Ahmadi Muslim VideoTube Rahe Huda Rahe Huda 11 02 2023

Rahe Huda 11 02 2023



Rahe Huda 11 02 2023

Rahe Huda 11 02 2023

میں جتنے بھی مذاہب آئے ہوئے ہیں ان کے بہت سارے مقاصد میں سے ایک مقصد انسانیت کے درمیان باہمی اخوت اور بھائی چارہ قائم کرنا ہے نہ صرف اسلام بلکہ اسلام سے قبل جتنے مذاہب کی تعلیمات ہیں ان میں بھی بنیاد طور پر ایک دوسرے کے ساتھ حسن سلوک کا ذکر ملتا ہے لیکن اس میں کوئی شک نہیں کہ آقا و مولا حضرت محمد مصطفی احمد مجتبی صلی اللہ علیہ وسلم پر جو اللہ تعالی نے تعلیمات نازل فرمائیں ان میں اس مضمون کو یعنی مذہبی رواداری انسانیت کی رواداری کو ایک بہت اعلی مقام و مرتبے پر اللہ تعالی لے گیا ہے چنانچہ انسانوں کے لیے ہم سب کے لیے جو بنیادی ہے وہ یہ ہے کہ جہاں ایک طرف ہم نے حقوق اللہ ادا کرنے ہیں وہاں حقوق العباد کی بھی اپنے ذہن میں اہمیت اور فوقیت کو ہمیشہ ازبر رکھنا ہے مذہب اور مذہبی رواداری اس کی بہت اہمیت ہے لیکن زمانہ اس طرف چلتا جا رہا ہے کہ لوگ چاہے وہ اسلام کے ماننے والے ہی کیوں نہ ہوں مذہبی رواداری کو بھولتے چلے جا رہے ہیں آج کے میں اور آئندہ چند پروگراموں میں بھی اسلام میں خاص طور پر جو تعلیمات ہیں مذہبی رواداری کے بارے میں وہ آپ کے سامنے پیش کرنے کی کوشش کریں گے کیونکہ ہمیں ایسا لگتا ہے کہ آقا و مولا حضرت محمد مصطفی احمد مجتبی صلی اللہ علیہ وسلم کی پیش گوئیوں کے مطابق امت مسلمہ اسلام کی حقیقی تعلیمات سے دور جا رہی ہے اور تکلیف اس بات کی ہوتی ہے کہ اسلام کا نام لے کر ہمارے آقا و حضرت محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وسلم کا نام لے کر جب مذہبی رواداری کے خلاف کام کیے جاتے ہیں تو ہمارا یہ فرض بنتا ہے اور ہماری ذمہ داری بنتی ہے کہ ہم امت مسلمہ کو اور تمام عالم کو یہ دکھائیں کہ اسلام کے نام پہ جو کوئی بھی ظلم و تشدد ہو رہا ہے اس کا اسلام کی حقیقی تعلیمات سے کوئی تعلق نہیں ہے ناظرین کرام یہ program راہ خدا ہے جو آج گیارہ فروری سن دو ہزار تئیس ہفتے کے روز جی ایم ٹی وقت کے مطابق شام ساڑھے چار بجے ایم ٹی اے international کے لندن سٹوڈیو سے پیش کیا جا رہا ہے ہمارا موضوع مذہبی رواداری ہے لیکن کیونکہ یہ program خاص طور پہ جماعت احمدیہ مسلمہ کے عقائد کے بارے میں ہے اس لیے ہمارے دیکھنے اور سننے والوں کے لیے یہ پلیٹ فارم موجود ہے آپ کے ذہن میں کوئی بھی سوال ہو یہاں ضرور پیش کریں پیش کرنے کے دو طریقے ہیں ایک ہمارا واٹس ایپ نمبر ہے آپ کو مستقل اس program کے دوران سکرین پر نظر آتا رہے گا voice message کے ذریعے سوال بھیجنا چاہیں یا تحریری سوال بھیجنا چاہیں تو ہمارا واٹس ایپ نمبر ضرور استعمال کریں لیکن ہمیں زیادہ خوشی ہو گی کہ اگر آپ ہمارے landline نمبر کو استعمال کریں اور ہم سے اس program میں براہ راست بات کریں کیونکہ یہ program آپ ہی کے سوالات پر مشتمل ہے آئیے آج کے program کا آغاز ہیں یہاں لندن سٹوڈیو میں خاکسار کے ساتھ موجود ہیں نصیر احمد قمر صاحب آپ کو خاکسار خوش آمدید کہتا ہے اور انشاءاللہ رانا سے نشریاتی رابطے کے ذریعے ہمارے ساتھ ہوں گے محمد نصیر اللہ صاحب ان کو بھی میں اس program میں خوش آمدید کہتا ہوں نصیر قمر صاحب جس طرح خاکسار نے ذکر کیا کہ ہم مذہبی رواداری کے بارے میں بات کریں گے کیونکہ میڈیا ہمیں یہ دکھا رہا ہے کہ بہت سارے میں خود اسلام کو ماننے والے مذہبی رواداری کا دامن چھوڑتے جا رہے ہیں.

00:04:53

تو سب سے پہلے ہمارے ناظرین و سامعین کو آپ یہ بتا دیں کہ قرآنی تعلیمات اس کے بارے میں کیا ہیں? قرآنی احکامات اس کے بارے میں کیا ہیں? جزاکم اللہ اصل میں یہ آپ کی بات درست ہے کہ اس وقت مغربی میڈیا میں خاص طور پر اسلام کو بدنام کرنے کی جو مہم ایک لمبے عرصے سے چل رہی ہے اس میں وہ مسلمانوں کے طرز عمل کو ہی بنیاد بنا کر اور اسے ہی گویا اسلام اور قرآن کی طرف منسوب کر کے اس کی بنیاد پر حملے کرتے ہیں تو یہ جو اسلام کی بدنامی کا موجب بن رہے ہیں یا دراصل بدقسمتی سے خود بعض مسلمانوں کا طرز عمل ہے اور جیسا کہ آپ نے شروع میں اپنے تعارفی کلمات میں بتایا کہ دراصل تو ہر مذہب کا مقصد ہی بندے کو خدا سے ملانا اور باہمی طور پر انسانوں کے حقوق کی ادائیگی کی طرف توجہ دلانا اور محبت اور پیار کو فروغ دینا یہی اصل بنیادی مذہبی تعلیم ہوتی ہے اور مذہب کی جو سچا مذہب ہے جیسے وہ کہتے ہیں کہ مذہب نہیں سکھاتا آپس میں بیر رکھنا تو حقیقت یہ ہے کہ وہ لوگ جو اس بنیادی اصول کے خلاف چلتے ہیں کہ دعوی تو وہ یہ کرتے ہیں کہ ہم خدا کی طرف سے آئے ہوئے مذہب کو ماننے والے ہیں یا ہمارا مذہب سچا ہے اور دوسری طرف وہ خدا ہی کی مخلوق میں تفریق پیدا کرتے ہیں منافرتیں پیدا کرتے ہیں بجائے محبتوں کو فروغ دینے کے ایک دوسرے کی خلاف دشمنی کو بھڑکاتے ہیں تو وہ مذہب کے بنیادی مقصد کے خلاف چل رہے ہیں اور اس سے اس مذہب کے پہ حرف نہیں آتا بلکہ ان لوگوں پہ حرف آتا ہے جو اس مذہب کی طرف منسوب ہوتے ہیں.

00:06:50

باقی یہ ہے کہ اس وقت باقی جو اسلام کے علاوہ دوسرے مذاہب ہیں ان کی تعلیمات میں بھی وقت کے ساتھ ساتھ بہت سارے بگاڑ آگئے اور قرآن مجید نے اس کی نشاندہی بھی فرمائی لیکن قرآن کریم کے متعلق اللہ تعالی کا یہ وعدہ ہے جو کہ جو اس نے تعلیم اس میں بیان فرمائی ہے اس کی وہ خود حفاظت فرمائے گا لفظی حفاظت بھی اسی کی طرف سے ہے اور معنی حفاظت کا نظام بھی اسی کا قائم کردہ ہے چنانچہ آج اگر آپ دیکھیں تو ساری دنیا میں اسلام کی عالمی امن کی جو تعلیم ہے اس کو دوسرے مسلمان بھی بعض اوقات پیش کرتے ہیں بعض مسلمان scholars کا ذکر کرتے ہیں لیکن اس کے ساتھ عملی گواہی ان کی نہیں ہوتی آپ جائزہ لیں تو معلوم ہوگا کہ ساری دنیا میں اس اس وقت ایک جماعت آمدیہ مسلمہ ہے جو حضرت مسیح موعود علیہ الصلاۃ والسلام کی کے کی آمد اور آپ کے پر ایمان اور آپ کے بعد قائم ہونے والی خلافت حقہ سے وابستہ ہے صرف وہی ایک جماعت ہے جو اب عملی طور پر ایک سوا سو سال سے زائد عرصے سے اس بات پر گواہی دے رہی ہے کہ اسلامی تعلیم جو ہے وہ عالمی امن کی علمبردار ہے دنیا میں دو سو سے زائد ممالک میں اس جماعت کے پھیلے ہوئے ہونے کے باوجود کہیں آپ یہ نہیں پائیں گے کہ جماعت کی طرف سے کبھی دنیا میں کسی قسم کے فتنہ و فساد کی کوئی کی کوئی حرکت صادر ہوئی ہو یا مسلمانوں میں منافرت پیدا کی گئی ہو یا مسلمانوں اور دوسرے مذاہب کے درمیان منافرت پیدا کی جائے بلکہ ہمیشہ امن اور صلح اور محبت اور کو ہی فروغ دیا گیا ہے اس جماعت کی طرف سے اور یہ عملی گواہی ہے ہمارے پاس اور اس کی وجہ یہ ہے جیسا کہ میں نے ذکر کیا کہ اللہ تعالی نے قرآن کریم کی تعلیم کی حفاظت کا وعدہ فرمایا تھا بہت سارے لوگ جو ہیں وہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی اس پیش گوئی کے مطابق وہ قرآن پڑھیں گے تو سہی لیکن ان کے حلق سے نہیں نیچے نہیں اترے گا وہ قرآنی تعلیمات کو بھول گئے ابھی کل ہی حضور نے بھی خطبے میں اس مضمون کا ذکر فرمایا لیکن اللہ تعالی نے اس تعلیم کی حفاظت کے لیے اس کی فضیلت کو ظاہر کرنے کے لیے اس زمانے میں حضرت مسیح موعود علیہ الصلاۃ والسلام کو بھیجا اور آپ کے بعد خلافت حق کا اسلامی احمدیہ جو ہے وہ اسی جھنڈے کو سر بلند کیے ہوئے ہیں اور ساری دنیا میں قرآن کریم کی تعلیم کی فضیلت کو ظاہر بھی کر رہی ہے اور اپنے عملی نمونوں سے اس کو ثابت بھی کر رہی ہے کیونکہ قرآن کریم میں ابتدا سے ہی اگر آپ پڑھیں تو میں ایک مختصر رنگ میں اور عمومی طور پر اس کا ذکر کروں گا کہ الحمدللہ رب العالمین سے آغاز ہوتا ہے جس اللہ کا تصور اسلام میں پیش کیا گیا ہے وہ رب العالمین ہے تمام جہانوں کا رب ہے تمام جس میں انسان ایک عالم ہے اور ان میں کالے ہیں, گورے بھی ہیں, مختلف رنگوں کے ہیں, مختلف نسلوں کے ہیں, چھوٹے ہیں, بڑے ہیں, امیر ہیں, غریب ہیں.

00:09:59

وہ ان سب کا رب ہے.

00:10:01

جب ہمیں یہ تعلیم دی گئی کہ ہمارا اللہ رب العالمین ہے. مسلمانوں کو یہ سکھایا گیا. تو یہ اس ایمان کے خلاف ہو گی یہ بات کہ ہم اس خدا کی مخلوق کے درمیان کسی قسم کی منافرتیں پیدا کریں یا کسی قسم کے امتیازات برتیں. چنانچہ اسی پہلو سے القرآن کریم میں اگر آپ نظر دوڑائیں تو بہت ساری جگہوں پہ یہ تعلیم دی گئی ہے کہ تم سب جو ہیں وہ ان کہ یہ جو مختلف گروہ اور قومیں اور نسلیں ہیں اس کا مطلب یہ نہیں کہ آپ ایک دوسرے پہ بڑائی اختیار کریں یا اپنے آپ کو بڑا سمجھیں دوسرے کو حقیر سمجھیں تو معیار ہی اور دیا کہ معزز وہ ہے جو اللہ کے ہاں تقوی اختیار کرنے والا ہے تو یہ تعلیم دے کے اللہ تعالی نے امن کی بنیاد رکھی کیونکہ بہت سارے سادوں کی جڑ یہی ہوتی ہے کہ جب کوئی شخص اپنے آپ کو بڑا سمجھتا ہے اور دوسرے کو حقیر سمجھتا ہے پھر ہمیں جو اللہ تعالی نے نبی بھی عطا فرمایا یعنی حضرت محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وسلم ان کے متعلق قرآن کریم میں ہمیں یہ بتایا کہ آپ کافت الناس ہیں صرف عربوں کے لیے نہیں ہے آپ کا ظہور تو عرب میں ہوا لیکن آپ تمام بنی رہو انسان کے لیے اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی زندگی اس پر گواہ ہے آگے اس کا ذکر آئے گا اسی مجلس میں سوال و جواب کے دوران کہ کس طرح یہاں حضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے اس پہلو سے اور پھر آپ کو اللہ تعالی فرمایا کہ رحمت اللعالمین ہے تو رب العالمین کی طرف اور رحمت اللعالمین کی طرف منسوب ہونے کا دعوی کرنے والا اگر کوئی شخص مذہبی بنا پر معاشرتی بنا پر یا کسی بھی بنا پر دنیا میں فتنہ اور فساد پھیلاتا ہے تو وہ اپنے اس ایمان میں جھوٹا اور غلط ثابت ہوتا ہے پھر قرآن کریم کے متعلق اللہ تعالی نے یہ فرمایا کہ یہ ہدایت اور رحمت ہے اور تمام انسان کے لیے ہے اور اس میں شفا ہے بہت ساری امرا روحانیت کا اس میں علاج ہے اور تو قرآن کی نفی ہوگی اگر کوئی قرآن کی طرف اپنے آپ کو منسوب کرتا ہے اور پھر قرآنی تعلیمات کے برخلاف دنیا میں کسی بھی رنگ میں فتنہ اور فساد کو پھیلاتا یا شر کو ہوا دیتا ہے پھر قرآن کریم نے بڑی وضاحت سے یہ فرمایا کہ امت محمدیہ کو یہ کہا گیا کہ تم بہترین امت ہو جو تمام بنی رہو انسان کے فائدے کے لیے پیدا کی گئی ہو اس میں یہ نہیں فرمایا کہ صرف مسلمانوں کے لیے یا یہود کے لیے یا نصاریٰ کے لیے یا ہنود کے لیے یا مختلف مذاہب کی طرف منسوب ہونے والوں کے لیے بلکہ تمام انسانوں کے لیے خواہ وہ کسی بھی قوم کسی بھی مذہب کسی بھی علاقے سے تعلق رکھنے والے ہیں ان کے لیے خیر اور بھلائی یہ ہے جو امت محمدیہ کا موٹو ہے تو اگر کوئی محمدیہ میں ہونے کا دعویٰ کرتا ہے لیکن اس کا عمل اس کے برخلاف ہے تو وہ خود اپنے آپ کو خیر امتین سے الگ کر لیتا ہے ہمیں جو کعبہ دیا جس کی طرف منہ کر کے ہمیں پانچ وقت نمازیں پڑھنے کا اور تمام عبادات کرنے کا حکم ہے نماز ابا عبادات کا اس کے متعلق بھی اللہ تعالی نے فرمایا کہ وہ تمام بنی روح انسان کے لیے رکھا گیا ہے.

00:13:23

ان کی بھلائی کے لیے اس کو آہ اس کو وضع کیا گیا ہے اس کو بنایا گیا ہے. اور وہاں سے جو تعلیم اتری وہ بھی عالمی ہے. تو یہ بنیادی ایک خاکہ ہے اس کی تفصیلات پھر قرآن کریم میں جگہ جگہ موجود ہیں. کہ اگر کوئی قوم کوئی شخص آپ سے دشمنی کرتا ہے, آپ سے زیادتی کرتا ہے, آپ سے لڑائی کرتا ہے, آپ کے حقوق تلف کرتا ہے, تو کیا کرنا ہے? وہاں پہ بھی فرمایا کہ دفاع کرنا ہے.

00:13:48

اپنے دفاع کا آپ کو حق ہے. لیکن زیادتی کا کوئی حق نہیں. اور صرف مذہبی یا اعتقادی اختلاف کی بنا پر کسی پر ظلم یا زیادتی کرنے یا اس کے حقوق کو تلف کرنے کا آپ کو کوئی حق نہیں ہے.

00:14:02

بنیادی انسانی حقوق سب کے یکساں ہیں. جس میں مذہبی آزادی بھی ہے. بنیادی مال اور عزت کا تحفظ بھی ہے اے اس پہلو سے کسی کو بھی حق نہیں ہے قرآن کریم اور آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف سے کسی بھی مسلمان کو یہ حق نہیں دیا گیا کہ وہ کسی کے حقوق کو غصب کرے جو بھی معاملات ہیں وہ عدل اور انصاف کے ساتھ طے ہوں گے اور بڑی وضاحت سے بار بار اس کی تاکید کی گئی یہاں تک فرمایا کہ کوئی کسی قوم نے کتنی بھی دشمنی کی کتنی بھی زیادتیاں کی ہیں لیکن صاف سے نہیں ہٹنا آپ نے بالکل ٹھیک معاملات کو انصاف کے ساتھ طے کرنا ہے بالکل ٹھیک تو یہ ایک بنیادی کلید ہے جس کو اگر ہم سمجھ رہے ہیں تو آگے قرآن کریم میں پھر بڑی تفصیل سے بالکل ٹھیک ہر پہلو سے یہ تفصیلات دی گئی ہیں اور بڑی باریکی میں جا کر اور پھر نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے ارشادات میں اپنے عمل سے بہت تفصیل کے ساتھ عملی طور پر ان باتوں کو کھولا ہے جس طرح آپ یہ بیان کر رہے ہیں دیکھیں جو آپ نے خلاصہ تن ہی بیان کیا اس میں یہ بات بالکل واضح طور پر آ رہی ہے کہ ایک طرف تو یہ کہ کسی کے جو بنیادی حقوق ہیں ان کو سلب نہیں کرنا بلکہ ان کی حفاظت کرنے کا اللہ تعالیٰ بار بار قرآن کریم میں ہمیں سبق دے رہا ہے بہت بہت شکریہ نصیر قمر صاحب دوسرا سوال جو اسی سے تعلق رکھتا ہے اور میں سمجھتا ہوں کہ ہم تو ہمیشہ یہ بیان کرتے ہیں کہ قرآن کریم دراصل اللہ تعالی کے احکامات الہیہ ہیں اور اللہ تعالی نے صرف یہ احکامات الہیہ قرآن کریم کی صورت میں ہمیں نہیں بھیجے بلکہ مولا حضرت محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وسلم کی عملی شکل میں ان احکامات پر عمل کر کے ایک نمونہ بھی ہمارے سامنے پیش کیا گیا ہے چنانچہ اسی بارے میں ایک بہت اہم سوال لے کر میں محمد نصیراللہ صاحب کے پاس چاہوں گا جانا چاہوں گا اور نصیراللہ صاحب آپ کے سامنے میں یہ بات پیش کرنا چاہوں گا کہ ابھی محترم نصیر قمر صاحب نے جس طرح خلاصتا بیان کیا کہ اسلامی تعلیمات کیا ہیں مذہبی رواداری کے بارے میں میں چاہوں گا کہ اب آپ ناظرین کو یہ بتائیں کہ ہمارے آقا و مولا حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم کا ان تعلیمات پر عمل پیرا ہونے کے حوالے سے عملی نمونہ کیا تھا جی محمد نصیراللہ صاحب جی جزاکم اللہ راجہ صاحب پیارے آقا حضرت محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے جس طرح کہ آپ نے فرمایا صرف اعلی تعلیم ہی پیش نہیں کی بلکہ اس کا بہترین نمونہ بھی ہمارے سامنے پیش کیا اسلام کا تو مطلب ہی امن اور سلامتی ہے اور ایک موقع پر آپ نے فرمایا کہ مسلمان وہ ہے جس کے زبان اور ہاتھ سے سارے مسلمان محفوظ رہے آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی ساری زندگی اس کی مثال میں جو ہے وہ اس طرح کی مثالوں سے بھری پڑی ہے میں وقت کی کمی کے لحاظ سے دو تین مثال یہاں عرض کرتا ہوں آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے رواداری کے اصولوں پر بہترین عمل کیا چنانچہ اسلام میں جو سب سے پہلا معاہدہ جو ہجرت مدینہ کے بعد عمل میں آیا وہ مدینہ کی غیر مسلم آبادی کے ساتھ کیا گیا تھا اور اس معاہدے کی جو بنیادی شرط تھی وہ یہ تھی کہ یہود اور دیگر مذاہب کے ماننے والوں کو مکمل مذہبی آزادی حاصل ہو گی انہیں جبرا مجبور نہیں کیا جائے گا کہ وہ اسلام اختیار کریں یا اپنی تعلیمات پر عمل نہ کر سکیں پھر جب کے یہودی اور نجران کے عیسائی اسلامی حکومت میں داخل ہوئے تو آپ نے ان کو بھی ان کے عقیدے کے مطابق ان اور ان کے عمل کے مطابق مکمل مذہبی آزادی عطا فرمائی کہ وہ جو مرضی چاہیں عقیدہ رکھیں جس طرح مرضی اپنی عبادات کو بجا لائیں اپنے اعمال کریں ان پر کوئی اسلامی حکومت کی طرف سے پابندی نہیں ہوگی ایک روایت میں آتا ہے بڑا مشہور واقعہ ہے کہ جب نجان نجران کے عیسائی مدینہ میں آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے پاس آئے تو شام کے وقت انہیں آپ نے مسجد نبوی میں اپنے طریق کے مطابق عبادت کرنے کی اجازت بھی عطا فرمائی۔ اور اس موقع پر جب بعض صحابہ نے انہیں روکنا چاہا تو آپ نے ان صحابہ کو بھی منع کر دیا۔ چنانچہ ان عیسائیوں نے مسجد نبوی میں مشرق کی طرف منہ کر کے جو ہے وہ اپنے طریق کے مطابق اپنی عبادات ادا کیں۔ حالانکہ وہ عقیدے کے لحاظ سے مسلمان نہیں تھے۔ پھر بڑا مشہور واقعہ ہے کہ ایک دفعہ مدینے میں ایک یہودی نے ایک مسلمان کے نے اپنے پیغمبر حضرت موسیٰ علیہ السلام کی فضیلت بیان کی تو مسلمان نے غصے میں آ کر اس یہودی کو تھپڑ مار دیا یعنی اس پر تشدد کیا کہ تم ہمارے پیارے آقا محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم پر کس طرح حضرت موسی کو فوقیت دے سکتے ہو اس پر وہ شخص شکایت لے کر نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوا تو آپ نے فرمایا کہ تم نے بڑی سخت زیادتی کی ہے یعنی اس مسلمان کو آپ نے یہ فرمایا کہ تمہیں بالکل بھی یہ اجازت نہیں ہے کہ تم کسی پر کرو اور اس موقع پر آپ نے فرمایا کہ مجھے نبیوں کے مابین فضیلت نہ دیا کرو اب دیکھیں کہ باوجود اس کے کہ آپ افضل الانبیاء تھے آپ رحمت اللعالمین تھے مگر قیام امن کی خاطر آپ نے مخالف مذہب کے ماننے والوں کا بھی جو ہے وہ لحاظ رکھا اور ان کے مذہب کا ان کے جذبات کا احترام فرمایا اور اپنے جائز عقیدے سے کوئی کا بھی کھلم کھلا اظہار کرنے سے یا اس کے اظہار کے لیے تشدد کرنے سے مسلمانوں کو روک دیا یہ چند مثالیں ہیں ورنہ حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی ساری زندگی ایسی مثالوں سے پڑی ہے بہت بہت شکریہ محمد نصیر اللہ صاحب ناظرین کرام جس طرح کے خاکسار نے ذکر کیا ہے کہ ہمارے آج کے program کا موضوع تو مذہبی رواداری ہے لیکن کیونکہ یہ program راہ خدا ہے اور اس میں جماعت احمدیہ مسلمہ کے عقائد کے بارے میں آپ کے کسی بھی سوال کو ہم بہت اہمیت دیتے ہیں اس لیے اگر آپ کے ذہن میں کوئی ایسا بھی سوال ہو جس کا آج کے موضوع سے تعلق نہیں ہے تب بھی ہمارے سامنے ضرور پیش کریں ہمارا واٹس ایپ نمبر ہے اس پہ آپ voice message کے ذریعے یا تحریری سوال بھجوا سکتے ہیں لیکن اگر آپ ہم بات کرنا چاہیں گے تو اس کے لیے ہمارا لینڈ لائن نمبر ضرور نوٹ کر لیں.

00:20:16

چند ایک سوالات آ چکے ہیں لیکن ایک دو ضروری باتیں ہم نے کرنی ہیں. پھر ہم آپ کے سوالات کی طرف بھی چلیں گے. نصیر قمر صاحب ابھی محمد نصیر اللہ صاحب نے اختصار کے ساتھ چند عملی واقعات ہمیں بتائے ہیں. کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے کس طرح مذہبی رواداری کو قائم فرمایا. میں چاہوں گا اسی موضوع کو آگے بڑھاتے ہوئے.

00:20:38

اسی طرح کے کچھ اور واقعات سنائیں. جن میں خاص طور مذہبی عبادت گاہیں یا مذہب سے تعلق رکھنے والے افراد ان کے ساتھ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کا کیا سلوک رہا ہے دیکھیں نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے متعلق اللہ تعالی نے جیسا کہ میں نے ذکر کیا کہ رحمت اللعالمین بنا کر بھیجا تھا اور آپ اللہ تعالی کی تمام صفات کے مظہر عطم تھے.

00:21:09

اور دین کی جو تکمیل ہوئی ہے وہ آپ کے ذریعے سے ہوئی ہے یعنی جیسا کہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلاۃ والسلام نے ایک موقع پہ تحریر فرمایا ہے کہ آپ سے پہلے جتنے بھی انبیاء آئے اور قرآن کریم ان انبیاء کی بحثت کی صداقت کی گواہی دیتا ہے کہ مختلف انبیاء مختلف قوموں میں آئے بعض کا ذکر قرآن کریم میں ہے اور بہت سے ایسے ہیں جن کا ذکر قرآن کریم میں نہیں کیا گیا لیکن عمومی طور پر قرآن کریم نے ہمیں یہ بھی بتا دیا کہ ہر قوم میں اللہ تعالی کی طرف سے نظیر آئے ہیں اور اس کی طرف سے اس کی طرف سے ہادی بنا کر لوگوں کو بھیجا گیا۔ تو وہ تعلیمات جو مختلف وقتوں میں مختلف انبیاء کو مختلف زمانوں میں اپنے اپنے وقت کے تقاضوں کے مطابق دی گئیں۔ وہی تعلیمات جب وہ رسول آیا جو تمام بنی نو انسان کے لیے تھا۔ اور تمام آئندہ زمانوں کے لیے تھا۔ تو وہی تعلیمات نہایت اعلی اور عرفہ اور اکمل طور پر حضرت اقدس محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وسلم کو عطا کی گئیں۔ تو یہ کیسے تھا کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کوئی ایسا عمل فرمائیں جس سے کسی بھی مذہب کے ماننے والوں کی یا ان کے مقدس مقامات کی توہین ہوتی ہو آپ تو تمام بنی نو انسان کے لیے انسانیت کا علم لے کر کھڑے ہوئے تھے اور مذہب کو اس کی کامل شکل میں دنیا میں پیش کرنے کے لیے کھڑے ہوئے تھے یہی آپ کی بعثت کا مقصد تھا اور ایک ایسی لے کر آئے تھے جس پر چل کر تمام بنی نو انسان خدا تک پہنچ سکتے ہیں اس لحاظ سے آپ کی تعلیم ایک جامع تعلیم ہے جو خواہ کوئی یہودی ہو عیسائی ہو مجوسی ہو ہندو ہو کسی بھی مذہب سے تعلق رکھتا ہو یا نہ بھی تعلق رکھتا ہو ان سب کو وہ رہنمائی عطا کرنے والی تعلیم ہے اور آپ کا اسوہ حسن ہے جس پر چل کر وہ خدا تک پہنچ سکتا ہے تو یہ اسلامی تعلیم کی ایک غیر معمولی فضیلت ہے چنانچہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانے میں جب بعض مشرکوں سے آپ کا واسطہ پڑھا یا یہود سے پڑھا یا عیسائیوں سے پڑھا تو آپ نے ہمیشہ ان کے بنیادی حقوق کی حفاظت فرمائی ابھی پہلے انہوں نے میثاق مدینہ کا ذکر فرمایا ہے نصیراللہ صاحب نے اور انسانیت کہ ایک دفعہ کہتے ہیں کہ آ حضرت صلی اللہ علیہ وسلم ایک جگہ پہ تھے تو کسی کا جنازہ گزرا تو حضور اللہ علیہ وسلم اس کے احترام میں کھڑے ہو گئے تو بعض صحابہ نے عرض کیا حضور یہ تو کسی یہودی کا جنازہ ہے تو وہاں حضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ کیا وہ جان نہیں تھی اس میں کیا وہ انسان نہیں تھا تو یہ جو احترام آدمیت ہے یہ آپ نے یہ ہر چیز سے بالا ہے اور افسوس ہوتا ہے جب بعض مسلمان ایسی حرکتیں کرتے ہیں کہ وہ نہ صرف دوسرے مذاہب بلکہ اپنے ہی مذہب اپنے ہی کلمہ کو ماننے والے اپنے ہم قوم مسلمانوں کے ساتھ بھی ایسا رویہ اختیار کرتے ہیں کہ نہ صرف ان کو زندہ رہنے کا حق نہیں دیتے بلکہ ان کے مردوں کا بھی احترام نہیں کرتے اور ان کے قبرستانوں یا ان کی عبادت گاہوں کو جا کے نقصان پہنچانا اور گرانا اور سمجھنا کہ ہم نے یہ اسلام کی بڑی خدمت کر دی اور یہ نہایت نامعقول حرکتیں ہیں بہت کم ایسے واقعات ملتے ہیں دوسرے مذاہب میں بھی لیکن کہیں بھی ہوں اسلام اس کو condemn ہے قرآن کریم نے تو عبادتوں کے احترام اور انسانیت کے احترام کی تعلیم دی ہے اور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی ساری زندگی اس پر عملی گواہ تھی آپ بعض یہودی بعض اوقات بیمار ہوتے تھے ان کی عیادت کے لیے بھی تشریف لے جایا کرتے ہیں ایسے بھی واقعات ملتے ہیں آپ صلی اللہ علیہ وسلم ان کی عیادت کے لیے تشریف لے گئے اور ان کو وعظ و نصیحت بھی کی تبلیغ بھی کی کہ آپ اللہ کو ایک مانیں اور حضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو جو اللہ نے رسول بنا کے بھیجا ہے اس کے سچے ہونے کی برحق ہونے کی شہادت دیں تو یہ تو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کا نمونہ ہے کیونکہ قرآن کریم میں بڑی وضاحت سے یہ فرمایا گیا تھا کہ اللہ تعالی تمہیں اس بات سے یہ منع نہیں کرتا کہ وہ لوگ جو تم سے لڑتے نہیں ہیں یا تمہارے گھروں سے تمہیں نہیں نکالتے کہ تم ان سے نیکی کرو اور حسن سلوک کرو اور انصاف ان کے ساتھ انصاف سے پیش آؤ تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی زندگی ساری اس بات پر گواہ تھی کہ آپ مشرکوں کے ساتھ ہمدردی بھی رکھتے تھے ان کے کام بھی آتے تھے ان کی ضرورتیں بھی پوری کرتے تھے اور اپنے عملی نمونہ سے اس بات کی اس بات کو ثابت فرماتے تھے کہ اسلام بنیادی طور پر انسانیت کی تعلیم دیتا ہے مذہبی اعتقاد کا اختلاف جو ہے وہ اس بات کی اجازت نہیں دیتا کہ آپ بلاوجہ کسی ایک دوسرے کا خون کریں یا اس کے بنیادی حقوق کو تلف کریں یا اس کی جائیدادوں پہ غاصبانہ قبضہ کریں یا اس کے کسی بھی قسم کے پہلو سے اس کی جان, مال اور عزت کو نقصان پہنچائیں.

00:26:25

تو یہ جو تعلیم ہے یہ اس وقت unfortunately مسلمان اس سے دور ہو چکے ہیں یعنی اس کی ایک بھاری اکثریت اور بالخصوص پاکستان میں ایسی بہت ساری مثالیں ملتی ہیں جس سے مغربی دنیا کو یہ پیغام جاتا ہے کہ شاید یہی ان کا مذہب ہے جب کہ یہ اسلام کا حقیقی اسلامی تعلیم نہیں ہے یا حضرت صلی اللہ علیہ وسلم کا اسوہ نہیں ہے یہ قرآن کی تعلیم نہیں ہے اور اس زمانے میں جیسا کہ حضرت امیرالمومنین بار بار ہمیں توجہ دلاتے ہیں گزشتہ خطبات میں بھی توجہ دلائی ہمارا یہ فرض کیونکہ ہمیں اللہ تعالیٰ نے مسیح موود علیہ الصلاۃ والسلام کی جماعت میں شامل ہونے کے ناطے خلافت سے وابستگی کے نتیجے میں یہ ذمہ داری سپرد فرمائی ہے کہ ہم حقیقی اسلامی تعلیم کو دنیا میں پھیلائیں اس سے مسلمانوں کو بھی آگاہ کریں اور دوسروں کو بھی آگاہ کریں اور پھر اپنے عملی نمونے سے اس بات کو ثابت کریں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ہی امن کے امن کے بادشاہ تھے اور آپ کی لائی ہوئی تعلیم کے کو قبول کر کے اور اس جھنڈے کے نیچے کر ہی دنیا میں حقیقی امن قائم ہو سکتا ہے اور ہر قسم کے ظلم اور زیادتیوں کا خاتمہ ہو سکتا ہے بہت بہت شکریہ نصیر قمر صاحب نصیر قمر صاحب جس پہلو کی طرف آپ نے توجہ دلائی ہے یہی تو وجہ ہے کہ دیکھیں اگر کوئی ذاتی طور پر کوئی بھی عمل کرتا ہے تو ہمیں اس کی کوئی پرواہ نہیں ہے ہر انسان اس کو اختیار ہے لیکن جب وہ اسلام کا نام لے کر اور ہمارے آقا و مولا حضرت محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وسلم کا نام لے کر اس طرح کے اعمال کرتا ہے تو عملی یہی ہوتا ہے جس طرح آپ نے ذکر کیا کہ جو لوگ اسلام کو نہیں جانتے اسلامی تعلیمات کو نہیں جانتے ان کو ایسے ہی لگتا ہے کہ گویا یہ اسلام ہے کئی دفعہ جب غیر مسلموں کے ساتھ گفتگو ہوتی ہے تو وہ reference کے طور پہ اسلامی ممالک کا نام لیتے ہیں ان کے قوانین کا ذکر کرتے ہیں تو ہمیں غیر مسلموں کو بھی یہ سمجھانا پڑتا ہے اور یہ بتانا پڑتا ہے کہ یہ اسلامی ممالک ضرور ہیں لیکن ان کا قانون اسلامی قانون ہے یہ ضروری اسلامی تعلیم کے مطابق ہے یہ بھی ضروری ہے یہ بھی ضروری ہے بالکل ٹھیک آپ نے ذکر کیا اسی سے ملتا جلتا ایک سوال لے کر میں محمد نصیراللہ صاحب سے بات کرنا چاہوں گا محمد نصیراللہ صاحب جس طرح نصیر قمر صاحب نے گفتگو کو ایک خاص پہلو کی طرف لے کر گئے ہیں تو میں اسی پہلو کو آگے بڑھانا چاہتا ہوں لیکن میں ناظرین کو بتا دوں عارف الزمان صاحب آپ کا سوال بھی ہمیں پہنچ گیا بلکہ آپ کے سوال ہمیں پہنچ گئے ہیں عزیز احمد طاہر صاحب آپ کا سوال بڑا ہیں ہم اس کو ضرور اپنے panel ممبران کے سامنے پیش کریں گے لیکن محمد نصیراللہ صاحب آپ سے پہلے میں یہ پوچھنا چاہ رہا ہوں کہ ہمیں social میڈیا پہ اور میڈیا پہ ایسے نظر آتا ہے کہ گویا آج کل دیگر مذاہب کو پیار و محبت اور نلمی کی تعلیم کا پیروکار یا پیش کرنے والا بیان کیا جاتا ہے جب کہ اس کے مقابل پر اسلام کو ایسے پیش کیا جاتا ہے گویا سختی کی تعلیمات ہیں اور معمولی سنگین قسم کی سزائیں اس میں دی جاتی ہیں اور اس طرح ظاہر سی بات ہے دوسروں پر ایک negative اثر پڑتا ہے آپ ہمارے ناظرین کو بتائیں کہ اس بات کی حقیقت کیا ہے اگر ہم سابقہ مذاہب کی تاریخ پر نظر دوڑائیں تو ہمیں افراط اور تفریط دونوں طرح کا نمونہ نظر آتا ہے کہیں بہت زیادہ سختی کی گئی ہے مثلا ہندوازم میں ذات پات کا سسٹم رکھا گیا نچلی ذات کے لوگوں کو عبادت گاہوں میں داخل ہونے سے روکا گیا خدا کا کلام سننے پر سخت سزائیں دی گئیں اور کہیں اس کے ردعمل کے طور پر یا اس کو ختم کرنے کی کوشش میں یا اتنی زیادہ نرمی کی تعلیم دے دی گئی کہ چپل بھی نہیں پہنی کہ کہیں کوئی زمین پہ چلنے والا کیڑا مکوڑا اس سے ہلاک نہ ہو جائے اگر ہم جو زمانے کے مذاہب کے لحاظ سے عیسائیت یہودیت کو دیکھیں تو پرانے عہد نامے میں یہودیت کی تعلیم میں ہمیں بہت زیادہ سختی کی تعلیم نظر آتی ہے اور اس کے مقابلے پر اناجیل میں بہت زیادہ نرمی کی تعلیم نظر آتی ہے کیونکہ یہودیوں کے دل غلامی میں رہ رہ کر سخت ہو گئے تھے تو ان کو ابھارنے کے لیے ان میں شجاعت پیدا کرنے کے لیے تعلیم دی گئی پھر حضرت مسیح نے ان کو پلٹا اور ان کے دلوں کو نرم کرنے کے لیے وہ تعلیم دی نرمی کی اس ان سب کے مقابل پر اگر ہم اسلامی تعلیم کو دیکھیں تو وہ اس افراط اور تفریط سے پاک ہے۔ فرمایا کہ برائی کا بدلہ بھی لیا جا سکتا ہے۔ اس کے بدلے میں اتنا ہی سزا دی جا سکتی ہے لیکن معاف کرنے سے اگر اصلاح ہو جائے تو وہ بہتر ہے۔ جیسا کہ میں نے عرض کیا کہ مختلف مذاہب کی تاریخ پر نظر دوڑائیں تو سب میں مذاہب میں ہمیں ان کے ماننے والوں کی جانب سے ان کے مخالفین پر مظالم کا بھی بہت زیادہ ذکر ملتا ہے۔ پھر بائبل پر غور کریں تو مختلف عوام پر جارحانہ حملے کر کے ان کے مردوں کو عورتوں کو دودھ پیتے بچوں کو حتی کہ جانوروں کو ہلاک کرنے کا ذکر ہے عقیدے پر اسلام میں ہرگز کہیں عقیدے پر کسی قسم کی سزا نہیں دی گئی بائبل میں مذہب بدلنے اور مشرکانہ خیالات رکھنے اور ان کا پرچار کرنے پر انتہائی سختی کے ساتھ قتل کی سزا کا حکم دیا گیا ہے نہ صرف مجرموں کو ان کی عورتوں کو ان کے شیرخوار بچوں کو جانوروں کو سنگسار کرنے کا حکم ہے دوسری اقوام پر جارحانہ حملے کر کے ان کے مردوں کو شادی شدہ عورتوں کو قتل کرنے کا حکم ہے شرک کرنے پر سخت سزائیں دی گئی ہیں عبادت گاہ میں اگر کوئی دوسرا داخل ہو جائے تو اس پر مار مارنے کا حکم ہے اب اس طرح کی بہت ساری تعلیمات ہمیں ملتی ہیں میں نے صرف چند مثالیں پیش کی ہیں ان کے مقابل پر اگر ہم قرآن کریم کا اور اسلامی تعلیم کا جائزہ لیں تو یہاں کسی قسم کی کوئی نمبر ایک تو یہ جیسے میں نے پہلے بھی عرض کیا عقیدے پر سزا کا ذکر نہیں ملتا مذہب اختیار کرنے پر کسی قسم کی سزا نہیں دی بلکہ فرمایا کہ دین میں کوئی جبر جائز نہیں ہے پھر فرمایا کہ جو چاہے ایمان لائے جو چاہے کفر کرے مذہب اور عقیدہ اور اظہار رائے کی مکمل آزادی ہے قرآن کریم میں صرف تین جرائم پر سزاؤں کا ہمیں ذکر ملتا ہے نمبر ایک اگر کوئی شخص قتل کرے تو اسے سزا دی جا سکتی ہے لیکن اس میں بھی دیت کے ذریعے معاملہ حل کرنے کی گنجائش رکھی گئی ہے پھر دوسری جگہ جن بے راہ روی پر سزا دینے کا ذکر ہے وہ بھی صرف اس صورت میں اگر چار گواہ موجود ہوں اور اگر چار گواہ موجود نہیں ہیں تو الزام لگانے والے کو سزا دینے کا ذکر ہے اور پھر اسی طرح چوری پر سزا دینے یا ہاتھ کاٹنے کا ذکر ملتا ہے اور اس میں بھی یہ گنجائش رکھی گئی ہے کہ عدالت میں جانے سے پہلے فریقین دیت کے ذریعے آپس میں معاملہ حل کر سکتے ہیں اور یہ تمام سزائیں جو اسلام میں دی گئی ہیں وہ بھی صرف اسلامی نظام حکومت کے اندر دی گئی ہیں کسی individual مسلمان کو گروہ کو ہرگز یہ اجازت نہیں ہے کہ سزاؤں کو نافذ کرے بہت بہت شکریہ نصیراللہ صاحب آپ نے دونوں طرف کے حوالے دے کر ہمارے ناظرین کے لیے بیان کر دیا ہے کہ وہ جس مذہب کو بظاہر ایسے پیش کیا جاتا ہے کہ بہت سختی پر مبنی یہ مذہب ہے حقیقت اس کے بالکل برعکس ہے جب ہم دیگر مذاہب کی ان کی کتب سے تعلیمات دیکھتے ہیں خاص طور پہ ہم بائبل کا مطالعہ کرتے ہیں اسی طرح اگر آپ ہندو مت کی کتب کا بھی مطالعہ کریں تو آپ کو ایسی ایسی باتیں نظر آئیں گی کہ جس میں کے ساتھ بڑی سختی سے سلوک کیا گیا ہے لیکن بہرحال یہ ایک الگ موضوع ہے جس کے بارے میں ہم آئندہ کبھی گفتگو کریں گے نصیر قمر صاحب عزیز احمد طاہر صاحب آپ سے ایک بہت relevant سوال پوچھنا چاہتے ہیں میں پورا سوال کوشش کرتا ہوں ان کے الفاظ میں آپ کے سامنے پیش کر دوں آپ پھر اس کا جواب دے دیجیے گا سب سے پہلے وہ بات یہ پوچھنا چاہتے ہیں کیا مسجد کے میناریں بنانا صرف مسلمانوں کے ساتھ خاص ہے مزید ہیں اور کیا مسلمانوں کے علاوہ کسی اور کو اس کی اجازت نہیں ہے اور مزید یہ پوچھنا چاہتے ہیں کہ جس انداز میں مذہبی شدت پسندی پاکستان میں ہے کیا کسی دوسرے اسلامی ملک میں ہے اس کا دیکھیں جہاں تک مسجدوں کے لیے میناروں کا تعلق ہے تو دنیا میں سب سے محترم اور معزز مسجد حرام ہے.

00:34:53

جسے ہم بیت اللہ بھی کہتے ہیں خانہ کعبہ بھی کہتے ہیں اس کا تو کوئی منارہ نہیں ہے اس کے بعد آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی مسجد نبوی ہے جو خود رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے بنائی اس کا کوئی منارہ نہیں تھا سادہ کھجور کی ٹہنیوں کی چھت ڈالی ہوئی تھی اس پہ تو ان کا تو کوئی منارہ نہیں تھا تو یہ کہاں سے آگیا یہ بعد میں طرز تعمیر ہے جو مختلف لوگوں سے نے اپنایا اور اس کی وجہ یہ بنی کہ مسلمانوں نے پانچ وقت اذان دینی ہوتی ہے اذان کے ذریعے لوگوں کو بلانا ہے تو اس کی ضرورت تھی کہ مؤذن کسی اونچی جگہ پہ کھڑا ہو جہاں سے اس کی آواز دور دور تک پہنچے چنانچہ مسجد نبوی کی چھت پر کھڑے ہو کر اذان دی جاتی تھی تاکہ دور تک آواز پہنچ جائے اور لوگوں کو اذان کے نماز کے لیے بلایا جائے پھر رفتہ رفتہ یہ باتیں سامنے آئیں کہ اگر اس کے لیے ایک منارہ بنا لیا جائے ایک اونچی جگہ تعمیر کر لی جائے کوئی چبوترہ بنا دیا جائے جس کے اوپر کھڑا ہو کے اذان دی جائے تو یہ زیادہ بہتر ہے تو اس طرح سے رفتہ مسلمانوں کے فن تعمیر میں یہ مختلف طرز تعمیر داخل ہوئے اور مسجدوں کے ساتھ میناریں بنائے جانے لگے لیکن یہ صرف مذہبی عبادت گاہوں کے لیے صرف مسلمانوں کے ساتھ مخصوص نہیں ہے دوسرے لوگ مذاہب میں بھی ہے اور وہ ایک قسم کی ہوتی تھی کہ دور سے لوگوں کو نظر آ جائے کہ یہاں پہ ان کی عبادت گاہ ہے یہ church ہے یا مندر ہے یا مسجد ہے تو جب میناریں ہم کسی جگہ کے دیکھتے ہیں مسجد کے تو دور سے لوگوں کو اندازہ ہو ہے کہ مسجد کہاں پہ ہے؟ اور وہ لوگ اس ڈائریکشن میں جا سکتے ہیں تاکہ وہاں جا کے وہ مسجد میں باجماعت نماز قائم کر سکیں عبادت کر سکیں۔ تو اس کا بنیادی طور پر مسجد کا میناروں کے ساتھ کوئی تعلق نہیں ہے۔ یہ ضرورت اور حالات اور تقاضوں کے مطابق آہستہ آہستہ یہ بنائے جانے لگے اور مجھے جو سمجھ آتی ہے اس کی بنیادی غرض یہی تھی ایک تو آواز دور تک پہنچ جائے۔ اور دوسرا یہ کہ لوگوں کو دور سے نظر آ جائے۔ اگر آواز آ رہی ہے لیکن پتہ نہ چلے کہ مسجد کہاں پہ ہے تو انسان غلط ہی کھا سکتا ہے۔ کہ تو میں نے اذان کی سنی تھی لیکن اب مسجد ہے کہاں جہاں پہ جا کے میں نماز پڑھوں اور باجماعت نماز میں شامل ہوں لیکن اگر میناریں ہوں تو دور سے انسان پہچان سکتا ہے اور اس مسجد اس جگہ پہ جا کے نماز میں شامل ہو سکتا ہے یہ ایک حکمت سمجھ آتی ہے لیکن جیسا کہ میں نے بتا عرض کیا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے جو مسجد بنائی جس کے برابر کی کوئی اور مسجد نہیں ہے آپ نے فرمایا کہ میری مسجد سب سے بہترین مسجد ہے تو اس کا تو کوئی منارہ نہیں تھا تو یہ بعد میں حالات کے مطابق اور جوں جوں development ہوتی گئی وسائل بڑھتے گئے لوگوں نے سوچا اور انہوں نے ان مختلف اغراض کے پیش نظر ان میناروں کو بنایا اور پھر وہ ایک ان عبادت گاہوں کی ایک پہچان سی بن گئی لیکن یہ بھی صرف مسلمانوں سے خاص نہیں ہے دوسرے مذاہب میں بھی اسی طرح ہی ہے بلکہ حیرانی ہوتی ہے کہ پاکستان میں وہ ہماری آمدیاں جو مساجد ہیں ان کے میناروں کو گرا گرا کے پتہ نہیں کیا سمجھتے ہیں کہ شاید اس سے جی وہ ہم نے بہت بڑا مار لیا ہے اس قسم کے میناریں اگر وہ پنجاب ہندوستان کے پنجاب میں جائیں نا تو سکھوں کے جو گردوارے ہیں وہ بڑی محنت سے بڑی خوبصورتی سے انہوں نے گنبد اور اسی قسم کے محرابیں اور چھوٹے بڑے بے شمار میناریں بناتے ہیں وہ اپنے گردواروں پہ وہ بلکہ بعض مسلمانوں کی مساجد سے زیادہ میناروں والی ہوتے ہیں ہوتے ہیں تو بجائے اس کے کہ اس کا احترام کیا جائے آپ گراتے ہیں اور عجیب افسوس ناک بات یہ ہے کہ یعنی یہ حکومت کا فرض ہے کہ ملک کسی بھی شخص کو یہ حق نہیں ہے کہ وہ کسی دوسرے کی ملکیت اس کی جائیداد پہ جا کے دھاوا بولے اور اس پہ اس کو گرائے یا اس کو منہدم کرے یا اس پہ کسی قسم کی کوئی اس کو demolish کرے لیکن ہمارا ملک میں قانون خاموش ہے چند لوگ اٹھتے ہیں اور ان سے دب جاتی ہے انتظامیہ بھی بالکل ٹھیک بات ہے اور وہ جا کے مسجد اور وہ مساجد وہ جو بہت عرصے سے بنی ہوئی ہے یہ قانون تو انہوں نے بعد میں بنایا اور اس قانون میں بھی میناروں کو گرانے کا کوئی ذکر بالکل ٹھیک ہم کہتے ہیں کہ اگر آپ یہ سمجھتے ہیں کہ میناریں گرانے سے اسلام کی خدمت ہوتی ہے تو یہ آپ غلط بات کر رہے ہیں اس سے message باہر کی دنیا کو کیا جا رہا ہے کہ یہاں پہ بھی آپ کو پتہ ہے یورپ میں مسلمانوں کی مساجد کے میناروں کے خلاف ایک مہم چلی بالکل ٹھیک اور حضرت امیرالمومنین نے فرمایا کہ اگر تم یہ سمجھتے ہو کہ ان میناروں کے گرانے سے تمہاری ماحول میں امن آ جائے گا دنیا میں امن سلامتی قائم ہو جائے گی معاشرتی امن آ جائے گا, مذہبی امن آ جائے گا تو گرا دیں.

00:39:51

ہمیں اسے کوئی ایک اعلی مقصد کے لیے ہے اور گرانے ہیں تو گرا دیں. لیکن اس کا اس کے ساتھ تعلق کوئی نہیں ہے. بالکل ٹھیک. لیکن ان کو جو شہ ملی اور پھر اس پر پھر ہمارے ملکوں میں ہنگامے ہوئے کہ جی یہ کون ہوتے ہیں یورپ والے ہماری مساجد کے میناریں گرانے والے. بھائی تمہارے عمل نے ان کو اس بات پہ شے دی ہے.

00:40:09

بالکل ٹھیک. تو یہ نہایت ہی افسوس ناک اور تکلیف دہ صورتحال ہے. آج صرف جماعت احمدیہ ہے اور خلافت احمدیہ ہے. جو اسلامی تعلیمات اس کے صحیح prospective میں پیش کرتی ہے اور جب پیش کرتی ہے تو کوئی شعور آدمی جو ہے اس کا انکار نہیں کر سکتا اللہ کے فضل سے لیکن بعض مسلمانوں کے جس طرح وہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا تھا امت کے بارے میں کہ یہ یہودیوں کی طرح ہو جائے گی اس قسم کے یہودیانہ طرز عمل یعنی انتہا پسندی کے اور شدت پسندی کے طرز عمل کی بنا پر اسلام بھی بدنام ہوتا ہے غیروں کو بھی اسلام پر حملے کا موقع ملتا ہے اور اس سے ہمیں تو کوئی فرق نہیں پڑتا وہ اللہ کی میں مجرم ٹھہرتے ہیں قانون کی نگاہ میں مجرم ٹھہرتے ہیں ہمارے اگر مینار نہ بھی ہوں گے اصل تو وہ مسجد نبوی جو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے بنائی تھی اس کے کوئی مینار نہیں تھے بالکل ٹھیک لیکن اس میں جو عبادت کرنے والے تھے ان کی عبادتیں خدا کو ایسی پسند آئیں کہ خدا نے ان کو رضی اللہ عنہ کے لقب سے نوازا وہ کہہ دیا بالکل ٹھیک ان گھروں کو عزت دی گئی بالکل ٹھیک ہمیں کہتے ہیں مسجد نہ کہو ہم کہتے ہیں بیت کہہ دیتے ہیں بھائی بیت اللہ بھی تو ہے نا نصیر صاحب جس طرح آپ نے ذکر کیا ہے یہ خاص طور پہ جو مینار کا مضمون ہے ایک تو تاریخی طور پہ بھی اس اگر اس کا مطالعہ کیا جائے تو ابتدائے اسلام میں ایسی کوئی چیز موجود نہیں تھی لیکن دوسری بات جو اہمیت کی حامل ہے جس کا آپ نے بھی ذکر کر دیا دیکھیں آپ کو کسی سے اختلاف ہو سکتا ہے اس کی باتوں سے اختلاف ہو سکتا ہے اس کے طرز عمل سے اختلاف ہو سکتا ہے اب اگر آپ دیکھیں کہ کوئی بھی شخص ایک مسلمان کی طرز کی ٹوپی پہننا شروع کر دیں اس کی طرح کا لباس پہننا شروع کر دیں اس کی طرح کی داڑھی رکھنا کر دیں تو آپ یہ کس حد تک جا کے کیا کیا کرنے کی کوشش کریں گے جسے کہتے ہیں نا کہ عقل پہ پردے پڑ گئے ہیں جو اللہ تعالیٰ قرآن کریم میں بھی ہمیں بتاتا ہے تو بہت بہت شکریہ نصیر قمر صاحب دوسرا یہ ہے کہ دنیاوی لحاظ سے بھی دیکھیں کسی نے patent نہیں کیا ہوا کہ مینارے جو ہیں وہ مسلمانوں کے ہوں گے دوسروں کے نہیں ہوں گے بالکل اگر اسی بنا پر دوسرے ممالک میں مسجدوں کے مینارے گرانے شروع کر دیے جائیں تو پھر ان کو تکلیف ہوتی ہے بالکل بالکل ٹھیک ہے آپ کے پاس کہاں سے آپ نے حق کہاں سے لیا کہ مسجد صرف مسلمانوں سے خاص ہے میناریں جو ہیں وہ صرف مسلمانوں کی مساجد سے خاص ہیں بالکل کہ ایسا کوئی حق دنیا میں بھی دنیاوی قانون میں کسی جگہ موجود نہیں ہے کہ آرکیٹیکچرل ایک ہے مختلف شکلوں کے پھر آپ کہیں گے کہ اس قسم کا مینار یا اس قسم کا مینار مینار گنبد یہ ایک طرز تعمیر ہے مختلف قسم کے طرز تعمیر دنیا میں پائے جاتے ہیں یہ بہت بعد میں آ کے آ یعنی بیسیوں سال بعد آ کے یہ مختلف قسم کے طرز تعمیر شروع ہوئے ہیں ان کا لحاظ سے کوئی تعلق نہیں ہے نہ یہ کسی نے patent کروائے ہوئے ہیں نہ اس کا اس کے ساتھ کوئی تعلق بہت بہت شکریہ نصیر قمر صاحب عزیز طاہر صاحب نے اس بات کا بھی ذکر کیا تھا کہ یہ جو شدت پسندی پاکستان میں یہ اور ممالک میں بھی ہے گاہے گاہے نظر آتی ہے لیکن پاکستان میں جو ہے وہ بہت زیادہ نظر آ رہی ہے ہمارے regular سوال پوچھنے والے ہیں لیکن ان کے سوالات بہت relevant ہوتے ہیں اور یقینا ہمارے کئی اور بہنوں اور بھائیوں کا یہ سوال ہوتا ہے جو یہ پوچھ رہے ہوتے ہیں عارف الزمان صاحب نے بنگلہ دیش سے کئی سوالات بھیجے ہیں لیکن ان کا ایک سوال میں محمد نصیراللہ صاحب کے سامنے پیش کرنا چاہوں گا محمد نصیراللہ صاحب عارف الزمان صاحب یہ پوچھنا چاہتے ہیں کہ یہ جو قرآن کریم کی آیت ہے اس کا کیا مطلب ہے یعنی مجھے یوں لگا ہے کہ گویا وہ یہ پوچھنا چاہ رہے ہیں کہ ایک طرف اللہ تعالی قرآن کریم میں فرما رہے ہیں دوسری طرف مذہبی رواداری کی بات ہو رہی ہے تو اس کی کیا بات ہے تھوڑی وضاحت کر دیں ہمارے بھائی عارف الزمان صاحب کے لیے جی یہ سورہ آل عمران کی غالبا آیت نمبر اٹھارہ ہے اور یہاں پر اسلام سے مراد فرمانبرداری یعنی submission ہے اور مضمون یہ بیان ہو رہا ہے کہ جو اصل دین ہے وہ اللہ تعالی کی فرمانبرداری ہے اور اسی آیت میں آگے چل کے اہل کتاب کی نافرمانی کا ذکر بھی آ رہا ہے اور اسی سورہ آل عمران کو اگر کچھ مزید آگے پڑھا جائے تو ایک اور بہت خوبصورت مثال اسی لفظ کے ساتھ دی گئی ہے آیت نمبر اڑسٹھ میں sixty eight میں کہ اب حضرت ابراہیم کے بارے میں یہ کہا گیا ہے کہ نہ وہ یہودی تھے نہ وہ نصرانی تھے بلکہ وہ حنیفہ مسلمہ یعنی کامل فرمانبردار تھے اب حضرت ابراہیم تو آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم جو دین اسلام لے کر آئے اس سے بہت پہلے تھے تو اسی سورہ آل عمران میں یعنی ان کا مذہب بھی یہ بیان کیا گیا کہ وہ اللہ تعالی کے حضور کامل فرمانبرداری کرنے والے تھے اور اسی تعلیم کا پرچار کرنے والے تھے اور درحقیقت ہر وہ مذہب جو خدا تعالی کی طرف سے آتا ہے اس کو ہم اس رنگ میں کہہ سکتے ہیں کہ وہ خدا تعالی کی طرف لے کر جانے کا راستہ مہیا کرتا ہے اور وہ اللہ تعالی کی فرمانبرداری کی طرف ہمیں رہنمائی کرتا ہے بہت بہت شکریہ محمد نصیراللہ صاحب جس طرح نصیراللہ صاحب نے اس آیت کی وضاحت ناظرین و سامعین کے سامنے پیش کردی ہے تو یہ بات بہت واضح ہے کہ اسلام جو ہے اس کی کاملیت اور اس کا اکمل ترین ہونا اپنی جگہ ایک مسلمہ حقیقت ہے لیکن اس کے ساتھ ساتھ ہی اسلام بہرحال دیگر مذاہب سے حسن سلوک اور ان کے حقوق کے خیال رکھنے کی تعلیمات ہمیں دیتا ہے نصیر قمر صاحب صاحبہ مجھے نام بتایا جا رہا ہے انڈیا سے انہوں نے سوال بھیجا ہے انہوں نے ایک حوالہ بھیجا ہے معین وہ حوالہ تو یہاں نہیں ہے لیکن مجھے سمجھ آ رہا ہے کہ اس حدیث کی طرف وہ حوالہ دے رہی ہیں لیکن وہ انہوں نے جو سوال پیش کیا ہے وہ یوں ہے کہ صحیح بخاری کی جلد نمبر پانچ کتاب نمبر fifty nine حدیث نمبر سات سو کے مطابق محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد کوئی نبی نہیں آئے گا غالبا حدیث جو نبی آبادی یا کوئی اور اسی مضمون کی جو حدیث ہے اس کا شاید ذکر کر رہی ہوں وہ کہتی ہیں کہ اس کی وضاحت کر دیں اور پھر یہ بھی بتائیں کہ اگر یہ حدیث موجود ہے تو حضرت مرزا غلام احمد قادیانی علیہ الصلاۃ والسلام کس طرح نبی ہو سکتے ہیں دیکھیں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف منسوب آپ نے ایک روایت کا ذکر فرمایا ہے لیکن نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے ہی جو دوسرے ارشادات فرمائے ہیں ان کو آپ بیان نہیں کر رہیں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم خوب سمجھتے تھے کہ خاتم النبین کا مفہوم کیا ہے اگر اس کا یہی مطلب تھا کہ آپ کے بعد قیامت تک کسی قسم کا کوئی نبی نہیں آئے گا تو پھر آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے ہی دوسرے مقامات پر آنے والے موعود کو نبی اللہ کیوں فرمایا کیا نعوذ باللہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ارشادات میں تضاد ہے کہ ایک جگہ پہ فرماتے ہیں کہ میرے بعد کوئی نبی نہیں۔ اور دوسری جگہ فرماتے ہیں کہ مسلم کی ایک حدیث ہے جس میں چار دفعہ آنے والے مود کو آپ نے نبی اللہ فرمایا۔ پھر آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ بھی فرمایا کہ وہ جو آنے والا موعد مسیح اور مہدی ہے۔ اس کی علامت اس کا حلیہ وہ اس سے مختلف بیان فرمایا جو سابق مسیح ناصری علیہ السلام تھے۔ اور طرح آپ نے بتایا کہ جب میں آنے والے موعود مسیح کا ذکر کرتا ہوں جو مہدی بھی ہوگا تو اس کا حلیہ اس سے مختلف ہے اور پھر آپ نے اس کے زمانے کی علامات بھی بیان فرمائی تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے جو ارشادات ہیں ان کو آپ اس طرح pick on choose نہیں کر سکتے آپ کو سارے ارشادات کو سامنے رکھنا ہو گا قرآن کریم کی تمام آیات کو سامنے رکھنا ہو گا پھر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ارشادات میں کوئی تضاد نہیں ہو سکتا اور آپ کے ارشاد میں قرآن سے تو اختلاف کی گنجائش ہی کوئی نہیں ہمیشہ وہ قرآن کریم کے مطابق ہوتا ہے تو نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے ایک بات کو لے لینا اور دوسری بات کا انکار کرنا یا اس کو چھپا دینا یہ مومنانہ طرز عمل نہیں ہے اگر آپ کو اس میں اختلاف نظر آتا ہے کہ ایک جگہ پہ آپ فرماتے ہیں کہ میرے بعد کوئی نبی نہیں اور دوسری جگہ پر آپ آنے والے نبی کو آنے والے شخص کو ایک موعود کو نبی بھی قرار دیتے ہیں تو آپ کو اس کی تطبیق ڈھونڈنا ہوگی۔ کیونکہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ارشادات میں تضاد نہیں ہو سکتا۔ آپ کی ذات میں کسی قسم کی کوئی کجی نہیں تھی۔ اب کامل مواحد تھے۔ اس لیے آپ کے ارشادات کو سمجھنے کی ضرورت ہے۔ حضرت اقدس مسیح موعود علیہ الصلاۃ والسلام نے اور جو ہمارے سامنے علم کلام پیش فرمایا اور جماعت احمدیہ جو اس کی تشریح کرتی ہے وہ یہ ہے کہ جب آپ نے یہ بیان فرمایا کہ تو اس سے مراد یہ تھی کہ کوئی بعد ایسا شخص نہیں آ سکتا جو میری اس تعلیم کو اس جو قرآن کریم کی صورت میں مجھے عطا کی گئی ہے منسوخ کرنے والا ہو یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے طرز عمل سے ہٹ کے کوئی طرز تعلیم دنیا کے سامنے پیش کرنے والا ہو یا آپ کے اسوہ سے ہٹ کر کوئی اسوہ پیش کرنے والا ہو یہ ہے اسی لیے بہت سارے امت کے بزرگان نے بھی یہی کہا کہ مراد اس سے یہ ہے کہ کوئی ایسا شخص بطور نبی کے نہیں آ سکتا جو محمدیہ کو منسوخ کرنے والا ہوں۔ بالکل ٹھیک اور آپ نے یہ بتایا اور جماعت احمدیہ یہ بات کہتی ہے کہ جس آنے والے موعود کو آپ نے نبی بیان فرمایا وہ آپ ہی کی اطاعت کے فیض سے آپ ہی کی روحانی توجہ کے نتیجے میں اس مقام کو پانے والا تھا اور اس وہ سرمنہ بھی قرآن سے اور قرآنی تعلیمات سے اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے اس میں سے انحراف کرنے والا نہیں تھا۔ بالکل اس کو آپ نے نبی فرمایا گویا امتی اور ظلی نبی کی آپ نے بشارت دی۔ جو آ کے آپ ہی کی شریعت کو دنیا میں قائم کرے گا۔ آپ ہی کے دین کا احیا کرے گا۔ تو یہ اگر آپ یہ اس تشریح کو مانیں تو دونوں میں کوئی تضاد نہیں رہتا۔ تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے کی ایک حدیث کو لے لینا اور باقی کو چھوڑ دینا یہ درست طریق نہیں ہے یا قرآن کریم کی کسی ایک آیت کے ایک مفہوم پر اس طرح اصرار کرنا کہ دوسری بے شمار آیات اس کے اس کو رد کر رہی ہوں یہ بھی قرآن کریم کی کا صحیح طریق نہیں ہے اور اس سے قرآن پر آپ اعتراض کرنے والے ہوں گے لیکن قرآن پہ تو کوئی اعتراض وارد نہیں ہو سکتا آپ خود اپنی نادانی کا ثبوت دے رہے ہوں گے تو اس پہلو سے ساری چیزوں کو سامنے رکھ کے سمجھیں تو اس مضمون کو سمجھنا کچھ مشکل نہیں ہے بہت بہت شکریہ نصیر قمر صاحب مجھے کنٹرول room سے یہ بتایا جا رہا ہے کہ وہ جو الفاظ تھے وہ انہوں نے بھیجے تھے لیکن اس وقت میرے سامنے display نہیں ہو رہے تھے وہ وہی معروف حدیث ہے موسی تو جس طرح میں نے ذکر کیا آپ نے ویسے ہی تفصیل کے ساتھ اس موضوع کو کھول کر بیان کر دیا ہے مجھے امید ہے کہ ہماری بہن کو یہ بات سمجھ میں آ گئی ہو گی اگلا سوال لے کر محمد نصیراللہ صاحب کی طرف چلتے ہیں یہ سوال ہمیں خان صاحب نے برطانیہ سے بھیجا ہے وہ یہ پوچھنا چاہتے ہیں محمد نصیراللہ صاحب کہ خان صاحب یہ سوال اس طرح بھیج رہے ہیں میں آپ کے سامنے اسی طرح پیش کرنے لگا ہوں وہ کہتے ہیں کہ مرزا صاحب نے اپنے بعض الہامات پیش کیے ہیں جن کے بارے میں انہوں نے یہ بھی لکھا ہے کہ اس کے معنی نہیں معلوم یا یہ کہ وہ اس کے حق میں ہیں کیا ایسا ممکن ہے کہ ملہم کو اپنی وحی کے معنی سمجھ نہ آئیں محمد نصیراللہ صاحب خان صاحب کو ان کے سوال کا جواب دے دیں جی آہ جب ہم یہ کہتے ہیں کہ یہ اللہ تعالی کی طرف سے الہام ہے تو سب سے بہتر تو خدا تعالی ہی جانتا ہے.

00:52:26

اور اسی کو پتہ ہے کہ اس کے کیا مطلب ہے اس کا اور اپنے وقت پر وہ چیز اللہ تعالی ظاہر بھی کر دیتا ہے. اور بعض اوقات الہامات میں جیسا کہ بہت ساری مثالیں بھی مل سکتی ہیں. پیش گوئیوں وغیرہ کا ذکر ہوتا ہے جو اپنے وقت آنے پر ظاہر ہوتی ہیں تو اسے الہام کی سمجھ آتی ہے. ہمیں یہی نمونہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی زندگی میں بھی نظر آتا ہے کہ بعض اوقات آپ کو اللہ تعالی کی طرف کوئی بات بتائی گئی اور آپ نے اس کی جو تشریح کی جو اور جو بعد میں واقعہ پیش آیا اس میں اس سے واضح ہو گیا کہ اصل میں اس سے یہ مراد تھی مثلا بڑا مشہور واقعہ ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو ہجرت کے لیے ایک علاقہ دکھایا گیا تو آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اس سے یہ سمجھا کہ یہ یمامہ کا علاقہ ہے اور ہم اس طرف ہجرت کریں گے لیکن جب کچھ وقت گزرا تو اللہ تعالی کی طرف سے یہ پتہ لگا کہ دراصل یہ اور جو ایسے ہی واقعہ بھی ہوا کہ یہ مدینہ کا علاقہ اس سے مراد تھا اور نہ کہ یمامہ علاقہ اور ایک یہ بات بھی ہمیں یاد رکھنی چاہیے کہ درحقیقت یہ اس ملک جس شخص کو یہ الہام ہو رہا ہے جو یہ دعویٰ کر رہا ہے اس کی صداقت کا ثبوت ہے کہ وہ اپنی طرف سے ایک بات پیش نہیں کر رہا اگر اللہ تعالی نے اس کو اس کی تفہیم دی ہے تو وہ بتا رہا ہے کہ اس کا یہ مطلب ہے اور اگر اللہ تعالی نے اس کی تفہیم اس موقع پر نہیں دی کسی وقت بعد میں ظاہر کرنی ہے تو وہ اپنے ماننے والوں کو صاف بتا رہا ہے کہ یہ مجھے الہام ہوا ہے لیکن اس وقت مجھے اس کے معنی سمجھ نہیں آئے.

00:53:45

تو اس کو اعتراض کے طور پر نہیں صداقت کی دلیل کے طور پر لیا جائے گا.

00:53:50

صاحب جزاک اللہ آپ نے بہت خوبصورت انداز میں اور بالکل صحیح آپ نے جس طرح بیان کیا کہ یہ بات کہ جس کو الہام ہو رہا ہے وہ اس بات کا اپنی عاجزی کے ساتھ ذکر کر رہا ہے کہ الہام مجھے ہوا ہے لیکن اس کے معنی مجھے سمجھ نہیں آئے یہ تو خود اس شخص کی صداقت کی دلیل ہے ایک اور بات بھی جو ناظرین کو سامنے رکھنی چاہیے اور ضرور اس پہ غور کریں خاص طور پہ وہ لوگ جو بڑی تحقیق کر کے جماعت احمدیہ کے خلاف اعتراضات نکالتے ہیں حضرت مرزا احمد قادیانی علیہ الصلاۃ والسلام کی ذات پہ اعتراضات نکالتے ہیں.

00:54:25

جب بھی آپ کوئی اعتراض نکالتے ہیں یا کہیں لکھا ہوا وہ پڑھنے کی کوشش کرتے ہیں تو ذرا ایک لمحے کے لیے ٹھہرا کریں. اور ذرا سوچا کریں کہ یہ اعتراض کیا گزشتہ انبیاء پر بھی ہوا ہے. یہ اعتراض کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم پر بھی ہوا ہے. جس طرح ابھی محمد نصیراللہ صاحب نے بیان کیا. یہ اعتراض تو خود آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم پر بھی ہوا ہے.

00:54:49

جو آج جماعت احمدی کے مخالفین حضرت مرزا غلام احمد قادیانی علیہ الصلاۃ والسلام پر کر رہے ہیں. نصیر قمر صاحب program کا وقت تو اپنے اختتام کو پہنچ رہا ہے. ایک مختصر بات میں چاہوں گا کہ آپ ناظرین کو ضرور بتا دیں. لوگ کہتے ہیں جدید دور ہے. مذہب کی طرف کوئی آنے کے لیے تیار ہی نہیں ہے. تو یہ مذہبی رواداری کے بارے میں آپ کیوں بات کر رہے ہیں.

00:55:11

اس زمانے میں ہمیں کرنا کیا چاہیے عملی طور پر? دیکھیں جدید دور کا کیا مطلب ہے جدید دور جو ہے جدید ایجادات تو مختلف ہیں بظاہر انسانی سہولیات کے لیے بہت ساری medical کی field میں سائنس کے مختلف میدانوں میں بہت ساری ترقیات ہو گئی ہیں لیکن اللہ تعالیٰ ہمیں قرآن کریم میں یہ بتاتا ہے اور تمام مذاہب نے یہی بتایا کہ یہ جو دنیا ہے یہ متاع الحیات ہیں اس عارضی زندگی دنیا کا ایک وقتی ساز و ہے حقیقی جو زندگی ہے وہ بعد کی زندگی ہے اور انسان کی زندگی کا مقصد اس دنیا میں یہی نہیں ہے کہ حیوانوں کی طرح کھایا پیا اور چلے گئے بلکہ مقصد یہ ہے کہ اپنے خالق اور مالک کو پہچانا جائے اس کے ساتھ تعلق قائم کیا جائے تو یہ نہایت افسوسناک ہے لیکن جب اس کی پہلے سے پیش گوئیاں تھیں کہ انسان جو ہیں وہ خدا سے دور ہو جائیں گے تو خدا کی طرف لانا یہی تو کام ہے اسی لیے تو اللہ تعالی نے کو بھیجا تاکہ آپ ایمان کو دنیا میں قائم کریں یعنی اس ایمان کو جو سچا ایمان اللہ پر قائم ہوتا ہے اور اس کے لیے ہی ہم خلافت آمدیہ کے ذریعے ساری دنیا میں مہمات جاری ہیں اور اللہ کے فضل سے بڑی کامیابی سے یہ مہمات جاری ہیں ہر سال لاکھوں لوگ ایمان کے زیور سے آراستہ ہوتے ہیں اور وہ اللہ کو پہچانتے ہیں اللہ سے دعاؤں کا قبولیت دعا اور دوسرے بہت سارے اس ایمان کے پھلوں کو وہ حاصل کرتے ہیں تو یہ ایک جدوجہد ہے جاری ہے ایک سلسلہ ہے اور اس کے لیے وہ جو نمونہ چاہیے جو جو ایک چاہیے جو مالی قربانی کا جو اپنے عملی نمونے کا وہ خلافت آمدی کے ذریعے سے کوشش کی جا رہی ہے اور اللہ اکبر سے نہایت کامیابی سے یہ مہمت جاری ہیں اور ہمارا یقین ہے جیسا کہ وعدے ہیں کہ وہ دن جلد آئے گا جب دنیا کی ایک بڑی بھاری اکثریت اپنے خالق کو پہچانے گی امن کے عافیت کے حصار میں داخل ہوگی بہت بہت شکریہ نصیر قمر صاحب اسی طرح محمد نصیراللہ صاحب جو سے ہمارے ساتھ تھے ان کا بھی میں شکر گزار ہوں اور ناظرین کرام میں آپ کا بہت شکر گزار ہوں کہ آپ اس program میں اپنے سوالات بھیجتے ہیں جن پر مبنی یہ program ہوتا ہے آخر میں ایک واقعہ خاص طور پہ ان لوگوں کے سامنے پیش کرنا چاہوں گا جو کسی بھی طرح آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کا نام لے کر یا اسلام کا نام لے کر کسی بھی دوسرے انسان پر اور خاص طور پہ کلمہ گو پہ کسی بھی قسم کا ظلم و تشدد کرتے ہیں یہ واقعہ انہیں یاد رکھنا چاہیے روایات میں کیا جاتا ہے اور خاص طور پر حضرت اسامہ بن زید رضی اللہ عنہ یہ روایت بیان کرتے ہیں کہ ایک موقع پر ایک سریا کے لیے ایک جنگی مہم کے لیے آپ گئے تو واقعہ کچھ یوں ہوا کہ انفرادی طور پر ایک شخص سے آپ کا گویا مقابلہ شروع ہو گیا اور مقابلہ کیا تھا وہ تو باقاعدہ جنگی کیفیت تھی تو دونوں گویا ایک دوسرے کو جان سے مارنے کے لیے تیار کھڑے تھے لیکن ہوا کچھ ایسا کہ اسامہ بن زید بن زید رضی اللہ عنہ کو کامیابی مل گئی.

00:58:23

اور وہ اس دوسرے مخالف کو گرانے میں کامیاب ہو گئے. ابھی مارا نہیں تھا. کہ اس گرے ہوئے شخص نے جو چند لمحے قبل آپ کو قتل کرنے کے لیے تیار کھڑا تھا. اس نے لا الہ الا اللہ پڑھ دیا. لیکن حضرت اسامہ نے اس کو قتل کر دیا. اور جب بعد میں یہی بات آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے سامنے آپ نے بیان کی.

00:58:48

تو آنحضرت اللہ علیہ وسلم نے کسی بھی قسم کی خوشنودی کا اظہار نہیں کیا. بلکہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم بار بار یہ فرماتے رہے.

00:59:03

کیا تو نے اس کا سینہ چیر کے دیکھ لیا تھا کہ وہ واقعی دل سے لا الہ الا اللہ پڑھ رہا ہے کہ نہیں? جو بھی مخالفین احمدیت ہیں.

00:59:15

اسلام کے نام پر احمدیوں پر کسی قسم کا ظلم کر رہے ہیں. وہ اس واقعے کو دیکھیں اور پڑھیں اور سنیں قیامت والے دن وہ لوگ کیا جواب دیں گے جماعت احمدیہ تو نہ صرف لا الہ الا اللہ بلکہ محمد الرسول اللہ کا بھی ہر لمحہ اقرار کرنے والی ہے اگلے program تک کے لیے اجازت دیجیے السلام علیکم ورحمتہ اللہ وبرکاتہ ہم تو رکھتے ہیں مجلمہ کا دین ہم تو رکھتے مسلمان کا دین دل سے ہیں خدا میں ختم سلیم سلیم

Leave a Reply