Ahmadi Muslim VideoTube Rahe Huda Rahe Huda 13 05 2023

Rahe Huda 13 05 2023



Rahe Huda 13 05 2023

Rahe Huda 13 05 2023

ورحمتہ اللہ وبرکاتہ ناظرین آج تیرہ مئی سن دو ہزار تئیس عیسویں ہفتے کا دن ہے انڈیا میں اس وقت رات کے دس بجے ہیں اور جی ایم ٹی کے مطابق اس وقت سہ پہر کے ساڑھے چار بجے ہیں اور ناظرین یہ وقت ہے program راہ ہدا کا ناظرین قادیان دارالامان سے program راہ ہدا کے چار پر مشتمل سیریز کے دوسرے کے ساتھ آج ہم آپ کی خدمت میں حاضر ہیں ہمارے regular viewers یہ بات جانتے ہیں کہ program راہ خدا ایک live discussion program ہے اور live ہونے کے ساتھ ساتھ یہ program بھی ہے یہ program interactive اس حوالے سے ہے کہ ہمارے ناظرین ہمارے ساتھ ہمارے اس program میں جڑ سکتے ہیں ہمارے ساتھ شامل گفتگو ہو سکتے ہیں یعنی ہم سٹوڈیو discussion کے ساتھ ساتھ اپنے ناظرین کرام کی فون calls کو attend کرتے ہیں ان کے سوال سنتے ہیں اور یہاں سٹوڈیو میں موجود علماء کرام کے پینل میں ان سوالات کو پیش کرتے ہیں اور ہمارے علمائے کرام اسی پروگرام کے ذریعہ ہمارے ناظرین کے سوالات کے جوابات دیتے ہیں ناظرین آپ ہم سے ٹیلی فون لائنز کے ذریعے رابطہ کر سکتے ہیں اسی طرح text messages fax messages اور ای میل کی سہولیت بھی دستیاب ہے ناظرین اگر آپ ہم سے ہمارے اس program میں جڑنا چاہتے ہیں اس program میں شامل ہونا چاہتے ہیں اور اپنے سوالات کے جوابات حاصل کرنا چاہتے ہیں تو میں آپ کو یہ کہ ہماری ٹیلی فونز lines اب سے activated ہیں اور میں یہ امید کرتا ہوں کہ آپ اپنی ٹیلی vision screens پر ہم سے رابطے کی تمام تفصیل ملاحظہ فرما رہے ہوں گے ناظرین جیسا کہ خاق صاحب نے ابھی عرض کیا کہ قادیان دارالامان سے program راہ خدا کے جو چار episodes پر مشتمل سیریز نشر کی جاتی ہے آج اس سیریز کا دوسرا episode episode ہے گزشتہ episode کی طرح اس episode میں بھی اور آئندہ نشر کیے جانے والے تیسرے episode میں بھی ہم حضرت اقدس مسیح معود علیہ الصلاۃ والسلام کی معرکۃ العاراء تصنیف حقیقت الوحی کے موضوع پر بات چیت کریں گے۔ بانی جماعت احمدیہ مرزا غلام احمد صاحب قادیانی علیہ السلام نے اس تصنیف میں جو حقائق اور معرف کی باتیں بیان کی ہیں ان کا تذکرہ کیا جائے گا۔ اس سیریز کا چوتھا episode مورخہ ستائیس مئی دو ہزار تئیس عیسوی کو یوم خلافت کی مناسبت سے خلافت احمدیہ کی اہمیت و برکات کے موضوع پر نشر ہوگا۔ ناظرین آج اس program میں خاکسار کے ساتھ جو دو علماء کرام موجود ہیں میں ان کا تعارف کروا دیتا ہوں محترم مولانا منیر احمد صاحب خادم اور محترم مولانا شیخ مجاہد احمد صاحب شاستری آج کے اس program میں خاکسار کے ساتھ شامل گفتگو ہوں گے میں ہر دو حضرات کا اس program میں خیر مقدم کرتا ہوں ناظرین آج دنیا میں مسلمان کہلانے والوں کی بڑی اکثریت اس قسم کے لوگوں کی ہے جو صرف اس وجہ سے مسلمان کہلاتے ہیں کہ ان کے آباؤ اجداد بھی یہی عقائد رکھتے ہیں اور وہ خود بھی مسلمان پیدا ہوئے ہیں لیکن سچ بات یہ ہے کہ نتائج کے لحاظ سے ایسا ایمان بہت کم اہمیت رکھتا ہے ایسا ایمان وہ نتائج ہرگز پیدا نہیں کر سکتا جو انبیاء پر ایمان لانے کے نتیجہ میں مرتب ہوتے ہیں خواہ وہ روحانی جو ہے تبدیلی کے لحاظ سے ہوں یا پھر وہ اعمال کی اصلاح کے لحاظ سے ہوں یا وہ علمی ترقیات کے لحاظ سے ہو اور یہ بات عملا ہمارے سامنے ہے جس کے لیے ہمیں کسی بھی تفصیلی ثبوت کی ضرورت نہیں ہے درحقیقت ایمان تب ہی ایمان کہلا سکتا ہے جب وہ مضبوط اور حقیقی بنیادوں پر قائم ہو اور ایسے شواہد اور آثار کا نتیجہ ہو جن پر کسی قسم کا سوال نہیں ہو سکتا یا جن کو تبدیل نہیں کیا جا سکتا صرف ایسا ہی ایمان حقیقی روحانی تبدیلی اور دیگر نتائج کا باعث بن سکتا ہے ناظرین کرام آج کے episode میں ہم سیدنا حضرت اقدس مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کی زندگی کے مختلف پہلوؤں کے تعلق سے بات چیت کریں گے آپ پر آنے والے مختلف حالات کا تذکرہ کیا جائے گا اور اس بات کا بھی تذکرہ کیا جائے گا کہ کس رنگ میں اللہ تعالی نے آپ کی تائید و نصرت فرمائی اور کس رنگ میں اللہ تعالی ہر آن آپ کے ساتھ آپ کا شامل حال رہا تو ناظرین آج کے episode کا سب سے پہلا سوال خاکسار محترم مولانا منیر احمد صاحب خادم سے پوچھنا چاہتا ہے کہ قرآن کریم کی جو آیات ہجرت کو حضرت اقدس مسیح معود علیہ الصلاۃ والسلام نے اپنی صداقت کے طور پر پیش کیا ہے اس کی کچھ وضاحت بیان فرمائیں۔ بسم اللہ الرحمن الرحیم قرآن مجید میں اور احادیث میں بہت سی نشانیاں بیان کی گئی ہیں.

00:06:28

جو آنے والے امام مہدی اور مسیح معود کے متعلق ہیں.

00:06:38

قرآن مجید کی جو اس دور میں عظیم الشان تفسیر سیدنا حضرت اقدس مسیح موت علیہ الصلاۃ والسلام نے اللہ تعالی کے حکم سے پیش فرمائی اللہ بلکہ اللہ تعالی کے الہام سے پیش فرمائی اس میں آپ نے ان آیات کو کے بارے میں یہ فرمایا کہ یہ قرب قیامت کے زمانہ میں جب کہ امام مہدی اور مسیح موعود کا ظہور ہوگا یہ نشانیاں اس کی سچائی اور اس کی کے لیے اللہ تعالی ظاہر فرمائے گا چنانچہ جیسا کہ ابھی آپ نے ذکر کیا ہے یہ یہ آیت کہ صحیفے نشر کیے جائیں گے.

00:07:22

حضرت مسیح علیہ الصلاۃ والسلام سے پہلے جتنے بھی مفسرین تھے چونکہ وہ الہام الہی کی روشنی میں نہیں جو اب اس دور کے بعد مفسرین کی میں بات کر رہا ہوں اس سے پہلے کئی الہام الہی کی روشنی میں بھی بعض تفاسیر لکھی گئی ہیں لیکن اس دور میں جو اسلام سے پہلے کے تھے جو خشک تفاسیر لکھی گئی ہیں اس میں انہوں نے بس یہ ذکر کیا ہے کہ کا مطلب یہ ہے کہ قیامت کے دن عام علامے پھیلا کے سامنے رکھ دیے جائیں گے اور وہ ان سب باتوں کو قیامت پر ہی جو کرتے ہیں معمول یہ قیامت کے بارے میں کہا گیا حضرت اقدس مسیح علیہ الصلاۃ والسلام نے اللہ تعالی سے الہام پکڑ کر فرمایا کہ یہ امام مہدی اور مسیح موت کی عظیم الشان نشانیاں ہیں اور یہ ایسی نشانیاں ہیں ان میں سے بعض کہ وہ انسان کے بس میں نہیں کہ ان کو پورا کر سکے میں بعض اور نشانیوں کو بھی اس موقع پہ تذکرہ کرتا ہوں جیسے اسی میں ایک نشانی قرآن میں آتی ہے کہ جب وہ امام مادی اور سورہ قیامہ میں ہے تو سورج اور چاند کو گرہن لگے گا حدیث میں اس کی تفصیل آتی ہے کہ رمضان کا مہینہ ہوگا چاند گوشت کے گرہن کے دنوں میں راتوں میں پہلے رات میں اور سورج کو درمیان کے دن میں گرہن لگے گا اور وہ جو مدعی ہے وہ موجود ہوگا چنانچہ یہ تو کوئی ایسی نشانی نہیں ہے کہ جو کوئی مدعی خود اپنے لیے پورا کر لے تعالیٰ نے حضرت جب دعویٰ فرمایا تو یہ آسمان کی اس نشانی کو بھی ظاہر فرما دیا پرانے صحیفوں میں بھی اور قرآن مجید میں بھی احادیث میں بھی ذکر تھا کہ جب وہ آئے گا تو اس کے زمانے میں طاعون پھوٹے گی چنانچہ مسیح محمد علیہ الصلاۃ والسلام کے میں وہ طاعون بھی پھوٹے قرآن مجید میں یہ بھی ذکر آتا ہے کہ جب امام مہدی اور مسیح موت آئے گا تو اس کے زمانے میں سمندروں کو ملا دیا جائے گا چنانچہ مسیح محمد علیہ الصلاۃ والسلام کے زمانے میں ہی یہ نہر سہیل اور نہر پانامہ نکلی اور وہ اللہ تعالی کا یہ نشان پورا ہوا قرآن مجید نے یہ بھی پیش گوئی فرمائی تھی کہ جب آثار قدیمہ کا بڑا عظیم الشان ظہور اس کے زمانے میں ہو گا ویض القبور اور بہت سیرت چنانچہ مسیمد علیہ الصلاۃ والسلام کے زمانے میں خدائیاں ہوئیں اور پھر اسی دور میں وہ فرعون کی جو ممیاں ہیں وہ بھی ظاہر ہوئیں اور وہ بھی پتہ لگا کہ یہ وہ فرعون ہے جو ڈوب کر مرا تھا چنانچہ جب ایک آ کا سائنسدان اس نے اس کی تحقیق کی اور بعد میں قرآن مجید میں بھی اس نے پڑھا کہ قرآن مجید کہتا ہے کہ ہم تمہاری لاش کو محفوظ رکھیں گے اور وہ فرعون ڈوب کر مرا تھا تو اس نے کہا کہ یہ تو قرآن مجید نے کئی سال پہلے سینکڑوں سال پہلے اس کا ذکر فرما دیا یہ تو سچا کلام ہے پھر اس نے تحقیق کی کہ قرآن مجید اور سائنس میں کیا کیا مطابقتیں ہیں چنانچہ اس نے کتاب لکھی بائبل اور قرآن کے حوالہ سے اور اس نے ثابت کیا کہ جو قرآن مجید باتیں بیان فرماتا ہے وہ سائنس کے عین مطابق ہیں تو یہ خلاصہ یہ ہے کہ یہ بھی ایک قرآن مجید نے نشانی بیان فرمائی تھی اس کے علاوہ بھی بعض اور نشانیاں بھی ہیں جن کا میں یہاں آپ کے سامنے ذکر کرتا ہوں کہ آتا ہے کہ پہاڑوں کو کاٹ کر راستے بنائے جائیں گے پھر یہ آتا ہے کہ آ جو اتنی تیز سواریاں نکل جائیں گی قرآن مجید میں آتا ہے کہ اونٹنیاں تو ایسے بیکار چھوڑ دی جائیں گی جیسے آج کل ہمارے یہاں پہ ہم دیکھتے ہیں نا سڑکوں پہ گائے بھینس بھی بے کار پھرتے رہتے ہیں تو اطلت کا مطلب یہ ہے کہ بیکار چھوڑی جائیں گی رستے میں تو وہ ایسے بیکار چھوڑ دی جائیں گی کہ مطلب یہ ہے کہ ایسی سواریاں نکل جائیں گی کہ پھر ان اونٹنیوں کی ضرورت ہی نہیں رہے گی اور پھر ان سواریوں کا بھی ذکر احادیث اور قرآن میں آتا ہے وہ دجال کے گدھے کے نام سے اور اس کی پوری تفصیل آتی ہے کہ اس کے اندر جلیں گی سواری کے اندر اس کے پیٹ کے اندر لوگ بیٹھیں گے اور وہ چلتے وقت آواز کرے گا اور وہ ایک مشرق میں چھلانگ لگائے گا تو مغرب میں دوسری چھلانگ لگائے گا اڑے گا بھی سمندروں میں بھی چلے گا سامانوں کے گودام کے گودام اٹھائے گا تو یہ واعظ الاشعار وطلت کے آگے تفاسیل خود احادیث میں موجود ہے اسی طرح اور بھی بعض نشانیاں ہیں جیسے یہ ہے کہ اللہ تعالی نے قرآن مجید میں بھی اور احادیث میں اس کا ذکر فرمایا ہے کہ اس وقت رسولوں کو تمام رسولوں کو ایک جگہ اکٹھا کر دیا جائے گا۔ مطلب کیا کہ امام مہدی اور مسیح موعود کے وجود میں جتنے بھی آنے والے رسولوں نے فرمایا کہ ہم آئیں گے اور ہم ظاہر ہوں گے ہم اوتار لیں گے وہ امام مہدی اور مسیح موت کی شکل میں آئیں گے اور سیدنا حضرت اقدس مسیح موت علیہ الصلاۃ والسلام کو اللہ تعالی نے الہام فرمایا کہ اللہ کا پہلوان نبیوں کے حلوں میں تو یہ جتنی بھی نشانیاں قرآن مجید میں بھی بیان کی گئی ہیں ان میں سے بتائیں یہ سب ایسی نشانیاں ہیں کہ کوئی بھی جھوٹا مدعی اپنے لیے پورا کر ہی نہیں سکتا یہ تو صرف اللہ تعالی کی طرف سے جو آنے والا ہے اور جب وہ دعویٰ کرے اور اللہ تعالی نے اس کے زمانے میں وہ نشانیاں پوری کر دیں وہ اس کی صداقت کی عظیم الشان دلیل بن گئی اب میں نوشہرہ کے بارے میں تھوڑی سی تفصیل یہ بتاتا ہوں کہ قرآن مجید میں اللہ تعالی فرماتا ہے کہ یہ جو کتاب ہے یہ تکمیل ہدایت کے لیے اللہ تعالی نے بھیجی ہے اور ایک زمانہ آئے گا جب کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کا مثیل ظاہر ہو گا گویا کہ خود آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم ہی آ جائیں گے جو سورہ جمعہ کی آیت ہے تو فرماتا ہے کہ جب وہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کا دوسرا ظہور ہو تو تکمیل اشاعت ہدایت کا زمانہ ہوگا۔ پہلا آپ کا دور تکمیل ہدایت کا دور دوسرا دور تکمیل اشاعت ہدایت کا دور اس دور کے بارے میں یہ قرآن مجید کی پیش گوئی ہے۔ کہ صحیفہ نشر کیے جائیں گے۔ چنانچہ حضرت اقدس مسیمد علیہ الصلاۃ والسلام نے کتاب حقیقت الوحی میں اس کا ذکر کرتے ہوئے فرمایا کہ دیکھو یہ press کی طرف اشارہ ہے۔ کہ کتابیں گی اور پھر واعظ الاشار وطلت میں فرمایا گیا کہ اونٹنیوں کو چھوڑ دیا جائے گا پھر ایسی سواریاں نکلیں گی مال برداری کرنے والی کہ ان پر لاد کر ان کتابوں کے اوپر دوسری جگہ بھیجا جا سکے گا تو چنانچہ اب دیکھ لیں آج کے زمانے میں تو کتابیں نشر بھی کی جا رہی ہیں جیسے net کا زمانہ آ گیا تو آپ کو کتابیں net کے اندر کیسے نشر ہو رہی ہیں اور لکھو کھا کتابیں ہر آدمی کی جیب پڑی ہیں ہر آدمی کی جیب میں لائبریری پڑی ہوئی ہے اب آپ دیکھ لیں نوشہرہ کی یہ جو دلیل ہے اور جو حضرت مرزا غلام احمد قادیانی علیہ الصلاۃ والسلام کے لیے ان کے زمانے میں ان کے دعوت کے دعوی کرنے کے زمانے میں اللہ تعالی نے پوری فرمائی تو کیا حضرت مرزا غلام محمد قادیانی علیہ السلام کے بس میں تھا کہ آپ ان اس پیشگوئی کو اپنے لیے پورا کر دیتے وہ آسمان کا جو مالک خدا ہے جو سب طاقتیں رکھتا ہے یہ اس کے ہاتھ میں ہے اب اگر ہم آنکھیں رکھتے ہوئے بھی ان پیش گوئیوں کا کہ ایسی پیش گوئیاں کہ جو انسان کے بس میں نہیں کہ وہ پورا کر سکے پھر بھی انکار کریں تو یہ بہت بڑی کفران نعمت ہے اسی لیے ہماری تو درخواست ہے اپنے بھائیوں سے کہ یہ حقیقت الوحی میں جس قدر پیش گوئیاں لکھی ہوئی ہیں ان کو غور پڑھنا چاہیے۔ ان کو سمجھنا چاہیے۔ ہمارے نوجوانوں سے بھی احمدی نوجوانوں سے بھی درخواست ہے کہ وہ بھی پڑھیں۔ جب اس وہ پڑھیں گے تو آگے پھر دوسروں کو سمجھا بھی سکیں گے۔ اور غیر احمدی بھی جو ہمارے بھائی ہیں یا دوسرے غیر مسلم بھائی ہیں۔ ان سے بھی ہماری یادگانہ درخواست ہے کہ ان پیشگوئیوں کو پڑھیں۔ اب اس میں ایک پیش گوئی اور بھی جس کا بھی آپ نے ذکر فرمایا کہ وہ زمانہ ایسا ہوگا کہ دریاؤں کو پھاڑا جائے گا تو اس میں سے نہریں نکالی جائیں گی۔ اسی دور میں آپ دیکھ لیں حضرت اقدس مسیب علیہ الصلاۃ والسلام کے دور میں اس کثرت سے دریاؤں کو پھاڑ پھاڑ کر نہریں نکلی ہیں۔ کہ جس کا شمار نہیں ہے اور پھر اس کے لیے باقاعدہ کئی محکمے بنائے گئے نہروں کے اوپر اور آپ رسانی کے لیے بڑے بڑے کام ہوئے اور تو یہ جو قرآن مجید کی پیشگوئی اور اس کے علاوہ اور بھی پیشگوئیاں جس کا میں نے ابھی ذکر کیا یہ کھول کھول کر اور بول بول کر بتا رہی ہیں کہ جو سچا امام مہدی اور مسیح موعود آنے والا تھا وہ آ چکا ہے آؤ اور اس کو کرو اللہ تعالی سب کو اس کی توفیق عطا فرمائے جزاکم اللہ تعالی حسن الجزا program کو آگے بڑھاتے ہوئے خاکسار محترم مولانا شیخ مجاہد احمد شاستری صاحب سے یہ دریافت کرنا چاہتا ہے کہ حضرت مسیح موود علیہ الصلاۃ والسلام نے جو deputy deputy عبداللہ اتھم کے متعلق پیش گوئی فرمائی تھی وہ بھی بہت صفائی سے پوری ہوئی تھی تو اس کے متعلق کچھ آپ روشنی ڈالیں جزاکم اللہ بسم اللہ الرحمن الرحیم پادری عبداللہ اتھم وہ بدقسمت شخص تھا جس نے اسلام اور بانی اسلام خاتم النبین حضرت محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وسلم کو نعوذ باللہ جھوٹا ثابت کرنے کے لیے بانی جماعت احمدیہ سیدنا حضرت مرزا غلام احمد صاحب قادیانی مسیح موعود و مہدی معود علیہ الصلاۃ والسلام کے ساتھ مناظرہ کیا یہ مناظرہ امرتسر میں ہوا اور بائیس مئی اٹھارہ سو ترانوے سے لے کر پانچ جون اٹھارہ سو ترانوے کو یہ پندرہ دن مناظرہ کیا اور عیسائیوں کی طرف سے ہی اس مناظرے کو جب شائع کیا گیا تو اس کا نام جنگ مقدس رکھا گیا اس میں اللہ تعالی کی تائید اور نصرت کے ساتھ بانی جماعت احمدیہ سیدنا حضرت مسیح معود علیہ الصلاۃ والسلام نے اسلام اور بانی اسلام کی صداقت اور حقانیت کو عقلی, نقلی, تاریخی, واقعاتی اور روحانی دلائل کے ساتھ ثابت کیا.

00:18:25

اور اس طرح اسلام کو ایک کھلا کھلا اور کامل غلبہ عطا ہوا. اسی پادری نے اپنی ایک اور کتاب میں جس کا نام اندرونہ بائبل تھا. اس میں ہمارے پیارے آقا خاتم النبین حضرت محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وسلم کو نعوذ باللہ دجال قرار گیا تھا اس پر حضرت مسیح موعود علیہ الصلاۃ والسلام کی جو اپنے آقا کے لیے غیرت تھی اور محبت تھی یہ جوش میں آئی اور آپ نے خدا تعالی کے حضور گریا بازاری کی اور انتہائی دعا کی کہ یہ جو فیصلہ ہو رہا ہے اس میں کوئی ایک خاص نشان ظاہر ہو اور سچے مذہب کی تائید و نصرت ہو چنانچہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلاۃ والسلام نے جو آخری پرچہ لکھا جنگ مقدس کے دن کی اس کتاب میں یعنی پانچ جون کو جو تھا اس میں آپ نے یہ بیان فرمایا کہ آج رات جو مجھ پر کھلا وہ یہ ہے جب کہ میں نے بہت اور ابتحال جناب الہی میں دعا کی کہ تو اس امر میں فیصلہ کر اور ہم عاجز بندے ہیں تیرے فیصلے کے سوا کچھ نہیں کر سکتے سو اس نے یہ نشان بشارت کے طور پر دیا ہے کہ اس بحث میں دونوں فریق میں سے جو فریق آمدن جھوٹ کو اختیار کر رہا ہے اور سچے خدا کو چھوڑ رہا ہے اور عاجز انسان کو خدا بنا رہا ہے اور وہ انہی دن و مباحثہ کے لحاظ سے یعنی فی دن ایک مہینہ لے کر یعنی پندرہ ماہ حاویہ میں گرایا جائے گا اور اس کو سخت ذلت پہنچے گی بشرطیکہ حق کی طرف رجوع نہ کرے یہ اس پرچے میں آپ نے ایک عظیم الشان جلالی پیش گوئی بیان فرمائی اس میں دو باتیں بہت ہی قابل غور ہیں ایک تو یہ کہ جو جھوٹ کو آمدن اختیار کر رہا ہے دوسرا یہ کہ فی دن ایک مہینہ لے کے پندرہ ماہ تک حاویہ میں گرایا جائے گا اور تیسری چیز یہ کہ بشرطیکہ کی طرف رجوع نہ کرے حضرت مسیح معود علیہ الصلاۃ والسلام نے اپنے اجتہاد سے کام لیتے ہوئے کہ حاویہ میں گرایا جائے گا اس سے مراد یہ ہے کہ آتھم کو سزائے موت ہو گی پندرہ ماہ کے اندر اور اس کے بعد حضرت مسیح اسلام نے یہ لکھا کہ اگر یہ نہ مرے تو نعوذ باللہ میں جھوٹا ہوں اور یہ ساری تحریرات لکھیں لیکن جب اتھم نے یہ پیش گوئی سنی اور اس مجلس میں صرف وہی نہیں تھا بلکہ ستر کے قریب اور لوگ تھے جن میں چالیس کے قریب خود عیسائی مذہب کے ماننے والے تھے تو اس وقت وہ لرز اٹھا اور اس نے اتھم نے اس مجلس میں اسی وقت رجوع کیا اور کہا کہ معاذ اللہ میں نے آن جناب صلی اللہ علیہ وسلم کی شان میں ایسا کوئی لفظ نہیں بیان کیا اور اس نے اپنے دونوں ہاتھ اٹھائے اور اپنی زبان کو منہ سے نکالا اور کانوں پہ ہاتھ لگائے اور کہا کہ میں نے اس طرح کے الفاظ نہیں کہے یعنی وہ رجوع کی جو شرط تھی اس شرط کو اس نے اسی مجلس میں ہی شروع کر دیا اور یہ جو پانچ جون اٹھارہ ترانوے کو جو یہ پیش گوئی ہوئی اور اس کے بعد چھبیس جولائی اٹھارہ سو چھیانوے یعنی تقریبا تقریبا وہ تین سال ایک ماہ تک زندہ رہا ان تین سال ایک ماہ کے درمیان میں اس نے کبھی بھی اسلام اور بانی اسلام صلی اللہ علیہ وسلم کے بارے میں کوئی بھی غلط الفاظ استعمال نہیں کیے بلکہ یہاں تک کہ جس بات پہ وہ مباحثہ کر رہا تھا یعنی حضرت عیسی علیہ السلام کی الوہیت اور ابنیت کے حوالے سے چنانچہ وہ اس اپنے عقیدے سے بھی پھر گیا اور اخبار جو عیسائیوں کی طرف سے اس زمانے میں ایک اخبار نکلتا تھا نور افشاں لدھیانہ سے اس کے اکیس ستمبر اٹھارہ سو چورانوے کے پرچے میں اس نے واضح رنگ میں اعلان کر دیا کہ میں اب اس سے ہٹ جا رہا ہوں اور میں اس کو نہیں کرتا چنانچہ یہ جو پیش گوئی تھی اس کے اصل الفاظ جو قابل غور ہیں وہ یہی کہ بشرطیکہ حق کی طرف رجوع نہ کرے اب اس نے رجوع کر لیا اسی مجلس میں رجوع کیا اور اس کے بعد اس کے اوپر اس پیش گوئی کی جو ہیبت ناک پیش گوئی اس کے لیے کی گئی تھی اس کا ایک خوب طاری ہو گیا اسلام کی صداقت کا ایک رعب اس کے دل میں چھا گیا اس لیے وہ خاموشی سے بیٹھ گیا جب وہ خاموشی سے بیٹھا اور یہ پندرہ ماہ کا عرصہ گزر گیا تو پھر عیسائیوں کی طرف سے ڈھول کے نقارے پیٹے گئے اور یہ کہا گیا کہ جھوٹی خوشی کے جلوس نکالے گئے کہ دیکھو آتم کے بارے میں یہ کہا گیا تھا آتم زندہ ہے ابھی بھی موجود ہے اور بعض یہاں تک کہ جو مخالفین تھے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے مسلمان تھے وہ بھی اس میں شامل ہو رہے تھے حالانکہ وہ یہ نہیں دیکھتے تھے کہ عیسائیت کی جیت ساتھ نعوذباللہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی ہار کا یہ جلوس منایا جا رہا ہے لیکن جب یہ معاملہ ہوا اور مسیح موعود علیہ الصلاۃ والسلام تک یہ بات پہنچی تو آپ نے ایتھم کو اعلانیہ ایک ہزار روپے کا اعلان کا اشتہار کیا اور یہ کہا کہ وہ اس بات کا اعلان کرے اور یہ اس بات کی قسم کھائے کہ اس عرصے میں پندرہ ماہ کے عرصے میں اس پر اسلام کا رعب اور اس کی صداقت ظاہر نہیں ہوئی تب یہ بات واضح ہو جائے گی کہ ہاں یہ پیشگوئی کا اثر اس پر نہیں ہوا لیکن آتھم اس جامع فیصلے کے مطابق قسم کھانے سے انکار کر دیا اس نے دو عذر پیش کر دیے ایک وہ یہ کہنے لگا کہ بھائی قسم کھانا میرے مذہب یعنی عیسائیت میں ممنوع ہے حضرت مسیح نے کئی حوالے بائبل سے پیش کیے کہ دیکھیں اس نے بھی قسم کھائی اور اس نے بھی اور اس نبی نے بھی قسمیں کھائیں دوسرا اس نے یہ عذر پیش کر دیا کہ بے شک میں draw تو ضرور تھا مگر میں پیش گوئی سے نہیں ڈرا تھا میں اس لیے ڈر گیا تھا کہ کہیں مجھے قتل نہ کر دیا جائے گویا کہ اس نے جو سچی پیش گوئی تھی اس کو چھپانے کی کوشش کی اور حق کو چھپایا حضرت مسیح موعود سلام نے اس اعلان کو پھر رقم اس کی بڑھائی ایک ہزار سے دو ہزار تین ہزار چار ہزار تک کی اور پھر آپ نے مختلف اشتہارات میں دیا کہ اب آپ جو اصل پیش گوئی تھی وہ تو ایک طرف رہ گئی یہ اب آپ کا معاملہ آ گیا کہ آپ پیش گوئی کو کر رہے ہیں اور اس کو چھپا رہے ہیں اس کی حقانیت کو لوگوں کے سامنے مشتبہ کر رہے ہیں پھر حضرت مسیح علیہ السلام نے بیان فرمایا یہ کہ اب اگر ہاتھم صاحب قسم کھا لیں تو وعدہ ایک سال قطعی اور یقینی ہے جس کوئی شرط نہیں اور تقدیر مبرم ہے اور اگر قسم نہ کھاوے تو پھر بھی خدا تعالیٰ ایسے مجرم کو بے سزا نہیں چھوڑے گا جس نے حق کا اخفا کر کے دنیا کو دھوکہ دینا چاہا یہ حضرت مسیح اسلام نے اس کے بعد بھی پھر اشتہار دیا جو آخری اشتہار تھا تیس دسمبر اٹھارہ سو پچانوے کو اشتہار دیا اور کہا کہ چونکہ اس نے حق کو چھپانا چاہا اور خدا تعالیٰ کی اس عظیم الشان پیش گوئی کو جو اسلام کی صداقت کے لیے ظاہر ہو رہی تھی اس کو مجتبیٰ کرنا چاہا اسی اب یہ اس دنیا سے اس قسم کی ہی موت مرے گا کہ جو مقام عبرت ہوگی چنانچہ اس کے مطابق چھبیس جولائی اٹھارہ سو چھیانوے کو اس کی وفات ہوئی اور اس طرح اسلام کی عظیم الشان پیش گوئی ظاہر ہوئی جو اسلام کی سچائی کی اور حقانیت کی ایک عظیم الشان دلیل ہے یہ پیش گوئی جس میں بنیادی چیز جو تھی سمجھنے والی یہ ہے وہ یہی ہے کہ بشرطیکہ حق کی طرف رجوع نہ کرے اور وہ حقم کا رجوع کرنا اس زمانے میں اس میں جب نسیم اسلام نے یہ پیش گوئی کی ستر لوگوں کے سامنے اس نے باقاعدہ انکار کیا کہ میں نے ایسا نہیں کہا اور میں اس نے فورا رجوع کر لیا اور آخر میں جو وہ مارا گیا وہ اس لیے کہ اس نے خدا کی پیشگوئی کو جو سچائی تھی اس کو اخفا کرنا چاہا اس کی حقانیت کو چھپانا چاہا اس لیے وہ حاویہ کی موت میں مارا گیا جزاکم اللہ تعالی ناظرین کرام اس وقت ہمارے اس program میں ہمارے ساتھ ایک ٹیلی فون کالر جڑے ہیں ہم ان کا سوال لیتے ہیں۔ بنگلہ دیش سے مکرم عارف الزمان صاحب اس وقت ہمارے ساتھ لائن پر موجود ہیں۔ عارف الزمان صاحب السلام علیکم ورحمۃ اللہ۔ وعلیکم السلام ورحمۃ اللہ وبرکاتہ جناب میرا سوال ہے حقیقت کتاب میں forty one نمبر جو نشان ہے اس میں کو اللہ تعالی نے چار بیٹوں کا خوش خبری دی تھی آخری عمر میں کہ یہ یہ پیشگوئی کیسی پوری ہوئی اس میں کوئی وضاحت فرما دیجیے جزاکم اللہ جزاک اللہ میں محترم مولانا منیر احمد صاحب خادم سے درخواست کرتا ہوں کہ اختصار کے ساتھ اس کا جواب یہ جو آپ نے انہوں نے ذکر فرمایا ہے کہ حقیقت میں حضرت مسیح علیہ الصلاۃ والسلام نے فرمایا تھا کہ اللہ تعالی مجھے چار بیٹے دے گا تو وہ چار بیٹوں کے لیے جو الہام تھا وہ ایسے الہام ہے اس خدا کی تعریف جس نے عطا فرمائے بڑھاپے کے باوجود مجھے چار بیٹے اور پورا کیا اپنے اس وعدے کو احسان کے ساتھ تو اس اکتالیسویں نشان میں جو جس کا یہ ذکر فرما رہے ہیں حضرت مسیمد علیہ الصلاۃ والسلام نے ان چار بیٹوں کا ذکر بھی فرمایا حضور نے فرمایا کہ جو میں چار لڑکے دوں گا چنانچہ وہ چار لڑکے یہ ہیں محمود احمد بشیر احمد شریف احمد مبارک احمد جو زندہ موجود ہیں اب ایک اس میں یہ سوال ہو سکتا ہے ان کے ذہن میں ہو کہ حضرت مسیمد اس میں یہ بات بیان فرمائی ہے کہ جو عمر پاویں گے تو یہ جو الہام ہے اس میں ایسا کوئی ذکر نہیں ہے عمر پاویں گے مسیح علیہ السلام کے اپنے الفاظ ہیں اور حضرت مسیح معاذ علیہ الصلاۃ والسلام نے اس سے پہلے حضرت میاں مبارک احمد صاحب کے بارے میں بھی اور ایک جو آپ کے پہلے بھی بعض بچے فوت ہوئے ان کے بارے میں یہ اللہ تعالی کی وحی بیان فرما دی تھی کہ اللہ تعالی نے مجھے بیان فرما فرمایا ہے کہ بعض تیرے کم عمری میں فوت ہوں گے یہ بھی ایک الہام ہے کہ بعض بچے کم عمری میں فوت ہوں گے چنانچہ بعض لوگوں نے جب بشیر اول کی وفات پر ہنگامہ کھڑا کیا اور حضرت میاں مبارک احمد صاحب کی وفات پر بھی اعتراضات ہوئے تو حضور نے اسی الہام کی طرف جو ہے یاد دلا کر فرمایا کہ دیکھو اللہ تعالی کا تو یہ الہام پہلے سے موجود ہے کہ اللہ تعالی مجھے اولاد دے گا لیکن ان میں سے بعض کم عمری میں بھی فوت ہوں گے چنانچہ اگر حضرت طارق احمد صاحب کم عمری میں فوت ہوگئے تو وہ خدا کے الہام کی روشنی میں ہیں اور باقی جو ہے وہ چار اگر تین جو ہے وہ اللہ تعالیٰ نے ان کو عمر عطا فرمائی تو وہ بھی خدا کے الہام کی روشنی میں ہے یہاں ایک بات اور بھی یاد رکھنے والی ہے کہ جو اللہ تجھے حضور نے فرمایا اللہ تعالیٰ نے مجھے فرمایا کہ چار بیٹے عطا فرمائے گا تو یہ تین بیٹے تو اللہ تعالی ان میں آپ کو عطا فرمائے اور ایک چوتھا بیٹا حضرت مرزا سلطان احمد صاحب ان کا نے اس میں اس لیے ذکر نہیں فرمایا کہ وہ حضرت مسیمہ علیہ الصلاۃ والسلام کے زمانے میں آپ پر ایمان نہیں لائے تھے.

00:29:27

تو حضرت خلیفۃ المسی الثانی رضی اللہ تعالی عنہ حضرت مثل موت رضی اللہ تعالی عنہ کے زمانے میں جب وہ بھی ایمان لے آئے حضرت مسیح علیہ الصلاۃ والسلام پر تو اس طرح اللہ تعالی نے چار بیٹوں کی اس بشارت کو اس رنگ میں بھی پورا فرما دیا۔ اور یہ دیکھیں عجیب بات ہے کہ جب پیشگوئی مثل موت حضرت مسیح معود علیہ الصلاۃ والسلام کو اللہ تعالی نے عطا فرمائی تو اس میں ایک الہام مثل موت کے بارے میں یہ بھی ہے کہ وہ تین کو چار کرنے والا ہوگا۔ علیہ الصلاۃ والسلام اس زمانے میں فرماتے ہیں کہ اس کے معنی سمجھ میں نہیں آئے لیکن اس کے معنی تب سمجھ میں آئے جب خلافت ثانیہ کے زمانے میں تو اللہ تعالی نے حضرت مرزا سلطان احمد صاحب کو بھی حضرت مسیح علیہ الصلاۃ والسلام کی غلامی میں آنے کا شرف عطا فرمایا تو اس طرح انجازہ یہ جو آیا چار بیٹے عطا فرمایا تو چار اس رنگ میں بھی پورے ہو گئے ہیں یہ تو بہرحال یہ مسیح علیہ السلام کا جو انہوں نے ذکر فرمایا یہ نشان اکتالیس تو یہ ہے اس کے میں عربی کے الفاظ پھر سنا دیتا ہوں الفاظ ایسے ہیں یہ الہام ہیں یہ مجھے اسلام نے جو الہام ذکر فرمایا کہ تعریف اس خدا کی جس نے عطا فرمایا مجھے بڑھاپے میں چار بیٹے اور پورا احسان اور اپنے احسان سے اپنے اس وعدہ کو پورا فرمایا اس کی تفصیل ہے جزاکم اللہ تعالی حسن الجزا ناظرین اکرام ایک اور ہمیں offline سوال موصول ہوا ہے میں وہ سوال پڑھ کر سنا دیتا ہوں ظفر محمود احمد صاحب کی طرف سے یہ سوال موصول ہوا ہے آپ کا سوال یہ ہے کہ ان آیات کی روشنی میں وفات مسیح کس طرح ثابت ہوتی ہے میں محترم شیخ مجاہد احمد شاستری صاحب سے درخواست کرتا ہوں کہ کے ساتھ اس کے بارے میں کچھ بیان فرمائیں جزاکم اللہ حضرت عیسی علیہ السلام کی حیات دنیا کے تین بڑے مذاہب کے درمیان متنازع فی ہے یعنی ان کے ان کے بارے میں الگ الگ عقیدے اور نظریے ہیں یہود نعوذباللہ آپ کے بارے میں یہ کہتے ہیں کہ خدانخواستہ آپ سچے نبی نہیں ہیں آپ کے والد کا پتہ نہیں تھا اس لیے وہ آپ کو سچا نبی نہیں گنتے یہ کہتے ہیں کہ آپ کی شخصیت دراصل اس لیے آئی کہ بنی نو انسانوں کو گناہ سے نجات دلائی جائے اسی لیے اللہ تعالی نے آدم علیہ السلام کے ذریعے جو گناہ ورثے میں چلا آ رہا تھا اس سے بچانے کے لیے آپ کو نجات دہندہ بنا کے بھیجا اور آپ نے صلیب پہ اپنی جان دے دی مسلمانوں نے یہ کہا جو اکثریت مسلمانوں میں سے یہ مانتی ہے کہ حضرت عیسی علیہ السلام کو جب سلیب دینے کا وقت آیا تو اللہ تعالی نے ان کے مشتبہ کسی اور شخص کو صلیب پہ چڑھا دیا اور وہ زندہ آسمان پہ چلے گئے بانی جماعت احمدیہ سیدنا حضرت دس مسیح موعود علیہ الصلاۃ والسلام کو اللہ تعالی نے الہاما یہ بتایا کہ جس عیسی کا مسلمان یا دوسرے لوگ انتظار کر رہے ہیں وہ وفات پا چکے ہیں اور اس کی خوبیوں میں اور اس کی عادات کے ساتھ تجھے اللہ تعالی نے بھیجا ہے اٹھارہ سو نوے کے قریب آپ نے اپنی کتاب ازالہ وہام میں یہ اعلان فرمایا تھا یہ اعلان جب آپ کی طرف سے ہوا تو اس کتاب میں آپ نے اس میں متعدد دلائل پیش کی کہ صرف اعلان ہی نہیں تھا۔ دعوی اور دلیل قرآن مجید، صحیح احادیث آئمہ بزرگ اقوال سے طب سے اور دیگر تاریخ سے اور کئی اور دلائل اس کے اندر پیش کی لیکن چونکہ اکثریت ہی یہی مان رہی تھی کہ مسلمانوں کی اکثریت ان کے لیے ایک اچنبے کی بات تھی کہ کیسے یہ بات ثابت ہو سکتی ہے کہ عیسی علیہ السلام زندہ چوتھے آسمان پہ موجود ہیں نہیں ہیں بلکہ وفات پا چکے ہیں۔ حضرت مسیح موعود علیہ الصلاۃ والسلام نے تیس آیات قرآن کی پیش فرمائی اور ان سے یہ ثابت کیا کہ عیسی علیہ السلام کی وفات ہو چکی ہے جو آج کے یہ جو آیت پیش کی گئی ہے سورہ الانبیاء کی آیت نمبر پینتیس ہے اس میں حضرت مسیح موعود علیہ الصلاۃ والسلام نے یہ قاعدہ کلیہ بیان فرمایا ہے کہ اللہ تعالی یہ بیان فرماتا ہے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو کہ اے رسول صلی اللہ علیہ وسلم تو ایک بشر ہے اور بشر کے لیے ضروری ہے کہ وہ وفات پائے کیونکہ بشر کا تقاضا ہی یہی ہے کہ وہ وفات پائے گا یہاں بیان کیا اور تجھ سے پہلے بھی جو بشر گزر چکے کیونکہ انبیاء بھی بشر ہی ہوتے ہیں وہ بشری خاکے کے ساتھ ہی آتے ہیں ان کے ساتھ انسان کے دکھ درد تکالیف موجود رہتی ہیں تو اس سے پہلے بھی جو جو موجود تھے بشر وہ بھی وفات پا چکے ہیں اور حضرت عیسی علیہ السلام بھی چونکہ ایک بشر ہی تھے ان کی پیدائش بے شک معجزانہ تھی کہ ان کے والد نہیں تھے لیکن ان کے بشری تقاضے تھے اور بائبل سے اور قرآن سے یہ باقاعدہ بتایا کہ ایک بشر تھے دوسری آیت جو اس میں بیان فرمائی کہ عیسی علیہ السلام بھی ایک نفس تھے خدا کی طرف سے ہی یہ نفس تھے اور جو بھی نفس ہے اس کو موت کا مزہ چکنا پڑے گا مسلمان مفسرین یہ کرتے ہیں کہ قیامت کے وقت کی بات کی جا رہی ہے حالانکہ عملی طور پر اس میں واضح رنگ میں بیان کر دیا گیا ہے کہ آپ کی وفات ہو چکی اور آپ کی وفات ہوئی اور طبعی عمر پا کر آپ نے وہاں سے یروشلم سے ہجرت کی اور ہجرت کر کے آپ کشمیر آئے محلہ خان یار میں آپ کی قبر موجود اور حضرت مسیح موعود علیہ الصلاۃ والسلام نے نہ صرف ایک یہ کتاب میں ذکر کیا ہے ازالہ عام میں بلکہ متعدد کتابیں اس حوالے سے لکھی ہیں اور آپ کی خاص ایک کتاب مسیح ہندوستان میں ہے جو اس میں خاص طور پہ آپ نے یہ دلائل سے یہ بات ثابت کی ہے کہ حضرت عیسی علیہ السلام کسی طرح بھی یہ بات کہ آسمان میں زندہ موجود ہیں یہ غلط ہے بلکہ آپ ہندوستان میں آئے اور یہیں پہ آپ کی وفات ہوئی ہے جزاکم اللہ تعالی حسن الجزا program کو آگے بڑھاتے ہوئے خاکسار محترم مولانا منیر احمد خادم صاحب سے یہ دریافت کرنا کہ سیدنا حضرت اقدس مسیح موعود علیہ الصلاۃ والسلام کی صداقت کا ایک بڑا ثبوت یہ بھی ہے کہ آپ علیہ السلام کے زمانے میں بہت سے اولیاء اللہ اور بزرگان نے آپ کی صداقت کی پیش گوئیاں بیان کی تھیں۔ تو اس تعلق سے کچھ جو ہے آپ پہ روشنی ڈالنے کی درخواست ہے۔ یہ اللہ تعالی کا ایک قانون ہے اور اس کا طریقہ ہے.

00:36:09

عام طور پر دنیا میں بھی قانون میں بھی ہم یہ دیکھتے ہیں.

00:36:13

کہ جب کبھی تیز بارش برسنے والی ہوتی ہے. تو اس کے آنے سے پہلے ٹھنڈی ہوائیں چلتی ہیں.

00:36:24

اور پھر چھینٹے آتے ہیں. اس کے بعد پھر موسلا دھار بارش برسنا شروع ہو جاتی ہے.

00:36:30

ایسے ہی اللہ تعالی کے انبیاء کے ساتھ بھی ہوتا ہے.

00:36:34

کہ ان کے آنے سے پہلے یہ جو اولیاء اللہ اس زمانے کے ہوتے ہیں. اللہ تعالی ان کو بتا دیتا ہے. کہ معمور من اللہ آنے والا ہے. میں اس کو بھیجوں گا. یہ اس کی نشانیاں ہوں گی. تو مجھ کو ماننا. اور اپنے لوگوں کو بھی تاکید کرنا کہ وہ اس پر مان لائیں چنانچہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانے میں بھی اور باقی انبیاء علیہ السلام کے زمانے میں بھی ایسا ہوا اور حضرت اقدس مسیح معود علیہ الصلاۃ والسلام کے زمانے میں بھی جو آپ کے سے پہلے یا آپ کے زمانے میں اولیاء اللہ تھے اللہ کے نیک بندے تھے ان کو اللہ تعالی نے الہاما بتایا کہ یہ جو شخص ہے اس کو ہم میں نے بھیجا ہے اس پر ایمان لاؤ چنانچہ حضرت مسیح الصلاۃ والسلام نے اپنی کتاب حقیقت الوحی میں ایسی بعض ذکر فرمایا ہے جو بشارات بعض اولیاء اللہ نے دی ہیں مثال کے طور پر حضرت مسیح الصلاۃ والسلام فرماتے ہیں نشان نمبر چودہ حقیقت الوحی میں فرمایا میری نسبت نعمت اللہ ولی کی پیش گوئی جس کو میں نے اپنی کتاب نشانی میں نقل کیا ہے یہ حضرت نعمت اللہ ولی آٹھ سو چوراسی ہجری میں ان کی وفات ہوئی ہے بہت بڑے بزرگ تھے اللہ کے ولی تھے انہوں نے بڑا قصیدہ بھی لکھا ہے اور اس میں بھی حضرت مسیح محمد علیہ الصلاۃ والسلام کے بارے میں پیش گوئیاں کی ہیں چنانچہ اس میں سے بڑا قصیدہ ہے میں آپ کو چار شعر ان کے فارسی کے ہیں پڑھ کر سناتا ہوں وہ لکھتے ہیں الف ھے میم دال مے خانم نام ہے بینم یعنی کشفی طور پر اس کا نام ہے دیکھتا ہوں الف حشوی طور پر میں اس نامدار کا نام احمد دیکھتا ہوں آگے فرماتے ہیں مہدی وقت تو عیسائی دوراں ہر دو راہ شہسوار میں بھی نام کہ وہ آنے والا مہدی بھی وہی ہوگا اور عیسی بھی وہی ہوگا چنانچہ دیکھ لیں یہ جو عام مسلمانوں میں عقیدہ ہے کہ عیسی علیہ السلام آ مہدی علیہ السلام پہلے آئیں گے اور عیسیٰ علیہ السلام آسمان سے اتریں گے اور وہ ان کا استقبال کریں گے تو یہ انہوں نے اس بات کی نفی کی ہے فرمایا کہ وہی مہدی ہوگا وہی عیسی دورہ ہوگا مہدی وقت تو عیسی دوراں ہر دو راہ شاہ سوار مہدی ہر دو کو میں دیکھتا ہوں کہ وہ ایک ہی وجود میں نام ہے اس کے بعد آپ نے یہ بھی بشارت اللہ تعالی سے پاک کر دی کہ جب وہ امام مہدی اور مسیح موج گزر جائیں گے تو ان کے بعد ان کا بیٹا ان کی جگہ پر بیٹھے گا فرماتے ہیں دور وہ چونکہ شود تمام بقام پسرش یادگار میں بینم جب اس کا دور مکمل ہو جائے گا کامیابی اور کامرانی کے ساتھ تو اس کے بیٹے کو میں اس کی یادگار کے طور پر اس کی جگہ اس کی **** پہ اس کی خلافت میں بیٹھا ہوا دیکھتا ہوں چنانچہ دیکھ لیں سینکڑوں سال پہلے اللہ تعالی نے نام بھی بتا دیا یہ بھی بتا دیا کہ وہی مسیح ہوگا وہی مہدی ہوگا یہ بھی فرما دیا کہ مثل موت بھی مسلم موت کی بھی پیشگوئی آگئی اس کے اندر تو یہ حضرت مسیمد علیہ الصلاۃ والسلام نے اس کا جو نشان آسمانی میں ذکر فرمایا یہ روحانی خزاں روحانی خزائن کی جلد نمبر چار ہے اس کے علاوہ ایک اور مسیح موت علیہ الصلاۃ والسلام نے ذکر فرمایا کہ کریم بخش جمال نے حضرت مسیح محمد علیہ الصلاۃ والسلام کے سامنے یہ ذکر کیا اور تحریری طور پر ذکر کیا کیا ذکر کیا کہ ایک شخص گلاب شاہ مجذوب نے ان کے سامنے یہ بتایا جو جمال پور ضلع لدھیانہ کے رہنے والے تھے انہوں نے کہا کہ جو جن کا ابھی ذکر نام لیا نا گلاب شاہ صاحب نے انہوں نے کہا کہ کریم بخش جمال پوری کو کہ عیسی جوان ہو گیا ہے.

00:41:04

اور وہ قادیان میں ہے.

00:41:07

اور وہ میں دیکھتا ہوں کہ آئے گا اور قرآن مجید کی غلطیاں نکالے گا.

00:41:13

تو وہ کہنے لگے کہ ایسا کیسے ہوتا ہے قرآن مجید کی غلطیاں نکالنے کہنے لگے نہیں اس کا مطلب یہ ہے کہ قرآن مجید میں جو لوگوں نے غلط غلط آہ حاشیے چڑھا دیے ہیں غلط تفاسیر کر دیے ہیں وہ ان غلطیوں کی درستگی کرے گا تو پھر انہوں نے ان سے پوچھا کہ قادیانوں پھر ان کے خیال میں یہ بات آئی کہ شاید لدھیانہ میں بھی ایک قادیان ہے جب یہاں سے ہم جاتے ہیں قادیان سے جی ٹی road کے اوپر تو لدھیانہ آنے سے پہلے بائیں طرف board لگا ہوا نظر آئے گا اس پہ قادیانی لکھا ہوا ہے تو انہوں نے کہا کریم بخش صاحب نے کہ اس قادیان میں کہاں امام مہدی تو کہتے ہیں کہ انہوں نے کہا کہ نہیں یہ قادیان نہیں ہے وہ قادیان اور ہے اور تم اس کو تلاش کرنا چنانچہ جب مسیم اعظم علیہ الصلوۃ والسلام اور یہ بھی کہا کہ وہ لدھیانہ میں آئے گا چنانچہ جب حضرت نسیم علیہ السلام لدھیانہ میں آئے اور آپ نے دعویٰ فرمایا تو اس یہ کریم بخش وہاں گئے اور تحریری طور پر حضرت مسیح محمد علیہ الصلاۃ والسلام کے سامنے یہ جو ہے وہ گواہی دی کہ گلاب شاہ صاحب مجدوب نے یہ یہ باتیں بیان فرمائی تھیں اور آپ کی صداقت میں بیان کی تھی اور کہا تھا آپ کا کہا تھا کہ آپ قادیان میں آئیں گے چنانچہ اب ہمیں پتا لگا کہ وہ قادیان تو ضلع گرداس پور میں اور ہم آپ کو سچا سمجھتے ہیں اور خدا کی طرف سے سمجھتے ہیں اور ہم آپ پر ایمان لاتے ہیں تو یہ دوسرے ولی ایک تیسرے ولی خدا کے حضرت مسیح علیہ الصلاۃ والسلام نے ان کا بھی ذکر فرمایا وہ ہیں حضرت صاحبزادہ عبدالطیف صاحب شہید رضی اللہ تعالی عنہ حضرت صاحبزادہ عبدالطیف صاحب شہید رضی اللہ تعالی عنہ کو بھی اللہ تعالی نے الہامن فرمایا کہ امام مہدی اور مسیح موت ظاہر ہو چکا ہے چنانچہ وہ پھر تلاش میں قادیان تک آئے حضور نے جو ذکر فرمایا اس کے بارے میں میں حضور کے الفاظ میں پڑھ کے سنا دیتا ہوں حضور نے فرمایا نشان نمبر سترہ ہے مولوی صاحبزادہ عبدالطیف صاحب شہید کا الہام کہ یہ شخص حق پر ہے اللہ تعالی نے ان کو الہامن بتایا جب کسی نے وہاں خبر دی ان کو کابل میں آپ کے بارے میں تو اللہ تعالی نے الہامن بتایا کہ یہ شخص حق پر ہے مسیح موعود بھی ہے اور اس کے ساتھ کئی متواتر خوابیں تھیں جنہوں نے مولوی صاحب موصوف کو وہ بخشی کہ آخر انہوں نے میری تصدیق کے لیے کابل کی سرزمین میں امیر کابل کے حکم سے جان دی ان کو کئی مرتبہ امیر نے فرمائش کی کہ اس شخص کی بیعت اگر چھوڑ دو تو پہلے سے بھی زیادہ آپ کی عزت کی جائے گی مگر انہوں نے کہا کہ میں جان کو ایمان پر مقدم نہیں رکھ سکتا آخر انہوں نے اس راہ میں جان دی اور کہا کہ اس راہ میں خدا کی رضامندی کے لیے جان دینا پسند کرتا ہوں تب وہ سے سنگسار کیے گئے اور ایسی استقامت دکھلائی کہ ایک آہ بھی ان کے منہ سے نہ نکلی اور چالیس دن تک ان کی نعش پتھروں میں پڑی رہی اور پھر ایک مرید احمد نور نام نے ان کی لاش دفن کی اور بیان کیا گیا ہے کہ ان کی قبر سے اب تک مشک کی خوشبو آتی ہے.

00:44:45

اور ایک بال ان کا اس جگہ پہنچایا گیا یعنی قادیان بھی پہنچایا گیا. حضرت مسیح علیہ السلام فرماتے ہیں کہ جس سے اب تک مشک کی خوشبو آتی ہے. اور ہمارے الدعا کے گوشہ میں ایک شیشہ میں آویزاں ہے اب ظاہر ہے کہ اگر یہ کاروبار محض ایک مفتری کا فریب تھا تو شہید مرحوم کو اتنے دور دراز فاصلہ پر سے کیوں میری سچائی کے بارے میں الہام ہوئے اور کیوں متواتر خوابیں آئیں وہ تو میرے نام سے بھی بے خبر تھے محض خدا نے ان کو میری خبر دی کہ پنجاب میں مسیح موت پیدا ہوگیا تو اب انہوں نے پنجاب کی خبروں کی تفتیش شروع کی اور جب یہ پتہ مل گیا کہ درحقیقت ایک شخص قادیان متعلقہ پنجاب ضلع گرداس پور میں مسیح موعود ہونے کا دعویٰ کرتا ہے تب سب کچھ چھوڑ کر میری طرف بھاگے تو یہ چند مثالیں ہیں بعض اولیاء اللہ کی ان کے علاوہ سینکڑوں نہیں ہزاروں مثالیں سوا سو سال میں ایسی پائی جاتی ہیں کہ لوگوں نے بیعتیں کی ہیں اور اللہ نے پہلے ان کو بتایا کہ یہ امام مہدی ہے یہ شخص مسیح معود ہے یہ شخص آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کا عاشق ہے بعض لوگوں کو جب حضور خواب میں دکھائے گئے یا کشف میں دکھائے گئے تو انہوں نے پھر فوٹو جب دیکھی تو انہوں نے کہا یوں ہی وہی شخص ہے جس کو ہم نے دیکھا تھا چنانچہ یہ تو اولیاء اللہ ہیں لیکن ہزار ہا لوگ ایسے بھی ہیں جنہوں نے مسیحا سلام کے زمانے میں بھی اور حضرت مسیب الصلاۃ والسلام کے زمانے کے بعد اب تک بھی خلافت جو اللہ تعالیٰ کے فضل سے خلافت خامسہ تک سیدنا حضرت اقدس امیرالمومنین کے خطبات و خطابات جو ہم نے سنتے ہیں اکثر ان میں یہی آتا ہے کہ فلاں شخص نے اس طرح بیعت کی کہ پہلے سے اور خاص طور پر جو اب عربوں میں بیعتوں کا ایک بڑا عظیم الشان سلسلہ شروع ہو چکا ہے اور ہو رہا ہے ان میں سے بہتوں کو اللہ تعالی نے خواب میں بتایا ہے کہ یہ شخص سچا امام مہدی ہے سچا مسیح موجود ہے میں حضرت مسیح علیہ السلام کے زمانے میں بعض صحابہ کے ایک دو کے نام بھی اس موقع پر لیتا ہوں ایک حافظ نور احمد لدھیانوی اور حضرت ڈاکٹر سید عبدالستار شاہ صاحب رضی اللہ تعالی عنہ اور حافظ نور محمد صاحب فیض اللہ چک کے اور میاں فضل محمد صاحب آ یہ ان لوگوں نے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو خواب میں دیکھا سب نے اور آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے بتایا کہ یہ خدا تعالیٰ کی طرف سے ہیں اور سچے امام مہدی المسیم احد ہیں اور یہ لوگ پھر آن حضرت مسیح علیہ الصلاۃ والسلام پر ایمان لائے تو ایسی سینکڑوں نہیں ہزاروں مثالیں ہیں۔ اور اسلام کے زمانے سے پہلے اولیاء اللہ کی بھی بہت سی مثالیں ہیں۔ میں نے تو وقت کے لحاظ سے صرف چند ایک کا ذکر کیا ہے۔ جزاکم اللہ تعالی حسن الجزا program کو آگے بڑھاتے ہوئے خاکسر کا اگلا سوال محترم مولانا شیخ مجاہد احمد شاستری صاحب سے یہ ہے کہ ابراہیم احمدیہ میں اللہ تعالی نے حضرت اقدس مسیح موعود علیہ الصلاۃ والسلام سے یہ وعدہ فرمایا۔ کہ اللہ تعالی جو ہے آپ کو قتل وغیرہ کے منصوبوں منصوبوں سے محفوظ رکھے گا۔ اور ہم یہ دیکھتے ہیں کہ متعدد اس قسم کے حملے جو ہے آپ پر ہوتے رہے اور اللہ تعالی نے دشمنوں کے شر سے آپ کی حفاظت فرمائی۔ تو اس بارے میں بھی کچھ روشنی ڈالنے کی درخواست ہے بسم اللہ الرحمن الرحیم۔ قرآن مجید میں اللہ تعالی نے ہمارے پیارے آقا خاتم النبین حضرت محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وسلم کے بارے میں یہ حتمی وعدہ بیان فرمایا ہے کہ سورہ المائدہ آیت نمبر اڑسٹھ کہ یعنی خدا تجھے ان لوگوں کے شر سے بچائے گا جو تیرے قتل کرنے کی گھات میں لگے رہتے ہیں یہ عربی لفظ ہے کا جو لفظ ہے اس کا ہے ص اور میم اور اسی سے ہماری زبان اردو میں بھی لفظ عصمت بنتا ہے حضرت مسیح موعود علیہ الصلاۃ والسلام نے اپنی کتاب نزول المسیع میں اس آیت کی تفصیل بیان کرتے ہوئے بیان فرمایا کہ عصمت سے مراد یہ ہے کہ بڑی آفتوں سے جو دشمن کا اصل مقصود تھا بچایا جاوے یعنی یہ جو وعدہ ہے حفاظت کا اس میں بڑی بڑی مصائب اور آفتیں ہیں ورنہ دیکھو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم سے بھی عصمت کا وعدہ کیا گیا تھا حالانکہ احد کے میں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو سخت زخم پہنچے تھے پس عصم کے اندر جو بچانے کا وعدہ ہے وہ قتل کے منصوبوں سے خاص طور پر بچانے کا وعدے کا ذکر کیا جا رہا ہے اور آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی زندگی میں ایسے بے شمار واقعات ہمیں نظر آتے ہیں کہ جب مخالفین نے پوری کوشش کی کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو نعوذ باللہ قتل کر دیں اللہ تعالی نے خاص تائید اور نصرت سے آپ کی حفاظت کی چنانچہ ہجرت کا واقعہ پورا ہمارا آتا ہے کہ کس طرح سراقہ پیچھے پڑا اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی اللہ تعالی نے تائید و نصرت سے مدد فرمائی آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی کامل غلامی میں کامل پیروی کے نتیجے میں بانی جماعت احمدیہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلاۃ والسلام کو اللہ تعالی نے جو مقام اور مرتبہ عطا فرمایا وہ تھا مسیح موت اور مہدی موت کا مقام اور اس سے بڑھ کر ذلی نبوت کا مقام عطا فرمایا اسی لیے آپ کے ساتھ بھی اللہ تعالی نے خاص طور پر معجزانہ حفاظت کا وعدہ فرمایا کیونکہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم جس آقا کی غلامی میں آئے تھے اس کے ساتھ بھی یہ وعدہ تھا وہ کامل مطابق یہاں بھی تھی چنانچہ کے ذمے احیائے دین کا عظیم الشان کام دیا گیا یہ کام انتہائی صبر آزما کام تھا ایک طرف یہ کام نہیں تھا بلکہ شخص جہاد میں تھا ایک مذہب کے ساتھ یہ تعلق نہیں رکھتا تھا بلکہ مختلف مذاہب کے لوگوں کے ساتھ یہ مقابلہ ہو رہا تھا اور مخالفین کی طرف سے پورے ایڑھی چوٹی کا زور لگایا جا رہا تھا ایسے وقت میں اللہ تعالی کی طرف سے الہاما حضرت مسیح معود علیہ السلام کو حفاظت کا وعدہ اور نوید سنائی دیتی ہے وہ الہام میں پڑھ دیتا ہوں جو ابراہیم احمدیہ میں درج ہے حضرت مسیح معود بیان فرماتے ہیں کہ اللہ تعالی نے فرمایا اس کا ترجمہ یہ ہے خدائے تعالی اپنی رحمت کا تجھ پر سایہ کرے گا تیرا فریاد رس ہوگا اور تجھ پر رحم کرے گا اور اگر لوگ تیرے بچانے سے دریغ کریں مگر خدا تجھے بچائے گا اور خدا ضرور اپنی مدد سے بچائے گا اگرچہ تمام لوگ دریغ کریں اب غور والی بات یہ ہے اور جس پر تدبر کرنا چاہیے کہ یہ وعدہ کیوں ہوتا ہے عصمت کا انبیاء کے ساتھ خاص طور پر حضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ خاص طور پر اس میں حکمت کیا ہوتی ہے کیوں یہ وعدہ دیا جاتا ہے اس کی بھی حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے اپنی کتاب تذکرہ میں وضاحت بیان فرمائی ہے ہیں کہ سلسلہ نبوت کی جو اول اور آخر کا جو مرسل کو قتل سے محفوظ رکھنا اس میں یہ حکمت الہی ہوتی ہے کہ اگر جو شروع میں جو نبی آیا ہے اگر نعوذ باللہ وہ قتل ہو جائے گا تو لوگوں کے دلوں میں شبہات پیدا ہو جائیں گے کہ بھئی وہ جس مقصد کے لیے آیا تھا وہ مقصد پورا بھی ہوا یا نہیں ہوا یا ابھی بہت سی باتیں ایسی تھیں جو ابھی بیان ہونی تھی اور وہ اس سے پہلے ہی نعوذ باللہ قتل ہو گیا اور اسی طرح اگر آخری جو نبی آتا ہے اس میں جو سلسلہ کا آخری ہوتا جس پر خاتمہ ہو رہا اگر وہ قتل ہو جاتا ہے نعوذ باللہ تو پھر لوگ یہ کریں گے کہ یہ سلسلہ ناکام ہو گیا ہے کیونکہ انجام اس کا خراب ہوا لہذا اس میں حکمت یہی ہوتی ہے کہ جو سلسلہ کا اول اور آخری جو ہوتا ہے اس کو اللہ تعالی خاص طور پر محفوظ رکھتا ہے چنانچہ ہم حضرت مسیح موعود علیہ الصلاۃ والسلام کی زندگی پہ جب نظر دوڑا کے دیکھتے ہیں اور غور کرتے ہیں کہ اللہ تعالی کا یہ وعدہ جو اٹھارہ سو چوراسی کے قریب جبراہیم احمدیہ لکھی گئی اور اس کے بعد حضرت مسیح مولا سلام انیس سو آٹھ تک زندہ رہے با حیات رہے یہ بیس چوبیس سال کا عرصہ ہے اس میں ایک بار نہیں متعدد یہ وعدہ جلوہ گر ہوا اور اللہ تعالی نے خاص خاص موقعوں پر اس رنگ میں آپ کی حفاظت کی کہ دشمن حیران رہ گیا کہ یہ کیسے ہو گیا مثلا تاریخ میں درج ہے کہ سیدنا حضرت مسیح موعود علیہ الصلاۃ والسلام اٹھارہ سو اکانوے میں دہلی میں تشریف لے گئے ہم میں سے جو شخص دہلی میں گئے ہیں وہ جانتے ہیں کہ جامع مسجد دہلی کا علاقہ جو ہے وہ آج بھی مسلم آبادی سے گنجان آبادی ہے وہاں اور آج سے اس زمانے کی بات اٹھارہ سو اکانوے میں جبکہ ہر طرف وہاں آباد تھے اس وقت مولوی محمد حسین بٹالوی بھی وہاں پہنچ جاتے ہیں اور آپ کو اس جامع مسجد میں مباحثے کا مقابلے کا اعلان کر دیتے ہیں کہ آئے اور میرے ساتھ مباحثہ کریں حالانکہ پہلے سے کوئی ایسی بات چیت نہیں ہو رہی تھی آپ اخلاقا پابند بھی نہیں تھے لیکن حضرت مسیح موود علیہ سلام چونکہ سچ کو پہنچانا چاہتے تھے آپ اس ذریعہ سے لوگوں تک بات کو پہنچانا چاہتے تھے آپ نے اس کو قبول کر لیا اور جس مکان میں آپ رہائش پذیر تھے مخالفت کا یہ عالم تھا کہ مخالفین اس کے کیوار توڑ کے دروازے تک گھس رہے تھے کہ کسی طرح نعوذ باللہ یہاں حضرت مسیح معود علیہ کو زدوکوب کیا جائے مارا جائے اور بلا آخر بیس اکتوبر اٹھارہ سو اکانوے کا دن تھا جو دہلی میں مباحثے کا تہہ قرار پا گیا حضرت مسیح موعود علیہ السلام جامع مسجد جانے لگے تو آپ کو بعض لوگوں نے روکا جو آپ کے رفیق تھے آپ کے ساتھ تھے کہ حضور جان کا خطرہ ہے آپ نہ جائیں چنانچہ تذکرۃ المہدی میں جو کتاب ہے صفحہ ڈھائی سو میں لکھا ہے کہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلاۃ والسلام نے اس کے جواب میں بیان فرمایا کہ کوئی پرواہ نہیں اللہ تعالی ہمارے ساتھ ہے اللہ تعالی نے یہ اللہ تعالی کی حفاظت کافی ہے چنانچہ دیکھیں یہ حفاظت کیسے ہوتی ہے حضرت مسیح معود علیہ السلام اپنے احباب کے ساتھ بگیوں میں بیٹھ جاتے ہیں اور روانہ ہوتے ہیں کہ میں اب اس جامع مسجد کی طرف جاؤں گا جو معروف راستہ تھا جس سے عموما ہر روز بگیاں جایا آیا کرتی تھی ان بگی بانوں کے دل میں اللہ تعالی نے یہ خیال ڈال دیا کہ کسی وجہ سے انہوں نے کہا کہ آج ہم اس راستے سے نہیں جائیں گے اور تاریخ میں یہ آتا ہے کہ اس راستے میں لوگ بیٹھے تھے کہ آپ آئیں تو آپ کے اوپر fire کیا جائے اور نعوذ باللہ آپ کو قتل کر دیا جائے وہ بگی بان دل میں اللہ نے ڈالا ہوا دوسرے راستے سے گئے حضرت مسیح علیہ السلام جامع مسجد میں پہنچ گئے اسی طرح ایک اور واقعہ آتا ہے لدھیانہ کا کہ پنجاب کا معروف شہر ہے جہاں پر جماعت احمدی کی بنیاد رکھی گئی حضرت مسیح علیہ السلام اٹھارہ سو اکانوے میں ابھی لدھیانہ میں موجود تھے کہ لدھیانہ کے بازار میں کھڑے ہو کے ایک مولوی بڑے ہی آپ کے غیظ و غضب میں آپ کے خلاف فتوے دے رہا تھا اور لوگوں کو اکسا رہا تھا کہ جو شخص بھی جائے اور حضرت مسیح اسلام کو قتل کر دے وہ جنت پا جائے گا ایک ان پڑھ جاہل نے جب یہ سنا کہ یہ تو بہت ہی سستا سودا وہ یہ لٹھ لے کے بارے میں پتہ کرتا وہ کرتا آپ جس مکان میں رہ رہے تھے وہاں پہنچا اور اس کے ہاتھ میں لٹ تھی اور موقع کی تلاش میں تھا مسیحا اسلام دالان میں اس وقت آواز فرما رہے تھے اس نے آواز سنا پھر وہ لٹ نیچے رکھا پھر آواز تھوڑی دیر اور سنا پھر اس نے کہا کہ میں آیا تو اس نیت سے تھا کہ آپ کو نعوذ باللہ قتل کروں لیکن آپ کی باتیں سننے کے بعد میں یقین رکھتا ہوں کہ آپ سچے ہیں میری بیعت لے لیجیے صرف یہ مخالفین اسی طاق میں نہیں رہتے تھے بلکہ اس زمانے انگریزی حکومت کو بھی ورغلاتے تھے کہ مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کو قتل کر دیا جائے چنانچہ مولوی محمد حسین صاحب بٹالوی اس میں پیش پیش تھے اور اٹھارہ سو ستانوے میں انہوں نے حکومت کو لکھا کہ حکومت و سلطنت اسلامی ہوتی تو ہم اس کا جواب آپ کو دیتے اسی وقت آپ کا سر کاٹ کر آپ کو مردار کر دیتے یہ تاریخ مدت میں یہ لکھا ہوا ہے یعنی وہ پوری کوششیں کرتے تھے تدبیر کرتے تھے حکومت کو ورغلاتے تھے پھر بھی اللہ تعالی وعدہ ہر بار ایک نئی شکل میں جلوہ وغن ہوتا تھا۔ اور مسیح اسلام کی حفاظت کرتا تھا۔ حضرت مسیح موعود علیہ الصلاۃ والسلام نے اپنی کتاب چشمہ معرفت جو تقریبا انیس سو آٹھ کے قریب قریب ہے اس میں آپ بیان فرماتے ہیں کہ اللہ تعالی نے پانچ ایسے خاص مواقع تھے میری زندگی میں جب دشمن نے مجھے قتل کے منصوبے بنائے ان پانچ خطرناک مواقع پہ میری عزت اور میری جان کی حفاظت کی۔ پہلا موقع وہ تھا کہ جب ڈاکٹر مارٹن کلات نے آپ پر خون کا مقدمہ دائر کیا تھا۔ دوسرا وہ موقع تھا کہ جب پولیس نے ایک فوجداری مقدمہ مسٹر ڈوئی صاحب deputy کمشنر گرداس پور کی کچہری پہ آپ پہ چلایا تھا تیسرا ایک وہ فوجداری مقدمہ ہی تھا جو ایک شخص کرم دین نامی نے جو جہلم میں رہتا تھا جہلم میں کیا تھا پھر چوتھا مقدمہ اسی کرم دین نے فوجداری مقدمہ تھا گرداس پور میں کیا تھا پانچواں مقدمہ وہ تھا جب پنڈت لیکھ رام کی ہلاکت کے بعد آپ کی تلاشی کے لیے پولیس آپ کے گھر میں آئی اور آپ کو باقاعدہ سامان تلاش کیا گیا لیکن ہر موقع پہ اللہ تعالی نے خاص آپ کی تائید نصرت کی اور حفاظت کی۔ حضرت مسیح موعود علیہ الصلاۃ والسلام نے اس بات کو اپنے ایک شعر میں اس رنگ میں بیان فرمایا ہے کہ سر سے میرے پاؤں تک وہ یار مجھ میں ہے نیہاں اے میرے بد خواہ کرنا ہوش کر کے مجھ پہ وار۔ یہ ہے حضرت مسیح اسلام کا اس الہام کی تفسیر کے کس رنگ میں اللہ تعالی نے آپ کے تائید نصرت کی اور آپ کو قتل کے مواقع سے محفوظ رکھا۔ جزاکم اللہ تعالی حسن الجزا ناظرین کرام اس کے ساتھ ہی ہمارے آج کے اس episode کے اختتام کا وقت ہوا چاہتا ہے۔ program کے اختتام میں خاکسار سیدنا حضرت اقدس مسیح موعود علیہ کا ایک اقتباس پیش کرے گا سیدنا حضرت مسیح موت علیہ الصلاۃ والسلام فرماتے ہیں جن لوگوں کے دل میں شرارت ہوتی ہے وہ چونکہ ماننا نہیں چاہتے ہیں اس لیے بیہودہ حجتیں اور اعتراض پیش کرتے رہتے ہیں مگر وہ یاد رکھے کہ آخر خدا تعالی اپنے وعدہ کے موافق زور آور حملوں سے میری سچائی ظاہر کرے گا میں یقین رکھتا ہوں کہ اگر میں اختراع کرتا تو وہ مجھے فی الفور ہلاک کر دیتا مگر سارا کاروبار اس کا اپنا کاروبار ہے اور میں اسی کی طرف سے آیا ہوں۔ میری تکذیب اس کی تکذیب ہے۔ اس لیے وہ خود میری سچائی ظاہر کر دے گا۔ ملفوظات جلد چار صفحہ پینتیس addition انیس سو پچاسی عیسوی مطبوعہ انگلستان۔ ناظرین کرام اس کے ساتھ ہی ہمارا یہ آج کا episode اختتام پذیر ہوتا ہے۔ انشاء اللہ تعالی اگلے episode میں اسی موضوع پر بات چیت کو جاری رکھیں گے۔ اجازت دیجیے السلام علیکم اللہ کہ یہیں خدا پر گے لو تمہیں اور تسلی کا بتایا کے یہیں خدا پاک اللہ

Leave a Reply