Ahmadi Muslim VideoTube Rahe Huda Rahe Huda 20 05 2023

Rahe Huda 20 05 2023



Rahe Huda 20 05 2023

Rahe Huda 20 05 2023

දෙල් සැහැ හොදා හත මුල් ناظرین آج بیس مئی سن دو ہزار تئیس عیسویں ہفتے کا روز ہے انڈیا میں اس وقت رات کے دس بجے ہیں اور جی ایم ٹی کے مطابق اس وقت سہ پہر کے ساڑھے چار بجے ہیں اور ناظرین یہ وقت ہے program راہ ہدا کا ناظرین قادیان دار الامان سے program راہ خدا کے چار پر مشتمل سیریز کے تیسرے کے ساتھ آج ہم آپ کی خدمت میں حاضر ہیں ہمارے regular viewers یہ بات جانتے ہیں کہ program راہ خدا ایک live discussion program ہے اور live ہونے کے ساتھ ساتھ یہ program ایک interactive program بھی ہے یہ program interactive اس حوالے سے ہے کہ ہمارے ناظرین ہمارے ساتھ ہمارے اس program میں جڑ سکتے ہیں ہمارے ساتھ شامل گفتگو ہو سکتے ہیں یعنی سٹوڈیو discussion کے ساتھ ساتھ ہم اپنے ناظرین کرام کی فون calls کو attend کرتے ہیں ان کے سوالات کو سنتے ہیں اور یہاں سٹوڈیو علمائے کرام کے panel میں ان سوالات کو پیش کرتے ہیں اور ہمارے علمائے کرام اسی program کے ذریعہ ہمارے ناظرین کے سوالات کے جوابات دیتے ہیں ناظرین آپ ہم سے ٹیلی فونز لائنز کے ذریعے رابطہ کر سکتے ہیں اسی طرح text message اور fax messages کی سہولت بھی دستیاب ہے ناظرین اگر آپ ہم سے ہمارے اس program میں جڑنا چاہتے ہیں اور شامل گفتگو ہونا چاہتے ہیں اسی طرح اپنے سوالات کے جوابات حاصل کرنا چاہتے ہیں تو میں آپ کو یہ کہ ہماری ٹیلیفونز lines اب سے activated ہیں اور میں یہ امید کرتا ہوں کہ ہمارے ناظرین کرام اپنی ٹیلی vision screens پر ہم سے رابطے کی تمام تفصیل ملاحظہ فرما رہے ہوں گے ناظرین جیسا کہ ابھی خاکسار نے عرض کیا کہ قادیان دارالامان سے program راہ خدا کے جو چار episodes پر مشتمل سیریز نشر کی جاتی ہے آج اس سیریز کا تیسرا episode ہے گزشتہ دو episodes کی طرح آج کے episode میں بھی ہم سیدنا حضرت اقدس مسیح موعود و مہدی معود علیہ الصلاۃ والسلام معرکۃ العرا تصنیف حقیقت الوحی کے موضوع پر بات چیت کریں گے بانی جماعت احمدیہ مرزا غلام احمد صاحب قادیانی علیہ السلام نے اس کتاب میں جو حقائق اور معارف کی باتیں بیان کی ہیں ان کا تذکرہ کیا جائے گا اس سیریز کا آخری اور چوتھا episode ستائیس مئی دو ہزار تئیس عیسوی کو یوم خلافت کی مناسبت سے خلافت احمدیہ کی اہمیت و برکات کے موضوع پر نشر کیا جائے گا ناظرین آج کے میں خاکسار کے ساتھ جو دو علماء کرام موجود ہیں میں ان کا تعارف کروا دیتا ہوں محترم مولانا محمد حمید کوثر صاحب اور محترم مولانا عطا المجیب لون صاحب آج کے اس program میں خاکسار کے ساتھ شامل گفتگو ہوں گے میں ہر دو حضرات کا اس program میں خیر مقدم کرتا ہوں ناظرین جب ہم غور سے دیکھتے ہیں تو خدا تعالی کی ذات خدا تعالی کا کسی سے ہم کلام ہونا اور نبی کی نبوت کا معاملہ اور اس کی پیش گوئیوں کا مستقبل وغیرہ یہ تمام امور عملا انسانی فہم و ادراک سے قطعی طور پر اوجھل ہیں درحقیقت یہ تمام باتیں غیب پر مشتمل ایسے غیب پر مشتمل ہیں جس کو انسان کا بس نہیں چلتا کہ اس کا علم حاصل کر سکے لیکن سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ پھر نبی کی نبوت پر ایک عام عقل انسانی وجہ البصیرت کس طرح ایمان لا سکتی ہے یہ اللہ تعالی چونکہ اللہ تعالی جو ہے اس کا بخوبی علم رکھتا ہے اور اس بات سے آگاہ ہے چنانچہ اللہ تعالی نے ہی اس کا حل بھی پیدا فرمایا ہے جہاں انبیاء کرام ایسے امور کے تعلق سے آ ایمان لانے کی دعوت دیتے ہیں اور جو کہ عقل انسانی سے اوجھل ہوتے ہیں یا یوں کہہ سکتے ہیں کہ کچھ وقت کے لیے عقل انسانی سے اوجھل ہوتے ہیں وہاں اللہ تعالی انہی انبیاء کرام کے ذریعہ ایسے امور غیبیہ بھی ظاہر فرما دیتا ہے جو عام انسانوں کے مشاہدہ میں آتے ہیں اور جن کے ذریعہ یہ عام انسان اللہ تعالی کی ہستی اس کی بے انتہا قدرتوں اس کے لامحدود علم اور اسی طرح اس نبی کے خدا تعالی سے ان پا علم پانے کے دعوی کے تعلق سے بھی یقین کا مرتبہ حاصل کر لیتے ہیں ناظرین مشاہدہ ہی انبیاء کرام کی شناخت کا ایک زبردست ذریعہ بن جاتا ہے ناظرین اس مختصر سی تمہید کے بعد خاکسار آج کے episode کا پہلا سوال محترم مولانا محمد حمید کوثر صاحب سے یہ پوچھنا چاہتا ہے کہ سیدنا حضرت اقدس مسیح موعود علیہ الصلاۃ والسلام نے جماعت کی ترقیات کے متعلق بھی آپ کو الہام ہوا تھا وہ الہام تھا جیسے کہ میرا یہ ہے کہ یہ پیش گوئی آج کس رنگ میں پوری ہو رہی ہے اس بارے میں کچھ روشنی ڈالیں ناظرین کرام یہ بات ہے اٹھارہ سو تراسی کی حضرت مسیح معود علیہ الصلاۃ والسلام احمدیہ کا تیسرا اور چوتھا حصہ تسلیم فرما رہے تھے اللہ تعالی نے آپ کو مخاطب کرتے ہوئے الہامن فرمایا یعنی بیج ہو گا جو سبزہ نکالے گا پھر موٹا ہو گا پھر اپنی ساقوں پر یعنی ڈنٹھل پر قائم ہو جائے گا حضرت مسیح ماؤعود علیہ السلام فرماتے ہیں یہ ایک بڑی پیشگوئی ہے جماعت احمدیہ کے قیام سے پہلے جو اللہ تعالی نے آپ کو کی اٹھارہ سو تراسی میں آپ کی کوئی جماعت نہیں تھی چھ سال کے بعد تئیس مارچ اٹھارہ سو نواسی کو اللہ تعالی کے حکم سے حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے جماعت کا قیام فرمایا جماعت کا قیام اس کی مثال جو اللہ تعالی نے دی ہے وہ ایک بیج کی طرح ایک کھیتی کی طرح ایک پودے کی طرح اور حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے اپنے دوسرے تصانیف میں بھی سرز سرسبز شاخ ہو اس طرح کے الفاظ استعمال کیے ہیں اور البصیت میں بھی حضور نے ایک بیج کہہ کر اس جماعت کو مخاطب کیا کے ساتھ تشبیہ درخت کے ساتھ تشبیہ بیچ کے ساتھ تشبیہ یہ تشبیہات کچھ باتوں پر ذلالت کرتی ہیں کہ پودا اپنا نشم و نما پتا چلا جاتا ہے لیکن اس کے ساتھ ساتھ اس کو کچھ خطرات لاحق ہوتے ہیں مثال کے طور پر جیسے ہی پودا بڑا ہوتا ہے آندھی چلے تو اس کے اکھڑ جانے کا خطرہ ہے کوئی جانور آئے بھیڑ آئے بکری آئے اس کو نقصان پہنچا سکتی ہے کیڑے ہیں دوسرے طریقے ہیں یعنی پہنچانے کے مختلف ترک ہیں جو لاحق رہتے ہیں اس لیے اس کو پودا کہا گیا ہے اس کی حفاظت کی ضرورت ہے پھر اس کے اردگرد جھاڑیاں جمع ہو جاتی ہیں جو اس کے نمو کو روکنے کا باعث بنتی ہیں اس لیے اس کو تشبیہ دی گئی پودے سے اور بیج سے بیج زمین کے اندر ہوتا ہے اس کے بعد پھر اللہ تعالی کے حکم سے یہ باہر نکلتا ہے اور اس تشبیہ کا اطلاق سیدنا حضرت مسیح موعود علیہ السلام اپنے ایک شعر اس طرح سے فرماتے ہیں میں تھا غریب و بے کس و گمنام و بے ہنر کوئی نہ جانتا تھا کہ ہے قادیاں کدھر آپ بالکل مخفی تے ایک بیج کی طرح لوگوں کی اس طرف کو ذرا بھی نظر نہ تھی میرے وجود کی بھی کسی کو خبر نہ تھی اب دیکھتے ہو کیسا رجوع جہاں ہوا ایک مرجائے خواص یہی قادیاں ہوا ایک دور رہا جب کہ آپ مخفی تھے بیچ کی طرح پھر وہ نمون شروع ہوا آپ نے جماعت کی بنیاد رکھی اللہ تعالی کے حکم سے وہ جماعت ترقی کرتی چلی گئی آج قادیان ایک مرجہ خواص عام و خاص قادیان کا قصد کرتے ہیں اس طرح سے اس جماعت کی ترقی شروع ہوئی تئیس مارچ اٹھارہ سو نواسی کو آپ نے جماعت کی بنیاد رکھی تھی اور اس کا جو مقصد تھا وہ تھا بیت توبہ برائے حصول تقوی اور طہارت یہ مقصد تھا جس کے تحت حضور نے اس کی بنیاد رکھی تھی بہرحال اس وقت لوگوں نے اس کو قبول کرنا شروع کیا ابھی میں نے عرض کیا کہ جماعت کے ساتھ آزمائشیں لگی ہوتی ہیں حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے الوسیت میں واضح طور پہ لکھا ہے کہ آزمائش ہو گی تمہاری بیعت کی بیعت کی آزمائش کیسے شروع ہوئی اٹھارہ سو نواسی میں لوگوں نے حصول تقوی کے طور پہ جماعت میں شمولیت اختیار کی ایک سال کے بعد اٹھارہ سو نوے کے آخر میں اللہ تعالی نے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کو ایک خبر دی اور آپ نے حضرت ام المومنین رضی اللہ عنہا سے فرمایا کہ مجھے اللہ تعالی نے ایک ایسے بات کی خبر دی ہے اور اعلان کرنے کا حکم دیا ہے کہ بہت سے لوگ مجھے چھوڑ جائیں گے اور میرے مخالف ہو جائیں گے وہی ہوا حضرت مسیح موت علیہ السلام نے قادیان میں ہی دو رسالے لکھے ایک فتح میں شیخ نور احمد صاحب کا press تھا۔ ریاض ہند press اس میں وہ چھپے۔ چھپنے کے بعد اس میں حضور نے پہلی دفعہ یہ اعلان کیا کہ مجھے اللہ تعالی نے یہ خبر دی ہے کہ عیسی علیہ السلام باقی انبیاء کی طرف فوت ہو چکے ہیں اور اب وہ اس دنیا کی طرف واپس نہیں آئیں گے۔ جس مسیح موت کے آنے کی خبر احادیث میں دی گئی ہے۔ وہ میں میں ہی مسیلے مسیح ہوں یہ اعلان آپ نے اس میں شائع کیا اور آپ نے پھر ازالہ وہان تسلیم فرمائی اس میں بہت سے اور دلائل دیے اب دیکھیں کہ کیسے یہ الگ ہوتی ہے دنیا جو حضور نے فرمایا اس دن تک اٹھارہ سو نوے کے آخر تک محمد حسین بٹالوی آپ کے بہت بڑے معتقد تھے دو سو صفحے کا ریویو انہیں براہن احمدیہ میں لکھا تھا جس میں یہ پیش گوئی موجود تھی جے سے ہی انہوں نے یہ پرنٹ پڑھا وہاں پہ proof پڑھے۔ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کو ایک خط لکھا۔ کہ میں نے آپ کی کتاب کے پڑھی ہے۔ کیا آپ وہی مسیح موعود ہیں جس کے آنے کی خبر دی گئی تھی۔ تو حضرت مسیح علیہ السلام نے فرمایا کہ اس کے جواب میں میں صرف ہاں یعنی نام لکھنا کافی سمجھتا ہوں اور وہ مسیح نے لکھ کے اس کو بھیج دیا۔ اس کے بعد سے مخالفت کا سلسلہ شروع ہوا۔ اور ہوتا ہی کچھ لوگ آپ کو چھوڑ کے الگ ہو گئے کہ یہ کس قسم کا اعلان ہے اب جو لوگ آپ کے متقد تھے جماعت میں شامل تھے آپ کو واقعی اللہ کی طرف سے سمجھتے تھے وہ استقامت کے ساتھ اس جماعت میں قائم اور قائم رہے اللہ تعالی نے ان کی تقویت کا سامان پیدا کیا وہ کیسے کہ اٹھارہ سو چورانوے میں تیرہ سو گیارہ ہجری میں سورج اور چاند کو گرہن لگا قرآن مجید اور سیدنا حضرت محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وسلم کی پیش گوئی کے مطابق کہ میرے مہدی کے لیے حضرت فرما رہے ہیں مہدینا جس مہدی کی میں بشارت دیتا ہوں ہو سکتا ہے اور بہت سے دعوے کرنے والے ہو لیکن جس کی میں بشارت دے رہا ہوں اس کی نشانی یہ ہے کہ چاند کی گرہن لگنے کی تاریخوں میں رمضان میں چاند کو تیرہ رمضان کو گرہن لگے گا چنانچہ اکیس مارچ اٹھارہ سو چورانوے کو یہ گرہن قادیان میں اور دنیا کے اس علاقے میں دیکھا گیا اس کے بعد اٹھائیس رمضان تیرہ سو گیارہ ہجری اور چھ اپریل اٹھارہ سو چورانوے کو سورج کو گرہن لگا اور اس کو کے بعد کشمیر اور دوسرے بہت سے علاقوں سے لوگوں نے یہ سمجھا یہ علامت ہے امام مہدی کے ظہور کی ہمیں امام مہدی کی تلاش کرنی چاہیے چنانچہ کشمیر سے بہت سے دوست آئے اور آ کے انہوں نے حضرت انسان کی جماعت میں شمولیت اختیار کی بہرحال یہ جماعت ترقی کرتی چلی گئی بڑھتی چلی گئی آزمائشیں آتی چلی گئیں اگر یہ جماعت اللہ تعالی کی طرف سے نہ ہوتی جتنی اس جماعت پہ آئیں یہ جماعت ختم ہو جاتی ہے کیونکہ اس کے ساتھ ہی اور بہت سی جماعتیں بھی ہندوستان میں شروع ہوئیں تھیں لیکن ان کا وجود ختم ہو گیا مٹ گئی اس میں سے دو ایک کی میں مثال دے رہا ہوں مخالفت کی ایک سب سے بڑی وجہ یہ تھی کہ اس وقت یہاں انگریز سامراج تھا protest ان کی حکومت تھی دوسرے فرقے بھی یہاں کام کر رہے تھے ان کا ایک ہی حدف تھا کہ سارے ہندوستان کو ہم نے سپین کی طرح عیسائی بنا لینا کوئی مسلمان یہاں چھوڑنا نہیں جب حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے یہ اعلان کیا تو شروع میں تو وہ تھوڑے خاموش رہے اس کے بعد ایک جنگ کا نام انہوں نے دیا ایک مباحثہ کو جنگ مقدس جو پچیس اٹھارہ سو ترانوے سے شروع ہو کے جون تک چلا پندرہ دن اور ڈاکٹر مارٹن قرار کر عبداللہ حاتم نے ہی اس کا نام جنگ مقدس رکھا پندرہ دن یہ جنگ یہ مباحثہ امرتسر میں لڑا جاتا رہا ابھی بھی وہ جگہ ہے بہرحال وہاں یہ لڑا جاتا رہا وہاں واضح طور پہ ان کو شکست ہوئی حاتم وہ توبہ کرتے ہوئے وہ دیکھنے والے ہیں جب اس کو کے لیے بلایا کہ اس طرح اگر پندرہ اگر تم نے توبہ نہ کی اور جو لفظ تم نے سیدنا محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے لیے استعمال کیا اگر اس سے بعض نہ آئے توبہ نہ کی پندرہ مہینے تم حاویہ میں رہو گے اور پھر تمہاری موت واقع ہو جائے گی اسی وقت دیکھنے والے دیکھتے ہیں کہ وہ گر پڑا زبان باہر نکالی اور توبہ کی اس کا اثر عیسائی دنیا پہ بہت ہی منفی پڑا اور اس کا اثر یہاں خاص طور پہ اس پنجاب کے علاقے میں بہت زبردست ہوا اور اس کے بعد پھر حضرت مسیح علیہ السلام سے انہوں نے انتقام کا ایک عزم کیا ارادہ کیا اور حضور پر ایک اقدام قتل کہ یہ کہ جس شخص نے حضرت مرزا غلام احمد صاحب قادیانی نے یہ مارٹن کرار کو قتل کروانے کے لیے ایک آدمی بھیجا عبدالحمید نامی اور بہرحال وہ مقدمہ شروع ہوا اور وہ بھی بٹالے میں ہوا سارے شواہد سارے گواہ وہاں موجود تھے کہ حضرت موسی علیہ السلام کو سزا ہو جائے گی بالکل سارے امکانات موجود تھے ایک چیز اگر میں جو کہہ رہا ہوں کہ اللہ کی طرف سے اگر یہ جماعت نہ ہوتی تو یہ ختم ہو جاتی اور وہی حال ہوتا جو حضرت عیسی علیہ السلام کے زمانے میں حضرت ایک شعر میں فرماتے ہیں پر مسیحا میں بھی دیکھتا روئے صلیب گر نہ ہوتا نام احمد ہے جس پہ میرا سب مدار کہ میرا مزار احمد تھا حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف میں منسوب ہو رہا تھا اس لیے میں بچ گیا ورنہ مجھ کو صلیب دینے میں کوئی کمی باقی نہیں چھوڑی اس میں مسلمان شامل تھے اس میں اور ہندو شامل تھے اس میں عیسائی تو بہرحال شامل تھے اور یہ اس دن ایک فیصلہ کن بات تھی جو اس دن بٹال لیکن وہاں پر جو اللہ تعالی کی طرف سے جو تصرف جاری تھا وہ یہ کہ جو مجسٹریٹ تھا deputy کمشنر ڈگلس وہ بار بار اپنے منشی کو کہتا تھا کوئی فرشتہ ہے جو مجھے اشارہ کر کے کہتا ہے کہ مرزا غلام احمد صاحب کا اس منصوبے سے کوئی تعلق نہیں چنانچہ اس نے وہ حکم دیا وہ سارے کا سارا منصوبہ دھرے کا دھرا رہ گیا حضرت معود علیہ الصلاۃ والسلام کی انس تصنیفات یعنی عیسی علیہ السلام فوت ہو چکے ہوئے ہیں عام نبیوں کی طرح فوت ہو چکے ہوئے ہیں اس ایک منصوبے نے عیسائیوں کے سارے منصوبے اوپر پانی پھیر دیا اور جس تیزی کے ساتھ عیسائیت ہندوستان میں پھیل رہی تھی اور خاص طور پر پنجاب میں یہاں بڑے بڑے مراکز انہوں نے قائم کیے لدھیانے میں امرتسر میں بٹالے میں اور بہت پر جب ان کے سامنے یہ دلائل پیش کیے جانے لگے جو حضرت موسی علیہ السلام نے بیان کیے تھے خاص طور پہ جنگ مقدس میں تو اس کے بعد عیسائیوں کو اپنی شکست خاص طور پہ نظر آنے لگی اور ابوالکلام آزاد نے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی وفات پر جو review لکھا اس میں خاص طور پہ اس کا ذکر کیا کہ عیسائیت کے زور کو کو حضرت مرزا غلام احمد قادیانی نے توڑ کے رکھ دیا اور یہ جو عزم لے کے آئے تھے اس عزم میں آپ ایک بڑے بھاری روک تھے اور اس کی وجہ سے یہ مخالفت بڑھ گئی بہت زیادہ مخالفت بڑھ گئی لیکن اللہ تعالی نے اس جماعت کو قائم اور دائم رکھا جیسا کہ اللہ تعالی نے وعدہ کیا تھا یہ ایک درخت ہے جو بڑھے گا پھولے گا پنپے گا اور کوئی نہیں جو اس کو روک سکے ہاں کمزور پتے جب آندھی چلے گی وہ جھڑتے چلے جائیں گے جیسے کہ ایک اللہ تعالی کا قائدہ ہے اس کے بعد پھر اور فتنے شروع ہوئے ابھی جو ہم یہاں بیٹھے ہوئے ہیں اب آپ دیکھیں کہ یہ قادیان ہے جہاں پر اس وقت سٹوڈیو ہے اللہ تعالی نے مسیح موعود علیہ السلام کو ایک بات کہی تھی میں تیری تبلیغ کو زمین کے کناروں تک پہنچاؤں گا اللہ تعالی نے یہ اپنے ذمہ لیا تھا کہ میں تیری تبلیغ کو زمین کے کناروں تک پہنچاؤں گا اور اسی جگہ الہام قادیان میں ہی حضرت نے یہ کتاب اپنی کتاب میں تحریر فرمایا اس الہام کو تقسیم ملک کے حالات یہاں پیدا ہوئے سارے مشرقی پاکستان مشرقی جو یہ پنجاب ہے سارے کا سارا سوائے ملیر کوٹلے کے اور قادیان کے اور کہیں بھی مسلمان شروع میں نہیں باقی رہے ان کی خاک اللہ تعالی نے اڑا کے رکھ دی جو جماعت احمدیہ کی مخالفت کرتے تھے جو بٹالے میں تھے امرتسر میں بیٹھے تھے گرداس پور میں بیٹھتے تھے جالندھر میں بیٹھے تھے نام و نشان ختم ہو گیا آج بھی وہ عمارتیں مدت تک روتی رہیں تو وہ کہاں گئے جو یہاں پر آتے تھے جل کے خاک ہو گئیں سب کے سب اگر یہ جماعت اللہ کی طرف سے نہ ہوتی یہ پودا یہاں پر اللہ کی طرف سے نہ لگا ہوا ہوتا partition کی آندھی میں یہ اکھڑ گیا ہوتا ختم ہو گیا ہوتا اس کا نام و نشان ختم ہو گیا ہوتا مگر اللہ طرف سے تھا قائم دائم رہا اور دو تین باتیں ہیں جو علامتی طور پر اکثر میں بیان بھی کرتا ہوں ایک تو یہ کہ جب سے مینارت المسی پر اذان کا سلسلہ شروع ہوا آج تک اللہ تعالی کے فضل سے اللہ اکبر اللہ اکبر کی آواز کبھی بند نہیں ہوئی کبھی بند نہیں ہوئی گولیوں میں بھی جنگوں میں بھی کبھی بند نہیں ہوئی اور مینارت المسی سے اللہ اکبر اشہد ان لا الہ الا اللہ اشہد ان محمد الرسول اللہ کی آواز ہمیشہ بلند ہوتے تھے۔ حضرت مسیح معاود علیہ السلام کی تدفین بہشتی مقبرہ قادیان میں ستائیس مئی انیس سو آٹھ کو ہوئی۔ اس دن سے لے کے آج تک حضرت مسیح ماؤد علیہ السلام کے مزار مبارک پر دعا کرنے والوں کا سلسلہ کبھی بند نہیں ہوا۔ کبھی بند نہیں ہوا۔ حضرت مسیح موود علیہ الصلاۃ والسلام نے لنگر خانہ جاری کیا تھا۔ جب سے جاری کیا اماں جان کے باورچی خانے سے یہ شروع ہوا۔ اور آج روٹی plant تک یہ پہنچا جہاں پر کہ ہزاروں ہزار روٹی جلسہ سالانہ اور دوسرے مواقع پہ پکتی ہے ہر آنے والا یہاں پر کھانا کھاتا ہے اور یہ نان تیرے اور تیرے ساتھ کے درویشوں کے لیے ہے اللہ تعالی نے اس نان میں اتنی برکت دی ہوئی ہے کہ سب لوگ کھاتے ہیں ابھی آپ عید پہ دیکھ لیں عید الاضحی پہ دیکھ لیں یہ تین چیزیں جب سے یہ جاری ہوئیں اب تک یہ جاری ہیں اس کے مقابل وہ لوگ جو احمدیت کو اکھاڑنے کے لیے آئے تھے انیس سو چونتیس یہ ڈی اے وی سکول جہاں پر ہے وہاں پر یہ احرای لوگ جمع ہوتے تھے اور حکومت کی پشت پناہی ان کو حاصل تھی اور یہ ان کی کوشش تھی کہ ان کو یہاں سے نقصان پہنچا کے کسی طرح نکالا جائے لیکن اللہ تعالی کی طرف سے یہ پودا تھا یہ بیج اللہ تعالی کہتا ہے میں نے اپنے ہاتھ سے لگایا ہے یہ بڑھے گا یہ ترقی کرے گا اس کو کوئی روک نہیں سکے گا یہ دلیل ہے کہ یہ جماعت اللہ تعالی کی طرف سے قائم ہے اور جو ابھی میں نے کہی کہ میں تیری تبلیغ کو زمین کے کناروں تک پہنچاؤں گا جب یہ الہام ہو رہا تھا جب حضرت انسان ابراہیم احمدیہ لکھی اٹھارہ سو اسی سے لے کے چوراسی تک آپ مجھے بتائیں کوئی تصور کر سکتا تھا کہ آج ایم ٹی اے کے ذریعے یہ پیغام دنیا کے کناروں تک پہنچ جائے گا ارے آپ کے چچا زاد بھائیوں نے تو اینٹیں لگا کے آپ کا دروازہ بند کر دیا تھا کہ آواز تو بعد میں لے گئے کہ پہلے تجھے ہی نہیں نکلنے دیں گے ہم یہاں سے اور بٹالیا اور امرتسر میں دیواریں کھڑی کر دی گئی کہ کسی کو نہ جانے دیں گے نہ آنے دیں گے مگر وہ اللہ جسے حضرت مسیح موود علیہ السلام کو بھیجا تھا جس نے حضرت مسیح علیہ السلام کے ذریعے اس جماعت کا قیام فرمایا تھا وہ آپ کو یہ کہہ رہا تھا کہ میں تیری تبلیغ کو زمین کے کناروں تک پہنچاؤں گا اور وہ پہنچاتا رہا پہنچا رہا ہے اور پہنچاتا رہے گا اور اتنا یہ پہنچائے گا کہ یہ ایک تناور درخت بن جائے گا حضرت مسیح کا ایک ایک اتباس پڑھ کے میں اپنی بات کو ختم کرتا ہوں حضرت موسی علیہ السلام جماعت کو مخاطب کرتے ہوئے فرماتے ہیں تم خدا کے ہاتھ کا ایک بیج ہو تم خدا کے ہاتھ کا ایک بیج ہو جو زمین میں بویا گیا خدا فرماتا ہے یہ بیج بڑھے گا بھولے گا ہر طرف سے اس کی شاخیں نکلیں گی ایک بڑا درخت ہو جائے گا پس مبارک وہ جو خدا کی بات پر ایمان رکھے اور درمیان میں آنے والے ابتلاؤں سے نہ ڈرے کیونکہ ابتلاؤں کا آنا بھی ضروری ہے تا خدا تمہاری آزمائش کرے کہ کون اپنے دعوائے بیت میں صادق ہے اور کون قاضی یہ حضرت مسیح علیہ السلام کا فرمان تھا اب کل جو حضور حضرت خلیفۃ المسیح خامسر عزیزہ نے خطبہ ارشاد فرمایا اور حضور نے جو واقعات بیان فرمائی کہ کس طرح لوگ احمدیت کو قبول کر رہے ہیں اور وہ بات جو حضرت مسیح صاحب نے فرمائی تھی ہر طرف آواز دینا ہے ہمارا کام آج ہمارا کام آواز دینا ہے جس کی نیک ہوگی آئے گا انجام کار جن کی فطرت نیک ہے وہ آرہے ہیں جماعت احمدیہ میں اور کل حضرت خلیفۃ المسیح خواں میں عزیزہ نے کچھ واقعات بیان فرمائے جو انتہائی ایمان افروز واقعات تھے کہ دیکھو اتنی مخالفت کے باوجود اتنے اندیشوں کے باوجود کہ احمدیت قبول کرنے کے بعد اتنے خطرات ہیں اس کے باوجود لوگ جماعت احمدیہ میں ہو رہے ہیں یہ اس بات کی دلیل نہیں تو اور کیا ہے کہ یہ جماعت اللہ کی طرف سے تھی یہ پودا اللہ کی طرف سے لگا ہوا تھا یہ بیج اللہ کی طرف سے لگا ہوا تھا اور وہی اس کی حفاظت کر رہا تھا وہی اس کی آبپاشی اور آبیاری کر رہا تھا اور کرتا رہے گا اور وہی ہے جو نیک روحوں کو اس طرف لا رہا ہے جو اس میں شامل ہوتے چلے جا رہے ہیں اللہ تعالی ان کو توفیق عطا فرمائے جزاکم اللہ تعالی احسن الجزا ناظرین کرام ہمارے اب اس program میں ایک ٹیلی فون کالر ہمارے ساتھ جڑے ہیں۔ ہم ان کا سوال سن لیتے ہیں۔ بنگلہ دیش سے مکرم عارف الزمان صاحب اس وقت ہمارے ساتھ لائن پر موجود ہیں۔ عارف الزمان صاحب السلام علیکم ورحمۃ اللہ۔ وعلیکم السلام ورحمۃ اللہ وبرکاتہ۔ سر بڑی آواز آ رہی ہے۔ جی عارف صاحب آپ کی آواز آ رہی ہے۔ آپ اپنا سوال پوچھ سکتے ہیں۔ پہلے تو میں دعا کا درخواست کر رہا ہوں میرا سوال ہے اس کتاب میں دعا کی قبولیت کے بارے میں بہت سارے بیان ہوا اس حدیث کا واقعہ یہ ہے سردار محمد علی خان کا بیٹا پڑھنے کے لیے آیا تھا اس میں بھی بیمار ہوا پہلے دعا کیا پہلے شفا کیا یہ سارے پس منظر بیان کیجیے جزاک اللہ جزاکم اللہ تعالی میں محترم مولانا مجیب لون صاحب سے درخواست کرتا ہوں کہ اختصار کے ساتھ اس کا سوال ان کا یہ ہے کہ حقیقت الوحی میں حضرت مسیح موت علیہ الصلاۃ والسلام کے مریضوں کے لیے دعا اور ان کا شفا یاب ہونے کے حوالے سے بے شمار واقعات ملتے ہیں تو ان کا سوال یہ ہے کہ ملیر کوٹلہ کے ایک رئیس سردار محمد علی خان صاحب کا جو بیٹا قادیان میں بیمار ہوا اور حضور علیہ السلام نے اس کے لیے دعا بھی کی تھی اس واقعہ کا جو ذکر ہے اس کے تعلق سے اس کا کیا نتیجہ کیا نکلا تھا جی جی جزاک اللہ مسیمند علیہ الصلاۃ والسلام کے بے شمار واقعات ہیں دعاؤں کی قبولیت کے حوالے سے اللہ تعالی اپنے فرشتاوں کو دعا کی قبولیت کا نشان عطا فرماتا ہے اور حضرت مسیمو علیہ الصلاۃ والسلام کو بھی اللہ تعالی نے یہ عظیم الشان نشان عطا فرمایا تھا اور بے شمار ایسے لوگ ہیں جو حضرت مسیمد علیہ الصلاۃ والسلام کی دعا کی قبولیت کے نتیجے میں شفایاب ہوئے ہیں اس کتاب حقیقت الوحی میں بھی اس قسم کے بعض واقعات حضرت مسیمند علیہ الصلاۃ والسلام نے بیان فرمائے ہیں اور اس واقعہ کا بھی حضور علیہ الصلاۃ والسلام نے ذکر فرمایا ہے جس کا ابھی عارف الزمان صاحب نے سوال میں ذکر کیا ہے یہ سردار محمد علی خان صاحب کے بیٹے تھے جن کا نام عبدالرحیم خان تھا۔ تو یہ بیمار ہوئے بہت مہلک مرد ان کو لاحق ہوئی محرکہ میں مبتلا ہوئے یہ تو حضرت علیہ الصلاۃ والسلام نے ان کے لیے دعا کی۔ اللہ تعالی کے حضور ان کی شفا یابی کے لیے دعا کی۔ تو حضور علیہ الصلاۃ والسلام فرماتے ہیں مجھے بتایا گیا کہ تقدیر مبرم ہے یعنی ان کا شفایاب ہونا جو ہے وہ ممکن نظر نہیں آیا حضرت کو کیونکہ آپ کو بتایا گیا کہ یہ تقدیر مبرم ہے اور ان کا شفایاب ہونا ممکن نہیں ہے تو اس پر حضور علیہ الصلوۃ والسلام فرماتے ہیں کیونکہ ان کے بعد ان کے ساتھ ایک خاص تعلق تھا خاص لگاؤ تھا تو میں نے اللہ تعالی کے حضور عرض کی کہ یا اللہ میں ان کی شفاعت شفا کے لیے سفارش شفاعت کرتا ہوں تو جب یہ الفاظ حضرت محمد فرماتے ہیں میں نے اللہ تعالی کے حضور پیش کیے تو اللہ تعالی کی طرف سے الہام ہوا کہ کون ہے جو کس کی جرات ہو سکتی ہے کہ اللہ تعالی کے حضور اللہ تعالی کے اذن کے بغیر اور اس کی اجازت کے بغیر کسی کے بارے میں شفاعت کر سکے تو حضور علیہ الصلاۃ والسلام فرماتے ہیں کہ جب یہ الہام مجھے ہوا تو میں ایک دم خاموش ہو گیا اور اس کے آگے پھر میں نے کوئی بھی بات حضور اللہ تعالی کے حضور پیش نہیں کی یعنی گویا حضور علیہ الصلاۃ والسلام ایک لحاظ سے مضبوط ہو گئے کیونکہ اللہ تعالی نے ایک ڈانٹ کے رنگ میں حضور علیہ الصلوۃ والسلام کو فرمایا کہ اللہ تعالی کی اجازت کے بغیر شفاعت نہیں ہو سکتی تو اللہ تعالی نے پھر جب اپنے اس پیارے بندے کی یہ حالت دیکھی تو حضور علیہ الصلاۃ والسلام فرماتے ہیں کہ اس کے مان بعد تھوڑے سے توقف کے بعد ہی اللہ تعالی کی طرف سے یہ الہام ہوا کہ کہ تجھے شفا کا اب حق دیا جاتا ہے تجھے شفاعت کرنے کی اجازت دی جاتی ہے تو حضور علیہ الصلوۃ والسلام فرماتے ہیں کہ اس کے بعد پھر میں نے بہت ہی ابتحال کے ساتھ اس بچے کے لیے اللہ تعالی کے حضور دعا کی اور اس بچے کی یہ حالت تھی کہ گویا قبر میں چلا گیا تھا مردہ کے حکم میں تھا یہ بچہ لیکن جب اللہ تعالی کے حضور اللہ تعالی کی طرف سے شفاعت کی اجازت ملنے کے بعد میں نے اللہ تعالی کے حضور ابتحال کے ساتھ دعا کی تو اس دعا کے نتیجے میں یہ بچہ محمد علی سردار محمد علی خان صاحب کا بیٹا جو تھا عبدالرحیم خان یہ شفایاب ہوا اور اللہ تعالی کے فضل سے تندرست ہوا اور اس کے بعد اس نے جو بھی اللہ تعالی نے ان کو زندگی عطا کرنی تھی وہ زندگی عطا ہوئی اور اس طرح حضرت اقدس علیہ الصلاۃ والسلام کی دعا کے نتیجے میں اس بچے کو اللہ تعالی نے شفا عطا فرمائی جزاکم اللہ تعالی حسن الجزا ناظرین کرام اس کے علاوہ ایک اور سوال ہمیں text message کے ذریعے موصول ہوا ہے مکرم مشتاق احمد صاحب کا سوال ہے میں وہ سوال یہاں پڑھ کر سنا دیتا ہوں مشتاق صاحب یہ سوال کرتے ہیں کہ کیا باقی جو غیر احمدی ہیں وہ حضرت مسیح معود علیہ الصلاۃ والسلام کو نہ ماننے کی وجہ سے جہنم میں جائیں گے اگر ایسا نہیں ہے تو پھر احمدی کیوں اتنی مشکلات اٹھاتے ہیں جبکہ ہر نیک عمل کرنے والا نے جنت میں جا سکتا ہے براہ کرم اس کا جواب دے دیں تو محترم مولانا محمد حمید کوثر صاحب سے درخواست کرتا ہے کہ اختصار کے ساتھ اس کا جواب بیان فرمائیں بات یہ ہے کہ یہاں مرزا غلام احمد صاحب کو ماننے یا مان نہ ماننے کی بات تو ثانوی حیثیت رکھتی ہے بات یہ ہے جس کو اللہ تعالی نے بھیجا ہے اگر کوئی مسلمان یا غیر مسلمان اس کا انکار کرتا ہے تو وہ اللہ تعالی کا نافرمان ٹھہرتا ہے اللہ تعالی نے گویا ابس اس کو بھیج دیا ہوا ہے اور انسان کو پرواہ ہی کوئی نہیں ہے کہ میں مانوں یا نہ مانوں تعالی نے اس کو ہدایت کے لیے بھیجا ہے اس کا اس کو ماننا ہر انسان پہ لازم ہے اور پھر سیدنا محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وسلم نے ہر مسلمان کو حکم دیا ہے کہ جب تم امام مہدی علیہ السلام کو دیکھنا اس کی بیعت کرنا آپ کی مرضی کے مطابق نہیں ہے اس کی بیعت کرنا۔ اگر تمہیں برف کے اوپر گھٹنوں کے بل بھی جانا پڑے اس تک پہنچ کے اس کی بیعت کرنا خلیفتہ اللہ وہ اللہ کی طرف سے ایک خلیفہ ہے جو اس دنیا میں بھیجا گیا ہے اور تم اس کی بیعت کرو۔ اگر یہ مسیحا صاحب کو نہیں مانتے سب سے بڑے یہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی نافرمانی کرتے ہیں۔ اور آپ کے نافرمانی کا ارتکاب کرنے والا اللہ کے حضور کیسے سرخرو ہوگا اس کا جواب یہی دے ہیں میں نہیں دے سکتا ہوں جو اللہ کا بھی نافرمان رسول کا بھی نافرمان اور وہ اللہ کی رضا حاصل کر لے یہ کیسے ممکن ہو سکتا ہے یہ تو وہی بات ہوئی کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے اس سے ڈرایا تھا فرمایا تھا میری امت پہ وہ حالات آئیں گے جو بنی اسرائیل پہ آئے کہ جیسے ایک جوتا دوسرے جوتے کے مشابہ ہوتا ہے ویسے ہی یہ قوم ان کے مشابہ ہو جائے گی یہود یہی بات جب رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم تشریف لائے تھے اس وقت وہ یہی کہتے تھے وہ یہ کہتے تھے ہم تورات کو ماننے والے ہم شریعت موسی کو ماننے والے ہم موسیٰ علیہ السلام کو ماننے والے اللہ نے ہمارا نام ہود رکھا ہے یہود یعنی ہدایت یافتہ رکھا ہے تو ہمارا ہمیں ضرورت ہی کیا ہے محمد صلی اللہ علیہ وسلم کو ماننے کی اور انہوں نے نہیں مانا تین قبیلے مدینے میں بیٹھے ہوئے تھے بنو قینقہ بنو نظیر بنو قریظہ سوائے دو تین یا چند افراد کے سب کے سب نے انکار کر دیا اور ان کا کہنا یہی تھا ہم ایک شریعت کو مانتے ہیں ہم شریعت موسی کو مانتے ہیں ہمیں کیا ضرورت ہے ہم تو اللہ کے احباب اللہ ہم تو اللہ کی محبوب قوم ہیں ہم تو جنت میں جائیں گے بالکل یہی جواب کہ ایک جوتے سے جوتے جیسے مشابہ ہوتا ہے مسلمان بعض مسلمان اسی قسم کے جوابات دیتے ہیں میں اپنے بھائی کو سمجھاتا ہوں کہ دیکھیں یہ باتیں آپ استخفاف کی نظر سے نہ بھیجیں جس کو اللہ نے بھیجا ہے جس کو ماننے کا سیدنا محمد صلی اللہ علیہ وسلم نے حکم دیا ہے اس کو مانیں دعا کریں کہ مجھے اللہ تعالی اس کو قبول کرنے کی توفیق عطا فرمائیں اب رہا سوال یہ کہ یہ جو ایک لفظ کہتے ہیں کہ احمدی اتنی مشکلات کیوں برداشت کر رہے ہیں میں اس بھائی کو واضح طور پر بتاتا ہوں بڑے ادب سے بتاتا ہوں بڑی نرمی سے بتاتا ہوں احمدی یہ کیوں برداشت کر رہے ہیں؟ یہ اس لیے کر رہے ہیں جیسا کہ سیدنا بلال نے برداشت کی تھی۔ جیسے کہ سیدنا محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وسلم نے وہ برداشت کی تھی۔ اس وقت حضور نے یہ کہا تھا کہ اللہ کے علاوہ کوئی اور معبود نہیں۔ عصر حاضر میں پھر یہی بات کی گئی۔ اور قرآن اس کو دہرا رہا ہے تو انہوں نے کفر کیا جنہوں نے کہا کہ اللہ مسیح ابن مریم ہے کہ انہوں نے کفر کیا جنہوں نے یہ کہا کہ اللہ تین میں سے ایک ہے یہاں توحید کی بات تھی اسی وحدانیت کے اعلان کی بات تھی جو بلال رضی اللہ تعالی عنہ عمار رضی اللہ تعالی عنہ یاسر رضی اللہ تعالی عنہ سمعیہ رضی اللہ عنہ برداشت کر رہی تھیں جماعت احمدیہ اسی کلمے کی اسی توحید کی حفاظت کر رہی ہے اسی وحدانیت کی حفاظت کر رہی ہے کہ اللہ ایک ہے یہ مسلمان یہ مسلمان جو دعوی کرتے ہیں یہ تو حضرت عیسی علیہ السلام کو خدا ہی کا مقام دے رہے ہیں اور کہہ رہے ہیں دو ہزار سال سے وہ خدا کی طرح آسمان پر زندہ موجود ہے اور آئے گا یہ اس کو قوت احیا دیتے ہیں اور کہتے ہیں وہ مردوں کو زندہ کیا کرتے تھے یہ تو اس کو خدا بنائے بیٹھ ہیں جماعت احمدیہ جو کہہ رہی ہے وہ یہ کہ سب سے بالا اور اعلی وہ سیدنا محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وسلم ہیں عیسی علیہ السلام اللہ کے ایک رسول تھے نبی تھے اور ان کی رسالت صرف بنی اسرائیل کے لیے تھی وہ کسی امت کے لیے نہیں آ سکتے آج ہماری لڑائی صرف لا الہ الا اللہ محمد رسول اللہ کے لیے ہے اس کے لیے جماعت احمدیہ کو جتنی بھی قربانیاں دینی پڑے وہ دیتے رہیں گے ہم حضور نے جب اور دوسرے مقامات پر شہادتیں ہوئی ہیں حضور نے یہی فرمایا ہے کہ ہم اس وحدانیت کے قیام کے لیے رسالت محمدیہ کے قیام کے لیے جو بھی قربانیاں ہم سے مانگی جائیں گی وہ ہم دیتے رہیں گے اور ہم سمجھتے ہیں یہی اللہ تعالی کی رضا کے لیے یہ سعادت مندی ہے جو ہمیں حاصل ہے جزاکم اللہ تعالی program کو آگے بڑھاتے ہوئے خاک سر کا اگلا سوال محترم مولانا عطاء المجیب لونس صاحب سے یہ ہے کہ جیسا کہ پہلے سوال کے جواب میں محترم مولانا محمد حمید کوثر صاحب نے بھی بیان کیا ہے کہ مقدمہ ڈاکٹر میں سیدنا حضرت اقدس مسیح موعود علیہ الصلاۃ والسلام کی صداقت کا ایک بہت بڑا نشان ہے اور ایک ثبوت ہے تو اس واقعہ کی اس مقدمے کی مزید تفصیل بیان کرنے کی خاک سر درخواست کرتا ہے جی جزاکم اللہ اللہ تعالی کا کوئی بھی فرشتہ جب دنیا میں مبعوث ہوتا ہے تو قرآن مجید میں ہی اللہ تعالی نے یہ بیان فرمایا ہے کہ جب بھی کوئی اللہ تعالی کا مرسل اور اللہ تعالی کا فرشتہ دنیا میں مبعوث ہوتا ہے تو اللہ تعالی کے پیغام کو جب وہ دنیا کے سامنے رکھتا ہے تو جو اس کے مخاطبین ہوتے ہیں وہ اس کی مخالفت کے در پہ ہو جاتے ہیں اور یہاں تک کہ دشمنی کی حد تک چلے جاتے ہیں اور جتنی بھی حیلے اور حربے اس کو پریشان کرنے کے لیے اس کو ذلیل کرنے کے لیے وہ کر سکتے ہیں وہ تمام کے تمام حیلے اور حربے وہ اختیار کرتے ہیں یہاں تک کہ اس کو قتل تک کرنے کی سازشیں بھی کر کی جاتی ہیں۔ حضرت نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی ہم مثال لے لیں حضرت عیسی علیہ الصلاۃ والسلام کی ہم مثال لے لیں تو ہمیں پتہ لگتا ہے کہ کس طرح دشمنوں نے ان کو قتل تک کرنے کی سازشیں کی لیکن اللہ تعالی نے ان کو ان کی سازشوں میں ناکام اور نامراد کر تو حضرت اقدس مسیح محمد علیہ الصلاۃ والسلام جو اس زمانے کے معمور اور مرسل اور تھے آپ علیہ الصلوۃ والسلام کی بھی اسی سنت کے مطابق مخالفت ہونی تھی اور ہوئی چنانچہ آپ علیہ الصلوۃ والسلام کے خلاف بھی آپ کے مخالفین نے آپ کے دشمنوں نے ہر قسم کے حیلے اور حربے آپ کو پریشان کرنے کے لیے آپ کو اپنے زعم میں ناکام کرنے کے لیے اختیار کیے انہی حیلے ہیلوں اور حربوں میں ایک بہت ہی خطرناک منصوبہ یہ مقدمہ ہے جس کو مقدمہ ڈاکٹر ہنری مارٹن کلارک کے نام سے تاریخ میں تاریخ احمدیت میں جانا جاتا ہے اس مقدمے میں ڈاکٹر ہنری مارٹن کلاک نے یہ سازش کی کہ حضرت اقدس مسیمند علیہ الصلاۃ والسلام کے خلاف اقدام قتل کا مقدمہ کیا چنانچہ اللہ تعالی نے اپنے وعدوں کے مطابق اپنی تائید و نصرت کا آ مظاہرہ فرماتے ہوئے حضرت اقدس مسیمود علیہ الصلاۃ والسلام کی اس مقدمے میں بریت ظاہر فرمائی اور پہلے سے حضرت اقدس کو اللہ تعالی نے جو بشارات دی تھیں کہ دشمنوں کے مقابلے میں تجھے غلبہ عطا ہوگا اور دشمن جو تجھے ذلیل کرنے کی کوشش کریں گے دشمن جو تیرے ذلیل کرنے کی کوشش کریں گے اس کا نتیجہ یہ ہوگا کہ دشمن خود ذلیل ہوں گے تجھے ذلیل کرنے میں ناکام اور نامراد رہیں گے تو اس مقدمے کی تفصیل خلاصتا عرض کرتا ہوں کہ اس طرح ہے کہ ایک عبدالحمید نامی ایک شخص جو بہت آوارہ قسم کی طبیعت رکھتا تھا ہر جگہ گھومتا پھرتا تھا کبھی کسی مذہب میں داخل ہوتا تھا کبھی کسی مذہب میں داخل ہوتا تھا تو یہ شخص ایک بار پھرتے پھراتے قادیان بھی پہنچ گیا اور یہاں پر بھی اس نے کوشش کی کہ وہ بیت کرے لیکن حضرت اقدس مسعود علیہ الصلاۃ والسلام نے جب اس کی طبیعت معلوم کی اس کے حالات معلوم کیے تو آپ علیہ الصلوۃ والسلام پہچان گئے کہ یہ تو آوارہ قسم کا انسان ہے اس کی بیعت لینے کا کوئی فائدہ حاصل نہیں ہے تو چنانچہ آپ علیہ الصلاۃ والسلام نے اس کو قادیان سے نکلوا دیا اور یہ قادیان سے واپس چلا چلا گیا اور سیدھے امرتسر پہنچ گیا میں اس کی ملاقات ڈاکٹر مارٹن کلرک سے ہوئی سارے حالات اور واقعات اس کے معلوم کرنے کے بعد ڈاکٹر مارٹن کلارک نے ایک بہت ہی یہ خطرناک منصوبہ تیار کیا اور دیگر اپنے ساتھیوں سے حمایت سے مشورہ کرنے کے بعد اس کو راغب کیا اس بات کے لیے کچھ لالچ دے کے کچھ حراساں کر کے کہ وہ عدالت میں یہ بیان دے کہ حضرت اقدس مسیمد علیہ الصلاۃ والسلام نے اس کو ڈاکٹر مارٹن کلارک کو قتل کرنے کے لیے امرتسر بھیجا تھا چنانچہ اس کے لیے ہو گیا وہ تیار ہو گیا اور اس نے عدالت میں بیان بھی دے دیا کہ نعوذ باللہ حضرت اقدس علیہ الصلاۃ والسلام نے اس کو ماڈرن کلرک کو قتل کرنے کے لیے امرتسر بھیجا چنانچہ جب یہ بیان ہوا عدالت میں تو deputy کمشنر جو امرتسر کا تھا اس نے اسی وقت حضرت مسمد علیہ الصلاۃ والسلام کے خلاف گرفتاری کا warrant جاری کر دیا لیکن اللہ تعالی کا عجیب تصرف ہوا کہ کئی دن گزرنے کے بعد بھی یہ تاریخ میں آتا ہے کہ یہ ڈاکٹر ماڈرن کلرک اور اس کے ساتھ ریلوے اسٹیشن پر جاتے تھے امرتسر کے یہ دیکھنے کے لیے کہ آج نعوذ باللہ حضرت مسی محمد علیہ الصلاۃ والسلام ہتھکڑیاں پہنے ہوئے ریلوے اسٹیشن میں آئیں گے اور ان کو گرفتار کیا جائے گا تو روزانہ جاتے تھے لیکن وہ نظارہ وہ دیکھ نہیں پاتے تھے تو تصرف اللہ تعالی کا اس طرح ہوا کہ وہ جو گرفتاری کا warrant تھا وہ پہنچا ہی نہیں گرداس پور میں اور ایک ہفتے کے بعد اس deputy کمشنر امرتسر کو اس بات کا احساس ہوا کہ یہ تو دوسرے ضلع کا معاملہ تھا مجھے تو قانونی طور پر حق نہیں تھا کہ میں گرفتاری کا warrant جاری کروں۔ چنانچہ وہ جو مقدمے کی مثل تھی اس نے گرداس پور میں منتقل کروا دی۔ تو گرداس پور میں منتقل ہونے کے بعد جو deputy کمشنر گرداس پور کا تھا۔ جس کا نام کپتان ڈگلس تھا۔ تو اس کے اس کی کچہری میں یہ معاملہ آیا تو ماڈل کلارک نے وہاں پر بھی کوشش کی اس کو قائل کرنے کی کہ امرتسر والے مجسٹریٹ نے warrant گرفتاری جاری کیا تھا آپ بھی warrant گرفتاری جاری کریں اور اس کو گرفتار کر کے لے آئے۔ لیکن اس کے اسرار کے وہ اس بات کے لیے تیار نہیں ہوا اس کو شروع میں ہی شک ہو گیا اس مقدمے کے بارے میں اور انہوں نے warrant گرفتاری جاری کرنے کی بجائے سمن جاری کر دیا تو اس سمن کے بعد پھر بیانات ہوتے ہیں جو عدالت کی کاروائی ہوتی ہے وہ چلتی ہے حضرت اقدس علیہ الصلاۃ والسلام نے اس مقدمے کی تفصیل کتاب البریا میں پوری تفصیل کے ساتھ بیان فرمائی ہے سارے واقعات جو اس مقدمے میں رونما ہوئے ہیں حضور علیہ الصلوۃ والسلام مقدمے میں بیان دینے کے لیے بٹالے میں اس کے سارے بیانات ہوئے ہیں وہاں پہنچے ہیں جو کپتان ڈگلس تھا انہوں نے بہت عزت افزائی کی آپ علیہ الصلاۃ والسلام کی آپ کو کرسی دی کرسی پر بٹھایا اور اس کے مد مقابل مولوی محمد حسین بٹالوی جو اس مقدمے میں گواہ بن کے آیا تھا محترم مولانا محمد امین کوثر صاحب نے بھی ذکر کیا اس بات کا کہ ڈاکٹر مارٹن کلاک عیسائی تھا اس کے ساتھ کچھ ہندو اور آریا بھی شامل ہوئے اس مقدمے میں پھر یہ مسلمانوں میں سے محمد علی حسین بٹالوی بھی اس مقدمے میں شامل ہوا تو تینوں قوموں نے یہ مقدمہ مل کے ایک لحاظ سے تیار کیا تھا حضرت علیہ الصلاۃ والسلام کو نعوذ باللہ ذلیل کرنے کے لیے محمد حسین بٹالوی کے تعلق سے آتا ہے تاریخ میں حضرت نے خود بیان فرمایا ہے کہ وہ جب وہاں بیان دینے آیا گواہی دینے آیا تو کس طرح وہ ذلیل ہوا انہوں نے مجسٹریٹ سے کرسی کا مطالبہ کیا تو انہوں نے منع کر دیا پھر کوشش کی کرسی طلب کرنے کی تو پھر اس کو جھڑک کے پیچھے کھڑا کرنے کے لیے مجسٹریٹ پیچھے کھڑا ہوا بہرحال بیان وغیرہ ہوا باہر نکلا وہاں پر بھی کرسی پہ بیٹھا تو پولیس نے وہاں پولیس والے نے وہاں سے بھی وہاں بھی کرسی سے نیچے اتار دیا کسی کی چادر لے کے اس کے اوپر بیٹھا تو جس کی چادر تھی اس نے چادر نیچے سے کھینچ لی اور یہ کہا کہ ایک مسلمان ہو کر مسلمان کے خلاف گواہی دیتے ہو جھوٹی گواہی دیتے ہو تو اس طرح مختلف قسم کے واقعات ہوئے جس سے اس کو ذلیل ہونا پڑا اور اس طرح اور بھی بہت سارے واقعات بہرحال اس مقدمے میں ہوئے جہاں حضرت اقدس علیہ الصلاۃ والسلام کا بلند حوصلہ اور خلق کا اس مقدمے کے ذریعے مظاہرہ ہوا وہاں دشمنوں کی جو جیسا کہ میں نے ابھی ذکر کیا ان کی ذلت کے سامان بھی اس کے ہوئے بہرحال اس مقدمے کے نتیجے کی طرف آتا ہوں اور بات ختم کر دیتا ہوں کیونکہ وقت کافی ہوگیا ہے وقت زیادہ نہیں ہے تو مقدمے کا نتیجہ اس طرح نکلا کہ یہ جو کپتان ڈگلس تھے گرداس پور کے مجسٹریٹ ان کے اوپر اللہ تعالی نے محترم کوثر صاحب نے بھی ذکر کیا اللہ تعالی نے شروع میں ایک تصرف ان کے دل میں کیا کہ یہ جو ہے یقینا جھوٹا ہے تو وہ کہتے ہیں ان کے ریڈر تھے حیدر علی صاحب ان کا بیان ہے کہ بٹالے میں ہم مقدمے کے جو سارے بیانات تیرہ اگست کو مکمل ہو گئے یکم اگست اٹھارہ سو آہ ستانوے کا یہ مقدمہ ہے تو کہتے ہیں تیرہ اگست تک سارے بیانات مکمل ہوئے تو ہم نے گرداس پور واپس جانا تھا ریلوے سٹیشن میں تھے تو یہ مجسٹریٹ صاحب کبھی اس طرف جا رہے ہیں ایک سرے کی طرف جا رہے ہیں کہ دوسرے سرے کی طرف آ رہے ہیں تو بہت پریشان دکھے تو کہتے ہیں میں نے ان سے عرض کیا کہ کیا بات ہے تو انہوں نے مجھے جواب دیا کہ اس مقدمے کی وجہ سے میں پریشان ہوں اور میں جہاں بھی نظر کرتا ہوں مجھے مرزا صاحب نظر آتے ہیں یہ کہتے ہوئے کہ دیکھو انصاف جو تمہاری قوم کا شیوہ ہے اس کو ہاتھ سے جانے نہیں دینا تو میں وہی سوچ رہا ہوں کہ کس طرح اس معاملے میں حقیقت حال میرے سامنے ظاہر ہو جائے تو وہ حیدر علی صاحب جو لیڈر تھے وہ ان کو مشورہ دیتے ہیں کہ آپ ایک کام کریں یہ جو عبدالحمید عیسائیوں کے قبضے میں ہے اس کو وہاں سے چھڑا کے پولیس کے دے دیں ساری حقیقت حل کھل جائے گی.

00:48:01

تو اس ان کے مشورے پر وہ جو کپتان ڈگلس تھے مجسٹریٹ تھے انہوں نے اس پر عمل کیا. اور عیسائیوں سے اس کو چھڑا کر پولیس کے قبضے میں دے دیا گیا. پولیس نے اس سے بیان لیا. پہلے تو شروع میں آنا کانی کی پھر وہی جھوٹا بیان اس نے بیان کرنا شروع کر دیا. لیکن بہرحال بالآخر وہ تیار ہو گیا اور اس نے سچا بیان دے دیا.

00:48:20

اور بتایا کہ یہ جو بیان میں نے پہلے دیا تھا. یہ صرف مجھے لالچ دیا گیا تھا. مجھے ہراساں کیا گیا تھا. اس کی بنیاد پر یہ جھوٹا بیان دیا تھا یہ بیان بالکل غلط ہے حضرت مرزا صاحب نے کبھی بھی مجھے ڈاکٹر مارٹن کلارک کو قتل کرنے کے لیے امرتسر نہیں بھیجا تھا یہ بالکل غلط بیان ہے تو اس طرح سے اس کا سچا بیان سامنے آنے پر تئیس اگست اٹھارہ سو ستانوے عیسوی کو کپتان ڈگلس نے اپنی عدالت میں اس اس وقت بھی جب یہ فیصلہ ہونا تھا جو تمام یہ لوگ جو تھے وہ تیار بیٹھے تھے اس بات کے لیے کہ اب مرزا صاحب کے خلاف جو ہے فیصلہ ہو گا لیکن کپتان ڈگلس نے جیسے کہ ساری صورت ان کے سامنے واضح ہو گئی تھی انہوں نے حضرت کے حق میں فیصلہ دیا اور ان کو بری کر دیا تو اس طرح سے یہ خطرناک مقدمات جو اقدام قتل کا مقدمہ تھا اس میں اللہ تعالی نے آپ کو باعزت بری کیا اور دشمنوں کی رسوائی جو آپ علیہ الصلاۃ والسلام کو رسوا دیکھنا چاہتے تھے نعوذ باللہ ان کی رسوائی کے سامان ہوئے اور ان کو اللہ تعالی نے اپنے وعدے کے جو وعدہ حضرت محمد علیہ صلوۃ کو دیا تھا ان الفاظ میں اس وعدے کے موافق دشمنوں کو ذلیل اور رسوا اور ناکام اور نامراد کر دیا جزاکم اللہ تعالی حسن الجزا program کو آگے بڑھاتے ہوئے خاکسر کا اگلا سوال محترم مولانا محمد حمید کوثر صاحب سے یہ ہے کہ حضرت مسیح موت علیہ الصلاۃ والسلام کی دعوت مباہلہ میں جان الیگزینڈر ڈوئی کی ہلاکت بھی حضرت مسیح مود علیہ الصلاۃ والسلام کی صداقت کا ایک بڑا بہت بڑا ثبوت ہے تو وقت کی رعایت سے اس کے بارے میں بھی کچھ بیان فرمانے کی درخواست ہے بات یہ ہے کہ یہ امریکہ ایک نئی دنیا وہاں پر یہ اتنا بڑا عظیم الشان نشان نشان ظاہر ہوا کہ خود حضرت نے فرمایا یہ امریکہ کے لیے ایک نشان ہے یہ ڈوئی جس کا مخفف کہا جاتا ہے اگرچہ کہ بعد میں اس نے اس لفظ ڈوئی سے بھی انکار کیا کہ میں اس خاندان سے نہیں ہوں.

00:50:22

بہرحال معروف ہے ڈوئی کے نام سے.

00:50:27

اس نے یہ ایک نیا فرقہ بنایا شروع میں اس نے یہ کہا کہ میں ایلیا ہوں بعد میں کہا مجھے مسیح نے بھیجا ہے پھر خود ہی پیغمبری کا دعوی کر دیا اور اس نے یہ الفاظ استعمال کیے اگر میں خدا کی زمین پر خدا کا پیغمبر نہیں تو کوئی بھی نہیں یہ ایک بہت بڑا دعوی تھا کہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلاۃ والسلام یہاں انڈیا ایشیا میں موجود ہے یہ امریکہ میں کہہ رہا ہے کہ خدا کی زمین میں اگر میں پیغمبر نہیں تو کوئی اور ایک تو یہ بات ہوئی دوسرا یہ مسلمانوں کے سخت خلاف تھا اور سیدنا حضرت محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وسلم کو بڑے ہی برے الفاظ سے یاد کرتا تھا وہ الفاظ میں یہاں دہرا نہیں سکتا اس طرح کے الفاظ یہ دہراتا تھا اور مسلمانوں کو تباہ و ہلاک کرنے کا یہ بار بار اعلان کرتا تھا اور پھر اس نے صیون شہر بسایا اور اس میں یہ کہا اس میں کوئی وہ شخص داخل نہیں ہو سکتا جو کہ مسلمان ہے یہ ساری جب حضرت مسیح معود علیہ السلام کو پہنچی تو حضرت مسیح معاود علیہ السلام نے ستمبر انیس سو دو میں ایک اشتہار شائع کیا اور یہ اعلان کیا ہم ڈوئی صاحب کی خدمت میں با ادب عرض کرتے ہیں کہ اس مقدمہ میں کروڑوں مسلمانوں کے مارنے کی کیا حاجت ہے ایک سہل طریق ہے جس سے اس بات کا فیصلہ ہو جائے گا کہ آیا ڈوئی صاحب کا خدا سچا ہے یا ہمارا خدا فیصلہ یہاں تھا کہ وہ انسان جو کہ یہ کہہ رہا تھا کہ مجھے خدا نے بھیجا ہے کیا اس کا خدا سچا ہے یا وہ خدا جس کو حضرت مسیح موعود علیہ السلام کہہ رہے تھے اس نے مجھے بھیجا ہے ان دو خداؤں میں سے کسی ایک خدا کا فیصلہ ہونا تھا اور طریق مسیح موعود علیہ السلام یہ بیان فرما رہے تھے وہ بات یہ ہے کہ ڈوئی صاحب تمام مسلمانوں کو بار بار موت کی پیش گوئی نہ سناوے بلکہ ان میں صرف مجھے اپنے ذہن کے آگے رکھ کر یہ دعا کریں کہ ہم دونوں میں سے جو جھوٹا ہے وہ پہلے مر جائے یعنی موبائل لکھا جو طریقہ تھا حضور نے فرمایا جو جھوٹا ہے وہ پہلے مرے یہ ایک فیصلہ ہوگا پھر دنیا سے قبل پھر دنیا سے قبل میری وفات کے اٹھایا گیا تو یہ تمام امریکہ کے لیے ایک نشان ہوگا اگر وہ پہلے موت مر گیا فوت ہوگیا تو یہ تمام امریک کے لیے ایک نشان ہوگا اب عمر کا اگر اختلاف دیکھا جائے تو حضرت فرماتے ہیں میری عمر اس وقت ستر سال ہے جب کہ اس کی عمر پچاس سال تھی یہ بات تھی اب حضرت مسیح اس نے کوئی جواب نہیں دیا حضرت مسیح ماؤعود علیہ الصلاۃ والسلام نے آخر ایک بات کہی کہ اگر یہ اشارتا یا قنایاتا یا صراحتا یہ میرے مقابل پہ آیا تو یہ مباہلہ کا حصہ بن جائے گا مدمقابل بن جائے گا چنانچہ اس کو تقریبا ساٹھ اخباروں نے شائع کیا ابھی حضور نے بیس ستمبر کو جو خطبہ حضور نے ارشاد فرمایا تیس ستمبر دو ہزار بائیس کو جو حضور نے خطبہ ارشاد فرمایا اس میں بھی ان ساٹھ اخباروں کے گنتی کا ذکر فرمایا اور اس میں اس نے ایک بات یہ کی کہ اگر تم خیال کرتے ہو کہ میں ان کیڑوں مکوڑوں کا جواب دوں اگر میں اپنا پاؤں ان پر رکھوں تو ایک دم کچل کے رکھ دوں گا کے بارے میں استعمال کیا پھر یہ لفظ استعمال کرتا ہے حضرت کے بارے میں بیوقوف محمدی مسیح یہ الفاظ اس نے استعمال کیے اب آپ دیکھیں کہ پچاس سال کا یہ نوجوان ہے تمام سہولتیں اس کو حاصل ہیں اور بڑی عیاشی کی زندگی کے بسر کر رہا ہے حضرت مسیح موعود علیہ السلام ستر سال کی عمر میں ہے اور حضرت مسیح علیہ السلام کے مقابل پہ یہ ہے اور اس نے اپنے آپ کو واقعی کے مقابلے میں فریق کے طور پر میں یہ آیا بہرحال وہ تفصیل کو میں چھوڑتا ہوا اس کے اوپر اچانک انیس سو پانچ اکتوبر میں فالج کا پہلا ایک حملہ ہوا پھر دوسرا ہوا اس کے پاؤں پورے شل ہو گئے اور وہ پاؤں جن کے بارے میں یہ اعلان کرتا تھا کہ اگر میں کسی پہ رکھ دوں تو اس کو میں کچل کے رکھ دوں گا اللہ تعالی نے وہ کچل کے رکھ دیے ختم کر دیے وہ اور اس کے بعد پھر یہ خود جو ہے نو مارچ انیس سو سات کو یہ فوت ہوا اور حضرت جو اعلان فرمایا تھا جو جھوٹا ہو گا وہ سچے کی زندگی میں فوت ہو جائے گا فوت ہو کے اس نے ثابت کر دیا کہ یہ جھوٹا انسان ہے اور امریکہ کے لیے ایک نشان ٹھہرا اب رہا صہیون میں کوئی مسلمان داخل نہیں ہوگا دیکھیں اللہ تعالیٰ کی تقدیر سیدنا حضرت خلیفۃ المسیع خامصید اللہ تعالیٰ میں سے عزیز نے تیس ستمبر دو ہزار بائیس کو اسی صہیون میں مسجد عظیم نام سے مسجد کا افتتاح فرمایا اور وہاں پر سینکڑوں لوگ آئے نماز پڑھے پڑھ رہے ہیں اب یہ بات کہیں جو بات اس نے کہی تھی وہ جھوٹی نکلی اب یہاں پر فیصلہ کس بات پہ ہونا تھا کہ خدا اور یسوع جس کو وہ کہہ رہا ہے کہ اس نے اس خدا نے مجھے بھیجا ہے ثابت ہوا کہ وہ بات اس کی درست نہیں تھی حضرت مسیح ماؤد علیہ الصلاۃ والسلام جس خدا کی طرف سے آنے کا اعلان فرما رہے تھے اور سیدنا محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی صداقت دنیا کو بیان کر رہے تھے وہی خدا وہی اللہ صحیح ہے اسی پر ایمان لانا ہے یہ ثابت ہو گیا جو حضرت انسان نے فرمایا وہی سچ ہے قدرت سے اپنی ذات کا دیتا ہے ثبوت اس بے نشاں کی چہرہ نمائی یہی تو ہے یہی ہے اس میں ذیشان کی چہرہ نمائی اس مسجد کو جو بھی آج دیکھے گا وہ یہی کہے کہ یہ امریکہ والوں کے لیے ایک نشان ہے جو حضرت مسیح معود علیہ السلام کے ذریعہ ظاہر ہوا ہمیں اس خدا کی طرف غور کرنا چاہیے اور ایمان لانے کی طرف توجہ کرنی چاہیے جزاک اللہ تعالی حسن الجزاء اکثر کا اگلا سوال محترم مولانا عطاء المجیب لوند صاحب سے یہ ہے کہ حضرت مسیح مود علیہ الصلاۃ والسلام کے زمانے میں ہندوستان میں تعاون کی وبا پھوٹی تھی اور آپ علیہ السلام نے اللہ تعالی سے ارشاد پا کر جماعت احمدیہ میں احمدیوں کو ٹیکہ لگانے سے منع فرمایا تھا لیکن اس وبا کے نتیجے میں کثرت کے ساتھ جو دوسرے لوگ تھے جماعت میں شامل ہوتے گئے جو کہ حضرت مسیح علیہ الصلاۃ والسلام کی صداقت کا ایک بہت بڑا نشان ہے تو وقت بہت چونکہ کم ہے تو اقتصار کے ساتھ چند منٹ میں اس کے بارے میں کچھ بیان فرمانے کی درخواست ہے اٹھارہ سو اٹھانوے عیسوی میں حضرت مسیح علیہ الصلاۃ والسلام نے خواب میں دیکھا کہ ملائکہ چھوٹے قد کے پودے لگا رہے ہیں تو حضور فرماتے ہیں کہ میں نے ان ملائکہ سے پوچھا کہ یہ کس قسم کے پودے ہیں تو ملائکہ نے جواب دیا کہ یہ طاعون کے پودے ہیں جو عنقریب پنجاب میں ظاہر ہونے والی ہیں تو اس خواب کے حضرت اقدس علیہ الصلاۃ والسلام نے تعاون کی پیش گوئی فرمائی۔ اور اس پیشگوئی کے چار سال بعد انیس سو دو میں یہ طاعون پورے زوروں پر ظاہر ہوئی۔ اور تاریخ سے ہمیں پتا لگتا ہے کہ صرف پنجاب میں بائیس لاکھ پچاس ہزار لوگ ہلاک ہوئے۔ اٹھائیس ممالک پر اس کا اثر تھا۔ بستیوں کی بستیاں گاؤں کے گاؤں تعاون کی وجہ سے اجڑ گئے۔ لیکن اللہ تعالی نے حضرت محمد علیہ الصلاۃ والسلام کو وعدہ فرمایا تھا کہ کہ جو ادارم ہوگا اور عددار کی تشریح بھی حضرت موسی علیہ السلام نے فرمائی کہ میرے جو کامل متبعین ہیں صرف آ جو گارے کی مٹی اور اینٹیں ہیں اس گھر میں جو لوگ رہتے ہیں صرف وہ مراد نہیں بلکہ کامل متبعین اس سے مراد ہیں تو وہ محفوظ رہیں گے تو ہم دیکھتے ہیں شواہد ہیں اس بات کے تاریخ اس بات کی گواہ ہے کہ کس طرح اللہ تعالی نے آپ علیہ الصلوۃ والسلام کے گھر میں رہنے والوں کو بھی اور آپ علیہ الصلاۃ والسلام کے ماننے والوں کو بھی آہ اپنی امان میں رکھا اس بلا سے اس وبا سے محفوظ رکھا اور ٹیکے کی بات جو آپ نے کی ٹیکے سے حضور علیہ الصلاۃ والسلام نے باقاعدہ اپنے ماننے والوں کو منع کیا government کے اس اقدام کی سراہنا کرتے ہوئے کہ یہ بہت اچھا قدم ہے جو government نے اٹھایا ہے لیکن اپنے ماننے والوں کو یہ بتایا government کو کہ اللہ تعالی کی طرف سے روک اگر نہ ہوتی تو سب سے پہلے میں ٹیکہ لگاتا لیکن آپ نے اپنے ماننے والوں کو منع کر دیا کہ اس ٹیکے کو لگانے کی ضرورت نہیں ہے تاکہ اللہ تعالیٰ کا نشان ظاہر ہو چنانچہ اللہ تعالیٰ عظیم الشان رنگ میں ظاہر ہوا احمدی جو ہے اللہ تعالی کے فضل سے غیر معمولی رنگ میں اللہ تعالی نے اس وبا سے احمدیوں کو محفوظ رکھا اور اس نشان کے نتیجے میں جو کہ یہ قہری نشان تھا جیسا کہ میں نے عرض کیا کہ لاکھوں کی تعداد میں بستیوں کی بستیاں اجڑ گئیں اور جب غیر احمدیوں میں سے جو صحیح فطرت لوگ تھے حضرت اقدس علیہ الصلاۃ والسلام کی پیش گوئی کے نتیجے میں اس کو ملاحظہ کیا اس کا جائزہ لیا اس کا مشاہدہ کیا انہوں نے اللہ تعالیٰ کے فضل سے حضرت اقدس مسعود علیہ الصلاۃ والسلام کی سچائی کو مانا۔ آپ علیہ الصلاۃ والسلام کی صداقت کو مانا اور جماعت میں جوق در جوق شامل بھی ہوئے۔ جزاکم اللہ تعالی حسن الجزا ناظرین کرام اس کے ساتھ ہی ہمارے آج کے اس program کے اختتام کا وقت ہوا چاہتا ہے۔ program کے اختتام پر خاکسار سیدنا حضرت اقدس مسیح موعود علیہ الصلاۃ والسلام کا ایک اقتباس پیش کرے گا۔ سیدنا حضرت اقدس مسیح موعود علیہ الصلاۃ والسلام فرماتے ہیں کذاب کی ہلاکت کے واسطے کا قسب بھی کافی ہے لیکن جو کام اللہ تعالی کے جلال اور اس کے رسول کی برکات کے اظہار اور ثبوت کے لیے ہوں اور خود اللہ تعالی کے اپنے ہی ہاتھ کا لگایا ہوا پودا ہو پھر اس کی حفاظت تو خود فرشتے کرتے ہیں کون ہے جو اس کو تلف کر سکے یاد رکھو میرا سلسلہ اگر میری دکانداری ہے تو اس کا نام و نشان مٹ جائے گا لیکن اگر خدا تعالی کی طرف سے ہے اور یقینا اسی کی طرف سے ہے تو ساری دنیا اس کی مخالفت کرے یہ بڑھے گا اور پھیلے گا اور فرشتے اس کی حفاظت کریں گے۔ اگر ایک شخص بھی میرے ساتھ نہ ہو اور کوئی بھی مدد نہ دے تب بھی میں یقین رکھتا ہوں کہ یہ سلسلہ کامیاب ہو گا۔ انشاءاللہ ملفوظات جلد آٹھ صفحہ ایک سو اڑتالیس ناظرین اس کے ساتھ ہی ہمارا آج کا program اختتام پذیر ہوتا ہے۔ انشاء اللہ تعالی اگلے episode میں خلافت احمدیہ کی اہمیت و برکات کے موضوع پر بات چیت کو آگے بڑھائیں گے۔ اجازت دیجیے السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ۔ آ ہو لوگوں کے یہی نور خدا پر گے تمہیں بتایا لوگوں کے یہی گے لو تمہیں کا بتایا

Leave a Reply