Ahmadi Muslim VideoTube Rahe Huda Rahe Huda 04 03 2023

Rahe Huda 04 03 2023



Rahe Huda 04 03 2023

Rahe Huda 04 03 2023


کے روز جی ایم ٹی وقت کے مطابق شام ساڑھے چار بجے آپ کی خدمت میں ایم ٹی اے international کے لندن سٹوڈیو سے براہ راست پیش کیا جا رہا ہے program راہ ہدا جماعت احمدیہ مسلمہ کے عقائد کے بارے میں پیش کیا جاتا ہے آپ کے ذہن آپ کے کسی بھائی بہن کے ذہن میں یا آپ کے کسی دوست کا سوال ہو تو آپ ضرور اس program میں پیش کریں اب سے تقریبا ایک گھنٹے تک یہ program براہ راست جاری رہے گا جس کا مطلب یہ ہے کہ آپ اپنے سوالات اس program میں آج ہی شامل کر سکتے ہیں میں یہ بھی عرض کرتا چلوں کہ اس program میں شامل ہونے کے دو طریقے ہیں آپ لینڈ لائن پہ براہ راست ہم سے سوال کر سکتے ہیں جب کہ اگر آپ اپنا voice message کے ذریعے یا لکھا تحریری سوال بھیجنا چاہیں تو ہمارا واٹس ایپ نمبر ضرور نوٹ کر لیں میں ابھی اپنی سکرین پر دیکھ رہا ہوں ظفر محمود احمد صاحب کا اور تابش احمد صاحب کا سوال ہمیں موصول ہو گیا ہے میں ان دونوں بھائیوں سے گزارش کرنا چاہوں گا کہ ٹیلی vision سکرین کے سامنے سے بالکل نہ جائیں کیوں کہ ہم کچھ ہی دیر میں آپ کا سوال اس program میں پیش کرنے لگے ہیں آج کے program میں خاکسار کے ساتھ یہاں لندن سٹوڈیو میں شامل گفتگو ہوں گے محترم رحمان ناصر صاحب اور انشاءاللہ نشریاتی رابطے کے ذریعے غنہ سے ہمارے ساتھ ہوں گے بلکہ ہمارے ساتھ شامل ہیں محترم عبدالسمیع خان صاحب ناظرین کرام اس بات کا ذکر بہت ضروری ہے کہ یہ ایم ٹی اے international چینل جو ہے یہ دراصل جماعت احمدیہ مسلمہ کا چینل ہے ہم کیا عقائد رکھتے ہیں کیا باتیں کرتے ہیں کیا کام کرتے ہیں اگر آپ یہ جاننا چاہتے ہیں تو اس چینل کے programs کو ضرور دیکھا کریں آج جو بات خاص طور پر قابل ذکر ہے وہ یہ ہے کہ جماعت احمدیہ پر یہ الزام لگایا جاتا ہے گویا یہ قرآن کریم کی تحریف کرتے ہیں ہم نے گزشتہ program میں اس حوالے سے گفتگو کی تھی بلکہ اس بات کو واضح کیا تھا کہ جماعت احمدیہ مسلمہ تو وہ جماعت ہے کہ حضرت بانی جماعت احمدیہ نے یہاں تک فرمایا کہ قرآن کریم کا ایک نقطہ یا ایک شوشہ بھی منسوخ نہیں ہوا بلکہ اسی طرح قابل عمل ہے جس طرح ہمارے آقا و مولا حضرت محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وسلم پر یہ نازل ہوا تھا۔ گزشتہ program میں نعمان احمد صاحب نے پاکستان سے ہمیں ایک سوال بھیجا تھا۔ آج کے program کے آغاز میں وہ سوال میں محترم عبدالسمیع خان صاحب کی خدمت میں پیش کرنا چاہتا ہوں۔ محترم عبدالسمیع خان صاحب نعمان احمد صاحب نے پاکستان سے ہم سے پوچھا ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات کے بعد صحابہ نے قرآن کریم کی حفاظت کیسے کی؟ محترم عبدالسمیع خان صاحب۔ جی جزاکم اللہ راجہ نعمان صاحب کا یہ سوال اس لحاظ سے بہت اہم ہے کہ اس کی طرف بہت کم توجہ کی جاتی ہے حقیقت یہ ہے کہ صحابہ کرام کی طرف سے قرآن کی حفاظت ایک ایسا عظیم الشان مضمون ہے اور ایک ایسی محبت اور اس پر مبنی داستان ہے جس کو اگر تفصیل سے بیان کیا جائے تو کئی گھنٹے درکار ہیں اور کئی آنکھیں رونے لگ جائیں خلاصہ اس کا یہ ہے کہ اس داستان کا آغاز تو حضرت اقدس محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی زندگی سے ہوتا ہے جب سینکڑوں ہزاروں صحابہ نے قرآن کریم حفظ کیا اور پھر اسی مقصد کے لیے جان بھی دیتے رہے حضرت رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات کے بعد حضرت ابوبکر رضی اللہ تعالی عنہ نے خلافت راشدہ میں اس ممون کو آگے بڑھایا اور یہ مسلسل آگے بڑھتا رہا حضرت ابوبکر اللہ تعالی عنہ کو جامع قرآن کہا جاتا ہے اس کا مطلب بھی بعض لوگ غلط سمجھتے ہیں اس کا مطلب یہ ہے کہ وہ قرآن جو ہزاروں سینوں میں موجود تھا لیکن تحریری طور پر مختلف لوگوں کے پاس محفوظ تھا کیونکہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے جب بھی آیت نزل ہوتی تھی تو ان کو مختلف صحابہ کے پاس لکھوا دیتے تھے اور ان کے پاس ہی محفوظ کرا دیتے تھے حضرت ابوبکر رضی اللہ تعالی عنہ نے حضرت عمر کے اسرار پر یا مشورے سے بعض صحابہ کو مقرر کیا اور انہوں نے اس اس زبانی قرآن کے تابع اس کو تحریری شکل دی جو مختلف جگہوں میں موجود تھی اور ایک نسخہ بنایا جو حضرت ابوبکر رضی اللہ تعالی عنہ نے حضرت حفصہ کے پاس محفوظ کروا دیا حضرت عمر کے دور میں یہ کام مزید آگے بڑھتا ہے حضرت عمر نے حفاظت کے ساتھ تعلیم قرآن اور اشاعت قرآن کے مضمون کو بھی شامل کر لیا کیونکہ یہ بھی حفاظت کا ایک ذریعہ ہے اور کا تو اصل مقصد ہی یہ ہے کہ قرآن شریف پڑھے اور پڑھائے اور اس کی تعلیم دے اور اس کے علوم کو عام کریں حضرت عمر کی خدمت قرآن کا یہ بہت اہم پہلو ہے کہ آپ نے سب سے پہلے قرآن کے مدارس بنائے اور وہ مدارس مساجد کی شکل میں تھے چنانچہ مرخین کہتے ہیں کہ حضرت عمر نے قریبا چار ہزار مساجد تعمیر کرائیں اور قریبا ہر مسجد میں قرآن کریم کا درس جاری کیا اور بڑے بڑے صحابہ کو نہ صرف مدینہ میں اور آس پاس کے علاقوں میں بلکہ دور دراز کے نئے مفتوح ہونے والے ممالک میں یعنی ایران اور شام اور روم اور دوسرے علاقوں میں بڑے بڑے صحابہ کو بھیجا کہ جاؤ اور قرآن سکھاؤ اور لوگوں کو بتاؤ کہ قرآن کیا ہے اس کے الفاظ کیا ہیں اس کے معنی کیا ہیں اس کی تفسیر کیا ہے اور قرآنی علوم کسے کہتے ہیں چنانچہ بہت سے صحابہ دور دراز کے علاقوں میں گئے اور قرآن کو پہنچایا اور پھیلایا اور اس طرح بھی قرآن کی حفاظت ہوئی کہتے ہیں حضرت عمر نے کوفہ میں ایسی مسجد تعمیر کرائی جس میں چالیس ہزار افراد نے معرض پڑھ سکتے تھے اور یہی وہ شہر ہے جہاں بعد میں فقہ حنفیہ کی بنیاد پڑھی اور بڑے بڑے فقہی امت محمدیہ میں پیدا ہوئے اور وہ سارے قرآن کریم کی حفاظت کرنے والے تھے حضرت عمر رضی اللہ تعالی عنہ نے پہلی دفعہ قرآن پڑھانے والے معلمین کی تنخواہیں مقرر کیں کہ سارا دن وہ اسی کام میں لگے رہیں تو انہیں گزارے کے لیے کچھ نہ کچھ الفاظ دیا جائے اور وہ لوگ جو بدو تھے اور جگہیں بدلتے رہتے تھے آپ نے ان کے لیے زبردستی قرآن کریم کی تعلیم کا انتظام کیا کہ کچھ نہ کچھ قرآن تمہیں ضرور آنا چاہیے پھر آپ نے بعض صورتیں یاد کرنی ضروری قرار دی مولا سورۃ بقرہ العمران نصاب جن میں شریعت کے بڑے بڑے احکامات ہیں آپ نے فرمایا کہ حفظ کریں اور آپ نے مختلف صحابہ کو مقرر کیا کہ وہ فتاوی دیں ہر کسی کو نہ قرآن پڑھانے کی اجازت تھی نہ فتوی دینے کی اجازت تھی آپ نے مختلف صحابہ کو مقرر کیا کہ قرآنی علوم کے لیے قرآن کے معنی کے لیے فلاں صحابہ سے رابطہ کیا جائے حدیث کے لیے فلاں سے فقہ کے لیے فلاں سے نماز کے لیے فلاں سے وہ ایک لمبی تفصیل ہے جیسا میں نے کہا ایک بہت خوبصورت داستان ہے اور فرمایا کہ قرآن وہ لوگ پڑھائیں جو علوم عربیہ سے واقف ہوں لغت کے ماہر ہوں اور اس زبان میں قرآن پڑھائیں جس زبان میں کریم صلی اللہ علیہ وسلم پر نازل ہوا تھا قرآن قریش کی زبان میں چنانچہ حضرت عمر نے اس کے ذریعے ایک شاگردوں کا اور قرآنی علوم پڑھنے پڑھانے والوں کا جو قرآن کی حفاظت بھی کر رہے تھے بہت بڑا لشکر تیار کر دیا چنانچہ ایک صحابی کہتے ہیں کہ میں ابودرداغ کے درس میں شامل ہوا صحابی تھے اور قرآن کا درس دیتے تھے اور مجھے بعد میں میں نے گنیں تو قریبا سولہ سو لوگ اس درس میں موجود تھے اور ایک بادشاہ کی طرح وہ درس دیتے تھے اور ان کے پاس بہت سے بیٹھے ہوئے تھے اور جب کوئی مسئلہ پیش آتا تھا حضرت ابودرد ان سے مشورے کے ساتھ وہ اس ان کے سوالوں کے جواب دیتے تھے حضرت عثمان رضی اللہ تعالی عنہ نے آگے اس مضعون کو اور آگے بڑھایا۔ اور آپ نے فرمایا کہ جو وقتی طور پہ اجازت دی گئی تھی۔ قرآن کریم کو مختلف قرآتوں میں لہجوں میں پڑھنے کی وہ ختم کر کے قریش کی زبان میں قرآن کریم پڑھا جائے۔ حضرت علی نے اسمگون کو اور آگے بڑھایا۔ اور آپ نے صرف اور نعو یعنی یوں کہنا چاہیے کہ عربی گرامر کی بنیاد ڈالی کیونکہ آپ نے دیکھا کہ آپ کے ایک بچے کو قرآن اس طرح پڑھایا جا رہا تھا جس سے غلط معنی بھی نکل سکتے تھے۔ آپ نے فرمایا شخص کو آپ نے کچھ قوائد بتائے اور فرمایا کہ اس کے مطابق گھرائمر کے قواعد مرتب کرو چنانچہ خلافت راشدہ میں حفاظت قرآن کا جو کام عظیم الشان کام انجام پایا ہے وہ دنیا کی تاریخ میں اپنی مثال آپ ہے وہ قرآن جو ایک امی فرد پر نازل ہوا وہ قرآن جو ایک قومی قوم پر نازل ہوا وہ قرآن جس کی base آغاز میں صرف حفظ تھی اور لکھنے پڑھنے کا کوئی واضح سامان موجود نہیں تھا بہت کم لوگ تھے لکھے پڑے تھے.

00:09:44

اس قوم سے خدا تعالی نے قرآن کریم کی حفاظت اور تکمیل ہدایت کا ایسا کام لیا. کہ آج تک پھر کسی کو جرات نہیں ہوئی. کہ قرآن کریم کے کسی نقطہ اور شوشہ میں تبدیلی کر سکے. یہ مضمون آگے بڑھتا رہے گا. حسب روح تو انشاءاللہ تعالی اس کو آگے چلاتے رہیں گے. جزاکم اللہ. شکریہ محترم عبدالسمیع خان صاحب ناظرین کرام جس طرح محترم عبدالسمیع خان صاحب ابھی بیان کر رہے تھے.

00:10:08

اگر صحابہ کے اس اسوہ کو دیکھنا جو صحابہ رضوان اللہ علیہم اجمعین اور خاص طور پہ خلفائے راشدین نے اپنے زمانے میں قائم کیا تو ہمیں تو یہ نظر آتا ہے کہ وہ اسوا ہمیں جماعت احمدیہ میں نظر آتا ہے قرآن کریم کی خدمت اسی نہج پر اللہ تعالی کے فضل و کرم کے ساتھ جماعت احمدیہ کو کرنے کی توفیق مل رہی ہے محترم فضل الرحمان صاحب ہمارے پاس سوالات کا سلسلہ شروع ہو چکا ہے سب سے پہلے میں چاہوں گا ظفر محمود احمد صاحب کے سوال کا اب جواب دے دیں وہ یہ پوچھ رہے ہیں پاکستان سے کہ بعض علماء اس کے قائل ہیں کہ اسلام تبلیغ اور تبدیلی مذہب کا قائل نہیں اس پر قرآن و سنت کی روشنی سے قرآن و سنت کی روشنی میں آپ بیان کر دیں کہ کیا یہ بات درست ہے یہ ہے کہ قرآن کریم نے تبلیغ کی نہ صرف تلقین کی بلکہ ایسے لگتا ہے کہ قرآن کریم کی آیات میں تبلیغ کو فرض قرار دیا گیا ہے جیسے فرمایا نا تو ہم کہتے ہیں کہ اب نماز فرض ہو گئی ہے اسی طرح کے الفاظ ہیں قرآن کریم میں کہ جو کچھ تم پر نازل ہوا ہے اس کی تم تبلیغ کرو اگر تم تبلیغ نہیں کرو گے گویا تو نے اپنی رسالت کا رسول ہونے کا حق ہی ادا نہیں کیا اسی طرح قرآن کریم میں بار بار اس طرح کے الفاظ ملتے ہیں جس سے ہمیں یہ پتہ چلتا ہے کہ مسلمانوں کو تو اللہ تعالی نے بار بار اس بات کی تلقین کی ہے کہ تمہیں یہ کام کرنا ہے اور اس کے بغیر چارہ نہیں ہے مثلا اللہ تعالی فرماتا ہے یہ بات درست ہے کہ ہر ایک شخص پوری طرح شاید تبلیغ نہ کر سکتا ہو لیکن اللہ کہتا ہے تبلیغ کرنی ہے تو حکمت کے ساتھ دعاؤں کے ساتھ کرو لیکن ہے یہ فرض اور ہر ایک کو سیکھنا پڑے گا حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم میں بات کو مختصر کرتا ہوں اور بھی بے شمار ایسی آیات ہیں قرآن کریم میں بلکہ ایک ایسی جماعت ہونی چاہیے جو لوگوں کو نیک باتوں کی تلقین کریں جہاں تک ان کا معین سوال ہے کہ اچھا کیا حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے زمانے میں بھی تبلیغ ہوتی تھی حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے ایسے متعدد واقعات ملتے ہیں کہ آپ یہودیوں کے پاس گئے ان کے مدرسوں میں جا چلے جاتے تھے ان کی محفلوں میں جاتے تھے اور بعض اوقات وہ آپ سے گستاخی بھی کرتے تھے لیکن پھر بھی حضور صلی اللہ علیہ وسلم ان کے پاس جاتے اور جہاں تک ہو سکتا حکمت کے ساتھ ان کو اسلام کی تعلیم ان کے اوپر کھول کر بیان کرتے اور پھر اس کے نتیجے میں بڑے بڑے لوگ مسلمان بھی ہوئے یہاں تک کہ بعض لوگوں نے جو گستاخ تھے وہ یہ کہتے تھے کہ اے محمد ہماری محفلوں میں تم آ کر اس طرح کی باتیں نہ کیا کرو تم مسلمان جو تمہارے پاس آئیں تو ان کو تبلیغ کیا کرو بس اسی طرح عیسائی ملتا ہے یہ ایک پورا گروپ آیا تھا عیسائیوں کا حضور نجران سے حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آپ نے ان کو مسجد میں ٹھہرایا ان کو اپنی مسجد میں نماز پڑھنے کی اجازت دی اور کوئی زبردستی نہیں کی ان کے ساتھ پھر اور بھی دلچسپ واقعات ملتے ہیں ایک شخص آیا اس نے پہلے اس نے اسلام قبول کیا کچھ دن کے بعد وہ کہنے لگا کہ محمد میرا اسلام مجھے واپس دے دیں حضور صلی اللہ علیہ وسلم مذاق کے رنگ میں نہیں دیتا واپس لیکن آیا اور وہ چلا گیا حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے اس پر کوئی سختی نہیں کی اس کے ساتھ اللہ تعالی ایک اور بھی فرماتا ہے کہ دین کے معاملے میں جبر نہیں ہر انسان کو پوری طرح آزادی کے ساتھ اس بات کا حق حاصل ہے کہ وہ اپنے دین کو اختیار کرے تو جہاں تک تبلیغ کا تعلق ہے یہ نہ صرف ایک عمومی تلقین ہے یہ ایک فرض ہے کہ جس طرح نماز فرض ہے اس طرح تبلیغ کرنا بھی فرض ہے جن کو اللہ تعالی نے صراط دکھا دیا اللہ تعالی نے اپنے راستے کی ہدایت عطا کر دی ان پر یہ فرض ہے کہ وہ اس بات کو دوسروں تک پہنچائیں حضرت مسیح نے ایک بات کو ایک جگہ بڑے خوبصورت انداز میں اس طرح بیان کیا بعض لوگ کہتے ہوں گے حضور سے کہ آپ اتنی جدوجہد سے راتوں کو بھی جاگتے ہیں دن کو بھی جاگتے ہیں کتابیں لکھتے ہیں حضور نے بڑے سفر کیے حضور صلی اللہ علیہ وسلم بھی تبلیغ کے لیے مختلف قبیلوں کے پاس جاتے تھے تو حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ کیسے ہو سکتا ہے کہ اللہ تعالی نے ایک بہت بڑا خزانہ عطا کیا اور میں دیکھ رہا ہوں کہ دنیا اس حوالے سے خدا کے دین کو نہیں مانتی اور گویا ان کی حالت ایک فاقہ زدہ لوگوں کی طرح ہے اور مجھے اللہ تعالی نے بے شمار روحانی نعمتیں عطا کی ہیں میں یہ برداشت ہی نہیں کر سکتا کہ مجھے اللہ تعالی جو نعمتیں دیں اور صرف میں ہی اس کو استعمال کریں کروں اور لوگوں تک نہ پہنچاؤں تو یہ جو آسمان سے کوئی بھی دین نازل ہوتا ہے قرآن کریم اس کو ایک معاہدہ قرار دیتا ہے اور ساری دنیا کے لیے ہوتا ہے حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے معین الفاظ مجھے اس طرح یاد نہیں لیکن حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ آسمان سے ایک ایک معاہدہ ایک دعوت اتری ہے جس کی طرف لوگوں نے کچھ لوگوں نے توجہ کی کچھ لوگوں نے کم توجہ کی کچھ لوگ پیچھے رہے لیکن فائدہ انہی کو ہوگا جو اس دعوت کو آگے قبول کریں تو ممکن ہے بعض لوگ یہ خیال کرتے ہوں کہ شاید تبلیغ کے نتیجے میں مذہب کو تبدیل کرنا زبردستی تبلیغ کرنا منع ہے زبردستی مذہب کی تبدیلی منع ہے آزادی ساتھ لوگوں تک پیغام پہنچانا اس کے بعد پھر ان پر ان پر ہے کہ وہ کون سا مذہب اختیار کرتے ہیں.

00:15:51

بالکل ٹھیک فضل الرحمن صاحب قرآن کریم کی آیت کا بھی اسی طرف اشارہ کرتی ہے اور میرے خیال میں یہاں اس بات کا ذکر کرنا بھی بہت ضروری ہوگا جو صلح حدیبیہ کے موقع پر جو معاہدہ ہوا اس میں یہ جو یہ شق لکھی گئی کہ اگر مکہ سے کوئی مسلمان ہو کر جائے گا. تو اس کو واپس لوٹایا جائے گا.

00:16:11

لیکن اگر کوئی مدینہ سے اسلام باہر جائے گا تو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے کہا کہ ہمیں اس کی ضرورت نہیں ہے تو یہ بھی بڑا دلچسپ نقطہ ہے یعنی اس سوال کے جو دونوں پہلو ہیں کہ ہم نے تو تبلیغ کرتے رہنا ہے اور جو کوئی مسلمان ہو گا وہ بہرحال اسلام میں داخل ہو گا اور یہ قرآن کریم کا حکم ہے اور جو کوئی اسلام کے رستے کو چھوڑ کے جاتا ہے ہمارا اس سے کوئی لینا دینا دینا نہیں ہے تو یہ بات اور ظفر محمود صاحب میں سمجھتا ہوں آپ کا سوال بہت important تھا اور مجھے امید ہے آپ کو اپنے سوال کا جواب تفصیل کے ساتھ مل گیا ہو گا اگلا سوال ہے تابش احمد صاحب کا لاہور سے محترم عبدالسمیع خان صاحب تابش احمد خان تابش احمد صاحب یہ پوچھنا چاہتے ہیں کیا قرآن کریم میں جماعت احمدیہ کا ذکر ملتا ہے اور آگے کہتے ہیں کہ ہم قرآن کریم سے کس طرح جماعت احمدیہ کو غیر اس جماعت کے سامنے ثابت کر سکتے ہیں محترم عبدالسمیع خان صاحب ہمارے بھائی تابش احمد کو ان کے سوال کا جواب دے دیں جی بہت اچھا سوال اٹھایا ہے صاحب نے اور یہ سوال حضرت مسیح احمد علیہ السلام کی زندگی میں آپ کے سامنے اٹھایا گیا کہ قرآن کریم میں کوئی آپ کا ذکر ہے تو آپ نے فرمایا قرآن تو ہمارے ذکر سے بھرا پڑا ہے اس کے بعد آپ نے بہت سی آیات اپنی کتابوں میں درج فرمائیں ان کی تفسیر درج فرمائی اس کو تو سب کا تو موقع ممکن ہی نہیں ہے میں صرف ایک آیت بیان کر لیتا ہوں حضرت مسیح احمد علیہ الصلاۃ والسلام فرماتے ہیں کہ جب سورۃ جمعہ کی ابتدائی آیات نازل ہوئی اور اس میں ذکر فرمایا گیا کہ اللہ تعالی نے رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو اس مقصد کے لیے بھیجا ہے کہ قرآن کریم کی تلاوت سنائیں.

00:18:01

رسول کریم ان کو پاک کرتے ہیں. کتاب و حکمت کی تعلیم دیتے ہیں. پھر فرمایا اللہ تعالی رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو ایک اور گروہ میں بھی بھیجے گا.

00:18:13

جو ابھی تک ان صحابہ سے ملے نہیں. اب اس پر تبن ایک سوال پیدا ہوا. صحابہ نے پوچھا یا رسول اللہ وہ کون لوگ ہیں? تو رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے جو پر حکمت جواب دیا وہ سمجھنے کے قابل ہے.

00:18:29

کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی مجلس میں بہت سے عربی تھے اور عجمی بھی تھے بھی بیٹھے ہوئے تھے حضرت رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت سلمان فارسی جو فارس کے ایران کے رہنے والے تھے ان کے کندھے پر ہاتھ رکھا اور فرمایا ایک وقت آئے گا کہ میری امت میں ایمان ثریا پر چلا جائے گا اور اس وقت اس کی قوم میں سے کچھ شخص ہوں گے یا ایک شخص بعض روایتوں میں رجوعت کا لفظ ہے بعض جگہ کا لفظ ہے ایک ہی ایک سادہ لوگ ایمان کو ثریا سے واپس لے آئیں گے اب ذرا سا غور کریں مجھے تو وقت کی وجہ سے تیزی سے چلنا پڑتا ہے لیکن آپ اس کو سمجھیں اور مسیح مولا علیہ السلام کی کتابوں کے متعلق حضور فرماتے ہیں کہ اس میں کئی سوالوں کا رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے جواب دے دیا ہے پہلا سوال یہ اٹھتا تھا کہ کیا رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم خود مبعوث ہوں گے تو جواب دیا نہیں رسول کریم خود نہیں مبوس ہوں گے آپ کے غلام کی شکل میں کوئی شخص آئے گا اور اسی مقصد کو دوبارہ قائم کرے گا جس رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم آئیں گے دوسرا سوال یہ تھا کہ کیا عربوں میں سے آئے گا یا عجمیوں میں سے آئے گا تو رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے سلمان فارسی کے کندھے پر ہاتھ رکھ کر فرمایا کہ وہ عربوں میں سے نہیں آئے گا وہ عجمیوں میں سے آئے گا تیسرا سوال یہ تھا کہ وہ کب آئے گا تو رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ وہ خلافت راشدہ کے وقت میں نہیں آئے گا وہ اسلام کے غلبے کے زمانے میں نہیں آئے گا ایسے وقت میں آئے گا جب ایمان ثریا پر اٹھ جائے گا اور یہ ایمان ثریا پر اٹھ جانا کوئی دو چار دن کی بات نہیں حدیث سے معلوم ہوتا ہے کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ اسلام کی پہلی تین صدیاں طغبے کی اور کمال کی صدیاں ہیں اس کے بعد آہستہ آہستہ طغل شروع ہوگا جو ایک ہزار سال تک جاری رہے گا اور قرآن کریم میں اس کے اشارے بھی موجود ہیں تو گویا تین سو حلبے کی صدیاں لگائیں ایک ہزار سال تذلق لگائیں اس کے بعد پورے تیرہ سو سال بعد وہ شخص آئے گا جو رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا غلام کامل ہو گا اور جس کے ذریعے وہی باتیں دوبارہ یقین جاری کی جائیں گی جو رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم جن مقاصد کے لیے آئے تھے اور آخری تھا کہ کیا وہ اس پر قرآن دوبارہ نازل ہوگا تو فرمایا نہیں قرآن وہی ہوگا شریعت وہی ہوگی ایمان دلوں سے اٹھ جائے گا گویا شریعت پر چلا جائے گا وہ ایمان کو دلوں میں دوبارہ قائم کرے گا نصیح محمد علیہ الصلاۃ والسلام کا قطعا اور بالکل اسی کے مطابق دعویٰ ہے میں کوئی نئی شریعت نہیں لایا نیا قرآن نہیں لایا نیا کلمہ نہیں لایا رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے مقاصد کو پورا کرنے کے لیے آیا ہوں جس کی پیشخبری رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم دی تھی اور اسی کی طرف دوسری بہت سی دوسری ہاتھ میں اشارہ ہے جس میں مثلا یہ ہاتھ بھی ہے اللہ تعالی نے اس رسول کو بھیجا ہے دین حق کے ساتھ اور ہدایت کے ساتھ تاکہ تمام دینوں پر غالب کریں اور بہت سی تفسیروں میں لکھا ہے کہ یہ واقعہ نزول مسیح اور مہدی کے وقت میں ہوگا کیونکہ رسول کریم کے زمانے میں تو تمام دنیا پر اسلام کا لبہ ہوا ہی نہیں ایسے حالات ہی نہیں تھے کہ تمام دنیا تک رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا پیغام پہنچ سکتا ہے شیعہ literature میں تو لکھا ہے کہ یہ آیت نازلت فی المعدی امام مہدی کے بارے میں نازل ہوئی ہے تو یہ اشارے قرآن کریم میں موجود ہیں لیکن میں یہ عرض کرنا چاہتا ہوں آخر پہ کہ امت محمدیہ کے بہت سے بزرگوں کو یہ بھی خبر دی گئی کہ اس آنے والے کا نام احمد ہوگا اور اس کا فرقہ احمدیہ کہلائے گا چنانچہ ایک روایت میں ہے رسول اللہ سے مروی ہے کہ امام مہدی کا نام احمد ہوگا اور حضرت امام اللہ علی قاری جو ایک بہت بڑے بزرگ گزرے ہیں دسویں صدی کے انہوں نے فرمایا کہ امام مہدی آئے گا تو اس وقت طریقہ محمدیہ کا نام التریقۃ النقیۃ الاحمدیہ ہو جائے گا پاک صاف شریعت جو دوبارہ لے کر وہ آئے گا محمد رسول اللہ کی وہ احمدیہ کے نام سے یاد کی جائے گی تو جوں جوں وقت قریب آتا جاتا ہے پیشگوئیوں کے مفاہیم کھلنے شروع ہو جاتے ہیں تو اللہ تعالی نے نہ صرف اشارہ کیا بلکہ اس گروپ کا نام بھی بتا دیا ہے کہ وہ احمدیہ ہوگا یہی بات مجھے دلف ثانی نے بھی کہی کہ وہ احمدیہ کے نام یاد کیا جائے گا.

00:22:44

تو یہ ساری پیشگوئیاں جماعت احمدیہ کے literature میں موجود ہیں. تو میں درخواست کروں گا ان سے بھی دوسرے سننے والوں سے بھی کہ حضرت مسعود علیہ السلام کے کلام کو پڑھیں اپنے بھی اور ہمارے گھر بھی اور دیکھیں کہ قرآن کریم کی سچائیاں کیسے ثابت ہوتی ہیں. جزاکم اللہ. بہت شکریہ عبدالسمیع خان صاحب ناظرین کرام جماعت احمدیہ کی official ویب site ہے.

00:23:07

الاسلام dot اوک. اس ویب site پر نہ صرف اردو زبان میں بلکہ انگریزی میں, عربی زبان میں اور دیگر زبانوں میں بھی آپ کو جماعت احمدیہ کی تعلیمات کے بارے میں باتیں مل جائیں گی. اور خاص طور پر قرآن کریم کی جو خدمت جماعت احمدیہ نے کی ہے. وہ آپ کو اس ویب سائٹ پر واضح طور پر نظر آئے گی. مجھے اس وقت ہمارے کال سنٹر کی طرف سے بتایا جا رہا ہے.

00:23:32

کہ لاہور سے ہمارے ایک بھائی ہیں.

00:23:35

وہ یہ لکھتے ہیں. کہ ایک عرصے سے جماعت احمدیہ کے بارے میں تحقیق کر رہے تھے وہ. اور اب اس سے دل کو اطمینان حاصل ہو چکا ہے چنانچہ انہوں نے اپنی اور اپنی اہلیہ کے بیعت کرنے کا خط ہمیں بھجوایا ہے میں ان بھائی کی خدمت میں مبارکباد بھی پیش کرنا چاہتا ہوں ہماری کچھ مجبوریاں ہیں ہم ان کا نام یہاں نہیں بتا سکتے ہمیں ان کی حفاظت کا بھی خیال ہے لیکن یہ بات ضرور عرض کرنا چاہوں گا وہ لوگ جو جماعت احمدیہ کی مخالفت کرتے ہیں آپ جتنی ہماری مخالفت کریں گے اللہ تعالی کے فضل اتنے کرم اور اتنے احسان ہمارے اوپر ہوں گے نہ صرف پاکستان میں بلکہ دنیا بھر کے کونے کونے میں لوگ کثرت کے ساتھ جماعت احمدیہ میں داخل ہو رہے ہیں اور research کے مطابق تو یہ بھی ایک حقیقت ہے کہ اگر مسلمانوں کا کوئی فرقہ یا overall کوئی مذہب اپنی تعداد میں بڑھ رہا ہے تو وہ جماعت احمدیہ اسلامیہ ہے جو اللہ تعالی کے فضل و کرم کے ساتھ اللہ تعالی کی سے اللہ تعالی کے وعدوں کے مطابق ترقی کر رہی ہے میں نے اپنے ان بھائی کو مبارک باد پیش کرتا ہوں اور دوسرے دوسرے جو لوگ جو تحقیق کر رہے ہیں ان کو بھی دعوت دیتا ہوں آپ کو ہماری باتوں پہ یقین نہیں آتا نہ کریں آپ اللہ تعالی سے پوچھیں اور جب آپ کے دل کو اطمینان ہو تو آپ بھی ضرور اس سلسلے میں اس بیعت میں اور خلیفہ وقت کے ہاتھ پر ضرور جمع ہوں محترم فضل الرحمن صاحب ہمارا جو مضمون تھا جس پہ ہم گفتگو کر رہے تھے وہ دراصل حفاظت قرآن کے حوالے سے تھا ایک اور سوال جو ہوتا ہے جسے کہتے مختلف قراتوں کے بارے میں سوال اٹھایا جاتا ہے کہ حضرت عثمان غنی رضی اللہ عنہ کے عہد خلافت میں قرآن کریم کی مختلف قراتیں مختلف version رائج تھے اور گویا بہت اختلاف ہو گیا تھا اور پھر حضرت عثمان رضی اللہ عنہ نے ایک متن تیار کروا کر باقی متن جو تھے وہ ضائع کروا دیے تھے یہ ایک عام تصور پایا جاتا ہے میں چاہتا ہوں آپ اس بارے میں تفصیل سے بتا دیں اس طرح ہے کہ غیر دنیا جب دیکھتی ہے کہ اسلام کے پاس ایک ایسا صحیفہ ہے نہ صرف ہم یہ دعویٰ کرتے ہیں کہ وہ خدا کی طرف سے ہے پھر ہم یہ دعویٰ کرتے ہیں کہ اللہ تعالی نے اس کی حفاظت کی اور دنیا میں ایک ہی کتاب ہے جس کے لاکھوں حفاظ موجود ہیں اور ہر صدی میں حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانے میں بھی پھر خلفاء کے زمانے میں پھر وہ کوئی نہ کوئی کوشش کرتے ہیں اعتراض ڈھونڈنے کی کسی طرح اسلام کی سچائی کے اوپر پردہ ڈال اس کے اوپر کچھ اس طرح کے شبہات پیدا کر دیے جائیں اور مسلمانوں کے ہی بعض کتابوں سے نکال کر وہ کہتے ہیں کہ دیکھو حضرت عثمان رضی اللہ تعالی عنہ نے بعض جو صحیفے تھے یا بعض قرآن کریم کی کاپیاں ایسی تھیں یا بعض صفحات ایسے تھے ان کو ضائع کر دیا ان کو جلوا جلوا دینے کے بھی روایات ملتی ہیں میں اس کی ایک دو مثالیں دیتا ہوں کہ اس سے مراد کیا ہے بڑی simple سی مثال ہے قرآن کریم عربی زبان میں نازل ہوا اور زبان صرف اس کے مختلف لہجے تھے مختلف انداز سے بولنے کے جس کو ہم اس طرح سمجھ سکتے ہیں جیسے انگریزی زبان ہے یہاں پر برطانیہ میں ہم جس طرح بولتے ہیں کچھ لوگ امریکہ میں بولتے ہیں اور پھر یہی انگریزی زبان دنیا کے مختلف ملکوں میں انڈین اپنے طریقے سے بولتے ہیں لیکن بنیادی جو الفاظ ہیں وہ پھر بھی قریبا ایک ہی رہتے ہیں حضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے زمانے میں جو عربی بولی جاتی تھی حضور صلی علیہ وسلم کا تعلق قریش سے تھا اور قریش کی ہی زبان سب سے بہتر سمجھی جاتی تھی۔ اس کے علاوہ مختلف اور قراتیں بھی موجود تھیں۔ ان قراتوں کی مثال مثلا ہے کہ مثلا قرآن کریم کی ایک آیت ہے۔ کہ اب یہ اس وقت قرآن کریم کے جتنے نسخے ہیں ان سب میں اسی طرح یہ آیت لکھی ہوئی ہے۔ لیکن بعض اور اس زمانے کے جو بعض قراتیں موجود تھیں جن کو حضرت عثمان رضی اللہ تعالی عنہ نے ضائع کر دیا۔ ان میں مثلا کے الفاظ ملتے ہیں۔ اب کے لحاظ سے فرق نہیں تھا لیکن بعض قبیلے اس کو بادا باعت کی جگہ پہ باعدہ پڑھتے تھے اسی طرح ایک اور آیت ہے قرآن کریم کی بعض قبیلوں میں کو پڑھا جاتا تھا اب یہ دراصل قرآن کریم میں تبدیلی کی بات نہیں تھی لیکن حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے زمانے میں ہی دراصل اس بات کا اہتمام کر دیا تھا جس پر حضرت عثمان رضی اللہ تعالی عنہ نے ان ارشادات کی روشنی میں یہ کیا کہ قریش والا لہجہ جو تھا اس کو باقی رکھا اس کے علاوہ جتنے لہجے تھے یا جتنے انداز بیان تھے قرآن کریم کو پڑھنے کے ان کو اکٹھا کر کے جلوا کر صرف ایک ایسا text کر دیا text میں اس کے بنیادی الفاظ میں کوئی فرق نہیں آیا اور اگر وہ چیزیں تھیں تو مسلمانوں کے اس وقت بے شمار فرقے ہیں اس میں یہ جو شیعہ ہیں دیوبندی ہیں بریلوی کسی کے پاس پھر وہ نسخہ ہوتا کہ اچھا چلو انہوں نے سنبھال کے رکھا ہوا تھا کسی کے پاس کوئی اور نسخہ نہیں ہے یہ اس بات پر شاید ہے کہ تمام مسلمانوں دراصل اس بات پر راضی تھے کہ یہ دراصل قرآن کریم کا بنیادی متن ہے مصر والے اس کو پڑھنے کے لحاظ سے اور طرح پڑھتے تھے مجھے ایک دوست بتا رہے تھے ان کا سب سے بڑا تعلق ہے وہ کہتے ہیں مصر کا جو لفظ ہے اس کو بعض لوگ مصر پڑھتے ہیں کثیر ایک لفظ ہے جس کا مطلب ہے بہت زیادہ اس کو بعض قبیلے پڑھتے ہیں اب حضرت عثمان نے کیا کیا مثلا کثیرن کو رہنے دیا کتیرن والی جو قرارتیں دی ان کو ختم کر دیا اب اس میں کوئی نہیں کہہ سکتا کہ قرآن میں کوئی تبدیلی کر دی اسی طرح کے اور بعض مثالیں جو ہیں ہر زبان میں ہر علاقے میں ہر ملک میں جتنی زبانیں ہیں ان کے مختلف لہجے ہوتے ہیں مختلف ان کو انداز ہوتے ہیں بیان کرنے کے حضرت عثمان رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے یہ دیکھا کہ اگر یہ سارے کے سارے لہجے رائج رہے تو اس کے نتیجے میں مختلف غلط فہمیاں پیدا بنیادی جو ٹیکس تھا حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانے میں جو تیار ہوا وہ قریش کی زبان میں تھا حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے لوگوں کو نئے نئے مسلمان ہوئے تھے مختلف قبائل تھے ان کے لیے اس لہجے کو اختیار کرنا نسبتا مشکل تھا اس زمانے میں ان کو پڑھنے کی اجازت دے دی کہتے ہیں ساتھ مختلف لہجے تھے لیکن ان میں بنیادی جو مضمون تھے ان میں فرق کوئی نہیں تھا نہ صرف مضمون میں نہ صرف اس طرح الفاظ میں بھی فرق نہیں تھا حضرت عثمان رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے صرف یہ کیا کہ قریش والا قریش کی جو زبان تھی اس میں جو قرآن کریم کے الفاظ تھے جو لہجہ تھا اس کو محفوظ رکھتے ہوئے باقی جو اور مختلف لہجے تھے اس میں اگر کسی نے لکھا ہوا تھا تو اس کو کہہ دیا جلا دو تاکہ لوگوں میں غلط فہمی پیدا نہ ہو اب ویسے بھی حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانے میں تئیس سال قران کریم نازل ہوتا رہا حضرت عثمان رضی اللہ تعالی عنہ کے زمانے تک اٹھارہ انیس سال بیس سال ہو چکے تھے اسلام کو پھیلے ہوئے مختلف اور بڑے بڑے علماء تیار ہو چکے ہوئے تھے نسبتا قریش والے لہجے میں قرآن پڑھنا آسان تھا.

00:30:58

آج بھی اور پھر لوگوں کو شوق اتنا تھا. آج بھی افریقن دیکھ لیں ایشین, پاکستانی, انڈین, چائنیز, وہ لوگ اتنے شوق سے قرآن کریم کو اسی لہجے میں پڑھتے ہیں. اور ان کی زبان, ان کی زبان سے قرآن کریم سن کے بڑا مزہ آتا ہے کہ دیکھو یہ لوگ افریقن ہیں, امریکن ہیں, آ chinese ہیں, انڈونیشین ہیں. لیکن وہ کوشش کرتے ہیں کہ ہم اسی لہجے میں قرآن پڑھیں جس لہجے میں حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانے میں قرآن کریم تھا.

00:31:25

تو اس کو ایک وحدت کو قائم کرنے کے لیے حضرت عثمان رضی اللہ تعالی عنہ نے کام کیا ہے کہ قریش والا لہجہ اور قریش والا جو ایک جو انداز بیان تھا اس کے مطابق قرآن کریم لکھوا کر باقی جو مختلف لہجوں میں قرآن کریم کسی کے پاس لکھے ہوئے تھے ان کو کہا کہ یہ جلا دو تاکہ غلط فہمی پیدا نہ ہو بہت بہت شکریہ فضل الرحمان صاحب تو ناظرین یہ بات ہمیں یاد رکھنی چاہیے کہ قرآن کریم جو آقا و مولا حضرت محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وسلم پر نازل ہوا اس کی حفاظت کی ذمہ داری تو خود اللہ تعالی نے لی تھی۔ اس لیے ممکن ہی نہیں ہے کہ اس میں کوئی بھی کسی بھی قسم کی تبدیلی آئی ہو۔ ہمارے پاس سوالات کا سلسلہ جاری ہے۔ ابھی ایک سوال عبد السمیع صاحب کا لے کر میں عبدالسمیع خان صاحب کی طرف جاؤں گا۔ لیکن میں عامۃ الحسیب صاحبہ اور ساجدہ بشریٰ صاحبہ کو بھی کہنا چاہوں گا کہ آپ کے سوالات ہمیں مل گئے ہیں اور ہم ابھی اپنے اس program میں آپ کے سوالات کے جوابات لیں گے۔ محترم عبدالسمیع خان صاحب ہمارے عبدالسمیع صاحب liver pool سے رانا کے عبدالسمیع خان صاحب سے یہ سوال پوچھنا چاہ رہے ہیں کہ سورہ بقرہ کی آیت میں آیا ہے وہ کہتے ہیں اس وقت تو قرآن کتاب کی صورت میں موجود ہی نہیں تھا تو پھر اس آیت میں کتاب سے کیا مراد ہے محترم عبدالسمیع خان صاحب جزاک اللہ ہم سب اللہ کے اور سن سننے والا جو دعا ہے خدا اس کے بندے ہیں تو میں اپنے محترم بھائی کی خدمت میں عرض کرتا ہوں کہ بہت ہی اچھا سوال انہوں نے اٹھایا ہے اور مجھے موقع مل گیا ہے کہ میں قرآن شریف کی ایک عظیم الشان پیش گوئی کی طرف آپ کی رہنمائی کروں قرآن شریف نے صرف یہاں پہ نہیں فرمایا کتاب قرآن شریف میں کثرت کے ساتھ قرآن کو کتاب کہا گیا ہے اور دراصل اس میں پیش گوئی تھی یہ تھی کہ آج یہ کتاب زبانی طور پر حفظ کی جا رہی ہے آج یہ قرآن زبانی حفظ کیا جا رہا ہے اور ہزاروں سینوں میں ہے لیکن ایک وقت آئے گا کہ یہ کتاب بنے گا کتاب لکھی جائے گی اور یہ کتاب کثرت کے ساتھ پڑھی جائے گی چنانچہ حضرت مسلم عود رضی اللہ تعالی عنہ نے اس پر ایک نہایت ہی عالمانہ بحث فرمائی ہے اور آپ نے فرمایا کہ قرآن میں قرآن مبین کا لفظ دو دفعہ استعمال ہوا ہے اور کتاب مبین کا لفظ بارہ دفعہ استعمال ہوا ہے اور اس میں یہ پیش گوئی تھی کہ آغاز میں قرآن کریم کا تعلق زیادہ تر حفظ کے ساتھ ہوگا اور آئندہ جونہی زمانے آگے چلیں گے قرآن کی کتاب کی صفت زیادہ نمایاں ہوتی چلی جائے گی گویا سینکڑوں گنا اس سے بڑھ جائے گی اور واقعہ ایسا ہی ہوا عربوں کے حافظے بہت تیز تھے ان کو قرآن کریم قریبا تمام صحابہ جن کو پہلے بھی ذکر آیا جتنے صحابہ تھے ان کو قریبا قرآن کریم کا ایک بڑا حصہ یا سارا قرآن یاد تھا آہستہ آہستہ جب غیر قوموں میں اسلام پھیلنا شروع ہوا تو انہوں نے قرآن کریم کو پڑھنا شروع کیا اور پھر اس کو لکھنا شروع کیا جب لکھنا شروع کیا تو کتاب کی صفت نمایاں ہوتی چلی گئی اور قرآن کی یہ پیشن گوئی پوری ہوئی کہ آج دنیا میں حفاظ بھی ہیں لیکن حفاظ زیادہ وہ لوگ ہیں جو قرآن کریم کو کتاب سے دیکھ کر پڑھتے ہیں پہلے قرآن کریم کے حفاظ زیادہ تھے دیکھ کر پڑھنے والے کم تھے آج دنیا میں کروڑوں مسلمان ہیں اور غیر بھی ہیں جو قرآن شریف دیکھ کر پڑھتے ہیں اور حفظ کرنے والے ہیں لیکن بہرحال وہ ان کی نسبت سے کم ہیں تو دراصل یہاں بھی اور قرآن شریف میں کثرت کے ساتھ یہ پیش گوئی کی گئی ہے کہ ایک وقت آئے گا کہ کریم سب سے زیادہ پڑھا جائے گا اور جیسے قرآن کے لفظ میں پیش گوئی ہے کہتے ہیں تو قرآن کے معنی میں پیش گوئی ہے کہ یہ کتاب سب سے زیادہ پڑھی جائے گی اور کتاب میں بھی یہ پیش گوئی ہے کہ یہ کتاب سب سے زیادہ لکھی جائے گی اور آج دنیا کو ہم challenge کرتے ہیں کہ دکھائے قرآن کریم سے زیادہ کون سی کتاب لکھی اور پڑھی جاتی ہے ہر شکل میں لفظوں کے ساتھ ڈیجیٹل فارم میں قرآن شریف سے بڑھ کر نہ کوئی کتاب لکھی جاتی ہے پڑھی جاتی ہے نہ حفظ کی جاتی ہے تو یہ عظیم الشان پیش گوئی ہے جس کا اللہ تعالی نے سورۃ بقرہ کے آغاز میں ہی موجودہ ترتیب میں وعدہ فرمایا اور ہم اس کو اپنی آنکھوں سے پورا ہوتے دیکھ رہے ہیں جزاکم اللہ جزاکم اللہ ناظرین کرام جس طرح خاکسار اکثر اس بات کا ذکر کرتا ہے کہ ایم کیو ایم international جو ہے وہ جماعت احمدیہ کے عقائد کے بارے میں ہے اور خاص طور پر خلیفتہ المسیح حضرت خلیفہ المسی الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بن اس عزیز ہر جمعہ کے خطبہ جمعہ ارشاد فرماتے ہیں ابھی کل کے خطبہ جمعہ میں حضور انور بن اس عزیز نے ایک طرف تو حضرت مسیح موعود علیہ الصلاۃ والسلام کا یہ شعر پیش کیا کہ قرآن خدا نما ہے خدا کا کلام ہے بے اسق معرفت کا چمن ناتمام ہے آپ نے مزید یہ فرمایا کہ اس بات کو یاد رکھنا چاہیے اور فرمایا لیکن ساتھ اس بات کو بھی یاد رکھنا چاہیے کہ اس معرفت کو سمجھنے کے لیے بھی کسی خدا کے بھیجے ہوئے اور مقرر رہنما کی ضرورت ہے جو اس زمانہ میں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے غلام صادق حضرت مسیح معود علیہ الصلاۃ والسلام ہے تو جماعت احمدیہ تو صبح شام قرآن کریم کا ذکر کرتی ہے فضل الرحمان صاحب اگلا سوال جو ہے ہماری بہن ساجدہ بشری صاحبہ کا ہے لاہور سے پوچھنا چاہ رہی ہیں اکثر لوگوں کا یہ سوال ہوتا ہے وہ پوچھنا چاہتی ہیں کہ ہمیں حضرت اقدس مسیح معود علیہ الصلاۃ والسلام کی کتب کو کس ترتیب اور طریق سے پڑھنا چاہیے کہ ہمیں علمی و ترتیبی لحاظ سے فائدہ ہو۔ چند دن پہلے میں موجودہ حضرت صاحب کے ساتھ ایک ملاقات کا program دیکھ رہا تھا بالکل اسی طرح کا ایک سوال حضور کی خدمت میں پیش ہوا حضور نے تمام دنیا کے سامعین کو مدنظر رکھ کے جو جواب دیا فرمایا کہ پہلے کوشش کریں کہ جو چھوٹے چھوٹے اقتباسات ہیں ہمارے الفضل میں شائع ہوتے ہیں اور ہر ملک کے اپنے رسائل ہیں اس میں شائع ہوتے ہیں ان کو کوشش کریں پڑھنے کی پھر ایسی زبان اگر کوئی براہ راست اردو نہیں جانتا تو پھر جس زبان میں ترجمہ ہو چکی ہوئی ہیں اردو کتابیں اس وقت جو میسر ہے وہ پڑھیں لیکن پھر فرمایا کہ مسیح معز علیہ السلام کی بعض آسان زبان کی کتب ہیں برائین احمدیہ کا ذرا زبان نسبتا سمجھی جاتی ہے کہ مشکل زبان ہے لیکن مسیح معوذ علیہ السلام کے جو پبلک لیکچرز ہیں مثلا lecture سیالکوٹ ہے lecture لاہور ہے lecture لدھیانہ ہے وہ ایسے ہیں کہ بندہ ایک sitting میں ایک دو گھنٹے میں بندہ بڑی آسانی کے ساتھ پڑھ لیتا ہے اور ہے نسبتا آسان اس میں آ آ عام فہم آ زبان ہے پھر جب یہ پڑھ لیں چھوٹی چھوٹی کتابیں پڑھیں اس سے حوصلہ بھی ہو جاتا ہے مثلا یہی تین چار lecture پڑھ لیں چھوٹا الوصیت ساتھ پڑھ لیں پھر ایک غلطی کا ازالہ احمدی اور غیر احمدی میں فرق چھوٹی چھوٹی کتابیں جب انسان تین چار اکٹھی پڑھ لیتا ہے تو اس کو حوصلہ ہوتا ہے اچھا میں نے اتنی پڑھ لی اس سے پھر یہ کہ بڑی کتابیں پڑھنے میں نسبتا سہولت ہو جاتی ہے اسلامی اصول کی فلاسفی بڑی ایک اہم کتاب ہے اگر یہ آپ یہ چھوٹی چھوٹی کتابیں پڑھیں گے تو وہ پڑھنی نسبتا آسان ہو جائے گی تو اپنا اپنا انداز ہے اپنا خود اندازہ لگائیں کہ آپ کو کس قدر اردو پڑھنا آتا ہے اس کے مطابق آپ کو مسیح کتابوں میں اپنے حوالے سے نسبتا آسان کتب مل جائیں گی چھوٹی کتابیں پہلے پڑھیں جتنا جتنا آپ پڑھتے جائیں گے آپ کی زبان بھی بہتر ہو گی آپ کا حوصلہ بھی بڑھے گا اور آپ جو بڑی کتابیں بظاہر مشکل لگتی ہیں ان کو بھی پڑھنا آپ کے لیے آسان ہو جائے گا اور جیسے حضرت صاحب نے فرمایا کہ پہلے اخبارات میں سے دیکھیں جو آپ کے ملک میں شائع ہوتی ہیں چھوٹی چھوٹی سے شروع کریں.

00:39:21

بالکل ٹھیک. تو بڑی آسانی ہو جائے گی. آپ نے خود ذکر کر دیا کہ مختلف مواقع پر خلفاء نے مختلف طرح سے ہماری رہنمائی کی ہے اس بارے میں. ہماری بہن نے جو سوال کیا تھا. اس میں علمی و ترتیبی لحاظ سے فائدے کا ذکر کیا تھا. یہ بھی ایک نہایت دلچسپ پہلو ہے. تو جس طرح محترم فضل الرحمان صاحب نے ابھی ذکر کیا ہے.

00:39:39

اگر آپ کو اردو زبان آتی ہے. تو آپ براہ راست کتابیں پڑھ سکتی ہیں. اگر اردو زبان آپ کی اچھی نہیں ہے تو پہلے چھوٹے چھوٹے اقتباسات سے پڑھنا شروع کریں. لیکن اصل یہ ہے کہ حضرت اقدس مسیح معود علیہ الصلاۃ والسلام کے بارے میں یہ تھا کہ وہ خزان جو ہزاروں سال سے مدفون ہیں اب میں دیتا ہوں اگر کوئی ملے امیدوار تو ان خزائن کو پڑھنے کی بہرحال ضرورت ہے یہ بھی عرض کرتا چلوں کتب کے انگریزی و دیگر زبانوں میں بھی تراجم ہو چکے ہیں اور لوگوں کی آسانی کے لیے آڈیو books بھی available ہیں آپ کہیں سفر پہ جا رہے ہیں آڈیو book سنتے ہوئے بھی آپ جا سکتے ہیں اگلا سوال سمیع خان صاحب کی خدمت میں پیش کروں گا ہمارے regular سوال پوچھنے والے ہیں خان صاحب یا برطانیہ سے اپنا سوال بھیجتے ہیں محترم عبدالسمیع خان صاحب خان صاحب برطانیہ والے آپ سے یہ پوچھنا چاہ رہے ہیں کہ مرزا صاحب نے اپنے الہامات میں قرآنی آیات کو ملا جواب دیا ہے یہ ان کا خیال ہے اسی طرح میں سوال پیش کر رہا ہوں اور وہ کہتے ہیں اور کہا ہے کہ یہ آیات ان کو الہام ہوئیں یہ قرآن کریم کی خان صاحب نزدیک تحریف ہے آپ ان کو اس بارے میں رہنمائی کر دیں.

00:40:57

عبدالسمیع خان صاحب.

00:41:00

جزاکم اللہ میں خان صاحب کی خدمت میں یہ عرض کرنا چاہتا ہوں کہ اگر آپ سے کوئی کہے کہ آپ کا ناک نقشہ فلاں بزرگ سے ملتا جلتا ہے آپ کے بال فلاں مشہور آدمی کی طرح ہیں آپ کی آنکھیں فلاں بزرگ کی طرح ہیں تو کیا آپ اس پہ برا منائیں گے لوگ ارسطو کے اقوال میں گفتگو کرتے ہیں اپنی گفتگو سے ان کو سجاتے ہیں حضرت علی علیہ السلام کے اقوال کثرت سے ملتے ہیں اور بعض لوگ جھوٹے گھڑ کے بھی ان کی طرف منسوب کر دیتے ہیں لیکن وہ اچھے اقوال ہوتے ہیں میں نے دیکھا ہے تو ان میں سچائی اور حکمت کی باتیں چھپی ہوتی ہیں. لقمان حکیم کے اقوال پتہ نہیں ہیں کہ نہیں لیکن معروف ہیں اور ان کی طرف منسوب کیا جاتا ہے.

00:41:46

تو یاد رکھیے حضرت مسیح معود علیہ الصلاۃ والسلام کا دعوی یہ ہے کہ میں رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا غلام کامل ہوں. میں رسول اللہ کے نقش قدم پر آیا ہوں. اس لیے حضرت مسیح معود علیہ الصلاۃ والسلام کو خدا تعالی نے خود عربی کا علم سکھایا. اور مسیح موعود علیہ الصلاۃ والسلام نے challenge کیا کہ میں قادیان جیسے گاؤں کا رہنے والا ہوں.

00:42:08

تمام علماء میرے مقابلے پر آئیں اور عربی زبان میں میرا مقابلہ کر لیں۔ پھر صرف عربی میں ہی تفسیر میں میرا مقابلہ کر لیں کیونکہ اسلام کی زبان عربی ہے محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی زبان عربی ہے اور آپ کو قرآنی علوم عطا کیے گئے تھے تو مجھے بھی اللہ تعالی نے نہ صرف علم عربی عطا کیا ہے بلکہ قرآن کریم کے علوم بھی عطا فرمائے۔ اس سے آگے بڑھ کر اللہ تعالی نے جب آپ پر الہامات کیے تو ان الہامات میں کثرت کے ساتھ قرآنی آیتیں اللہ تعالی نے نازل کیں۔ تو جس بات کو یہ اعتراض کہ مجھے سمجھتے ہیں علیہ السلام کے لیے اور ہمارے لیے تو خوشی کی بات ہے۔ کہ اللہ تعالی قرآن کی زبان میں ہم سے کلام کر رہا ہے۔ بعض بہت سے بزرگوں کا ذکر ملتا ہے جو صرف قرآنی آیات میں کلام کرتے تھے اپنی طرف سے کوئی لفظ بولتے نہیں تھے جہاں تک ممکن ہوتا تھا قرآن کی آیتیں استعمال کرتے تھے۔ اور عربی لطائف میں ان کا ذکر کیا جاتا ہے۔ لوگ اپنی بات کو زیادہ authentic کرنے کے لیے غالب کا مصرعہ بولتے ہیں امیر کا شعر بولتے ہیں۔ عربی اشعار سے جاتے ہیں۔ اللہ تعالی نے مود علیہ الصلاۃ والسلام پر جب الحمات نازل کیے تو اللہ تعالی نے ان کو قرآنی آیات سے سجایا لیکن یاد رکھیے وہ قرآن کریم کا حصہ نہیں ہے بس یہاں پہ فرق کرنا چاہیے وہ قرآن جو محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم پر نازل ہوا وہ کامل ہو چکا ہے اس میں اب کسی تبدیلی تعریف کی کوئی گنجائش نہیں وہ قرآن بسم اللہ کی بے سے والناس کسی تک محفوظ ہے اور اس کے معنی ابدی اور دائمی ہیں ان میں کوئی شخص نہیں ڈال سکتا ہاں مسیح محمد علیہ الصلاۃ و پر جو علامات قرآنی آیات کی شکل میں نازل ہوئے اور ہمیں خوشی ہے اگر کسی پر قرآنی آیات کی صورت میں الہام ہوتا ہے تو اس کو تو اس میں خوش ہونا چاہیے اللہ تعالی قرآن کریم کے اقوال میں بات کرتے ہیں اللہ تعالی اپنے اس کلام کے ذریعے بات کر رہا ہے جو سب کلاموں سے بالا سب سے بزرگ و برتر کلام ہے جس سے بہتر نہ کبھی کوئی کلام آیا نہ کبھی اس سے بہتر کوئی آئے گا اور خدا کے پاک منہ سے ہر ورب اس کا نکلا ہوا ہے جس کی حفاظت کبھی عمل ہاں جب اس کے من جب وہ الہام مسیح علیہ السلام پر ہوتا ہے تو اس کے معنی معدود ہوں گے کے مطابق ہوں گے اور اس خاص معنی میں ہوں گے جن میں آپ کو مخاطب کیا گیا جو معنی رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم پر اترے اور جو الفاظ آپ پر اترے وابدی اور دائمی اور قیامت تک کے لیے ہیں ان کا کوئی مقابلہ نہیں کر سکتا ان میں کوئی شریک نہیں ہے قرآن شریف کی کوئی مثال اس دنیا میں نہیں ہے ہاں اس کے تابع علم عربی اور اس کے تابع اللہ تعالی نے جو آپ پر آیات نازل فرمائی ان کے معنی بھی اسی نسبت سے جو مسیح مود علیہ السلام کا غلامی کا مقام ہے جو اتباع کا مقام ہے اسی معنی میں آپ کے بھی قرآن کریم کے تابع ہیں میں صرف ایک مثال دے کر ختم کرتا ہوں بات کو ورنہ بات تو بہت لمبی ہو جاتی ہے مثلا مسیمد علیہ السلام پر یہ آیت نازل ہوئی اللہ تعالی نے بدر میں بھی تمہاری نصرت فرمائی جب کہ تم بہت کمزور تھی مسیمد علیہ السلام فرماتے ہیں کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم پر یہ آیت بدر کے آیات کے لحاظ سے نازل ہوئی بدر کا ساری دنیا جانتی ہے کس طرح اللہ تعالی نے رسول کریم کی نفس میرے لیے بدر کے معنی یہ ہیں کہ بدر چودھویں کے چاند کو کہتے ہیں اور میرے لیے بدر کے معنی یہ ہیں کہ میں چودہویں صدی میں ظاہر ہوا جس طرح بدر چودویں کا چاند ہے اور ایسے وقت میں آیا جب کہ مسلمان نہایت کمزور تھے تو اللہ تعالی پھر میری مدد اور نصرت فرمائے گا تو مسعود علیہ السلام اس آیت کو اپنے لیے پیش گوئی کے رنگ میں بیان فرماتے ہیں چودہویں صدی میں میرا ظہور ہوا نہایت کمزوری کے عالم میں جب مسلمان تھے میں اس وقت آیا ہوں اور اللہ تعالی میری ویسے ہی نصرت فرمائے گا جیسے اللہ تعالی نے بدر کے وقت مسلمانوں کی فرمائی اور ان کو دشمنوں پر غالب کر دیا اور مسعود علیہ الصلاۃ والسلام کے وقت میں بھی دشمنوں نے آپ مضامین کے متعلق گواہی دی۔ ابھی ذکر کر رہے تھے۔ فضل الرحمن صاحب کہ وہ اسلامی اصول کی فلاسفی تو سب نے گواہی دی کہ آپ کا منہ بھلا رہا۔ دشمنوں نے گواہی دی کہ مرزا صاحب نے ولایت سے ہندوستان سے لے کر ولایت تک کے پادریوں کے منہ بند کر دیے اور کثرت کے ساتھ وہ اعترافات چھپے ہوئے ہیں۔ تو میں یہ عرض کر رہا ہوں کہ مسعود علیہ الصلاۃ والسلام پر جو آیات الہام ہوئیں۔ وہ ایک محدود وقت اور قوم اور مسعود علیہ الصلاۃ والسلام جس طرح کے غلام ہیں اسی نسبت سے ان کے معنی ہوں گے اور یہ کوئی اتفاقی واقعہ نہیں ہے یا منفرد واقعہ نہیں ہے امت محمدیہ کے بہت سے بزرگوں کو قرآنی آیات میں الہام ہوتے رہے ہیں حضرت علیہ السلام کے زمانے سے ہم پہلے ہوئے اور ان کو یہ رحمت اللعالمین اب اس کا کیا معنی ہے ہم خود کہتے ہیں کہ میں ایک محدود دائرے میں رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی غلامی میں اپنے علاقے میں اپنی قوم کے لیے ایک رحمت کے مجمع میں رسول اللہ تمام عالمین کے لیے تو یہی بات مسیح موذ علیہ السلام کے علامات سے متعلق ہے یہ کثیر تعداد میں ہمارے پاس ایسی مثالیں موجود ہیں جہاں کثرت سے امت محمدیہ کے بزرگوں پر قرآن کریم کی آیات نازل ہوئی لیکن ان کے معنی وقت کے لحاظ سے محدود زمانہ کے لحاظ سے اس شخص کے حوالے سے اس کے مقام کے لحاظ سے محدود تھے تو آپ کے ساتھی جو دھوکہ دینے کی کوشش کرتے ہیں گویا قرآن کریم سے ہم نے ملا جلا دیا ہے یہ بالکل غلط بات ہے قرآن کریم قرآن ہے قرآن ہے جو محفوظ ہے مسعود علیہ الصلاۃ والسلام کے الہام محض مسعود علیہ السلام کے الہام ہیں قرآن کے ساتھ ان کا کوئی مقابلہ نہیں ہے وہ قرآن کے خادم ہیں قرآن کے غلام ہیں اس سے زیادہ ان کی کوئی حیثیت نہیں بہت شکریہ عبدالسمیع خان صاحب میں یہ سمجھتا ہوں کہ ہمارا جو بھی سوال کرنے والا ہمارا بھائی ہوتا ہے اس کا سوال جیسا بھی ہو ہمارے نزدیک وہ سوال بہت اہم ہے کیونکہ اس قسم کے سوالات ہو سکتا ہے کسی اور ہمارے بھائی اور بہن کے ذہن میں ہو تو اس طرح یہاں سوال پیش ہونے سے اور اس کا جواب ملنے سے بہت سارے ذہنوں میں جو الجھنیں ہوتی ہیں وہ دور ہو جاتی ہیں لیکن ایک بات کا ذکر ہم ہمیشہ کرتے ہیں کہ جب بھی آپ ہمارے کسی مخالف کی کتاب دیکھتے ہوئے جماعت احمدیہ کے خلاف کوئی اعتراض پڑتے ہیں تو جماعت احمدیہ کے لٹریچر میں کم is کم چیک کر لیا کریں کہ اعتراض جہاں سے کیا جا رہا ہے وہاں وہ بات موجود بھی ہے کہ نہیں یہی جس طرح ابھی محترم عبدل خان صاحب ذکر کر رہے تھے کہ امت مسلمہ کے دیگر بزرگ بھی ایسے گزرے ہیں جن کو اللہ تعالی نے الہام کیا ہے اور الہام کے وہ الفاظ قرآنی آیات کے الفاظ بھی تھے تو یہ کیسے ممکن ہے کہ حضرت مرزا غلام احمد قادیانی علیہ الصلاۃ والسلام پر جب ایسا الہام ہو تب تو اعتراض ہو لیکن جب دیگر بزرگان پہ ہو تو کوئی اعتراض نہ ہو محترم فضل الرحمن صاحب ہماری بہن ہیں احمد الحسیب صاحبہ لاہور سے پوچھنا چاہ رہی ہیں ایک بنیادی نوعیت سوال ہے ہم سب کے لیے بڑا اہم ہے میں چاہوں گا ہماری بہن کی اور دیگر لوگوں کی بھی رہنمائی کر دیں وہ پوچھنا چاہتی ہیں ہم خلافت سے تعلق کیسے پیدا کر سکتے ہیں اور دوسرے احباب کو اس کی نصیحت کیسے کر سکتے ہیں خلافت تو جماعت احمدیہ کی جان ہے۔ تعلق پیدا کرنے کے مختلف ذرائع ہیں۔ سب سے پہلے تو ہمیں یہ دیکھنا چاہیے۔ مثلا ایک ذریعہ یہ ہے کہ ہمارا جو پہلا تعلق خلافت سے قائم ہوا۔ وہ قرآن کریم کے اس حکم کے وجہ سے ہے کہ اللہ تعالی نے قرآن کریم میں خوشخبری دی کہ یہ وہی خلیفہ ہے جو اللہ تعالی کے وعدے کے مطابق اس دنیا میں خدا کے دین کی کر رہے ہیں اس سے بھی ایک انسان میں آتی ہے یقین پیدا ہوتا ہے دوسری بات یہ کہ جب ہم نے حضرت صاحب کی بیعت کی تو اس وقت دیکھیں ہم نے کیا شرائط بیعت تھیں کون سے ایسے بیعت کے الفاظ تھے جن کو دہراتے ہوئے ہم نے بیعت کی کہ ہم پنج وقتہ نماز کے پابندی کریں گے قرآن کے پڑھنے پڑھانے یا حضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی احادیث کے پڑھنے پڑھانے اور وسیم کتب کے پڑھنے پڑھانے میں پوری کوشش کریں گے حضرت صاحب کی ہر بات عمل کرنے کی کوشش کریں گے ایک ذریعہ یہ ہے کہ وہ جو بیعت فارم ہے یا بیت کی شرائط کو سامنے رکھ کر دیکھیں کہ ہم نے کیا ان شرائط کو پورا کر رہے ہیں پھر ایک اور ذریعہ یہ ہے کہ ہم جہاں بھی ہیں حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی ایک بہت بڑی خواہش کا ذکر ملتا ہے آپ کی کتابوں میں حضور فرماتے ہیں کہ میری مجھے اپنی جماعت سے ایسی محبت ہے کہ میرا دل کرتا ہے کہ میرا گھر درمیان میں ہو اور ہر گھر میں ایک کھڑکی کھل رہی ہو ایک window کھلی ہو آج اللہ تعالیٰ نے ظاہری طور پر بھی وہ window کھولنے کے کر دیے ہیں ہر گھر میں ایم ٹی اے کے ذریعے کمپیوٹر کے ذریعے موبائل کے ذریعے خلیفہ وقت کے ہم خطبات سنتے ہیں دو تو نہایت اہم program ہیں ایک خطبات اور حضرت صاحب کی جو this week with حضور کا program آتا ہے ہمارے بزرگان نے جو جو باتیں ہمیں سکھائیں اس حوالے سے تو ہمیں ایسا لگتا ہے کہ خطبہ ہمارا رہ جائے خدانخواستہ اول تو کوشش ہوتی ہے کہ نہ رہے تو ذہن میں یہ ہوتا ہے کہ خلیفہ وقت جتنا یعنی ہمارے جماعت کے اندر یہ تربیت ہے کہ حضرت صاحب کے الفاظ جو حضور کے نکلے ہیں حضور کے مبارک زبان سے وہ ہمارے کان کب کیوں اس سے محروم ہیں ساری مصروفیات چھوڑ کر سب سے پہلے کوشش کریں کہ حضور کے خطبات دیکھیں یہ جو حضور کے ملاقات کے program آ رہے ہیں ان کو دیکھیں اس سے بھی حضرت صاحب کے ساتھ اور پھر اس پہ غور کریں کہ حضور کیا فرماتے ہیں پھر ایک بہت بڑا ذریعہ یہ ہے کہ آپ حضرت صاحب کو دنیا کے کسی بھی کونے سے خط لکھ سکتے ہیں ہم یہاں پہ یو کے بیٹھے ہوئے ہیں میں آپ کو یقین کے ساتھ کہہ سکتا ہوں دنیا کے مختلف ملکوں سے لوگ خط بھجواتے ہیں ہمارے ذریعے سے بھجوا دیتے ہیں ہر حضرت صاحب کی میز پر پہنچتا ہے اور سب کی آنکھوں کے سامنے سے گزرتا ہے اور حضرت صاحب اس کے لیے دعائیں کرتے ہیں پھر ایک اور ذریعہ بھی ہے لوگ حضور کو فون بھی کر دیتے ہیں پرائیویٹ سیکرٹری میں ایک انتظام ہے دو تین نمبر ہیں تو اور پھر جب حضور کو دعا کے لیے لکھتے ہیں پھر وہ دعائیں قبول ہوتی ہیں تو پھر ایک ایسی محبت دل میں جاگ جاتی ہے حضور کو دیکھنے سے وہ محبت پیدا ہوتی ہے بالکل بالکل کہ پھر اس کے لیے کوئی کوشش کرنی نہیں پڑتی جن کو استعمال کر کے ہمیں سب سے پہلے تو اپنا خلافت سے تعلق قائم کرنا چاہیے اور پھر طرح ہماری نسلیں بھی خلافت کے ساتھ اپنا تعلق قائم کریں گی ناظرین آج کے program کا وقت تو اپنے اختتام کو پہنچ رہا ہے لیکن ایک نہایت اہم سوال میں محترم عبدالسمیع خان صاحب کی خدمت میں پیش کرنا چاہوں گا ہمارے بھائی عارف الزمان صاحب نے بنگلہ دیش سے ہمیں اسی نوعیت کا ایک سوال بھیجا ہے بنگلہ دیش میں ابھی گزشتہ روز شہادتیں بھی ہوئی ہیں اللہ تعالیٰ بنگلہ دیش میں رہنے والے ہمارے احمدیوں کی حفاظت کرے اور دنیا بھر رہنے والے ہمارے احمدیوں کی حفاظت کرے اور پوری انسانیت کی حفاظت کرے محترم عبدالسمیع خان صاحب عارف الزمان صاحب نے جو سوال پیش کیا ہے وہ تو حضرت مصلح معود رضی اللہ عنہ کی خدمت قرآن کے حوالے سے ہے لیکن میں چاہوں گا کہ آج کے program کے اختتام میں چند منٹوں میں جماعت احمدیہ جو خدمت قرآن کر رہی ہے اس کے بارے میں ساری دنیا کو کچھ بتا دیں جی جزاکم اللہ حضرت علیہ الصلاۃ والسلام نے فرمایا تھا دل میں یہی ہے ہر دم تیرا صحیفہ چومو قرآن کے گرد گھومو کعبہ میرا یہی ہے مسیح محمد علیہ السلام کی یہ محبت خلافت انبیاء میں منتقل ہوئی حضرت خلیفۃ المصیح اول سے جو قرآن کریم کا عشق شروع ہوا خلافت کے ذریعے اور درس قرآن کے ذریعے وہ آج تک جاری ہے اور ملکوں ملکوں میں قوموں قوموں میں زبانوں زبانوں میں پھیل گیا تو جب خدمت قرآن کس طرح کر رہی ہے اس کا خلاصہ نکالنا چاہیں مختصر وقت میں تو میں دو تین باتیں عرض کر دیتا ہوں سب سے پہلی خدمت جماعت انبیاء یہ کر رہی ہے کہ ہم نے کیسا نظام بنایا ہے کہ تمام احمدی چھوٹے اور بڑے اور بچے اور بوڑھے قرآن کریم کو سیکھیں اپنی اپنی عمر کے مطابق اگر کہیں غلطی ہو رہی ہے اور سستی ہو رہی ہے تو اس کو دور کریں حضرت صاحب کی تازہ خطبے میں اس لیے آ رہے ہیں بچے اپنی عمر کے مطابق نوجوان اپنی عمر کے مطابق انصار اپنی عمر کے مطابق خواتین اور بچیاں اپنی عمر کے مطابق قرآن سیکھیں کا ترجمہ سیکھیں قرآن کی تفسیر سیکھیں اور پھر اگر اس پہ کوئی سوال اٹھتے ہیں تو اس کو سوالوں کے جواب تلاش کریں اپنے علماء سے پوچھیں مربیان کے ذمے ہیں ہماری تفسیریں موجود ہیں ہماری کتابیں وسیم اللہ کے موجود ہیں ان میں کثرت کے ساتھ ان سوالوں کے جواب دیے گئے ایک پہلو تو یہ ہے اور ہم کوشش کرتے ہیں کہ کوئی بچہ ہماری جماعت میں ایسا نہ رہے جو اپنی عمر کے مطابق قرآن کریم کے علوم سے واقف نہ ہو دوسرا حصہ ہے کہ ہم ساری دنیا میں قرآن پڑھنے اور پڑھانے والوں کی ایسی کھیپ تیار کر رہے ہیں جو ساری دنیا میں قرآن کو پھیلا رہے ہیں اس مقصد کے لیے دنیا بھر میں جامعہ اندیہ کا قیام عمل میں لایا گیا ہے جو انیس سو چھ میں جس کا آغاز ہوا تھا اور اب دنیا کے کناروں تک وہ پھیل چکا ہے میں یہاں جامعہ انبیاء گانا میں پڑھاتا ہوں اور ان سب جامعات کا مقصد صرف قرآن کریم پڑھانا ہے قرآن کریم پڑھانے کے لیے ہم حدیث اور کلام اور فقہ اور دوسرے علوم کی مدد لیتے ہیں بنیادی مقصد یہاں چھبیس ملکوں کے ڈھائی سو طلباء پڑھ رہے ہیں قرآن کریم اور اپنی اپنی زبانوں میں جا کے انشاء اللہ تعالی اپنی اپنی قوموں کو قرآن پڑھائیں گے اپنوں کو بھی پڑھائیں گے اور غیروں کو بھی پڑھائیں گے تبلیغ بھی کریں گے اور تربیت بھی کریں گے تیسرا پہلو اس کا یہ ہے کہ ہم قرآن کریم کے دنیا بھر میں تراجم شائع کر رہے ہیں بعض ایسی زبانیں بھی تھی جن کو لکھا ہی نہیں جاتا تھا جماعت احمدیہ کے مبلغین نے عثمان کو تحریر کی شکل دی ہے اور اس زبان میں پھر اس قرآن کریم شائع کیا ہے پھر اس قرآن کا ترجمہ شائع کیا ہے قرآن کے معنی اور مفاہیم بیان کیے جا رہے ہیں چوتھا کام جماعت انبیاء یہ کر رہی ہے کہ قرآن کریم پر اور رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم پر جتنے اعتراضات ہوتے ہیں جماعت انبیاء اعتراض سنتے ہی اس کا جواب دیتی ہے اول تو مسیح محمد علیہ الصلاۃ والسلام نے اپنی کتابوں میں اس کا آغاز فرمایا مجال ہے کہ کسی نے اعتراض کیا ہو کسی اخبار میں اور مسیح محمد علیہ السلام نے فوری طور پر اس کے جواب میں مضمون نہ لکھ دیا ہو یا کتاب نہ لکھ دی ہو وہ اعتراض ابھی سارے لوگوں تک پہنچے بھی نہیں تھے مسیح مود علیہ السلام کی کتابوں کے ذریعے وہ جواب کے ساتھ سب تک پہنچ گئے تو مسیح موت علیہ الصلاۃ والسلام کے ذریعے جو اعتراضوں کے جواب دینے کے سلسلہ شروع ہوا وہ سینکڑوں کتابوں کی شکل میں آج دنیا بھر میں موجود ہیں پھر آگے ان کے ترجمے ہو رہے ہیں جماعت انبیاء کی ویب site پر قرآن کریم کی تلاوت ہو رہی ہے قرآن کے ترجمے نشر ہو رہے ہیں اہل اسلام پر ہزاروں کتابیں بھری پڑی ہیں اور قرآن کریم کے نئے سے نئے علوم اور نئے سے معارف متعارف کرائے جا رہے ہیں سے بڑھ کر جماعتوں کی کیا خدمت ہے کہ سارا عالم اسلام مل کر اتنی زبانوں میں قرآن کے تراجم نہیں کر سکا جتنا ایک چھوٹی سی جماعت نے محدود وسائل کے ساتھ قرآن کریم کے ترجمے شائع کر دیے اور یہ بات بھی آپ سے عرض کروں بالکل ٹھیک کہ بعض محبت کرنے والوں نے ترجمے کیے ہیں اس میں کوئی شک نہیں لیکن ان کے پاس کوئی ایسا سسٹم نہیں تھا کہ مسلسل وہ ترجمے شائع ہوتے رہے ان پر آسانی ہوتی رہی وہ دنیا تک پہنچتے رہے ہیں ان کے فوت ہونے کے بعد وہ ترجمے بھی ختم ہو گئے جماعت کے فضل سے باقاعدہ ایک نظام موجود ہے تراجم قرآن کا جو اس کو آگے سے آگے لیے چلا جا رہا ہے اگر کسی قرآن میں ہمیں محسوس ہوتا ہے چونکہ ہم ساری زمانہ تو نہیں جانتے کہیں کوئی غلطی ہے زبان کی غلطی ہے کوئی اصطلاح کی غلطی ہے تو اس کی درستگی کی جائے بہت بہت شکریہ عبدالسمیع خان صاحب میں آپ کا بھی شکر گزار ہوں محترم فضل الرحمن صاحب آپ کا بھی شکر گزار ہوں اور ہمیشہ کی طرح ناظرین کرام آپ کے سوالات آپ کا اس program میں شامل ہونا ہمارے لیے بہت اعزاز کی ہوتی ہے اور میں آپ سب لوگوں کا اس program میں سوال بھیجنے والے اس program کو سننے والے سب کا شکر گزار ہوں یہاں میں یہ بھی عرض کرنا چاہتا ہوں کہ آج کا program ہمارے یہ لندن سٹوڈیو سے آخری program تھا اگلے ہفتے انشاء اللہ جو سیریز شروع ہو گی وہ ایم ٹی اے international کے قادیان سٹوڈیو سے آپ کی خدمت میں پیش کی جائے گی لیکن میں یہ بات بھی آپ کی خدمت میں عرض کرنا چاہتا ہوں ایک طرف جماعت احمدیہ خلافت احمدیہ کے سائے تلے ہر وقت یہ کوشش کر رہی ہے کہ تبلیغ اسلام مختلف انداز میں دنیا کے ہر کونے میں کرتی چلی جائے ابھی جب ہمارا یہ program ختم ہوگا تو تقریبا ایک گھنٹے کے بعد ایم ٹی اے international پر ایک live program آپ کی خدمت میں پیش کیا جائے گا اس live program کے دراصل دو حصے ہیں یہ دو وجوہات ہیں اسی جگہ جہاں ہم بیٹھے ہوئے ہیں یہ مسجد بیت الفطو لندن کی جگہ ہے یہاں ایک حصہ جو چند سال پہلے آگ لگنے کی وجہ سے خراب ہو گیا تھا وہ نہایت شاندار طریقے سے مکمل ہو چکا اور آج امام جماعت احمدیہ حضرت مرزا مسرور احمد اس کا افتتاح فرمائیں گے اور اس کے ساتھ ہی یہیں پر peace conference کا بھی انعقاد ہوگا حضور انور قرآنی تعلیمات کے مطابق اسلام کی حقیقی تعلیمات کے مطابق دنیا بھر کے سامنے وہ تعلیمات پیش فرمائیں گے جو اس وقت کی نہایت اہم ضرورت ہے کہ کس طرح دنیا میں امن کو قائم کیا جائے۔ اگر آپ جماعت عامدیہ سے تعلق نہیں بھی رکھتے تحقیق کرنا بھی چاہتے ہیں تو ٹیسٹنگ کی غرض سے ہی یہ program ضرور ملاحظہ کیجیے گا۔ آپ خود دیکھیں کہ دنیا میں صرف ایک خلیفۃ المسیحدہ اللہ تعالی بن عزیز عزیز ہیں جو ہر کسی کو اسلام کی حقیقی پرامن تعلیمات بتا رہے ہیں۔ آئندہ تک کے لیے اجازت دیجیے۔ program راہ ہدا لندن سٹوڈیو سے اب ختم ہوتا ہے۔ السلام علیکم ورحمتہ اللہ وبرکاتہ.

01:00:18

ہم تو رکھتے ہیں مجلمہ کا دن ہم تو رکھتے مسلمان کا دن دل سے ہیں خدا میں ختم سلیم

Leave a Reply