Ahmadi Muslim VideoTube Rahe Huda Rahe Huda 11 03 2023

Rahe Huda 11 03 2023



Rahe Huda 11 03 2023

Rahe Huda 11 03 2023

කට මුල් මුරසලේ හ ناظرین آج گیارہ مارچ سن دو ہزار تئیس عیسوی ہفتے کا روز ہے انڈیا میں اس وقت رات کے دس بجے ہیں اور جی ایم ٹی کے مطابق اس وقت سہ پہر کے ساڑھے چار بجے ہیں اور ناظرین یہ وقت ہے program راہ خدا کا قادیان دار الامان سے program راہ ہدا کے چار episodes پر مشتمل سیریز کے ساتھ ہم آپ کی خدمت میں حاضر ہے ہمارے regular viewers یہ بات جانتے ہیں ہمارا یہ program ایک live discussion program ہے اور live ہونے کے ساتھ ساتھ یہ program interactive بھی ہے اور یہ program interactive اس حوالے سے ہے کہ ہمارے ساتھ اس program میں جڑ سکتے ہیں اس program میں شامل ہو سکتے ہیں ہمارے ہمارے اس سٹوڈیو discussion کے ساتھ ساتھ ہم سے فون lines کے ذریعے اپنے سوالات پوچھ سکتے ہیں ہم سٹوڈیو میں ان کے سوالات کو سنتے ہیں اور یہاں پر سٹوڈیو میں موجود علماء کرام کے panel میں ان سوالات کو پیش کرتے ہیں اور ہمارے علماء کرام ان سوالات کے جوابات اسی سٹوڈیو میں اور اسی program کے ذریعہ ان کو دیتے ہیں ناظرین اگر آپ بھی ہم سے اس program میں ہمارے ساتھ شامل گفتگو ہونا چاہتے ہیں تو آپ فون lines کے ذریعہ رابطہ کر سکتے ہیں اسی طرح ٹیکس messages fax messages اور ای میل کی سہولت بھی دستیاب ہے تو ناظرین اگر آپ ہم سے اس program میں جڑنا چاہتے ہیں تو ہم آپ کو یہ بتا دیں کہ ہماری فون lines آپ سے activated ہیں اور ہم یہ امید کرتے ہیں کہ ہمارے ناظرین اپنے ٹیلی vision screens پر ہم سے رابطے کی تمام تفاصیل ملاحظہ فرما رہے ہوں گے ناظرین جیسا خاکسار نے ابھی عرض کیا کہ قادیان دارالامان سے program راہ خدا کے چار episodes پر مشتمل سیریز لے کر ہم آپ کی خدمت میں حاضر ہوئے ہیں۔ آج کا یہ program اسی سلسلے میں پہلا episode ہے۔ ناظرین اس مکمل سیریز میں ہم بعثت سیدنا حضرت اقدس مسیح موعود علیہ الصلاۃ والسلام کے موضوع پر بات چیت کریں گے۔ آپ علیہ السلام کے مقام اور مرتبہ کو واضح طور پر بیان کریں گے۔ اسی طرح حضرت معود علیہ الصلاۃ والسلام کی بعثت کے متعلق جو پیش گوئیاں قرآن مجید احادیث نبویہ صلی اللہ علیہ وسلم اور اکابرین اسلام میں پائی جاتی ہیں ان پر روشنی ڈالیں گے اسی طرح امام الزمان کی بیت میں آنے کی ضرورت کے متعلق بھی ہم اس program میں بات چیت کریں گے نیز جماعت احمدیہ کے خلاف جو اعتراضات پیش کیے جاتے ہیں ان اعتراضات کا جواب بھی اس program کے ذریعہ آپ کے سامنے پیش کیا جائے گا ناظرین آج کے میں جو خاکسار کے ساتھ علمائے کرام شامل گفتگو ہوں گے میں سب سے پہلے ان کا تعارف کروا دیتا ہوں محترم مولانا محمد حمید کوثر صاحب اسی طرح محترم مولانا منیر احمد خادم صاحب خاکسار کے ساتھ اس میں شامل گفتگو ہوں گے میں ہر دو حضرات کا اس program میں خیر مقدم کرتا ہوں ناظرین آخری زمانہ کے متعلق ہر مذہب میں کچھ نہ کچھ ذکر ملتا ہے اور ایک معود کے آنے کے متعلق پیش گوئیاں بھی پائی جاتی ہیں قرآن مجید میں بھی ایک معود کے آنے کے متعلق پیش گوئیاں ملتی ہیں حضرت خاتم الانبیاء محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وسلم نے بھی مسلمانوں کے تنزل کے زمانہ میں ایک مسیح و مہدی کے آنے کی بشارت بیان فرمائی ہے اس مسیح و نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے روحانی فرزند اور ظل کے طور پر بعثت کرنی تھی اس مسیح و مہدی نے اسلام کی نشط ثانیہ میں احیائے دین اور قیام شریعت کا عالم بلند کرنا تھا اور اللہ تعالی نے اس کے ذریعہ تمام ملتوں کے مقابل پر روح زمین پر اسلام کو غالب کرنا تھا غرض اس مہدی کے ذریعہ غلبہ اسلام کا کام مقدر تھا اس مہدی کے آنے کے ساتھ ہی تمام مسلمانوں کے لیے ضروری ہے کہ وہ اس کی بیعت میں شامل ہوں۔ تاکہ غلبہ اسلام کا عظیم مقصد پورا ہو سکے۔ ناظرین آج کے program کو آگے بڑھاتے ہوئے خاکسار کا سب سے پہلا سوال محترم مولانا حمیم محمد حمید کوثر صاحب سے یہ ہے کہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلاۃ والسلام کی بعثت کے متعلق سورۃ الجمعہ اور سورۃ الصف میں جو پیش گوئیاں بیان ہوئی ہیں۔ حضرت مسیح موعود علیہ الصلاۃ والسلام پر ان کے اطلاق کے متعلق کچھ بیان فرمائیے۔ آ ناظرین کرام اللہ تعالی نے سورہ جمعہ میں فرمایا کہ وہی اللہ ہے جس نے امین میں اپنا رسول یعنی سیدنا محمد صلی اللہ علیہ وسلم کو بھیجا وہ ان پر اس کی آیات اللہ کی پڑھ کے سناتا ہے ان کو پاک کرتا ہے اور ان کو کتاب اور حکمت سکھاتا ہے اس کے بعد آیت ہے انہی میں سے دوسروں کی طرف اسے مبعوث کیا گیا ہے جو ابھی سے نہیں ملے.

00:07:13

یعنی ان سے ابھی وہ ملے نہیں ہیں.

00:07:17

ابھی ملے نہیں ہیں.

00:07:20

یہ واو عاتفہ سے جڑا ہوا ہے.

00:07:28

اور دوسرا اگر ہم اس طرح سے اس کو سمجھنے کی کوشش کریں کہ امین کی طرف بھی ہے وہ اور یہ آخرین کی طرف بھی ہے وہ اس کی بے عزت ہے اور جو اس پہ ایمان لانے والے ہیں ابھی تک وہ پہلوں سے ملے نہیں اب جب یہ سورہ جمعہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم پر نازل ہوئی تو ابو ہریرہ رضی اللہ تعالی عنہ اس مجلس میں تشریف فرما تھے۔ آپ نے حضور صلی اللہ علیہ وسلم سے پوچھا کہ یہ امین کو آخرین سے ملانے والا کون ہے؟ یہ کون ہے یہ؟ جس کی بعثت کا یہاں ذکر آ رہا ہے۔ کہ امین میں بھی ہو گی اور آخرین میں بھی ہو گی۔ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کا جواب نہیں دیا.

00:08:24

اس نے حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ تعالی عنہ نے دو یا تین دفعہ اس کو دہرایا.

00:08:30

پھر حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے گویا وہ انتظار کر رہے تھے کوئی الہی تفہیم کا.

00:08:37

جب حضور کو الہی تفہیم ہو گئی. تو آپ نے فرمایا حضرت سلمان فارسی رضی اللہ تعالی عنہ پر ہاتھ رکھ کے آپ نے فرمایا اگر ایمان ثریا ستارے پہ بھی چلا جائے گا تو ان میں سے ایک آدمی اللہ تعالی بھیجے گا جو کہ اس کو دوبارہ لائے گا اور یہ آنے والا ابنائے حارث میں سے وہ شخص ہوگا جس کی سیدنا محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وسلم کی ثانیہ ہوگی وہ آپ کی ثانیہ کا مظہر ہوگا.

00:09:24

چنانچہ حضرت مرزا غلام احمد صاحب قادیانی علیہ السلام ابنائے فارس میں سے ہیں.

00:09:31

اور اس وقت آئے جب کہ اسلام اس دنیا سے اٹھ چکا ہوا تھا. وہ اسلام جس کی بنیاد سیدنا محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وسلم نے رکھی تھی. وہ بالکل ختم ہو چکا ہوا تھا. اور خود مسلمانوں کے معروف شاعر وہ یہ کہتے تھے. رہا دین اسلام باقی اسلام کا رہ گیا نام باقی یہ خود عوام زبان حال سے وہ کہہ رہے تھے کہ اسلام وہ آسمان پہ اٹھ گیا اور ان کو دوبارہ لانے والا وہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی بعثت ثانیہ کا مظہر ہی کوئی ہو سکتا ہے جو اسلام کو دوبارہ واپس لائے حضرت مسیح ماؤد علیہ السلام کی یہ بعثت ثانیہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی بعثت ثانیہ کے طور پہ ہے آپ کے کے طور پہ ہے اور حضرت مرزا غلام احمد صاحب قادیانی سیدنا حضرت محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وسلم کے امتی نبی ہیں ظلی نبی ہیں امتی رسول ہیں ظلی رب آپ رسول اور نبی ہیں بغیر کسی شریعت کے آپ کا کام اس اسلام کو جو ثریا پر اٹھ گیا ہے اس کو دوبارہ لا کے اس روح زمین پر اس کی اشاعت کرنا اور اس کے صحیح مفاہیم اور صحیح دنیا کو دنیا کو اس سے روشناس کروانا یہ آپ کا کام ہے جو تفسیر اس سورہ جمعہ کی جماعت احمدیہ پیش کرتی ہے اگر اس کے علاوہ کوئی اور تفسیر معقول ہے تو یہ ہمارے مسلمان بھائیوں کو چاہیے وہ اس کو پیش کریں آج تک تو وہ پیش کر نہیں سکے حضرت مسیح معود علیہ السلام نے اس کو بیان کیا ادھر ادھر کی باتیں کرتے ہیں وہ جو صحیح مفہوم ہے وہ اس کا نہیں ہے لیکن پہ ایک بات اور میں کہنا چاہتا ہوں اسی سورہ جمعہ میں اللہ تعالی نے ایک مثال یہود کی دی کہ ہم نے ان کو تورات دی تھی لیکن انہوں نے تورات کو کی ذمہ داریوں کو نہیں سمجھا اسے پس پشت ڈال دیا اور اللہ تعالی نے ان کی مثال ہمار کی دی گدھے کی مثال دی یہاں اس آیت کو اس کے بعد لانے کا مقصد یہ ہے اے مسلمانوں تم بھی وہ کام نہ کرنا جو کہ یہود نے کیا جب رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی بعثت ثانیہ کا مظہر رونما ہو تو وہ حجتیں نہ کرنا اس طرح تکذیب نہ کرنا جیسے یہود نے رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی کی اور حضرت عیسی علیہ السلام کی کی اس میں ایک بہت بڑا انظار ہے مسلمانوں کے لیے کاش کہ وہ اس کو سمجھے اب آپ نے جو دوسری آیت سوال کیا سورہ صف دیکھیں نا سورہ صف میں اللہ تعالی نے حضرت عیسی علیہ السلام کی زبانی یہ بات کہی۔ عیسی علیہ السلام کی زبانی اللہ تعالی کیا فرما رہا ہے سورہ سف میں کہ اس وقت کو یاد کرو جب عیسیٰ ابن مریم نے کہا اے بنی اسرائیل یقینا میں تمہاری طرف اللہ کا رسول ہوں مصدق میرے سامنے جو اس وقت تورات ہے نا میں اس کی تصدیق کرنے والا ہوں اس کا مصدق ہوں اب یہاں پر پیش گوئیوں کی اگر ہم بات لیں رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی بعثت کے بارے میں تورات میں استثنیٰ باب اٹھارہ میں یہ پیش گوئی آ چکی ہوئی ہے کہ تیرے بھائیوں میں سے ایک نبی برپا ہوگا وہ دس ہزار قدوسیوں کے ساتھ فاران کے پہاڑوں سے آئے گا یہ ساری پیش گوئیاں رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے بارے میں تورات میں آ چکی ہوئی ہیں آپ کیا فرماتے ہیں میں ان کا مصدقن میں اس کی تصدیق کرنے والا ہوں ان پیش گوئیوں کی تصدیق کرنے والا ہوں اس پہلو کو ہمارے مسلمان بھائیوں کو سمجھنا چاہیے کہ وہ کہہ رہے ہیں میں تصدیق کرنے والا ہوں آگے جو بات اللہ تعالی ان کی زبانی کہلوا رہا ہے اور میں بشارت دینے والا ہوں ایک ایسے رسول کی جو میرے بعد آئے گا اور اس کا نام احمد ہوگا یہاں پر میں بالکل وضاحت کے ساتھ کہنا چاہتا ہوں احمد کے اول المخاطب سیدنا محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وسلم ہے احمد کے دوسرے مخاطب سیدنا حضرت مرزا غلام احمد صاحب قادیانی علیہ السلام ہیں جو مسیح موعود و مہدی معود علیہ السلام ہیں آپ احمد کے مصداق ہیں اور اس آیت کا اطلاق حضرت مسیح ماؤد علیہ السلام پر ہوتا ہے اب جب وہ لفظ مبشر کہتے ہیں دیکھیں عربی زبان میں یا اردو میں خوش خبری کس کو کہا جاتا ہے خوش خبری اس کو کہا جاتا ہے کہ آپ کوئی نئی بات کسی کو سنا رہے ہوتے ہیں مثال کے طور انتیس رمضان المبارک میں اگر ہلال نظر آتا ہے اور کوئی آ کے ہم کو کہتا ہے چاند نکل آیا کتنی خوشی ہوتی ہے مگر اس کے بعد ایک اور آ جائے چاند نکل آیا ہم کہیں گے وہ سن چکے ہیں ہم ہی کو اب جو رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی پیشگوئی تھی وہ تورات میں موجود تھی اور اس کی وہ تصدیق کر رہے تھے جس کی وہ بشارت دے دے رہے تھے وہ اپنے جیسے ایک مسیل کی بشارت دے رہے تھے جس کو امت المحمدیہ میں آنا تھا آپ یہ بتا رہے تھے جیسے موسی علیہ السلام شرعی نبی تھے اور میں کی امت میں سے ایک عیسی مسیح نبی ہوں اسی طرح اس جس رسول کی بشارت دی گئی ہے میں یہ بشارت دے رہا ہوں وہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی بحثت ثانیہ کا مظہر ہوگا اور وہ جمالی رنگ میں حضور کا ظل ہوگا اب یہاں پہ ایک بات اور اگر ہم انجیل کو پڑھتے ہیں انجیل کو پڑھ لیں آپ یوحنا میں وہ کیا کہتے ہیں یوحنا میں حضرت مسیح علیہ السلام کہتے ہیں میں اب جاتا ہوں مجھے اب تم نہیں دیکھو گے لیکن با روح الحق کو بھیج دے گا؟ سوال یہ ہے پہلے تو پیش گوئیاں رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے بارے میں آ چکی ہوئی ہیں۔ روح الحق سے صرف حضور صلی اللہ علیہ وسلم مراد ہوتے۔ تو پھر یہ ان کو پیش گوئی کرنے کی ضرورت کیا تھی؟ صرف اتنا کہتے جن کی پیش گوئیاں پہلے آ چکی ہیں۔ اس کو اللہ بھیج دے گا۔ مراد یہ تھی کہ روح الحق سے مراد سیدنا محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم جیسا کہ موسی علیہ السلام ہیں اور طرح مسیح جیسا کہ میں ان کے امت میں مسیح ہوں اسی طرح امت محمدیہ میں ایک مسیح آئے گا جس کی کہ میں بشارت دے رہا ہوں اور یہاں پہ وہ سراہت کے ساتھ کہہ رہے ہیں اب حضرت مسیح موعود علیہ السلام اس کے بارے میں کیا فرماتے ہیں آپ فرماتے ہیں محمد جمالی نام ہے اور احمد آ محمد جلالی نام ہے اور احمد جمالی اور احمد اور عیسی اپنے جمالی ایمانوں کی روح سے ایک ہی ہیں یعنی عیسی علیہ السلام نے جو خوشخبری دی تھی جو یہ بتایا تھا کہ میرا ایک مسیح لائے گا اور عیسائیوں کو اصل میں اس میں نصیحت تھی کہ جب وہ روح الحق آئے تم اس کو ماننا کیونکہ میں اب نہیں آؤں گا جو آئے گا میرا مسیح ہی آئے گا تم اس کو ماننا یہاں پر جمالی بات مسیحا صاحب فرما رہے ہیں کہ احمد اور عیسیٰ اپنے جمالی ایمانوں کی روح سے ایک ہی ہیں۔ اسی کی طرف یہ اشارہ ہے مگر ہمارے نبی صلی اللہ علیہ وسلم فقط احمد ہی نہیں بلکہ محمد بھی ہیں۔ یعنی جامع جلال و جمال ہیں۔ لیکن آخری زمانہ میں لیکن آخری زمانہ میں پیش گوئی مجرد احمد جو اپنے اندر حقیقت عیسویت رکھتا ہے وہ بھیجا گیا ہے یعنی سیدنا حضرت مسیح موعود علیہ السلام اور اس کا مقصد یہ تھا کہ عیسائیوں پہ اہتمام حجت ہو جو اب تک یہ کہتے ہیں کہ عیسی آسمان پہ اٹھا لیا گیا اور وہ زمین پہ آئے گا مسیح علیہ السلام نے کہا کہ میرے بعد میں چلا جاؤں گا میرے جانے کے بعد سب سے پہلے سیدنا محمد صلی اللہ علیہ وسلم اپنی بعثت اولی کے رنگ میں تشریف لائیں گے اس کے بعد ان کی بعثت ثانیہ کے طور پر ایک احمد آئے گا اور تم اس کو ماننا اور یہی بات حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے فرمائی کہ میں مسلمانوں کے لیے مہدی عیسائیوں کے لیے مسیح اور اسی طرح ہندوؤں کے لیے وہی کرشن راجہ جس کا وہ انتظار کر رہے ہیں یہ حضور نے صراحت کے ساتھ بیان کیا یہ دونوں پیش گوئیاں احمد اور احمد کی ایک آہ جو اس سورہ صف میں بیان فرمائی گئی یہ مشہول کا سیکھا ہے مظاہرہ کا صیغہ ہے کہ وہ بلایا جائے گا اب اس کے اندر کتنی بڑی حقیقت ہے کہ جو احمد ہوگا پہلے اس کو اسلام سے خارج کیا جائے گا اس کو کہیں گے تو دائرہ اسلام سے خارج ہے پھر اس کو بلایا جائے گا اسلام کی طرف کہ تو توبہ کر کے اسلام کی طرف واپس آجا آج ساری دنیا اس کا مشاہدہ کر رہی ہے کہ ہر جگہ احمدیہ سے یہی مطالبہ ہوتا ہے کہ تم اسلام کی طرف اب جو میں جو ہمارے شہید ہوئے جماعت احمدی کے شہید ہوئے ان سے کیا پوچھا گیا ان سے یہی پوچھا گیا اسلام کی طرف واپس آؤ اور ایک ایک ان میں سے کہتا گیا کہ میں اسلام پر ہوں تم کس اسلام کی طرف مجھے بلا رہے ہو اسلام کی پیش گوئی وضاحت سے پوری ہوئی اور صفائی سے پوری ہوتی چلی جا رہی ہے اور یہ اور سیدنا محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وسلم تھے آپ کو اسلام کی طرف نہیں بلایا گیا تھا آپ تو اسلام کی طرف بلانے والے تھے جو بلایا گیا وہ سیدنا حضرت مرزا غلام احمد قادیانی علیہ السلام مسیح معود و ماہدی معود علیہ السلام ہیں جن کو کے نوے علماء نے شروع میں ہی دستخط کر کے دائرہ اسلام سے خارج کر دیا تھا اور یہ کفر کا فتویٰ دے کے پھر یہ کہنا شروع کیا کہ آپ اسلام کی طرف واپس آ جاؤ۔ اے احمدیوں آپ کی طرف رواں دو۔ اور یہاں پہ کہ جس احمد کی یہاں پیش گوئی کی جا رہی ہے۔ سیدنا محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وسلم کی بعثت ثانیہ کے مذہب کی جو پیش گوئی کی جا رہی ہے۔ عیسی علیہ السلام کے مسیح کی احمد کی جو امت محمدیہ میں آئے گا اس کی پیش گوئی کی جا رہی ہے۔ اس کو اسلام کی طرف بلایا جائے گا وہ اسلام کی طرف بلانے والا صرف حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے یہ اس کا جواب جزاکم اللہ تعالی وسن الجزا program کو آگے بڑھاتے ہوئے خاکسار کا اگلا سوال محترم مولانا منیر احمد خادم صاحب سے یہ ہے کہ اللہ تعالی نے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی صداقت کے لیے سورہ ہود آیت نمبر اٹھارہ میں تین دلائل بیان فرمائے ہیں اور دلائل میں سے ایک دلیل یہ ہے یعنی اس کے پیچھے اس کا ایک گواہ آنے والا ہے تو یہاں شاہد سے کیا مراد ہے اس کے متعلق کچھ وضاحت بیان فرمائیں بسم اللہ الرحمن الرحیم ابھی جس آیت کا آپ نے حوالہ دیا ہے سورہ ہود آیت نمبر اٹھارہ یہ پوری آیت اس طرح ہے ویتلوہ کہ کیا پس وہ شخص جو اپنے رب کی طرف سے روشن دلیل پر ہے اور اس کے پیچھے پیچھے اس کا ایک گواہی دینے والا آتا ہے اور اس سے پہلے موسیٰ علیہ السلام کی کتاب امام اور رحمت کے طور پر اس کی صداقت کے لیے موجود ہے اس آیت میں جیسا کہ ابھی آپ نے بتایا آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی صداقت کی تین دلائل نشانیاں بیان کی گئی ہیں پہلی دلیل تو یہ کہ آپ بینہ پر قائم ہیں بنی بینہ سے مراد یہ ہے کہ روشن دلائل جو وحی کی روشنی میں ہیں ان پر آپ قائم ہیں اور وہ جو روشن دلائل وحی الہی کی روشنی میں ہیں اللہ فرماتا ہے کہ ان کا کوئی مقابلہ نہیں کر سکتا اسی آیت سے پہلے یہ الفاظ موجود ہیں کہ کیا یہ کہتے ہیں کہ نعوذ باللہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ قرآن مجید اپنی طرف سے گھڑ لیا ہے تو کہے کہ اس جیسی دس سورتیں جو اس سے پہلے دس سورتیں آئی ہیں یہ سورہ ھود کی سورت ہے سے پہلے دس سورتیں ہیں ان کی طرف وارا کر کے ایسی دس سورتیں تم بھی بنا کے دکھا دو اگر یہ گڑھ لی گئی ہیں تو آگے فرماتا ہے اگر وہ اس کا جواب نہ دے سکیں تو یاد رکھو کہ یہ اللہ کی طرف سے کلام نازل ہوا ہے یہ بینہ جو ہے یہ وحی الہی جو ہے یہ خدا کی طرف سے ہے اور آج تک کسی نے بھی ان قرآن مجید کا کوئی جواب کسی کے سے بن نہیں سکا اور قرآن مجید آج تک جو ہے وہ نعرہ اللہ کے فضل سے کہ کوئی ہے میرے مقابلے پہ آؤ یعنی جو اس کے اندر الفاظ بیان کیے گئے ہیں جو اس کے اندر آیات بیان کی گئی ہیں جو اس کے اندر تطہیر والا کلام بیان کیا گیا ہے جو اس میں اخلاقیات بیان کی گئی ہیں جو پیش گوئیوں کا اس میں تذکرہ کیا گیا ہے ویسا سب مجموعی طور پر بیان کر کے اگر کوئی ایسا کلام لا سکتا ہے تو چودہ سو پندرہ سو سال گزر گئے کسی نے اس دعوے کو قبول نہیں کیا تو پہلی دلیل آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی صداقت یہ ہے کہ آپ وحی الہی کے نتیجہ میں بینہ پر قائم ہے دوسری دلیل یہ بتائی گئی کہ آپ کے پیچھے پیچھے چلنے والا ایک گواہی دینے والا آئے گا وہ کون ہے وہ امام مہدی اور مسیح موعود جن کے بارے میں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے پیش گوئی کی یتلو کے معنی ہوتے ہیں پیچھے چلنے کے تلغون کہتے ہیں ایسے اونٹنی کے بچے کو جو اپنی ماں کے پیچھے پیچھے چلتا ہے اس کا دودھ بھی پیتا ہے جو رکتی ہے تو رک جاتا ہے چلتی ہے تو چل پڑتا ہے تو یہی حال امام مہدی اور کا کہ وہ اپنے آقا و مطاع آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے پیچھے پیچھے چلنے والا ہے آپ سے ہی پایا جو کچھ اس نے پایا اور وہ یہ جو دوسری دلیل آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی سچائی کی ہے یہ تو ظاہر ہو چکی ہے امام مہدی اور آگئے ہیں لیکن وہ لوگ جو اس بات کو مانتے نہیں ہیں وہ نعوذ باللہ من ذالک آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی لحاظ سے اس صداقت کے بھی قائل نہیں ہیں آپ کی اس سچائی کو بھی نہیں مانتے اور اگلی اس میں تیسری دلیل آپ کی سچائی کی یہ بیان کی گئی ہے کہ ایک تو آپ خود بیانہ پر قائم ہیں روشن دلائل پر وحی الہی جس کا کوئی مقابلہ نہیں کر سکتا اور دوسرا یہ ہے کہ آپ کے بعد آپ کی پیروی میں آپ کے احکامات اور ارشادات کے مطابق چلنے والا ایک وجود بھی آئے گا تیسرا یہ بتایا گیا آپ کی صداقت کی دلیل کہ آپ سے پہلے ایک حضرت موسیٰ علیہ الصلاۃ والسلام کی کتاب بھی ہے جو امام اور رحمت ہے یعنی حضرت موسیٰ علیہ الصلاۃ والسلام کی جو کتاب ہے اس میں حضرت نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی آمد کے تذکرے کیے گئے ہیں چنانچہ آپ دیکھیں حضرت موسیٰ علیہ الصلاۃ والسلام نے یہ بیان فرمایا ہے کہ ایک آئے گا تیرے بھائیوں میں سے میں ایک نبی برپا کروں گا۔ آپ پر اللہ کا کلام نازل ہوا۔ تجھ سا ایک نبی تیرے بھائیوں میں سے برپا کروں گا۔ یہ تورات کی کتاب ہے استثناء یہ اس کا حوالہ ہے۔ پھر یہ فرمایا کہ اس کے ہاتھ میں آتشی شریعت ہوگی۔ وہ فاران کی چوٹیوں سے آئے گا۔ اور دس ہزار قدوسیوں کے ساتھ آئے گا۔ اب حضرت تورات کے آنے کے بعد اب تک ساڑھے تین ہزار سال کا عرصہ قریبا قریبا کم و بیش ہو گیا کون اچھی شریعت لے کر آیا بعض عیسائی کہتے ہیں کہ حضرت عیسی علیہ السلام جو ہیں وہ ہیں اس پیشگوئی کے مستحق اور حضرت عیسیٰ علیہ الصلاۃ والسلام کیا فرماتے ہیں کہ یہ نہ سمجھو کہ میں تورات کو منسوخ کرنے کے لیے آیا ہوں وہ میں کوئی نئی شریعت لے کے نہیں آیا میں تو اسی کے احکامات کو زندہ کرنے کے لیے تازہ کرنے کے لیے تم لوگوں میں کرنے کے لیے پھر آیا ہوں تو ساڑھے تین ہزار سال میں کوئی ایک شخص بھی اس پیش گوئی کو پورا کرنے والا نہیں ہوا اور ہوا تو وہ جو ہمارے نبی حضرت محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ہیں اور آپ وہ ہیں جن کے بارے میں آج بھی ساری دنیا اس بات کو ثابت کرتی ہے کہ وہ دس ہزار قدوسی جو فتح مکہ کے موقع پر تھے آپ کے ساتھ موجود تھے حضرت عیسیٰ علیہ الصلاۃ والسلام کے ساتھ تو کتنے موجود تھے ہمم جانتے ہیں ان میں سے بھی کچھ تتر بتر ہو گئے تھے اور پھر فاران کی چوٹیاں اور پہاڑیوں سے ہی آپ آئے تو یہ ساری جو پیش گوئیاں ہیں یہ تینوں کی تینوں علامتیں ہیں کہ آپ کا وحی الہی پر اور روشن دلائل پر قائم ہونا آپ کے بعد آپ کی پیروی میں آپ کی غلامی میں ایک شخص کا آنا اور پھر اس آپ سے پہلے حضرت موسی علیہ الصلاۃ والسلام کی کتاب میں آپ کی پیش گوئیوں کا تذکرہ ہونا یہ ساری تینوں تینوں دلیلیں ایسی ہیں کہ جو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی عظیم الشان صداقتوں پر مشتمل ہیں اور کے بارے میں دیکھیں حضرت مسیح علیہ الصلاۃ والسلام کا کلام آپ پڑھ لیں آپ ہر جگہ یہ فرماتے ہیں کہ مجھے جو کچھ ملا ہے وہ سب آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے طفیل سے ملا ہے ہم ہوۓ خیر امم امم تجھ سے ہی اے خیر رسل تیرے بڑھنے سے ہی قدم آگے بڑھایا ہم نے اور پھر ایک جگہ آتے ہیں کہ اگر میں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی امت میں سے نہ ہوتا تو بے شک یہ جو دنیا کے پہاڑوں جتنے بھی میرے اعمال ہوتے تو کسی کام کے نہیں تھے یہ جو مجھے مکالمہ مخاطبہ کا درجہ اللہ تعالی نے عطا فرمایا یہ ہرگز نہ ملتا یہ تو مجھے صرف اس لیے ملا ہے کہ میں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے پیچھے چلنے والا آپ کی پیروی کرنے والا آپ کی غلامی کا دم بھرنے والا ہوں تو یہ جو یہ آیت ہے اس کے اندر تین صداقتیں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی بیان کی گئی ہیں اور وہ درمیانی وہ ایک گواہی دینے والے جو ہیں وہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم ہیں آنحضرت صلی اللہ علیہ حضرت مسیح علیہ الصلاۃ والسلام حضرت مرزا غلام احمد قادیانی علیہ الصلاۃ والسلام ہیں جنہوں نے آپ کی سچائی کی اتنی گواہیاں دی ہیں کہ آپ کی اسی سے زائد کتابیں ان گواہیوں سے بھری پڑی ہیں آپ کے الہامات اور جو اللہ تعالی نے آپ کو کلام آپ پر نازل فرمایا وہ سب الہام حضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی صداقت کی گواہی دینے سے بھرا پڑا ہوا ہے تو اللہ تعالی سے دعا ہے کہ اللہ تعالی ہمارے بھائیوں کو مسلمان بھائیوں کو اس آنے والے امام مسیح موت اور مہدی موت کو جو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی پیش گوئیوں کے کے ساتھ اور آپ کے جو طفیل سے خدا تعالی نے بھیجا اللہ تعالیٰ انہیں ان کو اس پر ایمان لانے کی توفیق عطا فرمائے جزاکم اللہ تعالیٰ و حسن الجزا ناظرین اس وقت ایک ٹیلی فون کالر ہمارے program میں جڑ چکے ہیں اب ہم ان کا سوال سنیں گے مکرم عارف الزمان صاحب بنگلہ دیش سے اس وقت ہمارے ساتھ لائن پر موجود ہیں مکرم عارف الزمان صاحب السلام علیکم! السلام علیکم ورحمۃ اللہ! جی عارف الزمان صاحب! آپ اپنا سوال پیش کیجیے.

00:31:51

جی جی! پہلے تو میں نے بنگلہ دیش کی حالت کے لیے دعا کا درخواست کر رہا ہوں. ہاں! حضور کے پاس اور میرا سوال ہے حضرت مسیح محمد علیہ السلام کیوں? لدھیانہ میں پہلے بیعت کا سلسلہ شروع کیا.

00:32:05

لدھیانہ کا ایسا کیا? اہمیت کافی احمد خان صاحب جزاکم اللہ جی عارف الزمان صاحب آپ کا سوال ہمیں مل چکا ہے میں محترم مولانا محمد حمید کوثر صاحب سے درخواست کرتا ہوں کہ اختصار کے ساتھ اس سوال کا جواب دیں سب سے پہلے تو ہمیں پوری ہمدردی ہے جو بنگلہ دیش کے حالات ہیں کل حضور نے ان کا اعلان بھی کیا اعلان فرمایا ہم سب آپ کے لیے دعا گو ہیں اللہ تعالی آپ کو صبر و ثواب عطا فرمائے اور اپنی حفظ و امان میں رکھے اور شہید مرحوم کے درجات کو بلند فرمائے دوسری بات جو آپ نے سوال کیا کہ حضرت مسیح ماود علیہ السلام نے لدھیانہ میں کیوں جماعت کی بنیاد رکھی تئیس مارچ اٹھارہ سو نواسی کو حضور نے وہاں بنیاد رکھی اور اعلان فرمایا سارے لوگ لدھیانہ میں جمع ہو جائیں اس کی حکمت سب سے بڑی جو سمجھ آتی ہے وہ یہ کہ لدھیانہ اس زمانے میں ایک مرکزی شہر تھا اور وہاں ہر ایک کے لیے پہنچنا آسان تھا دہلی سے ساری جو امرتسر لاہور وغیرہ جاتی تھیں وہ لدھیانہ گزر کے جاتی تھیں اسی طرح جموں اور اس طرف سے آنے والے ساری جو آنے کے ذرائع تھے وہ سارے کے سارے لدھیانہ ہو کے جاتے تھے اس لیے حضور نے مناسب سمجھا کہ احباب کو آنے میں کوئی دقت نہ ہو آپ نے لدھیانہ کا جو تھا وہ انتخاب فرمایا کہ وہاں آ جائیں اب رہا یہاں پر دو ایک ذوقی نقطے بھی ہیں ہمارے بزرگ پرانے بزرگان وہ یہ فرمایا کرتے تھے کہ لدھانا کو عام طور پہ آپ ابھی بھی سنیں گے آج کل اب تو وہ رواج کم ہو گیا ورنہ بسوں والے ہمیشہ لدھانے کو لت ہی کہتے تھے کہ لت کے لیے بس تیار ہے جی لت کے لیے بس تیار ہے چلو لت کے لیے بس تیار ہے اب اس کے اندر وہ ذوقی نقطہ یہ نکالتے تھے کہ جیسے رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ہے کہ مسیح یکتل المسیح آ باب لودھ کے لد کے اوپر آ کے لد کے دروازے سے آ کے مسیح علیہ السلام دجال کو قتل کریں گے۔ اب اگر یہ اگرچہ کہ بظاہر یہ ذوقی نقطہ ہے مگر ذرا اس کی گہرائی میں جائیں گے تو ہم کو ایک بات کا علم ہوتا ہے۔ وہ یہ کہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلاۃ والسلام نے لدھحانہ میں ہی جب حضور تشریف فرما تھے۔ آپ نے اپنی معرکۃ الکتاب اوزالا اوہام تصریف فرمائی۔ اقبال گنج میں آپ مقیم تھے اور آپ وہ کتاب وہاں ہی تسنیح فرمائی اور وہ ایک فیصلہ کن تسنیب تھی جس نے کہ وفات مسیح کے تعلق سے ایک اتنے مضبوط دلائل دنیا کے سامنے پیش کیے کہ آج تک اس کو توڑا نہیں جا سکا تو ایک قسم سے یہ دجال کو قتل کرنا تھا جو یہ لوگ دھوکے سے یہ عقیدہ رکھتے تھے کہ عیسی علیہ السلام آسمان پر اٹھا لیے گئے ہیں گویا وہ کہ ہم مشابہ ہیں۔ جیسے خدا حی ہے زندہ ہے۔ اسی طرح اس کا بیٹا وہ بھی زندہ ہے۔ اس طرح کی باتیں کرنا تو حضرت مسیح موود علیہ الصلاۃ والسلام نے ان سارے خیالات اور افکار کی زبردست تردید کی۔ اس لحاظ سے لدھیانہ کا جو یہ ذوقی نقطہ لط کے طور پہ بیان کیا جاتا ہے۔ یہ بھی بڑی صفائی سے پورا ہوتا ہے۔ اس کے علاوہ صوفی احمد صاحب کی انہوں نے بات کی صوفی احمد جان صاحب حضرت مسیح ماؤد علیہ السلام کے پرانے مریدوں میں سے تھے اور اس زمانے کے مریدوں میں سے تھے جب حضرت مسیح موود علیہ السلام نے براہیم احمدیہ تسنیم فرمائی تھی اور انہی کا وہ شعر ہے کہ ہم مریضوں کی ہے تم پہ نگاہ تم مسیحا بنو خدا کے لیے جب انہوں نے یہ پڑھی تھی تو بار بار حضرت مسیح علیہ السلام کو وہ بیعت لینے کے لیے کہتے تھے اس کے بعد وہ کے لیے تشریف لے گئے وہاں سے واپس آئے تو آ کے ان کی وفات ہو گئی اور جماعت کی تاثیر سے پہلے جماعت کے قیام سے پہلے ان کی وفات ہو چکی ہوئی تھی لیکن حضرت مسیح ماؤد علیہ السلام نے ان کو مبین میں ہی شامل رکھا تھا اور لدھیانہ میں ہی ان کی تدفین ہوئی حضرت صوفی احمد جان صاحب کی اور جو اس وقت دارالبیت ہے جس میں حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے سب سے پہلے بیعت لی تھی وہ بھی اصل میں انہی کا لنگر خانہ تھا کے ایک طرف پہلو میں ان کا ایک بہت بڑا مقام تھا جو بعد میں ان کے صاحبزادگان نے اس کو فروخت کیا اور خود وہ قادیان آگئے لیکن یہ دارالبیت جو تھا وہ انہوں نے جماعت کے نام حوا کیا جماعت نے بعد میں وہاں پر ایک مسجد بھی بنائی تو اللہ تعالی کے فضل و کرم سے آج بھی وہ دارالبیت موجود ہے اور سینکڑوں افراد جماعت وہاں دعا کے لیے جاتے ہیں اور ایک کیفیت پیدا ہوتی ہے جب آدمی وہاں نفل پڑھ رہا ہوتا ہے کہ دیکھو یہ وہ مقام ہے جہاں سے احمدیت کی آواز بلند ہوئی سب سے پہلے حضرت مولانا نورالدین صاحب رضی اللہ تعالی عنہ نے بیعت کی اور آج اللہ تعالی کے فضل سے اقناف عالم میں یہ آواز پھیل گئی اگر یہ سچ نہ ہوتا تو یہ کب کی ختم ہو گئی ہوتی جزاکم اللہ تعالی و حسن الجزا ناظرین کرام یو کے سے مکرم ظفر اقبال but صاحب بھی ہمارے ساتھ ٹیلی فون کال پر اس وقت موجود تو میں مکرم ظفر اقبال but صاحب سے بھی درخواست کرتا ہوں ظفر اقبال صاحب اسلام و علیکم آپ بھی اپنا سوال پیش کر سکتے ہیں السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ وعلیکم السلام ظفر اقبال صاحب اپنا سوال پیش کریں۔ ظفر اقبال صاحب میں گزارش کروں گا کہ آپ اپنے ٹیلی vision کے volume کو mute کر دیں اس کے بعد اپنا سوال پیش کریں السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ وعلیکم السلام میرا سوال یہ ہے کہ کہ یہ اپنا قرآن شریف کی وہی وحید کے نزول کے سلسلہ میں ہے کہ سورہ اقرا میں تو ہم معلوم کرتے ہیں کہ یہ ابتدائی نزول تھا آیات کا قرآن شریف کا کہ میں یہ معلوم کرنا چاہتا ہوں کہ قرآن شریف کے نزول کا احترام کس آیت پہ ہوا تھا اگر آپ اس پہ روشن جزاکم اللہ ظفر صاحب میں محترم مولانا منیر احمد خادم صاحب سے درخواست کرتا ہوں کہ اختصار کے ساتھ اس سوال کا جواب پیش کریں قرآن مجید کی آیت جو آخری آیت تھی یا اختتام جس پر ہوا اس کے بارے میں یہ ہے کہ یہ آیت ہے اللہ تعالی نے فرمایا کہ آج کے دن میں نے تمہارے تمہارے دین کو مکمل کر دیا.

00:39:45

اور نعمت جو ہے وہ وہ بھی تام کر دی ہے تم کر دی ہے. اور دین اسلام پر میں راضی ہو گیا ہوں.

00:39:54

یہ آیت جب نازل ہوئی ابھی غالبا حضور نے بھی اپنے خطبے میں اس کا ذکر فرمایا ہے.

00:40:02

ایک یہودی نے کہا کہ یہ آیت آپ لوگوں کو پر نازل ہوئی آپ کو عید منانی چاہیے تھی تو حضرت عمر رضی اللہ تعالی عنہ نے فرمایا کہ اس دن تو جمعہ ہے اور وہ ہماری عید کا دن ہوتا ہے اور حضرت مسیح محمد علیہ الصلاۃ والسلام کا حوالہ بھی حضور نے اس حوالے سے پیش فرمایا کہ بعض لوگ جمعہ کی اتنی اہمیت نہیں دیتے حالانکہ اس آیت سے تو جمعہ کی بہت اہمیت ہوتی ہے اس عیدین سے بھی بڑھ کر اہمیت ہوتی ہے تو یہ ہے کہ یہ قرآن مجید کی ایک جو آخری آیت ایک لحاظ سے جو مانی جاتی ہے وہ تو کسی بھی الہامی کتاب کے اندر یا شریعت کی کتاب کے اندر جو قرآن مجید سے پہلے نازل ہوئی ہے کسی نے بھی یہ دعویٰ نہیں کیا کہ اس کے اوپر شریعت مکمل ہو گئی ہے اب کوئی نئی شریعت نہیں آ سکتی اور ہم بھی یہی کہتے ہیں کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم شریعت لانے والے نبی ہیں اور اس لحاظ سے آپ آخری نبی ہیں کہ آپ پر شریعت مکمل ہو گئی ہے اب شریعت لانے والا کوئی نئی کتاب لانے والا کوئی نئی نئے احکامات پیش کرنے والا کوئی نہیں آ سکتا تو بعض ہمارے مخالفین یہاں ہندوستان میں بھی یہ بات کرتے ہیں کہ بھئی آپ لوگ کیسے کہہ سکتے ہو کہ ہر چیز آخری ہو سکتی ہے سوال ہے کہ اگر ہم نے یہ دعویٰ کیا ہے تو آپ اس کے ہمارے دعوے کے مقابل پر جو کوئی اپنی ٹھوس دلیل لے آؤ بتا دو کہ جو قرآن سے پہلے روحانی کتابیں ہیں تورات ہے یا انجیل ہے یا وید ہیں وغیرہ اس سے پہلے جتنی بھی کتابیں ہیں وہ ساری الہامی کتابیں جو ہیں وہ آخری ہونے کا ایک تو انہوں نے پہلے خود دعویٰ کیا ہو کہ حضرت مسیح علیہ الصلاۃ والسلام یہ فرماتے ہیں کہ دعویٰ بھی خود وہ الہامی کتاب کرے اور پھر دلیل بھی اس الہامی کتاب سے پیش کی جائے تو اگر کوئی ثابت کر کے دکھا سکتا ہے کہ اس کی کتاب جو الہامی جس کو وہ مانتا ہے شریعت کی کتاب اس نے کہیں یہ دعویٰ کیا ہے کہ وہ مکمل ہے اور اس کے بعد اور کوئی شریعت نہیں آنے والی تو پھر اس کو پیش کرنا چاہیے دوسرا یہ کہ اگر وہ کوئی ایسا دعویٰ پیش کر دے تو اس کے بعد پھر دلائل کی باری آتی ہے کہ قرآن مجید نے جو دلائل پیش کیے ہیں وہ پھر قرآن مجید کے ماننے والے ان دلائل کو پیش کریں گے کہ دیکھو آج جو دنیا ہے وہ قرآن مجید کے پیچھے چل رہی ہے قرآن مجید ان کو پیچھے چلا آ رہا ہے چنانچہ آپ لیں کہ جو ہمارا آج کل جو ہندو personal law ہے اس کے اندر جو باتیں منظور کی گئی ہیں یہ partition کے بعد ہی amendment کی گئی ہے کیا کیا کی گئی ہے بعض partition سے پہلے بھی کی گئی ہیں پہلے کوئی طلاق کا قانون نہیں ہوتا تھا تو وہ قرآن مجید سے ہی لیا گیا ہے نا بیوہ کی شادی کا کوئی قانون نہیں ہوتا تھا وہ قرآن مجید نے ہی ڈیڑھ ہزار سال پہلے بتایا کہ بیوہ کی شادی کرنی چاہیے سوسائٹی کے لیے بہت ضروری بات ہے اور بھی بیسیوں باتیں ایسی ہیں کہ جو قرآن مجید نے پیش کیں یہ مانیں یا نہ مانیں لیکن قرآن مجید کی ان باتوں کو انہوں نے اپنے اندر لیا ہے عورت کو ورثے میں حق دینے کا جہاں تک معاملہ ہے کسی بھی کتاب کے اندر اس کا ذکر نہیں موجود قرآن مجید نے پہلی بار ورثے میں عورت کو حق دلایا ہے تو ایک تو دعوی بھی کیا ہے دوسری دلیل بھی قرآن مجید دیتا ہے اور یہ سب سے بڑھ کر دلیل ہے کہ آپ لوگ تو پیچھے پیچھے آ رہے ہو بعض لوگ کہتے ہیں کہ کامن جو ہے وہ قانون بننے چاہیے بھائی آپ کامن تو آپ لوگ ہو رہے ہو نا کامن تو قرآن مجید کے ساتھ ساتھ آتے جاؤ گے کامن ہوتے جاؤ گے اور بھی بہت سی ایسی باتیں ہیں لمبی تفصیل ہے ٹھیک ہے تو بہرحال اس سوال کا جواب یہی ہے کہ قرآن مجید کی یہی عظیم الشان آیت ہے جو قرآن مجید لیے اور مسلمانوں کے لیے تا قیامت ایک بہت بڑے فخر کی بات ہے کہ قرآن مجید پر اللہ تعالی نے اس کلام کو قرآن مجید کے ذریعے ہم تک پہنچایا ہے تو مسلمانوں کی کو اللہ تعالی توفیق عطا فرمائے کہ وہ اس آخری کلام کو اور جو اس خوبی کو آج کے اس دور میں حضرت مسیح محمد علیہ الصلاۃ والسلام نے پیش فرمایا ہے ان کی کتابوں سے ان آیات کی روشنی کو پڑھیں ان آیات کی تفاسیر کو پڑھیں تب ان کو پتہ لگے لگے گا کہ قرآن مجید کے اندر کیا کیا موتی ہیں کیا کیا عرفان کی باتیں پائی جاتی ہیں جزاک program کے تسلسل میں خاکسار کا اگلا سوال محترم مولانا محمد حمید کوثر صاحب سے یہ ہے کہ قرآن مجید میں ذکر ہے تو حضرت مسیح مود علیہ الصلاۃ والسلام اس کے متعلق تحریر فرماتے ہیں کہ اس جگہ یہ اشارہ ہے کہ اس وقت عادت اللہ کے موافق خدا تعالیٰ کی طرف سے آسمانی تائیدوں کے ساتھ کوئی مثلے پیدا ہوگا تو اس آیت کریمہ میں حضرت مسیح مولا سلام کی بعثت کے متعلق کچھ روشنی ڈالنے کی درخواست ہے دیکھیں اللہ تعالی نے قرآن مجید میں فرمایا کہ دنیا میں فساد کرنے والی قوم ہے.

00:45:33

اور پھر قرآن مجید میں فساد کا جو طریقہ ہے وہ یہ بتایا.

00:45:47

یہ فسادی اس طرح سے فساد کریں گے کہ ہم تو قیام امن کے لیے اور اصلاح کے لیے یہ سارا کچھ فساد دنیا میں برپا کر رہے ہیں۔ یاجوج اور ماجوج دو قومیں ہیں اور ان کے بارے میں حضرت مسیح ماود علیہ السلام نے اپنی کتابوں میں اور خاص طور پہ لیکچر سیالکوٹ میں فرمایا کہ اس کا نام یاجوج ماجوج کیوں رکھا گیا یہ سے نکلا ہے عجیج کے معنی آگ سے کام لینے والی قومیں اور سورۃ رحمٰن میں بھی اس کا ذکر آتا ہے کہ آگ سے کام لینے والی قومیں ان کو یاجوج ماجوج کہا جاتا ہے.

00:46:28

دیکھیں قرآن مجید کی کتنی بڑی صداقت ہے.

00:46:34

جب یہ بات قرآن مجید کہہ رہا تھا. اس وقت ساری لڑائیاں تیر, تلوار, تفنگ, بھالوں سے لڑی جاتی تھیں.

00:46:43

کہیں آگ کا تصور تک نہیں تھا.

00:46:48

یہ بہت بعد میں شروع ہوا اس وقت اللہ تعالی کہہ رہا تھا دو طاقتیں ہوں گی دو قومیں ہوں گی یاجوج ماجوج اور آگ سے کام لیں گی آج ٹی وی کھول کے عقرانیہ میں جو کچھ ہو رہا ہے نا ذرا اس کو دیکھ لیں اور عجیب کی جو تفسیر سیدنا حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے بیان فرمائی بین ہی وہ صادق آ رہی ہے کہ آگ سے کام لینے والی قوم ہے ہائیڈرو nitrogen bomb ہو missiles ہوں دیکھیں سارے کے سارے آگ کا ہی تصور ہے قتل و غارت کا کوئی تصور نہیں ہے اور حضرت مسیح معود علیہ الصلاۃ والسلام فرماتے ہیں کہ یاجوج ماجوج دو قومیں ہیں جن کا پہلی کتابوں میں ذکر ہے اور اس نام کی یہ وجہ ہے کہ وہ یعنی آگ سے بہت کام لیں گی یہاں میں یہ بھی عرض کرتا چلوں کہ سیدنا کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ جبریل علیہ السلام نے حضور کو فرمایا کہ قرآن مجید سات عرفوں پہ نازل ہوا ہے حضرت مسیح موعود علیہ السلام اپنی کتاب نزول النسی میں فرماتے ہیں ایک ایک آیت کی بہت بہت تفسیریں ہیں کم is کم سات سات آٹھ آٹھ نو نو دس دس تفسیر ہیں۔ اب یاجوج مایوس کا ظہور یہ جو ہیں یہ آج تک انتظار کر رہے ہیں یاجوج ماجوج دنیا کی کوئی مخلوق ہے یاجوج ماجوج دو قومیں ہیں ایک الہادیت اور دوسری طرف تصلیثیت ان کے گروپ بدلتے رہے لیکن جو مقاصد تھے وہ یہی رہے اور اسی کو ان شاعر جو ان کے ہیں اقبال صاحب وہ یہ کہتے ہیں کھل گئے یاجوج و ماجوج کے لشکر تمام چشم مسلم دیکھ لے تفسیر حرف ینسلور یہ بالکل ظاہر چکے ہیں۔ اب رہا جو بات آپ کہہ رہے ہیں۔ یعنی میں پھونکنا حضرت مسیح موعود علیہ السلام اس کے بارے میں کیا فرماتے ہیں وہ میں پڑھ کے سنا دیتا ہوں حضور فرماتے ہیں ان آخری دنوں میں جو یاجوج ماجوج کا زمانہ ہو گا دنیا کے لوگ مذہبی جھگڑوں اور لڑائیوں میں مشغول ہو جائیں گے اور ایک قوم دوسری قوم پر مذہبی رنگ میں ایسے حملے کرے گی جیسے ایک موج دریا دوسرے موجے دریا پہ پڑتی ہے اور دوسری بھی ہوں گی اسی طرح پر دنیا میں بڑا تفرقہ پیدا ہو گا بڑی پھوٹ بغض اور کینہ لوگوں میں پیدا ہو گا جب یہ باتیں کمال کو پہنچ جائیں گی تب خدا آسمان سے اپنی میں کہتے ہیں اپنی میں آواز پھونک دے گا یعنی مسیح موت کے ذریعہ اس سے ایک ایسی آواز دنیا کو پہنچائے گا جو اس آواز کے سننے سعادت مند لوگ ایک مذہب پر اکٹھے ہو جائیں گے اب نو فقہ فی الصور کی یہ تفسیر ہے سعادت مند اکٹھے ہو جائیں گے آج پوری دنیا میں جماعت احمدیہ ایک موضوع پہ اکٹھی ہو گئی اب رہا وہ سور وہ انزار حضرت مسیح معود علیہ السلام نے انیس سو چھ میں ان ساری قوموں کو ڈرایا تھا اے یورپ تو بھی امن میں نہیں اے ایشیا تو بھی امن میں نہیں اے جزار کہ رہنے والوں کوئی مسرور خدا تمہاری مدد نہیں کرے گا یہ وہ تھا جو حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے ساری دنیا کو اس سے متنبہ کیا اب اختصار کے ساتھ اس کی آخر میں یہ بات ختم کرتا ہوں دیکھیں اثر حاضر میں سیدی حضرت خلیفۃ المسیح خامس نصرح اللہ نصر العزیزہ حضرت مسیح معود علیہ السلام کی نیابت اور خلافت میں وہی نوفقصور وہی بگل ہیں جو پھونک رہے ہیں دنیا کے سامنے انزاری طور پہ draw رہے ہیں دنیا کے سامنے پچھلے اتوار کو حضور نے بیت الفتوح کے افتتاح کے موقع پر جو خطاب فرمایا اگر دنیا کے ذرا بھی کان ہوتے وہ انزاری خطاب سے یہ نصیحت حاصل کرتے جیسا کہ بعض نے اعتراف بھی کیا اور یہ اتنی خطرناک بات ہے اور اس کا صحیح متنبہ کرنے کا طریق وہ سیدنا حضرت خلیفۃ الوسیح خوام سید اللہ تعالی عزیز نے دنیا کے سامنے بیان کیا اور یہ بھی دنیا کو سامنے رکھنا چاہیے کہ جس طرح حضور نے فرمایا یہ دنیا بڑھ رہی ہے یہ وہ الہام کی طرف بڑھ رہی ہے دنیا میں ایک نظیر آیا پر دنیا نے اس کو قبول نہ کیا خدا اسے قبول کرے گا اور بڑے زور آور حملوں سے اس کی سچائی ظاہر کر دے گا حضرت مسیح معود علیہ السلام نے فرمایا وہ چمک دکھلائے گا اپنی نشان کی پنج بار یہ خدا کا قول ہے سمجھو کہ سمجھانے کے دن یہ آگ یاجوج ماجوج کی طرف سے برسائی جانے والی آگ اس سے بچنے کا یک ہی طریقہ ہے مسیحا نے فرمایا آگ ہے پر آگ سے وہ سب بچائے جائیں گے جو رکھتے ہیں خدائے program کے تسلسل میں خاکسار کا اگلا سوال محترم مولانا منیر احمد خادم صاحب سے یہ ہے کہ قرآن مجید میں فرمان الہی ہے تک یعنی کہ جب رسول وقت مقررہ پر لائے جائیں گے تو اس تعلق سے خاکسار یہ پوچھنا چاہتا ہے کہ یہ ارشاد حضرت مسیح موود علیہ الصلاۃ والسلام پر کس طریقے سے صادق آتا ہے بسم اللہ الرحمن الرحیم یہ ارشاد ربانی جو قرآن مجید میں ہے کہ رسول وقت مقررہ پر اکٹھے کر کے لائے جائیں گے حضرت اقدس مسیح موت علیہ الصلاۃ والسلام سے پہلے جتنے بھی مفسرین ہیں سب یہی کہتے تھے کہ قیامت کے دن سب رسولوں کو اکٹھا کیا جائے گا اور جو ان کے پیروکار ہیں اور وہ سب ان کے سامنے جو سوال و جواب ہوں گے وہ سب سامنے وہ بھی ہوں گے وہ بھی ہوں گے حضرت علیہ الصلاۃ والسلام نے فرمایا کہ ہمیں اس سے انکار نہیں ہے یہ بھی اللہ کا کلام ہے اور یہ بھی ممکن ہے ایسا لیکن اصل بات یہ ہے کہ جو تک ذکر کیا گیا ہے اور اسی طرح جو آخری پارہ اماں جسے کہتے ہیں اس میں اور بہت سی بھی نشانیاں جو بیان کی گئی ہیں وہ سب قیامت پر چسپاں نہیں ہوتی ان میں مثال کے طور پر جیسے حضور نے فرمایا کہ ایک نشانی یہ ہے کہ جب سورج کو گہن لگ جائے گا تو قیامت میں سورج کے گہن لگنے کا کیا مطلب ہے ایک ایک یہ نشانی بھی بیان کی گئی ہے کہ جب دس مہینے کی جو گابن اونٹنی ہے وہ بیکار چھوڑ دی جائے گی تو قیامت میں دس مہینے کی اونٹنیوں کو بیکار چھوڑنے کا کیا اونٹنیوں نے وہاں کیا کرنا ہے وہ کون سی جب جانور اکٹھے کیے جائیں گے تو وہ قیامت میں ان جانوروں کے اکٹھے کرنے کا کیا مطلب ہے تو یہ حضرت اقدس مسیح معود علیہ الصلاۃ والسلام نے ہی بیان فرمایا کہ یہ قرب قیامت کی علامات ہیں قرب قیامت سے پہلے پہلے یہ ساری پیش گوئیاں پوری ہوں گی اور پھر امام مہدی کا اور مسیح موعود علیہ الصلاۃ والسلام کا ظہور ہو گا چنانچہ حضور نے جیسا کہ ہم سب جانتے ہیں فرمایا کہ دیکھو کا مطلب یہ ہے کہ اونٹیاں ہو جائیں گی اور ان کے مقابل پر ایسی سواریاں آجائیں گی اور اتنی تیز راہ ہوں گی کہ اونٹنیاں کسی کام کی نہیں رہ جائیں گی جانور اکٹھے کیے جائیں گے چڑیا گھر میں جو ہے وہ دور دور سے لا کر رکھا جائے گا نفوس آپس میں ملا دیے جائیں گے کوئی امریکہ کا کوئی ایشیاء کا کوئی افریقہ کا ساری دنیا ایک ہو جائے گی ایک زمانہ ایسا آنے والا ہے اور آج کے اس دور میں ساری باتیں ہم دیکھتے ہیں پہاڑ چلائے جائیں گے پہاڑ توڑے جائیں گے یہ ساری باتیں آج کل dynamite سے پہاڑ وغیرہ ٹوٹ رہے ہیں تو ان پہاڑوں کا قیامت سے کیا تعلق ہے ہیں جی تو اسی طریقے سے کی جو ایک تفسیر ہے وہ یہ بھی ہے کہ آخری زمانہ میں رسولوں کو ایک وقت مقررہ پر اکٹھا کیا جائے گا اور حضرت مسیح محمد علیہ الصلاۃ والسلام نے اس کی تفسیر بیان فرمائی ہے کہ جو امام مہدی اور مسیح موعود ہے وہ آخری زمانے میں باقی تمام جو جن رسولوں نے کہا اپنے اپنے وقتوں میں کہ ہم آئیں گے آخری وقت میں چنانچہ عیسی بھی حضرت عیسی کا انتظار کر رہے ہیں یسوع کا کہ وہ آئیں گے یہودی بھی مسیح کا انتظار کر رہے ہیں ہندو بھی کرسچن جی کا انتظار کر رہے ہیں اور ہر ہر قومیں اپنا اپنا انتظار کر رہی ہیں تو یہ رسول اس آخری زمانے میں اکٹھے ہو جائیں گے ایک لحاظ سے اور ایک شخص جو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کا سچا غلام اور تاب فرمان ہو گا اس کی وجود میں سب کو اکٹھا کیا جائے گا اس کے وجود میں کیوں اکٹھا کیا جائے گا باقی مذہبوں کے وجود میں کیوں نہیں اکٹھا کر سکتے دلیل اس کی ہمارے پاس دلیل یہ ہے کہ قرآن مجید اور اسلام ہی وہ کتاب ہے کہ جو سارے مذاہب کو اپنے اندر سمو سکتی ہے باقی مذاہب تو ایسے ہیں کہ وہ دوسرے بعض انسانوں کو بھی اپنے اندر سمو نہیں سکتے اسرائیلی بنی بنی اسرائیلی غیر اسرائیلیوں کو نہیں سمو سکتے پنڈت یا برہمن لوگ جو ہیں وہ دوسرے غیر براہمنوں کو نہیں سمو سکتے قرآن ہی ہے وہ ایسا قرآن مجید کا جو کا جو مہمان خانہ ہے اسلام کا جو وہ اس قابل ہے کہ سارے مہمانوں کو رکھ کر ان کی عزت افزائی کر سکے سب انسانوں کو ایک سمجھ سکے تو اسلام میں ہی کا نظارہ ہو گا اور بزرگان امت نے بھی یہ بات بیان فرمائی ہے چنانچہ میں آپ کو وہ حوالہ پڑھ کر سناتا ہوں حضرت امام جعفر صادق رحمتہ اللہ علیہ فرماتے ہیں کہ جب امام مہدی آئیں گے تو کہے وہ کہیں گے کہ جس نے آدم کو دیکھنا ہے مجھے دیکھے جس نے نوح کو دیکھنا ہے مجھے دیکھے جس نے شیخ نبی کو دیکھنا ہے مجھے دیکھے اسی طرح وہ فرمائیں گے جس نے حضرت ابراہیم کو حضرت اسماعیل کو حضرت موسیٰ اور حضرت عیسیٰ علیہ السلام کو دیکھنا ہے مجھے دیکھے آگے فرماتے ہیں کہ یہاں تک فرمائیں گے کہ وہ کہے گا کہ جس نے حضرت محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو دیکھنا ہے وہ مجھے دیکھے چنانچہ حضرت اقدس مسیح موت علیہ الصلاۃ والسلام کو اس مضمون کا الہام ہوا۔ اللہ تعالی نے آپ کو الہامل فرمایا کہ یہ اللہ کا پہلوان ہے جو تمام نبیوں کے حلے اور جامع کی تشریح میں پہنا ہوا ہے۔ چنانچہ حضرت مسیح علیہ الصلاۃ والسلام اس کی تشریح میں فرماتے ہیں کہ اس وحی الہی کا مطلب یہ ہے کہ آدم سے لے کر آخر تک جس قدر انبیاء علیہم السلام خدا تعالی کی طرف سے دنیا میں آئے خواہ وہ اسرائیلی ہیں یا غیر اسرائیلی ان سب کے خاص یا خاص صفات میں اس عاجز کو کچھ حصہ دیا گیا ہے اور ایک بھی نبی ایسا نہیں گزرا جس کے خواص یا واقعات میں سے اس عاجز کو حصہ نہیں دیا گیا ہر ایک نبی کی فطرت کا نقش میری فطرت میں ہے اس پر خدا نے مجھے اطلاع دی ہے براہین احمدیہ حصہ پنجم صفحہ نواسی روحانی خزائن جلد نمبر اکیس صفحہ ایک سو سولہ جزاکم اللہ تعالیٰ بحثن الجزا ناظرین کرام اس کے ساتھ ہی ہمارے آج کے اس program کے اختتام کا وقت ہوا چاہتا ہے انشاء اللہ تعالی اس سیریز کے اگلے episode کے ہم آئندہ اسی موضوع کے حوالے سے studio میں بات چیت کریں گے۔ program کے اختتام پر خاکسار سیدنا حضرت اقدس مسیح موعود علیہ الصلاۃ والسلام کا ایک اقتباس پیش کرنا چاہتا ہے۔ حضرت مسیح موعود علیہ الصلاۃ والسلام فرماتے ہیں۔ مجھے خدا تعالی نے اس چودھویں صدی کے سر پر اپنی طرف سے معمور کر کے دین متین اسلام کی تجدید اور تائید کے لیے بھیجا ہے۔ تاکہ میں اس پر آشوب زمانہ میں کی خوبیاں اور حضرت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی عظمتیں ظاہر کروں اور ان تمام دشمنوں کو جو اسلام پر حملہ کر رہے ہیں ان نوروں اور برکات اور خوارک اور علوم لدنیا کی مدد سے جواب دوں جو مجھ کو عطا کیے گئے ہیں برکات الدعا روحانی خزائیں جلد چھ صفحہ چونتیس ناظرین کرام اس کے ساتھ ہی ہمارا یہ آج کا program اختتام پذیر ہوتا ہے اجازت دیجیے السلام علیکم ورحمتہ اللہ وبرکاتہ لوگوں کے یہی خدا پر گے لو تمہیں کا بتایا کے یہی نور خدا پر گے تمہیں بتایا

Leave a Reply