Ahmadi Muslim VideoTube Rahe Huda Rahe Huda 25 02 2023

Rahe Huda 25 02 2023



Rahe Huda 25 02 2023

Rahe Huda 25 02 2023

آقا و مولا حضرت محمد مصطفی احمد مجتبی صلی اللہ علیہ وسلم پر قرآن کریم نازل فرمایا اسلام کی بنیاد اسلامی شریعت قرآن کریم ہے اور اللہ تعالی نے خود اس کی حفاظت کا وعدہ فرمایا اور ایسے ایسے اللہ تعالی نے قرآن کریم کی حفاظت کے لیے کیے کہ جن کی مثال جن کی نظیر کسی اور الہامی کتاب کے بارے میں نہیں ملتی جماعت احمدیہ مسلمہ کا یہ عقیدہ ہے کہ قرآن کریم بسم اللہ کی بے سے لے کر الناس کی سین تک اسی طرح محفوظ ہے جس طرح ہمارے آقا و مولا حضرت محمد مصطفی احمد مجتبی صلی اللہ علیہ وسلم پر اس کا نزول ہوا ان باتوں کو مدنظر رکھتے ہوئے ہم ہمیشہ اس بات کی تعلیم دیتے ہیں اس بات کا ذکر کرتے ہیں کہ دراصل قرآن کریم ہی وہ رہنما کتاب ہے جس پر عمل کر کے نہ صرف انسان اپنی ذات میں ترقی کر سکتا ہے بلکہ اخلاقی اور روحانی ترقیات بھی حاصل کر سکتا ہے حضرت اقدس مسیح موعود علیہ الصلاۃ والسلام نے کیا خوب فرمایا قرآن خدا نما ہے خدا کا ہے بے عسق معرفت کا چمن ناتمام ہے ناظرین کرام یہ program راہ ہدا ہے جو ایم ٹی اے international کے لندن سٹوڈیو سے آپ کی خدمت میں براہ راست پیش کیا جا رہا ہے گزشتہ دو program سے مختلف سوالات پر سلسلہ جاری ہے ہم نے خاص طور پہ مذہبی رواداری کے بارے میں بھی گفتگو کی ہے آج کے program میں اور آئندہ program میں بھی اسی طرح کے مختلف اعتراضات جو جماعت احمدیہ کے بارے میں ہوتے ہیں ان کے بارے میں گفتگو کریں گے آج یہاں سٹوڈیو میں خاکسار کے ساتھ موجود ہیں مکرم فضل الرحمن ناصر صاحب اور انشاءاللہ گانا سے نشریاتی رابطے کے ذریعے ہمارے ساتھ شامل گفتگو ہوں گے مکرم عبدالسمیع خان صاحب محترم عبدالسمیع خان صاحب جس طرح خاکسار نے ابھی ذکر کیا ہے کہ جو بات ہے وہ ہے قرآن کریم کی حفاظت کی تو اگر قرآن کریم کی حفاظت کے مضمون کو ہم اپنے ذہن میں رکھیں اور اس کے سامنے ہوتے ہوئے جب ہم اس اعتراض کو دیکھتے ہیں جو جماعت احمدیہ پر کیا جاتا ہے کہ الزام لگانے والے پہلے تو کھل کے یہ الزام لگاتے تھے کہ گویا جماعت احمدیہ نے قرآن کریم میں کوئی تبدیلی پیدا کر دی ہے اس میں تحریف کر دی ہے لیکن وقت کے ساتھ ساتھ جب الزام لگانے والوں کو اس بات کا اچھی طرح احساس ہوا کہ یہ بیان تو غلط ہے تو پھر انہوں نے اپنے اس الزام کو بھی تھوڑا سا مولڈ کرنے کی کوشش کی کچھ اس قسم کی بات وہ کرتے ہیں کہ جماعت احمدیہ نے قرآن کریم کے ترجمہ اور تفسیر میں تحریف کی ہے تو میں چاہوں گا کہ آج کے اس program کے آغاز میں ہی آپ ہمارے ناظرین و سامعین کو یہ بتائیں کہ کیا جماعت احمدیہ نے قرآن کریم میں کسی بھی قسم کی کوئی تحریف کی ہے جی راجہ صاحب جزاکم اللہ کسی پر قرآن کریم میں تحریف کا الزام لگانا نہایت ہی دردناک الزام ہے اور اس شخص کے لیے جو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کا سچا عاشق ہو اور قرآن سے سجی محبت رکھتا ہو اس کی روح کو پگھلا دینے والا الزام ہے میں آپ سے عرض کرتا ہوں کہ میں بچہ تھا جب سے میں نے یہ الزام اس میں شروع کیا اب میری عمر ساٹھ سال سے زیادہ ہے لیکن کبھی بھی کسی ایک شخص نے قرآن کریم کی ایک زبر اور زیر بھی پیش نہیں کی جس میں جماعت احمدیہ نے کوئی تبدیلی کی ہو پاکستان میں تو جماعت احمدیہ کے press دیر سے بند ہیں لیکن اس کے علاوہ دنیا بھر میں جماعت احمدیہ کے پندرہ کے قریب press ہیں جو لاکھوں کی تعداد میں ہر سال قرآن کریم شائع کر رہے ہیں ستر کے قریب زبانوں میں سے زیادہ زبانوں میں قرآن کریم کے تراجم شائع کر چکے ہیں کسی کو یہ توفیق نہیں ہوئی کہ کوئی ایک آیت بتا دیں جو ہم نے اس میں نکال دی ہو کوئی ایک لفظ بتا دیں جو ہم نے قرآن میں داخل کیا ہو کوئی ایک زبر زیر بتا دے جس میں کوئی تبدیلی ہو جائے اس کے بعد کو کیا حق بنتا ہے کہ جماعت انبیاء پر یہ الزام لگائے کہ گویا اس نے خدا پر بھی ہاتھ ڈال دیا ہے جس طرح آپ نے بتایا کہ قرآن مجید کی حفاظت کا ذمہ تو خدا نے لیا ہے اور چودہ سو سال سے کسی دنیا کے فرد کو توفیق نہیں ہوئی تو جماعت انبیاء کو یہ طاقت کہاں سے آ گئی کہ قرآن کریم میں کوئی کمی بیشی کر سکے حقیقت یہ ہے کہ یہ الزام بھی باقی الزاموں کی طرح جھوٹا اور ناپاک الزام ہے اور جیسا کہ آپ نے بتایا ابھی جماعت انبیاء کے اٹھائیس کے جماعت انبیاء کے پرست دنیا میں کام کر رہے ہیں قرآن چھاپ رہے ہیں آٹھ ٹی وی چینل کام کر رہے ہیں۔ اٹھائیس ہمارے radio چینل کام کر رہے ہیں۔ اور اس کے علاوہ کثرت کے ساتھ ایسے یوٹیوب چینل ہیں جو چوبیس گھنٹے قرآن کریم کی تلاوت اور ترجمہ اور اس کی معلومات کے لیے وقف ہے۔ اور کبھی کوئی یہ نہیں بتا سکتا کہ ہم نے کوئی ذرا برابر بھی تبدیلی کی۔ لے دے کے اب جو بات ان کے پاس رہ جاتی ہے۔ وہ معنوی تعریف کی ہے۔ آئیں اس کا الزام کا جائزہ بھی لے لیتے ہیں۔ قرآن کریم کے سینکڑوں تراجم مختلف زبانوں میں مختلف لوگوں کی طرف سے کیے جا چکے ہیں۔ ہر ایک نیا ترجمہ اس بات کی دلیل ہے کہ پچھلے ترجمے سے یا اس شخص کو اتفاق نہیں ہے یا ان سے بہتر ترجمہ اس کو اپنا معلوم ہوتا ہے اس لیے تو وہ نیا ترجمہ لایا ورنہ نئے ترجمے کی کیا ضرورت تھی اس کو اگر معنوی تعریف کہنا ہے تو دنیا کے تمام ترجمے ہر وہ نیا جو ترجمہ ہو رہا ہے وہ قرآن کریم میں تعریف کے الزام کی زد میں آئے گا حقیقت یہ ہے کہ لوگ سوچتے ہیں غور کرتے ہیں قرآن کریم کے نئے نئے علوم اور معارف سے فیض پاتے ہیں اور اب تو خود ختم کر بیٹھے ہیں کہ خدا کا الہام کلام ختم ہو چکا ہے اس سے پہلے تو خدا کے پیاروں پر الہام کلام بھی نازل ہوتا تھا اور وہ ترجمے کرتے تھے تفسیریں کرتے تھے خدا سے پوچھ کے قرآن کے مغلاقات حل کرتے تھے تو ہر نیا ترجمہ اس بات کی دلیل ہوتا تھا کہ خدا نے کسی کو کوئی نیا مضمون سمجھایا ہے اس کو تو تعریف نہیں کیا گیا تہتر فرقے تو آج موجود ہیں اس سے پہلے اگر ٹوٹل فرقے لگائیں تو وہ سینکڑوں کی تعداد میں ہوں گے قریبا ہر فرقے کا اپنا ترجمہ قرآن موجود ہے اور اس میں سے ہر فرقے نے اپنے مطلب کا ترجمہ کیا ہوا ہے اور اپنے مسلک کو وہ اسے ثابت کرتے ہیں مثال کے طور پر اگر یہ کہوں کہ سورۃ بقرہ کے شروع میں ہی کا ترجمہ اگر یہ کیا جائے کہ وہ امام مہدی کی یا ابوت پر ایمان رکھتے ہیں تو ان کا ترجمہ ہم اس کو تعریف قرآن نہیں کہیں گے ہم بالکل نہیں کہتے ہم یہ کہہ سکتے ہیں کہ انہوں نے اس ترجمے میں غلطی کی ہے قرآن کریم کی دوسری آیات سے یہ ثابت نہیں ہوتا اس لیے ہمارے نزدیک یہ درست نہیں اس کے باوجود ہم کسی پر تعریف قرآن کا الزام نہیں لگائیں گے ہاں ان کی سوچ ہے ان کا ایک فکر ہے قرآن کریم کا ہر وہ ترجمہ جس تائید دوسری آیات سے ہوتی ہے وہ درست ترجمہ ہے ہر وہ ترجمہ جس کی لغت اجازت دیتی ہے اور خدا تعالی کی سنت اجازت دیتی ہے وہ درست ترجمہ ہے اس لیے کسی ترجمے کو بھی معنوی تحریف کے نام سے آلودہ نہیں کیا جا سکتا جماعت احمدیات تو اللہ تعالی کے فضل سے ساری دنیا میں قرآن کے وہ ترجمے کر رہی ہے جو قرآن کی عظمت اور رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی شان کو دنیا میں نمایاں کر رہی ہے آئیں ہمیں بتائیں تو سہی کہ ہم نے فلاں جگہ مانوی تعریف کیا تو ہم بتائیں گے کہ یہی ترجمہ قرآن کی دوسری کی رو سے محمد مصطفیٰ کی حدیثوں سے اور خدا کی فعلی شہادت سے سچا ثابت ہو رہا ہے نشان پیش کریں کوئی مثال پیش کریں اور پھر ہم سے جواب لیں جزاکم اللہ عبد السمیع خان صاحب ناظرین یہ جو بات محترم عبدالسمیع خان صاحب نے پیش کی ہے یہ بہت اہم بات ہے کسی پہ الزام لگانا بہت آسان بات ہوتی ہے لیکن جو آپ الزام لگا رہے ہیں اس کا ثبوت پیش کرنا یہ بہرحال الزام لگانے والے کے ذمے ہی ہوتا ہے میں عرض کرتا چلوں کہ اب سے تقریبا پچاس منٹ تک یہ program جاری رہے گا براہ راست program ہے اور آپ اس میں اپنے سوالات پیش کر سکتے ہیں اگر آپ voice message کے ذریعے یا تحریری طور پر اپنا سوال بھیجنا چاہیں تو ہمارا واٹس ایپ نمبر ضرور نوٹ کر لیں لیکن اگر آپ خود اس program میں بات کرنا چاہتے ہیں تو اس کے لیے ہمارا لینڈ لائن نمبر ضرور نوٹ کریں ہمارے پاس سوالات کا سلسلہ شروع ہو چکا ہے فضل الرحمن صاحب ایک ہمیں سوال ملا تھا گزشتہ program کے دوران آخری چند منٹوں میں ملا تھا اس لیے ہم پیش نہیں کر سکے میں چاہتا ہوں کہ پہلے ہم سوال کو لے لیں اور پھر ہم اس program کے سلسلے کو آگے بڑھائیں گے ہمارے بھائی ہیں برطانیہ سے فخر الدین بابر صاحب انہوں نے یہ سوال پوچھا تھا کیا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانے میں خود رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے یا صحابہ نے کسی کو گستاخی یا بلاسفیمی کی کوئی سزا دی یا کبھی اس سے قبل تاریخ انبیاء میں کوئی ایسی مثال ملتی ہے کہ کسی نبی نے گستاخی کی پر کسی کو قتل کر دیا ہو.

00:10:10

بات یہ ہے کہ قرآن کریم اور احادیث میں جا بجا ایسے واقعات ملتے ہیں کہ انبیاء کے مخالفین انبیاء کے ساتھ اور ان کے ماننے والوں کے ساتھ ہمیشہ استحزا کرتے رہے اور قرآن کریم میں ان کا ذکر بھی کیا بلکہ یہ فرمایا کہ کوئی دنیا میں ایسا نبی نہیں آیا جس کے ساتھ اس کی قوم نے یا اس کے زمانے کے لوگوں نے استہزاء نہ کیا ہو لیکن پوری تاریخ انبیاء میں یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی زندگی میں کبھی ایسا ایک واقعہ بھی ہمیں نظر نہیں آتا کہ آپ نے کبھی کسی کو سزائیں دی ہو بڑے معین بڑے واقعات ہیں بلکہ حضرت ابوہریرہ رضی اللہ تعالی عنہ کا مجھے ایک واقعہ یاد آرہا ہے کہ ایک دفعہ حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ تعالی عنہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آئے اور عرض کی کہ یا رسول اللہ میری والدہ جو ہیں وہ بہت ہی زیادہ ان کے لیے آپ کے حق میں غلط زبان استعمال کرتی ہیں اور گستاخی کرتی ہیں تو صحابہ سمجھے کہ اب گویا حضور صلی اللہ علیہ وسلم ان کے خلاف کوئی ایسی دعا کریں گے تو اب وہ گویا ہلاک ہو جائے گی آپ حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کے مقابل پر بھی فرمایا کہ اللہ تعالی اے اے اللہ تو ابو ہریرہ کی والدہ کو ہدایت دے۔ اور واقعتا اس کے نتیجے میں ان کو ہدایت ملی۔ یہ مدینہ میں رہنے والے ایک بہت بڑا طبقہ یہود کا تھا وہ آئے دن کوئی نہ کوئی گستاخی حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی کرتے تھے ان میں سے ایک بہت بڑا واقعہ عبداللہ بن ابی بن سلول کا ملتا ہے اس نے یہاں ایک دفعہ تو یہاں تک ذکر کیا کہ گویا وہ یہ سمجھ رہا تھا کہ اب نعوذ باللہ من ذالک وہ اتنا وہ powerful ہو گیا ہے کہ وہ اس کو بڑی عزت ملے گی مدینہ میں اور اس نے علی الاعلان یہ کہا کہ وہ مدینہ میں سے جو دنیا جو سب سے زیادہ ذلیل شخص ہے اور نعوذ باللہ من ذالک وہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف اشارہ کر کے کہہ رہا تھا وہ ان کو نکال دے گا اور اس پر بھی اب یہ بات حضور صلی اللہ علیہ وسلم کو نہ صرف صحابہ نے بتائی بلکہ یہ بات اللہ تعالی نے بذریعہ وحی حضور صلی اللہ علیہ وسلم کو بتائی تب بھی حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اس کو کوئی سزا نہیں دی بلکہ مزید اس کے واقعات پڑھے اور بخاری میں ایسے واقعات ملتے ہیں کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کا جنازہ بھی پڑھایا اور پھر اس کا جو بیٹا بہت مخلص مسلمان تھا اس کے کہنے پر اس کو وفات پر اپنی کمی اس کو دی اس کی منہ میں لعاب بھی ڈالا یہاں تک کہ ملتے ہیں تبرک کے طور پہ تو اس طرح اتنے کثرت کے ساتھ واقعات ملتے ہیں عرابی آتے تھے ایک دفعہ تو ایک عرابی آیا کسی گاؤں سے اور اس نے آ کر مدینہ میں حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے بات مطالبات کیے کہ اے محمد صلی اللہ علیہ وسلم آ مجھے فلاں مال بھی دے دیں فلاں مال بھی دے دیں فلاں فلاں مال بھی دے دیں اور نہ صرف زبانی کہا بلکہ روایات میں آتا ہے کہ اس نے حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی گردن ایک چادر ڈال کے اتنی زور سے اس کو کھینچا کہ حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی گردن پر اس کے نشان پڑ گئے صحابہ جانتے تھے کہ حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا کیا reaction ہو سکتا ہے کیونکہ پہلے سے جانتے تھے کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم ان ساری باتوں کو برداشت کرتے تھے صحابہ کہتے تھے کہ ہمارا دل کرتا تھا کہ ایسے شخص کو سزا دیں لیکن حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم مسکراتے چلے جا رہے تھے اور فرمایا کہ اس کے اونٹ پر اچھی طرح اچھے مال لاد دو اور اس کو خوش کر کے رخصت کیا تو یہ ایک نہیں ہے بیسیوں سینکڑوں ایسے واقعات ملتے ہیں پھر اگر دیکھا جائے کہ حضرت ابوبکر رضی اللہ تعالی عنہ کے زمانے میں حضرت عمر رضی اللہ تعالی عنہ کے زمانے میں بعض کمزور روایات بعض لوگ پیش کرتے ہیں لیکن ان میں بھی کوئی ایسا قطعی واقعہ نہیں ملتا کہ کسی گستاخی کی وجہ سے کسی کو صحابہ نے کوئی سزا دی ہو ہاں بعض باغی تھے انہوں نے حکومت کے خلاف آوازیں picked up حضرت ابو بکر رضی اللہ تعالی عنہ کی خلافت بلکہ وہ صرف خلافت ہی نہیں تھی بلکہ حکومت بھی تھی اس کے خلاف جب بعض لوگوں نے تلواریں picked up تو ان کا تلوار سے مقابلہ کیا گیا۔ اسی طرح بعض اور فتنے برداشت لوگ تھے ان کو مقابلہ کیا گیا۔ لیکن کسی ایک صحابی کا بھی ذکر نہیں ملتا کہ اس نے کبھی کسی شخص کو اس وجہ سے قتل کیا ہو کہ اس نے حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی گستاخی کی ہے۔ بالکل ٹھیک فضل الرحمن صاحب جس طرح آپ نے مختلف مثالوں کے ساتھ یہ بات واضح کر دی ہے یہی تو ہمارا سوال ہے ہمارے مخالفین سے کہ ہمارا دعوی ہے تمام مسلمانوں کا دعوی ہے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم رحمت اللعالمین تھے تو یہ جو رحمت اللعالمین صلی اللہ علیہ وسلم کے نام پر جس قسم کی قتل و غارت سو کالڈ مسلمانوں نے جاری کی ہوئی ہے جماعت احمدیہ بہرحال اس کے حق میں نہیں ہے اور یہ اسلامی تعلیمات کے بالکل خلاف ہے بہت بہت شکریہ فضل الرحمن صاحب ناظرین کرام کے سوالات کا سلسلہ شروع ہو چکا ہے لیکن یہ بتانے کا یہ مقصد نہیں ہے کہ آپ مزید سوال نہ بھیجیں آپ مزید سوالات ضرور بھیجیں عارف الزمان صاحب محمد عبدالرشید صاحب ظفر اقبال صاحب اور عندلیب یوسف صاحبہ آپ کا سوال مل گیا ہے ظفر اقبال صاحب کا سوال بہت important ہے سارے سوال important ہیں لیکن ظفر اقبال صاحب کا سوال میں محترم عبدالسمیع خان صاحب کے سامنے پیش کرنا چاہوں گا سمیع خان صاحب ہمارے بھائی ہیں بریڈ فورڈ برطانیہ ظفر اقبال صاحب وہ یہ پوچھنا چاہ رہے ہیں کہ قرآن کریم کی کچھ آیات ایسی ہیں جو ایک سے زیادہ مرتبہ آئی ہیں ایک ہی آیت کئی بار نازل ہونے میں کیا حکمت ہے غالبا شاید سورۃ رحمٰن انہوں نے پڑھی ہو محترم عبدالسمیع خان صاحب جی جی جزاک اللہ یہ بہت ہی اہم اور دلچسپ سوال ہے دیکھیں آپ نے تو سورۃ رحمٰن کی مثال دی جس میں اکتیس بار تھرٹی ون دفعہ زبان والا حصہ بار بار دہرایا گیا ہے لیکن سورۃ فاتحہ سے پہلے جو بسم اللہ آتی ہے اس کو بھی تو ایک سو چودہ دفعہ قرآن کریم میں دہرایا گیا ہے تو قرآن کریم خود اس کو address کرتا ہے کہ ہم کیوں بار بار یہ آیتیں دہرا رہے ہیں اللہ تعالیٰ فرماتا ہے ہم اپنی کھول کھول کر بیان کرتے ہیں اور بار بار گھما پھرا کر بیان کرتے ہیں آیات سے مراد قرآن کریم کی آیات بھی ہیں اور آیات سے مراد نشانات بھی ہیں اور آپ یہ دیکھیں کہ قرآن کریم صرف آیات کو نہیں دہراتا قصوں کو بھی دہراتا ہے واقعات کو بھی دہراتا ہے اب آدم اور ابلیس کا قصہ کہ اللہ تعالی نے فرمایا کہ سجدہ کرو آدم کی وجہ سے اللہ تعالی کو سجدہ کرو تو یہ واقعہ قرآن شریف میں سات دفعہ بیان ہوا ہے حضرت موسیٰ علیہ السلام کا واقعہ قرآن کریم میں اٹھارہ دفعہ بیان ہوا ہے اسی طرح واقعات ہیں جو بار بار دہرائے گئے ہیں اب ان کی حکمت کیا ہے قرآن کریم خود بیان فرماتا ہے تاکہ تمہارے دل نرم ہوں اور ہر وقت چونکہ انسان سارا قرآن بار بار نہیں پڑھ سکتا اور تھوڑا تھوڑا پڑھتا ہے جیسے مثال کے طور پر کوئی شخص روزانہ ایک قربہ چوتھا ہے ایک سپارے کا چوتھا حصہ پڑھتا ہے کوئی آدھا پارہ پڑھتا ہے کوئی ایک پارہ پڑھتا ہے تو وہ قرآن کا حصہ کہیں سے بھی پڑھتا ہے تھوڑا سا چار پانچ رکوع تو اس میں اس کو وہی بات مل جاتی ہے جو اس کے دل کو نرم کرتی ہے اور خدا کے قریب جاتی ہے تھوڑا آگے چلتا ہے تو پھر وہی بات بیان کر دی جاتی ہے اسی طرح جو شخص مثلا تیس دنوں میں قرآن شریف ختم کرتا ہے تو روزانہ اس کو آدم اور ابلیس کا قصہ لازما نظر آئے گا روزانہ اس کو موسی علیہ السلام کے واقعات نظر آئیں گے روزانہ اس کو رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے اعلی اخلاق اور صحابہ کے اعلی اخلاق ضرور دکھائے جائیں گے اور یہ بار بار اس لیے ہے تاکہ تکرار کے نتیجے میں انسان کا دل متاثر ہو انسان کا دماغ متاثر ہو انسان کی روح متاثر ہو تو کریم کا یہی منشہ ہے ورنہ اللہ تعالی اگر چاہتا تو ان واقعات کی تکرار نہ کرتا اور یہ آیت جو اکتیس دفعہ یا سورۃ رحمان کی وہ بھی نہ کرتا سورۃ بسم اللہ بھی لکھ دینا بھی ایک دفعہ کافی تھی اور بعض آیات ہیں جو ایک دفعہ لکھنی کافی تھی اگر کوئی انسان کلام بناتا تو واقعی اس طرح کرتا ہم خود لکھنے والے ہیں ہم تو خود اپنے لکھے ہوئے کوئی کوشش کرتا کوئی لفظ بھی نہ دہرایا جائے کوئی فقرہ نہ دہرایا جائے لیکن ہماری تحریروں کا مقصد اور ہے خدا کا مقصد اور ہے اللہ تعالی کا مقصد دل بدلنا ہے دلوں پر اثر کرنا اس لیے وہ بار بار وہ واقعات بیان کرتا ہے تاکہ کسی وقت کسی انسان کے دل پر اثر ہو جائے اور ایسا ہوتا ہے اب یہ جو والی بات آپ نے کی ہے کہ اکتیس دفعہ سورۃ رحمان میں آئی ہے اس کے متعلق حضرت مولانا راجی کی صاحب کی ایک دلچسپ توفیق میں آپ کو بتاتا ہوں انہوں نے فرمایا مجھ پر کھولا گیا ہے کہ یہ جو بار بار آیت آتی ہے کہ تم دونوں گروہ اللہ تعالی کی کن کن نو ماہ کا انکار کرو گے یہ اکتیس دفعہ آئی ہے اور مہینوں کے دن جو بارہ مہینے ہمارے زیادہ سے زیادہ ان کی گنتی اکتیس ہے انتیس بھی ہے اٹھائیس بھی ہے تیس بھی ہے زیادہ سے زیادہ اکتیس ہے تو اللہ تعالی یہ بیان فرما رہا ہے کہ تمہارے ہر مہینے کے ہر دن میں خدا تعالی اتنی بے شمار نعمتیں نازل فرما رہا ہے تم کس کس کا انکار کر سکتے ہو ان باتوں کی اور توجیح بھی کی جا سکتی ہے بسم اللہ ایک سو چودہ دفعہ یہ اس کی توجیح بھی کی جا سکتی ہے تو حضرت مولوی صاحب نے یہ توجی سوچی ہے یا ان کو اللہ تعالی کی طرف سے بتائی گئی ہے بنیادی مقصد ایک ہی ہے کہ بار بار انسان کے دل پر وہ کلام نازل کیا جائے اور اس کے اس کا اثر ہو اور اس کی روح اسے تروتازگی محسوس کرے اور کسی وقت کسی بات کا اثر ہو جائے اور واقعتا ایسا ہی ہوتا ہے بہت بہت شکریہ عبدالسمیع خان صاحب آپ نے اسی مضمون کی طرف اشارہ کیا ہے جس کا قرآن کریم میں ان الفاظ میں بھی ذکر ہے کہ ذکر مومنین ناظرین کرام اگلا سوال جو عندلیب یوسف صاحبہ نے پاکستان سے ہمیں بھیجا ہے فضل الرحمان صاحب آپ کی خدمت میں پیش کر دیتا ہوں وہ جیسے انہوں نے سوال کیا ہے میں آپ کی خدمت پیش کر دیتا ہوں آج آپ پھر میری بہن کو اس کی وضاحت کر دیں وہ کہتی ہیں ایک عیسائی دوست نے بتایا عیسائیوں کا بھی ایک سردار ہے غالبا وہ پوپ کی طرف اشارہ کر رہی ہیں جو کہ ساری دنیا کے لیے ہے تو وضاحت فرما دیں وہ سمجھنا چاہ رہی ہیں کہ جس طرح جماعت احمدیہ میں ایک خلافت کا سلسلہ ہے عیسائیوں میں بھی ایک پوپ کا سلسلہ ہے تو یہ کیا سلسلہ ہے کچھ ان کو مختصرا بتا دیں بات یہ ہے کہ جہاں تک اس بات کا تعلق ہے کہ عیسائیوں کا ایک پوپ ساری دنیا میں ہے یہ تو اس میں کوئی شک نہیں کہ کچھ عیسائی ایسے ہیں کہ جو ایک پوپ کو مانتے ہیں لیکن یہ کہنا کہ گویا تمام دنیا کے تمام لاکھوں فرقے ہیں عیسائیت میں میرا خیال ہے لاکھوں کہہ سکتے ہیں کہ وہ یہ نہیں مانتے کہ ایک ہی ہمارا پوپ ہے سینکڑوں تو ضرور کہہ سکتے ہیں سینکڑوں ہو سکتے ہیں میرا خیال ہے کہ ہزاروں بھی شاید ہو سکتے ہیں لیکن کیا جماعت احمدیہ کی خلافت کی صداقت کی صرف یہ دلیل ہے کہ ہمارے ایک ایسا خلیفہ ہے جس کو ساری دنیا میں ایک خلیفہ کے طور پر مانا جاتا ہے قرآن کریم نے جس خلافت سچی خلافت کا ذکر کیا ہے اس کا ان الفاظ میں ذکر ہے کہ اللہ تعالیٰ مومنوں سے یہ وعدہ کرتا ہے کہ اور ان سے جو اعمال صالح بجا لاتے ہیں کہ ان میں اللہ تعالیٰ زمین میں خلافت قائم کرے گا کماستخلف الذین من قبلھم ان کی طرح جس اس نے پہلے لوگوں میں خلافت قائم کی اور پھر آگے سچی خلافت کی نشانیاں اللہ تعالیٰ بتاتا ہے اور یہاں پر جس خلافت کے ساتھ قرآن کریم نے مشابہت دی ہے کہ پہلی جو خلافت عیسائیت میں تھی یا حضرت عیسی علیہ السلام کے بعد ان کے جو قائم مقام تھے بلکہ حضرت موسیٰ علیہ السلام کے بعد بھی ان کے قائم مقام ہوئے خلیفے ہوئے اور بلکہ قرآن اور حدیث سے تو یہ پتا چلتا ہے کہ کوئی ایسا نبی نہیں جس کے بعد خلافت نہ ہوئی ہو اس کے کوئی نہ کوئی قائم کام رہے ہیں لیکن سچی کی نشانیاں کیا ہیں وہ آگے ذکر اللہ تعالی کرتا ہے فرماتا ہے کہ جو سچا خلیفہ ہو گا اس کے ذریعے کیا ہوگا کہ اللہ تعالی سچے خلیفہ کے ذریعے اس دین کو دنیا میں تمکنت عطا کرے گا جس کو اللہ تعالی پسند کرتا ہے اور ان کی جو خوف کی حالت ہے ان کے ذریعے امن میں اللہ تعالی اس کو بدل دے گا اور وہ ایسے خلیفہ ہوں گے جو اپنی جماعت کو اس طرح عبادت پر قائم کریں گے کہ وہ کسی خدا کے ساتھ کسی کو شریک ٹھہرانے والے نہیں ہوں گے اب عیسائیت کی خلافت کو ایک ظاہری رنگ میں اگر دیکھا جائے تو یہ تو ہم کہہ سکتے ہیں کہ ان میں بھی ایک ایک پوپ ہے خلیفہ ہے لیکن کیا وہ اگر عیسائیت کو ہی دیکھا جائے جو عیسائیت کی بنیادی تعلیم ہے اس سے موجودہ پوپ اور موجودہ جو عیسائیت ہے اس قدر دور ہٹ چکی ہے کیا ہم کہہ سکتے ہیں کہ عیسی علیہ السلام نے دنیا کو یہ تعلیم دی تھی کہ میری اور میری ماں کی عبادت کرو اور ایک کی بجائے تین خدا کی تم عبادت کرو بڑا واضح طور پر عیسائیت اپنی بنیاد سے ہٹ چکی ہے اور پوپ کے اندر یہ استطاعت ہی نہیں کہ لوگوں کو صحیح تعلیم کی طرف آ جو حضرت عیسی علیہ السلام کی اصل تعلیم تھی ان کی طرف لوگوں کو دوبارہ لا سکے تو وحدت کی علامت جماعت احمدیہ میں ہے اور وہ ایسی وحدت ہے جس کے ذریعے دن بدن خدا تعالی کا وہ دین جس کے ذریعے دنیا میں پاکیزہ پاکیزگی پھیل رہی ہے جس کے ذریعے دنیا میں اللہ تعالی کی عبادت کرنے والے دنیا میں پیدا ہو رہے ہیں ایک ایسی خلافت جس کے ذریعے خدا تعالی کا دین دنیا میں پھیل رہا ہے وہ صرف جماعت احمدیہ کو حاصل ہے باقی تو دنیا میں اور بھی بعض تنظیمیں ایسی ہو سکتی ہیں جن کے پاس کوئی ایسا لیڈر ہو جو ایک ہی ہو لیکن اصل بات جو صداقت علامت اگر دیکھا جائے تو اگر عیسائیت عیسائیوں سے ہی پوچھے کہ کیا واقعتا موجودہ جو پوپ ہے جو موجودہ ان کی وحدت کی ایک علامت ہے پوپ کیا واقعتا وہ ان کو اسی تعلیم پر قائم رکھے ہوئے ہیں جس جو تعلیم حضرت عیسی علیہ السلام لے کر آئے گئے آئے تھے تو ایسے بڑے واضح شفاعت مل جائیں گے کہ اصل تعلیم سے موجودہ عیسائیت بہت ہٹ چکی ہے وہ لوگ جو نسبتا بہتر عیسائی کہلاتے ہیں وہ بھی اس قدر شرک میں ڈوبے ہوئے ہیں مجھے یاد ہے یہاں یو کے میں ایک دفعہ ایک church میں جانے کا موقع ملا وہاں پر مریم علیہ السلام کا ابھی ایک مورتی رکھی ہوئی تھی عیسی علیہ السلام کی بھی رکھی ہوئی تھی تو میں نے شاید بھول پل میں اپنے دوست اس کے ساتھ میں گیا تھا اس کو کہہ دیا کہ دیکھو یہ تو مجھے شرک لگتا ہے یہ تو بت پرستی لگتی ہے اس پر اس کو اتنا غصہ آیا مجھے بعد میں احساس ہوا کہ مجھے شاید اس طرح نہیں کہنا چاہیے تھا مطلب یہ ہے کہ وہ بھی سمجھتے ہیں کہ یہ جو بت پرستی ہے یہ عیسی علیہ السلام کی تعلیم نہیں ہے حالانکہ واضح طور پر اسی عیسیٰ کی تصویر اور اس کے بت کے سامنے وہ جھکتے بھی تھے بلکہ میں نے سجدہ کرتے دیکھے بڑے بڑے پڑھے لکھے لوگوں کو کیا جو بنیادی تعلیم کسی بھی نبی کی یہ تھی کہ دنیا کو ایک تو خدا کی طرف بلایا جائے اور توحید پر قائم کیا جائے تو یہ ایک بڑی بنیادی مثال ہے کہ موجودہ پوپ جو ہے کیا دنیا کو صحیح توحید پر قائم رکھے ہوئے ہیں کیا اس کے اندر یہ طاقت ہے کہ موجودہ جو عیسائیت تسلیس کے کی پجاری گئی ہے عیسیٰ علیہ الصلوۃ والسلام کو گویا ایک ایسا نبی سمجھتی ہے یا ایسا خدا مانے ہوئے ہیں کہ جس کو یہودیوں نے سولی پہ سولی پر بھی چڑھایا اس نے مارے بھی کھائیں اس نے تو کئی طرح کی اس کی ذلت کی اور کیا اس کی عزت کو صحیح طور پر موجودہ پوپ قائم کر سکتا ہے تو بڑا زمین و آسمان کا فرق فرق ہو چکا ہے تو ہماری بہن دلیپ یوسف صاحبہ نے جو سوال کیا ہے ان کے جو عیسائی دوست نے ان کو جو بات بتائی وہ بالکل درست ہے کہ ان کا بھی ایک مذہبی leader ہے اور خاص طور پہ جو ان کے جو بڑے دو ہیں ایک کیتھولک ایک اور ایک پروٹسٹنٹ جو کیتھولک ہیں.

00:26:28

ان کے وہ لیڈر ہیں جو پوپ کہلاتے ہیں. لیکن جس طرح آپ نے وضاحت کے ساتھ بات بیان کی اصل تو وہ غور طلب بات ہے. بہت شکریہ فضل الرحمان صاحب ناظرین کرام ہمیں ایک سوال بھیجا گیا ہے پاکستان سے جو ہمارے اہ غیر احمدی بھائی ہیں علی حسنین صاحب میں ان کا سوال محترم عبدالسمیع خان صاحب کی خدمت میں پیش کرنا چاہوں گا.

00:26:50

عبدالسمیع خان صاحب ہمارے بھائی علی حسنین کہتے ہیں میں آپ کا چینل اکثر دیکھتا ہوں لیکن ایک سوال ہے کہ احمدیہ جماعت مرزا صاحب کو نبی کیوں مانتی ہے جب کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم آخری نبی ہیں محترم عبدالسمیع خان صاحب جس طرح ہمارے بھائی نے سوال کیا ہے میں نے آپ کی خدمت میں پیش کر دیا ہے آپ ہمارے بھائی کی رہنمائی کر دیں جی میں بڑی آسان اور سادہ زبان میں اپنے بھائی کی خدمت میں یہ عرض کرتا ہوں کہ نبی کے لفظ سے آپ کو دھوکا دیا جاتا ہے اگر تو نبی کے لفظ کی تعریف کی بات ہے تو سارا جھگڑا اسی میں ہے نبی کے مراد اگر یہ ہے کہ کوئی ایسا شخص آئے گا جو رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی تعلیمات میں کوئی تبدیلی کر دے گا تو جماعت انبیاء اس معنی میں کسی نبی کے آنے کی منکر ہے جماعت ہر فرد کو جھوٹا سمجھتی ہے جو کہے کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی شریعت میں کوئی تبدیلی ہو سکتی ہے اور اگر نبی سے یہ مراد ہے کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد کوئی ایسا شخص آئے گا جو کوئی نئی شریعت لے کے آئے گا تو وہ بھی غلط ہے اب یہ بھی جھوٹ ہے یہ خدا کے واضح منشا کے خلاف کیونکہ اللہ تعالی نے شریعت کو مکمل کر دیا ہے اب کسی نئی شریعت کے متعلق خدا تعالی فرماتا ہے کہ نہ ضرورت ہے اور نہ اس کی کوئی گنجائش ہے تیسری بات یہ ہے کہ اگر نبی سے یہ مراد ہے کہ کوئی شخص رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے فیض کے بغیر آپ کی کے بغیر اگر کوئی شخص کوئی روحانی درجہ اور مقام پا سکتا ہے تو یہ بھی جھوٹ ہے ان معنوں میں کوئی نبی نہیں یہ تینوں باتیں میں نے آپ کے جو سامنے رکھ دی ہیں آپ کسی سے پوچھ کے دیکھیں نبوت کی تعریف وہ یہی کرتے ہیں اور اگر نبی کی وہ تعریف یہ کرتے ہیں تو جماعت انبیاء ان معنوں میں کسی شخص کو بھی نبی نہیں مانتی بلکہ مسعود علیہ السلام فرماتے ہیں کہ ہم ایسے شخص پر **** ڈالتے ہیں جو رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد کسی شریعت کا دعویٰ کریں یہ آپ کی شریعت میں کوئی تبدیلی کا دعویٰ کریں یا آپ کے فیض کے بغیر کسی روحانی مقام کے اصول کا دعویٰ کریں ایسے شخص حضور ہیں اور خدا کے حضور پکڑے جائیں ہم نبوت کی یہ تعریف کرتے ہیں جو رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے بڑی سادہ زبانیں بیان فرمائی کہ اللہ تعالی لوگوں سے کلام کرتا تھا کرتا رہے گا اللہ تعالی لوگوں کو سچے خواب دکھاتا تھا دکھاتا رہے گا اللہ تعالی لوگوں کو غیب کی خبریں دیتا تھا وہ دیتا رہے گا اور یہ سب کچھ ہو گا رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی اطاعت اور آپ کی برکت اور آپ کے فیض کے نتیجے میں اور جب اللہ تعالی چاہے گا تو کسی ایسے شخص کو جو اس پہ کثرت سے اس نے غیب نازل کیا ہو جس پہ کثرت سے اس نے غیب کی خبریں دی ہوں مستق کی پیش گوئیاں کی ہوں اور غیر معمولی اس سے کلام کیا ہو جب خدا چاہے گا کسی کو لقب دینا تو وہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی برکت سے اس کو نبی کا لقب بھی عطا کرے گا جس طرح آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے آنے والے مسیح کو نبی اللہ کے نام سے یاد فرمایا تو ہمارے اس وقت جو مخالفین ہیں وہ درحقیقت ان ساری باتوں کا انکار کر چکے ہیں وہ الہام کا سچے خوابوں کا اللہ تعالی کی طرف سے آنے والی خوشخبری وہ تمام کے تمام سے منکر ہو چکے ہیں جماعت انبیاء ہے کہ اللہ تعالی نے یہ رستہ بند نہیں کیا یہی تو ایک سچے مذہب کی علامت ہے یہی تو ایک سچے خدا کی علامت ہے یہی زندہ خدا کی علامت ہے مسیح محمد علیہ السلام نے رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو زندہ نبی کے طور پر پیش کیا ہے کہ آپ کی روحانی زندگی پر کبھی موت نہیں آئے گی آپ جسمانی طور پر دنیا سے چلے گئے لیکن آپ پر روحانی موت کبھی نہیں آئے گی تو رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی برکت سے رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے خود فرمایا کہ ایک شخص ایسا آئے گا جس کو مسیح نبی اللہ کے نام سے آپ نے یاد فرمایا اب اگر وہ مسیح آسمان سے آنا موجود ہے تو آسمان سے ہی آئے گا اس میں کوئی شک نہیں لیکن اگر وہ مسیح آسمان پر نہیں گیا اور وہ فوت ہو چکا ہے تو پھر امت محمدیہ کے کسی شخص کو یہ لقب عطا ہو گا جس کا ترجمہ مسیح مودی علیہ السلام نے فرمایا ہے میں کثرت مکالمہ مخاطبہ یعنی کثرت علم غیب کا شرف رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی غلامی میں عطا کیا گیا ہوں اس لیے اللہ تعالی نے میرا نام نبی رکھا ہے تو وہ سارے لوگ جو مسیح کی آمد کے قائل ہیں جو مسیح کو زندہ آسمان پر بٹھا کر اس کی آمد کا انتظار کر رہے ہیں دراصل وہ سارے اسی مسیح معود نبی اللہ کا انتظار کر رہے ہیں جس کو جماعت پہ ایمبیہ مسیح معود نبی اللہ تسلیم کر چکی ہے اس لیے اب جھگڑا صرف اس بات میں ہے اگر مسیح آسمان پہ زندہ ہے تو وہی آئے گا اور اگر وہ فوت ہو چکا ہے تو اس کا نام پا کر رسول اللہ کی پیش گوئیوں کے نتیجے میں کوئی اور شخص آئے گا اور خدا کی فعلی شہادت نے ثابت کر دیا ہے کہ وہ حضرت مرزا غلام احمد کا علیہ السلام ہیں ان کے ساتھ خدا تعالی نے نبیوں والے واقعات گزارے کہ نہیں گزارے ان کے ساتھ نبیوں والی تائید و نصرت کی یا نہیں کی نبیوں والی محبت اور پیار اور ان کی پیشگوئیاں پوری کی کہ نہیں کی اگر خدا نے ان کے ساتھ یہ کیا ہے تو پھر وہ سچے ہیں اور اگر خدا کی نصرت ان کے ساتھ نہیں ہے اگر خدا تعالی کی طرف سے ان کو کوئی رہنمائی حاصل نہیں ہے ان کی پیشگوئیاں پوری نہیں ہوئی تو پھر غلط ہے پھر جماعت عملی بالکل بے کار ہے لیکن ہم یقین کر رہے ہیں اور روزانہ ان کی پیش گوئیوں کو پورا ہوتے ہوئے رہے ہیں ان کی خوشخبریوں کو دنیا کے کناروں تک پورا ہوتے دیکھ رہے ہیں اسی نے کہا تھا کہ خدا نے مجھے کہا میں تیری تبلیغ کو زمین کے کناروں تک پہنچاؤں گا اس نے قادیان میں بات کی اور آج دنیا میں ساری دنیا میں اس کا پیغام پہنچ چکا ہے میں یہاں جس جامعہ احمدیہ میں پڑھاتا ہوں گانا میں یہاں چھبیس ملکوں کے ڈھائی سو طلباء زیر تعلیم ہیں اور یہ چھبیس ملکوں کے طلباء تیار ہو رہے ہیں اور مسیح محمد کا پیغام یہاں پہنچ رہا ہے اس کو وہ اردو زبان میں پڑھتے ہیں اور سنتے ہیں اور پھر واپس جا کے اپنی قوموں تک کیا یہ کسی جھوٹے کا کام ہے کیا یہ خدا کی تائید اور نصرت کا واضح اعلان نہیں ہے تو حقیقت یہ ہے کہ یہ موت کے نام پہ آپ کو جتنی باتیں کہی جا رہی ہیں یہ سب دھوکہ ہے بات وہی ہے خلاصتا جو میں نے آپ کے سامنے عرض کر دی بہت بہت شکریہ عبدالسمیع خان صاحب مجھے امید ہے ہمارے بھائی علی حسنین صاحب کو ان کے سوال کا جواب مل گیا ہو گا میرے بھائی دیکھنے کی اس بات کی ضرورت ہے اس بات پر سوچنے کی ضرورت ہے کہ ایک دعوی کرنے والا دعوی کر رہا ہے اور وہ یہ دعوی ہے کہ میں آقا و مولا حضرت محمد مصطفی احمد مجتبی صلی اللہ علیہ وسلم کی پیش گوئیوں کے عین مطابق اس دنیا میں آیا ہوں حضرت مرزا غلام احمد قادیانی علیہ الصلاۃ والسلام یہ بتا رہے ہیں کہ وہ مسیح موعود اور وہ مہدی ماؤد جس کی پوری امت مسلمہ یہاں تک کہ عیسائی عیسائی بھی اس کا انتظار کر رہے ہیں وہ میں ہوں اب دیکھنے اور سننے والوں کا یہ فرض ہے کہ وہ غور کریں فکر کریں اور سب سے بڑھ کر اللہ تعالی سے حاصل کریں یقینا اللہ تعالی آپ کی رہنمائی کرے گا فضل الرحمن صاحب ہم نے آج کی جو گفتگو کا آغاز کیا تھا وہ حفاظت قرآن کریم کے حوالے سے کیا تھا میں چاہوں گا کہ آپ تھوڑا ناظرین کو اس پہلو سے بھی تو بتائیں نا دیکھیں ہمارے مخالفین ہم پہ اعتراض لگا دیتے ہیں اور بغیر سوچے سمجھے وہ ایک مخالفت کی وجہ سے ایک بات کہہ دیتے ہیں اب ہمارے اوپر اعتراض کے کیا جا رہا ہے کہ گویا نعوذباللہ نعوذباللہ قرآن کریم میں تحریف کر رہے ہیں جب ظاہری تعریف نے تو پھر کہہ رہے ہیں نہیں معنوی اور تفسیری تحریف کر رہے ہیں لیکن دوسری طرف ہمیں یہ نظر آتا ہے کہ حفاظت قرآن کریم کا وعدہ تو خود اللہ تعالی نے کیا ہے تو یہ الزام لگ ہی کیسے سکتا ہے یا کوئی یہ کیسے کر سکتا ہے آپ اس بارے میں کچھ وضاحت کر دیں بالکل بات درست ہے کہ خود قرآن کریم یہ فرماتا ہے قرآن کریم کے بارے میں کہ قرآن کریم کا جمع کرنا اور پھر اس کو پڑھ کر سنانا یہ گویا آہ کہتا ہے یہ میری ذمہ داری ہے پھر ایک جگہ فرماتا ہے اللہ تعالی کہ اے محمد صلی اللہ علیہ وسلم خدا تعالیٰ تجھے ایسے قرآن پڑھائے گا کہ تو اس کو نہیں بھولے گا قرآن کریم کو ہی دیکھا جائے تو قرآن کریم میں بڑا واضح طور پر اللہ تعالی نے یہ وعدہ وعدہ کیا سورہ حجر میں آیت نمبر دس ہے کہ ہم ہی اس قرآن کو نازل کرنے والے ہیں اور ہم ہی اس کی حفاظت کرنے والے ہیں آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اپنے بعد مسلمانوں کے بگڑنے کی کئی طرح مسلمانوں کو متنبہ کیا بلکہ ایک ایسا زمانہ بتایا ہے کہ علماء مسلمانوں کے آسمان کے نیچے سب سے بدترین مخلوق ہو جائیں گے اور ان مساجد بظاہر آباد ہوں گی لیکن وہ فتنوں سے کی آماجگاہ ہو گی اس زمانے میں بھی حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے یہ نہیں فرمایا کہ قرآن جو ہے وہ بگڑ جائے گا یا قرآن میں تحریف ہو جائے گی فرمایا کہ قرآن کریم میں سے نہیں باقی یہ بچے گا مگر اس کی اس کی تحریر یا اس کے الفاظ باقی رہ جائیں گے مسیح نے حفاظت قرآن کے مضمون کو ایک جگہ بڑے جامع شکل میں پیش کیا ہے میں وہ حوالہ پڑھنا چاہتا ہوں ضرور حضرت مسیح ماؤل فرماتے ہیں قرآن شریف میں یہ وعدہ تھا کہ خدا تعالی فتنوں اور خطرات کے وقت میں دین اسلام کی حفاظت کرے گا جیسا کہ وہ فرماتا ہے سو خدا تعالی نے بمع جب اس وعدہ کے چار قسم کی حفاظت اپنی کلام کی کی اول حافظوں کے ذریعہ سے ان کے اس کے الفاظ اور ترتیب کو محفوظ رکھا اور ہر ایک میں لاکھوں ایسے انسان پیدا کیے جو اس کی پاک کلام کو اپنے سینوں میں حفظ رکھتے ہیں.

00:36:40

ایسا حفظ کہ اگر ایک لفظ پوچھا جائے تو اس کا اگلا پچھلا سب بتا سکتے ہیں. اور اس طرح پر قرآن قرآن کو تحریف لفظی سے ہر ایک زمانہ میں بچایا.

00:36:52

دوسرے ایسے آئمہ اور اکابر کے ذریعہ سے جن کو ہر ایک صدی میں فہم قرآن عطا ہوا ہے. جنہوں نے قرآن شریف کے اجمالی مقامات کی احادیث نبویہ کی مدد سے تفسیر کر کے خدا کی پاک کلام اور پاک تعلیم ہر ایک زمانہ میں تحریف معنوی سے محفوظ رکھا تیسرے متکلمین کے ذریعہ سے جنہوں نے قرآنی تعلیمات کو عقل کے ساتھ تطبیق دے کر خدا کی پاک کلام کو کوتا اندیش فلسفیوں کے استغفار سے بچایا ہے چوتھے روحانی نام پانے والوں کے ذریعہ سے جنہوں نے خدا کی پاک کلام کو ہر ایک زمانہ میں معجزات اور معارف کے منکروں کے حملہ سے بچایا حضرت مسیح علیہ السلام کا یہ مضمون بڑا دلچسپ ہے ایام صلح میں حضور نے بلکہ فرمایا کہ ظاہری حفاظت تو ویسے اتنی اہمیت نہیں رکھتی بلکہ آپ نے بڑی دلچسپ مثال دی کہ ممکن ہے تورات اور انجیل بھی کسی گھڑے سے یا کسی پرانی عمارت سے کسی زمانے میں بالکل اصل حالت میں نکل آئے تو کیا ہم یہ کہیں گے کہ گویا ان کی بھی اسی طرح حفاظت موجود ہے آئے دن کوئی نہ کوئی کتابیں پرانی اور بھی کئی کتابیں ایسی ہیں جو صدیوں پرانی ہیں اور وہ بالکل صحیح سلامت مل جاتی ہیں اصل تو قرآن کریم کی مانوی حفاظت ہے اگر اس کو دیکھیں تو اس کا بھی ذمہ داری کس کی ہے اللہ تعالیٰ کہتا ہے ہم نے اس ذکر کو اس قرآن کو اتارا ہے ہم ہی اس کی حفاظت کرنے والے ہیں تو جماعت احمدیہ کے علاوہ اس وقت دنیا میں کسی اسلامی فرقے کا یہ دعویٰ ہی نہیں کہ وہ جو قرآن کی حفاظت کر رہے ہیں اس کے پیچھے خدا کا ہاتھ ہے بلکہ جیسا کہ ابھی سمیع خان صاحب نے بتایا کہ مسلمانوں کے اندر تو اتنی تفسیریں ہیں اتنے ان اس کے اندر تضادات ہیں ایک دوسرے کے خلاف اس کی وجہ سے کفر کے فتوے بھی لگاتے رہتے ہیں لیکن کسی کو یہ دعویٰ نہیں کہ وہ یہ کہہ سکے کہ مجھے خدا نے بتایا کہ یہ بات ٹھیک ہے یہ غلط ہے صرف اور صرف جماعت احمدیہ ہے کہ جس کے بانی حضرت مسیح موعود علیہ السلام کا ارشاد ہے کہ مجھے اس زمانے میں خدا نے حکم اور عدل بنایا ہے اور مجھ پر اللہ تعالی وحی کرتا ہے الہام کرتا ہے اور بتاتا ہے کہ یہ صحیح ہے یہ غلط ہے اور یہ اور باقی مسلمانوں کا اس وقت یہ حالت ہے کہ وہ اگر ان میں سے کوئی دعوی کرے کہ مجھے خدا نے یہ بتایا ہے کہ یہ جو تفصیل یہ ٹھیک ہے یہ غلط ہے تو وہ تو اس کے قتل کے فتوے دینے شروع کر دیتے ہیں تو اس وقت اگر کوئی حفاظت کر رہا ہے وہ صرف اور صرف جماعت احمدیہ کے ذریعے ہے باقیوں کا تو دعویٰ ہی نہیں کہ گویا ہمیں خدا تعالی کی طرف سے الہام یا وحی کے ذریعے یہ بتایا جاتا ہے کہ کی یہ تفسیر ٹھیک ہے یہ غلط ہے وہ تو جو ان کے ذہن میں آتا ہے لکھتے چلے جاتے ہیں اور اتنی خطرناک تفسیریں لکھی ہیں کہ اس کو پڑھتے ہوئے بھی بعض اوقات شرم آتی ہے تو صرف اور صرف جماعت احمدیہ ہے جو ذکر جو خدا نے یہ کہا کہ میں حفاظت کروں گا جس کا یہ دعویٰ ہے کہ جماعت احمدیہ کے جو بانی ہیں حضرت مسیح اس زمانہ کے حکم اور ازل ان پر خدا کی وحی کے ذریعے اور خدا کے الہام کے ذریعے یہ واضح ہوا کہ کون سی تفسیر صحیح ہے اور کون سی غلط ہے بالکل ٹھیک فضل صاحب جس طرح ناظرین کے بھی علم میں ہوگا جو لوگ پڑھتے ہیں جو لوگ اس بات کو جانتے ہیں اور جو خاص طور پہ علماء کا طبقہ ہے وہ تو یہ بہت اچھی طرح جانتا ہے کہ حضرت اقدس مسیح معود علیہ الصلاۃ والسلام کے زمانے تک نوبت پانچ سے لے کر پانچ سو آیات تک کی آ چکی تھی یعنی تحقیق کرتے کرتے پانچ تک تو بہرحال لوگ مانتے تھے کہ یہ بہرحال منسوخ ہو چکی ہیں آیات جو اب قابل عمل نہیں ہیں یہ حضرت اقدس مسیح موعود علیہ الصلاۃ والسلام ہی تھے جنہوں نے فرمایا کہ قرآن کریم کا ایک نقطہ اور ایک شوشہ بھی ایسا نہیں ہے کہ جو آج قابل عمل نہ ہو بلکہ ویسا ہی جیسا آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم پر اس کا نزول ہوا ناظرین کرام آپ کے سوالات کا سلسلہ جاری ہے لیکن آپ سوالات مزید بھی بھیجتے رہیں کیونکہ اگر آج کے program میں ہم آپ کے سوالات شامل نہیں کر سکے تو یقینا آئندہ program میں ضرور آپ کے سوالات کو ہم شامل کریں گے خان صاحب بڑی تسلسل کے ساتھ ہمیں اپنے سوالات بھیجتے ہیں ان کا سوال میں محترم عبدالسمیع خان صاحب کی خدمت میں پیش کرنا چاہوں گا برطانیہ سے خان صاحب ہمیں اپنا سوال بھیجتے ہیں محترم عبدالسمیع خان صاحب خان صاحب برطانیہ والے آپ سے سوال یہ پوچھنا چاہ رہے ہیں کہ کیا آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم اور چودہ سو سال کے مسلمانوں کو اللہ تعالی نے گمراہ رکھا یہ ان کا خیال ہے میں اسی طرح آپ کے سامنے پیش کر رہا ہوں اور اس غلط عقیدے پر قائم رکھا کہ حضرت عیسی علیہ الصلاۃ والسلام زندہ آسمان پر چلے گئے ہیں اور اللہ تعالی نے اس عقیدہ کی غلطی کیوں کسی پر نہیں کھولی خان صاحب یہ پوچھنا چاہتے ہیں جو سوال ہے آپ کی خدمت میں پیش ہے محترم عبدالسمیع خان صاحب یہ خان صاحب کی خدمت میں میں عرض کرتا ہوں کہ یہ بات سوچنا کہ اللہ تعالی نے رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو نعوذ باللہ گمراہ رکھا محمدیہ کو یہ بالکل غلط بات ہے اور ہم تو اس کا تصور بھی نہیں کر سکتے دراصل آپ کو غلطی اس بات سے لگی ہے کہ آپ یکطرفہ literature پڑھتے ہیں آپ یہ پڑھتے ہی نہیں کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم خود وہ فاتح مسیحی قائل تھے آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے تو حضرت عیسی علیہ السلام کی عمر بھی بیان فرما دی آپ نے فرمایا عیسیٰ علیہ السلام ایک سو بیس سال کی عمر پا کر فوت ہوگئے۔ آپ یہ پڑھتے ہی نہیں کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے جب نگران کے عیسائیوں سے بحث کی تو اس میں فرمایا کہ ہمارا خدا زندہ ہے عیسی عطا ہمارا خدا ہمیشہ زندہ رہے گا اور حضرت عیسی علیہ السلام پر تو فنا آ چکی ہے۔ آپ یہ پڑھتے ہی نہیں کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات پر حضرت ابوبکر صدیق نے جب یہ آیت تلاوت فرما کر رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات ثابت کی تو اصل سارے نبیوں کی وفات ثابت کر دی۔ جب حضرت عمر اور بعض دوسرے صحابہ شاید یہ سمجھ رہے تھے کہ حضرت رسول پاک صلی اللہ علیہ وسلم فوت نہیں ہوئے تو حضرت ابوبکر رضی اللہ تعالی عنہ نے قرآن کریم کی ایک ایسی آیت پڑھی جس نے صرف رسول اللہ کی وفات ثابت نہیں کی سارے نبیوں کی وفات ثابت کر دی ورنہ ان کا استدلال بالکل بے معنی ہو جاتا ہے فرمایا ما محمد قد خلق بن قبل رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم رسول ہیں اور اس لیے آپ کا فوت ہونا آپ کی رسالت میں روک نہیں کیونکہ آپ صرف سارے رسول فوت ہو چکے ہیں۔ اگر کوئی ایک رسول بھی زندہ موجود ہوتا تو حضرت ابوبکر یہ کی یہ دلیل کسی کام کی نہیں رہتی ایک شخص اٹھ کے کہہ سکتا تھا کہ حضرت عیسی تو زندہ ہیں۔ حضرت خضر بھی زندہ ہیں۔ حضرت رئیس بھی زندہ ہیں اگر وہ زندہ ہو سکتے ہیں تو ہمارا رسول کیسے فوت ہو گیا۔ پس حضرت ابوبکر نے امت محمدیہ کے سامنے جب یہ آیت تلاوت کی اور تمام صحابہ نہ صرف خاموش ہو گئے بلکہ بعض صحابہ کہتے ہیں ہمیں یوں لگا کہ یسی آیت پہلی دفعہ نازل ہوئی ہے۔ اور اس کے بعد کی گلیوں میں کثرت کے ساتھ صحابہ کہتے ہیں یا تلاوت کی جا رہی تھی آپ ذرا اطمینان سے اس بات کو سوچیں ایک منٹ کے لیے کہ اگر ایک بھی نبی زندہ ہوتا تو کوئی کسی کا عقیدہ ہوتا کہ کوئی ایک نبی حضرت عیسی علیہ السلام ہی زندہ ہیں تو کوئی تو اٹھ کے کہہ سکتا تھا کہ مسیح زندہ تو ہمارا نبی کیوں نہیں زندہ ہو سکتا دلیل ہی یہ بنتی ہے کہ سارے فوت ہو گئے ہیں اس لیے رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا فوت ہونا آپ کی رسالت میں آپ کی نبوت میں شرک تو امت محمدیہ تو گمراہ نہیں ہوئی امت محمدیہ سیدھے رستے پر قائم تھی جس پر رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کو قائم کیا تھا خلافت راشدہ تک امت محمدیہ قائم تھی حضرت علی رضی اللہ تعالی عنہ کی وفات پر حضرت امام حسن نے خطبہ دیا وہ آپ کیوں نہیں پڑھتے آپ صرف یکطرفہ literature پڑھتے ہیں کبھی یہ literature بھی پڑھ لیں کہ حضرت حسن نے خطبہ دیا اور فرمایا آج کی رات جب علی فوت ہوئے ہیں آج کی رات اس شخص کی طرح آسمان کی طرف اس picked up گئی ہے جس طرح عیسی بن مریم کی روح آسمان کی طرف picked up گئی تھی اور وہ رمضان المبارک کی رات تھی تو حضرت حسن علیہ السلام اور پہلے اور اس سے پہلے سارے صحابہ تو وہ فاتح مسیح قائل تھے ہاں آہستہ آہستہ جب باہر سے قومیں آئیں نئے مسلمان ہوئے اور وہ عیسائی جو آئے وہ حضرت عیسی علیہ السلام کو خدا مانتے تھے تو انہوں نے ان سارے عقیدوں کا ایک ملغوبہ سا بنایا اور کہا کہ حدیث میں چونکہ نزول کا لفظ آتا ہے اس لیے مسیح علیہ زندہ آسمان پر ہیں لیکن یہ بات بھی غلط ہے کہ امت محمدیہ چودہ سو سال سے بعد میں یعنی خلافت راشیہ کے بعد بھی انہیں زندہ مانتی رہی ہے بہت سے بزرگوں نے حضرت عیسی علیہ السلام کی حیات کا اعتراف نہیں کیا بلکہ وفات ثابت کی ہے حضرت امام مالک جو آئمہ اربعہ میں سے فقہ کے جو سب سے پہلے ہیں بزرگ وہ کہتے ہیں حضرت امام حضرت امام مالک کہتے ہیں حضرت عیسی علیہ السلام فوت ہو چکے ہیں حضرت دوسرے بہت سے میرے سامنے اس وقت سارے نام نہیں ہیں لیکن بہت سے بزرگان کی فہرست موجود ہے ان کے حوالے موجود ہیں جن میں وہ کہہ رہے ہیں کہ حضرت عیسی علیہ السلام فوت ہو چکے ہیں حضرت محمد ابن عربی کہتے ہیں کہ حضرت عیسی علیہ السلام کا دوبارہ نزول ہو گا لیکن ایک نئے جسم کے ساتھ ہو گا یعنی وہ جسم تو ختم ہو گیا ان کی روح کی صلاحیتیں لے کر ان کی روح کی پاک باتیں لے کر ایک نئے شخص پر حضرت عیسی علیہ الصلاۃ والسلام کی روح نازل ہو گئی اور اسی کو مسیح نبی اللہ کہا گیا تو حضرت عیسی علیہ الصلاۃ والسلام کی وفات خلافت راشدہ کے تک تو یقینا قائم تھی یعنی امت محمدیہ پر قائم تھی اس کے بعد بعد میں آنے والی قوموں کے ذریعے بگاڑ پیدا ہوا جو آہستہ آہستہ بڑھتا چلا گیا لیکن اس دور میں بھی کلمہ حق بلند کرنے والے موجود تھے یہاں تک کہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلاۃ والسلام جب تشریف لائے تو آپ پر خدا تعالی نے کھل کر یہ بات واضح کر دی اور تیس آیات سے آپ نے حضرت مسیح کی وفا ثابت کی آپ نے قرآن سے حدیث سے تاریخ سے طب کی کتابوں سے کشمیر کی تاریخوں سے یہ بات ثابت کر کے دکھا دی ہے کہ حضرت عیسی علیہ السلام فوت ہو چکے ہیں آپ ذرا ہمارا teacher پڑھیں تو سید مسیح محمد علیہ السلام کی کتاب ہے مسیح کشمیر میں آپ ذرا اس کو دیکھیے اور پھر بتائیے آپ کے دل پر اس کا اثر ہوتا ہے کہ نہیں اللہ تعالی آپ کو حق پہچاننے کی توفیق دے بہت بہت شکریہ عبدالسمیع خان صاحب آپ نے حضرت اقدس مسیح معود علیہ الصلاۃ والسلام کی کتاب مسیح ہندوستان میں اس کا بھی ذکر کیا ہے ناظرین آپ سب لوگوں کے لیے اس بات کا بھی ذکر کرنا بہت ضروری ہے کہ جماعت احمدیہ کی official website ہے الاسلام dot او جماعت احمدیہ کی کتب جماعت احمدیہ کا جو بھی موقف یہاں بیان کیا جا رہا ہے وہاں آپ کو با آسانی کے ساتھ مل جائے گا یہ ویب site نہ صرف اردو بلکہ انگریزی اور عربی میں بھی موجود ہے آپ ضرور اس کو visit کریں فضل الرحمن صاحب ایک اور سوال ہماری بہن راشدہ چوہدری صاحبہ نے کینیڈا سے بھیجا ہے وہ پوچھنا چاہتی ہیں کہ آج کل مولوی صاحبان اچھا فضل صاحب میں یہ ضرور ذکر کرنا چاہوں گا کہ جو ہمارے احمدی حضرات ہماری بہنیں یا ہمارے بھائی سوال کرتے ہیں ان کے سوال ان کی تڑپ نظر آ رہی ہوتی ہے چنانچہ وہ یہ سوال بھی اسی معنی میں کر رہی ہیں کہ آج کل جماعت احمدیہ پر مولوی حضرات جماعت کے چندوں پر اعتراض کرتے ہیں اور خود وہ یہ بیان کر رہی ہیں کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانے میں بھی تو صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین اپنا مال خدا تعالی کی راہ میں دیا کرتے تھے تو پھر ہمارے مخالفین کیوں ہمارے چندوں پر اعتراض کرتے ہیں مختصرا ان کو بتا دیں اچھا ہے کہ اعتراض تو خیر کوئی بھی کر سکتا ہے لیکن ضمن میں شروعی میں بتا دوں کہ قرآن کریم نے چندوں پر یا خدا کی راہ میں خرچ کرنے والوں پر اعتراض کرنے والوں کو منافق قرار دیا ہے کہ وہ لوگ جو خدا کی راہ میں خرچ کرتے ہیں بعض لوگ ان کو بھی مورد الزام ٹھہراتے ہیں اور قرآن کہتا ہے کہ بعض لوگ بہت زیادہ دیتے ہیں تو وہ کہتے ہیں کہ جو جی کیا خدا تعالی محتاج ہیں کہ جو اس اس کے نام پر اتنے چندے لیے جا رہے ہیں اور اگر کوئی تھوڑا سا چند سکتا ہے بیچارہ غریب تو کہتے ہیں جی خدا کو کیا اس تھوڑے سے چندے کی کیا ضرورت ہے تو لیکن اگر قرآن اور حدیث کو دیکھا جائے خاص طور پر قرآن کریم میں تو کثرت سے اس بات کی تلقین ہے بلکہ ایک جگہ تو اللہ تعالی فرماتا ہے تم نیکی کو ہرگز پا ہی نہیں سکتے جب تک کہ تم خدا کی راہ میں وہ چیز خرچ نہ کرو جو تمہیں بہت پسند ہے خدا تعالی نے قرآن کریم کے شروع میں ہی مومنوں کی جو بڑی بڑی بتائی ہیں بنیادی علامتیں کہا جا سکتا ہے اس میں فرمایا کہ کہ مومنوں کی بنیادی علامتوں میں سے یہ ہے کہ وہ غیب پر ایمان لاتے ہیں اور نماز قائم کرتے ہیں اور جو کچھ ہم نے ان کو دیا ہے اس میں سے خرچ کرتے ہیں قرآن کریم میں ایسی بے شمار آیات ہیں جو بار بار اس بات کی تلقین کرتی ہیں لیکن یہاں ایک اور بات جو صرف اور صرف جماعت احمدیہ کے ساتھ ہے اس بات کی دلیل ہے کہ جو جماعت احمدیہ نظام جماعت وصول کرتا ہے اور جو احمدی نظام جماعت کے سپرد کرتے ہیں اس کو خدا بھی قبول کر رہا ہے اس کی علامت یہ ہے کہ اس پر نہایت شیریں پھل لگ رہے ہیں تمام دنیا میں کوئی دنیا میں کوئی مسلمان ایسا فرقہ بتائے جو اس طرح قرآن کریم کی اشاعت اور قرآن کریم کے مختلف زبانوں میں تراجم کر رہا ہے اور جس کے جو ہر مختلف ملکوں میں ان کے مبلغین سلام تیار ہو رہے ہیں اور وہ ہر سال سینکڑوں کی تعداد میں مختلف قوموں کے پاس جا رہے ہیں اور دنیا بھر میں دو سو سے زائد ملکوں میں جماعت احمدیہ کے مبلغین مشرکین کو دہریوں کو اور ان کے ان کو اس طرح تبلیغ کر رہے ہیں قرآن کی کہ جس سے وہ لا الہ الا اللہ محمد الرسول اللہ پڑھ کے مسلمان ہو رہے ہیں تو جو جماعت احمدیہ کو پھل مل رہے ہیں کہ مسجدیں تعمیر ہو رہی ہیں قرآن کریم کی اشاعت ہو رہی ہے mission house قائم ہو رہے ہیں دنیا میں مبلغین بھیجے جا رہے ہیں اور دنیا کے کسی کونے میں اسلام پر اعتراض ہوتا ہے تحریف قرآن کا اعتراض ہو توہین رسالت کا اعتراض ہو سب سے پہلے جماعت احمدیہ کے خلیفہ اور ان کے جو پھر آگے نمائندگان ہیں وہ اس کے جواب دینے کے لیے آگے ہوتے ہیں آج خود مسلمان ایک دوسرے کو الزام دیتے ہیں کہ بتاؤ تم جو ایک دوسرے کو کافر کہتے ہو تم نے کتنے مسلمان کیے پاکستان کی مثال لے لیں کہ جہاں پہ ایک بہت بڑا طبقہ مولویوں کا ہے کوئی مولوی بتائے کہ نے اس سال اتنے لوگوں کو مشرکین کو لا الہ الا اللہ پڑھایا ان سے بلکہ ایک اور بات یاد آ گئی کہ یہ چند دن پہلے کی بات ہے مسلمانوں کا خاص طور پر پاکستان جو اپنے آپ کو بڑا پاکستان کا نمائندہ سمجھتے ہیں اس کی assembly میں ایک قومی assembly کے ممبر نے کھڑے ہو کر کہا اور وہ مولوی تھا اس نے کہا جی ہم ہرگز حکومت کی اپیل پر یہ قربانیاں نہیں کریں گے مالی قربانیاں تم پر اعتبار ہی نہیں ہے بالکل ٹھیک تو جماعت احمدیہ جو خرچ کرتی ہے وہ نہ صرف یہ کہ اللہ تعالیٰ کے حکم کے مطابق عمل کر رہی ہے بلکہ اللہ تعالیٰ طرح قبول کرتا ہے اور اس کی گواہیاں یہ ہیں کہ ساری دنیا میں اس کے ہمیں شیریں پھل نظر آ رہے ہیں بہت بہت شکریہ فضل الرحمن صاحب مجھے امید ہے ہماری بہن کو ان کے سوال کا جواب مل گیا ہو گا اس وقت مجھے یہ بتایا جا رہا ہے کہ محترم خان صاحب نے جو ان کے سوال کا یہاں جواب پیش کیا گیا ہے اس کے اوپر ایک اور سوال پیش کیا ہے ان کا جو اگلا سوال ہے وہ میں محترم عبدالسمیع خان صاحب کی خدمت میں پیش کرنے سے پہلے یہ ضرور خان صاحب سے سوال کرنا چاہوں گا کہ آپ نے یہ جو ہمارے جواب کے اوپر ایک اور سوال کیا ہے اس سوال سے ایک بات تو واضح ہو گئی ہے کہ آپ کا جو بنیادی سوال تھا کہ امت مسلمہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم سے لے کر حضرت اقدس مسیح موود علیہ الصلاۃ والسلام کے زمانے تک اس غلط عقیدے پر تھی جو کہ غلط سوال تھا آپ کا غلط تصور تھا اس کا آپ کو جواب مل گیا ہے کیونکہ جو آپ اگلا سوال پیش کر رہے ہیں وہ یہ ہے اور وہ سوال میں محترم عبدالسمیع خان صاحب کی خدمت کروں گا عبدالسمیع خان صاحب خان صاحب دوبارہ کہہ رہے ہیں کہ مرزا صاحب خود بھی اپنی زندگی کے ابتدائی حصے میں حیات حیات مسیح کے قائل رہے ہیں تو اس بارے میں آپ کیا کہیں گے یعنی یہ تو وہ مان گئے ہیں کہ جو آپ نے بیان کیا کہ امت مسلمہ میں یہ عقیدہ نہیں تھا کہ حضرت عیسی علیہ الصلاۃ والسلام اپنے جسم عنصری کے ساتھ آسمان پر گئے ہوئے تھے بلکہ گاہے گاہے ایسی مثالیں ملتی ہیں کہ اس کے برخلاف امت مسلمہ عقیدہ رکھتی تھی اور عقیدہ رکھتی رہی ہے جی سمیع صاحب جی جزاک اللہ خان صاحب کا شکریہ ادا کرتا ہوں انشاءاللہ وہ اسی طرح صدقے دل سے سوچتے رہیں گے غور و فکر کرتے رہیں گے ہمیں سنتے رہیں گے تو انشاءاللہ اور بھی بہت اصلاح ہو گی اور انسان ساری عمر اپنی اصلاح کرتا رہتا ہے اس میں کوئی حرج کی بات نہیں جو سوال انہوں نے کیا ہے وہ خود حضرت مسیح محمد علیہ السلام سے ہوا حضرت مسیح احمد علیہ السلام سے پوچھا گیا کہ آپ نے تو اپنی کتاب میں لکھا ہے برائے نام یہ میں کہ مسیح علیہ السلام آسمان پہ ہیں اور دوبارہ زمین پر آئیں گے تو پھر اسلام کا غلبہ کریں گے تو آپ نے فرمایا یہی بات تو میری صداقت کا ثبوت ہے میں مجھے اشاروں اشاروں میں کئی دفعہ کہا گیا تھا کہ تو مسیح ہے ہم نے تجھے مسیح مسیح بنا دیا عیسی فوت ہو چکا ہے اشاروں اشاروں میں لیکن چونکہ خدا تعالی کی طرف سے مجھے پوری طرح تفہیم نہیں ہوئی تھی خدا تعالی کا پوری طرح حکم نہیں ہوا تھا اس کے معنی پوری طرح مجھ پر کھلے نہیں تھے اس لیے میں نے عدم سادگی بناوٹ اور سادگی سے یہ لکھ دیا کہ مسیح آسمان پر ہیں اور میں مسیح علیہ السلام کا مسیح ہوں مسیح تو آسمان پر وہی آئے گا اس کے بعد اللہ تعالی نے مجھ پر یہ بات کھلی کہ مسیح علیہ السلام فوت ہو چکے ہیں اور قرآن کی جب یہ اللہ تعالی نے مجھے یہ تشریح سکھائی تو اتنے زیادہ دلائل نکلتے چلے آئے قرآن سے سنت سے حدیث سے تاریخ سے تفسیر سے طب کی کتابوں سے کہ ان کا انبار لگا دیا مسیح موت علیہ السلام اس سے پتا لگتا ہے کہ یہ عقیدہ اتنا خطرناک تھا یاجوج ماجوج کا اور دجال کا یہ عقیدہ مسیح کی آسمان پرندہ ہونا محض زندہ ہونا نہیں تھا آخری زمانہ میں چونکہ یہ فتنہ اس طرح بڑھ جانا تھا کہ رسول اللہ تو فوت ہو چکے ہیں مسیح آسمان پہ اور ساری دنیا میں سید کا ڈنکا ہم بجا دیں گے اور خانہ کعبہ پر یسوع مسیح کا جھنڈا لگائیں گے اس وقت لازما ضرورت تھی اس بات کی کہ خدا کی طرف سے آئے اور قرآن نے سرے سے سیکھ کر لوگوں کو بتایا کہ خدا کے رسول نے یہ معنی کیے ہیں اور خدا تعالیٰ کا منشا یہ ہے چانچہ مسیح محمد علیہ السلام نے کوئی نئی باتیں تو نہیں کی وہی باتیں کی ہیں جو رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے کی ہیں وہی قرآن تھا قرآن میں وہ آیتیں موجود لیکن چونکہ امت محمدیہ کے ایک بڑے بھاری طبقے کا یہ عقیدہ تھا کہ مسیح آسمان پر نہ ہیں اس لیے آپ نے فرمایا کہ میں نے اس صادقی میں یہ لکھ دیا اور اس کے بعد جب خدا نے مجھ پر تفہیم کی تو پھر صرف خدا نے تفہیم نہیں کی دلائل نکالنا ہی شروع کی ہے مثال بھی میں نے کچھ باتیں آپ کے سامنے عرض کی تھی صرف ایک بات مثال کے طور پر عرض کرتا ہوں مسعود علیہ السلام نے خود اس پر تحقیق کی خدا کے حکم کے مطابق آپ نے فرمایا کہ اسلام کے تمام فرقوں کی کتابیں لے لو تم کوئی صحیح حدیث تو کیا کوئی وظیحی حدیث بھی یعنی جھوٹی حدیث بھی ایسی نہیں پاؤ گے جس میں مسیح کیا زندہ جس میں عنصری سمیت آسمان جانے کا ذکر.

00:56:16

اور اگر کوئی ایسا شخص ہو جو یہ کوئی جھوٹی حدیث بھی نکال کر دکھا دے کہ مسیح جسم سمیت زندہ آسمان پر چلا گیا تو میں بیس ہزار تک اس کو انعام دینے کے لیے تیار ہوں یہ challenge آج بھی موجود ہے آپ نے قرآن کریم کے لفظ توفیق کو سارے قرآن میں کہنا آپ نے فرمایا پچیس دفعہ قرآن میں توفیق کا لفظ استعمال ہوا ہے تین سو چھیالیس مرتبہ حدیثوں میں استعمال ہوا ہے اور ہر ایک جگہ توفیق کے معنی سوائے موت کے اور نیند کے کرینے کے ساتھ نیند کے اور کوئی نہیں ہے آسمان پر اٹھانے کے معنی بہرحال نہیں ہیں اب یہ خدا نے آپ کھایا ہے ایسا زبردست lecture آپ نے اس میں پیدا کر دیا اور یہ خدا کی توہین کے بغیر ممکن نہیں تھا یہ خدا تعالی کا وعدہ ہے کہ کو وہ قرآن کی تفسیر سکھائے گا اور نافذ کرے گا اسی لیے تو اس کو مسیح نبی اللہ کہا گیا اسی لیے تو اسے غیب کی خبریں دی گئی ہیں اگر وہ نبی اللہ نہ ہوتا تو اس کو یہ اپنے عظیم الشان دلائل نہ سکھائے جاتے نہ خدا اس طرح اس کی تائید کرتا آپ please ہمارا lecture دیکھیے علیہ سلام پہ جائیے کتابیں لکھیے لکھیے ایک دفعہ صاف دل حکمر ذرا توجہ سے تھوڑا سا پڑھ لیں انشاء اللہ تعالی آپ کے دل کی بہت سی کدورتیں دور ہو جائیں گی پھر آپ سوچنا شروع کر دیں گے انشاءاللہ بہت بہت شکریہ محمد بہت بہت شکریہ عبدالسمیع خان صاحب میں کیونکہ program کا اختتام ہونے جا رہا ہے آپ کا اس program میں شمولیت کا بھی شکر ادا شکریہ ادا کرنا چاہ رہا ہوں فضل الرحمن صاحب آپ کا بھی بہت بہت شکریہ اور ہمیشہ کی طرح ناظرین و سامعین آپ کا بہت بہت شکریہ ہمیں خوشی ہوتی ہے جب آپ کی طرف سے زاہد موصول ہوتے ہیں اور اپنے program میں ہم ان تمام سوالات کو شامل نہیں کر پاتے لیکن اس کا مطلب یہ نہیں ہے کہ ہم آپ کے سوال کو اہمیت نہیں دیتے بلکہ ہم آپ کے سوالات کو بہت اہمیت دیتے ہیں اور کوشش کرتے ہیں کہ زیادہ سے زیادہ سوالات اپنے program میں شامل کریں اگلے ہفتے بھی یہ program ایم ٹی اے international کے لندن اسٹوڈیو سے ہی پیش کیا جائے گا آپ ضرور اس وقت تک اپنے سوالات کو محفوظ رکھیں ہمیں program کے دوران پہلے بھی بھیجنا چاہیں تو ضرور بھیج سکتے ہیں ساری بات کا خلاصہ یہ ہے کہ جماعت احمدیہ پر لگائے جانے والا یہ جو الزام ہے کہ گویا نعوذ باللہ نعوذ باللہ جماعت احمدیہ نے قرآن کریم میں تحریف کر دی ہے خود الزام لگانے والوں کو سوچنا چاہیے یہ جماعت احمدیہ پر الزام نہیں لگا رہے یہ تو اللہ تعالی پر الزام لگا رہے ہیں کیونکہ حفاظت قرآن کا معاملہ اللہ تعالی نے اپنے ذمے لیا ہوا ہے جماعت احمد تو خود اللہ تعالی کے ارشادات کے مطابق آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے نمونہ کے مطابق تن من دھن قربان کر رہی ہے حفاظت قرآن کریم میں حضرت بانی جماعت احمدیہ نے کیا خوب فرمایا تھا جمال و حسن قرآن نور جانے ہر مسلماں ہے کمر ہے چاند اوروں کا ہمارا چاند قرآن ہے نظیر اس کی نہیں جمتی نظر میں فکر کر دیکھا بھلا کیوں کر و یکتا کلام پاک رحمہ ہے اگلے program تک کے لیے اجازت دیجئے السلام علیکم ورحمتہ اللہ وبرکاتہ ہم تو رکھتے ہیں مجلمہ لوگوں کا دین ہم تو رکھتے مسلمہ کا دن دل سے ہیں خدا میں ختم

Leave a Reply