Ahmadi Muslim VideoTube Rahe Huda Rahe Huda 06 05 2023

Rahe Huda 06 05 2023



Rahe Huda 06 05 2023

Rahe Huda 06 05 2023

وبرکاتہ ناظرین آج چھ مئی سن دو ہزار تئیس عیسویں ہفتے کا دن ہے انڈیا میں اس وقت رات کے دس بجے ہیں اور جی ایم ٹی کے مطابق اس وقت سہ پہر کے ساڑھے چار بجے ہیں اور ناظرین یہ وقت ہے program راہ خدا کا ناظرین قادیان دارالامان سے program راہ خدا کے چار episodes پر مشتمل سیریز لے کر ہم آپ کی خدمت میں حاضر ہیں آج سیریز کا پہلا episode ہے ہمارے regular viewers یہ بات جانتے ہیں کہ program راہ خدا ایک live discussion program ہے اور live ہونے کے ساتھ ساتھ یہ program ایک interactive program بھی ہے یہ program interactive اس حوالے سے ہے کہ ہمارے ناظرین ہمارے ساتھ ہمارے اس program میں جڑ سکتے ہیں اور شامل گفتگو ہو سکتے ہیں یعنی studio discussion کے ساتھ ساتھ ہم اپنے ناظرین کرام کی فون calls کو attend کرتے ہیں اور سوالات کو سنتے ہیں اور یہاں سٹوڈیو میں موجود اپنے علمائے کرام کے panel میں ان سوالات کو پیش کرتے ہیں اور ہمارے علمائے کرام اسی program کے ذریعہ ہمارے ناظرین کے سوالات کے جوابات دیتے ہیں تو ناظرین اگر آپ ہم سے ہمارے اس program میں جڑنا چاہتے ہیں تو میں یہ آپ کو بتا دوں کہ ہماری ٹیلی فونز لائنز آپ سے activated ہیں آپ ہم سے ٹیلی فونز کے ذریعے رابطہ کر سکتے ہیں اسی طرح text messages fax messages اور ای میل کی سہولت بھی دستیاب ہے تو اگر آپ ہم سے ہمارے ساتھ اس program میں جڑنا چاہتے ہیں اور اپنے سوالات کے جوابات حاصل کرنا چاہتے ہیں تو اب آپ اپنی ٹیلی vision سکرینز پر ہم سے رابطے کی تمام تفاصیل ملاحظہ فرما رہے ہوں گے ناظرین جیسا کہ خاکسار نے ابھی عرض کیا کہ قادیان سے program راہ خدا کے جو چار episodes پر مشتمل سیریز نشر ہوتی ہے وہ سیریز آج سے شروع ہو چکی ہے اور اس سیریز کے پہلے تین episodes میں ہم سیدنا حضرت اقدس مسیح موعود و مہدی معود علیہ الصلاۃ والسلام کی تصنیف حقیقت الوحی کے موضوع پر بات چیت کریں گے۔ اسی طرح اس سیریز کا آخری episode جو مورخہ ستائیس مئی سن دو ہزار تئیس عیسوی کو یوم خلافت کے مناسبت سے نشر کیا جائے گا۔ اور اس episode کا موضوع خلافت احمدیہ کی اہمیت و برکات ہوگا۔ علاوہ ازیں اب جو آج کا episode ہے اور اس کے بعد نشر ہونے والے دو episodes میں ہم سیدنا حضرت اقدس مسیح موعود علیہ الصلاۃ والسلام کی کتاب حقیقت وحی کے تعلق سے ہی بات چیت کریں گے۔ سیدنا حضرت اقدس مسیح موعود علیہ الصلاۃ والسلام نے اپنی اس کتاب میں جو حقائق اور معارف کی باتیں بیان کی ہیں۔ ان کا تذکرہ کیا جائے گا۔ آ اس episode میں خاکسار کے ساتھ جو دو علمائے کرام موجود ہیں میں پہلے ان کا تعارف کروا دیتا ہوں۔ خاکسار کے ساتھ محترم مولانا منیر احمد صاحب خادم اور محترم مولانا زین الدین حامد صاحب آج کے اس program میں شامل گفتگو ہوں گے۔ میں ہر دو حضرات program میں خیر مقدم کرتا ہوں ناظرین دنیا کے اکثر علاقوں قوموں اور مختلف زمانوں میں ایسے بزرگ انسان پیدا ہوتے رہے ہیں جنہوں نے یہ دعویٰ کیا ہے کہ وہ اللہ تعالی کی طرف سے انسانوں کی رہنمائی کے لیے آئے ہیں یہ بزرگ انسان نبی رسول اور افطار کہلائے ہیں قرآن مجید میں کثرت کے ساتھ انبیاء کا ذکر آتا ہے اور ہم قرآن مجید میں یہ بھی دیکھتے ہیں کہ اس قسم کے سانوں اور ان کے دعوؤں کا ہمیشہ انکار کیا جاتا ہے قرآن مجید نے انبیاء کرام کی صداقت پر اصولی دلائل بیان کیے ہیں اور ان دلائل میں وہ ابدی صداقتیں بھی بیان کی ہیں جن سے ہم کسی بھی مدعی نبوت کی صداقت کو جانچ سکتے ہیں اور پرکھ سکتے ہیں ان اصولی دلائل اور پیمانوں میں سب سے اہم پیمانہ یہ ہے کہ یہ بزرگ انسان اللہ تعالی سے ہم کلام ہوتے ہیں اور ان کی بات سچی ثابت ہوتی ہیں ناظرین آج کے episode میں ہم سیدنا حضرت اقدس مسیح موعود علیہ الصلاۃ والسلام کی پیش گوئیوں اور الہامات کے حوالے سے بات چیت کریں گے کہ کس رنگ میں اللہ تعالی نے آپ علیہ السلام کی پیش گوئیوں کو پورا فرمایا ناظرین program کو آگے بڑھاتے ہوئے خاکسار محترم مولانا منیر احمد خادم صاحب سے اپنا پہلا سوال یہ کرنا چاہتا ہے کہ جس وقت حضرت مسیح موعود علیہ الصلاۃ والسلام کے والد صاحب کی وفات ہوئی اور آپ علیہ کو فکر لاحق ہوئی اس وقت اللہ تعالی کی طرف سے آپ کو ایک الہام ہوا تھا تو میرا سوال یہ ہے کہ اس الہام کی کیا تفصیل تھی اور یہ الہام کس رنگ میں پورا ہوا تھا بسم اللہ الرحمن الرحیم.

00:06:07

سب سے پہلے تو یہ بات یاد رکھنی چاہیے.

00:06:11

کہ سیدنا حضرت اقدس مسیح موت علیہ الصلاۃ والسلام جو پر جو الہامات ہوئے.

00:06:21

یا جو آپ کے صداقت کے دلائل ہیں.

00:06:25

جو قرآن مجید میں یا احادیث میں بیان ہوئے ہیں.

00:06:30

وہ سب منہاج نبوت پر پرکھے جائیں گے.

00:06:34

کیونکہ آپ کا دعویٰ جو تھا وہ نبوت کا تھا.

00:06:39

آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے ظل اور طفیل سے آپ کے عکس کی حیثیت سے آپ ظلی, بروزی اور عکسی نبی تھے. اور آپ نے یہ بھی فرمایا کہ میں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے ادنیٰ ترین غلاموں میں سے ہوں. اور اس غلام کی برکت سے ہی اللہ تعالی نے مجھے درجہ مکالمہ مخاطبہ اور درجہ نبوت عطا فرمایا ہے. اب درجہ نبوت کے متعلق قرآن مجید میں یہ ذکر ہے. کہ جو اللہ تعالی کے انبیاء ہیں ان پر جو خدا کا کلام نازل ہوتا ہے.

00:07:17

وہ اپنی کمیت اور کیفیت کے لحاظ سے دوسرے لوگوں کی نسبت بہت زیادہ ہوتا ہے.

00:07:27

کہ اگر عام لوگوں کو کیونکہ اللہ تعالیٰ تو قرآن مجید میں فرماتا ہے کہ ہر بشر سے خدا کلام کرتا ہے لیکن جو خدا کے نبی ہوتے ہیں ان کا کلام ایسا ہوتا ہے کہ وہ ان کے اپنی ذات سے لے کے ان کے خاندان سے لے کے ان کے معاشرے سے لے کے ان کے ملک سے لے کے بین الاقوامی سطح پر بھاری تعداد میں وہ کلام جو ہے اللہ تعالی ان پر نازل کرتا ہے اور ان کی سچائی کو ظاہر کرتا ہے اور ان کے مخالفین کے لیے کے لیے بھی ہوتا ہے وہ ان کے موافقین کے لیے بھی ہوتا ہے اس میں بشارت کی پیش گوئیاں بھی ہوتی ہیں اس میں انظار بھی ہوتا ہے تو یہ سارے جو الہامات ہیں یہ حضرت علیہ الصلاۃ والسلام پر اللہ تعالی نے مختلف نوعیت کا نازل فرمایا اور حضور نے اپنی مختلف کتابوں میں ان الہامات کا ذکر فرمایا ہے چنانچہ ان میں سے ایک کتاب جس کا ابھی آپ نے بھی ذکر کیا حقیقت الوحی حضرت اقدس مسیح علیہ الصلاۃ والسلام نے اس کتاب میں بھی اپنے بکثرت الہامات کا ذکر فرمایا ہے جو پورے بھی ہو چکے جن میں جسے بعض آئندہ پورے ہونے والے ہیں تو یہ الہامات جب ہم پڑھتے ہیں یا جس شخص نے بھی خدا کا خوف دل میں رکھ کر انصاف کے پہلو کو مدنظر رکھ کر پڑھے ہوں گے وہ کہہ اٹھے گا کہ یہ خدا تعالی کی طرف سے معمور ہے یہ سچا معمور ہے خدا کی طرف سے مامور ہے چنانچہ ان میں سے ایک جو آپ نے ذکر کیا ہے وہ یہ ہے کہ حضرت مسیمد علیہ الصلاۃ والسلام کو شروع سے ہی اللہ تعالی الہام و کلام سے نواز رہا تھا چنانچہ ابھی جوانی کے زمانے کی بات ہے جب کہ غالبا اٹھارہ سو چھہتر میں جب کہ حضرت مسیح موت علیہ الصلاۃ والسلام کے والد صاحب کی وفات ہوئی ہے اس وقت آپ کو اللہ تعالی نے الہاما بتایا کہ آپ کے والد صاحب کی وفات اسی روز شام کو ہونے والی ہے حضور کو الہام ہوا آسمان کی قسم اور رات کے پہلے حصے میں جو یہ واقعہ ہونے والا ہے اس واقعے کے قسم کھا کر میں کہتا ہوں کہ یہ ہو کر رہنے والا ہے چنانچہ اور حضور کے دل میں یہ بات ڈالا گیا ڈالی گئی کہ اس الہام میں اللہ تعالی نے میرے والد صاحب کی وفات کی خبر دی ہے چنانچہ حضور نے اس اطلاع کو وہاں جو لوگ موجود تھے خاندان کے دوسرے بھی ان سب کو اطلاع دی کہ اللہ تعالی نے مجھے الہاما بتا دیا چنانچہ ان کے والد صاحب جو بیمار تھے وہ اس دن جب کہ یہ الہام ہوا اسی دن شام سے پہلے پہلے آپ کی وفات ہوئی اور حضرت مسیمد علیہ الصلاۃ والسلام فرماتے ہیں کہ وہ اپنی بیماری سے صحت یاب ہو رہے تھے ان کو وہ گردے میں پتھری تھی وہ بھی کم ہو رہی تھی تھوڑی پیچش کی شکایت تھی لیکن اس میں بھی ان کو آرام تھا خود ہی چل کر چلے جاتے تھے لیکن رات کو ایسا ہوا کہ اچانک جو ہے بیٹھے بیٹھے ان پر جو ہے وہ دورہ ہوا اور جو ہے ان کی وفات ہو گئی تو دیکھیں اللہ تعالی سے پہلے ہی آپ کو بتا دیا اور پھر جس طرح اللہ تعالی نے بتایا وہ الہام پورا بھی ہوا اور پھر حضرت مسیح محمد علیہ الصلاۃ والسلام نے آگے یہ بات بھی بیان فرمائی کہ جب میرے والد صاحب کی وفات ہوئی تو چونکہ والد صاحب کو کچھ وظیفہ وغیرہ حکومت کی طرف سے ملتا تھا کچھ ایسے ذرائع تھے آمد کے جو والد صاحب کی زندگی پر ہی جن کا انحصار تھا تو بشریت کے تقاضے سے حضرت مسیح محمد علیہ الصلاۃ والسلام فرماتے ہیں ایک لمحے کے لیے مجھے یہ خیال پیدا ہوا کہ جب والد صاحب کی وفات ہو گئی تو ہمارا کیا بنے گا تو فرماتے ہیں اللہ تعالی نے مجھ پر الہام کیا اسی وقت کہ کیا اللہ اپنے بندے کے لیے کافی نہیں ہے چنانچہ پھر یہ لوہے کی طرح میرے دل و دماغ میں یہ بات سرایت کر گئی حضور فرماتے ہیں کہ اب اللہ تعالی مجھے کبھی ضائع نہیں کرے گا چنانچہ آپ دیکھ لیں اس الہام کی صداقت کہ تقریبا سوا سو سال سے بھی زیادہ کا عرصہ ہو گیا حضرت علیہ الصلاۃ والسلام کے اس الہام کے بعد اور کے بعد حضرت علیہ الصلاۃ والسلام کی زندگی میں اللہ تعالی نے کبھی بھی آپ کو مالی تنگی نہیں ہوئی کسی بھی اعتبار سے اس قادیان کے چھوٹے سے شہر میں سینکڑوں نہیں لوگ آتے تھے اس زمانے میں بھی دیکھنے کے لیے زیارت کرنے کے لیے جلسے ہوا کرتے تھے اور بھی program ہوتے تھے ان سب میں وہ لوگ شامل ہوتے تھے اور اس زمانے سے لنگر کا انتظام تھا اور لنگر باقاعدہ چلتا تھا اور آنے والے لوگوں کی ان کی ضیافت ان کے مزاجوں کے مطابق جیسا کہ تاریخ میں آتا ہے حضرت مسیح محمد علیہ الصلاۃ والسلام کیا کرتے تھے چنانچہ دیکھیں کہ یہ الہام آج تک پورا ہوتا چلا جا رہا ہے جماعت احمدیہ کے پاس تو کوئی نہیں ہے نا جماعت احمدیہ کے پاس کوئی ایسی طاقت بھی نہیں ہے کہ کہیں کہ کوئی بہت بڑی ایسی طاقت ہو کہ جماعت کا خزانے جو ہیں وہ جیسے حکومت کے خزانے ہوتے ہیں نہیں ایسا نہیں ہے اس کے باوجود کہ حکومت نہیں ہے طاقت نہیں ہے جو مخالفین ہیں ان کی مخالفت کی طرف اگر دیکھا جائے تو ایک عام عقل کا انسان یہ کہے گا کہ اس جماعت کو زندہ رہنے کا حق نہیں ہے ہمارے افراد کو شہید کیا جا رہا ہے املاک کو نقصان پہنچایا جاتا ہے ہر لحاظ جو ہے وہ تکلیفیں دینے کی کوشش کی جاتی ہے دکانیں لوٹ لی جاتی ہیں مکانوں کو لوٹ لیا جاتا ہے اور پھر کوشش کی جاتی ہے کہ حکومتوں میں بھی شکایت کر کے جو یہ کام چل رہا ہے اس کے بارے میں جھوٹی مخبریاں کی جائیں چنانچہ حضرت مسیح علیہ الصلاۃ والسلام کے زمانے سے ہی یہ مولوی لوگ کبھی حکومت انگلیشیا کے سامنے اور آزاد ہندوستان کے بعد پھر حکومتوں کے سامنے بھی شکایتیں کرتے تھے کہ یہ حکومت کے خلاف ہیں ان کے سارے کام لیکن اللہ تعالی کے جو کا چونکہ کام ہے اللہ تعالی نے حضرت اقدس مسیمد علیہ الصلاۃ والسلام کو الحامل فرمایا کہ کیا اللہ اپنے بندے کے لیے کافی نہیں ہے چنانچہ ہم دیکھتے ہیں کہ آج اللہ تعالی کے فضل و کرم سے اس چھوٹی سی اس کمزور جماعت کا جو پیغام ہے قادیان سے نکل کر دنیا کے دو سو سے زیادہ ملکوں میں پہنچ چکا ہے اور ایسے ایسے کام اس جماعت کے ذریعے سے اللہ تعالی لے رہا ہے کہ حکومتیں بھی حیران ہوتی ہیں حضرت خان صاحب نے ایک بار یہ بات پڑھی کہ کچھ نمائندے دوسرے ٹی وی چینلوں کے آئے ایم ٹی اے کو دیکھنے کے لیے وہ حیران ہو گئے کہ آپ کی چھوٹی سی man power ہے تھوڑا سا پیسہ ہے اس کے باوجود آپ لوگ یہ سارا کام کیسے چلاتے ہیں اس ایم ٹی اے کے بارے میں بات کر رہا ہوں جس میں آج ہم بیٹھ کے جو ہے وہ اللہ تعالی کا پیغام پہنچا رہے ہیں حضرت مسیح محمد علیہ الصلاۃ والسلام کے الہامات کے تذکرے کر رہے ہیں کہ کس طرح تعالی نے اس ایم ٹی اے کے بدولت ہی یہ ثابت فرما دیا کہ یقینا یقینا اللہ تعالیٰ حضرت مسیح محمد علیہ الصلاۃ والسلام کے لیے اور آپ کی جماعت کے لیے کافی ہے کوئی بھی ایسا مرحلہ نہیں ہے کہ اللہ تعالی نے جماعت کو کسی چیز کی ضرورت ہوئی ہو اور اللہ تعالی نے اللہ تعالی کے خلیفہ کی بات کو یا اس کی دعاؤں کو سن کر ان ضرورتوں کو پورا نہ کیا ہو کوئی بھی ایسا مرحلہ نہیں آیا کہ جو خوف کے بادل چھائے ہوئے ہوں اور وقت نے دعائیں کی ہوں اور وہ خوف کے بادل چھٹ نہیں گئے ہوں بلکہ اللہ تعالی نے جو ہے وہ آہ بڑی بڑی برکتوں سے نوازا ہو چنانچہ آپ دیکھ لیں کہ کس طرح بعض ملکوں کے اندر ہماری جماعت کے لوگوں کو ستایا جاتا تھا اللہ تعالی نے ان کے لیے دوسری جگہوں پہ انتظام کر دیا اور وہاں جانے کے بعد اللہ تعالی نے ان کے لیے عبادت کا بھی انتظام کر دیا اللہ تعالی نے ان کے انوار اور نفوس میں برکت عطا فرمائی اللہ تعالی نے ان کی بچوں کی تعلیم میں برکت عطا فرمائی تو یہ ایک خدا تعالی کے کام ہیں خدا تعالی کے مدد کے بغیر یہ کام ہو نہیں سکتے اور یہ باتیں اس بات کو بتاتی ہیں کہ حضرت اقدس مسیح موعود علیہ الصلاۃ والسلام پر جو اللہ تعالی نے الہامات فرمائے وہ الہامات سچے تھے آپ کی صداقت کی وہ دلیلیں ہیں اور اللہ تعالی کے فضل و کرم سے وہ پورے ہو رہے ہیں اور ان میں سے بعض ایسے بھی ہیں جو آگے پورے ہوتے چلے جائیں گے انشاءاللہ جزاکم اللہ تعالی حسن الجزاء ناظرین ہمارے اس program میں ہمارے ساتھ ایک ٹیلی فون کالر جڑے ہیں اب ہم ان کا سوال سن لیتے ہیں بنگلہ دیش سے مکرم عارف الزمان صاحب اس وقت ہمارے ساتھ لائن پر موجود ہیں۔ عارف الزمان صاحب السلام علیکم ورحمتہ اللہ۔ وعلیکم السلام ورحمتہ اللہ وبرکاتہ آپ کو program کا بہت بہت مبارک میرا سوال ہے eighteen ninety nine کے بعد بھارت کے سب مولویوں نے مل کے حضرت مفتی علیہ السلام کے خلاف جو کفر کا فتوی کا جو سازش کیا تھا اس کا پس منظر کیا تھا اب اس کا نتیجہ کیا تھا اس کا اس میں تھوڑا روشنی ڈالیے جزاکم اللہ میں محترم مولانا منیر احمد خادم صاحب سے درخواست کرتا ہوں کہ اختصار کے ساتھ اس سوال کا جواب اٹھارہ سو اکیانوے میں حضرت اقدس مسیح محمد علیہ الصلاۃ والسلام پر جو کفر کا فتوی لگایا گیا تو دراصل یہ وہی بات ہے کہ جب خدا تعالی کی طرف سے اس کا کوئی معمور آتا ہے تو وہ آتا ہی ایسے وقت میں ہے کہ جب دنیا ایسے عقائد کو لے کر چل رہی ہوتی ہے جو عقائد خدا تعالی کی طرف سے نہیں ہوتے جو لوگوں نے اپنی طرف سے گڑھ لیے ہوتے ہیں اللہ تعالی کی کتاب اس کے خلاف ہوتی ہے چنانچہ آپ دیکھ لیں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانے میں جب کہ آپ نے ایک خدا کی تعلیم دی تو سارے کے سارے اس وقت کے جو مولوی کہہ لو وہ جو اس زمانے میں ان کے تھے ملا تھے کون تھے وہ سارے مخالف ہو گئے اور انہوں نے چاہے وہ کسی بھی مذہب کے تھے عیسائی تھے یہودی تھے مشرک تھے یا بد مذہب تھے ان سب نے کہہ دیا قرآن مجید میں آتا ہے کہ یہ جو اس کا عقیدہ ہے ان باقی دوسرے عقائد والے لوگوں سے بہت گمراہ کن عقیدہ ہے اور قرآن مجید میں تعالی نے اس کا ذکر فرماتے ہوئے یہ بات بیان فرمائی ہے کہ یہ جب بھی خدا تعالی کا کوئی معمور آتا ہے اور وہ اپنی بات پیش کرتا ہے تو وہ چونکہ بات اس دور کے لوگوں کے جو عقائد چل رہے ہوتے ہیں نظریات چل رہے ہوتے ہیں وہ ان کے خلاف ہوتی ہیں اور وہ ان کو سمجھاتا ہے کہ جن نظریات کو تم نے اپنایا ہوا ہے یہ صحیح نہیں ہے تو یہی ایسا ہی نظریہ وفات حیات مسیح کا تھا حیات مسیح کا جو یہ نظریہ ہے جو مسلمانوں نے عیسائیوں کے دیکھا اپنا لیا تھا اور اس کے نتیجے میں پادریوں نے بڑے فائدے اٹھائے پادریوں نے یہ کہہ دیا دیکھو عیسی علیہ الصلاۃ والسلام جو ہیں وہ آسمان پر زندہ ہیں تم بھی مانتے ہو عیسیٰ علیہ السلام آسمان پر زندہ ہیں ہم بھی مانتے ہیں زندہ ہیں تم بھی مانتے ہو وہ آئیں گے ہم بھی مانتے ہیں آئیں گے تو تم لوگوں نے کل ماننا آج ہی کیوں نہیں مان لیتے چنانچہ انگریزوں کے زمانے میں بڑے بڑے جو مولوی صاحبان تھے شاہی مسجدوں کے امام وہ بھی پادری ہوگئے۔ اتنا نقصان پہنچایا اس عقیدے نے اللہ تعالی نے حضرت مسیح علیہ الصلاۃ والسلام کو فرمایا کہ جو عیسی جس کا یہ مسلمان انتظار کر رہے ہیں وہ عیسی فوت ہو چکا ہے۔ اور اس کے رنگ میں رنگین ہو کر تو آیا میں نے تجھے بھیجا ہے۔ اس لیے تو اس بات کا اعلان کر دے۔ حضرت اقدس مسیح علیہ الصلاۃ والسلام کا اپنا خود عقیدہ بھی مسلمانوں کی طرح ہی تھا کہ عیسی آسمان پر ہیں اور آئیں گے۔ چنانچہ ابراہیم احمدیہ میں حضرت علیہ الصلاۃ والسلام نے اس کا ذکر فرمایا لیکن جب اللہ تعالی نے الہاما آپ کو فرمایا اور بار بار آپ کو الہام ہوا کہ عیسی رسول اللہ فوت ہو چکا ہے اور اس کے رنگ میں رنگین ہو کر تو آیا تو حضرت مسیح علیہ الصلاۃ والسلام نے اس کا اعلان فرما دیا تب مسلمانوں نے کہا کہ یہ تو ہمارے مروجہ عقیدے کے مطابق نہیں ہے یہ تو اس کے خلاف ہے چنانچہ مولوی محمد حسین بٹالوی جو بٹالے میں رہتے تھے نظیر حسین دہلوی ان سب لوگوں نے جن میں سے بعض تو مولوی محمد حسین بٹالوی جو تھے وہ تو پہلے برہین احمدیہ کے وقت میں تعریفوں کے پل باندھ چکے تھے آپ کے الہامات کے بارے میں بھی کہہ چکے تھے کہ اللہ تعالی کی طرف سے الہامات ہیں جو یہ براہین احمدیہ میں شائع ہوئے ہیں لیکن جب حضرت مسیح محمد علیہ الصلاۃ والسلام نے وفات مسیح کا اعلان کیا ہے کہ مسیح فوت ہو چکے ہیں اور میں مسیح بن کر اللہ تعالی نے مجھے بھیجا ہے تو مولوی محمد بٹالوی نے مولوی نذیر حسین صاحب دہلوی کو ساتھ لے کر ہندوستان کے قریب دو سو علماء سے کفر کے فتوے لکھوائے قریبا پورے ہندوستان میں وہ گھومے اور اللہ تعالی نے بھی دراصل اللہ تعالی کی مرضی تھی وہ چاہتا تھا کہ جتنا زور انہوں نے لگانا ہے لگا لیں چنانچہ دو سو مولویوں نے جب کفر کے فتوے لگائے اور سب نے کہہ دیا کہ مرزا غلام احمد قادیانی نے جو یہ عقیدہ پیش کیا نعوذ باللہ یہ کافر ہے تو پھر ہوا کیا ان کے فتووں کی وجہ سے اللہ تعالی کی تائید اور نصرت اللہ تعالی کی برکتیں حضرت مسیح محمد علیہ الصلاۃ والسلام پر آنی ہٹ گئی ہرگز نہیں اللہ تعالی نے حضرت اقدس مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کو وہ تائیدات اور وہ نصرتوں سے نوازا جب آپ دیکھ لیں ادھر اٹھارہ سو اکانوے میں وفات مسیح کا اعلان ہوتا ہے کفر کے فتوے لگتے ہیں اسی اٹھارہ سو اکانوے میں آپ جلسہ سلانہ کا بھی اعلان کر دیتے ہیں جلسہ قادیان میں اٹھارہ سو اکانوے میں ہی شروع ہوا۔ اور اس میں شروع میں تھوڑے سے آدمی تھے جلسہ فلانہ یکساں میں ہوا اور پھر آہستہ آہستہ آپ کی زندگی میں ہزاروں افراد اس جلسے میں شامل ہونا شروع ہو گئے۔ ہزاروں لوگوں نے بیعت کی۔ حضرت مسی محمد علیہ الصلاۃ والسلام جب نکلتے تھے سفر میں بھی تو سینکڑوں لوگ سفر کے دوران ہی آپ کی بیعت کرتے تھے۔ تو یہ جو کفر کے فتوے ہیں اللہ تعالی ان لوگوں کو ان کی زندگیوں میں یہ بات دکھاتا ہے کہ تم جتنے مرضی کفر کے فتوے لگا لو۔ یہ میرا کام ہیں اس کو میں نے بھیجا ہے انشاءاللہ میں اس کو کامیابی عطا کروں گا جیسے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم پر جب کہا گیا کہ یہ بے دین ہو گیا ہے صحابی ہو گیا ہے انہوں نے ہمارا اپنا دین چھوڑ دیا ہے سب لوگوں نے مل کے آپ کے خلاف جو ہے وہ فتوے دینے شروع کر دیے تو کیا ہوا بالاخر اللہ تعالی کی تائید اور نصرت آپ کے ساتھ تھی اور اب آج کوئی مکہ معظمہ میں کوئی نظر آتے ہیں وہ لوگ مدینہ میں نظر آتے ہیں سعودی عرب میں نظر آتے ہیں ایک زمانہ انشاءاللہ جماعت احمدیہ پر بھی ایسا آنے والا ہے حضرت اقدس مسیح علیہ الصلاۃ والسلام فرماتے ہیں تم دیکھو گے کہ یہ لوگ جو اس وقت کفر کے فتوے دینے والے ہیں آگے ان کی اولادیں انشاءاللہ پھر ان کی اولادوں کی اولادیں جو ہمیں جماعت احمدی کو قبول کریں گی اور حضور نے اس کے لیے تین سو سال کا وقت دیا اس میں سے بھی قریب آدھا وقت گزر گیا اور ہم دیکھ رہے ہیں کہ یہ ایسا نہیں ہے کہ کوئی فرمایا ہے تو پورا نہیں ہو رہا پورا بھی ہو رہا ہے قریبا دو سو ملکوں میں جماعت احمدی کا پیغام پہنچ چکا ہے کہ بڑے بڑے کئی درجن ممالک میں جلسہ سالانہ کا قیام ہو چکا ہے press لگ رہے ہیں اور جامعہ احمدیہ جو جہاں مبلغین تیار ہوتے ہیں ہزاروں کی تعداد میں مبلغین تیار ہو رہے ہیں ہزارہا کے تعداد میں کتابیں چھپ رہی ہیں قرآن مجید کے تراجم چھپ رہے ہیں اب جو حضور یوکے کے جلسہ میں ہر سال بیان فرماتے ہیں کہ اس سال اللہ تعالی کے یہ فضل نازل ہوئے اللہ تعالیٰ نے یہ برکتیں نازل کی اگر ان کو دیکھیں یہ لوگ تو شرمندہ ہوں کہ کس طرح باوجود اس کے کہ یہ لوگ کوئی دن ایسا نہیں چڑھتا کہ مخالفت نہیں کرتے کوئی دن ایسا نہیں چڑھتا کہ دشمنی نہیں کرتے کوئی دن ایسا نہیں چڑھتا کہ ان کے حسد کے جو پہاڑ ہیں وہ نہیں گراتے جماعت امجد کوشش نہیں کرتے لیکن خدا تعالی کی تائید اور اس کو مجھے نصرت ان کو دیکھنا چاہیے سمجھنا چاہیے کہ خدا کس طرف ہے خدا تعالی کا اشارہ کس طرف ہے یہ باتیں یہ سمجھیں گے تو ان کو پھر یہ حضرت نصیب علیہ الصلاۃ والسلام کی صداقت کی سمجھ آئے گی انشاءاللہ جزاکم اللہ ناظرین ایک offline سوال بھی ہمیں موصول ہوا ہے میں وہ سوال پڑھ کے سنا دیتا ہوں ظفر محمود احمد صاحب یہ سوال کرتے ہیں کہ قرآن مجید میں یہ آیت ہے یعنی کہ اگر کوئی جھوٹا الہام بنا کر میری طرف منسوب کرتا ہے اور کہتا ہے کہ یہ الہام مجھے خدا تعالی کی طرف سے ہوا ہے تو ہم اس کا دایاں ہاتھ پکڑ کر اس کی شہ رگ کاٹ دیتے ہیں آیت کی روشنی میں صداقت حضرت مسیح موعود علیہ الصلاۃ والسلام کی وضاحت فرمانے کی درخواست ہے میں محترم مولانا زین الدین حامد صاحب سے درخواست کرتا ہوں کہ اختصار کے ساتھ اس سوال کا جواب دیا سیدنا حضرت اقدس علیہ الصلاۃ والسلام کے کی صداقت کو پرکھنے کے لیے ہمیں وہی معیار دیکھنا ہے جو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی صداقت کو پرکھنے کے لیے قرآن مجید نے بطور معیار بیان فرمایا ہے اس میں ان میں سے ایک ہی آیت یہ بھی ہے اگر کوئی شخص جھوٹا الہام میری طرف منسوب کرتا ہے اور کہتا ہے کہ میری طرف یہ وحی ہوئی ہے الہام ہوا ہے حالانکہ وہ خدا کی طرف سے نہ ہو تو اللہ تعالی اس کو نیست و نابود کر دے گا کبھی ان کا مشن کامیاب نہیں ہو گا.

00:25:39

اور اس طرح بے شمار جھوٹے مدعیان دنیا میں آتے رہے ہیں. ان کا کسی کا مشن کامیاب نہیں رہا. سب نیست و نابود کر دیے گئے. لیکن حضرت اقدس علیہ الصلاۃ والسلام سن انیس سو سے لے کر انیس سو آٹھ تک اپنے آخری سانس تک اللہ تعالی کے ساتھ ہم کلام ہوتے رہے بے شمار الہامات کے موجود ہوئے وحی نازل ہوتی رہی جس میں حیرت نے یہ پیش گوئیاں بھی ہیں اور انظار و تفسیر بھی ہے مختلف جماعت کی کہ روشن مستقبل کے بارے میں پیش گوئیاں بھی ہیں لیکن اللہ تعالی آپ کی جماعت کو اور آپ کے mission کو کامیابی سے کہاں سے کہاں تک پہنچ گیا ایک ایک چھوٹی سی بستی قادیان کی بستی اٹھنے والی ہے ایک کمزور سی آواز آج اللہ تعالی کی تعید و نصرت سے کہاں سے کہاں پہنچ گئی اور دنیا کے دو سو بیس کے قریب ممالک میں آج حضرت اقدس مسلم علیہ الصلاۃ والسلام کی آواز جو قادیان کی آواز گونج رہی ہے تو یہ اس بات کی علامت ہے یہ ثبوت ہے کہ حضرت اقدس مسلم علیہ الصلاۃ والسلام اللہ کی طرف سے جو بھی بات بیان کی ہے وہ بالکل صحیح ہے آپ جھوٹے مدعیان میں نہیں ہیں جھوٹوں کے ساتھ ایسا سلوک کبھی اللہ تعالی نہیں کرتا ان کے mission کامیاب ہوتے ہیں اب تاریخ اٹھا کے دیکھ لیجیے کوئی بھی جماعت جس کے بانی اگر جھوٹا مدعی ہو ان کا کبھی بھی تاریخ میں آپ دیکھ لیں کتنے کہتے ہیں تیس تیس مدعیان دجال وغیرہ آتے رہتے ہیں لیکن حضرت اقدس مسلم علیہ الصلاۃ والسلام واقعی خدا کی طرف سے ہیں اور آپ کے آپ کی جماعت کو جو حاصل ہونے والی عظیم الشان کامیابی پوری دنیا میں یہ اس بات کی علامت ہے آپ بالکل نے جو کچھ بیان کیا اللہ کی طرف سے اللہ کی ذات سے بیان کیا یہ آپ کی صداقت کا ایک ثبوت ہے program کے تسلسل میں خاکسار کا اگلا سوال محترم سے ہی ہے کہ آخری زمانہ میں کثرت کے ساتھ زلزلوں اور آفات کا آنا بھی آخری زمانے کی آمد پر دلالت کرتا ہے اس کے بارے میں کچھ وضاحت فرمانے کی درخواست ہے سیدنا حضرت اقدس مسیم علیہ الصلاۃ والسلام نے اپنی کتاب جیسا کہ آپ نے اپنے ابتدائی کلام میں بھی بتا دیا تھا کہ حقیقت الوحی بہت ہی جامع کتاب ہے.

00:27:56

آپ نے اس میں ایک سو ستاسی نشانات اپنے صداقت کے ثبوت کے لیے بیان فرمائے. تو ان میں سے نویں, نوے نشان کے طور پر حضور نے بیان کیا کثرت کے ساتھ جو زلازل کا آنا مختلف وہ میں حضور کے الفاظ میں سناتا ہوں. حضور فرماتے ہیں نواں نشان زلزلوں کا متواتر آنا اور سخت ہونا ہے. جیسا کہ آیت سے ظاہر ہے یہ اسی طرح دسویں نشان کے طور پر حضور نے مختلف قسم کے حوادث اور مختلف جو آفات و مصائب وغیرہ عرضی و سما بھی وغیرہ آتے رہتے ہیں اس کے بارے میں ذکر کیا ہے.

00:28:37

تو دراصل بات یہ ہے قرآن مجید اور احادیث نبویہ اسی طرح خطبے سابقہ ہیں اسی طرح اس زمانے میں حضرت والسلام کے علامات کے متعلق سے پتہ لگتا ہے.

00:28:48

کثرت کے ساتھ آہ زلزلے بھی اسی طرح مختلف قسم کے حوادث اور کئی بلائیں اور وبائیں بیماریاں یہ سب آتی رہی ہیں. لیکن حضرت اقدس مسلم علیہ الصلاۃ والسلام نے واشگاف الفاظ میں یہ فرمایا ہے. یہ میری صداقت کے لیے ظاہر ہو رہا ہے. حضور نے قبل از وقت اطلاع بھی دیتے رہے حضور دیتے رہے. اور اپنے اخبار اور رسائل میں شائع بھی کرتے رہے. دراصل بات یہ ہے کہ نہیں جس قدر بھی دنیا میں آفات و مصائب آتے ہیں.

00:29:19

قرآن مجید کے لوگوں کے اپنے کرتوتوں کی وجہ سے ہی آتے ہیں اور جب خاص طور پر جب ظلم انتہا کو پہنچتا ہے گناہ کثرت سے پھیل جاتے ہیں تو اللہ تعالی کی یہ سنتیں ہمیشہ لوگوں کی اصلاح کے لیے اپنی طرف سے معمور بھجواتے ہیں یا اللہ تعالی کی قدیم سے سنت چلی آ رہی ہے اور اس زمانے میں بھی حضرت اقدس مسیح علیہ الصلاۃ والسلام کو مبعوث فرمایا اور آہ پیش گوئیوں کو فرمایا قرآن مجید اور دیگر تمام کتب میں آخری زمانے میں عظیم الشان مصلی کی بعثت کے متعلق پیش گوئیاں پائی جاتی ہیں.

00:29:53

ان تمام پیش گوئیوں کو پورا کرتے ہوئے حضرت اقدس علیہ السلام تشریف لائے لیکن لوگوں کا کیا رویہ بتایا. حضرت اللہ تعالی نے آپ کو بتایا. الہاما بتایا کہ دنیا میں ایک نظیر آیا. پر دنیا نے اسے قبول نہیں کیا. پر اللہ تعالی اسے قبول کرے گا اور بڑے زور آور حملوں سے اس کی سچائی ظاہر کر دے گا. تو یہ جو بنیادی طور پر الہام اللہ تعالی نے نازل فرمایا ہے. تو جتنے بھی جتنے بھی زلزلے اور بیماریاں, وبائیں, بلائیں سب کا جو دنیا مشاہدہ کر رہی ہے.

00:30:28

دراصل اسی الہام کے اردگرد ہیں. یعنی بڑے زور زور آور حملوں سے حضرت اقدس مسیح علیہ الصلاۃ والسلام کی صدارت ثابت کرنے کے لیے بیان کیا. حضرت والسلام نے یہ دنیا میں آکر آپ نے جو ایک یہ اعلان فرمایا. آپ کس غرض کے لیے آئے ہیں? پھر میں وہ زلال کی زلزلوں کی تفصیل کی طرف آؤں گا.

00:30:54

حضرت اقدس مسعود علیہ السلام فرماتے ہیں خدایا تعالی نے اس زمانے کو تاریک پا کر دنیا کو غفلت اور کفر اور شرک میں غرق دیکھ کر اور ایمان اور شرک اور تقوی اور راستہ بازی کو زائل ہوتے ہوئے مشاہدہ کر کے مجھے بھیجا ہے تاکہ وہ دوبارہ دنیا میں علمی اور عملی اور اخلاقی اور ایمانی سچائی کو قائم کرے تاکہ اسلام کو ان لوگوں کے حملے سے بچائے جو فلسفیت اور نیچرت اور اباحت اور شرک اور دیریت کے لباس میں اس الہی باغ کو کچھ نقصان پہنچانا چاہتے ہیں.

00:31:29

فرمایا وہ کام جس کے لیے خدا نے مجھے معمور فرمایا ہے. وہ یہ ہے کہ خدا میں اور اس کی مخلوق کے رشتے میں جو قدورت واقع ہو گئی ہے. اس کو دور کر کے محبت اور اخلاص کے تعلق کو دوبارہ قائم کرو. لیکن حضرت اقدس مصطفی علیہ السلام نے یہ جو اعلان معمولیت کا اعلان فرمایا. آپ نے اپنی بعثت کے مقاصد کو واشگاف الفاظ میں پیش کیا. اس کے بعد کیا ہوا? لیکن ہمیشہ سے جو دنیا کا جو طریق رہا ہے دنیا والوں کا جو طریقہ رہا ہے انہوں نے آپ کو قبول نہیں کیا.

00:32:03

بہت تھوڑے لوگوں نے آپ کو شروع میں قبول فرما کیا.

00:32:07

قرآن مجید فرماتا ہے.

00:32:13

کہ وائے حسرت بندوں پر جب بھی کوئی رسول ان کی طرف آتا ہے تو ان کے ساتھ استزا کرنا شروع کرتے ہیں اور مذاق کرتے ہیں ان کو قبول نہیں کرتے. خدا تعالی نے تمام انبیاء کے نشانات اس زمانے میں دوبارہ دکھائے تاکہ لوگوں کے ایمان مضبوط ہوں لیکن منکرین اور اور مکفرین اسی طرح ہمیشہ کی طرح انکار و تکذیب سے کام لیا. تب خدا تعالی کا غضب بھٹکا اور مخالفین کو عبرت کا نشان بنایا.

00:32:44

جیسا کہ اللہ تعالی فرماتا ہے.

00:32:48

کہ فرمایا کہ کوئی ایسی بستی نہیں جس کو ہم قیامت کے قریب کہ قیامت سے پہلے ہم اس کو ہلاک کرتے یا شدید عذاب میں مبتلا نہ کرتے.

00:33:04

آہ اسی طرح قرآن مجید میں ایسی بے شمار آیات ہیں جس سے پتہ لگتا ہے کہ جس قدر بھی جتنی بھی بستیاں آباد ہیں وہ سب ایک زمانہ ایسا جاتا ہے جب وہ ظلم اور سفاک میں گناہوں میں زیادہ حد سے زیادہ بڑھ جاتے ہیں وہاں کے رہنے والے پھر اللہ تعالی ان کو نشان عبرت بنا دیتے ہیں ان کو تہس نہس کر دیتے ہیں ان کو تباہ و برباد کر دیتے ہیں یعنی جب جائزہ لیتے ہیں حضرت اقدس مسلم علیہ الصلاۃ والسلام کی بعثت کے بعد آپ کے دعوے معمولیت کے بعد جس کثرت سے مصائب اور آفات اور زلزلے آئے ہیں گزشتہ صدیوں میں اس کی مثالیں نہیں ملتی چنانچہ جب ہم جائزہ لیتے ہیں پتہ لگتا ہے کہ گیارہ سو سال میں جس قدر بڑے بڑے زلائل آئے زلازل آئے ہیں دنیا میں جس میں کم از کم پچاس ہزار سے زائد لوگوں کی ہلاکتیں ہوئی ہیں وہ اعداد و شمار یہ بتاتے ہیں کہ گیارہ سالوں میں صرف گیارہ بڑے بڑے زلزلے آئے ہیں.

00:34:13

لیکن حضرت اقدس علیہ السلام کی بعثت کے بعد صرف سو سال میں تیرہ بڑے بڑے زلائل زلازل آئے ہیں. تو یہ اس بات کی طرف ہے کہ ایک منادی اللہ تعالی کی طرف نگاہ دینے والی ایک عظیم الشان ہستی کہ بےعثت ہو چکی ہے تب اس قسم کے کثرت کے ساتھ پھر اللہ تعالی فرماتا ہے جو بھی مصیبت دنیا میں آتی ہے وہ دراصل لوگوں کے غلط اعمال کے نتیجے میں ہی آتی ہے تو یہ اللہ تعالی کی سنت ہے حضرت اقدس مسلم علیہ الصلاۃ والسلام بارہا جب بھی اس قسم کے واقعات پیش ہوتے ہیں.

00:34:56

تو آپ قبل از وقت اس کی اطلاع بھی دیتے ہیں. اور اپنی صداقت کے طور پر اس کو پیش بھی فرمائیں.

00:35:06

فرمایا کہ ایک تو یہ کہ قرآن مجید فرماتا ہے اگر بستیوں والے ایمان لے آتے وہ تقوی اختیار کرتے تو ہم ضرور ان پر آسمان سے بھی برکتوں کے دروازے کھول دیتے اور زمین سے بھی لیکن انہوں نے جھٹلا دیا پس ہم نے ان کو اس کی پاداش میں جو وہ قصب کیا کرتے تھے پکڑ لیا حضرت اقدس علیہ الصلاۃ والسلام کے زمانے میں پیش گوئیوں کے مطابق کثرت سے آفات و حوادث کا ظہور ہوا بڑے بڑے آئے حضرت ان حوادث اور ذوالازل کو اپنی صداقت کے لیے نشان قرار دیا حضور کا ایک اقتباس پیش ہے اسی کتاب میں دسواں نشان کی حضور فرماتے ہیں دسواں نشان طرح طرح کی آفات سے اس زمانے میں انسانوں کا کثرت سے ہلاک ہونا ہے جیسا کہ قرآن شریف کی اس آیت کا مطلب ہے کوئی ایسی بستی نہیں جس کو ہم قیامت سے کچھ مدت پہلے ہلاک نہیں کریں یا کسی حد تک اس پر عذاب وارد نہیں کریں گے.

00:36:12

سو یہی وہ زمانہ ہے کیونکہ طاعون اور زلزلوں اور طوفان اور آتش فشاں پہاڑوں کے صدمات اور باہمی جنگوں سے لوگ ہلاک ہو رہے ہیں اور اس قدر اسباب موت کے اس زمانے میں جمع ہوئے ہیں اور اس شدت سے وقوع میں آئے ہیں. کہ اس مجموعی حالت کی نظیر کسی پہلے زمانے میں پائی نہیں جاتی.

00:36:35

حقیقت الوحید. جیسا کہ میں اعداد و شمار کے لحاظ سے بتا دیا تھا. گزشتہ گیارہ سو سال میں صرف گیارہ بڑے زلزلے آئے. لیکن کے پاس صرف ایک سو سال میں یہ تیرہ بڑے بڑے زلزلے آئے ہیں تو چونکہ حضرت موسی علیہ السلام آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی غلامی میں نبوت کا منصب پایا ہے اس لیے آپ کا دائرہ اسلام بھی پوری دنیا اس اس لیے طوفان زلزلے صرف کسی خاص ملکوں میں علاقوں میں نہیں بلکہ پوری دنیا میں اس قسم کے حوادث رونما ہوئے ہیں حضرت اقدس علیہ السلام فرماتے ہیں میری تائید میں خدا تعالی کے نشانوں کا ایک دریا بہہ رہا ہے جس سے یہ بے خبر نہیں ہیں اور کوئی مہینہ شاز و ناظر ایسا گزرتا ہو گا.

00:37:20

کہ جس میں کوئی نشان ظاہر نہ ہو. ان نشانوں پر کوئی نظر نہیں ڈالتا. نہیں دیکھتے کہ خدا کیا کہہ رہا ہے. ایک طرف طاعون بہ زبان حال کہہ رہی ہے کہ قیامت کے دن نزدیک ہے. اور دوسری طرف خالق عادت زلزلے جو کبھی اس طور سے اس ملک میں نہیں آئے تھے. خبر دے رہے ہیں. کہ خدا کا غضب زمین پر بھڑک رہا.

00:37:43

بھڑک رہا ہے.

00:37:45

اور آئے دن ایسی نئی نئی آفات نازل ہوتی ہے جن سے معلوم ہوتا ہے کہ دنیا کے طور بدل گئے ہیں اور ظاہر ہوتا ہے کہ خدا تعالی کوئی بڑی آفت دکھلانی چاہتا ہے اور ہر ایک آفت جو ظاہر ہوتی ہے پہلے اس سے اس کی مجھے خبر دی جاتی ہے اور میں بذریعہ اخبار یا رسائل یا اشتہار کے اس کو شائع کر دیتا ہوں چنانچہ میں بار بار کہتا ہوں کہ توبہ کرو کہ زمین پر اس قدر آفات آنے والی ہے جیسا کہ طور پر ایک سیاہ آندھی آتی ہے اور دنیا میں بڑے بڑے زلزلے آئیں گے یہاں تک کہ وہ زلزلہ آ جائے گا جو قیامت کا نمونہ ہے تب ہر قوم میں ماتم پڑے گا کیوں کہ انہوں نے اپنے وقت اور شناخت نہ کیا یہی معنی ہے خدا تعالی کے اس الہام کے کہ دنیا میں ایک نظیر آیا پر دنیا نے اسے قبول نہ کیا لیکن خدا اسے قبول کرے گا اور بڑے زوروں پر ہم نے اسے اس کی سچائی ظاہر کر دے گا اسی موضوع پہ ایک اور اقتباس پیش کرتا ہوں حضور فرماتے ہیں یاد رہے کہ خدا نے مجھے عام طور پر زلزلوں کی خبر دی ہے بس یقینا سمجھو کہ جیسا کہ پیش گوئی کے مطابق امریکہ میں زلزلے آئے ایسا ہی یورپ میں بھی آئے اور نیز ایشیا کے مختلف مقامات میں آئیں گے اور بعض ان میں قیامت کے نمونہ ہوں گے اور اس قدر موت ہو گی کہ خون کی نہریں چلیں گی اور جس موت سے پرند چرند بھی باہر نہیں ہوں گے اور زمین پر اس قدر سخت تباہی آئے گی کہ اس روز سے کہ انسان پیدا ہوا ایسی تباہی نہیں آئی ہوگی.

00:39:20

اور اکثر مقامات زیر و زبر ہو جائیں گے. کہ گویا ان میں کبھی آبادی نہ تھی. اور اس کے ساتھ اور بھی آفات زمین و آسمان ہولناک صورت میں پیدا ہوں گی. یہاں تک کہ ہر ایک عقل کی عقلمند کی نظر میں وہ باتیں غیر معمولی ہو جائیں گی. اور ہیت اور فلسفے کی کتابوں کے کسی سفر میں ان کا پتہ نہیں ملے گا. تب ان اسلاموں میں اضطراب پیدا ہوگا. کہ کیا ہونے والا ہے.

00:39:46

اور بہت تیرے نجات پائیں گے اور بہت تیرے ہلاک ہوجائیں گے. وہ دن ہے بلکہ میں دیکھتا ہوں کہ دروازے پر ہے. یہ دنیا ایک قیامت کا نظارہ دیکھے گی. اور نہ صرف زلزلے بلکہ اور بھی ڈرانے والی آفتیں ظاہر ہوگی. کچھ آسمان سے کچھ زمین سے.

00:40:03

یہ اس لئے کہ نو انسان نے اپنے خدا کے پس چھوڑ دی ہے. اور تمام دل اور تمام ہمت اور تمام خیالات سے دنیا پر ہی گر گئے ہیں. اگر میں نہ آیا ہوتا. تو ان بلاؤں میں کچھ تاخیر ہو جاتی. میرے آنے کے ساتھ خدا کے غضب کے وہ مخفی ارادے جو ایک بڑی مدت سے مخفی تھے. ظاہر ہوگئے. جیسا کہ خدا نے تو توبہ کرنے والے امان پائیں گے وہ جو بلا سے پہلے ڈرتے ہیں ان پر رحم کیا جائے گا کیا تم خیال کرتے ہو کہ تم ان زلزلوں سے امن میں رہو گے کیا تم اپنی تدبیروں سے اپنے تو یہ بچا سکتے ہو ہرگز نہیں انسانی کاموں کا اس دن خاتمہ ہو گا یہ مت خیال کرو کہ امریکہ وغیرہ میں سخت ضلع آئے ہیں اور تمہارا ملک ان سے محفوظ ہے میں تو دیکھتا ہوں شاید ان سے زیادہ مصیبت کا منہ دیکھو گے.

00:40:58

پھر فرماتے ہیں اے یورپ تو بھی امن میں نہیں. اور اے ایشیا تو بھی محفوظ نہیں. اے جزائر کے رہنے والو کوئی مصنوعی خدا تمہاری مدد نہیں کرے گا. میں شہروں کو گرتے دیکھتا ہوں اور آبادیوں کو ویران پاتا ہوں. وہ واحد ایگانہ ایک مدت تک خاموش رہا. اور اس کی آنکھوں کے سامنے مکروہ کام کیے گئے. وہ چپ رہا. مگر اب وہ ہیبت کے ساتھ اپنا چہرہ دکھلائے گا.

00:41:22

اور جس کے کان سننے کو ہوں. سنے. وہ وقت دور نہیں.

00:41:27

کوشش کی خدا کی امان کے نیچے سب کو جمع کروں پر ضرور تھا کہ تقدیر کے نوشتے پورے ہوتے تو حضرت اقدس علیہ الصلاۃ والسلام نے ان تمام حوادثے ارضی و سماوی کو زلزلے کو اسی طرح طاعون اور دیگر وبائیں اور بلائیں سب کو اپنی صداقت کے ثبوت پیش فرمایا ہے اور حضرت اقدس علیہ الصلاۃ والسلام فرماتے ہیں کہ اب اسی گلشن میں لوگوں راحت و آرام ہے. وقت ہے جلد آؤ یہ آوارگاہ نے دستخار ہر طرف آواز دینا ہے ہمارا کام آج جس کی فطرت نے کہ ہے.

00:42:05

آیا ہوا آئے گا وہ انجام کار تو اس کتاب میں حضرت موسی علیہ الصلوۃ والسلام نے اپنی صداقت کے اس بات میں ایک سو ستاسی نشان بیان فرمائے اس کی تفصیل بیان فرمائی ہے. یہ بہت ہی قابل مطالعہ کتاب ہے. جو ناظرین و سامعین سے میں گزارش کروں گا ضرور اس کتاب کا بھی مطالعہ کریں تاکہ پتہ لگ جائے اس زمانے کے امام کس قدر واضح روشن ثبوت کے ساتھ دنیا میں اللہ تعالی نے ان کو مبعوث کیا ہے تو جو لوگ ابھی سے ابھی تک اس چشم فیض سے محروم ہیں دور ہیں ان کو چاہیے کہ تیزی کے ساتھ دوڑیں اور اس گلشن میں شامل ہو جائیں جزاکم اللہ تعالی حسن الجزا program کو آگے بڑھاتے ہوئے خاکسار محترم مولانا منیر احمد خادم صاحب سے درخواست کرتا ہے کہ کرم دین جہلمی کے تعلق سے حضرت اقدس مسیح موعود علیہ الصلاۃ والسلام نے پیش گوئی بیان فرمائی تھی اس کی کچھ تفصیل بیان فرمائیں کرم دین جہلمی یہ جہلم کا رہنے والا ایک شخص تھا.

00:43:11

اور حضرت اقدس مسیح موعود علیہ الصلاۃ والسلام کو جب یہ حضور نے یہ کتاب کتابیں اپنا پیغام پیغام پہنچانا شروع کیا. اور ان لوگوں تک بھی پہنچا. یہ بھی ان لوگوں میں سے ایک ہے جو حسد کا شکار ہوئے.

00:43:36

چنانچہ اس نے ایک دفعہ حضرت مسیح محمد علیہ الصلاۃ والسلام کو بلکہ حضرت شیخ یعقوب علی صاحب عرفانی کے توسط سے یہ اطلاع دی کہ پیر مہر علی شاہ جو گولڑوی ہیں گولڑوا گولڑڑا ایک بہت بڑی **** ہے آج کل پاکستان میں وہاں کے پیر تھے پیر مہر علی شاہ پیر مہر علی شاہ اپنے شاہ صاحب نے اپنے ایک مرید جس کا نام محمد حسن تھا اس کی کتابوں میں سے سرکا کر کے کچھ لکھا اور وہ تو بیچارہ فوت ہو گیا لیکن اس کی کتاب سیف چشتیاں میں سے انہوں نے کچھ لکھا اور وہ اپنی طرف منسوب کر لیا یہ اطلاع جب انہوں نے یہاں دی تو اس اطلاع کو یہاں شائع کر دیا گیا تو حضرت شیخ یعقوب علی صاحب عرفانی نے اخبار الحق میں اس کا ذکر کر دیا.

00:44:43

اس نے جب دیکھا کہ یہ گولڑہ کے پیر صاحب اور ان کے جو ماننے والے ہیں میرے مخالف ہو جائیں گے. تو اس نے کہا کہ یہ تو میں نے نہیں لکھا. میں نے نہیں کہا ان کو وہ مکر گیا.

00:44:58

بلکہ الٹا جو ہے وہ مقدمہ کر دیا. کہ میرے ازالہ حیثیت عرفی کا مقدمہ اس کو کہتے ہیں. کہ میری توہین ہوئی ہے. ان لوگوں نے کی ہے اور میں ان پر مقدمہ کرتا ہوں.

00:45:14

چنانچہ حضرت علیہ الصلاۃ والسلام نے فرمایا.

00:45:18

کہ یہ شخص جس نے یہ مقدمہ کیا ہے.

00:45:23

ایک سال پہلے اللہ تعالی نے مجھے بتا دیا تھا کہ یہ شخص کوئی شخص ہوگا وہ جھوٹا ہوگا لعیم ہوگا اور وہ ایسا مقدمہ کرے گا اور تین لوگ اس کے ساتھ ہوں گے چنانچہ وہ تین لوگوں کا بھی مسلم نے ذکر فرمایا اور یہ نشان جو ہے حقیقت الوحی میں نشان نمبر ستائیس ہے اور حضور نے جو ذکر فرما دیا کہ مجھے میرے اللہ نے پہلے سے بتا دیا کہ ایک شخص ایسا اٹھے گا اور مقدمہ کرے گا اور اس کا جھوٹا ہو گا تو وہ حضور کی کتاب ہے مواہب الرحمان حضور نے اس میں اس کا ذکر فرما دیا اب آپ دیکھیں کہ مقدمہ یہ شخص کرتا بعد میں اور ذکر جو ہے کتاب میں حضور پہلے فرما دیتے ہیں یہ بھی بتا دیتے ہیں اس کے ساتھ تین آدمی ہوں گے اور وہ ساری تفصیل بھی جو ہے وہ حضور نے بیان فرمائی ہے یہ میں آپ کو بتاتا ہوں کہ حضور نے فرمایا کہ من جملہ میرے نشانوں کے ایک یہ ہے کہ جو خدائے علیم و حکیم نے ایک لعین شخص کی نسبت اور اس کے بہتان عظیم کی نسبت مجھے خبر دی اور مجھے اپنی وحی سے اطلاع دی کہ وہ شخص جو ہے تیری عزت پر حملہ کرنے کی کوشش کرے گا اور انجام کار میرا نشانہ بن جائے گا حملہ کرنے کی کوشش کرے گا لیکن انجام کار میرا نشانہ بن جائے گا اور خدا نے تین خوابوں میں مجھ پر پھر یہ حقیقت ظاہر کر دی اور خواب میں پر ظاہر کیا کہ یہ دشمن تین حمایت کرنے والے اپنے کامیابی کے لیے مقرر کرے گا حضور نے ان تینوں کا ذکر کیا اور مجھے دکھلایا گیا کہ انجام ان حالات کا میری نجات ہے اگرچہ کچھ مدت کے بعد ہو پھر اور مجھے بشارت دی گئی کہ وہ دشمن کذاب مہین پر بلا رد کی جائے گی پس ان تمام خوابوں اور علامات کو میں نے قبل is وقت شائع کر دیا اور جن شائع کیا ان کا نام ایک کا نام ان میں الحکم اور دوسرے کا نام البدر ہے چنانچہ یہ اخبارات میں الہامات حضرت مسیح علیہ السلام نے شائع فرما دیا شائع ہونے کے بعد جب حضرت مصیبت علیہ الصلاۃ والسلام نے ان کو شائع کر دیا تو اس شخص نے مقدمہ کیا مقدمہ جب کیا تو وہ حضرت میری بےعزتی کر دی انہوں نے ایسا لکھ کے وہ شروع میں تو مقدمہ اس کے خلاف چلا گیا لیکن بعد میں پھر اس نے کچھ مقدمات ایسے یہ لمبی تفصیل ہے مقدمات در مقدمات کا سلسلہ چلا اور ان مقدمات میں پھر حضرت مسیح معاذ علیہ الصلاۃ والسلام کو بھی جہلم تک جانا پڑا اور وہاں حضور گئے اس دوران اللہ تعالی نے حضرت مسیمہ علیہ الصلاۃ والسلام کو فرمایا کہ کہ ہر طرف سے میں تیرے لیے برکات کا نزول کروں گا۔ چنانچہ تاریخ اہمیت میں لکھا ہے اور تاریخ گواہ ہے کہ حضرت مسیح علیہ الصلاۃ والسلام جب جہلم کی طرف گئے ہیں۔ بذریعہ ریل تو رستے میں سینکڑوں لوگوں نے آپ کی بیعت کی۔ تاریخ میں اس بات کا ذکر ہے کہ ریلوے اسٹیشن پر اور پلیٹ فارموں پر ریلوے کے جو لوگ ٹکٹ ہوتے ہیں وہ ختم ہو گئے پلیٹ فارم کے۔ اور بغیر ٹکٹ کے لوگوں کو station master نے جو ہے اندر کیا اور وہ لوگ گئے اور حضور کا دیدار کرنا چاہتے تھے پھر جب حضور جہلم پہنچے تو وہاں پہ بھی بیتوں کا سلسلہ شروع ہوا اور ہزار ہا لوگوں نے آپ کی بیعت کی تو اللہ تعالی نے آپ کو پہلے سے فرما دیا تھا کہ مقدمہ تو کرے گا اور وہ جو ہے ذلیل کرنے کی کوشش کرے گا لیکن میں ہر طرف سے تیرے لیے برکات کا نزول کروں گا اور حضرت مسیمہ علیہ السلام فرماتے ہیں کہ نہ صرف یہ کہ ان لوگوں نے بیعت بلکہ اس قدر تحفے تحائف اور محبت ان لوگوں نے دکھائی کہ میں حیران ہوں اپنے خدا پر جس نے مجھے ان الہامات سے نوازا اور پھر اللہ تعالی نے اپنے فضل و کرم سے ان الہامات کو پورا بھی کیا یہ ایک لمبی تفصیل ہے ان میں سے بعض باتوں کو چھوڑتے ہوئے جو بعض ایمان افروز باتیں ہیں ان کا میں تذکرہ کرتا ہوں ایمان افروز بات یہ ہے کہ یہ مقدمہ سب سے پہلے لالہ مجسٹریٹ کے پاس پیش ہوا اور یہ لالہ چندو لال جو ہیں وہ وہ ہیں جو عالیہ سماج سے تعلق رکھتے تھے اور عریہ سماج والوں نے ان سے کہا کہ دیکھو یہ جو مرزا غلام احمد قادیانی ہیں انہوں نے کو بھی مروایا ہوا ہے اور یہ ہمارے مخالف ہیں تو حضرت نسیم علیہ الصلاۃ والسلام یہ جو مقدمہ آپ کے پاس آیا ہے اب ان کی خیر نہیں رہنی چاہیے چنانچہ حضور نے فرمایا کہ اللہ تعالی نے لالہ چندو لال کہ چاہتا تھا کہ مجھے وہ پکڑے اور مجھے ذلیل کرے اللہ تعالی نے خود اس کو رسوا کیا ہوا کیا کہ وہ ایک بار مجسٹریٹ نے اس کو کہا کہ بھئی ایک ملزم کو مجرم ہے اس کو پھانسی دینی ہے تو تم چلے جاؤ وہ کہنے لگا نہیں میرا تو دل بہت کمزور ہے میں جا نہیں گیا اس کو degrade کیا اور وہ مقدمہ پھر کسی اور کے پاس گیا اور اس کے بعد وہ مقدمہ لالہ آتما رام کے پاس گیا لالما لالہ آتما رام بھی ویسا ہی تھا جب اس بھی جو ہے وہ مخالفت دکھائی تو اللہ تعالی نے حضرت مسیح علیہ السلام کو فرمایا کہ یہ بھی ناگہانی حادثات سے دوچار ہو گا چنانچہ ایک کے بعد ایک اس کے دو بیٹے اس کے اثنا میں جو فوت ہوئے اور پھر وہ جب جو چاہتا تھا کہ مسیح علیہ السلام کو ایک دن کے لیے بھی جیل میں رکھے وہ اس کی وہ حسرت پوری نہیں ہوئی اللہ تعالی نے وہاں ایسے حالات پیدا کر دیے کہ باوجود وقت کم ہونے کے اللہ تعالی نے مسیح علیہ السلام کے حواریوں کو یہ توفیق عطا فرمائی کہ انہوں نے اسی وقت سارا انتظام کر کے اللہ وہ باوجود چاہنے آپ کو ایک دن بھی جیل میں نہیں رکھ سکا۔ اور اللہ تعالی نے اپنے فضل و کرم سے مسیح محمد علیہ الصلاۃ والسلام کو جو ہے وہ اس جیل کی سلاخوں سے بچایا۔ حضرت سلام نے اس موقع پر جب ان کو آپ کو فرمایا گیا کہ یہ جو آ magistrate ہے اس کی نیت نیک نہیں ہے۔ اور وہ آپ کو جو ہے وہ جیل کی سلاخوں میں ڈالنا چاہتا ہے۔ وہ کہتا ہے یہ میرے ہاتھ میں شکار ہے میں اس کو کسی بھی طرح جو ہے وہ اس پہ قبضہ کروں گا۔ حضرت مسیح علیہ الصلاۃ والسلام تاریخ میں آتا ہے لیٹے ہوئے تھے اٹھ کے بیٹھ گئے۔ کہنے لگے مجھے شکار میں اس کا شکار نہیں ہوں.

00:52:19

میں تو اللہ تعالی کا شیر ہوں.

00:52:23

چنانچہ اللہ تعالی نے لالہ چندو لال کو degrade کیا۔ اور لالہ عاطمہ رام کے بھی دو بیٹے جب اس نے مخالفت کی مرے۔ اور پھر امرتسر کے session جج میں وہ مقدمہ گیا اور وہ جو تھا مجسٹریٹ اس نے آپ کو بری کیا اور یہاں تک کہا کہ بلاوجہ وقت ضائع کیا۔ یہ تو ایسا مقدمہ ہی نہیں تھا کہ اس کے اندر جو ہے وہ اتنا ٹائم لگایا جاتا۔ میں ہوتا تو اس کو چند پیشیوں میں اس کو ختم کر دیتا۔ تو یہ جو وسیم الاسلام کو اللہ تعالی نے پہلے سے فرمایا کہ ایک شخص لعیم مقدمہ کرے لیکن اللہ تعالی آپ کے لیے کامیابی کی شکل پیدا کرے گا اور اس موقع پہ ایک الہام اور بھی ہوا بڑی دلچسپی کی بات ہے فرمایا الہام یہ ہے کہ یوم العسنین آ کہ پیر کا دن اور یہ جو فتح ہو گئی حنین کی طرح کی فتح ہو گئی اگلے الفاظ عربی کے ہیں اس کا مطلب یہ ہے حنین کی طرح کی فتح کا مطلب یہ ہے کہ جنگ حنین میں جیسے پہلے شکست کے آثار ظاہر ہوئے اور وقتی طور پر مسلمان مسلمانوں نے شکست کا منہ دیکھا لیکن بعد میں اللہ تعالی نے فتح عطا فرمائی تو اسی طرح اس مقدمے میں بھی اللہ تعالی نے پہلے وقتی طور پر ایسا لگ رہا تھا احمدیوں کو کہ نعوذ باللہ اسلام کو محفوظ کیا جائے گا اور پھر یہ ہے کہ پکڑا پکڑے جائیں گے یہ وقتی طور پر جو ایسا حالات تھے وہ ختم کر کے اللہ تعالی نے پھر فتح کے سامان پیدا فرما دیا تو حضرت سلام نے اس کا ذکر فرمایا کہ دیکھو لوگ تو مجھے نابود کرنا چاہتے تھے لوگ تو مجھے محفوظ کرنا چاہتے تھے لوگ تو مجھے جیل کے سلاخوں کے پیچھے رکھنا چاہتے تھے لیکن اللہ تعالی نے اس ہی مقدمے میں میرے لیے برکتوں کے ایسے دروازے کھول دیے کہ انہی اس مقدمے کے دوران ہزار ہا افراد جو ہے میری بیعت میں شامل ہوئے نہ صرف مردوں میں سے بلکہ عورتوں میں سے بھی سینکڑوں سینکڑوں عورتوں نے بیعتیں کیں تو یہ اللہ تعالی کی طرف سے ایک بہت بڑا نشان تھا کرم دین جہلمی کا بڑی تفصیلی بڑا تفصیلی نشان ہے یہ بڑا وقت چاہتا ہے لیکن خلاصہ اس کا یہی ہے کہ پہلے سے ہی اللہ تعالی نے آپ کو بتا دیا تھا کہ ایسا ایک شخص مقدمہ کرے گا کہ ایسے اس کے حالات ہوں گے اور پھر اللہ تعالی نے پہلے سے بتا دیا تھا کہ کچھ ایسے حالات بیچ میں آئیں گے کہ جو جس میں ایسا لگے گا کہ شکستگی ہو رہی ہے شکستہ پن پیدا ہو رہا ہے اور جو ہے وہ پریشانی کے آثار ظاہر ہو رہے ہیں لیکن اللہ تعالی انشاءاللہ تعالی ان سب حالات کو ختم کر کے فتح کی صورت دکھائے گا چنانچہ بالکل اسی طریقے سے دنیا نے دیکھا کہ اللہ تعالی نے کس طرح کرم دین جہلمی کو اور وہ جو اس کے ساتھ آنے والے عاریہ سماجی تھے مسلمان ملا تھے۔ ثناء اللہ امرتسری بھی وہاں پہنچے تھے۔ اور وہ سارے لوگوں کو اللہ تعالی نے ذلیل اور رسوا کیا اور حضرت اقدس مسیح علیہ الصلاۃ والسلام کو کامیاب کیا۔ حضرت اقدس مسیح محمد علیہ الصلاۃ والسلام اپنے الہامات کے حوالہ سے جو آپ کو یقین تھا اور جو ذکر آپ اسی کتاب میں بیان فرما رہے ہیں۔ میں چند لائنیں پڑھ کے ختم کرتا ہوں۔ حضرت اقدس مسیح علیہ الصلاۃ والسلام فرماتے ہیں۔ میں خدا تعالی کی قسم کھا کر کہتا ہوں کہ میں ان الہامات پر اسی طرح ایمان لاتا ہوں جیسا کہ قرآن شریف پر اور خدا کی دوسری کتابوں پر اور جس طرح میں قرآن شریف کو یقینی اور قطعی طور پر خدا کا کلام جانتا ہوں اسی طرح اس کلام کو بھی جو میرے پر نازل ہوتا ہے خدا کا کلام یقین کرتا ہوں کیونکہ اس کے ساتھ الہی چمک اور نور دیکھتا ہوں اور اس کے ساتھ خدا کی قدرتوں کے نمونے پاتا ہوں غم آ یہ اقدس مسیح علیہ الصلاۃ والسلام نے اپنے الہامات کے متعلق جو یقین اور وسوخ سے بیان فرمایا یہ میں نے ابھی آپ کے خدمت میں اس کو پیش کیا ہے جزاک اللہ تعالی حسن الجزا آ وقت چونکہ بہت مختصر ہے میں محترم مولانا زین الدین حامد صاحب سے درخواست کرتا ہوں کہ اس بات کا تھوڑی سی وضاحت بیان کریں کہ حضرت مسیح موت علیہ الصلاۃ والسلام کی سچائی کے تعلق سے افغانستان کے شہزادہ عبدالطیف صاحب رضی اللہ تعالی عنہ کو بھی کچھ الہامات ہوئے ہیں تو اس بارے میں کچھ سترویں نمبر کے نشان کے طور پر حضور نے یہ بیان فرمایا ہے حضور کے الفاظ میں یہ پیش کرتا ہوں میں وقت کے رعایت کے مطابق حضور فرماتے ہیں مولوی صاحبزادہ عبداللطیف صاحب شہید کا الہام کہ یہ شخص حق پر ہے مسیح موت بھی ہے اور اس کے ساتھ کئی متواتر خوابیں تھیں جنہوں نے مولوی صاحب موصوف کو وہ استقامت بخشی کہ آخر انہوں نے تصدیق کے لیے کابل کی سرزمین میں امیر کابل کے حکم سے جان دی ان کو کئی مرتبہ امیر نے فرمائش کی کہ اس شخص کی بیعت اگر چھوڑ دو تو پہلے سے بھی زیادہ آپ کی عزت کی جائے گی مگر انہوں نے کہا کہ میں جان کو ایمان پر مقدم نہیں رکھ سکتا آخر انہوں نے اس راہ میں جان دی اور کہا کہ اس راہ میں خدا کی رضامندی کے لیے جان دینا پسند کرتا ہوں تب وہ پتھروں سے سنسار کیے گئے تو ایسی استقامت دکھلائی کہ ایک آب بھی ان کے منہ سے نہ نکلی حضرت اقدس مسیح الصلاۃ والسلام نے یہ جو حیرت انگیز استقامت کا نمونہ حضرت صاحبزادہ عبدالطیف صاحب شاید آہ سید نے دکھائی ہے اس کو اپنی صداقت کے ایک ثبوت کے طور پر حضور نے بیان کیا ہے.

00:57:56

تو وقت کی رعایت کے مطابق میں اس میں چونکہ یہ جو بعض الہامات ہیں حضرت محسن علیہ الصلاۃ والسلام کے تو وہ اس کا ایک حصہ میں پیش کرنا چاہتا ہوں کہ وہ یہ شروع معمولیت کے کا الہامات میں سے ہیں انہیں اٹھارہ سو تریاسی کا الہام ہے. اس میں اس کا ترجمہ ہے کہ اگر تمام لوگ تیرے بچانے سے دریغ کریں مگر خدا تمہیں بچائے گا.

00:58:34

اس جگہ فتنہ ہے بس صبر کر جس طرح لوگوں نے صبر کیا ہے. دو بکریاں ذبح کی جائیں گی. اور زمین میں کوئی سا نہیں جو مرنے سے بچ جائے گا. سست مت ہو, غم مت کرو. کیا خدا اپنے بندے کو کافی نہیں ہے. اس پیشگوئی کے بیس سال تک کوئی آثار نہیں ظاہر ہوئے. لیکن بیس سال گزرنے کے بعد یہ واقعہ ہوا.

00:58:58

جو افغانستان میں جماعتی کتب پہنچتی ہے. پھر اسی طرح خوست کے علاقے میں شہزادہ عبدالطیف صاحب کو کتابیں ملتی ہیں. آپ اس کا مطالعہ کرتے ہیں. آپ یقین کر لیتے ہیں واقعی جو مدعی مسیح محمد ہیں. حضرت مرزا غلام محمد قادیانی علیہ السلام بھی اپنے دعوے میں سچے ہیں. چنانچہ آپ اپنے شاگرد کو قادیان بھجواتے ہیں مزید تحقیق کے لیے. اور ان کو یہ بتا دیتے ہیں آپ خود بھی بیعت کریں اور میری طرف سے بھی بیعت لے لیں.

00:59:24

آپ نے بیعت لی ہے. تو ساری تفصیل چھوڑتے ہوئے میں حضرت کا ایک اقتباس پیش کرنا چاہوں گا. تو وہ بہت ہی جامع ہے.

00:59:35

حضور ایک تو یہ فرمایا کہ عبدالعزیز صاحب کی شہادت کی اطلاع ملنے پر ایک تو حضور نے یہ فرمایا آپ نے ایک کتاب بھی تحلیل فرمائی تذکرہ شہادتیں کر کے. اس میں نہایت انداز میں اپنے دونوں شہادتوں کا ذکر کیا ہے اور الہام کے شیطانی طلبہانی کے مطابق یہ واقعہ ہوا ہے اور حضور نے فرمایا اے عبداللطیف تیرے پر ہزاروں رحمتیں کہ تو نے میری زندگی میں ہی اپنے صدقہ نمونے لکھا ہے.

01:00:02

یہ ایک اور ایمان افروز بات یہ ہے کہ فرماتے ہیں کہ جب میں استقامت اور جانفشانی کو دیکھتا ہوں. جو صاحبزادہ مولوی محمد عبدالطیف صاحب مرحوم سے ظہور میں آئی. تو مجھے اپنی جماعت کی نسبت بہت امید بڑھ جاتی ہے. کیونکہ جس خدا نے افراد اس جماعت کو یہ توفیق دی ہے کہ نہ صرف مال بلکہ جان بھی اسلام میں قربان کر گئے اس خدا کا سری یہ منشا معلوم ہوتا ہے کہ بہت سے ایسے افراد اس جماعت میں پیدا کرے جو صاحبزادہ مولوی عبدالطیف صاحب کی روح رکھتے ہوں اور ان کی روحانیت کا ایک نیا پودا ہو جیسا کہ میں نے کشفی حالت میں واقع اور شہادت مولوی صاحب موصوف کے قریب دیکھا کہ ہمارے باغ میں سے ایک بلند شاہ سروں کی کاٹی گئی اور میں کہا کہ اس شاخ کو زمین پر دوبارہ نصب کرو تاکہ وہ بڑھے اور پھولے سو میں نے اس کی یہی تعبیر کی کہ خدا تعالی بہت سے ان کے قائم مقام پیدا کرے گا سو میں یقین رکھتا ہوں کہ کسی وقت میرے اس کشف کی تعبیر ظاہر ہو جائے گی عرض ہے کہ میں ہونے والی نو شہادتیں حضرت صاحب کی تعبیر ہے جزاک اللہ تعالی ناظرین اکرام اس کے ساتھ ہی ہمارے آج کے اس ایپیسوڈ کے اختتام کا وقت ہوا چاہتا ہے کے اختتام میں خاکسار حضرت اقدس مسیح موعود علیہ الصلاۃ والسلام کا ایک اقتباس پیش کرے گا سیدنا حضرت اقدس مسیح موعود علیہ الصلاۃ والسلام فرماتے ہیں یہ عاجز تو محض اس غرض کے لیے بھیجا گیا ہے کہ تا یہ پیغام خلق اللہ کو پہنچاوے کہ تمام مذاہب موجودہ میں سے وہ مذہب حق پر اور خدا تعالی کی مرضی کے موافق ہے جو قرآن کریم لایا ہے اور دارال نجات میں داخل ہونے کے لیے دروازہ لا الہ الا اللہ محمد الرسول اللہ ہے جلد دو صفحہ ایک سو بتیس edition انیس سو پچاسی عیسوی مطبوعہ انگلستان ناظرین اس کے ساتھ ہی ہمارا آج کا یہ program اختتام پذیر ہوتا ہے انشاءاللہ تعالی اگلے episode میں اسی موضوع پر بات چیت کو آگے بڑھائیں گے اجازت دیجیے السلام علیکم ورحمتہ اللہ وبرکاتہ کے یہی نور خدا پا گے لو تمہیں کا بتایا ۔ لوگوں کے یہیں خدا

Leave a Reply