Ahmadi Muslim VideoTube Rahe Huda Rahe Huda 27 05 2023

Rahe Huda 27 05 2023



Rahe Huda 27 05 2023

Rahe Huda 27 05 2023

ناظرین آج ستائیس مئی سن دو ہزار تئیس عیسویں ہفتے کا دن ہے انڈیا میں اس وقت رات کے دس بجے ہیں اور جی ایم ٹی کے مطابق اس وقت سہ پہر کے ساڑھے چار بجے ہیں اور ناظرین یہ وقت ہے program راہ خدا کا ناظرین قادیان دار الامان سے program راہ ہدا کے چار episodes پر مشتمل سیریز کے چوتھے اور کے ساتھ ہم آپ کی خدمت میں حاضر ہیں ناظرین جیسا کہ آپ جانتے ہیں کہ program راہ خدا ایک live discussion program ہے اور live ہونے کے ساتھ ساتھ یہ program بھی ہے یہ program اس حوالے سے ہے کہ ہمارے ناظرین ہمارے ساتھ ہمارے اس program میں جڑ سکتے ہیں ہمارے ساتھ شامل گفتگو ہو سکتے ہیں یعنی ہم سٹوڈیو کے ساتھ ساتھ اپنے ناظرین کی فون calls کو کرتے ہیں ان کے سوالات کو سنتے ہیں اور یہاں سٹوڈیو علمائے کرام کے panel میں ان سوالات کو پیش کرتے ہیں اور ہمارے علمائے کرام اسی program کے ذریعہ ہمارے ناظرین کے سوالات کے جوابات دیتے ہیں ناظرین آپ ہم سے ٹیلی فون calls کے ذریعے رابطہ کر سکتے ہیں اسی طرح text messages fax messages اور ای میل کی سہولت بھی دستیاب ہے تو ناظرین اگر آپ ہم سے ہمارے اس program میں جڑنا چاہتے ہیں اور ہمارے ساتھ شامل گفتگو ہونا چاہتے ہیں اور اپنے سوالات کے جوابات حاصل کرنا چاہتے ہیں تو میں آپ کو یہ بتا دوں کہ ہماری ٹیلی فونز lines اب سے activated ہیں اور آپ اپنے ٹیلی vision screens پر ہم سے رابطے کی تمام تفصیل ملاحظہ فرما رہے ہوں گے ناظرین جیسا کہ خاکسار نے ابھی عرض کیا کہ قادیان دارالامان سے program راہ خدا کے جو چار episodes پر مشتمل سیریز نشر کی جاتی ہے آج کا episode اس سیریز کا آخری episode ہے ناظرین گزشتہ تین episodes میں ہم بانی جماعت احمدیہ سیدنا حضرت مرزا غلام احمد صاحب قادیانی علیہ الصلاۃ والسلام کی معرکۃ العاراء تصنیف حقیقت الوحی کے موضوع پر بات کر رہے تھے۔ آج کا یہ ستائیس مئی یوم خلافت کی مناسبت سے خلافت احمدیہ کی اہمیت و برکات کے موضوع پر نشر کیا جا رہا ہے۔ آج کے episode میں ہم خلافت احمدیہ کی اہمیت و برکات کے ساتھ ساتھ خلافت کی ضرورت اور اسی طرح عصر حاضر میں عام مسلمانوں کے خلافت سے محرومی کے باعث جو حالات ہیں اس کے بارے میں تذکرہ کریں گے۔ ناظرین آج کے اس میں خاکسار کے ساتھ جو دو علماء کرام موجود ہیں میں پہلے ان کا تعارف کروا دیتا ہوں محترم مولانا محمد حمید کوثر صاحب اور محترم مولانا شیخ مجاہد احمد شاستری صاحب آج کے اس program میں خاکسار کے ساتھ شامل گفتگو ہوں گے میں ہر دو حضرات کا اس program میں خیر مقدم کرتا ہوں ناظرین اللہ تعالی کے وعدوں کے مطابق رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات کے بعد عالم اسلام کو خلافت راشدہ کی صورت میں ایک ایسی عظیم نعمت میسر آئی جس کی مثال آپ کو تاریخ اسلام میں کہیں دیکھنے میں نہیں ملے گی۔ اور مسلمانوں نے نہ صرف روحانی طور پر بلکہ دنیاوی طور پر بھی ترقیات کے وہ منازل طے کیں۔ وہ سنگ میل عبور کیے جس کی مثال بھی ہمیں دیکھنے میں نہیں ملتی۔ ناظرین یہ دور اس عالم اسلام کا پہلا دور تھا۔ عالم اسلام کے اس آخری دور اور اس آخری زمانہ کے متعلق رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک پیش گوئی بیان فرمائی تھی۔ کہ تم میں نبوت ہوگی اور پھر خلافت اللہ منہاج النبوہ ہوگی۔ اور پھر آخر میں دوبارہ خلافت علیٰ منہاج النبوہ کا قیام ہوگا۔ ناظرین آج سے ایک سو چونتیس سال قبل قادیان کی اسی مقدس بستی میں اللہ تعالی نے اپنے پیارے حضرت مرزا غلام احمد صاحب قادیانی مسیح موعود و مہدی معود علیہ الصلاۃ والسلام کو امام آخر الزمان کی حیثیت سے مبعوث فرمایا تاکہ اسلام کو از سر نو زندہ کیا جا سکے اور دیگر ادیان پر غلبہ کا وعدہ بھی پورا ہو سکے ناظرین آپ علیہ السلام کی وفات کے بعد آپ کے اس کام کو جاری رکھنے کے لیے آپ کی جماعت میں اللہ تعالی کے وعدہ کے مطابق اور رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی پیش گوئی کے مطابق خلافت علی منہاج نبوت کا قیام ہوا ناظرین خلافت احمدیہ جو کہ حقیقی اسلامی خلافت ہے وہ آج دنیا میں اسلام کے کھوئی ہوئی عظمت اور کھوئی ہوئی عزت کو ازسر نو قائم کرنے کا کام کر رہی ہے ناظرین اس مختصر سی تمہید کے بعد خاکسار آج کے episode کا سب سے پہلا سوال محترم مولانا محمد حمید کوثر صاحب سے یہ پوچھنا چاہتا ہے کہ قرآن و حدیث کی روشنی میں خلافت کی اہمیت اور ضرورت پر کچھ روشنی ڈالنے کی درخواست ہے ناظرین کرام سب سے پہلے میں قادیان دارالامان سے عالم احمدیت کو ایک سو پندرویں یوم خلافت کی مبارکباد پیش کرتا ہوں.

00:06:29

اس دعا کے ساتھ کہ جو حضرت خلیفتہ المسیح خاں میں اید اللہ تعالی بن سن عزیز نے کل اپنے خطبہ مبارکہ میں یہ فرمایا. کہ اللہ تعالی آپ سب کو خلیفہ وقت کا سلطان نصیر بنائے. اس دعا ساتھ کہ اللہ تعالی اس بابرکت دن میں اس میں جو ہم دعائیں کریں اللہ تعالی ہم میں سے ہر ایک کو خلیفہ وقت کا سلطان نصیر بنائے اور ہم حضور کے مطیع اور فرمانبردار ہوں اور ایک غلام بنتے ہوئے غلامانہ طور پہ حضور کے ہر حکم پر عمل کرنے کی کوشش کرتے رہیں ناظرین کرام اللہ تعالی نے قرآن مجید میں سورہ نور میں ایک آیت آیت استخلاف کا ذکر فرمایا ہے سورہ نور اس صورت میں اس کو رکھنا یہ خود ایک بہت بڑا مفہوم اپنے اندر رکھتا ہے ظلمت میں نور ایک روشنی کا کام دیتا ہے آگے بڑھنے کا کام دیتا ہے اس میں آیت استخلاف رکھ کے یہ بتانا کہ امت محمدیہ اور مسلمان خاص طور پہ جب ظلمات کے اطاعت گہرائیوں میں چلے جائیں گے تو اللہ تعالی ایک نور کی کرن پیدا کرے گا اور وہ ہے خلافت آیت استخلاف میں اللہ تعالی نے مسلمانوں سے ایک وعدہ کیا تھا یا مومنوں سے ایک وعدہ کیا تھا کہ اللہ وعدہ کرتا ہے ان مومنوں سے جو کہ اعمال صالح مناسب حال عمل بجا لائیں گے وہ ان کو زمین میں خلیفہ بنا دے گا۔ یہ وعدہ ہے پیش گوئی نہیں ہے.

00:08:37

ایک تو ایمان, ایمان کے مطابق عمل صالحہ پھر یہ وعدہ اللہ کا پورا ہو گا یا استخلفا نہ ہو.

00:08:47

اگر یہ شرط نہیں ہو گی تو یہ وعدہ پورا نہیں ہو گا.

00:08:53

اب آپ دیکھیں کہ اللہ نے خلیفہ بنانا ہے اللہ نے جب شرط پوری ہو گی تو اللہ وعدہ پورا کر دے گا۔ اب ہم جب اس کا جائزہ لیتے ہیں.

00:09:11

سیدنا حضرت محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وسلم نے اس آیت کی مزید تشریف فرمائی.

00:09:20

حضور نے فرمایا کہ تم میں یہ جو میرا نبوت کا دور ہے یہ جاری رہے گا جب تک اللہ چاہے گا پھر اللہ اس کو اٹھا لے گا. یہ پہلی پیش گوئی تھی حضور نے جو فرمائی.

00:09:44

یکم ربیع الاول سن گیارہ ہجری کو یہ دور اپنے اختتام کو اس وقت پہنچا جب سیدنا حضرت محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات ہو گئی۔ اور یہ نبوت کا دور اللہ تعالی نے اٹھا لیا۔ حضور نے جو دوسرے دور کی پیش گوئی فرمائی پھر خلافت راشدہ کا دور شروع ہوگا اور وہ بھی اس وقت رہے گا جب تک مسلمان اپنی شرائط پوری کرتے رہیں گے تو اللہ تعالی وعدہ پورا کرتا رہے گا نہیں تو اللہ اس کو بھی اٹھا لے گا یہ دور حضرت محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات سے شروع ہوا یکم ربیع الاول سن گیارہ ہجری سے اس حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ تعالی عنہ پہلے خلیفہ راشد اللہ تعالی نے مقرر فرمائی.

00:10:52

یہ دور چلتا چلا گیا.

00:10:55

آپ کی خلافت دو سال رہی.

00:10:59

دس سال حضرت عمر رضی اللہ تعالی عنہ کی خلافت رہی.

00:11:04

بارہ سال حضرت عثمان رضی اللہ تعالی عنہ کی خلافت رہی. کم و بیش چھ سال حضرت علی رضی اللہ تعالی عنہ کی خلافت رہی.

00:11:15

اور یہ دور اس وقت اپنے اختتام کو پہنچا جب کہ بیس رمضان سن چالیس ہجری میں عبدالرحمن نامی شخص نے حضرت علی رضی اللہ تعالی عنہ کو خنجر مارا اور وہ آپ کی پیشانی پہ پڑا اور آپ ایک یا دو دن اس کے بعد زندہ رہے اور اس کے بعد وفات پا گئے لیکن اس کے ساتھ ہی بیس رمضان سن چالیس ہجری کو یہ دور بھی اختتام پر پہنچا تیسرے اور چوتھے دور میں رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کاٹنے والی ایک بادشاہت شروع ہو جائے گی حضرت علی رضی اللہ تعالی عنہ کی شہادت کے بعد بنو امیہ کا دور شروع ہوا جو خون خرابہ اس دور میں ہوا جنگ جمل ہوئی اور قتل و غارت ہزاروں مسلمان اس کے اندر شہید ہوئے اس کے بعد ملک جبریا زبردستی کی بادشاہت ٹھونس دینا بادشاہ بنو عباس کا زمانہ آیا بنو فاطمہ کا ایک لمبی تاریخ ہے اس کو دہرانے کی یہاں ضرورت نہیں آخر میں سیدنا محمد صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ پیش گوئی فرمائی نبوت کہ پھر یہ خلافت ایک شروع ہو گئی جو کہ منہاج منہاج کہتے طریق کو اس راستے کے مطابق, اس طریقہ کے مطابق جو نبوت سے ملتا ہے.

00:12:55

یعنی پہلے نبوت ہوگی. اس کے بعد اسی طریق پر آگے خلافت چلے گی. جیسے خلافت راشدہ تھی.

00:13:05

سن چالیس میں خلافت راشدہ کا دور ختم ہوا بارہ سو ساٹھ سال کے بعد چودھویں صدی کی ابتدا اٹھارہ سو بیاسی کی بات ہے کہ اللہ تعالی نے سیدنا حضرت مرزا غلام احمد قادیانی علیہ الصلاۃ والسلام کو مخاطب کرتے ہوئے فرمایا کہ وہی اللہ ہے جس نے اپنے رسول کو بھیجا ہدایت کے لیے تاکہ وہ دین کو دنیا پہ غالب کرے یا دین کے ہر حصے کو دنیا پہ غالب کر دے اب یہ ایک الہام ہے اور سورہ صف کی آیت بھی ہے حضرت مسیح ماؤد علیہ السلام نے اس کی تشریح اپنی کتاب تحفہ گولڑیہ میں اس طرح فرمائی کہ قرآن مجید ذوالوجوع ہے اور اس کا طریقہ یہ ہے کہ ایک ہی آیت وہ حضرت رسول کریم اللہ علیہ وسلم پہ بھی اطلاق پاتی ہے اور آپ کی بحث ثانیہ پہ بھی اطلاق پاتی ہے یعنی مجھ پر بھی پاتی ہے اٹھارہ سو بیاسی سے ایک رسالت کا سلسلہ شروع ہوا اور نبوت کا یہ ایک ذلی نبوت تھی ذلی رسالت تھی جو سیدنا محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وسلم کی متابعت اطاعت اور نیابت میں حضرت مرزا غلام احمد صاحب قادیانی کو اللہ تعالی نے عطا فرمائی تھی اٹھارہ سو اسی سے یہ شروع ہوئی انیس سو آٹھ تک جاری رہی کم و بیش چھبیس سال یہ نبوت کا سلسلہ جاری رہا اور اس کے بعد چھبیس مئی انیس سو آٹھ کو حضرت مسیح معود علیہ السلام کی وفات ہوئی اور ستائیس مئی انیس سو آٹھ کو تیرہ سو چھبیس کو چودھویں صدی کے چھبیسویں سال میں اللہ تعالی نے وہ وعدہ پورا کیا کی بات اور یہی قادیان کا قصبہ تھا یہاں سے کس فاصلے پر مقام ظہور قدرت ثانیہ ہے بہشتی مقبرہ کے احاطہ میں باغ حضرت مسیح ماؤعود علیہ السلام وہ کہلاتا ہے وہاں پر حضرت صاحبزادہ مرزا بشیر احمد صاحب نے اپنی کتاب سلسلہ احمدیہ میں لکھا کہ عام کے ایک درخت کے نیچے بیعت ہوئی ناظرین کرام یہاں پر یہ ایک بہت ہی باریک نقطہ ہے جو یہاں حضرت بشیر احمد صاحب نے اپنی اس کتاب میں لکھا کہ آم کے ایک درخت کے نیچے درخت کے لفظ کو ذرا ملحوظ ذرا غور کیجیے اس کے اوپر اللہ تعالی نے سورہ فتح میں بیت رضوان کے تعلق سے فرمایا اللہ ان سے راضی ہو گیا جنہوں نے تیرے ہاتھ پہ بیت کی درخت کے نیچے تحت شجرہ درخت کے نیچے بیت رضوان سن چھ ہجری میں صلح حدیبیہ کے موقع پر ہوئی اور اس آیت کا پہلا اور اول اخلاق وہ حضرت رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی بیعت رضوان پر ہوا اب سوال ہے کہ حضرت مسیح صاحب فرماتے ہیں قرآن مجید کے سات بتول ہیں اور قرآن مجید ذوالوجوع ہے کوئی ایک آیت ایک واقعہ سے تعلق نہیں اکثر ایک سے زیادہ دفعہ وہ جو ہے وہ ظاہر ہوتی ہے وہ صداقت اپنی ظاہر کرتی ہے حضرت صاحبزادہ مرزا بشیر احمد صاحب خاص طور پر فرماتے ہیں عام کے درخت کے نیچے اور یہ تحت شجرہ یا وہ بیت درخت کے نیچے یا یہ بیعت جس کے بارے میں اللہ تعالی نے فرمایا تھا بارہ سو آدمی نے یہاں حضرت مولانا نور الدین صاحب رضی اللہ تعالی عنہ کے دست مبارک پہ بیعت کی اور پھر حضرت رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی زبان مبارک سے نکلے ہوئے یہ الفاظ پورے ہوئے اس درخت کے نیچے ثم وہاں سے خلافت کا سلسلہ شروع ہوا اور ثم اس کے بعد حضور خاموش ہو گئے یہی وہ خلافت ہے جو قیامت تک چلے گی اب اور اسی کا ذکر حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے اپنے رسالہ الوسیت میں فرمایا ہے اب رہا سوال یہ کہ حضرت موود علیہ السلام کا دور جو نبوت کا دور تھا وہ تو چھبیس مئی انیس سو آٹھ کو اپنے اختتام پہ پہنچا اور حضرت معود علیہ السلام اپنی کتاب الوسیت میں فرماتے ہیں کہ تمہارے لیے دو قدرتوں کو دیکھنا ضروری ہے قدرت اولا نبوت کے زمانے کو کہا جاتا ہے یعنی حضرت مسیح موعود علیہ السلام کا چھبیس سالہ نبوت کا دور اس کے بعد آپ فرماتے ہیں قدرت ثانیہ قدرت ثانیہ کے پہلے مظہر حضرت مولانا نور الدین صاحب رضی اللہ تعالی عنہ تھے اور حضرت علیہ السلام وہاں فرماتے ہیں کہ دیکھو تاکہ دشمن کی دو جھوٹی خوشیوں کو پامال کر کے رکھ دے یہ آپ دور دیکھ لیں ایک سو پندرہ سال ہو گئے خلافت کو قائم ہوئے اللہ کے فضل سے کل بھی حضور نے ذکر فرمایا کہ کتنے ہی ابتلا آئے کتنے ہی سازشیں خلافت کے خلاف بنی اس کو ختم کرنے کے لیے بنی لیکن وہ خدا جس نے یہ کہا کہ استخلاف تو یہ خلافت تو میں قائم کروں گا۔ تم اللہ سے اوپر تو نہیں ہو جاؤ گے نا کہ اس کو ختم کر دو۔ جب یہ شرائط مومنوں کی طرف سے پوری ہوتی رہیں گی۔ وعدہ میری طرف سے پورا ہوگا۔ تم کون ہوتے ہو اس کو وعدہ کو ختم کرنے والے۔ اور یہ صداقت ہے اس اس بات کی کہ یہ جو کا وعدہ تھا یہ پورا ہوا۔ اب رہا سوال کہ قرآن مجید اور حدیث میں تو یہ باتیں بالکل واضح ہیں کہ یہ کی بات وہ پوری ہوتی ہوئی نظر آ رہی ہے.

00:20:11

اب رہا عالم اسلام یا مسلمان.

00:20:16

اس کا جواب اگلے ایک سوال میں بھی آجائے گا. یہاں پر صرف میں یہ عرض کرنا چاہتا ہوں. کہ آج جو مسلمان رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی اس بات سے انکار کر رہے ہیں.

00:20:32

آج ان کا انجام کیا ہے. اس کی تفصیل تھوڑی سی اگلے سوال میں آجائے گی.

00:20:39

لیکن ایک بات یاد رکھیں.

00:20:43

انی جاہلن فی العرض خلیفہ.

00:20:46

خلیفہ اللہ بناتا ہے انسان نہیں بناتا نبی اللہ بناتا ہے انسان نہیں بناتا اگر اس غلط فہمی میں شیطان اور ابلیس مبتلا کرتا ہے کہ یہ خود بخود بن گیا حضرت مرزا غلام احمد صاحب نے فلاں کے کہنے پر ایسا کر دیا فلاں کے کہنے پہ اگر ایسا کیا ہوتا فلاں تو یہاں سے چلا گیا تو اس کو بھی ختم ہو جانا چاہیے اس کی بقا اس کا استمرار خلافت کی بقا اس کی استمرا کس بات کی دلالت کر رہی ہے کہ یہ نظام اللہ کی طرف سے ہے اور اللہ تعالی نے ہی اس کو قائم اور دائم رکھا ہے اور رکھے گا جب تک کہ یہ شرائط پوری ہوتی رہیں گی اللہ تعالی کی طرف سے وعدہ بھی پورا ہوتا رہے گا اور جو لوگ اس نظام سے باہر رہیں گے اور اس کو اس سخت خوف کی نظر سے دیکھیں گے وہ اپنا انجام خود بھگتیں گے بھگت رہے ہیں اور سامنے سب کچھ آ رہا ہے اس کی کچھ تفصیل اگلے سوال میں آجائے گی ناظرین ہمیں اپنے ناظرین کی طرف سے ہی ایک offline سوال موصول ہوا ہے میں یہاں وہ سوال پڑھ کے سنا دیتا ہوں مکرم عندلیب یوسف صاحب کی طرف سے یہ سوال ہے کہ لاہوری گروپ کے متعلق کچھ تفصیل بیان کی جائے تو میں محترم مولانا محمد حمید کوثر صاحب سے درخواست کرتا ہوں کہ اختصار کے ساتھ اٹھائیس مئی انیس سو آٹھ کو حضرت مولانا نور الدین صاحب رضی اللہ تعالی عنہ کے دست مبارک پر بارہ سو افراد جماعت جو یہاں موجود تھے کم و بیش ان سب نے بیعت کی تھی اور اس میں وہ لوگ بھی شامل تھے جو انیس سو چودہ میں خلافت سے الگ ہو گئے اور یہ کہہ کے الگ ہوئے کہ اب خلافت کی ضرورت نہیں ہے سوال یہ جس کو شب ستائیس مئی انیس سو آٹھ کو تسلیم کیا آپ لوگوں نے کہ خلافت کی ضرورت ہے تب ہی تو مولانا نور الدین صاحب رضی اللہ تعالی عنہ کے بارے میں ان کے resolution انجمن کے آئے اور پھر اللہ تعالی نے مولانا نورالدین صاحب رضی اللہ تعالی عنہ کو خلیفہ بنایا چھ سال یہ لوگ جماعت کے ساتھ رہے حضرت خلیفۃ النس اول رضی اللہ تعالی عنہ کو انہوں نے بڑا پریشان بھی کیا لیکن حضرت خلیفتہ الوسی اول رضی اللہ تعالی عنہ ان کو برداشت کرتے رہے.

00:23:24

ان کو سمجھاتے رہے.

00:23:27

اندرونی طور پر ان کا ایک بغض اور کینہ تھا. وہ حضرت مرزا بشیر الدین محمود احمد صاحب رضی اللہ تعالی عنہ کے خلاف تھا. یہ نہیں چاہتے تھے کہ وہ خلیفہ بنے. اس لیے یہ سازشیں شروع ہوئیں.

00:23:42

تیرہ مارچ انیس سو چودہ کو حضرت مولانا نور الدین صاحب رضی اللہ تعالی عنہ کی قادیان کوٹھی دارالسلام میں وفات ہوگئی.

00:23:54

چودہ مارچ کو انتخاب ہونا تھا مسجد نور میں.

00:23:59

سب کو اطلاع دی گئی.

00:24:01

انہوں نے پہلے سے پمفلٹ تیار کر کے رکھے ہوئے تھے کہ وفات کے مان باز خلافت کا انتخاب نہیں ہونا چاہیے.

00:24:09

دو تین مہینے جماعت کو موقع دیا جائے. وہ سوچیں وہ کیا کرے? لیکن ان اب کم عقلوں کو کون سمجھائے? کہ بھائی انہی جاہلوں نے خلیفہ اللہ کہتا ہے خلیفہ میں بناتا ہوں. تم لوگ کون ہو بنانے والے? کیا تم لوگ کون فیصلہ کرنے والے ہو کہ نہیں بنانا? اللہ کے کام ہاتھ میں کیوں لے رہے ہو مسجد نور میں سارے احباب جمع ہوئے.

00:24:37

جتنے بھی موجود تھے.

00:24:39

یہ لاہوری گروپ جن کے اس وقت سربراہ جو تھے محمد علی صاحب تھے خواجہ کمال الدین صاحب تھے اور بھی تھے بارہا.

00:24:51

وہاں پر back زبان جتنے حاضرین تھے انہوں نے کہا کہ میاں بشیر الدین محمود احمد صاحب کو ہم خلیفہ بناتے ہیں اور حضور نے خلیفہ پہلے تو حضور نے تھوڑا تردد کا اظہار کیا لیکن بعد میں جب حضور نے دیکھا یہ اللہ کا فیصلہ ہے حضور نے اس کو قبول کیا اور بیعت لی یہ لوگ اس وقت الگ ہو گئے حضرت خلیفہ المسی ثانی رضی اللہ تعالیٰ نے انہوں کو بہت سمجھانے کی کوشش کی کہ ایسا نہ کریں ابھی تو چھ سال ہوئے ہیں وسیم حسن کی وفات کو اور آپ لوگوں نے یہ طرز اختیار کر لیا.

00:25:28

بہرحال نہیں مانے. وہی جو وہ کی حالت رہی. اور یہ لوگ قادیان چھوڑ کر چلے گئے. اور جاتے ہوئے یہ کہہ گئے. کہ اب یہاں پر الو بولیں گے. الو بولیں گے. یعنی اب اس کا اب ویرانی کے علاوہ اور کچھ بھی نہیں ہے.

00:25:47

مسجد مبارک کے نیچے وہ ایک دفتر ہے محاصب, محاسب آج بھی ہے وہاں پر.

00:25:53

یہ کے سیکرٹری تھے وہاں پہ سارا خزانہ ان کے پاس تھا سب کا سب لے کے چلے گئے چند آنے یعنی آج کا ایک روپیہ پچاس پیسے وہ وہاں چھوڑ گئے اور باقی سب لے کے چلے گئے جو کچھ تھا سب لے کے چلے گئے یہاں سے تو چلے گئے آج ایک سو پندرہ سال طے کر لیے دونوں جماعتوں نے انہوں نے بھی انہوں نے کہا اس وقت جماعت کی اکثریت ہمارے ساتھ ہے یہ دعوی کرتے رہے آج ایک پندرہ سال ہو گئے دیکھ لیں جو جماعت خلافت سے منسلک رہی اللہ تعالی نے اس کو کہاں سے کہاں پہنچایا اور جو لوگ خلافت کا انکار کر کے کہتے ہوئے چلے گئے اللہ تعالی نے ان کا نام و نشان ختم کر دیا اور اگر کہیں ہیں بھی تو بس وہ اب تشدت افترات اختلاف کا شکار ہیں اور ان کے پاس کچھ بھی نہیں ہے تو یہ ہے اس جماعت کے بارے میں مختص و تعارف باقی یہ ہے کہ ہمیں دعا کرنی چاہیے ان کے لیے بھی کہ اللہ تعالی ان کو ہدایت دے اور وہ خلافت جو ان کے اسلاف نے اختیار کی تھی اللہ تعالی ان کو اس خلافت کا مطیع اور فرمانبردار بنا دے کیونکہ اسی میں ان کی فلاح اور نجات ہے اس کے علاوہ اور کوئی راستہ صحیح نہیں جزاکم اللہ تعالی حسن الجزاء program کو آگے بڑھاتے ہوئے خاکسار کا اگلا سوال محترم مولانا شیخ مجاہد احمد شاستری صاحب سے یہ ہے کہ عصر حافظ میں کہ مادی دور میں جہاں لوگوں کی اکثریت خدا سے دور جا چکی ہے تو وہاں خلافت ہی ہے جو ان لوگوں کے لیے عافیت کا حصار ہے تو اس کے تعلق سے کچھ روشنی ڈالنے کی درخواست ہے جزاکم اللہ حسن الجزاء خلافت ہی مومنوں کے لیے عافیت کا حصار ہے اس حوالے سے چند باتیں عرض کرنی ہیں اس سوال کی بنیاد قرآن مجید کی یہی آیت آیت استخلاف ہے جو سورہ النور کی آیت نمبر چھپن ہے جس کی تفصیل سے ابھی محترم مولانا صاحب نے اس کی وضاحت بیان فرمائی اس میں اللہ تعالی نے تین باتوں کا ذکر خاص طور پہ کیا ہے اور عربی زبان کے قاعدے کے مطابق لام تاکید کے ساتھ اور نون سکیلا کے ساتھ بیان کیا ہے یعنی ان کے ہونے میں کسی قسم کا بھی کوئی شک نہیں ہے یعنی پوری شدت جو دی جا سکتی تھی وہ شدت دی ہے پہلے وعدے کی تفسیر ابھی آپ نے سماعت کی کہ اللہ تعالی نے یہ بیان فرمایا کہ جو ایمان لائیں گے اور اعمال صالحہ بجا لائیں گے تو اللہ تعالی خود ان میں خلافت قائم کرے گا وعدہ یہ بیان فرمایا کہ کہ ان کے لیے ان کے دین کی تمکنت ہوگی۔ اور تیسری بات یہ بیان فرمائی کہ ان کے خوف کی حالت کو اللہ تعالی امن میں تبدیل کرتا چلا جائے گا۔ یہ سوال کہ خلافت ہی مومنوں کے لیے عافیت کا حصار ہے۔ اس کا تعلق خوف آمنہ سے ہے۔ دیکھیں غور کریں کہ قرآن مجید کی یہ آیت اپنے آپ میں ہی یہ ثبوت پیش کرتی ہے کہ یہ خدا تعالی کا کلام ہے اگر بندوں کا کلام ہوتا تو بندوں کی ترتیب تو یہ ہوتی ہے کہ جب کبھی تفرقہ ہوتا ہے انتشار ہوتا ہے جھگڑا ہوتا ہے اس کے بعد تمکنت حاصل ہوتی ہے یعنی پہلے جھگڑے انتشار ہوتے ہیں اور اس کے بعد سکون اور امن کی حالت ہوتی ہے یہاں پر اللہ تعالی نے ترتیب کو بدل دیا ہے پہلے بیان فرمایا کہ ان کے دین کو تمکنت اختیار ہو گی پھر بیان فرمایا اس میں اس بات کی حکمت ہے اور اس طرف اللہ تعالی نے دراصل اشارہ کیا ہے کہ جب اللہ تعالی مومنین کو ایک ترقی دے گا تو اس ترقی کے نتیجے میں دشمن اپنے حسد کی وجہ سے اور دشمن اپنی جلن کی وجہ سے مومنین کے لیے پریشانی کے سامان پیدا کرے گا ان کے لیے خوف کے سامان پیدا کرے گا لیکن اللہ تعالی بیان فرما رہا ہے کہ باوجود اس کے کہ ایک خوف آئے گا دوسرے خوف کا دور آئے گا تیسرے کا دور آئے گا لیکن چونکہ خلافت کے زیر سایہ ہوں گے اور وہ خلافت کے ساتھ خدا تعالی کی سچی تائید اور نصرت ہوگی لہذا ان کی یہ حالت ایک کے بعد ایک تسلسل کے ساتھ امن میں بدلتی چلی جائے گی اور یہ عافیت کے اندر محفوظ رہیں گے لفظ عافیت اور حصار ہی اپنی ذات میں یہ بتا رہا ہے کہ حصار کہتے ہیں دائرے کو اور عافیت رہتے ہیں محفوظ رہنا یعنی کسی بھی طرح کی ذہنی جسمانی اور بلاؤں سے محفوظ رہنا تو قرآن مجید میں یہاں جو یہ بیان فرمایا ہے لفظ خوف نے یہ بتایا ہے کہ یہاں پر خوف اللہ تعالی کو نہیں ہے کسی قسم کا نہ اس کے بندہ اس کے رسول کو کوئی خوف ہے بلکہ یہ مومنین کے خلاف وہ جو خوف ہو گا یا مومنین کو جو خوف ہو گا تو اللہ تعالی اس حالت کو بدلتا چلا جائے گا چنانچہ ہم اس کی عملی شہادت دیکھتے ہیں کہ تاریخ اسلام کا مطالعہ آپ کر لیں خاص طور پر تاریخ احمدیت کا مطالعہ کر لیں کہ جب بھی مخالفین کی طرف سے خلافت مٹانے کے لیے چند احمدی مسلمانوں کو کسی بھی جگہ پہ کوئی target کر کے یا عالمی طور پر جماعتی طور پر یا کسی ملک میں اس کو target کر کر مٹانے کی کوشش کی گئی تو اللہ تعالی نے ترقیات کے ایک نئے دروازے کھول دیے مثلا تاریخ احمدیت میں انیس سو چونتیس کا دور ہے جب احرار نے پوری کوشش کی کہ ہم کسی طرح اس جماعت کو ختم کر دیا جائے اور بڑے نعرے لگائے کہ ہم قادیان کی اینٹ کو اکھاڑ کے دریا بیاس میں پھینک دیں گے لیکن آج وہ ختم ہو گئے یہاں سے اور اللہ تعالی نے اس کے نتیجے میں جماعت کو تحریک جدید جیسے عظیم الشان تحریک عطا فرمائی اور آج احمدیت اس کے نتیجے میں دنیا میں دو سو تیرہ ممالک میں پھیل گئی تو یہ خلافت کی عظیم الشان برکات تھے اسی وجہ سے یہاں پر اس بات پہ بھی ہمیں غور کرنا پڑے گا کہ تمکنت کے معنی کیا ہیں تمکنت کے معنی ہوتے ہیں استحکام غلبہ شوکت تو اب اسلام کو اگر استحکام غلبہ شوکت اور فروغ حاصل گا تو سچی خلافت کے ذریعے ہی ہوگا آپ تاریخ کا مطالعہ کر لیں پچھلے دو سو سال اگر ہم دیکھیں اسلامی تاریخ کے بہت سارے لوگوں نے کوشش کی کہ وہ خلافت کو قائم کریں اور ان میں بعض جید علماء تھے جو اپنے دور کے بڑے بڑے نام گنے جاتے ہیں جیسے سید قطب مسری صاحب ہو گئے جمال الدین افغانی وہ صاحب ہوئے اسی طرح ہمارے اس ہندوستان برصغیر میں ہی دیکھیں تحریک خلافت ایک بہت بڑی خلافت شروع ہوئی کہ خلافت کو کسی طرح ہم دوبارہ قائم کریں اس میں مولانا محمد علی جوہر صاحب مولانا شوکت ہے یہ وہ لوگ تھے جو اپنی ذات میں اثر و رسوخ رکھتے تھے لیکن ان کی وہ تمام کوششیں جو خلافت کے قائم کرنے کے لیے یہ لوگ کر رہے تھے کامیاب نہیں ہو سکیں وجہ اس کی یہی تھی کہ جو قرآن مجید نے بیان فرما دیا کہ خلیفہ بنانا تو اللہ تعالی کا کام ہے اور اس کی نشانی یہ بیان کر دی کہ اس کے ذریعے دین کو تمکنت حاصل ہوتی ہے اور مومنین کا جو خوف ہے وہ خوف کی حالت عمل میں بدلتی چلی جاتی ہے چنانچہ آپ کہ اس زمانے میں جو قدرت ثانیہ کے ذریعہ اللہ تعالی نے خلافت کا جو سلسلہ جاری کیا اور آج اس وقت خلیفۃ المسیح الخامث حضرت مرزا مسرور احمد صاحب بن اس العزیز کے ذریعہ اللہ تعالی اس خلافت کو آگے سے آگے بڑھاتا چلا جا رہا ہے بہت سے لوگ جو یہ سوچتے ہیں کہ احمدیہ خلافت کیا ہے دراصل یہ وہی خلافت ہے جو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی عظیم الشان پیش گوئیوں کے مطابق قائم ہوئی جس کی ابھی تفصیل محترم مولانا صاحب نے بھی اپنے سوال میں بیان فرما دی پس یہی وہ اب خلافت ہے جو تمام دنیا کے لیے عافیت کا حصار ہے اگر اب اس کو دیکھیں کہ کس رنگ میں یہ خلافت خامسہ کا ہی اگر میں دور لوں بابرکت دور تو آپ دیکھیں مہاجرین کے مسائل دنیا میں بے تحاشہ ہوئے حضور کے بروقت رہنمائی ہمارے سامنے ہیں پھر آپ دیکھیں کہ حضور نے بروقت ملکوں کے سربراہوں کو توجہ دلائی کہ عدل اور انصاف کا قیام کیا جائے اگر عدل و انصاف کا قیام نہیں کیا جائے گا تو اس کے نتیج انتشار تفرقہ اور بد امنی پھیلتی چلی جائے گی پھر اسی طرح غیر مسلموں کے خوف کو بھی حضور نے امن میں تبدیل کر دیا یعنی اسلام کے بارے میں جو ان کے خوف کی حالتیں تھیں وہ ان کے ذہن میں جو غلط شبہات تھے وہ اس بابرکت دور میں الگ ترتیب سے آہستہ آہستہ آہستہ حضور کی تقاریر کے ذریعہ خطوط کے ذریعہ کاوشوں کے ذریعہ دور ہوتے چلے جا رہے ہیں وقت کی رعایت سے صرف ایک واقعہ بیان کرنا چاہوں گا ہمارے حضور نے دو ہزار بارہ میں برسل میں european parliament سے خطاب فرمایا اس میں جو معززین شامل ہوئے ان میں سوئٹزرلینڈ کے ایک بشپ بھی شامل تھے جن کا نام ڈاکٹر ایمن ہوٹ صاحب تھا انہوں نے جو اپنے خیالات کا اظہار کیا وہ اس سوال کا مکمل جواب ہے چنانچہ وہ بیان کرتے ہیں حضور کے بارے میں کہ یہ شخص جادوگر نہیں لیکن ان کے الفاظ جادو کا سا اثر رکھتے ہیں لہجہ دھیمہ ہے لیکن ان کے منہ سے نکلنے والے الفاظ غیر معمولی طاقت شوکت اور اثر اپنے اندر رکھتے ہیں اس طرح کا جرات مند انسان ہیں میں نے اپنی زندگی میں کبھی نہیں دیکھا آپ کی طرح کے صرف تین انسان اگر اس دنیا کو مل جائیں تو آمنے عامہ کے حوالے سے اس دنیا میں حیرت انگیز انقلاب مہینوں میں نہیں بلکہ دنوں کے اندر برپا ہو جائے گا یہ ہے عافیت کا حصار جس کو غیر بھی محسوس کر رہے ہیں کہ غیر بھی کہہ رہے ہیں کہ اگر آپ جیسے تین آدمی بھی ہو جائیں تو مہینوں عام دنوں میں ہو جائیں گے اور دنیا عافیت کے حصار کے اندر محفوظ ہو جائے گی یہی وجہ ہے کہ ہمارے پیارے امام تمام دنیا کو اور عالم اسلام کو اور خصوصا احمدیوں کو بار بار توجہ دلا رہے ہیں کہ یہ قدرت ثانیہ خدا تعالی کا ایک عظیم الشان انعام ہے ہمیں اس کی قدر کرنی چاہیے اور اس سے وابستہ رہنی چاہیے چنانچہ حضور کے ہی الفاظ میں جو آپ نے گیارہ مئی دو ہزار تین کو پیش کیے اپنے سوال کو ختم کرتا ہوں حضور بیان فرماتے ہیں قدرت ثانیہ خدا کی طرف سے ایک بڑا انعام ہے جس کا مقصد قوم کو متحد کرنا اور تفرقہ سے محفوظ رکھنا ہے یعنی اگر قوم نے متحد ہونا ہے انتشار سے دور ہونا ہے فرقہ بازی سے دور ہونا ہے ایک لڑی میں پھرونا ہے تو پھر ایک ہی چارہ ہے قدرت ثانیہ حضور مزید فرماتے ہیں یہ وہ لڑی ہے جس میں جماعت موتیوں کی مانند پروئی ہوئی ہے اگر موتی ہوں تو نہ تو محفوظ ہوتے ہیں اور نہ ہی خوبصورت معلوم ہوتے ہیں ایک لڑی میں پھروے ہوئے موتی ہی خوبصورت اور محفوظ ہوتے ہیں اگر قدرت ثانیہ نہ ہو تو دین حق کبھی ترقی نہیں کر سکتا پس خلافت ہی مومنوں کے لیے عافیت کا حصار ہے اس کی عملی تصویر آج خلافت احمدیہ دنیا کے سامنے پیش کر رہی ہے اور تمام مسلمانوں سے میری مودبانہ درخواست ہے کہ یہی وہ سچی خلافت ہے جس کی خبر حضرت محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وسلم نے بیان فرمائی اور بتایا کہ کہ یہ منہاج نبوت پر قائم خلافت ہے لہذا وہ سوچیں تدبر کریں اور اس خلافت سے وابستہ ہوں جزاک اللہ جزاک اللہ تعالی حسن الجزاء program کو آگے بڑھاتے ہوئے محترم مولانا محمد حمید کوثر صاحب سے درخواست کرتا ہے کہ حقیقی اسلامی خلافت یعنی خلافت احمدیہ سے روگردانی کے نتیجہ میں جو مسلمانوں کی افسوسناک حالت کے بارے میں کچھ بیان فرمائیں۔ مسلمانوں کی افسوسناک حالت اور تکلیف دہ حالت اس کا جائزہ اگر لینا ہو تو قرآن مجید کی روشنی میں لیں گے تو زیادہ بہتر ہے.

00:38:40

اللہ تعالی نے قرآن مجید سورہ انبیاء میں یہ ذکر فرمایا.

00:38:53

اللہ تعالی فرماتا ہے کہ ہم نے پہلے زبور میں یہ بات لکھی تھی. اور کچھ نصیحتوں کے بعد ہم اب یہ قرآن میں بھی لکھ رہے ہیں.

00:39:04

کہ ارض مقدسہ یعنی فلسطین کے وارث میرے بندے ہوں گے.

00:39:10

اس کو ہم لے لیتے ہیں پہلے سب سے پہلے.

00:39:15

پھر اللہ تعالی کہتا ہے مسلمانوں کے بارے میں کہ تم ایک خیر امت ہو جن کو ہم نے لوگوں کے لیے نکالا ہے. پھر اللہ تعالی کا فرمان ہے کہ تم ہی غالب رہو گے اگر تم مومن ہو.

00:39:38

آپ دیکھیں کہ سن سترہ ہجری میں فلسطین کا جو علاقہ ہے اس کے اوپر حضرت عمر رضی اللہ تعالی عنہ کے زمانے میں انہوں نے خود یہ مسلمانوں کو دے دیا تھا کہ اب آپ یہ لے لو ہم نہیں سنبھال سکتے.

00:39:53

اور حضرت عمر رضی اللہ تعالی عنہ خود مدینہ سے یوروشلم تشریف لے کے گئے. اور جا کے انہوں نے وہ چابیاں ان کے حوالے کی کہ یہ آپ کو شرطیں ہیں ہماری وہ مان لیں اور یہ لے لیں کوئی قتل و جدال وہاں پر نہیں ہوا.

00:40:10

سن سترہ ہجری سے لے کے انیس سو اڑتالیس یا انیس سو چوبیس تک یہ فلسطین کا علاقہ مسلمانوں کے قبضے میں رہا ما سوا اس عرصے کے جو صلیبیوں کا کچھ عرصہ رہا بعد میں صلاح الدین ایوبی آیا اور اس نے اس کو چھڑایا اس کو ایک علامت کے طور پہ اللہ تعالی بیان کرتا ہے کہ وہی اس وارث ہوگا جو صالح ہوگا۔ مسلمانوں کے ہاتھوں سے نکلا۔ حضرت خلیفۃ النسی ثانیہ رضی اللہ تعالی عنہ انیس سو چوبیس میں القدس جس کو یوروشلم بھی کہتے ہیں وہاں تشریف لے گئے۔ وہاں ان کو متنبہ کیا مسلمانوں کو کہ دیکھو قرآن مجید کی بعض آیات ہیں کے بعض الہامات ہیں۔ اس زمین کے وارث صالحون اور اللہ کے نیک بندے ہی ہو سکتے ہیں۔ یہ مشروط ہے اس کے ساتھ۔ تم جس میں پڑے ہوئے ہو غلط فہمی میں پڑے ہو یہ غلط فہمی دور ہو جائے گی تمہاری اور وہی ہوا کہ وہاں پر انیس سو اڑتالیس میں یہ اسرائیل بنا اور یہ ان کے ہاتھ سے نکل گیا انیس سو انہتر میں ایک واقعہ یہ ہوا کہ وہاں پر جو مسجد اقصی جو تعمیر ہوئی بعد میں اس کو آگ لگ گئی اور وہاں پہ فلسطینیوں پہ بے حد ظلم ہوئے یہ مسلمان ملک جو پچاس سے زیادہ ہیں ان کے سربراہ مراکش رباط میں جمع ہوئے.

00:41:44

انیس سو انہتر کی بات ہے.

00:41:46

اس عزم کے ساتھ کہ ہم اس ارض فلسطین کو آزاد کروائیں گے. مسجد اقصی کو آزاد کروائیں گے.

00:41:55

سوال یہ ہے کہ تم پچاس سے زائد چھپن ہو اور رابطہ عالم اسلامی تم نے بنائی.

00:42:02

اگر تم العون ہوتے.

00:42:05

اگر تم صالحون ہوتے.

00:42:07

تو تم کو تو ارض مقدسہ واپس مل جانی چاہیے تھی.

00:42:11

اے ایک انچ نہیں تم لے سکے بلکہ الٹا انہوں نے تم سے اور لے لیا تمہارے وہاں روز قتل ہو رہے ہیں حضور نے بھی اپنے پچھلے ایک خطبے میں ذکر فرمایا کہ ان کو ذرا رحم نہیں آتا ان کے حالت دیکھیں آپس میں یہ لوگ کیسے لڑ رہے ہیں یہ ان کا کبریا ہے یہ ان کا تکبر ہے یہ خلافت احمدیہ کو معمولی سمجھتے ہیں یہ نہیں سمجھتے یہ اس کا انکار کی نحوستیں ہی ہیں جو تمہارے اوپر پڑی ہوئی ہیں اور ارض مقدسہ ان سے دور ہو گئی روزانہ وہاں قتل ہو رہے ہیں ان کو ٹس سے مس نہیں ہوتا ایک بیان کے علاوہ ان کو کچھ دینے کی طاقت نہیں ہے اور یہ ہے ان کی حالت وہ مسلمان تھے کہ حضرت عمر رضی اللہ تعالی عنہ کو بلا کے صلیبیوں نے عیسائیوں نے کہا یہ لے لیں ہم سے نہیں ہو سکے گا اس کا قبضہ آپ لے لیں یہ ہیں کہ ان کے ہاتھ سے کچھ بھی نہیں ہو سکتا اس لیے کہ نہ اسلام رہا نہ ایم رہا نہ صالحیت رہی اور یہ سارا ہوا انکار غلط اب لے لیں اس کے بعد ان کی سیاسی حالت اور جغرافیائی حالت پچھلے ہی عرصے میں دیکھیں کہ عراق میں کیا ہوا شام میں کیا ہوا افغانستان میں کیا ہوا یمن میں کیا ہو رہا ہے کتنا قتل و غارت ہو رہا ہے بوسنیا میں کیا ہوا یہ مسلمان ان کی کوئی حالت ہی نہیں یہ سربراہ کانفرنسیں ہوتی ہیں مگر کوئی کسی کا agent ہے کوئی کسی کے ساتھ ہوا ہے کوئی کسی کے ساتھ ملا ہوا ہے یہ ان کی سیاسی حالت بنی ہے اور مسلمان مر رہے ہیں ساٹھ فیصد مسلمان وہ ہیں ایک ارب اور ڈیڑھ ارب مسلمانوں میں سے جن کو دو وقت کا کھانا نہیں ملتا اور یہ حالت ان مسلمانوں کی بنی ہوئی ہے اب آپ دیکھیں ان کی دینی حالت بہتر فرقوں میں یہ تقسیم ہے عرض جو خانہ کعبہ اور حرمین اور سعودی عریبیہ ہے وہاں آج کل کیا کیا ہو رہا ہے میں اس program میں اس کی تفصیل بتانا نہیں چاہتا پڑوسی ان کے ممالک میں کیا ہو رہا ہے حالانکہ یہ سارے کے سارے وہ ہیں جو کہ قرآن مجید جانتے ہیں مگر خلافت سے دوری اس نے ان کو کہاں سے کہاں پہنچایا ہوا ہے خود آپ ہندوستان میں دیکھ لیں ان کی کیا حالت ہے پڑوسی ممالک لیں ان کے ساتھ کیا بن رہا ہے ایک چیز میں بھی یہ متحد نہیں کسی ایک چیز میں وضو تک میں یہ متحد نہیں اور اسی لیے سیدنا محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وسلم نے امام مہدی علیہ السلام کے بارے میں بتایا تھا وہ حکم اور عدل ہوگا عدل ہوگا وہ وہ جو فیصلہ کر دے گا اس کو ماننا پڑے گا ابھی دیکھیں کہ خلافت خامسہ میں حضرت خلیفتہ مسیح خامس ایز اللہ تعالی بن ذوالعزیز نے بدری کے بارے میں خطبات ارشاد فرمائے آپ یہ سارے خطبات سنیں تیرہ سو سال میں مسلمان لڑ رہے ہیں شیعہ سنی کہ یہ صحابی تھا یہ تابعی تھا یہ کافر تھا یہ مرتد تھا یہ منافق تھا وہ تین خلفاء کو ہی منافق کہہ رہے ہیں یہ ان کو کہہ رہے ہیں حضور نے حکم اور عدل کے خلیفہ ہونے کی حیثیت سے ہر صحابہ کا جو صحیح مقام تھا وہ بیان کر دیا سچے دل سے اگر اس کو مان لیں گے یہ شیعہ سنی اختلاف بالکل ختم ہو جائے گا اگر ان سارے خطبات کو غور سے پڑھیں بار بار پڑھیں سارے اختلافات ان کے آپس کے ختم ہو جائیں گے صحابہ کا مقام ان کے اوپر واضح ہو جائے گا جیسا کہ حضور نے بیان فرمایا بہرحال یہ مسلمانوں کو ایک بات اور کہتا ہوں دیکھیں خلافت ج کو ہم مان رہے ہیں.

00:46:24

کچھ اس کی علامتیں ہیں میں آپ کو بتاتا ہوں. جو قرآن مجید نے ہی بیان کی ہیں. اللہ تعالیٰ قرآن مجید میں فرماتا ہے.

00:46:34

سیدنا محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وسلم کو مخاطب کر کے اے محمد صلی اللہ علیہ وسلم تو ان سے صدقہ لیا کر۔ ان کو پاک کیا کر۔ آ تیری جو دعا ہے ان کے لیے باعث تسکین بنتی ہے حضرت محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وسلم کی بعثت ثانیہ کے مظہر ہیں حضرت مرزا غلام احمد صاحب قادیانی علیہ السلام ان کی قدرت ثانیہ کے پانچویں مظہر ہیں ہمارے حضرت صاحبزادہ مرزا مسرور احمد صاحب عالم احمدیت ان کو دعا کے لیے لکھتا ہے اور سینکڑوں ایسے احمدی ہوں گے اور اس وقت مجھے وہ واقعات بیان کرنے کا یہاں موقع نہیں ہے دو جلسہ سالانہ کے موقع پہ مجھے تقاریر کا اللہ تعالی نے موقع دیا وہاں یہ ساری تفصیل بیان ہوئی کہ کیسے اللہ تعالی کو کیسے احباب جماعت نے لکھا اور حضور رحیم اللہ تعالی بن العزیز کی طرف سے جواب آیا اور کیسے اللہ تعالی نے اس دعا کو قبول کیا باعث تسکین ہوتا ہے حضور نے ان چودہ میں دو ہزار چودہ میں جرمن میں جو جلسے میں تقریر فرمائی حضور نے فرمایا میں تصور کی آنکھ سے اپنے سونے سے پہلے دنیا کے ہر ملک میں احمدی افراد کو اپنے تصور میں لا کے ان کے لیے دعا کر رہا ہوں کون خلیفہ یہ دعا کرے گا کون ہستی عالم اسلام میں ہے جس کو یہ سر دردی پڑی ہوئی ہے رشتوں کی فکر وہ خلیفۃ المسیح کو ہے تعلیم کی فکر وہ خلیفۃ المسیح کو ہے قرآن مجید تراجم کروا کے دنیا تک پھیلانے کا وہ فکر خلیفتہ المسیح کو ہے بیماروں کی شفایابی کے لیے دعا اس کا فکر خلیفتہ المسیح کو ہے دنیا میں امن سکون قائم کروانے کے لیے وہ فکر وہ خلیفتہ المسیح کو ہے ہر خطبے میں تقریبا حضور فرماتے ہیں دنیا میں امن امان کے لیے دعا کریں کہ اللہ تعالی ان کو ہدایت دے وہ عافیت کا حصار وہ اللہ تعالی کا وجود ہی ہے اور اس کی طرف نشاندہی کرتا ہمارے خلیفۃ المسی العزیز اور آخری بات ایک کہہ کے ختم کرتا ہوں مسلمانوں کی بدترین حالت بدترین حالت کی وجہ یہ ہے کہ اللہ تعالی نے سیدنا محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے بارے میں فرمایا تھا وہ ان کو پاک کرتا ہے مسلمانوں کی کوئی روحانی تربیت نہیں کوئی دینی تربیت نہیں ہے ان کی قطعا نہیں ہے جو خطبے دیتے ہیں وہ ان کی حکومتیں لکھ کے دیتی ہیں اتنا ہی دینا ہے تم نے کوئی ان کی تربیت نہیں اس کا نتیجہ کیا ہے کہ وہ مسلمان جس کو مسلم کہا گیا تھا جو کہ ایک سلامتی دینے والا تھا آج دہشت گرد کے نام سے جانا جاتا ہے اس کی وجہ یہ اخلاق نام کی چیز ہی نہیں رہی تخلق با اخلاق اللہ کہ اللہ کے اخلاق اور صفات انہی کے اندر پیدا ہونے تھے تب ہی یہ خیر امت بننی تھی مقارم الاخلاق پیدا کرنے کے لیے رسول پاک صلی اللہ علیہ وسلم تشریف لائے وہ اخلاق نام کی چیز ہی ان مسلمانوں میں نہیں ہے ان کے تصرفات دیکھ لیں آپ کہیں پہ بھی کوئی ان کو ساتھ بٹھا کے تیار نہیں ہے وہ جس کو اللہ نے کہا خیر امت آج وہ اتنی گری ہوئی امت کیوں بن گئی وہ یہی کہ نہ ان کا کوئی تزکیہ کرنے والا ہے نہ تطہیر کرنے والا ہے نہ کوئی ان کے اخلاق سنوارنے والا ہے اس کے بالمقابل آپ جماعت احمدیہ دیکھیں حضرت خلیفہ ہر جمعہ میں خطبہ دیتے ہیں۔ ساری دنیا اس وقت اپنے کام چھوڑ کے حضور کے خط پہ چل رہی ہوتی ہے۔ ایک ایک لفظ وہ تطہیر کا کام دیتا ہے۔ اور یہی اللہ تعالی نے قرآن مجید میں فرمایا یہ وہ خطبہ ہے جو روحانی حیات دیتا ہے زندگانی دیتا ہے اور یہ ہر احمدی محسوس کرتا ہے جس سے یہ مسلمان محروم ہے جس کی وجہ سے ان کے اخلاق بدترین اخلاق روحانیت نام کی چیز کوئی نہیں آپس میں نامودت ہے نہ محبت ہے یہ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ مومن کی مثال تو ایک جسم کی ہے ایک عضو کو تکلیف ہو سارا جسم بخار میں مبتلا ہو جاتا ہے تو پرواہ ہی نہیں کہ کوئی بھوکے مر رہے ہیں ساٹھ فیصد مسلمان ان کو تو کون سا اسلام کونسا ایمان یہ سبب ہے خلافت سے دوری تو ان کو آخری نصیحت یہی ہے کہ خلافت کی طرف آؤ صدق سے میری طرف آؤ اسی میں خیر ہے ہے درندے ہر طرف میں ہوں عافیت کا حصار عافیت کا حصار صرف خلافت کا اثر حاضر میں خلافت کا وجود ہے ان کے ساتھ منسلک ہو جائیں جتنی بھی ان ہیں اللہ تعالیٰ اپنے فضل سے وہ دور کر دے گا مصیبتوں کو دور کرنے والا وہ مالک کائنات ہے جس نے ایک خلیفہ کو قائم کیا ہے آپ اگر اس کو نہیں مانیں گے مالک کائنات تمہاری مصیبتیں دور نہیں کرے گا اللہ تعالیٰ ان کو سمجھ اور فہم عطا فرمائے کہ یہ خلافت کے حصار میں آجائے جزاکم اللہ تعالی حسن الجزا ناظرین ہمارے ساتھ ہمارے اس program میں ایک ٹیلی فون کالر جڑے ہیں ہم ان کا سوال سن لیتے ہیں بنگلہ دیش سے عارف الزمان صاحب اس وقت ہمارے ساتھ لائن پر موجود ہیں۔ مکرم عارف الزمان صاحب السلام علیکم ورحمتہ اللہ۔ جی السلام علیکم ورحمۃ اللہ میری آواز جی عارف عزمان صاحب آپ اپنا سوال پیش کریں غالبا ان سے رابطے میں کچھ دقت پیش آ رہی ہے تو میں program کے تسلسل میں اگلا سوال محترم مولانا شیخ مجاہد احمد شاستری صاحب سے یہ پوچھنا چاہتا ہے کہ اللہ تعالیٰ کے فضل سے صرف جماعت احمدیہ ہی ایک ایسی جماعت ہے جو حقیقی اسلامی خلافت جس میں قائم ہے اور اس خلافت کو قائم ہوئے اس وقت ایک سو پندرہ سال گزر چکے ہیں اور ہم یہ بھی دیکھتے ہیں کہ دوسرے بہت سے ایسے فرقے تھے جنہوں نے خلافت قائم کرنے کی ناکام کوششیں کی جیسے کہ آپ نے بھی اپنے پہلے سوال کے جواب میں اس کا مختصرا ذکر فرمایا تھا تو وقت کی رعایت سے اس بارے میں کچھ بیان فرمانے کی درخواست ہے جزاکم اللہ احسن الجزا سورہ النور کی آیت چھپن اس program کا خاص محور ہے اور بنیادی نقطہ ہے اس میں اللہ تعالی نے خاص طور پہ یہ بیان فرمایا ہے کہ خلافت کا قائم کرنا اس کی ذمہ داری ہے اور یہ وعدہ ہے ان مومنوں کے ساتھ جو ایمان لائیں اور اعمال صالحہ بجا لیں پھر اس سچی خلافت کی کچھ نشانیاں بیان کر دی ہیں کہ دیکھو بہت سارے دعویدار اٹھیں گے وہ کوششیں کریں گے کہ خلافت بنانے کی ان کی طرف سے تجاویز صحیح ہوں گی لیکن جو سچی خلافت ہوگی جو اللہ تعالیٰ کی طرف سے قائم کردہ ہوگی اس کی نشانی یہ ہوگی کہ اس کے ذریعہ دین کو تمکنت حاصل ہوگی دوسرا اس کے ذریعہ مومنین جو ہیں خوف سے امن میں آتے چلے جائیں گے اور اس کی اتنی زیادہ اہمیت ہے کہ جو شخص اس کو نہیں مانتا کے الفاظ آتے ہیں کہ وہ فاسق ہو جاتا ہے اس آیت کی کچھ وضاحت آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی احادیث مبارکہ میں ملتی ہے جس کا ذکر program میں ہو چکا کہ خلافت اسلام میں جو نبوت جاری ہوئی اس کے بعد پھر خلافت علی منہاج نبوت جاری ہوئی پھر اس کے بعد کا دور آیا پھر اس کے بعد ملک کا دور آیا اور آخر میں پھر آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ بیان فرمایا یہ مشہور ہے جو اکثر جگہ بیان ہوتی ہے اس میں یہ بیان کیا گیا کہ جو آخری وقت میں خلافت ہوگی وہ منہاج نبوت پر ہوگی یعنی لوگ اگر ازخود یہ کوشش کریں کہ وہ اس کو خلیفہ بنا لیں یا تحریک کر کے کامیاب ہو جائیں تو وہ کامیاب نہیں ہو سکتے شروعات میں بھی آیت میں بتایا گیا اس حدیث میں یہ بیان کیا گیا کہ نبوت کے بعد ہی خلافت شروع ہوتی ہے اور حضرت مسیح موعود علیہ الصلاۃ والسلام بانی جماعت احمدیہ کو اللہ تعالی نے جو مقامی مقام ذلی نبوت کا عطا فرمایا اس کے بعد ہی یہ خلافت کا تسلسل شروع ہوا۔ لہذا وہ لوگ جو امام مہدی علیہ السلام کو آنے والے مود کو اس مقام کو اس کے نہیں مانیں گے ان کے نزدیک پھر خلافت کی بھی کوئی اہمیت نہیں رہ جاتی۔ تاریخ ہمیں یہ بتاتی ہے کہ آپ تسلسل سے دیکھتے چلے جائیں کہ جب منہاج نبوت سے ہٹ کر خلافت کو قائم کرنے کی کوشش کی گئی تو وہ تحریک کبھی بھی کامیاب نہیں ہوئی۔ اس کے لیے بہت ساری کوششیں برصغیر میں بھی ہم نے نام دیکھے۔ اور ابھی کچھ پہلے اگر ہم دیکھ لیتے دولت اسلامیہ عراق اور شام میں ایک حکومت کی طرف سے تحریک اٹھی کہ ہم خلافت کی کو قائم کرنا چاہ رہے ہیں اور وہ خلافت تو لاشوں کے ڈھیر پر قائم انہوں نے کر کے دکھائی قرآن مجید تو کہتا ہے کہ سچی خلافت یہ ہے جو خوف کی حالت کو امن میں بدل دے اور اس خلافت نے تو امن کی حالت کو خوف میں ہی بدل دیا چنانچہ ہمارے پیارے آقا نے ایک بار ایک سوال کے جواب میں بیان فرمایا کہ خلافت کیا ہے اور جو تحریکیں اٹھ رہی ہیں یا اٹھ اٹھیں گی اس کا کیا انجام ہو گا حضور بیان فرماتے کہ جو خلافت خلافت کا نعرہ لگاتے ہیں کیا ایسے لوگوں کو خدا تعالی زمین میں خلافت دے کر اپنا جانشین بنانے والا ہے وہ خدا جو رحمان خدا ہے کیا وہ ظلم و ظالموں کا مددگار ہوگا خلافت تو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی پیش گوئی کے مطابق مسیح موت کے ذریعے جاری ہونی تھی جو اللہ تعالی کی تائید ونصرت سے جاری ہو گئی اس کے علاوہ ہر خلافت کا نعرہ دین کے نام دنیاوی فوائد حاصل کرنے اور حکومتوں پر قبضہ کرنے کے طریق ہیں پھر حضور بیان فرماتے ہیں کہ گزشتہ جمعہ یہاں ایک ٹی وی چینل والے آئے تھے ان کو میں نے انٹرویو میں یہی کہا تھا کہ جس خلافت کو تم سمجھ رہے ہو جاری ہونی ہے یہ کوئی خلافت نہیں خلافت جاری ہو چکی اور ظلم سے نہیں وہ اللہ تعالی کی تائید سے جاری ہونی تھی اور ہو گئی کاش کہ امت کو اس کی سمجھ آجائے اور ان کے آپس کے جھگڑے اور فساد اور حکومتوں کے کھینچا تانیاں ختم ہو جائیں پس یہ ہے خلافت احمدیہ سے ہٹ کر جو دیگر کوششیں ہو رہی ہیں قرآن مجید کی اس آیت نے ان کی صاف طور پر بتا دیا کہ یہ وہ کوششیں ہیں جو کبھی بھی کامیاب نہیں ہو سکتیں اور حقیقت ہے کہ مسلمان دانشوروں میں سے بھی بہت سے ایسے لوگ ہوئے جنہوں نے کھلے الفاظوں میں یہ بیان کیا کہ آج ہماری جو یہ حالت ہو رہی ہے اس کی بنیادی وجہ ہی یہی ہے کہ ہم خلافت سے دور چکے ہیں اور خلافت سے ہمارا کوئی واسطہ نہیں رہا چونکہ ہندوستان میں یہ پروگرام ہے ہندوستان کے ایک عالم ہیں ڈاکٹر راشد شاہ صاحب وہ اپنی کتاب ہندوستانی مسلمان ایام گزشتہ کے پچاس سال میں تحریر کرتے ہیں اپنی حالت بیان کرتے ہیں کہ جب سے خلافت کا ادارہ تباہ ہوا ہے مجھے ایسا لگتا ہے جیسے میں نو مینز لینڈ میں آ پڑا ہوں نہ میرا کوئی ملک ہے نہ شہریت میں جس نظام کا حصہ تھا اور جس ملک کی شہریت اختیار کر رکھی تھی وہ اب اس دنیا میں نہیں رہا میرے پیر تلے سے زمین نکل چکی ہے میں خود کو ہر لمحہ ہوا میں معلق محسوس کرتا ہوں یہ وہ لوگ ہیں جو تدبر نہیں کرتے کہ خلافت تو جاری ہو چکی جیسا کہ حضور نے بیان فرمایا کہ وہ مسیح موعود کے ذریعے جاری ہو چکی تھی لیکن یہ اپنے خیالات میں یہ بیٹھے ہوئے ہیں کہ شاید یہ خلیفہ خود بنا لیں گے حالانکہ ایک بنیادی سوال ہے کہ اگر خلیفہ یہ لوگ بنانے لگے تو یہ جھگڑے شروع ہو جائیں کہ دیوبندیوں میں سے بنے گا کہ وہابیوں میں سے بنے گا یا اہل حدیث میں سے بنے گا یا بریلویوں میں سے بنے گا یہ اسی جھگڑوں سے باہر نہیں نکل سکتے تو خلافت سے قائم کریں گے بس حقیقت یہی ہے کہ اللہ تعالی نے جو آیت استخلاف میں بیان فرمایا کہ خلیفہ قائم کرنا بنانا اس کا ذمہ داری ہے اور وہی خلیفہ بناتا ہے اس لیے جو بھی تحریکیں اٹھیں انہوں نے سوائے اس کے کہ اسلام کی تاریخ میں ایک ناکامی کا داغ ظاہر کیا اس کے علاوہ اس کی اور کوئی حیثیت نہیں ہے حسن الجزا ناظرین اکرام بنگلہ دیش سے مکرم عارف الزمان صاحب کا سوال ہمیں بذریعہ text message موصول ہوا ہے میں وہ سوال پڑھ کر سنا دیتا ہوں آپ سوال کرتے ہیں کہ خلافت منانے کی کیا غرض و غایت ہے تو براہ کرم اس کی تفصیل فرمانے کی درخواست ہے میں شیخ مجاہد احمد صاحب شاستری سے درخواست کرتا ہوں کہ ایک آدھ منٹ میں اس کا جواب یوم خلافت کی ابتدا جماعت احمدیہ میں ستائیس مئی انیس سو آٹھ سے ہوئی اور اس کی غرض و غایت دراصل یہ ہے کہ انسان جو ہے اس کی بقا دائمی نہیں ہوتی بلکہ اس کو وفات آتی ہے چاہے وہ نبی ہو یا خلیفہ ہو یا جو بھی ہو دیکھیں خدا تعالیٰ کی طرف سے جب اس کو کوئی کام دیے جاتے ہیں اللہ تعالیٰ کی طرف سے تو اس کو تسلسل اگے بیان کرنے کے لئے وہ خلافت کا نظام جاری کیا جاتا ہے اور خلفاء کے ذریعہ وہ شریعت اور تعلیم آگے سے آگے پہنچائی جاتی ہے اسی لئے یوم خلافت کے دن خاص طور پر نئی نسلوں کو اور دیگر وہ لوگ جو اس کو نہیں مانتے خلافت کی اہمیت بتانے کے لئے اس دن کا انعقاد کیا جاتا ہے جزاکم اللہ تعالی حسن الجزا ناظرین اس کے ساتھ ہی ہمارے آج کے اس program کے اختتام کا وقت ہوا چاہتا ہے program کے اختتام میں خاکسار سیدنا حضرت اقدس مسیح معود علیہ الصلاۃ والسلام کا ایک اقتباس پیش سیدنا حضرت اقدس مسیح موعود علیہ الصلاۃ والسلام فرماتے ہیں مجھے بھیجا گیا ہے تاکہ میں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی کھوئی ہوئی عظمت کو پھر قائم کروں اور قرآن شریف کی سچائیوں کو دنیا کو دکھاؤں اور یہ سب کام ہو رہا ہے لیکن جن کی آنکھوں پر پٹی ہے وہ اس کو دیکھ نہیں سکتے حالانکہ اب یہ سلسلہ سورج کی طرح روشن ہو گیا ہے اور اس کی آیات و نشانات کے اس قدر لوگ گواہ ہیں کہ اگر ان کو ایک جگہ جمع کیا جائے تو ان کی تعداد اس قدر ہو کہ روئے زمین پر کسی بادشاہ کی بھی اتنی فوج نہیں اس قدر صورتیں اس سلسلہ کی سچائی کی موجود ہیں کہ ان سب کو بیان کرنا بھی آسان نہیں چونکہ اسلام کی سخت توہین کی گئی تھی اس لیے اللہ تعالی نے اسی توہین کے لحاظ سے اس سلسلہ کی عظمت کو دکھایا ہے ملفوظات جلد پانچ صفحہ چودہ ایڈیشن انیس سو چوراسی عیسوی ناظرین اس کے ساتھ ہی ہمارا آج کا یہ پروگرام اختتام پذیر ہوتا ہے انشاءاللہ تعالی کسی اور موضوع پر آئندہ اگلی سیریز کے ساتھ آپ کی خدمت میں حاضر ہوں گے اجازت السلام علیکم ورحمة اللہ وبرکاتہ آ لوگوں کے یہی نور خدا گے تمہیں بتایا کے یہی نور خدا پاک گے تمہیں کا بتایا

Leave a Reply