Ahmadi Muslim VideoTube Rahe Huda Rahe Huda 18 02 2023

Rahe Huda 18 02 2023



Rahe Huda 18 02 2023

Rahe Huda 18 02 2023

ہفتے کے روز جی ایم ٹی وقت کے مطابق شام ساڑھے چار بجے ایم ٹی اے international کے لندن سٹوڈیو سے آپ کی خدمت میں پیش کیا جا رہا ہے سالہا سال سے چلنے والے اس program میں دراصل جماعت احمدیہ کے عقائد کے بارے میں گفتگو کی جاتی ہے اور خاص طور اس program کو دیکھنے اور سننے والے لوگوں کو اس میں شامل اس طرح کیا جاتا ہے کہ آپ کے سوالات ہیں جن پر مبنی یہ program ہوتا ہے آپ نے اپنا سوال اس program میں کس طرح شامل کرنا ہے اس کے لیے ایک ہمارا واٹس ایپ نمبر ہے اگر اپنا تحریری سوال بھیجنا چاہیں یا voice message کے ذریعے سوال بھیجنا چاہیں تو ہمارا واٹس ایپ نمبر ضرور نوٹ کر لیں اور اگر آپ خود اس program میں کال کرنا چاہیں تو اس کے لیے ہمارا لینڈ لائن نمبر ضرور نوٹ کریں اب سے تقریبا اٹھاون منٹ تک یہ program جاری جو براہ راست ہے اور اس میں آپ کے سوالات شامل ہو سکتے ہیں ناظرین کرام جو دنیا کی حالت ہے وہ ہر طرح سے بد سے بدتر ہوتی جا رہی ہے چاہے معاشی حالات کی طرف دیکھیں اخلاقی حالت کی طرف دیکھیں روحانی حالت کی طرف دیکھیں یا مذہبی حالت کی طرف دیکھیں لیکن پتا نہیں کیوں ان تمام علامات کے باوجود لوگ اپنے خالق حقیقی کی طرف نہیں آ رہے ہماری تو یہ ہے جس طرح اللہ تعالی نے قرآن کریم میں حکم دیا ہے کہ ہم یہ پیغام بار بار لوگوں تک پہنچائیں گزشتہ program میں جس موضوع پہ ہم نے گفتگو کا آغاز کیا تھا وہ مذہبی رواداری کا موضوع تھا اس موضوع پہ بھی گفتگو کریں گے لیکن جس طرح خاکسار نے عرض کی ہے کہ یہ program ہر دیکھنے اور سننے والے کے لیے ہے آپ جو بھی جماعت احمدیہ سے متعلق قرآن و حدیث کے متعلق اسلام کے متعلق سوال کرنا چاہیں ضرور اس program میں کریں آج بھی ساتھ یہاں لندن سٹوڈیو میں موجود ہیں نصیر احمد قمر صاحب اور انشاءاللہ گانا کے سے ہمارے ساتھ شامل ہوں گے اس پروگرام کے دوران محمد نصیراللہ صاحب آپ دونوں مہمانوں کو میں خوش آمدید کہتا ہوں اور محترم نصیر قمر صاحب میں چاہتا ہوں پہلے ہم اس بارے میں گفتگو کر رہے ہیں کیونکہ دیکھیں جماعت احمدیہ جو بھی بات بیان کر رہی ہے.

00:03:22

وہ دراصل قرآن کریم کا ہی بیان ہے. اب ہم اگر مذہبی رواداری کا ذکر کر رہے ہیں تو اس میں بنیادی بات ہے جس طرح خاکسار نے ذکر کیا. ہر طرف دنگا و فساد نظر آتا ہے تو اس عالم میں قرآن کریم عالمی امن کے لیے ہمیں کیا تعلیمات دیتا ہے جزاکم اللہ یہ بہت اہم سوال ہے اور یہ بھی سوال اس سے پہلے ایک ذہن میں آتا ہے کہ آپ قرآن کریم کی ہی بات کیوں کرتے ہیں ہر مذہب جو ہے وہ یہی کہتا ہے کہ ہمارا ہمارے مذہب کا بھی جو مقصد ہے وہ امن قائم کرنا ہے اور ہم دنیا میں چاہتے ہیں سب محبت اور پیار کی تعلیم دیتے ہیں یہاں پہ سوال میں یہ بات ہوئی ہے کہ عالمی امن ہم یہ مانتے ہیں کہ اللہ تعالی کی طرف سے مختلف زمانوں میں خدا کے نبی مبعوث ہوتے رہے اس کی تعلیمات ہدایات آتی رہیں تاکہ بنی نو انسان کو امن کی راہیں دکھائیں اور ہر قسم کے فتنہ اور فساد سے اس کو بچایا جائے لیکن تمام سابقہ مذاہب اور ان کی تعلیمات محدود زمانے کے لیے اور مختصر مختصر قوم اور مختصر زمان تھیں جیسا کہ یہ موسیٰ علیہ الصلاۃ والسلام حضرت عیسیٰ علیہ الصلاۃ والسلام ان کے متعلق اللہ تعالی نے بڑی واضح فرمایا کہ وہ بنی اسرائیل کے لیے رسول تھے کسی بھی پہلے نبی کی تعلیم عالمی نہیں تھی اس لیے جب ہم کہتے ہیں کہ قرآن کریم عالمی امن کے لیے کیا رہنمائی فرماتا ہے تو یہ بالکل درست سوال ہے کیونکہ یہی وہ کتاب ہے جو تمام بنی نوع انسان کے لیے مبعوث ہوئی بھیجی گئی اور اس کے وہ رسول جس پر یہ کتاب اتری وہ بھی تمام بنی نوع انسان کے لیے تھا تمام عالمین کے لیے تھا بشیر اور نظیر بنا کر بھیجا گیا اور ہم یہ بات کو نہیں ہے جو خود اپنے پاس سے بنا کے قرآن کی طرف منصوب کر رہے ہوں کہ قرآن جو ہے یہ عالمی امن کی رائے بتاتا ہے بلکہ خود قرآن کریم نے یہ دعویٰ فرمایا ہے اور اللہ تعالی نے یہ فرمایا ہے کہ خلاصہ ان آیات کا یہ ہے کہ اللہ تعالی یہ فرما رہا ہے کہ تمہارے پاس اللہ کی طرف سے ایک نور اور کھول کھول کر بیان کرنے والی کتاب آئی ہے جس کے ذریعے سے اللہ تعالی ان لوگوں کو جو اس کی رضا کی پیروی کرنا چاہتے ہیں سلامتی کی راہوں کی طرف رہنمائی بخشتا ہے تو یہ قرآن کریم کی خوبی ہے کہ وہ امن کی راہوں کی نشاندہی کرتی ہے یہ اللہ تعالی نے قرآن کریم میں یہ بیان فرمایا اور یہ قرآن کریم کا دعوی ہے اور پھر اس کے حق میں سارا قرآن بھرا ہوا ہے جگہ جگہ پہ ان تمام وجوہات کی نشاندہی کی ہے جس کی وجہ سے انسان کا امن اٹھتا ہے خواہ وہ انفرادی طور پر ہو ذاتی طور پر ہو معاشرتی طور پر ہو معاشی طور پہ ہو یا بین الاقوامی طور پر کسی بھی پہلو سے فساد اور فتنے جو پیدا ہوتے ہیں ان کی نشاندہی کرتا ہے ان وجوہات کی نشاندہی کرتا ہے اور ان سے بچنے کی تعلیمات دیتا ہے عالمی امن کے حوالے سے بھی قرآن کریم نے بڑی تفصیل سے روشنی ڈالی ہے جیسا کہ میں نے بتایا بہت ہی inter related موضوع ہے جس میں افراد اور اقوام کے درمیان جو توازن ہے اور جو وجوہات ہیں ان کی بھی نشاندہی کی مثلا دنیا میں بہت سارے فسادات اس وجہ سے پیدا ہوتے ہیں کہ بعض قومیں بعض لوگ اپنے آپ کو بہت اعلی سمجھتے ہیں اور دوسروں کو حقیق سمجھتے ہیں خواہ اپنے ذہنی استعدادوں کی وجہ سے سمجھیں یا اپنے اقتصادی حالات کی بنا پر یا اپنے فوجی یا عسکری طاقت کی بنا پر اس بنا پر وہ دوسروں پر ظلم کرتے ہیں تکبر میں آ جاتے ہیں تو اللہ تعالی اور یہ جو racism ہے اس کی قرآن کریم نے نشاندہی کی یہ فرمایا کہ یہ کوئی ایسی وجوہات بات نہیں ہے جس کو آپ فخر کا ذریعہ سمجھیں۔ یہ تو ہم نے اس لیے تمہیں شعب اور قبائل میں تقسیم کیا ہے تاکہ ایک دوسرے کی پہچان ہوئے ہو۔ اس بنا پر تمہاری تکریم یا تمہیں تکریم کا سوال نہیں اٹھنا چاہیے۔ معزز وہی ہے جو اللہ کے ہاں معزز ہے اور اس کے لیے بنیاد تقویٰ ہے۔ پھر اللہ تعالی نے یہ فرمایا کہ اگر تمہیں طاقت ملی ہے۔ تو یہ نہیں کہ تم وہ جو غریب ہے کمزور ہے اس کا استحصال کرو۔ بلکہ ہمیشہ انصاف انصاف کے ساتھ معاملہ کرو تو عالمی امن کے لحاظ سے یہ بہت بڑی اور بنیادی تعلیم قرآن کریم میں بار بار دی گئی ہے کہ عدل اور انصاف اور عدل اور انصاف ایسی چیزیں ہیں کہ جو ان کو آپ نسبتی طور پر نہیں کہہ سکتے کہ اپنے لیے آپ سمجھیں کہ یہ انصاف ہے جب دوسرے کے لیے وہی حالات ہیں وہ کہتے ہیں نہیں نہیں تم یہ تمہارا حق نہیں بنتا absolute justice جو ہے اس کی قرآن کریم تعلیم دیتا ہے اور بڑی وضاحت سے متعدد آیات ہیں مثلا ایک جگہ اللہ تعالیٰ یہ فرماتا ہے کہ مومنوں کو یہ حکم دیتا ہے اس کا مطلب یہ ہے کہ دوسروں کے لیے تو یہ اور بھی زیادہ اہم اور ضروری بات ہے اللہ تعالی فرماتا ہے کہ دیکھو اللہ کے لیے انصاف کی گواہی پر قائم ہو جاؤ۔ اور کسی قوم کی دشمنی بھی تمہیں اس بات پہ آمادہ نہ کرے کہ تم انصاف سے ہٹ جاؤ۔ انصاف کرو پھر تاکید فرمائی یہ تقویٰ کے زیادہ قریب ہے اور آگے فرمایا کہ اللہ سے ڈرو اللہ دیکھتا ہے جو خوب باخبر ہے اس سے جو تم کرتے ہو تو بڑی باریکی سے انصاف پر قائم ہونے دو دوسری جگہ فرمایا کہ اگر تم نے انصاف کے ساتھ گواہی دینی ہے خواہ تمہارے اپنے خلاف ہو اپنے عزیزوں کے خلاف ہو تو تقویٰ انصاف سے نہیں ہٹنا اور آپ دیکھیں کہ جو اس وقت دنیا میں ہو رہا ہے جس کا آپ نے ذکر کیا وہ کوئی طاقت کے نشے میں ہے پھر ایک وجہ یہ ہوتی دنیا میں فتنہ فساد کی یا بدامنی کی کہ جو طاقتور ہیں وہ کمزوروں کا استحصال کرتے ہیں ان کے اموال پر ان کے ذخائر پر ان کے resources پر قبضہ کرنا چاہتے ہیں قرآن کریم میں بڑی وضاحت سے یہ منع کیا گیا اس بات سے کہ آپ دوسرے کے وسائل پر نظر رکھیں اور حرص اور لالچ سے روکا اور فرمایا کہ تم نے یہ کام نہیں کرنا کہ تم کسی پر حملہ کر کے اس کے جو قدرتی وسائل ہیں ذرائع ہیں resources ہیں ان پر قبضہ کر لو یہ بات تو بہت ساری متفرق آیات اس طرح آپ نے ابھی بھی جن چند ایات کا آپ نے حوالہ دیا ہے اگر انہی کی تعلیمات کو ہم اپنے ذہن میں رکھیں دیکھیں انہی بنیادی اصولوں کی خلاف ورزیاں ہو رہی ہیں جس کی وجہ سے آج کل بھی دنیا میں مختلف قسم کے فسادات اور جنگوں کی بنیادیں رکھی گئی ہیں بہت بہت شکریہ نصیر صاحب جی جی ضرور ایک بات عرض کر دوں کہ اس موضوع پہ بہت ہی یعنی جامع جو کتاب ہے اس وقت اور وہ ضرور پڑھنی چاہیے افراد جماعت کو بھی بار بار اس کا مطالعہ کرنا چاہیے غیروں میں بھی اس بات کو اس کو پھیلانا چاہیے وہ حضرت امیر المومنین کے خطبات کا مجموعہ ہے جس میں حضور نے پانچوے to peace کے نام سے معروف ہے اور اس میں حضور کے خطابات ہیں جو امن کے موضوع پر ہیں اس میں قرآنی تعلیمات کو اسوہ حسنہ کو اور بڑی تفصیل کے ساتھ موازنہ کر کے کھول کھول کے مختلف پیرائے میں بیان کیا گیا ہے تو بہت ہی اہم کتاب ہے اس کو آپ خود بھی پڑھیں اور غیروں کو غیر مسلموں کو غیر احمدی کو بھی دیں تاکہ وہ اسلام کی حقیقی تعلیم سے آشنا ہوں اور قرآنی تعلیم کو اپنا کر تو دنیا میں حقیقی عدل اور انصاف کے علمبردار بن سکیں نصیر قمر صاحب جس طرح آپ نے ابھی حضرت امیر المومنین کی خطابات پہ مبنی world crisis and path way to peace کا ذکر کیا ہے ناظرین کرام میں اس بات کا ذکر آپ کے سامنے ضرور کرنا چاہوں گا کہ جماعت احمدیہ کی جو official website ہے وہ ال ہے آپ دنیا کے کسی بھی کونے میں بستے ہوں آپ اس ویب site تک رسائی حاصل کر سکتے ہیں اور ضرور رسائی حاصل کریں جماعت احمدیہ کی جو بھی کتب ہیں وہ اس ویب site پہ آپ کو مل جائیں گی اور یہ جس کتاب کا بھی محترم نصیر قمر صاحب نے ذکر کیا ہے یہ بھی آپ کو مل جائے گی اور خاص طور پہ یہ جو کتاب ہے نہ صرف اردو میں موجود ہے انگریزی میں موجود ہے بلکہ دیگر زبانوں میں بھی موجود ہے تو اب تو وہ زمانہ آ گیا ہے کہ جس طرح بائبل میں ذکر ملتا تھا نا کہ مختلف بولیاں بولنے والی قومیں جو ہیں وہ موعود وقت کے ہاتھ پہ خلیفہ وقت کے ہاتھ میں وقت کے نبی کے ہاتھ میں اکٹھی ہوں گی یہ وہ دور ہے جو مسیح موت کا دور ہے جس میں ہم اس وقت شامل ہیں اب ہم محترم نصیر اللہ صاحب کے پاس گانا میں چلتے ہیں اور ان سے ہم بات کرنا چاہیں گے محترم نصیراللہ صاحب آپ کے سامنے جو میں سوال رکھنا چاہوں گا طور پہ اس پروگرام میں وہ بڑی اہمیت کا حامل سوال ہے.

00:12:38

ہم یہ دیکھتے ہیں کہ اس دنیا میں ہزاروں کی تعداد میں بلکہ جو بیان کیا جاتا ہے کہ ایک لاکھ چوبیس ہزار کی تعداد میں انبیاء آئے. اور یہ بھی ایک حقیقت ہے کہ ان انبیاء کی مخالفت ہوئی. آج کل جو جماعت احمدیہ کی مخالفت ہو رہی ہے. وہ بھی لوگوں کے سامنے ہے. میں چاہوں گا کچھ آپ ماضی کا حال بھی بیان کریں.

00:13:00

کہ انبیاء کی مخالفت کیسے ہوئی. اور مخالفت کرنے والے کون تھے? محمد نصیراللہ صاحب غنہ سے.

00:13:10

جی جس طرح کہ آپ نے فرمایا قرآن کریم نے ہمیں بہت سارے انبیاء کی تاریخ سے واقفیت دی ہے اور ایک بات جو تمام انبیاء کی تاریخ میں ہمیں قدر مشترک کے طور پہ نظر آتی ہے وہ یہ ہے کہ تمام انبیاء شروع میں کمزور تھے اور ان کے مخالف بڑے طاقتور تھے پھر ان کے طاقتور مخالفین نے اپنی پوری کوشش کر کے ان انبیاء کی مخالفت کی ان پر ارتداد کا الزام لگایا اور طاقت سے ان کو روکنے کی کوشش کی کیونکہ دلائل کے زور سے تو ان پر غالب آ نہیں سکتے تھے اس لیے پھر اس کے بعد پھر طاقت کے زور سے ان کو روکنے کی کوشش کی لیکن انجام کار آہستہ آہستہ وہی انبیاء سچے ثابت ہوئے اور انہی کی جماعت جو ہے وہ دنیا میں غالب ہوئی اپنے اپنے وقت اور زمانے کے لحاظ سے اور یہ جو سارا پروسیجر تھا یہ جو سارا عمل تھا درحقیقت یہ ان انبیاء کی صداقت کی دلیل تھا کہ اللہ تعالی کے سوا یہ کام اور کوئی کر نہیں سکتا کہ ایک جو دنیاوی لحاظ سے ظاہری لحاظ سے کمزور تھا اور تمام طاقتور لوگ اس کی مخالفت میں تھے انہوں نے اپنا پورا زور لگایا لیکن ناکام ہوئے اور وہ نبی سچا ثابت ہوا اور اس کے ماننے والے غالب آئے قرآن کریم نے ان مخالفین کا ذکر بھی کیا ہے اور یہ بھی مضمون بیان کیا ہے کہ یہ نہیں ہونا چاہیے چنانچہ اللہ تعالی سورہ یونس میں فرماتا ہے کہ ہائے ان لوگوں پر کہ ان کے پاس جب بھی کوئی رسول آتا ہے وہ اس کی مخالفت کرتے ہیں وہ اس پہ استحضا کرتے ہیں پھر اللہ تعالی نے یہ بھی بیان کیا کہ جو جو انبیاء دنیا میں بھیجے گئے وہ اپنے دعوے سے قبل بہت معزز سچے صادق اور امین تھے اپنے اپنے زمانے کے لحاظ سے چنانچہ حضرت صالح کے بارے میں قرآن کریم میں آتا ہے سورہ ہود میں کہ اے صالح یہ تو کیا کر رہا ہے اس سے پہلے تو ہم بہت زیادہ امید کا مرکز تھا.

00:15:14

ہمیں تو تیری ذات سے بہت امیدیں وابستہ تھیں اور تو نے یہ نبوت کا دعویٰ کر دیا. اسی طرح بڑی مشہور آیت ہے سورہ یونس کی.

00:15:22

کہ میں ایک زمانہ ایک عرصہ تمہارے تمہارے پاس پہلے گزار چکا ہوں. اس میں تم میری ذات پر کوئی الزام نہیں لگا سکتے. اگر انفرادی طور پر انبیاء کا احوال دیکھا جائے. تو اس میں سے میں صرف چند کا ذکر کر دیتا ہوں تاکہ بات بہت لمبی نہ ہو جائے. حضرت نوح کے بارے میں قرآن کریم میں آتا ہے. قالوت لا یعنی حضرت نوح کو ان کے مخالفین نے یہ کہا کہ اے نوح اگر تو اپنی اس کام سے بعض نہ آیا تو ہم تجھے سنسار کر دیں گے تو ہلاک یافتہ لوگوں میں سے ہو جائے گا۔ حضرت ابراہیم کے بارے میں آتا ہے کہ ان کے دیگر مخالفین کے ساتھ ساتھ ان کے والد بھی ان کے mission کے بہت زیادہ مخالف تھے۔ چنانچہ سورہ مریم میں آتا ہے یا ابراہیم کہ اے ابراہیم تو ہمارے معبودوں سے بے رغبتی کا اظہار کر رہا ہے اور یہ کام ہمارے نزدیک درست نہیں ہے اپنے اس کام کو چھوڑ دے ورنہ ہم تجھے سنگسار کر دیں گے تجھے ہلاک کر دیں گے اور ہمیں اکیلا چھوڑ کر چلا جا اسی طرح حضرت لوط کے بارے میں آتا ہے کہ ان کو کہا گیا کہ اے لوط اگر تو اپنے اس کام کو چھوڑے گا نہیں تو پھر ہم تجھے اپنی بستی سے نکال دیں گے تو نکالے گئے لوگوں میں سے ہو جائے گا اسی سے ملتے جلتے الفاظ حضرت کے بارے میں آتے ہیں اور ان کو یہ کہا گیا ہے سورہ نمل میں ان کے بارے میں کہ ان کے مخالفین نے ان کو کہا کہ اگر تو نے اپنا یہ mission نہ چھوڑا اور اگر تو اپنے اس کام سے باز نہ آیا تو ہم رات کے وقت تجھے اپنی بستی سے نکال دیں گے اسی طرح ایک لمبی فہرست ہے حضرت شعیب کے بارے میں بھی آتا ہے حضرت موسی کے واقعات بہت مشہور ہیں میں طوالت سے بچنے کے لیے وہ سارے ذکر کو چھوڑتا ہوں خلاصہ یہ ہے ساری بات کا کہ انبیاء کے لیے ہر قسم کے مخالف حالات پیدا کیے جاتے ہیں لیکن بات جو میں اس سے میں عرض کرنا چاہتا ہوں وہ یہ ہے کہ اس کے ساتھ ساتھ قرآن کریم ان انبیاء کے مخالفین کا احوال بھی بیان کرتا ہے کسی تفصیل میں جانے کی ضرورت نہیں فرعون کے واقعات قرآن کریم میں کثرت کے ساتھ بیان ہوئے ہیں حضرت موسی کے مقابل پر وہ آیا اس نے انہیں ہلاک کرنے کی کوشش کی ان کی وجہ سے ان کو ہجرت کرنی پڑی لیکن بالآخر قرآن کریم نے واضح طور پر یہ بتایا کہ فرعون غلط ثابت ہوا فرعون ناکام ثابت ہوا اور حضرت موسی سچے ثابت ہوئے اسی طرح طوفان نوح بہت بہت مقبول بات ہے بہت معروف واقعہ ہے کہ حضرت نوح کے مقابلے میں جب طوفان نوح آیا تو ان کے سارے مخالفین جو ہے وہ اس کی پکڑ میں آگئے اور حضرت نوح کو اللہ تعالی نے بچایا ان کے ماننے والوں کو اللہ تعالی نے جو ہے وہ بچا لیا اس سے ہمیں پتہ یہ لگتا ہے کہ انبیاء اللہ تعالی کی طرف سے ہوتے ہیں ان کی مخالفین پوری کوشش کرنے کے باوجود ان پر غالب نہیں آتے اور بالحقیقت آخر میں اللہ تعالی کے نبی ہی غالب آتے ہیں اور ان واقعات کو قرآن کریم میں پیش کرنے کا مقصد یہ پیش گوئیاں کرنا بھی تھا یہ پیش گوئی کرنا بھی تھا کہ بعد کے زمانے میں آئندہ کے زمانے بھی اگر انبیاء کے مخالفین یہ حرکتیں کریں گے تو وہی ناکام ثابت ہوں گے اور وہ لوگ جو آج عقیدے کی بنا پر سزا دینے کی کوشش کرتے ہیں اللہ تعالی کے مرسلین کے اللہ تعالی کے پیاروں کو سزا دینے کا کام جو اپنے ہاتھ میں لینے کی کوشش کرتے ہیں جن کا ان کو ہرگز اختیار نہیں دیا گیا ان کے لیے قرآن کریم کی ان آیات میں بہت زیادہ سبق ہے کہ اگر تم یہ کام کرو گے تو بالآخر تم ہی ناکام ثابت ہو گئے اور اللہ تعالی کے نبی جو ہیں وہی سچے ثابت ہوں گے بہت بہت شکریہ محمد نصیراللہ آپ نے وقت کی مناسبت سے بڑی تفصیل کے ساتھ اور مثالیں دے دے کر قرآن کریم سے انبیاء کا احوال بھی ذکر کیا ہے اور ان کے مخالفین کا بھی ذکر کیا ہے اس وقت مجھے سکرین پر یہ نظر آ رہا ہے کہ ہمارے ایک بھائی ہیں ظفر محمود احمد صاحب اسلام آباد پاکستان سے انہوں نے چند نہایت اہم اور دلچسپ سوالات بھیجے ہیں میں چاہتا ہوں وہ panel ممبران کے سامنے رکھوں نصیر قمر صاحب پہلا سوال میں آپ کے سامنے رکھنا چاہ رہا ہوں ظفر محمود صاحب اس بات کا ذکر کر رہے ہیں کہ غیر احمدی لوگ اس طرح سوال کرتے ہیں یعنی ایک غیر احمدی بھائی کی طرف سے بھجوائے ہوئے ان کے سوالات ہیں سوال یہ ہے کہ احمدی احباب کی داڑھی بہت چھوٹی ہوتی ہے اور اس سے ان کے عشق رسول کا اظہار نہیں ہوتا داڑھی چھوٹی ہے عشق رسول کا اظہار نہیں ہو رہا آگے وہ کہتے ہیں ربوا میں اس طرح کے نام ہیں نصرت جہاں فضل عمر وغیرہ رکھے جاتے ہیں صحابہ کے پر نام نہیں رکھے جاتے.

00:19:49

اور اسی طرح وہ یہ بھی کہتے ہیں کہ جماعت احمدیہ میں چندوں پر تو بہت زور ہے. لیکن زکوۃ روزہ اور حج پر نہیں ہے. میرے خیال میں شاید انہوں نے بھی نماز کا ذکر عمد نہیں کیا کیونکہ وہ یہ جانتے ہیں کہ جماعت احمدیہ میں نماز پہ تو بہرحال بہت زور ہے. باقیوں پہ کتنا زور ہے. آپ ہمارے ناظرین کو بتا دیں.

00:20:10

دیکھیں نا یہ جو سوالات ہیں یہ اس بات کی نشاندہی کرتے ہیں کہ سے مسلمان جو ہیں وہ ظاہر پرستی پہ بہت زور دینے لگ گئے ہیں اور جو بھی اسلامی شاعر تھے یا اسلامی احکامات ہیں تعلیمات ہیں ان کی روح کو پہ ان کی نظر نہیں ہے اگر ان کا خیال یہ ہے کہ کسی کی داڑھی لمبی ہے تو یہ اس کی لمبی داڑھی اس کے عشق رسول پر دلالت کرتی ہے تو میں بڑے ادب کے ساتھ یہ عرض کروں گا کہ یہ ضروری نہیں ہے اس کے لیے انہیں اپنے معاشرے پر ہی ایک نظر ڈال لیں کہ وہ جنہیں وہ علماء کہتے ہیں ان کی داڑھیاں تو بہت لمبی ہیں لیکن ان کے جو کام ہیں کیا وہ عشق رسول کا کے مطابق ہیں کہ وہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی محبت کا دعوی رکھتے ہیں تو کیا ان کے کاموں کا نتیجہ یا ان کا طرز عمل رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی سنت کے مطابق ہے اگر ایسا ہوتا کہ وہ لوگ واقعتا عاشق رسول ہوتے لاکھوں کی تعداد میں وہاں بڑی لمبی داڑھیوں والے لوگ موجود ہیں عام مسلمان بھی اور ان میں سے علماء بھی لیکن ان پہ آپ خود نظر ڈالیں ہمیں کچھ کہنے کی ضرورت نہیں ہے اگر وہ واقعتا عاشق رسول ہوتے یعنی داڑھی کے اس بات کا اظہار ہوتی ہے کہ وہ عاشق رسول اشاعت رسول کی جماعت ہے تو اس اس ملک کا وہ حال نہ ہوتا جو اس وقت ساری دنیا میں دکھائی دے رہا ہے اور جس پہ خود روزانہ وہ **** بھیجتے ہیں ایک دوسرے کے اوپر جس سے ہمیں مزید تکلیف ہوتی ہے کہ یہ امت مسلمہ ہے رسول اللہ کی طرف منسوب ہوتے ہیں اور کیا کر رہے ہیں تو میرے بھائی ظاہری جو علامات ہیں اس پہ آپ فیصلہ نہیں دے سکتے عشق کا اظہار یہ درست ہے کہ تقاضے بھی ہوتے ہیں وہ بھی ہونے چاہئیں لیکن اگر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے اسوہ حسنہ پر عمل نہیں ہے آپ نے جو تعلیمات دی ہیں ان پہ عمل نہیں ہے تو محض داڑھی جو ہے وہ اس سے کسی کے عشق رسول کا اظہار نہیں ہوتا بات تھوڑی سی ہٹ کے ہے لیکن کسی ایک عربی شاعر کا شعر ذہن میں آ رہا ہے وہ کہتا ہے کہ خلاصہ اس کا یہ ہے کہ اگر آپ کسی ٹٹو پر بڑی خوبصورت چادر ڈال دیں تو اس سے اس کے اخلاق تو نہیں تبدیل ہو جاتے جب تک دل جو ہیں وہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی محبت سے سرشار نہیں ہوتے جب تک دماغ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی تعلیمات کے فلسفے اور روح کو سمجھ کر اس پر عمل کرنے کے لیے تیار نہیں ہوتا تو محض ظاہر چند شعار شاعر کو اپنا لینے سے آپ یہ فیصلہ نہیں کر سکتے کہ یہ بہت با خدا بن گئے یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا عاشق بن گیا ہم بہت ڈرتے ہیں اس بات سے کہ ہم یہ دعوی کریں کہ ہم کوئی بہت بڑی چیز ہے انفرادی طور پر ہم میں سے ہر شخص لرزاں اور ترساں ہیں اللہ تعالی کے غنا سے اور ہمیشہ کوشش رہتی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے اسوے پر عمل کرنے کی توفیق ملے لیکن بحیثیت جماعت ہم یہ دعوی ہیں اور اور اس میں حق بجانب ہیں کہ اللہ کے فضل سے ہم ایک آسمانی امام سے وابستہ ہونے کے نتیجے میں عشاق رسول کی وہ جماعت ہے جو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اور آپ کے صحابہ کے نقش قدم پر چلتی اس کا جائزہ آپ اس بات سے لے لیں کہ یہ وہ جماعت ہے جس کے جس کی مساجد سے جس کی عبادت گاہوں سے کلمہ مٹایا جاتا ہے جن کو کلمہ پڑھنے پر سزائیں دی جاتی ہیں جن کی قبروں کی کی جاتی ہے کیا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا یہ اسوہ تھا کہ دوسروں کے مقابر کی توہین کرو ان کے قدموں کو گرا دو کسی کو کلمہ پڑھے تو اس کی اس کے اوپر سزا دو اس کی مسجدوں کے مینار گرا دو وغیرہ وغیرہ ایک واحد جماعت ہے ساری دنیا میں جس کو اس وجہ سے اس مظالم کا نشانہ بنایا گیا ہے اور ان لوگوں کی طرف سے نشانہ بنایا گیا جو عشق رسول کا دعوی کرتے ہیں اور لمبی لمبی داڑھیاں بھی رکھتے ہیں کہ آپ کلمہ طیبہ الہ الا اللہ محمد الرسول اللہ کیوں پڑھتے ہیں؟ تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ہم نے وہ ساری مظالم کو برداشت کیا تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اور آپ کے صحابہ کے اسوہ پہ کون چلنے والا ہوا؟ محض نام رکھ دینے سے تو نہیں ہوتا۔ پاکستان میں کئی ڈاکو ایسے ہیں۔ زانی ایسے ہیں۔ بدکار ایسے ہیں۔ corrupt لوگ ہیں رشوتیں لیتے ہیں۔ ان کے نام دیکھو تو بڑے ہی صحابہ کے ناموں کے ساتھ یا رسول اللہ کا نام اس میں شامل ہوا ہوگا۔ تو ناموں پہ نہ جائیں۔ جو ہیں وہ بتائیں گے کہ کس کا عشق رسول ہے ہمارے ساتھ جو سلوک کیا جا رہا ہے اور یہ پاکستان کی عدالتوں میں ایک عدالت میں یہ گواہی دی خود ایک مولوی نے کہ ہم احمدیوں سے وہی سلوک کر رہے ہیں جو مشرکین مکہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم اور آپ کے صحابہ کے ساتھ کیا کرتے تھے تو ہمارے لیے یہ بات کافی ہے کہ ہماری نسبت ہمارے اعمال کی نسبت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اور آپ کے صحابہ کے ساتھ ہے اور ہمارے ساتھ سلوک ہو رہا ہے جو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اور آپ کے صحابہ کے ساتھ ہوا تھا اس سے زیادہ اور کیا گواہی چاہیے یہ وہ گواہی ہے جو اللہ کی طرف سے ہمارے اور تمہارے درمیان کافی ہونی چاہیے ظاہر داری پہ نہ جائیں اس روح کو دیکھیں اس اللہ تعالی کے سلوک کو دیکھیں کہ جماعت سے کیا وہ سلوک ہے خدا کا جو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم اور آپ کے سچے متبعین کے ساتھ خدا نے فرمایا ہے یا وہ سلوک ہے جو نعوذ باللہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی سنت سے ہٹنے والوں کے ساتھ خدا نے بیان فرمایا ہے اور اس روشنی میں اپنے اور ہمارے کردار کا جائزہ لیں تو معلوم ہو جائے گا کہ کون اللہ اور رسول کے زیادہ قریب ہے جی بالکل نصیر قمر صاحب جس طرح آپ نے بڑی تفصیل کے ساتھ اور نہایت لطیف انداز میں بیان کر دیا نہ صرف یہ کہ ہر بات بلکہ قرآن کریم کے ہر حکم پر جماعت احمدیہ حتی الوسع کوشش کرتی ہے عمل کرنے کی ابھی ایک کل خطبہ جمعہ حضور نے ارشاد فرمایا اس سے پہلے جو دو خطبات جمعہ قرآن کریم قرآن کریم کے فضائل کے بارے میں اور جماعت احمدیہ ان کے احکامات پر کیسے عمل کرتی ہے اس کے بارے میں ذکر ہے اور ہم ناظرین کو یہ بتاتے چلیں یہ کم علمی تو ہو سکتی ہے کسی کی کہ اس کو پتہ نہ لگے کہ جماعت احمدیہ کلمہ طیبہ نماز روزہ زکوۃ اور hajj پر کس حد تک عمل کرتی ہے لیکن بطور ایک احمدی ہونے کے ہمیں اچھی طرح کا علم ہے کہ ہمارے تو دن رات ہماری صبح شام اسی تگ و دو میں گزرتی ہے کہ احکامات الہیہ پر عمل کریں خود حضرت بانی جماعت احمدیہ فرماتے ہیں جو شخص قرآن کے سات سو حکم میں سے ایک چھوٹے سے حکم کو بھی ٹالتا ہے وہ نجات کا دروازہ اپنے ہاتھ سے بند کرتا ہے تو یہ کیسے ہو سکتا ہے کہ ہم اس کے خلاف جائیں یا کوئی بھی عمل کریں ظفر محمود صاحب آپ کے سوال کا بہت بہت شکریہ لیکن ہمیں یاد ہے آپ کا ایک اور بھی بڑا سوال ہے وہ سوال لے کر ہم وانا کی طرف جائیں گے اور محمد نصیر اللہ صاحب سے بات کریں گے محمد نصیر اللہ صاحب آپ سے میں سوال یہ پوچھنا چاہوں گا ظفر محمود صاحب کا یہ سوال ہے وہ یہ پوچھتے ہیں کہ غیر احمدی کہا کرتے ہیں کہ قرآن مجید میں لفظ ختم بند کرنے کے معنوں میں بھی استعمال ہوتا ہے جیسا کہ آیت ہے سورہ یسین کی آیت ہے تو یہ چاہ رہے ہیں کہ جب یہاں پہ نبوت کے اختتام کا معنی ہو سکتا ہے تو ہم اختتام کا معنی کیوں کر کیوں نہیں کر رہے اور پھر وہ آگے یہ بھی بیان کرتے ہیں کہ ان کی لمبی بات ہے لیکن میرے خیال میں سوال کی حد تک یہ بات واضح ہے کہ قرآن کریم میں جب ختم کا لفظ آخری کے معنوں میں بھی استعمال ہوتا ہے تو ہم کیوں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد کسی نبی کے آنے کو مانیں یہ کیوں نہ مانیں کہ آپ آخری نبی ہیں جی یہ بات درست ہے کہ قرآن کریم میں ختم کا لفظ بند کرنے کے معنوں میں یا آخری کے معنوں میں استعمال ہوتا ہے کہ جیسے ابھی قرآن کریم کی آیت کا آپ نے ذکر کیا ہے.

00:28:50

بات یہ ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے لیے قرآن کریم نے خاتم النبین کا لفظ استعمال کیا ہے. ختم کا معنی کسی کام کو بند کرنے یا مکمل کرنے کے ہو سکتے ہیں. لیکن جب لفظ خاتم استعمال ہو گا. تو عربی زبان کی روح سے اس کے معنی یہ ہوں گے. کہ اس کام کو انتہا تک پہنچانے والا. گویا ایک رنگ میں اس کام کو مکمل کر دینے والا جس طرح خاتم الاولیاء خاتم الشعرا اور یہ اسی طرح اور خاتم الشہداء یہ لفظ استعمال کیا جاتا ہے یعنی اپنی معراج کو پہنچنے والا اپنی انتہا کو پہنچنے والا خاتم جب طے کی زبر کے ساتھ یہ لفظ استعمال ہوگا اس وقت اس کے معنی آخری کے عربی زبان کی روح سے نہیں ہو سکتے جو آیت آپ پیش کر رہے ہیں وہاں جو ہے وہ خاتم کا لفظ استعمال نہیں ہوا دوسرا صیغہ عربی زبان کا استعمال ہوا ہے اور عربی زبان میں جب صیغہ بدلتا ہے تو پھر معنی بھی بدل جاتے ہیں محمد نصیراللہ صاحب نصیر قمر صاحب ہم اگلے سوال کی طرف چلتے ہیں عزیز احمد طاہر صاحب نے لندن سے ہمیں یہ سوال بھیجا ہے وہ یہ پوچھنا چاہتے ہیں کہ پاکستان میں مذہب کے معاملے میں انتہا پسندی کا رجحان دن بدن بڑھتا جا رہا ہے کیا دوسروں کے عقیدے یا مذہب کے معاملے میں ریاست یا حکمرانوں کو یہ اجازت ہے کہ وہ فیصلہ کر سکیں قرآن و سنت کی روشنی میں ان کی رہنمائی کر دیں دیکھیں نا کیسے مذہب کا تو بنیاد ہی ہر انسان کے عقیدے کا جہاں تک تعلق ہے وہ تو اللہ تعالی ایک بار ایمان کے ساتھ ہے اور اللہ تعالی نے کسی اور کو یہ اختیار نہیں دیا کہ وہ اس میں دخل اندازی کرے پچھلی دفعہ بھی آپ نے یہ ذکر فرمایا تھا کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے مبارک دور میں ایک جنگ کے دوران ایک مشرک کا مقابلہ ایک صحابی حضرت اسامہ بن زید رضی اللہ عنہ سے ہوا اور کوشش کر رہا تھا کہ آپ کو شہید کر دے اور آپ اس کے مقابلے میں کھڑے تھے آپ اس پر غالب آ گئے جب اسے گرا لیا تو اس نے فورا کہا لا الہ الا اللہ تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم انہوں نے یہ سوچا کہ یہ تو اس وقت جان بچانے کے لیے کلمہ پڑھ رہا ہے انہوں نے اسے مار دیا اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو جب آ کر بتایا کہ یہ واقعہ ہوا ہے تو آپ کا چہرہ غصے سے تم تما اٹھا اور سخت آپ نے ناراضگی کا اظہار فرمایا اور بار بار یہ فرما کہ تو نے اس کا دل چیر کے دیکھ لیا تھا تو نے اس کا دل کیوں نہ چیر لیا کہ اس نے دکھاوے کے لیے یہ پڑھا تھا تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے یہ ارشاد یہ بتاتا ہے بڑی وضاحت کے ساتھ کہ جب کوئی شخص اپنے عقیدے کا اظہار زبان سے کرتا ہے تو دوسرے کا کام یہ ہے کہ اس پر اعتبار کرے اور کسی اور کا اختیار نہیں ہے کہ اس کے برخلاف اس کو اس کو کہے نہیں اس کے دل میں کچھ اور تھا اس کا ذہن کچھ اور تھا یہ اپنی جان بچانے کے لیے کہہ رہا تھا یعنی گویا منافقت کا اس کو اس کی طرف منسوب پاکستان کا جہاں تک تعلق ہے وہاں تو بہت ہی تکلیف دہ صورتحال ہے مثلا جہاں تک ہمارا تعلق ہے ہماری طرف وہ عقائد بھی خود ہی بنا کے منسوب کر رہے ہیں ایسے عقیدے ہماری طرف منسوب کرتے ہیں جو ہمارے عقیدے ہی نہیں ہیں اور خود ہی وہ عقیدے بنا کے ہماری طرف منسوب کر دیتے ہیں اور پھر کہتے ہیں یہ ہے تمہارا عقیدہ اسی لیے ہم تمہیں سزا دینا چاہ رہے ہیں حالانکہ نہ وہ ہمارا عقیدہ ہے نہ انہیں کسی کے بھی عقیدے میں دخل اندازی کا حق خدا اور رسول نے دیا ہے تو یہ ظلم پر ظلم ہوتا چلا جا رہا ہے ہمارے پہ کہہ دیتے ہیں کہ جی یہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کرتے ہیں ایک بات دکھائیں کہیں سے کہ ہم رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی توہین کی آپ نے ذکر کیا مجھے اچھی طرح خاکسار کا کیونکہ بنیادی طور پہ تعلق کراچی پاکستان سے ہے اور ربوہ جانے کا اتفاق ہوا ہوتا رہتا تھا پھر وہاں تعلیم بھی حاصل کی ایک اسی طرح کا جو common allegation لگایا جاتا ہے بھئی اس کی تو تردید کر کر کے ہم تھک گئے کراچی میں بیٹھے لوگ یہ سوال کر بیٹھتے تھے کہ سنا ہے آپ لوگوں نے ربوا میں جنت اور جہنم بنائی ہوئی ہے ایک وقت یہ گیا کہ بجائے اس کے کہ ان کو جواب دیں یہ مناسب سمجھا گیا کہ ہاں بنائی ہوئی ہے آؤ آؤ تمہیں جا کے دکھاتے ہیں یعنی ایسی ایسی باتیں جماعتیں ایم پی اے کی طرف منسوب کی گئی ہیں کہ جن جو ہم کبھی ہمارے وہموں کو ماننے بھی نہیں ہیں لیکن ہماری طرف منسوب کی گئی ہیں جی نصیر صاحب آپ جس طرح جس طرح وہ کہہ رہے ہیں کہ ابھی ایک سوال انہوں نے کسی کا quote کیا کہ آپ جو ہیں وہ hajj نہیں کرتے فلاں چیزیں نہیں تو عقائد ہماری یہ بھی کہنا شروع کر دیا ایک وقت میں کہ جی ان کا hajj قادیان میں ہوتا ہے ہم تو کے سوا اور کیا کہہ سکتے ہیں اسی طرح اور بہت سارے عقائد اس طرح کے نعوذ باللہ حضرت مرزا صاحب کو آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے بڑھا کر ان کا مقام دیتے ہیں قرآن میں یہ کرتے ہیں وہ کرتے ہیں قرآن میں تعریف کر دی ہے انا للہ وانا الیہ راجعون پاکستان میں قرآن کریم کی اشاعت پر پابندی ہے اور یہ بات یہ ظاہر یاد رہے پاکستان بننے سے پہلے بھی اس خطے میں ہمارے قرآن کریم جو ہیں وہ جماعت کے زیر انتظام چھپتے تھے ہمارے کریم سے مراد یہ ہے جماعت کے زیر انتظام چھپتے تھے اور اس کے بعد بھی چھپتے رہے یہ پچھلے کچھ چند سالوں سے انہوں نے کہا جی اس میں تعریف ہو گی یعنی وہ قرآن کریم اور جس طرح حضور نے گزشتہ خطبے میں بھی بیان فرمایا کہ وہ قرآن کریم کے ترازم اور تفسیر جس پہ اس وقت کے علماء اشعش کر اٹھتے تھے کہ کیا خوبصورت تصویر تفسیر ہے اور کیا خوبصورت ماں نے با محاورہ ترجمہ اس رنگ میں کر دیا ہے کہ اس قرآن پر سے بہت سارے اعتراضات کو اٹھا دیا آج ان کو وہ جو ہیں وہ تعریف نظر آتے ہیں تو یہ یہ جو صورتحال ہے یہ اس کے ذمہ دار وہ علماء ہیں جن کے بارے میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے پہلے سے خبر دے دی تھی کہ وہ یہود کے علماء کے مشابہ ہو جائیں گے لوگ سمجھیں گے کہ یہ علماء ہیں اور جب اس قسم کی امت پہ گھبراہٹ کا زمانہ آئے گا کہ کیا کریں یہ کیا ہو رہا ہے ہمارے ساتھ اور وہ علماء کی طرف جائیں گے کہ شاید وہاں سے کچھ نجات کا راستہ ملے تو وہ دیکھیں گے یہ تو بندر اور سور ہیں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ارشادات بڑے حکمت پہ مبنی ہیں میں ایک دو منٹ لوں گا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ایسے علماء کی پہچان یہ بتا دی کہ وہ کہہ رہا تھا وہ خنازیر ہیں بندر جو ہے وہ قرآن کریم کو پڑھیے یہود کے بارے میں بھی فرمایا تھا کہ وہ بندر ہو گئے تھے سچ مچ کے بندر نہیں بنے تھے کہ دمیں نکل آئی ہوں اور درختوں پہ وہ چڑھنے چھلانگیں مارنے والے ہو گئے تھے بندر صفت جب عام محاورے میں بھی کہتے ہیں کوئی بچہ بہت زیادہ شرارتی ہو تو کہتے ہیں یہ تو بندر ایک جگہ بیٹھتا ہی نہیں یا کسی کی نقلیں اتار رہا ہو تو ان لوگوں کی محض نقالی ہے ظاہری چوغے پہنے ہوئے ہیں داڑھیاں رکھی ہوئی ہیں لیکن کردار سے خالی ہیں امت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی سنت اس میں ان کے کردار میں نمایاں نہیں ہو رہی ہم سب کے لیے نہیں کہہ رہے لیکن اکثریت ایسی ہے اکثریت ایسی نہ ہوتی تو اکثریت کا یہ حال نہ ہوتا اسی طرح کے لفظ میں جو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا اور خود ان کے علماء نے ان باتوں کو بار بار دہرایا بھی ہے کہ ہمارے بعض علماء کی یہ حالت ہو گئی ہے کہ حرام کھا ہیں اور جس طرح خنزیر کی ایک صفت یہ بیان کی گئی ہے کہ وہ اپنے ہی بعض اوقات بچوں کو کھا جاتا ہے حالانکہ وہ گوشت خور جانور نہیں ہیں اسی طرح یہ اپنے ہی ہم جو ہم جنس لوگ ہیں ان کو نقصان پہنچاتے ہیں بالکل ٹھیک تو یہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ارشادات کی روشنی میں دیکھنا چاہیے کہ امت یا خصوصا پاکستان کے حالات اس نہج پہ کیسے پہنچے اور وہ جو ذمہ داران ہیں جب تک ان کو نہیں پہچانتے اور ان سے اپنے آپ کو نہیں چھڑاتے اور خالصتا اللہ اور رسول کی پناہ میں نہیں آتے اور اس کردار اور سنت کو نہیں اپناتے اس صورت یہ صورتحال تبدیل ہونے والی نہیں ہے بالکل ٹھیک آہ آہ نصیر قمر صاحب یہی وہ بات ہے جس کا ہم بار بار یہاں پہ ذکر کر رہے ہیں.

00:36:35

ایک اور نہایت اہم سوال ہے وہ لے کر میں محمد نصیر اللہ صاحب کی طرف جانا چاہوں گا جو گانا سے ہمارے ساتھ شریک گفتگو ہے.

00:36:44

نصیراللہ صاحب مخالفین احمدیت یا بلکہ میں یہ بھی کہنا چاہوں گا کہ جب آہ ایسے مسلمان جو کسی بھی دوسرے مسلم فرقے کی مخالفت کرتے ہیں اور اس کو نقصان پہنچانے کی کوشش کرتے ہیں تو ایک مدع جو کھڑا کرتے ہیں وہ یہ کھڑا کرتے ہیں کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانے میں مسجد ضرار کو بھی تو گرایا گیا تھا اور اس بات کو وہ اپنے بیان کی بنیاد بناتے ہوئے وہ ایک دوسرے کی مساجد بھی گرانے کی کوشش کرتے ہیں اور جماعت احمدیہ کے بارے میں تو گویا ان کو کھلی چھٹی ملی ہوئی ہے لیکن میں چاہوں گا کہ آج آپ یہ مسجد ضرار والا بھی جو معاملہ یہ ضرور ناظرین و سامعین کو بتائیں اور یہ بھی بتائیں کیا کوئی ایک کلمہ گو کسی دوسرے کلمہ گو کی مسجد کو گرا سکتا ہے جی بات یہ ہے کہ قدیم زمانے سے یہ رواج تھا کہ دنیا کے تمام مذاہب میں اپنی عبادت گاہوں میں دوسروں کے جانے کو نامناسب سمجھا جاتا تھا نہ صرف یہ کہ نامناسب سمجھا جاتا تھا بلکہ اس بات پر بڑے بڑے فسادات قتل و غارت برپا ہو جایا کرتے تھے سب سے پہلے یہ اسلام ہی تھا یا آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ہی تھے جنہوں نے رواداری کو مدنظر رکھتے ہوئے مخالفین کو بھی عبادت گاہوں میں مساجد میں داخلے کی اجازت دی چنانچہ تعالی نے خود قرآن کریم میں فرمایا ہے کہ کہ اگر ایک دوسرے کو روکا نہ جاتا اور اس بارے میں حدود و قیود نہ لگائی جائیں اور پابندیاں نہ لگائی جاتیں اور کچھ آزادیاں نہ دی جاتیں تو پھر یہ عبادت گاہوں کا سارا انتظام ہی جو ہے وہ تباہ و برباد ہو سکتا تھا۔ بڑا مشہور واقعہ ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے نجران کے عیسائیوں کو جب وہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے ملاقات کرنے کے لیے آئے تو انہوں نے مسجد میں خود عبادت کی اجازت دی بات یہ ہے کہ مسجد ضرار کا جو واقعہ پیش کیا جاتا ہے اس کی تفصیل کچھ قرآن کریم میں بھی موجود ہے اور روایات میں بھی آتا ہے کہ وہاں مخالفین اسلام نے ایک مسجد تعمیر کی تھی اور آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو اس میں آ کر نماز پڑھنے کی عبادت کرنے کی دعوت بھی دی اس پر اللہ تعالی نے آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو یہ بتایا کہ یہ مسجد دراصل منافقین نے اور مخالفین نے دشمنان اسلام نے اسلام کو نقصان پہنچانے کے لیے اپنی سکیمیں بنانے کے غلط منصوبوں کو عملی جامہ جو ہے وہ پہنانے کے لیے یہ مسجد تعمیر کی ہے اور یہاں عبادت کرنا مناسب نہیں ہے اس پر آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اس مسجد کو گرانے کا حکم دیا اللہ تعالی کی طرف سے رہنمائی پانے کے بعد اب یہ دو باتیں بڑی اہم ہیں سمجھنا نمبر ایک تو یہ کہ اسلام نے کہیں بھی عقیدے کی بنا پر جیسے کہ میں نے پہلے بھی ذکر کیا سزا کی اجازت نہیں دی لیکن یہاں اللہ تعالی نے خود محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو بتایا کہ یہ ایک نقصان دہ کام ہے اور اس کو اس کے مقابل پر آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے جنگوں میں دوسرے مواقع پر ہر قسم کے مخالف کی عبادت گاہ کو ان کے علماء کو اور دیگر جو بھی خطرہ ان کی جو بھی چیز ان کے مذہب سے منسوب تھی اس کو نقصان پہنچانے سے منع کیا ہے تو یہ کیسے ممکن ہے کہ ایک طرف تو آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم تمام مخالفین اسلام کی عبادت گاہوں کو بھی تحفظ دیں ان کے علماء کو بھی تحفظ دیں اور اس مسجد زرار کے واقعے کو بنیاد بنا کر دوسری طرف لوگوں کو عبادت گاہوں کو نقصان پہنچانے کی اجازت دے دیں اس واقعے میں یہ واضح ہے کہ یہ صرف خدا تعالی کے حکم سے کیا گیا تھا اگر انسانوں کو یہ اختیار دے دیا جائے کہ وہ اپنی سمجھ کے مطابق دوسروں کی عبادت گاہوں کو چاہے وہ کلمہ گو لوگوں کی عبادت گاہوں کو مسلمانوں میں سے کوئی فرقہ ہو یا غیر مسلم ہوں نقصان پہنچائیں گرا دیں تو پھر تو دنیا کا امن ہی برباد ہو جائے گا ہر وہ مذہب جب وہ طاقت حاصل کرے گا تو وہ اپنی territory میں اپنے علاقے میں اپنے مخالفین کی عبادت گاہوں کو نقصان پہنچائے گا مسلمانوں کے لیے اگر یہ ہوگا تو وہ عیسائیوں کو یہودیوں کو چرچز کو کو دوسری عبادت گاہوں کو گردواروں کو نقصان پہنچائے گا اور جب ہم یہ کریں گے تو پھر مخالفین اسلام کو اگر وہ کل کو اپنے علاقوں میں مساجد کو نقصان پہنچانا شروع کر دیں تو کیسے روکیں گے جیسے کہ اللہ تعالی نے قرآن کریم میں فرمایا امن برباد ہو جائے گا تو ہرگز مسجد زرار کا واقعہ کسی کو یہ اجازت نہیں دیتا کہ وہ دوسرے کی عبادت گاہ کو نقصان پہنچائے یا اس کو گرائے یا اس کی توہین کرے یہ جو ایمان کا ہے یہ صرف انسان اور خدا تعالی کے مابین ہے اور کسی دنیاوی طاقت کو یہ اختیار نہیں ہے کہ وہ یہ فیصلہ کرے کہ میرا عقیدہ درست ہے دوسرے کا عقیدہ غلط ہے اس لیے میں اس کی عبادت گاہ کو بھی نقصان پہنچاؤں گا بہت بہت شکریہ محمد نصیر اللہ صاحب اس وقت مجھے بتایا جا رہا ہے کہ ہمارے ساتھ ایک کالر موجود ہیں آئیے ہم ان سے بات کرتے ہیں السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ جی السلام علیکم جی میں نصیر حبیب جی نصیر حبیب صاحب کیا آپ کے خیریت سے ہیں جی اللہ کا شکر ہے جی جی ماشاءاللہ بڑا اچھا program جا رہا ہے بڑے اچھے جزاک اللہ تو وہ ایک مسجد زرار کے بارے میں صرف میں یہ بات کہنا چاہتا تھا عرض کرنا چاہتا تھا کہ مسجد زرار ایک تو اللہ تعالی کی جب وہی یہ دوسری جب انہوں نے خود اس مسجد کو حضور پاک صلی اللہ علیہ وسلم کے حوالے کر دیا ہے کہ آپ یہ مسجد آپ تشریف لائے ہیں آپ کی مسجد ہے جب hands over کر دی ہے آپ کے تو تب آپ نے اس کو اللہ تعالی نے حکم آ وہی ہوئی ہے آپ نے کرایا یہ بھی جو ہے نا ذہن میں رکھنا چاہیے بات دوسرا وہ سوال کر رہے تھے کہ جی داڑھی چھوٹی رکھتے ہیں مجھے واقعہ یاد آگیا کہ ایک فرقہ ہے آ صوفیا کے اندر ایک فرقہ ہے کہ اسے شاید روشن شاہی کہتے ہیں وہ اپنے داڑھی اور مونچھیں اور یہ جو ہے اب eyebrows اس کی وہ صفائی کرتا ہے اور اس کے بارے میں یہ مشہور یہ ہے کہ ان کے جو بانی تھے اور ان کی بڑی خوبصورت داڑھی تھی اور کسی عورت سے انہیں اپنے دامے فریب میں لانے کے لیے کسی طرح اپنے گھر میں بلا لیا اور کہا اب تو میرے اب اس کے ارادے عورت کے ٹھیک نہیں تھے تو آپ نے کہا اب تو پھنس گئے ہیں آپ تو نہیں جا سکتے کس طریقے سے تو انہوں نے کہا کہ مجھے اتنی اجازت دے دیں گے میں نے واش روم میں جانا ہے واش روم میں گئے ہیں تو انہوں نے اپنی داڑھی اپنے eyebrows اپنی مونچھیں کاٹ کے باہر جب نکلے ہیں تو اس کو عورت کو اتنی کرایہ تھا کہ اس نے دھکے دے کے انہیں باہر نکال دیا اب انہوں نے آپ یہ کہیں جی سنت جو انہوں نے کر دی تھی انہوں نے تو اپنی عصمت بچائی تو یہ باتیں جو ہوتی ہیں یہ سپیرٹ سے تعلق رکھتی ہیں نعوذ باللہ کیا ہم کہیں گے جی انہوں نے بہت برا کام کیا ایک situation ہوتی ہے ایک ہوتی ہے ہمیں کہا گیا جی اپنے چہرے جو ہیں اپنے balance رکھیں خوبصورت رکھیں تو جتنی کوئی رکھ سکتا ہے سمجھتا ہے کہ یہ اس کے لیے ٹھیک ہے مناسب ہے تو وہ رکھ لیتا ہے تو اصل چیز جو ہے وہ دل کی وہ یہ بات ٹھیک ہے کہ بندے کو جب محبت ہو جاتی ہے سارا ہو جاتا تو حضرت اویس کرنی تھے ان کو پتا چلا دندان مبارک شہید ہو گئے ہیں تو انہوں نے پتا نہیں سوچا کہ کون کون سا نہیں سارے تو یہ محبت کے درجے ہیں بالکل appearance کرنے سے کچھ حاصل نہیں جزاک اللہ بہت شکریہ بہت بہت شکریہ نصیر احمد حبیب صاحب یہ ہمارے panel ممبر بھی ہوتے ہیں آج انہوں نے بہت important input ہمیں اس program میں دیا ہے نصیر صاحب آپ کا جزاک اللہ یہ بھی محض اتفاق ہے آج جو دونوں panel ممبران ہیں وہ بھی نصیر نام کے ہیں اور نصیر حبیب صاحب بھی شامل ہوگئے نصیر قمر صاحب لندن سے ایک دوست کا سوال ہے وہ میں آپ کے سامنے پیش کرنا چاہتا ہوں ابھی مسجد ضرار کا ذکر ان احوال کا ذکر ہو رہا ہے یہ ہمارے بھائی یہ پوچھنا چاہ رہے ہیں پاکستان میں جو احمدیوں کو اپنی مساجد کو مسجد کہنے کی اجازت نہیں اور ان کے مینار گرا دیے جاتے ہیں تو کیا مسجد کا لفظ صرف مسلمان ہی استعمال کر سکتے ہیں اور کیا مینار بھی صرف مسلمان ہی بنا سکتے ہیں نصیر قمر صاحب دیکھیں مسجد کے معنی تو وہ اس جگہ کے ہیں جہاں پہ انسان اللہ تعالی کے حضور سجدہ ریز ہوتا ہے ٹھیک ہے اور یہ ایک لفظ ہے زبان کا اور اصطلاحا پھر مسلمانوں کی جو مساجد تھیں کیونکہ وہ اللہ کی عبادت کے لیے اس کے حضور سجدہ ریز ہونے کے لیے بنائی جاتی ہیں ان کے لیے مسجد کا لفظ استعمال کیا گیا لیکن زبان پر کسی کا وہ اس طرح حق نہیں ہے کہ وہ دوسرا استعمال نہیں کر سکتا شاعر بھی مشترک بھی ہو سکتے ہیں خود قرآن کریم میں اصحاب کہف کے زمن میں یہ ذکر ہے کہ انہوں نے کہا تو انہوں مسجد بنائی تو کیا اس کے لیے جب قرآن کریم نے غیر مسلموں کے لیے عیسائیوں کے لیے ان کی عبادت گاہ کے لیے مسجد کا لفظ ان کی زبان سے استعمال کیا اور بتایا ہے تو کوئی اور کیسے کہہ سکتا ہے کہ ہم کسی کو اور نہیں کر کوئی مسجد کا لفظ استعمال کر سکتا اور پھر جہاں تک ہمارا معاملہ ہے وہ عجیب پریشانی ہوتی ہے سوچ کے کہ عقلوں کو کیا ہو گیا حضرت مسیح موعود علیہ الصلاۃ والسلام نے eighteen eighty nine میں جماعت کی باقاعدہ طور پر بنیاد رکھی چند سال پہلے تک یہ آپ کہہ لیں کہ چوراسی سے پہلے تک کہہ لیں ضیاء الحق صاحب کے ordinance سے پہلے تک وہ ساری ہماری مساجد مساجد تھیں بالکل ٹھیک آپ نے آ کے ان کا نام بدلا ہے ان کو کیا حق ہے کہ وہ ہم اس وہ جو ہم نے اپنی عبادت گاہ کو آپ کہتے ہیں عبادت گاہ ہم نے اپنی عبادت گاہ کے لیے جو نام رکھا ہے اس کو وہ بدل دیں ان کو کیا حق ہے کہ جب ہم کہتے ہیں کہ ہم مسلمان ہیں تو وہ کہیں نہیں تم مسلمان نہیں ہو اور یہ تو اللہ نے اپنے رسول کو بھی یہ حکم نہیں دیا آپ فرماتے ہیں کہ وہ ٹھیک ہے وہ حق ہے ہر ایک کو کہ وہ کہیں کہ میں مسلمان ہوں جب کوئی شخص اپنی زبان سے کہتا ہے تو کسی دوسرے کو حق نہیں ہے کہ وہ کہے کہ تم مسلمان نہیں ہو جہاں تک کردار کا ہے کہ منہ سے وہ دعویٰ کرتا ہے اور عمل اس کا مختلف ہے وہ اللہ کے ہاتھ میں ہے اب یہ اتنے لاکھوں کروڑوں مسلمان ہیں پاکستان میں لیکن کیا وہ واقعتا مسلم ہیں ایک چھوٹی سی بات آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی کہ حضور نے فرمایا کہ حقیقی مسلمان وہ ہے جس کی زبان اور ہاتھ سے دوسرے مسلمان محفوظ رہے کیا وہاں پہ اس حدیث کے مطابق تصویر نظر آتی ہے تو جب خدا کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی بیان فرمودہ مسلمان کی تعریف سے آپ خود باہر ہو جاتے ہیں تو نکلے ہوئے لوگوں کو اسلام کے دائرے سے خود عملا نکلے ہوئے لوگوں کو کسی دوسرے کو کہنے کا یہ حق کیسے ہے کہ تم مسلمان نہیں اس لیے کہ وہ ان جیسا نہیں ہے اس لیے یہ بہت ایسی باتیں ہیں جو میں سمجھتا ہوں کہ بہت زیادتی کرتے ہیں یہ لوگ ہم ضیاء الحق کے ordinance سے پہلے تک اپنے مساجد کو مساجد کہتے تھے انہوں نے کہا ہم نے نہیں کہنے دینا اچھا جی آپ کا حکم ہے آپ کی حکومت ہے آپ کا ڈنڈا ہے آپ کے پاس طاقت ہے کہہ لیں اللہ فیصلہ کرے گا کہ حقیقی مسجدیں کون سی ہیں اس کی نظر کون سی ہے کونسی وہ عبادت گاہ ہے جس میں اس کی سچی عبادت کرنے والے ہیں اور ان کے ساتھ خدا اس کے مطابق سلوک کرے گا وہ ہم دیکھ رہے ہیں دنیا میں کیا ہو رہا ہے کہ ہم تو آپ نے وہاں سے مسجدیں گرائیں مینار گرائے دنیا بھر میں مساجد میناروں کے ساتھ بن رہی ہیں سینکڑوں ہزاروں مساجد بن رہی ہیں بنی بنائی مساجد بھی اللہ کے فضل سے عطا ہو رہی ہیں کیوں کہ لوگ احمدیت میں مسلمانوں میں سے بھی داخل ہو رہے ہیں تو یہ خدا کی فعلی شہادت کو دیکھیں میناروں کو جہاں تک گرانے کا تعلق ہے آپ یہاں گرا لیں گے دوسری جگہ کیا کریں گے آپس میں بھی ایک دوسرے کی مسجدوں کے گراتے ہیں ٹھیک ہے اور میں نے جیسا کہ پچھلی دفعہ عرض کیا تھا اس میناروں کی شکلوں پہ جائیں پنجاب ہندوستان کے پنجاب میں جائیں سکھوں کے گردوارے ہیں اتنے خوبصورت انہوں نے میناریں بنائے ہوتے ہیں اور اتنے شاندار بنائے ہوتے ہیں کیا نعوذ باللہ ان کو بھی یہ گرانے کی طاقت رکھتے ہیں بالکل ٹھیک نصیر صاحب جس طرح آپ نے ذکر کیا اچھا دیکھیں ہمارے ساتھ تو جسے کہتے ہیں نا ایک قدم بڑھ کے زیادہ زیادتی کرنے کی کی جا رہی ہے انیس سو چوہتر میں ہمیں غیر مسلم قرار دے دیا ٹھیک ہے آپ نے جو کہنا ہے کر لیں آگے کہتے ہیں نہیں اب تم نے غیر مسلم بن کے بھی دکھانا ہے یہ ہمیں کوئی ہم مجبور نہیں کر سکتے آپ نے ہمیں جو کہنا ہے آپ نے کہہ لیا لیکن لا الہ الا اللہ محمد الرسول اللہ آپ ہمارے سینوں سے نہیں نکال سکتے ہم نے نمازیں پڑھنی ہیں پڑھتے ہیں اور تا قیامت پڑھتے رہیں گے روزہ رکھنا ہے رکھتے ہیں تا قیامت رکھتے رہیں گے یہی زکوۃ اور hajj تمام باتیں جو ہمارے آقا و مولا حضرت محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وسلم نے ہمیں ہیں ہم وہ کرتے ہیں اور کرتے رہیں گے کیونکہ یہی حضرت مرزا غلام احمد قادیانی علیہ الصلاۃ والسلام اور ان کے بعد آپ کے خلفاء نے ہمیں سکھایا ہے ایک اور سوال لے کر میں محمد نصیراللہ صاحب کے پاس گانا جانا چاہوں گا محمد نصیراللہ صاحب ہمارے regular سوال پیش کرنے والے ہیں عارف الزمان صاحب لیکن ان کا سوال بڑا اہم ہے وہ یہ پوچھنا چاہ رہے ہیں کہ آپ لوگ اس program میں مذہبی رواداری کا ذکر کر رہے ہیں تو پھر ذرا یہ بھی تو کہ مذہبی رواداری کو مدنظر رکھتے ہوئے اسلام کے اور خاص طور پہ ابتدائی اسلام کے زمانے میں یہ جو جنگیں کی گئی ہیں ان کی کیا وجوہات تھیں اور جنگوں کے بارے میں عمومی طور پر کیا تعلیم ہے اسلام کی? جی یہ آہ بڑا اہم سوال ہے.

00:50:24

اور اکثر مخالفین اسلام پر یہ اعتراض کرنے کی کوشش کرتے ہیں. بات یہ ہے کہ اسلام نے ہرگز جنگیں کرنے کا حکم نہیں دیا. اسلام کی ساری ابتدائی تاریخ اس بات کی گواہ ہے کہ اسلام نے ہر ممکن طور پر پرامن رہتے ہوئے مذہب کو پھیلانے کی کوشش کی. آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اپنے مطبعین کو ہمیشہ یہ سکھایا.

00:50:48

جب کمزور تھے وقت بھی اور جب طاقتور تھے اس وقت بھی جب مخالفین اسلام نے ہر قسم کی جو زیادتی ہے وہ روا رکھی مسلمانوں کے ساتھ ان کے بائیکاٹ کیے گئے ان کو مارا پیٹا گیا ان کو نقصان پہنچایا گیا ان کو قتل کیا گیا شہید کیا گیا تو اس موقع پر پھر اسلام نے اللہ تعالی نے یہ کہہ کر جہاد کرنے کی جنگ کرنے کی آزادی دی یا اجازت دی کہ چونکہ تم پر ظلم گیا ہے اس لیے اجازت دی جا رہی ہے یہ اجازت ہی اپنی ذات میں بتاتی ہے کہ جنگ کی مشروط اجازت اسلام کی اللہ تعالی کی طرف سے دی گئی تھی کہ اگر مخالفین طاقت کی زور سے تمہارا مقابلہ کریں تو پھر اس کے مقابلے پر تمہیں بھی طاقت استعمال کرنے کی اجازت ہے اب جو جنگوں کے بارے میں یا لڑائیوں کے دوران دوسرا حصہ ہے سوال کا اس کا کچھ ذکر کر لیتے ہیں اسلام جیسے کہ ابھی محترم نصیر قمر صاحب نے بیان کیا اسلام کا تو مطلب ہی امن کا پیغام ہے مسلمان تو اللہ علیہ وآلہ وسلم کی تعریف کے مطابق کہا ہی اسے جاتا ہے جس کے ہاتھ سے زبان سے دوسرے مسلمان محفوظ رہیں تو یہ کس طرح ممکن ہے کہ اسلام قتل و غارت گری کا حکم دے چنانچہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ہمیں یہ سکھایا کہ حتی الامکان پرامن رہتے ہوئے اسلام کی تبلیغ کی جائے اور اپنے مخالفین کے ساتھ کسی قسم کا لڑائی جھگڑا نہ کیا جائے لیکن اگر وہ باز نہ آئیں اور اسلام کو نقصان پہنچانے کی کوشش کریں طاقت کا استعمال کریں تو پھر تم ان سے لڑنے کے لیے جا سکتے ہو اس صورت میں بھی پہلے تم نے صلح کا پیغام دینا ہے اور اگر تمہارا ان سے کوئی معاہدہ ہو جاتا ہے تو پھر ہرگز لڑائی نہیں کرنی اور ہر صورت اس معاہدے کی پاسداری کرنی ہے لیکن پھر بھی اگر لڑائی کی نوبت آ جاتی ہے تو پھر اس صورت میں آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے یہ فرمایا کہ تم نے کسی دوسرے مذہب کی عبادت گاہوں کو نقصان نہیں پہنچانا ان کے علماء کو جس کی بھی تفصیل میں نے کچھ پچھلے سوال میں بھی عرض کی تھی ان کے علماء کو نقصان نہیں پہنچانا عورتوں کو نقصان نہیں پہنچانا بچوں کو نہیں پہنچانا درخت نہیں کاٹنے لوگوں کا غلہ نہیں روکنا کمزور کا مقابلہ نہیں کرنا صرف اسی سے لڑائی کرنی ہے جو تمہارے مقابل پر آئے اور لڑائی کرنے کی کوشش کرے اور صلح کی طرف نہ آئے معاہدے کی طرف نہ آئے اور پھر ان سب باتوں کے بعد اگر تم ان ان کو اسیر بنا لو جنگ کی صورت میں تو پھر ان قیدیوں کے ساتھ بھی زبردستی کرنے کی اجازت نہیں ہے ان کے لیے ایسی شرائط مقرر کی گئی کہ ان کو وہ اگر کچھ مسلمانوں کو اگر لکھے قیدی ہیں پڑھنا لکھنا سکھا دیں تو ان کو آزاد کر دو یا اگر وہ تم سے وہ جو ہے وہ یہ ایک معاہدہ کر لیں کہ وہ بعد میں رقم ادا کر دیں گے تو ان کو چھوڑ دو اگر آپ اسلامی تاریخ دیکھیں تو جنگ عذاب میں کوئی زیادہ قیدی آئے ہیں اس سے پہلے تو تھوڑے قیدی آئے ہیں لیکن ان تمام قیدیوں کو اسلام قبول کرنے پر مجبور نہیں کیا گیا وہ اپنے معاہدات یا تاوان دے کے یا دوسرے شرائط پوری کر کے آزاد ہوئے ہیں اور جو اسلام پھیلا ہے وہ امن کی کے ذریعے پھیلا ہے وہ پیار و محبت کی تعلیم کے ذریعے پھیلا ہے اسلام کا تو مطلب ہی سلامتی دینا ہے اسلام ہرگز جو ہے وہ اس طرح خون بہانے کی زبردستی پھیلانے کی زبردستی اسلام پھیلانے کی اجازت نہیں دیتا اور لڑائی جھگڑے کی اجازت نہیں دیتا بہت بہت شکریہ محمد نصیر اللہ صاحب میں آپ کا بھی شکر گزار ہوں نصیر قمر صاحب آپ کا بھی بہت بہت شکریہ اور ناظرین ہمیشہ کی طرح آپ کا شکریہ ادا کرنا خاکسار کا فرض ہے فخر الدین بابر صاحب نے ایک سوال بھیجا ہے آخر میں ایک واقعہ آپ کو سنا جاؤں گا مجھے امید ہے اس واقعہ میں ہی آہ فخرالدین صاحب کے سوال کا جواب ہو گا راشدہ چوہدری صاحبہ نے بھی ایک سوال بھیجا ہے جس کا تعلق خاص طور پر یوم اور کی پیشگوئی سے ہے میں یہ بھی عرض کرتا چلوں ابھی جب ہمارا program راہ ہدا ختم ہوگا تو اس کے چند منٹ کے بعد آپ کی خدمت میں ایک اور براہ راست program پیش کیا جائے گا جو خاص طور پہ تفصیل کے ساتھ یوم مصلح بہت کے حوالے سے ہوگا اس کو ضرور دیکھیں لیکن جاتے جاتے آپ کو یہ واقعہ سنانا بہت ضروری ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی زندگی میں ایک دفعہ ایک عرب کا بدو وہ ایمان لے آیا آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں آ کر جب اس نے اسلام قبول کر لیا اور مدینہ میں چند دن رہا تو اس کو شدید بخار چڑھ گیا کیونکہ تباہ پرست آدمی تھا اس کو ایسا لگا کہ گویا یہ اس اسلام لانے کی وجہ سے ہوا ہے وہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوا اور اس نے کہا کہ مجھے میرا جو بیعت ہے وہ واپس کر دے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کی بات کو اہمیت نہیں دی کیونکہ بہرحال ایک بخار کی کیفیت تھی تو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کو واپس بھجوا دیا لیکن وہ پریشانی کے عالم میں دوسری دفعہ بھی آیا اور تیسری دفعہ بھی آیا یہاں تک کہ وہ مدینہ چھوڑ کے چلا گیا اس موقع پر آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے کوئی ایسا عمل نہیں دکھایا کہ دیکھو وہ مرتد ہو گیا ہے اس کو ڈھونڈو اس کو پکڑ کے مارو بلکہ اس موقع پر آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرما کہ مدینے کی مثال تو بھٹی کی طرح ہے جو میل کو باہر نکال دیتی ہے اصل بات یہ ہے کہ جو اسلام کی تعلیمات پر عمل پیرا ہے وہ ہے اور اس کا فیصلہ اللہ تعالی کرے گا کہ کون حقیقی اسلامی تعلیمات کو ماننے والا ہے جماعت احمدیہ جو کہتی ہے جو کرتی ہے وہ آپ کے سامنے ہیں ہم تو ایمان لانے والوں میں سے ہیں جو لوگ ایمان نہیں لائے ان کے لیے اس بات کی ضرورت ہے کہ دیکھیں سوچیں سمجھیں.

00:56:28

اگلے پروگرام تک کے لیے اجازت دیجیے. السلام علیکم ورحمتہ اللہ وبرکاتہ.

00:56:40

ہم تو رکھتے ہیں مجلمہ کا دین ہم تو رکھتے مسلماناں کا دن دل سے ہیں خدا میں ختم سلیم

Leave a Reply