنگ میں جنگی حالت میں ان لوگوں کے ساتھ کیا کرتے تھے یہی وہ اخلاق تھے جو ان کے اوپر سے بند ہوتے تھے اور اسی وجہ سے وہ مسلمان ہوئے تھے ورنہ یہ جو زمانہ تھا اس کے اوپر کونسی تلوار تھی جس کے دو تاثر نے اس کو قتل کیا یہ وہ طالبات تھیں جو مسلمانوں کو رسول اکرم صلی وسلم کی طرف سے میدان جنگ میں دی جاتی تھی اور پھر پھر اتنا ہی نہیں اگر کوئی اس بات کا معمولی سا اشارہ دیتا کہ میں مسلمان ہوتا ہوں میں نہیں رکھتا اس کو بھی چھوڑ دیا جاتا تھا اس کے علاوہ کوئی انتقامی کارروائی نہیں دی جاتی تھی بلکہ ایک دفعہ حضور صہ اسامہ رضی اللہ تعالی عنہ پر ناراض ہوگئے کے آخری لمحے میں جہاں سے انسان کو قبول کیا اسے قتل کر دیا حضور بہت ناراض ہوئے کہ کیا تو نے اس کا دل کھول کے دیکھا تھا یہ وہ ساری تعلیمات تھی جو رسول اللہ نے میدان جنگ میں دیں اور یہ عذاب طاہر دے جو اس زمانے میں تیار کیے گئے اور اس کے اوپر مسلمان عمل کرتے تھے اور کہتے تھے کہ کسی کی جان کا نقصان نہ ہو نہ ہو بلکہ امن و امان سے اگر یہ جنگ چلتی ہے تو چل جائے اور حد تک ایک مثال دے کے ختم کرتا ہوں ہو کہ جب شام کی فتوحات ہوئیں کوئی تو ہے جو کہ مسلمان نہیں تھی مسلمان تو زکوۃ دیتے ہیں دوسرے چندے ادا کرتے ہیں لیکن جو غیر مسلموں سے جزیہ لیا جاتا ہے یہ کہتے ہیں جزا ہم آپ کی حفاظت کریں گے اس کا معاوضہ تھا اس کا دباؤ بڑھ گیا اور مسلمانوں کا ہند کا علاقہ خالی کرنا پڑا بڑا کرنے سے پہلے جب کہ ہر انسان کو اپنی جان کے لالے پڑے ہوئے ہیں لاکھوں روپے جوان سے لیا تھا مسلمانوں نے ان کو واپس کیا اور کہا یہ ہم نے اس لیے لیا تھا کہ تمہاری حفاظت کرے کا تقاضا کچھ بن گیا کہ ہمیں چھوڑنا پڑتا ہے یہ تم اپنے گھر واپس لیتا ہوں وہ رونے لگے سماجت کرنے لگے دعائیں دینے لگے کہ ہم دعا کرتے ہیں کہ خدا تم کو واپس لائے تو جیسے عدل شریف نیک فطرت انسان ہم نے نہیں دیکھے ہم عیسائی ہیں لیکن ہم کیسے کی حکومت کو پسند نہیں کرتے تو یہ مسلمانوں کا عملی نمونہ تھا جو انہوں نے میدان جنگ میں حالت میں دکھایا اور یہی وہ اخلاق تھے جس میں ہوتا تھا اور اس مسئلہ کو آگے بڑھاتے ہوئے مولانا عطاءالمجیب لوگ سب سے یہ پوچھنا چاہوں گا کہ جس طرح کے دفاعی جنگ کی اجازت قرآن مجید کی مختلف آیات کے ذریعے آپ نے پیش کی تھی لیکن جب ہم قرآن مجید کے مطالعہ کرتے ہیں تو بنیادی طور پر اسلام اور قرآن مجید ہیں وہ قتل و غارت کی اجازت نہیں دیتا ہے قرآن مجید میں اور بھی بہت سی آیات ہیں جس میں کتنا میں حصہ لینے کا فساد میں حصہ لینے سے منع کیا آگیا ہے عام طور پر جو قتل و غارت بغیر اس سے پہلے بھی آئے اس جواب پر چڑھائی نہیں کر رہا ہے جنہیں اس کے ساتھ نہ تو اس قسم کی بہت سی آیات قرآن مجید میں موجود ہیں جو اللہ کی دعوت دینے والی آئے ہیں تو اس سے اسلام کی کیا تعلیمات ہیں میں آپ سے بات تو اسلام جو ہے وہ امن کا مذہب ہے اللہ کا مذہب ہے محبت اور پیار کا مذہب ہے اور اسلام کے معنوں میں ہی امن کا مفہوم شامل ہیں اور اس کا مطلب ہے کہ یہ ایسا مذہب ہے جو امن دینے والا اور دینے والا ہوجو دفاعی جنگی جہاز توصیف کی اجازت دی گئی وہ کس پس منظر میں دی گئی اس کی تفصیل بھی بیان کی گئی ہے ارشد مجبوری کی بنیاد پر مسلمانوں کو مخالفین کا مقابلہ کرنے کی اجازت دی گئی اس کے علاوہ قرآن مجید میں یہاں حضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی تعلیمات کے ذریعے مسلمانوں کو قتل و غارت کی تعلیم نہیں دی بلکہ ہمیشہ صلح کی تعلیم بھی پیار اور محبت اور امن کو فروغ دینے کی تعلیم بھی یہ قرآن مجید میں تو اللہ تعالی نے یہاں تک فرمایا ہے کہ اگر کسی ایک فرد کو بھی کوئی قتل کرتا ہے تو وہ ساری کائنات کو قتل کر دیتا چلا نے قرآن مجید میں فرمایا من قتل نفسا بغیر نفس او فساد آسیا سورۃ المائدہ کی آیت نمبر 33 ہے یہ اس میں اللہ تعالی نے فرمایا کہ ایسا شخص جس نے کسی ایک نفس کو بغیر کسی فساد کے بغیر کسی نفس کے قتل کر دیا تو گویا اس نے ساری اور فساد فی الارض قانون معطل نہ سمجھ میں آ گیا اس نے تمام لوگوں کو تمام انسانیت کو قتل کر دیا گیا ہیں اور جس نے اس کو زندہ رکھا اس نے گویا کہ اس نے ساری کائنات کو پھر زندہ کر دیں تو ایک شخص کے بھی قتل کو جو مذہب ایک شخص کے قتل کو ساری کائنات کا قتل قرار دیتا ہے ساری کائنات کے قتل کے مترادف قرار دیتا ہے صرف اس لئے میں جو ہیں ان کا یہ ظلم ہے اسلام پر کہ وہ اس ظلم کو اسلام کی طرف منسوب کرتے ہیں اور انہوں نے اس وقت لاہور میں بنایا ہوا ہے اس میڈیا کے ذریعے کے ایک عام انسان جس نے اسلامی تعلیمات کا مطالعہ نہیں کیا جس میں قرآن مجید کا گہرائی سے مطالعہ نہیں کیا اور ہم تو ہم یہ کہیں گے کہ جس نے آج کل تو اسلام کی تعلیمات کو کا مطالعہ نہیں کیا حضرت مسیح علیہ السلام کی کتب کا مطالعہ نہیں کیا وہ پھر اس نظریے کو کی وجہ سے اسلام کو جبری مذہب اور ظلم کو مضبوط کا مذہب بیان کرتا ہے اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز اس زمانے میں میں قرآن مجید کی امن کی تعلیمات کو قرآن مجید کی جو محبت اور پیار کی تعلیمات ہیں ان کو دنیا میں پھیلا رہے ہیں ہر پلیٹ فارم پر دنیا کے مختلف ایوانوں میں آپ کے وہاں آپ نے اسلام کی تعلیمات میں ان کی مختلف پوسٹرز میں لندن میں پیسے پور شروع کروائے اور وہ اس رپورٹ میں اسلام کی تعلیمات بیان فرماتے ہیں اپنے خطابات میں اپنے خطابات میں ہر موقع پر آپ اسلام کی امن بخش تعلیمات جو ہے وہ دنیا کے سامنے اسپیشل فرما رہے ہیں اور اس سلسلے میں ایک عظیم جہاد ہے جو آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا جنات کرتے انہیں خطبات میں جن کا ذکر کیا جس نے حضور صلی اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز اسلام کی تعلیمات بیان کرتے ہیں اسلام کے امن کی تعلیمات کو فروغ دیتے ہیں ان کی خدمات میں ایک موقع پر شہریوں کا جنہوں نے اس کا بھی ذکر کیا ایک مثال کے ذریعہ سے مثال پیش فرمائیں دو جوان لڑکوں کی حضور نے فرمایا نوجوان لڑکوں کی ایک ویڈیو کلپ کے حوالے سے انہوں نے بازار میں پھر کھول کے وہ لوگوں کو دکھا رہے تھے اس میں سے پڑھ کر احساس ہوا تھا تو اس لیے بھی یہی ہے تشدد کی تعلیمات ہے یہی کہہ رہے ہیں لیکن کچھ وقت کے بعد دو دو نوجوان لڑکے تھے یہ پڑھ رہے تھے لوگوں سے انہوں نے اس کا کام ہوتا ہےایسی تعلیمات ہے تو بجائے اس کے کہ وہ اپنے اس رجحان کو اپنے ذہن سے نکال کر بتا دیتے کہ قرآن مجید میں ایسی تعلیمات نہیں ہے بلکہ بائبل کی تعلیمات ہے انہوں نے دوسری طرف پلٹ دیا تو کہنے کی باتیں ہیں حضور نے فرمایا گیا ہے پوری دنیا میں قرآن مجید کی تعلیمات کا مطالعہ کرتے ہوئے لوگ جیسا کہ یہ تعلیم جو بھی تھے جیسا کہ اس طرح بیان کرتے رہے ہیں اور آگے بھی بیان کرتے رہیں گے انشاءاللہ اور یہ خطبات جنت میں نے ذکر کیا ہے حضور عبداللہ بن عبدالعزیز نے بڑی ہی بڑے ہیں وہ جہنم میں قرآن مجید کے اندر تعلیمات کو بیان کیا ہے چند ایک روایات میں ان کے وقت بہت مختصر ہے آپ مجھے بتا رہے ہیں کہ تھوڑا ہے تو میں چند ایک باتیں جو حضرت علی کی زبان کی پیش کرکے اپنی بات ختم کرتا ہوں آپ اللہ تعالی نے عرض کیا تو اس پر اس پر بھی تعلیم تو اسلام کے اندر ہی نہیں قرآن مجید نے واضح طور پر فرمایا کہ رہا ہے اس کے برعکس قرآن مجید کی سے امن کی تعلیم دیتا ہے اس حوالے سے قائد کا ذکر حضور تعالی نے فرمایا ہے یہی یا رب العالمین منصفانہ السلام اس آیت میں اللہ تعالی نے سورۃ الزخرف کی آیت ہے اس میں فرماتا ہے کہ اللہ تعالی کے نبی کے کی ایک بات کو اللہ نے فرمایا گیا ہوں گھر پر سلامتی کا پیغام اسلام ظلم اور تشدد کا مذہب ہوتا تو یہ اللہ تعالی تاکہ اس پر ظلم کر کے زبردستی کر کے ان کو اسلام کی طرف لیا لیکن اللہ تعالی نے ہرگز ایسا نہیں فرمایا بلکہ یہ فرمایا کہ اگر میں ایمان نہیں لاتے تو ان کو چھوڑ دے ان پر سلامتی کا پیغام بھیجو پر ان کو امن کا پیغام ہے ایک موقع پر فرمایا کہ جو حقیقی مسلمان ہوتا ہے یہ ساری باتیں ہیں جو حضور اللہ تعالی البقرۃ بعد میں بیان فرمائی ہیں حقیقی مسلمان سے لڑنے کے سلامتی کی دعا دیتا ہے مخالف کو بڑا کو نہیں ہوتا وہ جنگی نہیں ہوتا سلامتی کی دعا دیتا ہے اللہ نے فرمایا خاطبہم الجاہلون قالوا سلاما مسلمان کے مدمقابل آتا ہے تو اس کے ساتھ لڑنا شروع نہیں کرتا وہ زبردستی مسلمان بنانے کی تو دور کی بات ہے وہاں سے لڑتا بھی نہیں ہے بلکہ اس کو سیدھا صرف یہ لازمی مخاطب ہوتا ہے کہ سلام اس پر اللہ تعالی کی سلامتی ہو میں تم سے لڑوں گا نہ لگانا تمہاری جہالت کا مقابلہ کروں گا میں تمہیں امن کا پیغام دیتا ہوں بے شمار تعلیمات ہے تھوڑا ہے اس لئے میں اختصار کے ساتھ ان باتوں کو بیان کرتے ہیں ایک اقتباس اور اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز کا پیش کرکے اپنی بات کروں گا انہیں تعلیمات کی طرف حضور صلی اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے اشارہ کرتے ہوئے فرمایا بس اسلام کی تعلیم تو دوستی کا ہاتھ بڑھانے کی تعلیم ہے امن اور سلامتی قائم کرنے کی کی تعلیم ہے امراض اور محبت کا پیغام دینے کی تعلیم ہے عمل نہیں کرتے تو ان کی بدقسمتی ہے اور حقیقت میں یہی وجہ ہے جس کی وجہ سے اسلام کی طرف جو ہے تشدد کو منسوب کیا جاتا ہے یہ حقیقت ہے کہ حضور نے فرمایا کہ اگر باز مسلمان گروہ عمل نہیں کرتے ہے قرآن بے شک اصل الفاظ میں ان کے پاس موجود ہے لیکن عمل نہیں ہے قرآن کریم کی تعلیم قرآن کریم کی تعلیم کی اور قرآن کریم کے احکامات کی حفاظت کرنی تھی یا نہیں کرنی ہے دنیا کو ہم نے اپنے عمل سے بتانا ہے کہ دنیا کو اپنی سلامتی اور امن کا خطرہ اسلام سے نہیں بلکہ ان لوگوں سے ہے جو اسلام کے خلاف ہے کیا یہ اسلام ہے اور صرف اسلام ہے جو دنیا میں امن سلامتی کی ضمانت بن سکتا ہے اور یہ قرآن کریم ہے اور صرف قرآنالسلام نے فرمایا ہے اپنے عملی نمونہ سے دنیا کو بتائیں کہ آج قرآن کریم کی حفاظت کے کام کے لیے اللہ تعالی نے ہمیں توفیق بخشی ہے اور یہ شخص تعلیمات جاتا ہے اور اللہ تعالی سے زیادہ آخر میں مولانا عبدالحمید صاحب سے یہ پوچھنا چاہتا ہوں کہ عام طور پر بہت تکلیف دینے والی بات ہے کہ لوگ سمجھتے ہیں کہ اسلام جو ہے وہ تلوار کے زور سے پھیلا ہے جب کہ اسلام جو ہے وہ واضح طور پر قرآن مجید کی تعلیمات موجود ہیں کہ اسلام تو مذہبی آزادی کا علمبردار ہے تمہیں اے رب کی طرف سے ہے ان شاء فلیؤمن ومن شاء فلیکفر چاہے اس پر ایمان لے آئے جو چاہے انکار کردے بات یہ ہے کہ میں نے ابتدا میں اسم محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی ذات ہے آپ کا طریقہ مبارک ہے آپ کا قدوائی طیبہ ہے مسلمان بادشاہ نے یا دوسروں نے کیا کیا کیا نہیں کیا اس کا ذمہ دار اسلام نہیں ہے ہے ابھی میں نے چند ایک مثالیں آپ کو دیں کہ کسی کی مجبوری سے حضور حسن نے کبھی یہ فائدہ اٹھانے کی کوشش نہیں کی کہ تم مسلمان ہو جاؤ اور اس کی سب سے بڑی مثال یہ ہے ہے کہ جب تم کہاں ہو گئے ہو ہو جس مکاں سے رسول کریم صلی اللہ وسلم کو تکلیف دے کر نکالا گیا اور آپ ہوئے جب اللہ تعالی نے آپ کو فتح عطا فرمائے کھڑے ہوئے تھے سوال کیا تھا آپ نے فرمایا تھا یا معشر قریش عش کہ تو خود ایک غریب انسان ہے اور کریم باپ کا تو بیٹا ہے ہے اب حضور کو کہہ سکتے تھے کہ تم مسلمان ہو جاؤ تمہیں چھوڑ دیا جاتا ہے ہے جیسے ابھی تو قتل کر دیا تھا حضور کرتے تو مجھے قتل کر دیا جائے گا سوائے اس کے جو مسلمان ہو یا اس پہ زور پکڑ کر دیکھو تو وہ کہتے ہیں کہ تم مسلمان ہو جاؤ چھوڑ دیتے ہیں تم کو یاس ترقی دیں جو بھر کے آئے تھے وہ کہتے تو مسلمان ہو چھوڑ دیتے ہیں تم کو ایسی نہیں تھی یہ مجبوری کی حالت تھی جب سارے کے سارے کو فارما 13 سال کا سینہ ان کے سامنے تھا کہ کیا ہم نے محمد اسلم اور غلاموں سے کیا ہوا ہے امیہ بن خلف جو حضرت بلال رضی اللہ تعالی عنہ کو دہکتے انگاروں پہ رکھتا تھا اور کہتا تھا یہ تو احد انہوں نے یہ کہا کہ تم مسلمان ہو یا نہ ہو آپ پر کوئی گرفتاری نہیں ہے جناب والمطلقات جاؤ سب تمہارے ہاں یہ جو خود ہی ہے جو سلوک تھا یہ ان کے دل کے اوپر رکھا گیا اور اس کی وجہ سے وہ مسلمان ضرور ہوئے لیکن خوف دہشت گرد اس کی وجہ سے انسان نے اسلام قبول کرنے کے لیے کسی کو نہیں دیکھا ایک اور بات جو خاص ہوتا ہے آج کل قابل اعتراض بنی ہوئی ہے ہے حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی ایک حدیث ہے جو پیش گوئی کی ہے شعبہ تعلیم میں امتیاز ایسے ہیں جن پر اللہ تعالی نے ان کو حرم کرے گاآپ یہاں غزوۃالہند کے نام سے مختلف قسم کی باتیں ہوتی ہیں ہیں عربی زبان میں سے نکلا ہے جس کے معنی ہونے روانہ ہونا تبلیغ خود بھی روانہ ہوتی ہے ان کی طرف روانہ ہوں گے ان مسلمانوں نے غلط ہے یہ عمر حاصل ہوتی ہے اس کی طرف روانہ ہوں گے آگے ان مسلمانوں نے غلط فہمی سے لیا بادشاہ حالانکہ یہاں یہ مرا اصل حقیقت جو ہے وہ یہ کہ وہ صوفیا کا وہ بزرگوں کا اولیاء اللہ کا درخت جو کہ ہندوستان میں آیا اور ان تبلیغ کی اور سب سے پہلے یہ ساتویں صدی ہجری میں حضور صلی وسلم کے زمانے میں ہی سب سے پہلے یہ وفد مالابار کا علاقے میں آیا تو جاھل لوگ تھے ان کی نیک نمونے کو دیکھ کر اس علاقے کے بہت سے لوگ مسلمان ہوئے شمالی بنگلہ دیش تک نظام الدین اولیاء معین الدین چشتی جلال الدین صاحب خواجہ گنج بخش اور بہت سارے لوگ مسلمان ہوئے یہ ہے وہ غزوہ جس میں حضور نے پیش گوئی کی تھی کہ یہ وہ صوفیا بزرگان اولیاء امت کا گروہ ہے یہ وہاں تبلیغ کرے گا اللہ تعالی نے ان کے علم میں ہے اور دوسرا گروہ عیسیٰ ابن مریم اور عیسی بن مریم کے بارے میں حضور سانحہ واضح طور پر فرمایا نہیں ہوتی وہ بھی تبلیغ کے ذریعہ سے لوگوں کو اسلام کا قائل کرے گا اور اسلام میں اس کی تبلیغ سے لوگ اسلام میں داخل ہوں گے تو اسلام نے کبھی بھی زور زبردستی سے کسی کو مسلمان بنانے کی طرف نہ تو حضور کا حکم ہی نہ ایک مثال ملتی ہے ایسی کہ کسی کو زبردستی اسلام میں داخل کیا گیا بلکہ یہ حضور نے فرمایا کہ سب سے پہلے یہ ہے کہ جسے پیار سے نیک اخلاق سے ان کو سمجھایا جائے اور سمجھانے کے نتیجے میں اگر وہ مثل مسلمان ہوتے ہو بات کی بات ہے لیکن کسی سے زور زبردستی کر کے اس نے یہی فرمایا اور یہی تعلیم دی بار بار اور یہی لوگوں کو بتایا کہ دیکھو اس زمانے کے اندر یہ جہاد وغیرہ حرام ہے آپ بولتے ہو تم یاد اول حرف کی خبر کیا یہ نہیں بخاری میں دیکھو تو خیال کر فرما چکا ہے سید کونین مصطفی ایسی جنگوں کا کر دے گا البتہ یہ التجا یہی تعلیم ہے جو اس زمانے میں نافذالعمل اور قابل قبول حل شدہ کے ساتھ آج میں ایک بار صاحب کی خدمت میں پیش کرتا ہوں جس میں حضور فرماتے ہیں قرآن میں صاف حکم ہے کہ دین کے پھیلانے کے لیے تلوار تلوار مت اٹھاؤ اور دین کی ذات خوبیوں کو پیش کرو اور نیک نمونوں سے اپنی طرف کھینچ و اور یہ خیال کرو کہ ابتداء میں اسلام میں تلوار کا حکم ہوا کیونکہ وہ تلوار دین کو پھیلانے کے لیے نہیں لکھی گئی تھیں بلکہ دشمنوں کے حوالے سے اپنے آپ کو بچانے کے لئے اور یا امن قائم کرنے کے لیے کھینچی گئی تھی مگر دین کے لیے جبر کرنا کبھی مقصد نہ تھا اتنا زرین جہاد جو کہ اسلام کے حوالے سے جہاد کا کیا حقیقی مفہوم ہے اس سے ہم اپنے آئندہ کے پیسوں کی بات کریں گے محفل قرآنی آیات ہیں جس کے حوالے سے اکثر حصہ میں سننے کو ملتا ہے ان آیات کی صحیح تفسیر آپ کے سامنے پیش کریں گے اسی طرح جہاد کی مختلف قسمیں ہیں اس کے حوالے سے بھی ہم قرآن مجید کی آیات کی روشنی میں اور حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی روشنی میں آپ کی خدمت میں تفصیل پیش کریں گے ہمارا ایپیسوڈ مورخہ 24 اگست 2019 کے کے دن انڈین کے مطابق رات کے ساڑھے نو بجے اور جی پی کے مطابق سہ پہر چار بجے قادیان دارالامان سے ہم آپ کی خدمت میں پیش کریں گےاور تسلی کم بتایا ہم نے