Rahe Huda – Bibile Men Muhammad PUBH Ki Peshgoian
Rah-e-Huda – 21st September 2019
Rahe Huda – Bibile Men Muhammad PUBH Ki Peshgoian – Frankfurt Germany
اس نے والوں جا سم سم سورنا بن کر سکتے ہیں اور آپ علیہ السلام کے علماء کے صدر جناب آپ کو چاہتے ہیں تو رابطہ کی تفصیل ہے وہ پروگرام کے دوران حکومت مسلسل اپنی پر یہاں دکھائی جاتی رہے گی ہمارے ساتھ ہمارے مہمان اور آج کے اس پروگرام میں سازشیں کی گفتگو مقرر شاکر صاحب ہیں اور اسی طرح سے مکرمہ فیصلہ فرما صاحب اسلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ ہمارے پروگرام کا مقصد یہی ہے کہ ہم آپ کو اسلام احمدیت کی حقیقی تعلیم سے متعارف کر سکیں آپ کے ذہنوں میں جو بھی سوال ہو بانی جماعت احمدیہ حضرت مرزا غلام احمد قادیانی علیہ السلام کے بارے میں آپ کی تعلیمات کے بارے میں آپ کے عقائد کے بارے میں تو آپ کے لئے کرتا ہوں کہ آپ رابطہ کر سکتے ہیں اس کی تو انشاءاللہ کوشش کریں گے آپ تک پہنچائیں اور براہ راست آپ کے فضل سے احمدی مسلمان ہیں وقت کے مسیح حضرت مرزا غلام احمد قادیانی علیہ السلام کو پہچانا ہے آپ کو ماننا ہے کیا ہے اور اس کا حکم ہم سب کے پیارے نبی اے مرتبہ رکھنے والے ہر خاتون نبی حضرت محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وسلم نے خود ہمیں دیا تھا تو حضرت محمد صلی علیٰ میں آپ کے دین کی خدمت کے لیے آپ کے دین کی اشاعت کے لیے اللہ تعالی نے آپ کو اس دور میں مسیح موعود علیہ السلام اور بنا کر امی بھی بنا کر مبعوث کیا ہے اور اپنی بعثت کے مقصد کے متعلق حضرت مسیح موعود علیہ السلام فرماتے ہیں وہ آپ کی خدمت میں پیش کر دیتا ہوں ہیں کہ وہ خدا جو زمین وآسمان کا خالق ہے وہ مجھ پر ظاہر ہوا ہے اور اسی نے اس آخری زمانے کے لیے مجھے مسیح موعود کیا ہے اس نے مجھے بتایا ہے کہ سچ یہی ہے کہ یہ سوال بھی مریم خدا خدا کا بیٹا ہے اور اس نے میرے ساتھ ہم کلام ہو کر مجھے بتایا کہ وہ نبی کریم حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم وہ نبی جس نے قرآن شریف پیش کیا اور لوگوں کو اسلام کی طرف بلایا وہ سچا نبی ہے اور وہی ہے جس کے قدموں کے نیچے نجات ہے اور میرے خدا نے اس نبی کی وہ رحمت میرے پر ظاہر کی تو میں کال اٹھا اور میرے بدن پر لڑنا پڑ گیا کیونکہ جیسا کہ حضرت حسن کی تعریف میں لوگ حد سے بڑھ گئے یہاں تک کہ ان کو خدا کا خدا بنا دیا اسی طرح اس مقدس نبی کا لوگوں نے درست نہیں کیا جاسکتا کہ کس شناخت کرنے کا تھا اور جیسا کہ چاہیے لوگوں کو اب تک اس کی عظمتیں معلوم نہیں وہ نبی ہے جس سے توحید کا تخم کے طور پر بیان جو آج تک ظاہر نہیں ہوا وہ ایک نبی ہے جو ایسے وقت میں آیا جب تمام دنیا بھر گئی تھی اور ایسے وقت میں گیا جب ایک سمندر کی طرح توحید کو دنیا میں پھیلا دیااور آپ کا جو سندھ کی صداقت ہے روز روشن کی طرح ساری دنیا پر چھایا ہوا تو ہمارے اس پروگرام میں ماریا سیریز میں بھی ہمیں کوشش کر رہے ہیں کہ ہم محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وسلم کی سزا کے متعلق گفتگو کریں اور خاص طور پر وہ پہلو جو علم غیب سے تعلق رکھتا ہے تو ہمارے پیارے آقا ہم نے پشاور میں بھی اس بارے میں گفتگو کی تھی آپ صلی اللہ وسلم کی آمد کو اتفاق احمد نہیں تھی بلکہ خدا تعالیٰ نے پہلے سے ہی آپ سے متعلق ایسے خبریں دے دی تھی ایسی پوسٹیں ہیں کچھ پیش ہوئے اور کچھ باتیں کتب میں مختلف کتب میں بھی آ گئی تھی جو کہ مقدس آیا تو انشاءاللہ کچھ باتیں شروع کر دیں ثابت ہوتی ہے تو سب سے پہلے خاکسار مکرم شادی میں سب سے خاص کرے گا اللہ تعالیٰ قرآن مجید میں فرماتا ہے اس کے بارے میں کیا جناب مکتوبا عندہم تورات انجیل اور تورات تورات کا ذکر آتا ہے تو دوسری کتب کے مقابلے پر نسبتاً زیادہ محفوظ بھی چلی جاتی ہے بہت باتیں میں موجود ہیں ہمارے پروگرام ہے آپ نے کتاب جو ہے اس کی ہے جسے آپ نے رحیم نے قرآن کریم کی آیت پڑھی ہے ہے کہ یہ دونوں انجیر کے تورات اور انجیل دونوں میں اس کو لکھا ہوا پاتے ہیں اور اس سے پہلے بھی ہم ذکر کر چکے ہیں مختلف پیشوں سے روکا لیکن وقت کے حساب سے میں ایک پیشگوئی کاج اور ذکر کرنا چاہوں گا یہ تورات میں موجود ہے کہ اللہ تعالی نے حضرت موسی علیہ السلام کو یہ بات بتائی تھی اور اس نے کہا کہ خداوند سینا ذرائع سے ان پر طلوع ہوا اور فاران کی کے پہاڑوں سے اُن پر جلوہ گر ہوا دا ہزار قدوسیوں میں سے آیا آیا اور اس کے ہاتھ میں 18 شریعت یہ بات یہ ہے کہ انبیاء علیہم السلام کے جوتے ہیں وہ خدا تعالی کی تجلیات کے مظہر ہوتے ہیں تو یہاں پر جو پیش گوئی کی گئی ہے کہ اللہ تعالیٰ انہیں خدا آیا اس کا مطلب یہ ہے کہ خدا تعالی کی تجلی کے کچھ مظہر ہیں یہاں تین مذاہب کا ذکر کیا گیا ہے جن سے اللہ تعالی کی صفات ظاہر ہونی تھی ایک جلوہ سینا کے مقام پر آنا تھا ظاہر ہونا تھا ایک شہید کے مقام پر اور ایک فارم کے مقام پر اب جہاں تک سنا ہے اس سے مراد ورثہ اردو ہی فیصلہ حضرت موسی علیہ السلام کو نبوت ملی تھی اور اللہ تعالی نے اپنی تجلی کا اظہار حضرت موسی علیہ السلام پر کیا تھا تھا تو یہ پہلی تجلی جو تھی اس سے مراد حضرت موسی علیہ السلام کا اپنا ظاہر ہونا تھا کہ وہ جو تجلی ظاہر ہونی تھی وہ سنا کے پہاڑ سے شروع ہوئی تھی وہاں سے ظاہر ہوئی تھی اور وہاں بائبل میں بھی ہے کہ خداوند جل و علا کی چوٹی پر نازل ہوا مراد یہ تھا کہ وہ اس کا کلام نازل ہونا شروع ہوا تو ایک تو پہلا جو اللہ تعالیٰ کی تجلی کا مظہر تھا وہ حضرت اقدس مسیح علیہ السلام تھے اور دوسرا جو خدا تعالیٰ کا ظاہر ہونا تھا جو اس پیشگوئی کے اندر جس کا ذکر ہے وہ ہے شاید کا علاقہ سیر وہ مقام ہے جس کے آس پاس حضرت عیسی علیہ السلام اور حضرت عیسیٰ علیہ السلام ظاہر ہوئے اور آپ کے معجزات ظاہر ہوئے ہیں یہ فلسطین کا شمال مشرقی علاقہ فلسطین کا حصہ ہیں اور یہاں شیئر سے اللہ تعالی کے ظاہر ہونے کا مطلب یہ ہے اللہ تعالی کی فرمایا تھا کہ وہ فار انہی کے پہاڑوں سے آنے پر جلوہ گر ہوا اور یہ لہریں خاران کے علاقے میں جو آنے والا تھا یہ حضرت محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وسلم کے بارے میں تھا جو ہے یہ اس سے مراد مکہ اور مدینہ کے درمیان جو پہاڑی علاقہ ہے اس کو کہتے ہیں یہ عرب کا یہ حجاز کا علاقہ ہے اور میں بھی ظاہر ہے کہ حضرت اسماعیل علیہ السلام قرآن میں آ کر آباد ہوئے تھے جہاں جب حضرت اسماعیل علیہ السلام کو اور آپ کی والدہ کو حضرت ابراہیم علیہ السلام چھوڑ کے گئے ہیں تو بائبل بھی یہ ظاہر کرتی ہے کہ وہ علاقہ وہ فاران کے بیابان میں گئے اور وہاں ان کو چھوڑ کے آئے طوفان کے بیان میں اگر حضرت اسماعیل علیہ السلام کو چھوڑا تھا تھا تو اس کا مطلب یہ ہے کہ حضرت اسماعیل علیہ السلام کی اولاد ہے وہ ان کے علاقے میں اضافہ اور یہ علاقہ جو ہے یہ عرب کا علاقہ سا مطلب یہ تھا کہ وہ عرب کے علاقے میں آنے والا آئے گا اور پھر اس کی 12 نشانیاں بیان کی گئی تھی وہ یہ کہ وہ دس ہزار قدوسیوں کے ساتھ رہے گا اور یہ اب آج کل اس کو چیلنج کر دیا گیا ہے بائبل میں جو نیا ایڈیشن آرہے ہیں اس میں تبدیل کرکے اس کو لاکھوں میں سے آئے گا کر دیا گیا ہے لیکن اگر پرانے ایڈیشن دیکھیں وہ آپ اردو کا آڈیشن پرانہ دیکھ لیں میں نے 1883 کیشن دیکھا ہے پرانے ایڈیشن جرمن زبان میں دیکھ لیں انگلش زبان میں دیکھنے کو انگلش میں 35 ہزار لکھا ہوا ہے اردو میں بھی دس ہزار لکھا ہوا ہے اب پتا نہیں ہے لیکن حقیقت یہ ہے کہ دس ہزار رہی ہے اور حضرت محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وسلم نے مکہ فتح کیا ہے اور مکہ والوں کی شرارتوں کے نتیجے میں بالآخر آپ کو مکہ پر چڑھائی کرنی پڑی تو آپ کے ساتھ دس ہزار کا لشکر تھا اور یہ تعداد جو لشکر کے یہ آپ کے مخالفین بھی تسلیم کرتے ہیں کہ اس کا مطلب یہ تھا کہ مکہ کے پہاڑوں میں وہ جو نبی آئے گا جو خدا تعالیٰ کی عظیم الشان تجلی کا مظہر ہو گا اس کے ساتھ دس ہزار کو دوسری ہوں گے اور وہ دس ہزار فتح مکہ کے موقع پر حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ تھے پھر یہ بتایا گیا تھا کہ اس کے ہاتھ میں ہاتھ شریعت ہوگی یا نہیں اس کا مطلب یہ تھا کہ وہ پچھلی شریعت کی پیروی نہیں کرے گا بلکہ وہ نئی شریعت لے کر آئے گا اور مکمل شریعت لے کر آئے گا جو پہلی شریعتوں سے بہت زیادہ روشن اور اجلی ہوگی یہ شریعت حضرت محمد مصطفی صلی اللہ وسلم کو ملی ہے تو چراتے یہ جو پیش گوئی ہے اس کے اندر سے مراد حضرت موسی علیہ السلام کا اظہار ہے جو اللہ تعالی نے آپ کے ذریعہ سے تجویز فرمائیں اور شہید سے مراد حضرت عیسی علیہ السلام ہیں اور ان کے علاقے میں جلوہ اللہ تعالی کا ظاہر ہوا کہ حضرت محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وسلم ہیں جو مکہ فتح کے موقع پر دس ہزار قدوسیوں کے ساتھ ہے اور آپ کے ہاتھ میں اچھی شہرت تھی اور نئی شریعت اور طریقت شریعت لے کے آپ کے ہوئے تو یہ پیش گوئی واضح کرتی ہے کہ حضرت محمد مصطفی صلی اللہ وسلم کے بارے میں بیان کی گئی ہیں ان کو بھی مناسب محفوظ رکھے تو یہ باتیں صرف محسوس ہوتی ہے اور یہ چیزیں سامنے آتی ہے کہ کس طرح سے یہ کوشش ہے بھیا سامان بھی ساتھ چلتی رہی ہیں کہ یہاں کوئی بات زیادہ واضح رسول کے متعلق بائبل میں لکھی جائے یا کسی بھی موجود ہوں کہ صرف ان پر تحقیق کی جاتی ہے کو مٹانے کی کوشش کی جاتی ہے اللہ کے فضل سے بہت سی ایسی نشانی ہے یار مٹایا نہیں جا سکتی اور ایسی باتیں جو ہمیں بھی مل جاتی ہے بات کر سکتے ہیں تو ہم آگے چلتے ہیں مکرمہ فضل الرحمان صاحب آپ سے خاص خاص کرے گا بھی شاہ صاحب نے ایک دوسری مزید پیشگوئی بیان کی اسی طرح سے علی علیہ السلام کے متعلق بیان کا چلتا ہے کہ خود کی خبر دیتا ہے کہ آپ نے کھانے والے نبی نے احمد کے نام سے بھی اور کے متعلق خبر دی تھی کہ وہ آئیں گے اور دوسری قسم کے بارے میں تو انجیل ہیں وہ آپ کے زمانے کی نہیں ہے اور تو نہیں ہے لیکن پھر بھی ایسی باتیں ابھی تک موجود ہیں جن سے ہم باز طور پر یہ ثابت کرسکتے ہیں نظر بھی آتے ہیں اس وجہ سے خبر دے رہے ہیں تو اس حوالے سے آپ کے سامنے آپ کوئی ایک دو باتیں کرتے ہیں اللہ جیسے آپ نے کہا کہ انجیل میں بھی ایسی پیش گوئیاں ہیں جو حضرت عیسیٰ علیہ السلام پر تو وہ نہیں پوری ہوتی لیکن حضرت عیسی کے بعد آنے والے موت کے بارے میں جو حدیثیں بیان کرتے ہیں ان کے بارے میں وہ پوری ہوتی ہوئی نظر آتی ہیں وقت کی مناسبت سے ایک دوسرے مختصر سے پیش گوئیاںاور اس سے پوچھا کہ آپ کون ہے کیا آپ مسیحی تو اس نے کہا نہیں تو پھر انہوں نے کہا کہ آپ کون ہے کیا آپ الیاس ہیں تو نے کہا نہیں پھر انہوں نے کہا کیا آپ وہ نبی ہیں تو نے اس کا جواب دیا نہیں اب اس کا مطلب یہ ہے کہ یہود کے اندر تین مختلف شخصیات کا حضرت موسی کی شریعت کے مطابق انتظار ہورہا تھا ایک الیاس آسمان سے اتریں گے دوسرا مسیح کا اور تیسرا وہ نبی جس کا حضرت موسی نے وعدہ کیا تھا کہ وہ جیسے مشاہدہ بھی بتایا کہ وہ آتشی شریعت کے ساتھ آئے گا ایک اس نبی کا انتظار کیا جارہا تھا اب جہاں تک الیاس کم تعلقات جب ہم دل کا مطالعہ کرتے ہیں اس سے مراد وہ حضرات جو ہے جیسا کہ حضرت عیسی علیہ الصلوۃ والسلام نے واضح طور پر فرمایا کہ وہ الیاس جو ہے وہ یہی اچھا ہو تو اسے قبول کر لو اور دوسری جگہ پر تاثراتی کہ الیاس تو آچکا مگر تم نے اسے قبول نہیں کیا تو اس کے بارے میں تو حضرت عیسیٰ علیہ السلام نے خود سے ان کے سوال کا جواب دے دیا حضرت مسیح علیہ الصلاۃ والسلام جو ہے وہ نئے عہدنامہ کے مطابق وہ حضرت عیسی بن مریم وہ آ چکے اب وہ نبی جو ہے وہ غلطی سے پہلے کوئی نہیں آیا اب ایک ہی ایسا نہیں جس نے نبوت کا دعویٰ کیا ہے وہاں حضور صلی اللہ علیہ وسلم ہے اس کے علاوہ کوئی اور نہیں ہے اس لیے اس پیشگوئی کے مطابق وہ نبی جو ہے وہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم بنتے ہیں کیونکہ آج تک ان کے علاوہ کسی نے نبوت کا دعوی نہیں کیا دوسری ایک اور پیش گوئی ہے یوحنا باپ کی ہے کہ اس میں حضرت یوسف نعتیں لیکن وہ تسلی دینے والا جو روح القدس ہے جسے باپ میرے نام پر بھیجے گا اور وہ سب کچھ تمہیں سکھلائے گا اور جو کچھ میں نے تمہیں کہا ہے وہ تمہیں یاد آئے گا پہلے تو یہ بات ہے کہ حضرت فرما رہے ہیں کہ وہ میرے نام پہ میرے نام سے مراد یہ ہے کہ وہ آنے والا میری تصدیق کرے گا حضور صلی اللہ علیہ وسلم تشریف لائے ہیں اور قرآن کریم نے حقیقت میں حضرت عیسی علیہ السلام کی تصدیق کی ہے اور فرمایا کہ وہ لعنتی نہیں تھے وہ خدا تعالیٰ کے ایک سچے نبی تھے خدا تعالیٰ نے انہیں مبعوث کیا تھا یہ قرآن کریم اور آنسو سلم کے علاوہ حضرت عیسیٰ علیہ السلام کس طرح تصدیق نہیں ملتی رہی یہ بات کہ حضرت عیسیٰ کی بات کی کہ وہ تمہیں سب کچھ نکل آئے گا اسی اثنا میں حضرت عیسیٰ علیہ فرماتے ہیں کہ اب میں کچھ اور بھی باتیں ہیں میں تمہیں نہیں بتا سکتا کیونکہ تمہیں ابھی تک انہیں برداشت کرنے کی مقدرت نہیں لیکن جب وہ یہاں آئے گا وہ شخص نے پچھلی دفعہ استثنا باب کی وہ بات ہوئی تھی جب وہی آقا وہی تمام سچائی کی راہ دکھائے گا خود کہا کہ وہ ساری باتیں آپ کو نہیں بتا سکتا نہ تم نے برداشت کرنے کی قدرت ہے یا عذرتنی فرما رہے ہیں کہ وہ تمہیں سب کچھ کھائے گا اس کا مطلب یہ ہے کہ حضرت عیسیٰ علیہ الصلاۃ والسلام خود ہی مراد نہیں ہے بلکہ حضرت عیسی کے بعد ایک ایسے عظیم الشان نبی کی پیشگوئی فرما رہے ہیں کہ وہ تمام چیزیں جو اس وقت اس کی امت میں وہ ان کے سیکھنے کے اس مرحلے تک نہیں پہنچے تھے وہ بعد میں ایک ایسی شخصیت میں ایسا عظیم الشان نبی نے آنا تھا وہ تمام باتیں اور ادھر تازہ صلی اللہ علیہ وسلم نے وہ کامل شریعت لے کے آئے جب وہ شریعت نازل ہوئی اس سے باہر کوئی بھی چیز نہیں ہے ٹھیک ہے انشاء اللہ آگے بھی اگلے پروگرام میں بھی اس حوالے سے کچھ گفتگو کریں گے کوئی اور بھی باتیں ہیں تو ابھی میں دیکھ رہا ہوں کہ میرے ساتھ کال بھی ہیں فضل الرحمن صاحب بنگلہ دیش سے جو باقاعدگی سے ہمیں کال کرتے ہیں پیش کرتے ہیں تم کو صنم لیتے ہیں پھر بعد میں پروگرام کے دوران انشاء اللہ آپ کا جواب بھی دے دیں گے جی اردو زبان سبحان اللہوہ پوچھتے ہیں کہ حضرت آدم علیہ السلام حضرت ابراہیم علیہ السلام کے بیٹے تھے تو ایسا ہے تو اس کے خلاف عقیدہ رکھتے ہیں تو ہم کس طرح سے اس بات کو ثابت کرسکتے ہیں کہ وہ اس میں علیہ السلام بھی آپ بڑے بیٹے تھے جہاں تک بڑے بیٹے ہونے کا تعلق ہے بائبل سے بھی اور قرآن کریم سے بھی دونوں سے یہ بات واضح طور پر عیاں ہوتی ہے کہ حضرت اسماعیل علیہ السلام بڑے تھے اور حضرت اسحاق علیہ السلام حضرت ابراہیم علیہ السلام کے چھوٹے بیٹے تھے بائبل کا مطالعہ کرتے ہیں تو پہلی کتاب ہے بائبل کے اندر پیدائش اس کتاب کا مطالعہ کریں تو دونوں ان دونوں بیٹوں کی پیدائش کا واقعہ ذکر آپ کو ملتا ہے تو پیدائش باب 16 کو دیکھیں تو وہاں حضرت اسماعیل علیہ السلام اسلام کی پیدائش کا ذکر ہے اور ساتھ ان کی پیدائش کے حضرت ابراہیم علیہ السلام کی عمر کا بھی ذکر کیا گیا ہے کہ جب حضرت اسماعیل علیہ السلام پیدا ہوئے پیش گوئیوں کے مطابق اور خوشخبری کے مطابق حضرت ابراہیم علیہ السلام کی عمر اس وقت سیاسی سال تھی کہ کسی بھی تھے حضرت اسماعیل علیہ السلام پیدا ہو رہے ہیں اس وقت حضرت ابراہیم علیہ السلام کی عمر تراسی سال تھی اور اس کے بعد پھر آگے جائیں پیدائش کے باپ 21 میں حضرت اسحاق علیہ السلام کی پیدائش کا ذکر ہے اور وہاں یہ ذکر واضح طور پر موجود ہے کہ جب حضرت اسحاق علیہ السلام پیدا ہوئے ہیں تو حضرت ابراہیم علیہ السلام کی عمر سو سال تھی یہاں سے آپ دیکھ لیں واضح ہوجاتا ہے بائبل سے ہیں کہ پیدائش باب 16 دیکھیں تو وہاں ذکر ہے کہ حضرت اسماعیل علیہ السلام کی پیدائش کے وقت حضرت ابراہیم کی عمر 86 سال اور پیدائش باب 21 دیکھیں تو وہاں لکھا ہوا ہے کہ جب حضرت اسحاق علیہ السلام پیدا ہوئے تو اس وقت حضرت ابراہیم کی عمر ہے سو سال تو اس کا مطلب یہ ہوا کہ حضرت اسماعیل علیہ السلام حضرت اسحاق علیہ السلام سے کم از کم چودہ سال بڑے تھے اور بائبل ہی ثابت کر رہی ہے کہ 14 سال بڑے تھے پھر اس کے بعد پیدائش باب 17 میں آئے جہاں حضرت اسحاق علیہ السلام کی پیدائش کی پیش گوئی کی گئی ہے خوشخبری دی گئی ہے وہاں یہ ذکر ہے کہ حضرت ابراہیم علیہ السلام کو جب خدا تعالی کے فرشتے دھونے خوشخبری دی کہ آپ کے ہاں بیٹا ہوگا تو اس وقت حضرت ابراہیم علیہ السلام حیران ہوئے کہ میری عمر سو سال ہو چکی ہے اور میں یہ بیوی سارا حضرت سارہ علیہ السلام کے بارے میں فرمایا کہ اس کی عمر 90 سال ہو چکے ہیں کیا آپ ہمارے ہاں بیٹا ہوگا تو یہ انہوں نے حیرانگی کا اظہار کیا اور اس کے ساتھ فرمایا حضرت علی رضی اللہ تعالی سے دعا کی کہ کاش ابراہیم ہیں تیرے حضور جیتا رہے تھے کاش اسماعیل ہیں تیرے زور دیتا ہے یعنی اس وقت جب حضرت اسحاق علیہ السلام کی پیدائش کی خبر دی جا رہی ہے حضرت ابراہیم علیہ الصلاۃ والسلام حیران بھی ہوتے ہیں اور ساتھ دعا بھی کرتے ہیں کہ ہمارے لئے تو باقاعدہ عملی یہ تھی کہ حضرت اسماعیل علیہ السلام جیتے رہیں ظاہر کیا ہوا کہ اس وقت حضرت اسماعیل علیہ السلام موجود تھے جب حضرت اسحاق علیہ السلام کی پیدائش کی خوشخبری دی جارہی تھی اور دوسرا اس دعا کے اندر سے یہ بھی ظاہر ہو رہا ہے کدھر حضرت ابراہیم علیہ السلام نے فرمایا کے معنی عرض کیا خدا کے حضور کے اسماعیل ہیں تیرے حضور دیتا رہے تو اس میں ظاہر ہوتا ہے کہ آپ کے اسماعیل علیہ السلام بڑے تھے یا حضرت اسحاق علیہ السلام چھوٹے تھے اور اس وقت جب پیش گوئی کی خبر دی گئی اس وقت اسماعیل علیہ السلام موجود تھے آج کا موسم 14 سال آپ کی عمر حضرت اسحاق علیہ السلام سے بڑی ہے پھر دوسرا قرآن کریم سے جب دیکھیں قرآن کریم کو کا مطالعہ کرتے ہیں تو سورہ صافات میں یہ ذکر آتا ہے تو رات میں اللہ تعالی فرماتا ہے کہ ہم نے حضرت ابراہیم علیہ السلام کو ایک بیٹے کی شادی ایک غلام کی شادی اب جب بیٹے کی بشارت دی تو اس کے بعد پھر اس بیٹے کے ذریعہ آزمائش کا ذکر بھی اس کے آگے آ گیا کہ اس کی قربانی کو ذبح کرنے کا حکم دیا گیا ذبح کے بعد پھر جو کچھ جہد کرنے لگے تو حضرت ابراہیم علیہ السلام کو خدا تعالی نے فرمایا کہ ہر کجا تو اپنی رائے کو پہلے ہی پورا کر چکا ہے ہے تو اس کا مطلب یہ ہے کہ وہ بیٹا جس کی قربانی کا ذکر قرآن کریم کی سورت کے مطابق وہ اس وقت موجود تھا اور اس کے بعد پھر اگلا ذکر آتا ہے کہ ہم نے اس کو پھر اسحاق کی خوشخبری دی یعنی پہلے جس کے ذبح ہونے کا تھا وہ پہلے موجود تھا پہلے اس کو خوشخبری آئی پھر وہ ذبح ہونے کا واقعہ ہوا وہ یہ بات ہم نے کے بعد حضرت اسحاق علیہ السلام کی خوشخبری دی گئی ہے بالکل بائبل کے مطابق ہے کہ وہاں بھی بڑا بیٹا اسماعیل ثابت ہو رہا ہے اس کے بعد حضرت اسحاق علیہ السلام کی پیش گوئی کی جا رہی ہے اور ان کی خوشخبری دی جائے قرآن کریم کی سورہ صافات میں یہ بیان فرمائی ہے کہ پہلے ایک بیٹا پیدا ہوا اس کی خوشخبری دی گئی پھر اس کے ذریعہ سے آزمائش ہوئی وہ آزمائش حضرت ابراہیم علیہ السلام نے پوری کی اس کے بعد حضرت اسحاق علیہ السلام کی پیشگوئیاں اللہ تعالی بیان آئے صافات آیت نمبر 113 سے آگے کا واقعہ ہے پھر اس کے ساتھ ساتھ ایک اور چیز دیکھنے کے قابل ہے وہ صرف سورہ ھود آیت نمبر 72 اس میں دیکھیں تو جب حضرت اسحاق علیہ السلام کی بشارت دی جارہی ہے تو اس کے ساتھ ساتھ پھر حضرت یعقوب علیہ السلام کے بارہ دی جارہی ہے بچہ نہ حاکموں رائے اسحاق کا یہی قول ہے اس کو اسحاق کی بشارت دی اور اسحاق کے بعد یعقوب کی بشارت دی یعنی جہاں بیٹے کی بشارت دی گئی ہے وہاں پوتے کی بھی ساتھ شادی کا حصہ ایک بیٹا ہوگا جو پودے کی بشارت دی گئی ہے تو یہاں سے اگر حضرت اسحاق علیہ صلاۃ و سلام کے ساتھ ہوتے کی بشارت دی گئی تو اس بیٹے کو ذبح کرنے کا کہنے کے لیے کوئی بنتا نہیں ہے سمجھ نہیں بنتی ہے اس کا مطلب ہے جو وہ جس کو ذبح کرنے کا حکم دیا تھا وہ پہلے جیسا کہ سورہ صافات میں گزر چکا ہے پہلے واقع ہو چکا تھا ورنہ جس کو پیدا ہونے کی بشارت بھی جاری ہے اور پھر آگے اس کا بیٹا ہونے کی بشارت دی جا رہی ہے اس کو ذبح کرنے کا طریقہ بتا نہیں ہے ہے نہیں بنتی تو یہ زیبا کرنے کا حکم بتا رہا ہے کہ اس سے پہلے حضرت اسماعیل علیہ السلام کا واقعہ ہو چکا تھا اور حضرت اسمٰعیل علیہ وسلم بڑے تھے موجود تھے تو یہ بائبل اور قرآن کریم دونوں سے ثابت ہے کہ حضرت اسحاق نے بڑے نہیں تھے بلکہ حضرت اسمٰعیل علیہ السلام حضرت ابراہیم علیہ السلام کے بیٹے تھے جزاک اللہ بہت شکریہ حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم حضرت اسماعیل علیہ السلام کی نسل میں سے تھے اور یہ کوشش کب ادا کی جاتی ہے کہ اس میں آجائے گی تو پھر بھی جائے تو کیا ہے ایسی بہت سی باتیں ہیں جو نشان دہی کرتی ہیں کہ رہے تھے آپ آگے چلتے ہیں اور یہ جو کتب میں اس کے بارے میں دہی تھے وہ نامعلوم نہیں تھی بلکہ ان کا علم آپ رسول کی قسم کے دور میں بھی خاص طور پر تھا اور وہ سب باتیں سینہ بسینہ روایات کے طور پر بھی آگے جاتی رہی تھی اور جب وہ قریب آیا تو اس کا چرچا بھی ہوتا تھا توقع نہیں تھی کہ وہ انبیاء مبعوث ہونے والا ہے تو اس حوالے سے ہمارے پیچھے پروگرام میں آپ کے سامنے چند ایسے واقعات رکھے گا ایسے لوگوں کے بارے میں باتیں کی شخصیات کے بارے میں کتنا پیار تھا کہ اس ویڈیو کو پہچان لیا تھا تو بہت سارے ایسے واقعات ملتے ہیں یہود میں بھی اور نصاریٰ میں بھی اور باقی لوگوں کو بھی اللہ تعالی خواب کے ذریعہ اور دوسرے ذرائع کے ذریعے لوگ اس وقت بعض وسلم کی بعثت کا زمانہ تھا لوگ آپ کی پوسٹ کا انتظار کر رہے تھے اور خدا تعالیٰ ایسےہے کہ از اور صلی اللہ علیہ وسلم کی پیدائش تقریبا ڈیڑھ سو سال قبل ایک یمن کا حاکم تھا جس کا نام ربیعہ بن نصر تھا اور اس کو ایک خواب ہیں جو بہت ہی اسے وہ کونسا تھا اور بہت برا ہوا تھا اس نے اپنے ملک کے کسی نجومی کسی خواب کی تعبیر جاننے والے کو نہیں چھوڑا جسے اس نے اس کے بارے میں پوچھا نہ ہو لیکن کوئی بھی اس کو نہ کر سکا بالآخر اس کو کسی نے بتایا کہ یہاں دو بڑے مشہور کتاب تعبیر رویا جانے والے ایک گانا مستی اور شیخ یہ دو ایسے شخص ہیں کہ آپ کی خاطر بارے میں بتا سکتے ہیں کہ ان دونوں کو بلایا گیا سب سے پہلے اس نے سختی سے پوچھا اور کہا کہ میں ایک خواب دیکھے جس نے میری راتوں کی نیندیں حرام کر دی ہیں اور وہ میں خواب اس لیے نہیں بتا سکتا کہ اگر میں بتاؤں گا جو تم اس کی تعبیر بتاؤ گے تو اس سے مجھے اطمینان نہیں ہوگا پہلے مجھے خواب بتاؤ اگر وہ خواب حقیقت ہے تو پھر تعبیر بھی تمہاری درست ہو گئی تو اس نے کہا کہ ہاں بالکل میں بتاتا ہوں دیکھی ہے کہ ایک شعلہ نکلا ہے جو اندھیرے میں پھیل گیا ہے اور وہ نشیبی زمین پر گرا ہے اور تمام جاندار جتنی بھی چیزیں تھی زمین پر وہ سب کو کھا گیا ہے اس نے کہا خدا کی قسم بہنیں ہیں میں نے کہا ہے کہ اس نے اس سے تعبیر پوچھی تو اس نے کہا کہ تیرے ملک پر سیاہ فام لوگ قبضہ کریں گے اس کو اس بات پر تعجب ہوا کہ کیا میرے دور میں ہی ایسا ہو گا تو اس نے کہا نہیں 60 سے 70 سال بعد تمہارے بعد یمن پر سیاہ فاموں کا قبضہ ہو جائے گا پھر اس نے کہا کہ کیا وہ مستقل رہیں گے اس نے کہا نہیں بلکہ ایک ایسی آپ کے منہ سے یہ ایک شخص ذی یزن عدن سے وہ خروج کرے گا اور اس کی حکومت کی حکومت کا خاتمہ کرے گا اور پھر وہ دوبارہ حکومت قائم کرے گا اس کا کیا پھر اس کی حکومت قائم رہے گی تو اور اس نے کہا کہ نہیں اس کی حکومت بھی ختم ہوجائے گی اور اس کی رومی حکومت کا خاتمہ ایک نبی کے ذریعے ہوگا جو خدا تعالی سے وہی باقر بوس ہو گا اور وہ نبی اس کی حکومت کا خاتمہ کرے گا یہ السلام کی وجہ سے ڈیڑھ سو سال پہلے یہ خواب اور اس کی تعبیر بتا رہا ہے اب جو دوسرا تھا اس نے بھی اسی طرح اس کی جب کہ یہ وہ فوت ہو گیا اس کے بعد اس کے ایک اور گورنر تھا حاکم بنا اس کا نام طالبان تھا یہ تو بات بآسانی کے نام سے مشہور تھا ایک مشرک سے گزر رہا تھا تو مدینہ منورہ کے پاس سے گذرا تو اس نے دیکھا کہ اس کے لوگوں نے اس کی عزت افزائی نہیں کی تھی اس کو اس بات پر بڑا غصہ آیا تھا وہاں پہ چھوڑا لیکن تھوڑے ہی عرصے میں مدینے والے نے قتل کر دیا اس بات پر بڑا غصہ آیا اور اس نے قسم کھائی کہ اب اہل مدینہ اور مدینہ کو تباہ و برباد کر دیں گے مدینہ کے لوگوں کو پتہ چلا تو وہاں پر بندوق قرضہ کے جو یہود رہتے تھے ان کے دو بڑے عالم تھے وہ اس کے پاس آئے اور انہوں نے اسے سمجھایا کہ تمہارے اس ارادے ہم دیکھتے ہیں کہ یہ کہ اس ارادے میں کوئی نہ کوئی فروغ پیدا ہوجائے گی اور ہم دیکھتے ہیں کہ تیری سزا جو ہے تو جلد اس سے محفوظ نہیں رہے گا اگر اگر تو ایسا کرے گا اس نے حیرت سے پوچھا کہ یہ کیسے ہو سکتا ہے تو وہ دو عالم جو یہودی تھے انہوں نے بتایا کہ چونکہ مدینہ کی سرزمین جو ہے وہ ایک نبی کے ہجرت کی جگہ ہے اور وہ نبی جو ہے وہ قریش میں مبعوث ہو گا اور وہ مدینہ اس کا مسکن اور اس کا گھر ہو گا تو اس سے وہ بڑا ہی جو ہے وہ خراب ہوگیا اور اس نے بالآخر یہودی مذہب اختیار کر لیا اس کے بعد مکہ سے گزرا اور یہ مکہ کے اوپر گلاب کا جو حصہ میں کہتے ہیں کہ سب سے پہلے اس کے زمانے سے شروع ہوئی ہے اس کے بعد وہ اپنے وطن واپس آ گیا تو بیلنس ساٹھ ستر سال کے بعد نجاشی نے چند ستر ہزار اس کو کسی نے مشیر نے یہ مشورہ دیا کہ وہ جو آپ کے پاس قیدی ہیں اگر ان کے قیدیوں کو جن کے بارے میں قتل کا حکم جاری ہو چکا ہے اگر آپ ان کو سات بجے اگر قتل ہو گیا تو آپ نے تو ویسے بھی قتل کرنے ہے اور اگر بچ جائیں گے تو آپ کی سلطنت وسیع ہوجائے گی چنانچہ اس میں سے ایک قیدی تھا جو اس کا نام اس وقت نہیں ہے اس کو انہوں نے حق اس کا سپہ سالار بنایا اور یہ 800 کے قریب قیدی بھیجے اور انہوں نے دوبارہ حملہ کیا اور سیاہ فام کی حکومت کا خاتمہ ہوگیا اس کے بعد اس سے جو وہ شخص تھا اس کو کس طرح نے حاکم بنایا اور اس کے بیٹے کے بعد اس کے اوپر ایک اور شخص اب اذان نامی اس کو حاکم بنایا گیا بازار میں وہی شخص ہے جس کو کس طرح نے خط لکھا تھا اور اس وسلم کی گرفتاری کا حکم دیا تھا جب آنحضور صلی اللہ علیہ وسلم کی طرح سے واپسی پر اس کو خط ملا کہ تمہارے کس طرح کو قتل کر دیا گیا ہے یہ بازار نے انتظار کیا تاکہ خبر ہے اگر تو یہ برستی ہوئی تو پھر یہ خدا کی طرف سے نبی ہے چنانچہ ایسا ہی ہوا کچھ عرصہ کے بعد کس طرح سے ایرانی فارسی یہ خبر ملی کہ کس طرح کو قتل کر دیا گیا اور اس کے تمام احکامات جو ہے وہ ختم کر دیا گیا یہ ان کے حق میں یہ ایمان لے آیا تھا تو اس طرح یہ پیشگوئی جو یہود کو بھی اللہ تعالی نے بتایا تھا اور ان کے قسمت میں یہ قبول کرنا نہیں تھا کہ میں نے آخری دم تک از وسلم پر ایمان نہیں لایا لیکن دوسری طرف جو یمن میں عیسائیت کی حکومت تھی اللہ نے ان کو ایمان نصیب کی واعظ و صلی اللہ علیہ وسلم کی ماں حکومت قائم ہوئی تھی بہت بہت شکریہ آپ کے بارے میں بتایا تو انشاءاللہ دیکھیں گے آگے بھی ناظرین آپ کے سامنے اپنی سلطنت میں ایسے واقعات رکھیں گے ہم آگے چلتے ہیں اور میں دیکھ رہا ہوں آپ کی طرف سے میسج پڑھا رہے ہیں سوالات بھی آرہے ہیں اور کال بھی آرہی ہیں اس ہی محمد اصحاب ہیں لندن سے ہم ان کو لے لیتے ہیں ان کا سہارا لیتے ہیں تو انشاءاللہ آگے جاکر جیسے ہمیں کیا دیا کریں گے جو پہلے موجود تھی اسی پیش کردیا اس پیش گوئی ہیں تو اب ہم قسم کی حیات پر آپ کی زندگی پر نظر آنا چاہتے ہیں ایک اللہ تعالی آپ کے متعلق خبر دے رہا تھا وہ خبریں پوری ہوتے ہی نظر آتی دیکھی تو جب آپ بوس ہوئے تب بھی ہم دیکھتے ہیں کہ اللہ تعالی کس طرح سے فرماتا ہے اور باوجود سخت حالات کے بہت سے تکلیف اور اذیت سے یہاں اب گزر رہے ہیں اللہ تعالی اس کے بارے میں آپ کو فتوحات شام کی خبریں دیتا ہے اور پھر ایسے واقعات رونما ہوتے ہیں جہاں پر بظاہر دنیا دار سمجھتا ہے کہ یہ واقعات اسلام اور اس نے دین کے لئے بس پیش خیمہ ثابت ہو گئی کہ اپنی بہن بہت دیر تک نہیں رہتا اور ختم ہو جائے گا اور آگے چلتے ہیں جن کا جواب ہے پھر شعبہ بعد مجبور ہوجاتے ہیں کہ وہ مکہ چھوڑ کر چلے جاتے ہیں دوسرے ممالک کی طرف اسی طرح اللہ کی قسم خود ہی فرما لیتے ہیں ہیں تو پھر مکالمہ کے تم سمجھتے ہیں کہ اس کو نظر آتے ہیں کہ یہ واقعات واپس اسلام چند روز ہی رہ گیا ہے اور اسی طرح سے بھی یہ دین آگے تک نہیں کر سکتا دیتا ہے پیشگوئیاں دیتا ہے اس کے بعد دیتا ہے اور جو وہ بات جو دوسری طرف سے ہر ایک شخص نظر آتی ہے اسی کو اللہ تعالی ایسے کر کے دکھاتا ہے کہ وہی ثابت ہوتا ہے کہ وہ آپ کی عظیم فتوحات کے لئے اپنے مقصد کے لئے ایک بہت عظیم الشان ایک سنگ میل ہوتی ہیں تو اسی طرح کا واقعہ ہجرت کا واقعہ میرے والد سے بات چیت کرنا چاہیں گے اور خاکسار مکرمہ شادماں سے درخواست کرے گا کہ میں اس بارے میں بتائیں اس پہ جو متعلقہ پیش گوئیاں ہوتی ہیں اور کثرت سے خدا تعالیٰ کے نشاناتبتا دیا تھا قرآن کریم میں اللہ تعالی فرماتا ہے ان الذی فرض علیک القران لرادک علامہ ابن کہ وہ ہستی جس نے تیرے اوپر یہ قرآن فرض کیا ہے یہ تو مجھے واپس آپ کے کھانے کی طرف لے کے آئے گی واپس لوٹ آئے گی دراصل ایسی تمام پیشگوئیاں جن کا ذکر ہجرت اور اس سے واپسی سے تعلق رکھتا ہے یہ عام طور پر یونین کی اکثریت یا اگر میں یہ کہوں کہ ساری کی ساری تقریبا مکہ میں ہی بیان کی گئی ہیں اور قرآن کریم میں بھی جنت کا ذکر آیا ہے وہ مکی سورتوں میں آیا ہے یہ ایک ثبوت ہے اس بات کا کہ اللہ تعالی نے پہلے سے ہی یہ بیان فرمایا تھا کہ تجھے یہاں سے دیکھیں یہ اس قسم کی بنیاد یعنی یہ نہیں ہے کہ ہجرت کا ذکر کردیا اور واپسی کا ذکر کر دیا یہ دوری اہمیت کی حامل ہوتی ہیں کہ جہاں واپسی کا ذکر ہے اس کا مطلب ہجرت کا بھی ذکر ہے اور دوسری بات یہ ہے کہ مکہ کے اندر جو حضور صلی اللہ وسلم کی صورتحال تھی جب آپ نے دعویٰ فرمایا تو وقت کے ساتھ ساتھ آپ کی مخالفت بڑھتی چلی گئی ہے اور مخالفت نے زور پکڑا ہے اور زور پکڑتے پکڑتے ایک وقت ایسا گیا جب آپ کو وہاں زندگی گزارنا مشکل ہو گیا اب بظاہر انسان یہ سمجھتا ہے کہ جب کسی کے لیے ایک جگہ پر زندگی گزارنا مشکل ہو جائے اس کی زندگی خطرے میں پڑ جائے تو ظاہر ہے وہ اسے کسی دوسری جگہ شفٹ ہو جاتا ہے یہ اس کی مجبوری ہے یا بے بسی ہے اصل میں یہ جو پیشگوئی یہاں پر کی گئی ہے یہ پیشگوئی بتا رہی ہے کہ یہ مجبوری و بے بسی کے عالم میں نہیں کی گئی اس میں اللہ تعالی نے بڑی واضح معجزات کا ذکر فرما دیا وہ یہ کہ جب انسان کی زندگی کو دیکھتے ہیں ہیں تو مکہ والے تو ہرگز یہ نہیں چاہتے تھے کہ آپ وہاں سے ہجرت کرکے کسی دوسری جگہ چلے جائیں وہ یہ بات درست ہے کہ جس کو ایک جگہ پر تکلیف ہو وہ اس تکلیف سے بچنے کے لیے بے بسی کے عالم میں دوسری جگہ چلا جاتا ہے لیکن رسول پاک صلی اللہ علیہ وسلم کے بارے میں یہ نہیں کہا جاسکتا کہ آپ بے بسی کی وجہ سے گئے تھے بلکہ خدا تعالیٰ کے اذن اور ارادے سے گئے تھے اور مکہ والے ہرگز نہیں چاہتے تھے کہ آپ یہاں سے ہجرت کریں چنانچہ ہجرت کے واقعات دیکھ لیں کہ مکہ والے آپ کو ہجرت سے روکنا چاہتے تھے اصل میں میں وہ آپ کو قتل کرنا چاہتے تھے آپ کی زندگی کا خاتمہ کرنا چاہتے تھے اس دن کا خاتمہ چاہتے تھے جو آپ لے کے آئے تھے اور جب واپسی کی خبر دی گئی تو اللہ تعالی نے صرف آپ ہی نہیں وہاں یہ بھی بتا دیا کہ وہ لوگ جو تجھے قتل کرنا چاہتے ہیں تیری زندگی تیری زندگی کے ساتھ اسلام کی زندگی کو ختم کرنا چاہتے ہیں اللہ تعالی تجھے ان کو ناکام کرے گا تجھے کامیاب کرے گا اور نہ صرف تجھے ان کسان سے بچا کے یہاں سے نکال کر لے جائے گا بلکہ اسی طرح اللہ تعالی واپس بھی امن کے ساتھ لے کے آئے گا تو مکہ والوں میں دیکھیں جب رسول پاک صل وسلم نے ہجرت کی ہے تو اس وقت کیا حالات تھے کہ والوں نے آپ کو گھیرا ڈالا تھا آپ کی زندگی کا خاتمہ کرنے کے لیے قتل کرنے کے لئے لیکن آپ نے اپنی جگہ حضرت علی رضی اللہ تعالی عنہ کو بستر پر لٹایا اور آپ خاموشی سے وہاں سے ہجرت کرکے کسی کو پتہ نہیں چلا اب وہاں سے جب گھیرا ڈالا ہوا ہے کون سی چیز اپنے کام کے لے گئی تو وہ خدا تعالیٰ کی ذات ہی تھی جس نے وہاں مکہ والوں کو ناکام کیا اور مکہ والے پھر وہیں رک گئے تھے جب ان کو پتہ چلا کہ رسول پاک صلی اللہ علیہ اس سے نکل گئے ہیں انہوں نے اس ہجرت کو روکنے کا اگلا مرحلہ یعنی آپ کو پکڑنے کی کوشش کی اعلان کیا کہ جو واپس پکڑ کر لائے گا ہم اس کو سونگ تیرے نام کے طور پر دیں گے قدم قدم کے اوپر یہ معجزہ ظاہر ہورہے ہیں کہ نمبر ایک تو وہاں قتل کرنے پر قادر نہ ہو سکے پھر وہاں سے رسول پاک صلی اللہ وسلم نکلتے ہیں غار ثور میں جاتے ہیں تو غارےثور پہنچ جاتے ہیں اور باہر نظر آ رہی ہیں ان کی ٹانگیں عند رسول پاک صلی اللہ وسلم اور حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ تعالی عنہ غار کے اندر موجود ہیں اور ان کی حالت بھی بڑی جگر کو حالت تھی اس موقع پر بھی جب حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ تعالی عنہ کو یہ گھبراہٹ ہوتی ہے کہ یہ ہمارے بالکل سر پر آ گئے ہیں اب یہ رسول نے پاکستان کو کیا نقصان نہ پہنچا دیں تو وہاں بھی اللہ تعالی کے زریعے بتاتا ہےیہ بدلہ یہ ہستی جو ہے یہ کوئی عام دوستی نہیں ہے تو آپ ایمان لے آئیں اور آپ سے امان طلب کی اور وہاں نہ صرف ان کو امان دی بلکہ وہاں پھر ایک پیشگوئی آپ نے فرمائے کہ ایسا تیرا کیا حال ہوگا جب کسریٰ کے کنگن دے رہا تو میں آگے آگے دیکھئے ایک حالت وہ ہے نبی کریم صلی اللہ آپ کے ساتھ ہیں ان کی کہ آپ ہجرت کر رہے ہیں اور اپنی جان بچانے کے لیے یا اللہ تعالی کے حکم کے ساتھ وہاں سے نکل رہے ہیں اور آپ کو بچانے والا ظاہری سامان کوئی نہیں ہے لیکن اس وقت بھی خبر دے رہا بن مالک رضی اللہ تعالی آپ کو صبر دے رہے ہیں کہ ایک وقت آئے گا جب اس رات کو بھی پتہ کریں گے اور اس کے کنگن جو بادشاہ کے کنگن تیرے ہاتھوں میں پہنچ جائیں گے یہ اصل میں پیش گوئی کی ہے کہ وہ جس چیز کو مکہ بال روکنا چاہتے تھے تھے خدا تعالیٰ نے ان کے منصوبے کو ناکام اور نامراد کردیا اور رسول پاک صلی اللہ وسلم کو اور آپ کے ساتھیوں کو کامیاب اور کامران کیا نمبر ایک تو ہجرت کرتے ہوئے بھی وہ ہجرت کو روک نہیں سکے چنانچہ جب اگلا معاملہ فرمائے جزاک اللہ کا علم حاصل کرکے واپس بھی اللہ تعالی لے کے آئے گا تو پھر خدا تعالی نے ایسے حالات پیدا کیے کہ باوجود اس کے کہ ہر قسم کے معاہدے ہوئے ایک ڈیڑھ دو سال پہلے صلح حدیبیہ کا معاہدہ ہوا تھا لیکن مشرکین مکہ کی طرف سے اس معاہدے کی جب خلاف ورزی کی گئی تو پھر حضور صلی اللہ علیہ وسلم کو یہ موقع ملا آپ نے پھر لڑائی کیونکہ پھر آپ کا حق تھا کہ اس ظلم کا خاتمہ کرتے جس میں مکہ والے مبتلا تھے اور پھر وہاں آپ لڑائی کرتے ہیں اور دس ہزار قدوسیوں کے ساتھ پھر آپ پہنچ کر لے کے آتے ہیں اور جو رسول پاک صل وسلم نے دعا کی تھی کہ رب ادخلنی مدخل صدق واخرجنی مخرج سے تھے کہ میرا یہاں سے نکلنا جو ہے وہ بھی سب کے ساتھ اور سچائی کے ساتھ اور واپس داخل ہونا بھی سچائی کے ساتھ ہوں یہ اللہ تعالی نے کتنے عظیم الشان طریقے سے واضح کیا کہ جب مقابلہ آپ کو وہاں سے نکلنے سے روکنا چاہتے تھے تو رسول پاک کی ہجرت کو نہیں روک سکے اور جب رسول پاک صل وسلم کی واپسی ہوئی تو آپ کی واپسی کو نہیں روک سکے دونوں چیزوں میں ہر قدم پہ خدا تعالی نے اپنی قدرت کی نشانیاں دکھائے اس سے بڑھ کے اور کیا ان شاء اللہ تعالی اپنی تائید و نصرت کے ایک نبی کے لئے دکھا سکتا ہے واپس فاتحانہ طور پر مکان واپس آیا تو بتایا تو انشاءاللہ اس بار میں آگے تفصیل سے بھی بات کریں گے تو پھر حالات کا ذکر کرتے ہیں تو ناظرین جو اللہ تعالی نے ایسی خبریں بھی تھیں ہجرت کے بعد کے بہت سارے واقعات سے متعلق رہتا ہے آپ کو پہلے سے خبر دے چکے تھے اور خاص طور پر آپ کے خلاف جو مخالفانہ تدبیر تھی جو بعد میں پر منتج ہوتی ہیں جو طاقتور جتھوں کے اعتبار سے مخالفین جو حالت تھی بظاہر ایسا نظر آتا ہے کہ اگر مسلمانوں کی شکست ہو جانی ہے اور یہ اس دن کا یہ ہے کہ اللہ تعالی آپ کو فتوحات کی خبریں دیتا ہے عظیم الشان فتح کی خبر دیتا ہے تو یہاں پر مناسب ہوگا کہ اس طرح کے حوالے سے گفتگو کریں تو آپ ہمیں وہاں کے کچھ حالات اور جو سب باتیں کس طرح سے خدا تعالیٰ کی قدرت کی نشانیاں ظاہر بتائیں جنگ بدر کے اصل میں بہت سارے واقعات ہیں اگر دیکھا جائے ہم اس کا اس طرح آتا نہیں کر سکتے تو اس کی تفصیل میں نہیں جانا چاہتا کہ اس کے اسباب کیا تھے عوامل کیا تھے نتائج کے ہاتھوں کی تعداد کتنی تھی لیکن دوسرے سے بات کرنا چاہتا ہوں کہ ایک طرف تو اللہ تعالی عنہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم اور صحابہ کو بتا رہا تھا کہ اگر کفار سے لڑنے بھی تو فتوحات آپ کی ہوگی اللہ تعالی ان کے دلوں کو مطمئن کر رہا تھا تو دوسری طرف کفار کو بھی اللہ تعالیٰ نثار کر رہا تھا کہ اگر تم مسلمانوں سے لڑو گے تو مارے جا و گے لیکن اس کے باوجود کفار مکہ کے ان جو پیش خبری آتی ان پیش گوئیوں کو سنجیدہ نہیں لیا اور اللہ تعالی کے وہ وعدے بھلا کے پورے ہونے تھے تو ہم دونوں طرح سے دیکھتے ہیں تو چند ایک میں نے مثالی جوکہ ٹھیک ییں اس سے نظر آتا ہے ایک طرف اللہ تعالی نے انسان کو سلام اور آپ کے صحابہ کو وہ فتوحات کی خوشخبری سنائی تو دوسری طرف کفار مکہ کو بھی اظہار کیا تھا اور وہ بی ایک چیز جو ہے وہ آگے چل کے نظر آتی ہے کہ وہ پوری ہوتی ہے میں ایک استثنا باب کیا یا نبی کی پیشکش ہوئی ہے جس میں ہیں خداوند نے فرمایا کہ ایک برس ہم مزدور کے ایک برس میں کردار کی ساری حشمت جاتی رہے گی اور تیر اندازوں کے جو باقی رہ گئی دار تھے بہادر لوگ گھٹ جائیں گے لمبی پیشگوئی ہے عباسسیاسی جنگ ہوگی جس میں کردار کی ساری حشمت جاتی رہیں گی مریم کی تمام وہ عزت ہے وہ خاک میں مل جائے گی اور وہ پیٹھ دکھا کر میدان سے باہر کھڑے ہوں گے اور جن سے ہم دیکھتے ہیں کہ ایسا ہی ہوا کہ جنگ بدر واقع ہے کہ جس میں حقیقت میں کفار کی ذلت اور رسوائی کا آغاز ہوتا ہے اور مسلمانوں کی ترقی اور فتوحات کا سلسلہ شروع ہوتا ہے اسی طرح آپ کا بنت عبد المطلب جو حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے بیان کو ایک خواب آئیں انہوں نے خواب میں دیکھا کہ ایک شخص اونٹ پر سوار ہے اور بڑی اونچی آواز سے تین دفعہ اعلان کرتا ہے کہ اے بے وفاؤں کی تین دن کے لیے تین دن کے اندر جنگ کے لیے نکلو اور پھر وہ اپنے خواب بیان کرتی ہیں کہ اس کے بعد وہ ایک پہاڑی پر چڑھ جاتا ہے اور وہ اسے ایک چٹان نیچے لٹکا دیتا ہے جب وہ چٹانیں تھیں آتی ہے تو وہ ساری ٹوٹ جاتی ہے اور اس کے پتھر پتھر سے مکہ کا کوئی ایک گھر بھی صحیح سلامت نہیں بچتا کہ نہیں اس کو نقصان پہنچتا ہے یہاں حضرت عباس کو بتاتی ہیں اپنے بھائی کو کہ میں اس سے بہت پریشان ہوں اور بڑی خوفناک خواب ہے نہ کچھ عرصہ کے بعد مکہ کے تمام لوگوں میں یہ خواب کے بارے میں اور ہر جگہ پر باتیں ہونے لگیں گے تب اس نے اپنے دوست جو بلیاں بناتا تھا اس سے بھی بات کی جب ابوجہل کو اس بات کا پتہ چلا تو اس نے بڑا تمسخر اڑایا اور اس نے حضرت عباس کے سامنے بڑے سخت الفاظ بھی استعمال کیے اور کہا کہ اگر تو جس طرح آپ کی بہن کی تین دن میں تو ہم دیکھ لیں گے پھر مسکرا نعت اس نے کہا پہلے تو آپ کی آپ کے خاندان میں لوگ نبی تھے اب بھی نبی ہونا شروع ہوگئی ہیں اور اس کے بعد اس نے کہا کہ اگر نہ ہوا تو میں ایک تحریر لکھ دوں گا کہ سب سے زیادہ جو جھوٹے ہیں خاندانوں عبدالمطلب ہے اس طرح سے اس نے یہ بات کی لیکن لیکن جب ابھی تین دن نہیں گزرے تیسرا دن تھا کہ ایک شخص زمزم بن الغفاری نامی شخص ہے اس نے بڑی اونچی آواز میں چلانا شروع کر دیا کہ اس جواب کا قافلہ آرہا تھا قریش مکہ اس پر محمد رفیع کے لوگوں نے حملہ کردیا اور اس کو بچانے کے لیے نکلو نہ تھی یہ تمام اکٹھے ہو گئے اور جنگ کی تیاری شروع کر دی پہلے تو پہلے دن سے یہ خواب اس طرح سے پوری ہوگی اس کا نتیجہ یہ تھا کہ ابولہب اندر سے ڈر گیا اور انہوں نے جنگ بدر میں حصہ اس وجہ سے نہیں لیا دوسرے امیہ بن خلف کے متعلق حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی پیش گوئی تھی وہ بہت پسند تھا لیکن جب اس کو بزدلی کا طعنہ دیا گیا تھا اور وہ بھی ساتھ روانہ ہو گیا اس کے بعد جعفر مقام پر جو ہے بالکل یہ بھی بن عبدالمطلب سے ایک شخص تھے تو وہاں پر کفار مکہ کے لشکر نے قیام کیا ہے تو ان کو کہا بھائی ایک شخص گدھے پر سوار اور اس کے ساتھ اونٹ ہے اور وہ اونچی اونچی آواز سے کفار مکہ کے سردار ان کے ایک کا نام لے کر کہہ رہا ہے یہ سارے قتل کیے جائیں گے اور وہ اس کے بعد آپ نے اونٹ کو سر پر لگا کر ان خیموں کی طرف چھوڑ دیتا ہے اور دیکھتے ہی دیکھتے کوئی ایک خیمہ بھی ایسا نہیں رہتا جو خون سے لت پت نہ ہو نہ تھی جب اس نے اپنی حکومت بنا کے خواب سنائیں تو لوگوں کو متنبہ کیا اور بتایا تو پھر وہی ابوجہل جس کے اوپر ایک اور اور تکبر سوار تھا اس نے کہا کہ وہ بنو عبدالمطلب میں ایک دوسرا شخص بھی نبی ہونے کا دعوی کرنے لگتا ہے تو اس طرح کی اس کی خاک کو بھی اس نے سنجیدہ نہیں لیا اسی طرح ان کے حلیف قبیلہ تھا اس کے ایک شخص فاقبل ایمان ہے جب یہ اس کے پاس ٹھہرے اس نے ان کی ضیافت کی اور چند لوگ روانہ کرنے کے لئے مدد کے لیے بھیجے تو انہوں نے کہا کہ جتنی تعداد ہمیں معلوم ہے محمد اور اس کے پیروکاروں کی اگر تو اتنا تو ہم کافی ہیں لیکن اگر ہمارا مقابلہ خدا سے جیسا کہ محمد کہتا ہے تو پھر خدا سے تو کوئی اس کو شکست دے نہیں سکتا یہ بھی ایک ایسی نظر آتی ہے کہ واقعی ان کا مقابلہ تو خدا تعالیٰ سے تھا تھا اور والدہ نے کس طرح ان کو ناکام و نامراد کیا اور شکست خوردہ ہوئے اس کے بعد انہوں نے ایک شخص کو بھیجا کہ جو وہاں کا لشکر تھا مسلمانوں کا اس کی خبر لائے اور پتہ کریں کہ کیا اس کے پیچھے تو کی مدد کرنے والا لشکر کوئی اور تو نہیں چھپا ہوا چنانچہ اس نے جب سارے حالات معلوم کرکے واپس قبر دی اس نے کہا میں نے سارا دیکھا ہے کوئی اور لشکر تو نہیں مسلمانوں کی تعداد یہی ہے لیکن اے قریش مکہ میں ایک بار تم کو بتانا چاہتا ہوں کہ مدینہ کی اونٹنیوں پر جو میں نے دیکھا ہے وہ لاشیں بہی وہ مان ذرا وہ نظر آرہی ہیں اور میں ایک بات قسم کھا کر کہہ سکتا ہوں کہ ان کے پاس کوئی اور تیار تو نہیں سویا تلوار کے لیکن ان میں سے ہر شخص کم از کم آپ میں سے ایک ایک شخص کو قتل کرکے پھر بھی قتل ہوگا نہ کہ اس نے جب یہ آکر بتایا ہے تو حکیم بن حزام جو بعد میں مسلمان ہو گیا اس نے بڑی کوشش کی کہ یہ جنگ نہ ہو اور واپس بھیج دیا جائے اور اس نے باغ فارم کے سردار کوحسن ابو جہل نے رد کر دیا اور اس طرح بجلی کے طعنے دیے اور جان کے لئے آمادہ ہو گیا اور اس جنگ میں وہ تمام سرداران جن کے مختلف ان خوابوں میں یا اللہ تعالی نے انسانوں صلی اللہ وسلم کو بتایا تھا جنگ بدر میں ایک کردار انسان قتل کئے گئے اور حکیم بن حزام جس نے کوشش کی تھی اللہ تعالی نے اس کو جنگ بدر میں بچا لیا اور بعد میں وہ مسلمان ہوئے اور بعد میں جب بھی وہ قسم کھاتے تھے تو اس طرح کرتے تھے کہ بدر کے رنگ کی قسم جس نے مجھے اس نے بچایا تھا دوسری طرف دیکھتے ہیں کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم ایک طرف تو جو جنگی سامان پوری طرح نہیں ہے تعداد کی کمی ہے سایاں پوری طرح نہیں ہے اس میں بچے بھی جو ابھی تک جواب نہیں ہے وہ بھی اس میں لشکر میں شامل ہے یہ مسلمانوں کے لشکر کی حالت ہے لیکن خدا تعالیٰ کے وعدوں پر یقین تھا اور یہ بات ہے کہ جب بدر کے میدان میں آتے ہی ماں بہن سب کرتے ہیں اور اللہ تعالی کے حضور جھک جاتے ہیں وہاں پر روانہ دعائیں کرتے ہیں خدا تعالیٰ سے مدد طلب کرتی ہے اور فرماتے ہیں کہ اللہم ان تہلک ہذہ العصابۃ الیوم آباد کے علاج یہ چھوٹا سا جو گروہ تیرے سامنے آجانے فارم کے سامنے کھڑا ہوا ہے اگر آج ہی یہاں پر قتل ہو گیا تو زمین پر تیری عبادت کوئی نہیں کرے گا اور صلی اللہ علیہ وسلم کی دعائیں تو آزاد ہے یہ حالت کی آپ کی بار بار آپ اللہ تعالی کے حضور نذرانہ دے کر رہے تھے کہ حضرت ابوبکر سے آپ کی حالت دیکھیں گے اور آپ کو تسلیاں دیتے تھے یا اللہ کی یا رسول اللہ اللہ تعالی نے آپ سے جو وعدے کئے ہوئے وہ تمام کے تمام وعدے پورے ہوں گے تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے لکھنے اللہ تعالی کے نشانات کے ذریعے اللہ تعالی سے یقین کےساتھ کہ سیاسی مجموعی والوں نے تب اللہ ضرور اس لشکر کو شکست کرے گا اور پھر آگے رچنا تاریخ نے بھی یہی ہے دکھایا کہ وہ مسلمانوں کے وہ تمام لشکر بظاہر دنیا کی نظر میں اور ان کے ذہن میں وہ سمجھتے تھے کہ مسلمان پوری طرح سامنے کچھ نہیں ہے وہی لشکر ان پر اللہ تعالی علی کی مدد سے غالب آیا اور اللہ تعالی نے فرشتوں کے ذریعے اس لشکر کی مدد کی اور جو آتا ہے کہ اس جنگ کے دوران جو حضور صلی علیہ وسلم نے کنکریوں کی ایک بھری اور کفار کی طرف پھینکی اور وہ مٹی جو ہے وہ ایک پورا طوفان بن گیا اور کوئی اس سے کہتے ہیں کہ لشکر میں سے کوئی شخص نہیں جس سے وہ متاثر ہوا اور وہاں سے ان کے بھاگے ہیں کہ اپنی چیزیں بھی ماپے چھوڑ کر ان کو بھاگنا پڑا جو باقی بچ گئے اور ایک بہت بڑی تعداد جو کفار مکہ کے سردار تھی وہ تمام کے تمام جنگ بدر میں قتل کیے گئے یہاں کتنے الہی نشانات ہیں اس جنگ میں ان کو دیکھ کر ایک شخص یقین کر سکتا ہے یہ وقت یہ باقی کے طور پر اگر خدا تعالیٰ کی طرف سے یہ نشانات نہ ہوئی ہوتی تو ایک عام انسان کے بس کی بات ہی نہیں لگتی تھی بہت بہت شکریہ آپ نے اس گفتگو میں ابھی جو الرحمان صاحب کا سوال ہے تو اس کو بھی اپنے اس کا جواب دے دیا ہے میں نے یہ پوچھا تک نہیں جو بینک کی تھی اس کی کیا تفصیل ہے تو آپ نے بھی اس کا ذکر ہے کہ آپ نے اپنا جواب موصول کر لیا ہوگا سمجھا ہوگا ہم آگے چلتے ہیں کرم شاہ صاحب آپ سے درخواست ہے کہ آپ سے سوال کیا ہے اور وہ ہم سے پوچھتے ہیں جیسے ابھی ہمارے پروگرام میں اس سے بات چیت کی تھی کہ رسول خدا کی قسم کی آمد سے پہلے ایسی خبر تھی لوگوں میں ایسے نشانات اور باتیں اور جاتا تھا تو وہ نسیم اور اسلام کے حوالے سے جانا چاہتے ہیں کہ جب حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کی بعثت ہوئی ہے تو آپ کی بس کے قریب ہے اس زمانے میں کسی کو آپ کے متعلق کوئی خواب آئے ہوئے جو آپ ہمیں بتا دیں کہ اس دور میں حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کا ظہور ہوا ہے ہے اس دور میں اور اس سے پہلے بھی بہت سارے ایسے بزرگ گزرے ہیں جنہوں نے اپنے کشف اور اپنی خوبی بیان کیں جن سے ظاہر ہوتا تھا کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام اور امام علی علیہ الصلاۃ والسلام کے آنے کا وقت ہو گیا ہے اور پھر خود حضرت مسیح علیہ السلام کے دعوے کے بعد بھی بعض نے دعائیں کیں ان میں مثال کے طور پر پیر جھنڈے والا یہ سندھ سے تعلق رکھتے تھے انہوں نے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے متعلق دعا کی تو ان کے متعلق آتا ہے کہ حضور صلی اللہ وسلم کو خواب میں نظر آئے اور حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی اہمیت و سلم نے تصدیق کی کہ کہیں اور خدا تعالیٰ کی طرف سے سچے مامور ہیںکے آسمان سے ایک نور کا بیان پہ گرا ہے اور میری اولاد سے محروم رہ گئی ہے اب اس میں اس میں عبداللہ غزنوی صاحب جو خواب دیکھ رہے ہیں وہ آسمان سے ایک نور کو قادیان کی طرف گرتا ہوا دیکھ رہے ہیں کہ یہاں گرا لیکن میری اولاد محروم رہ گئی مرادیہ سے بھی ایک میری اولاد میں سے نہیں ہوگا جس کی پرورش ظاہر ہوگا یا اس کو ماننے کی توفیق نہیں ملے گی جو بھی اس کا مطلب ہو لیکن یہ باہر ایک حقیقت ہے کہ مولوی عبدالغنی صاحب نے یہ خواب دیکھا کہ ایک نور آسمان سے گرا ہے اور قادیان کے اوپر گرا ہے اور اسی طرح پھر ایک بہت بزرگ تھے پیر کو ہونے والے مشہور تھے انہوں نے دیکھا اور کس کے بعد انہوں نے اپنے مریدوں سے کہا کہ اب ہم کسی اور کے زمانے میں ہے تو مریدوں نے پوچھا کہ کسی اور کے زمانے سے کیا مراد ہے انہوں نے کہا کہ اس لئے کہ میرا مطلب ہے کہ امام مہدی پیدا ہوگیا ہے ہے اب ہم اس کے زمانے میں آگئے ہیں باقی لوگوں کا زمانہ آپ یعنی جو حضرت محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد جو علی آغا بزرگ تھے ان کا ہونے والا ہے تو نے پوچھا کہ اس کا نام کیا ہے انہوں نے کہا کہ میں نام نہیں بتاؤں گا لیکن اتنا بتا دیتا ہوں کہ اس کی زبان پنجابی ہوگی یعنی وہ پنجاب کے علاقے میں ظاہر ہوگا پھر اسی طرح ایک اور نجوم تھے گلاب شاہ نام کے جمال پور سیداں ضلع لدھیانہ کے رہنے والے تھے ان کے بارے میں ہے کہ انہوں نے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے ظہور سے یعنی اب اس وقت آپ کی عمر بیس سال تھی جب حضرت یوسف علیہ السلام کا ذکر کیا حضور نے کہا آج سے تیس سال پہلے جو ان کے مرید ہیں وہ بتاتے ہیں کہ آج سے تیس سال پہلے انہوں نے یہ سب دیکھا تھا یا خواب دیکھا تھا اور ان انہوں نے بتایا کہ حضرت عیسی علیہ السلام پیدا ہوگئے ہیں اور ان کا ظہور ہونے والا ہے تو کہتے کہ ہم نے کیسے پیدا ہو پیدا ہونے کا کیا مطلب ہے تو آسمان سے آئیں گے تو انہوں نے کہا کہ نہیں جو آسمان پر جاتے ہیں وہ واپس نہیں آیا کرتے ان کو آسمان کی بادشاہت مل چکی ہوتی ہے ایسی ہی پیدا ہوگا اور وہ ہو چکا ہے تو اس کے بعد وہ کہتے ہیں کہ اس کا ظہور ہوگا تو جب ظہور ہوگا تو وہ قرآن کریم کی غلطیاں نکالے گا تو کیسے ان کے مردوں نے پوچھا کہ کیا قرآن کریم میں غلطیاں حیرانگی کی بات ہے کہ قرآن کریم میں بھی کرتی ہیں جن کو وہ نکالے گا ان کو درست کرے گا تو انہوں نے اس کی وضاحت کی کہ قرآن کریم سے نکلتی و سے مراد جو لوگوں نے قرآن کریم پر حاشیہ چڑھا دیے ہیں یعنی غلط تفسیر ہیں کہ قرآن کریم کے کرتی ہیں ان غلط تفسیروں کی تصحیح کرے گا درس تفسیر قرآن کریم کی وہ بیان کرے گا تو یہ مطلب کافی سارے اس طرح کے بزرگ ہیں جیسا کہ میں نے عرض کیا کہ بھیجنے والا صاحب مولوی عبدالغنی صاحب تھے پیر کوٹھے والا تھے یا جب بادشاہ خان صاحب نے یہ خواب دیکھی تھی اور اس وقت حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے یہ کا بیان کی تھی اور ان کے مریدین مریض موجود تھے اس وقت اس کی تردید کر سکتے تھے اگر یہ خبر درست نہ ہوتے تو یہ تو اللہ تعالی جب کسی نبی کو یا کسی مامور من اللہ کو ظاہر کرتا ہے تو اس سے پہلے اس قسم کے بزرگوں کو خواب اور کشن وغیرہ نے شروع ہو جاتے ہیں کہ جیسے بارش سے پہلے بادل نمودار ہوتے ہیں ٹھنڈی ہوائیں ہی شروع ہو جاتی ہیں تو خدا تعالیٰ سے تعلق رکھنے والے بزرگ ہوتے ہیں ان کو اس قسم کی ٹھنڈی ہوائیں پہلے سے ہی شروع ہو جاتی ہیں وہ کشف کے ذریعے سے خوابوں کے ذریعہ سے ان کو اندازہ ہو جاتا ہے کہ اب آنے والے کا وقت ہو چکا ہے بہت بہت شکریہ آپ کا پاسباں ہے ہماری طرف سے اوراس میں حضرت عیسی کی شادی کا ذکر نہیں ملتا اور یہی وجہ ہے کہ عیسائیوں نے ایک یہ چیز ان کے اندر رحبانیات اس طرح کا عقیدہ کیا کہ حضرت عیسیٰ علیہ السلام نے شادی نہیں کی لیکن جیسا کہ آپ نے کہا کہ یہ کہ یہ ہمارا یہ عقیدہ تمام انبیاء نے شادی بھی کی ہے اور ان کی اولاد بھی ہوئی ہے جو اللہ تعالی نے جس طرح چاہے مسئلہ راہبانیت عیسائیت میں یہ قرآن اس کا ہے یہ تھا کہ یہ جو ربانیت ہے یہ ہم نے ان پر فرض نہیں کی جو انہوں نے بت بنا لی ہے ہمارا اللہ تعالی کی رضا جوئی تھی وہ فرض کی تھی اور اس کا انہوں نے جو حق تھا وہ ادا نہیں کیا اللہ تعالی اس کا رد کرتا ہے لیکن بعض عیسائی فرقے ہیں جو حضرت عیسی علیہ السلام کی شادی کے قائل ہیں مثلا ایک مونث ہے زہرا کی شادی کو مانتا ہے اس کے جو فرقہ کے بانی ہے جن کا نام جو ہے وہ شادی سے اس بات پر زور دیتا ہے کہ حضرت عیسی علیہ الصلاۃ والسلام نے شادی کی اور نہ صرف ایک بلکہ آپ کی دو بیویاں تھیں ایک کا نام ماریا مقام رکھ لینا اور دوسرے کا نام مارتا تھا اور اس سے اولاد بھی ہوئی اسی طرح پرانا عہد نامہ اور بعض جو اناجیل اور کے جو واقعات ہیں جب ان کی ان کا مطالعہ کرتے ہیں تو یہ شواہد ملتے ہیں کہ حضرت عیسیٰ علیہ السلام نے نہ صرف شادی کی بلکہ اپنے لمبی عمر بھی پائی مثلا ایک ہمیں پرانے عہدنامہ کی ایک شکل ملتی ہے جس میں لکھا ہے کہ جب اس کی جان گناہ کی قربانی کے لیے گزاری جائے گی تو وہ اپنی نسل کو دیکھے گا اس کی عمر دراز ہو گئی اناجیل کے مطابق حضرت مسیح خود کہتے کہ یہ پیشگوئی میرے بارے میں ہے اگر حضرت مسیح کے بارے میں یہ پیش گوئی ہے تو یہ پیش گوئی تو کہتی ہے کہ وہ اپنی نسل کو دیکھے گا اور اس کی عمر دراز ہو گئی اس کا مطلب یہ ہے کہ حضرت عیسیٰ علیہ السلام خود مان رہے ہیں اور یہ پیش گوئی ہے کہ وہ اگرایسا جو خدا تعالیٰ کی طرف سے مسکرائے گا وہ اپنی نسل کو بھی دیکھے گا اور اس کی عمر دراز ہو گئی اسی طرح انیس سو سینتالیس میں مصر میں بعض پرانے نسخے ملے ہیں اور اس میں بات کرتی زبان میں بعض نصیحتوں شروع کر دی ہیں ان کے ساتھی ملے ان میں سے ایک انجیل بھی ملی ہے جو انجیل فلپ کے نام سے مشہور ہے اس میں اس کا انگلش زبان میں ترجمہ ہو چکا ہے اس میں مریم مگدلینی کوئی سوزوکی کار لکھا ہوا ہے کہ جو مریم مگدلینی ہے وہ یسوع کی کمزوری کا ترجمہ ہے رفیق حیات تو یہ ایسے شواہد ہیں جس سے یہ استفادہ ہوتا ہے بلکہ نظر آتا ہے کہ حضرت عیسیٰ بن مریم کلینک تھی وہ حضرت عیسی علیہ الصلاۃ والسلام کی کی وہ بیوی تھی اسی طرح جب ہم اور انجیل کا مطالعہ کرتے ہیں تو اس میں بھی ہمیں نظر آتا ہے کہ مسلمان جب حضرت عیسی علیہ السلام کو صلیب دیا گیا تو اس وقت آپ کے رشتے داروں کے علاوہ یہ بھی واپس نظر آتی ہیں پھر انجیل کے بعد جب حضرت عیسی کو قبر میں لائے جاتے جاتے آپ کے زخموں کا علاج جواب دیے نظر آتی ہیں پھر ہفتے کے دن ہے حضرت عیسی کی زیارت کرنے والوں میں سے یہ موجود تھی پھر تین دن کے بعد آساریو کو حضرت عیسی کے متعلق خبر دینے والی بھی ہے تو ہمیں ان تمام واقعات میں ان کے خاص ان کے ساتھ حضرت عیسی کے ساتھ انکار ہونا اس بات کی دلیل ہے کہ حضرت عیسی علیہ السلام کے ساتھ ان کا کوئی خاص تعلق تھا اسی طرح حضرت مسیح علیہ الصلوۃ والسلام نے اپنی کتاب مسیح ہندوستان میں آپ نے بھی اشرف میں کچھ بعید نہیں کہ جو پاکستان میں اس وقت جو موجودہ پاکستان میں برصغیر کی تمام نہیں تھا اس نے جو عیساخیل ایک قبیلہ ہے کچھ بعید نہیں کہ حضرت عیسی علیہ السلام کی یہاں 2019سابقہ نمک سال کی طرف چلے جاتے ہیں اس لئے آپ سے درخواست ہے کہ انہوں نے یہ سوال کیا تھا کہ تمام انبیاء کی جنگیں بھی کوئی کاغذ کا بھی ذکر ہوا تووہ کال کریں گے انبیاء کے لیے جنگ ہوتی رہی ہیں کہ ابو بھی توحید کے قیام کے لئے تھی تھی اس میں تھوڑی سی حیا کے قیام کے لئے جنگ کرنے کا مطلب یہ ہے کہ جو اللہ تعالی پر ایمان نہیں لائے گا اس کو قتل کر دیا جائے جیسا کہ آج کل علماء حضرات یہ سمجھتے ہیں کہ جب مسیح آئے گا تو ہاتھ میں تلوار پکڑ لے گا جو ایمان نہیں لائے گا اس کو قتل کرتا ہے وہ بالکل الٹ ہے کہ یہ ہر مرض کے الفاظ آتے ہیں کہ وہ جنگوں کو ختم کر دے گا بات یہ ہے کہ انبیاء کے آمد کی جو جگہ تھی وہ بہرحال یہ کہہ سکتے ہیں ہم بلکہ کہہ سکتے نہیں ہیں اصل وجہ یہ ہے کہ جتنے بھی انبیاء آئے ہیں وہ توحید کے قیام کے لیے اب جنگی توحید کے قیام کے لیے تھی انہوں نے صرف اس لئے جنگ کی کہ وہ لوگ نہیں مانتے یہ بات درست نہیں ہے ہے کیونکہ جنگوں کی جب ایک بندہ کسی کام کے لئے آتا ہے پھر اس کی آگے وجوہات پیدا ہوتی چلی جاتی ہیں یہی بات یہ ہے کہ اللہ تعالی فرماتا ہے تم تو کنز مخفیہ عورتوں کا عورتوں اور فخر ہے کہ میں ایک مخفی خزانہ تھا میں نے چاہا کہ میں پہچانا جاؤں تو میں نے آدم کو پیدا کیا اب اس کا مطلب یہ ہے کہ آدم اور بنی آدم جو ہیں وہ اللہ تعالی کی تجلیات کو ظاہر کرنے کے لیے پیدا کیے گئے تھے اور جتنے بھی آئے ہیں وہ خدا تعالیٰ کی توحید کو ظاہر کرنے کے لیے آئے تھے خدا تعالی کی توحید کو دنیا میں پھیلانے کے لئے آئے تھے یہ ایک حقیقت ہے کہ توحید کی تعلیم دینے کے لیے آئے تھے اور پھر خدا تعالی کس طرح انسان کو مل سکتا ہے انسان کس طرح خدا تک پہنچ سکتا ہے وہ مختلف زمانوں میں مختلف تعلیمی کرواتے رہے رہا جنگوں کا معاملہ جنگ اس لیے نہیں لڑیں گی کہ وہ ایمان نہیں لاتے تھے بلکہ جنگ کیوں کی وجوہات اور تھی کہ جو نبی آتے تھے تھے ان کے اوپر جو ان کی قومی تھی وہ ظلم کرتی تھی یعنی وہ خدا کا نام لیتے تھے خدا تعالی کی تبلیغ کرتے تھے خدا کی توحید کو پھیلانا چاہتے تھے لیکن قومی ان کی نہ صرف انکار کرتے ہیں بلکہ قرآن کریم بڑی حسرت کے ساتھ فرماتا ہے کہ یا حسرتا علی العباد کرتے تھے ان کے تھے تھے اور ظلم کرتے تھے ان کی آزادی سلب کر لیتے تھے تو جہاں جب ہم اسلام کے اندر یہ کہتے ہیں کہ جنگی جتنی بھی لڑی گئیں ہیں تین وجوہات کی بنا پر لڑی گئی ہیں طور پر جب دوسرے حملہ کرتے ہیں تو اپنا دفاع کرنے کی اجازت دی گئی اور دوسرا مذہبی آزادی نہیں کہ کسی کو آزادی نہیں دیتے کہ وہ خدا تعالیٰ پر ایمان لائیں جو ایمان لاتا ہے اور اس پر ظلم کرتے تھے مارتے پیٹتے تھے تو مذہبی آزادی کے قیام کے لیے تیسرا جو قوم ظلم کی حد تک جا کر جوان ان پر مومنوں پر ہوں یا دوسرے افراد پر بہت زیادہ ظلم کرتی ہیں ظالم ہو جاتی ہیں تو ان ظالموں کی سزا کے طور پر تین وجوہات ہیں جن کو کی توحید پھیلانے کے لیے نہیں تنگ توحید کو ماننے والے ہیں ان کے اوپر جب ظلم ہوتا ہے تو اس ظلم کو روکنے کے لیے مذہبی آزادی کے لیے پھر ان کو سزا دینے کے لیے کہ ناجائز طور پر دوسروں کو تنگ کرتے ہیں یہی دراصل باقی انبیاء کا بھی طریقہ کر رہا ہے لیکن چونکہ ان کی تفصیل ہمارے پاس یعنی موجود نہیں ہے تاریخ اس طرح سارے انبیاء کے تو محفوظ نہیں لیکن قرآن کریم میں یہ ذکر ضرور ملتا ہے کہ مختلف انبیاء لشکر لے کے جاتے رہے ہیں فتوحات حاصل کرتے رہیں حضرت سلیمان کا اسلام کے لشکروں کا ذکر آتا ہے ملکہ بلقیس کے ان کے تابع ہو جانے کا مستحق ہو جانے کا ذکر آتا ہے حضرت داؤد علیہ السلام کا ذکر آتا ہے کہ حضرت موسی علیہ السلام کا ذکر آتا ہے کہ اللہ تعالی نے ان کو کہا کہ فرمائے اس بستی میں داخل ہوتا لیکن آپ کے ماننے والوں نے ساتھ نہیں دیابہت مشکل ہے خاص طور پر جو آپ نے وضاحت فرما دی شروع میں جنگوں کے مطالعہ کو جنگ ہو اس وجہ سے جنگ لڑی جاتی تھے تو اسی سے بالکل ملتا سوال ہمارے پاس رہے ہم سب اجنبی ہیں ان کو موصول ہوا ہے اور وہ خلفائے راشدین کی جنگ کے متعلق ہم سے زیادہ کام کر رہے ہیں اور جانا چاہتے ہیں کہ کیا ان کی جنگ یمامہ کی صورتحال تھی تو جواب دے دیں ان شاء حسین نے بات کی ہے وفا کی جنگ ابھی ہم یہ کبھی تصور بھی نہیں کرسکتے کہ خلفاء نہ کیا ہے یا وہ اسلام کو پھیلانے کے لئے وہ جنگ تھی یا تلوار کے زور پر لوگوں کو مسلمان کرنے کے لیے گئے تھے یہ ہمارا عقیدہ نہیں ہے جیسا کہ مشاہدہ نے کہا کہ جنگجو ہے ان کے تین جو اسلامی جنگیں حقیقت میں خلافت راشدہ تک وہ ان کا مقصد یہی تھا ایک تو یہ تھا کہ دفاعی جنگ تھی جو حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانے میں تھی اور دوسری ظالم کو ظالم کو ظلم سے روکنے کے لیے اور یہی چیز ہمیں خلفاء کے زمانے میں بھی نظر آتی ہے اور تیسرا مذہبی آزادی جتنے بھی خلفائے راشدہ کے زمانہ خلفائے راشدین کے زمانے میں جنگ ہوئی ہمیں ہی نظر آتا ہے اب دو ہی طریقے سے مسلمانوں کے لیے یا تو مکہ اور مدینہ میں بیٹھے رہیں اور جس طرح دوسرے لوگ آپ پر حملہ کرنے کے لئے پلان بنا رھے تھے اور مکہ پر حملہ کرے اور اس کا دفاع کرتے ہیں یا باہر نکل کر ان کے ظالموں کے ظلم کو وائی فائی روکے تو مسلمانوں نے دوسرا طریقہ اختیار کیا پھر ایک دن ختم ہوتی تھی جو شکست خوردہ تھے وہ اپنے حلیفوں کے پاس لے جاتے تھے ابھی وہ جنگ کے ابھی انجام پذیر ہوتی ہیں تو پتہ چلتا تھا کہ لاکھوں کا مجمع مسلمانوں کے خلاف دوسری جگہ پر اکٹھا ہو گیا وہ آخر کس لئے اکٹھے ہوتے تھے مسلمانوں کو ختم کرنے کے لیے عورتوں کا کوئی مقصد نہیں تھا تو ان کو پھر روکنے کے لیے اور اسی وجہ سے مسلمانوں نے کھلے میدانوں میں لاکھوں کے لشکر جو ہے وہ مسلمانوں کو قتل کرنے کے لئے اور مسلمانوں کو ختم کرنے کے لیے مختلف قومیں آپ کے خلاف اٹھیں ہو گئی ہو گی اور اللہ تعالی نے پھر ان پر فتوحات دی اور وہ ہم یہ ایک بھی ایسی جنگ خلفاء ہمارا ایمان نہیں ہے کہ وہ تلوار کے لئے تلوار لوگوں کو ناجائز قتل کرنے کے لیے اسلام کو پھیلانے کے لیے یا زبردستی مسلمان کرنے کے لیے خلاف اعلان جنگ لڑی کے ہرگز ایسا نہیں ہے کہ جیسے میں نے بتایا کہ اگر کسی کو مظلوم ہے کسی علاقے میں اس پر ظلم کیا جا رہا ہے اس کو اپنے مذہب کے مطابق اس کو عبادت کرنے سے روکا جا رہا ہے تو اس کے لئے خلفاء مظلوموں کی مدد کی ہے اور اسی طرح اگر کوئی ظالم ہے وہ مسلمانوں پر ظلم کرنا چاہتا روحاں دے کر رہا ہے اور وہ اپنے ارادے کو عملی جامہ پہنانا چاہتا ہے تو مسلمانوں نے بجائے اس کے کہ اپنے گھروں میں بیٹھ کر کیا ہے شکریہ راشدین تو وہی تعلیم اور وہی عمل ہوئی سنت کو پھر سے آگے بھی قائم رکھنے والے تھے جو آپ گزرے تو اس کو شفیع میں خلفائے راشدین کے متعلق سوال کو لے لیتے ہیں مبارک عطاری صاحب ہیں جو پاکستان سے سوال کرتے ہیں وہ بھی ہم نے آج کے بارے میں ذرا سا مسکرا دی تھی کہ واللہ یعصمک من الناس اللہ تعالی تم لوگوں سے محفوظ رکھے گا یا نہیں مجھے کوئی بھی قتل کرنے میں کامیاب نہیں ہوگا تو اس کے جو خلفائے راشدین کے تین شہید ہوئے ہیں تو وہ اس کی شہادت کے وقت سفر کیا کرتے ہیں ان کی شہادت کو پہلے تو بات ہے کہ اللہ تعالی نے جو وعدہ کیا وہ اور صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ وعدہ تھا اور دوسرا جو ہے کہ جھوٹا نبی کے وقت ختم نبوت نبی کے بارے میں ہے خلفاء کے بارے میں نہیں ہے یہ جو خلیفہ شہید کئے گئے ہیں اصل تو یہ کہ اس کے پیچھے واقعات کیا تھے کون کرنے والے تھے کیا باہر سے تھے یا مسلمانوں کے اندر تھے تو وہ اختلافات اور اللہ تعالیکیا ہمارے پاس امریکا سے سوال موصول ہوا ہے نام نہیں آیا میرے پاس تو شاید آپ نے اپنی پیش گوئی میں ذکر کیا تھا تورات کے حوالے سے قرآن سے نبی مبعوث ہو گا تو وہ جاننا چاہتے ہیں کہ ہم تو رسول کا مقصد کو سمجھتے ہیں کہ آپ فرانس ہوئے ان کی آپ پر صادق آتی ہیں تو جب اس حدیث کو نہیں مانتے تو پھر وہ فرحان علی پیشگوئی کو کس کی طرف منسوب کرتے ہیں کرتے ہیں بات یہ ہے کہ وہ اس چیز کو تب رسول پاک صلی اللہ جس پہ ہو رہی ہوتی ہے تو جیسے آجکل ہے کہ خود بدلتے نہیں قرآن کو بدل دیتے ہیں پہلے لوگوں کا بھی حق ہے جب دیکھا کہ پیشگوئی یہ واقعات سچی ہو رہی ہے تو خود بدلنے کی بجائے انجیل کو بدل دیا بائبل کو بدل دیا یا تو اُن کا یہ دعویٰ ہے کہ یہ طوفان ہے یہ کہ ان کے جنگلوں میں پہاڑوں کا نام ہے یہ عرب کا نام نہیں ہے لہذا وہ دراصل کہنا یہ چاہتے ہیں تو ثابت کرنے کی کوشش کرتے ہیں کہ رسول پاک صلی اللہ وسلم پر گویا یہ ہے کہ جنگل اور پہاڑ یہ دو ایسی چیزیں ہوتی ہیں کہ شہروں کی طرح نہیں کہ محدود سے علاقے میں شروع ہوا اور محدود علاقے میں جا کے ختم ہوجائے تو بعض پہاڑوں کے سلسلے سینکڑوں ہزاروں کلومیٹر تک دور تک چلے جاتے ہیں اگر آپ بائبل میں کہیں ذکر نہیں ہے کہ اگر یہ سلسلہ اب ان کا یہ پہاڑوں کا جن کو وہ جنگل قرار دیتے ہیں پہاڑ قرار دیتے ہیں کہ یہ کنعان سے ہیں تو وہ اگر شروع ہوتے ہیں تو وہاں خاتمے کا کہیں ذکر نہیں ہے پہلی بات تو یہ ہے کہ وہاں یہ نہیں ہے دوسرا تورات سے یہ بات ثابت ہے کہ حضرت اسماعیل علیہ السلام اور ان کے بیابان میں رہے ہیں جا کے حضرت اسماعیل علیہ السلام کا ذکر بائبل پر مارے گئے کر رہی ہے بائبل کے اندر ہے وہ پڑھا بیابان میں رہا اور وہ فاران کے بیابان میں رہا یہ پیدائش باب 21 کا حوالہ ہے ابھی حضرت اسماعیل علیہ السلام کے بارے میں ہے اور اگر حضرت اسماعیل علیہ السلام کے بارے میں بائبل خود یہ اعلان کر رہی ہے کہ وہ فاران کے بیابان میں رہا تو عربوں کے علاوہ تو اور کسی کا دعوی نہیں ہے اسماعیل ہونے کا علاج حضرت اسماعیل علیہ السلام کی اولاد میں سے ہیں صرف عربوں کا دعویٰ ہے کہ وہ رنگ اسماعیل کی اولاد میں سے ہیں دوسرا یہ کہ اگر عرب جو ہے وہ مکہ کو اپنا تسلیم کرتے ہیں تو عربوں کو یہ غلط دعویٰ کرنے کی ضرورت کیا تھی کہ وہ بنی اسرائیل سے ہیں اور بنی اسماعیل کے فارم میں رہنے کی پیشگوئی یہی خبر بائبل دے رہی ہے عربوں کے علاوہ کوئی دعویدار نہیں ہے اور اسماعیل ہونے کا اور اگر دعویدار نہیں ہے عربوں نے دعویٰ کیا تو ابو کو غلط جاھل وسلم کے بعد تو کہہ سکتے تھے کہ انہوں نے اپنی پیش گوئی اپنے اوپر کرنے چسپاں کرنے کے لیے دعا کریں لیکن حضور صلی اللہ علیہ وسلم سے پہلے ہی عربوں کا یہ دعویٰ تھا کہ اسماعیل کی اولاد ہیں اور مکہ کی وہ عزت و احترام کرتے تھے کہ ہمارے آباؤ اجداد نے اس کو آباد کیا ہے اور پھر حضرت اسماعیل علیہ السلام کو یہ بائبل کے اندر خبر دی تھی خدا تعالیٰ نے حضرت آدم علیہ السلام کے بارے میں حضرت ابراہیم علیہ السلام کو بتایا تھا کہ حضرت اسماعیل علیہ السلام کو خدا تعالی برکت عطا فرمائے گا اور اس کو ایک بڑی قوم بنائے گا اور اس سے بارہ قبیلے ہیں بارہ سردار پیدا ہوں گے اور پھر یہ بھی تھا کہ قوم زمین کی قومیں اس سے برکت حاصل کریں گے جب خدا نے یہ پیش گوئی کی ہے بائبل کے اندر اس سے بڑی قوم کون بنائے گا تو وہ کہاں گئے تھے اگر عرب لوگ مکہ مکہ اور مدینہ کے درمیان اور اس کے ارد گرد کئی آبادیاں جو اپنے آپ کو بن اسماعیل تصور کرتے ہیں اگر ان کے نزدیک فاران یہ علاقہ نہیں تو پھر حضرت اسماعیل بائبل کہتی ہے کہ قرآن میں رہے اور بائبل کہتی ہے کہ خدا کا وعدہ تھا کہ ان کو بڑی کون بنائے گا بائبل کہتی ہے کہ بارہ سرداروں سے پیدا ہو کہ بائبل کہتی ہے کہ زمین کی کمیت تمام زمین کی کمیت سے برکت حاصل کریں گی وہ قوم کیسے بنی کب بنی کہاں گئی ہو رہی ہے تو یہ ساری باتیں جب بائبل میں جب آزاد ہوگا تو پھر حقیقت کو دیکھنا پڑے گا اور حقیقت بھی یہی ہے کہ وہ ان کا علاقہ دراصل مکہ مدینہ کے درمیان جو برائیاں ہیں جو علاقے ہیں اس کو ہی فارغ کہا گیا ہے اگر کے نام سے شروع ہوتا ہے کبھی بھی ختم نہیں ہوتا وہ مکہ تک آتا ہے اور آج وسلم کا مکہ میں پیدا ہونا اور بنی اسماعیل کا دعویٰ کرنا عربوں کے علاوہ کسی اور کا یہ موجود ہے یعنی وہ اللہ درانی صاحب فرماتے ہیں کہ ائمہ کی سرزمین استعمال کے باشندوں روٹی لے کر دو بھاگنے والوں کے لئے ان کو ملنے کے لئے دوڑ دھوپ بھاگنے والے ہیں ان کے لیے روٹی نیو حضرت ابراہیم علیہ السلام نے دعا کی تھی نہ کہ ان کو پھلوں میں سے رزق عطا فرما یہی روٹی سے کیا مراد ہے دودھ اگنے والے کون ہے حضرت عیسی علیہ السلام کے ساتھ بانٹنے والے دو بھاگنے والے وہ یہی طیبہ حضرت اسماعیل علیہ السلام اور آپ کی والدہ حضرت ہاجرہ علیہ السلام اور جوس پارلر مربع کی پہاڑیوں کے درمیان اس وقت اپنے بھاگے چکر لگائے تھے ان ہی کی وجہ سے ہندو بھاگنے والوں کو بھی کہتے ہیں اس کے عربی میں نے بھی یہ جانتے ہیں کہ بھاگنے والے تو یہاں یہ بیان کیا کہ دو بھاگنے والوں کی روٹی کو ڈھونڈتے ہوئے گویا قرآن کریم کی اس پیش گوئی کو ثابت کر رہے ہیں اور پھر اسی جگہ پر جہاں یہ بیان فرمائی آیا ہے یہ حسین نبی کا فرمایا کہ کردار کی ساری جاہ و حشمت اس وقت جاتی رہتی ہے جب نبی ظاہر ہو گا تو قید اب کردار تو نہیں کہ حضرت اسماعیل علیہ السلام کے بیٹوں میں سے ایک اور بات جو عربوں کا علاقہ ہے ان دنوں کے ادارے موجود ہے اور اس وقت رسول پاک صل وسلم کے دور میں موجود تھا اور اس وقت جب یہ کردار کا علاج کرو جو قبیلہ ہے کہ عرب کی سر زمین کے اندر رہتا تو پھر کے نام میں تو کوئی فائدہ نہیں موجود نہیں ہے تو یہ ساری باتیں ثابت کرتی ہیں کہ یہ جو عیسائیوں کا کہنا ہے کہ قرآن سے مراد کون ہے یہ درست نہیں ہے اس لئے کہ وہاں بنو اسماعیل گئے نہ ہو وہاں کسی کا دعوی ہے کہ وہاں کوئی بڑی ایسی قوم ہے جبکہ اس کے برعکس کا یہ دعویٰ ہے کہ وہ بلوچ مائل ہیں اور یہ دعویٰ بائبل کی تصدیق کرتا ہے آپ کے اندر منیربو کے اندر رسول پاک صلی وسلم ظاہر ہوئے ہیں اور دس ہزار کو دوسروں کے ساتھ ظاہر ہوئے جو بائبل کی بات کی بات کتوں کو جب بلاتے ہیں تو اس کو ماننے کے بغیر ہمارے پاس کوئی چارہ باقی نہیں رہتا کہ قرآن سے مراد عرب کا علاقہ ہے جہاں حضرت محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے شاہ صاحب بہت شکریہ آپ سے جواب دیا ہے تو ہمارے پاس تھوڑا وقت رہ گیا ہے ایک چھوٹا سا سوال ملتے ہیں رانا صاحب ہیں وہ یہ پوچھنا ہے کہ اسلام کے غلبہ کے کتنے سال بعد ہوا جماعت کا غلبہ ہوگا اس مختصر جواب دے دیں اللہ علیہ وسلم کےحقوق اور آپسی ہوا اس کے ساتھ ہی غلبہ ہوگیا تھا کہ احمدیت کا غلبہ ہے تو آج آپ صلی اللہ وسلم کو مس کر دیا گیا ہے اور حضرت مسیح علیہ السلام کو مسیح مسئلہ قرار دیا گیا اب ہم جب دیکھتے ہیں کہ اس آیت کا غلبہ ہوا یا اس رعایت کم حقیقت میں دنیا میں پھیل گئیں تو اس سے یہ ثابت ہے کہ تقریبا 300 سو سال تک آیا جو ہے وہ مغلوب اور مظلوم رہی اور اس کے بعد اس آیت جو ہے وہ دنیا میں پھیلی ہے اور یہی نے بیان فرمایا کہ احمدیت کو بھی تین سو سال جو ہے وہ تین سو سال کے بعد احمد یار جو ہے وہ تمام دنیا میں اس طرح نہیں پائے گی اور اس کے لیے حاصل تو یہ بات ہے کہ ہم سب کو اس کے لئے دعاؤں کے ساتھ کوشش بھی کرنی چاہیے جب ہم سر ہم سب اس لیے کوشش کریں گے تو یقینا اللہ تعالی اس کے پیچھے جو گھر پے ہے اس کو قریب سے قریب تر دے گا لیکن جب ایک قوم اگر اس پر عمل نہیں کرتے ہیں خدا تعالی کی لائیو کوریج حضرت موسی کی قوم ہے کہ جو وعدے تھے جب انہوں نے اس پر عمل نہیں کیا تو وہ اتنا ہی غربت دور ہوتا گیا تو یہ بھی ایک ہے کہ جتنا ہمارا تعلیم پر عمل کریں گے اور اس کو پھیلائیں گے اتنا وہ غلبہ قریب ہوتا جائے گا حوالہ دیا جو سمجھتے ہیں کہ ہم ابھی تین سو سال بعد ہوگا گزرے نہیں گزریں گے تو ہمیں امید ہےمسلمانوں کا قدیم سے ہے ختم رُسل صلی صلی علی