Ahmadi Muslim VideoTube Rahe Huda Rahe Huda 07 01 2023

Rahe Huda 07 01 2023



Rahe Huda 07 01 2023

Rahe Huda 07 01 2023

اسلام سے نہ بھا راہ خدا ایسا جا شمس السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ جی ہاں یہ program راہ ہدا ہے جو آج سات جنوری سن دو ہزار تئیس کو ہفتہ کے دن آپ کی خدمت میں ایم ٹی international کے لندن سٹوڈیو سے براہ راست پیش کیا جا رہا ہے یہ آپ کا ہے جس میں بنیادی طور پر ہم جماعت احمدیہ مسلمہ کے عقائد کے بارے میں گفتگو کرتے ہیں یہ آپ کا program ہے اس سے مراد یہ ہے کہ ہم فوقیت دیتے ہیں کہ آپ جماعت احمدیہ کے عقائد کے بارے میں جو کوئی بھی سوال پوچھنا چاہیں ہم اپنے علماء کے panel کے سامنے اس کو پیش کرتے ہیں اور آپ کے سوال کا جواب حاصل کرتے ہیں وہ ناظرین و سامعین جو اس program میں اپنا سوال شامل کرنا چاہیں دو ذرائع ہیں آپ ان کو اس program کے دوران سکرین پر بھی دیکھتے رہیں گے اور ضرور ان کو نوٹ بھی کریں ایک ہمارا واٹس ایپ نمبر ہے جو آپ کو اس وقت سکرین پر نظر آ رہا ہوگا اگر آپ نے اپنا voice message کے ذریعے سوال بھیجنا ہے یا تحریری سوال بھیجنا ہے تو ہمارا واٹس ایپ نمبر ضرور نوٹ کر لیں لیکن اگر آپ براہ راست اس program میں ہم سے بات کرنا چاہتے ہیں اور ضرور ہم سے بات کریں تو پھر اس کے لیے آپ ہمارا لینڈ لائن نمبر ضرور نوٹ کر لیں یہ program اگلے تقریبا ستاون منٹ تک جاری رہے گا گزشتہ چند پروگراموں سے جس موضوع پہ ہم گفتگو کر رہے ہیں وہ ہے ختم نبوت کا موضوع ہم اس موضوع کا اعادہ کر رہے ہیں کیونکہ خاکسار کو نہیں لگتا کہ جماعت احمدیہ کے عقائد کے بارے میں کوئی بھی ایسا موضوع رہ گیا ہو جس کے بارے میں ہم نے گفتگو نہ کی ہو ہمیں آپ کے سوالات کا انتظار رہے گا آج کے program کا آغاز کرتے ہیں سب سے پہلے اپنے مہمانوں سے آپ کا تعارف کرواتا ہوں یہاں سٹوڈیو میں خاکسار کے ساتھ موجود ہیں مکرم منصور احمد ضیاء صاحب جبکہ انشاءاللہ نشریاتی رابطے کے ذریعے غنا کے ساتھ گانا سے ہمارے ساتھ ہوں گے بلکہ ساتھ ہیں ساجد محمود بوٹر صاحب آپ دونوں کو میں خوش آمدید کہتا ہوں ساجد صاحب ہم جو گفتگو کر رہے ہیں وہ ہم کر رہے ہیں ختم نبوت کے بارے میں ہم نے قرآن کریم سے ختم نبوت کے بارے میں آگاہی حاصل کی احادیث نبوی صلی اللہ علیہ وسلم سے آگاہی حاصل کی گو یہ معاملہ جو سوال میں آپ کے سامنے رکھنا چاہتا ہوں اس کا براہ راست تعلق تو ہمارے ان لوگوں سے ہے ان مسلمانوں سے ہے جو جماعت احمدیہ کے عقیدے کے برعکس عقیدہ رکھتے ہیں لیکن میں چاہوں گا کہ آپ اس موضوع پر بھی ضرور گفتگو کریں اور اس بارے میں بھی وضاحت کریں دیکھیں جماعت احمدیہ کا عقیدہ یہ ہے کہ حضرت مرزا غلام احمد قادیانی علیہ الصلاۃ والسلام کی سے آپ کی نبوت سے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی ختم نبوت پہ کوئی حرف نہیں آتا جبکہ مخالفین احمدیت جو دیگر مسلمانان ہیں وہ یہ عقیدہ رکھتے ہیں کہ حضرت عیسی علیہ الصلاۃ والسلام جو ہیں وہ بطور امتی اس زمانے میں تشریف لائیں گے اور گویا وہ وہ کام کریں گے جو مرزا غلام احمد قادیانی علیہ الصلاۃ والسلام نے کیا کر رہے ہیں تو آپ ذرا اس یہ بتائیں کہ کیا حضرت عیسی علیہ السلام اگر دوبارہ تشریف لاتے ہیں تو کیا اس سے ختم نبوت پہ حرف نہیں آئے گا? یا آئے گا? میں چاہوں گا واضح کریں اس معاملے کو اس موضوع کو جی پلیز ساجد صاحب.

00:04:34

جی جزاک اللہ برہان صاحب اصل میں جو جماعت احمدیہ کا علم کلام ہے اس کے ٹھوس اور مضبوط دلائل کو مدنظر رکھتے ہوئے غیر احمدی ہمارے بھائیوں کو بعض اپنے عقائد جو ہیں خلاف اسلام بنانا پڑے ہیں اور ان میں سے ایک عقیدہ جو ہے اس لحاظ سے ختم نبوت کا یہ والا پہلو ہے مثلا اس میں جب جماعت احمدیہ یہ دلیل دیتی ہے کہ آپ کہہ رہے ہیں کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سب سے آخری نبی ہیں آپ کے بعد کسی قسم کا اور کوئی نبی نہیں آئے گا اور ہم ان کی یہ پیش کرتے ہیں کہ اگر واقعی آپ آخری نبی ہیں زمانے کے لحاظ سے اور آپ کے بعد کسی اور نبی نے نہیں آنا تو آپ خود حضرت عیسی علیہ الصلاۃ والسلام نبی اللہ کے جو ہیں وہ منتظر ہیں ان کا انتظار کر رہے ہیں تو یا آپ آخری نبی والا معنی جو ہے وہ درست تسلیم کر لیں یا حضرت عیسی علیہ الصلاۃ والسلام کے آنے والا عقیدہ جو ہے اس کو درست تسلیم کر لیں کیونکہ یہ دونوں عقیدے جو ہیں وہ آپس میں متضاد ہیں تو اس پہ ایک طبقہ جو ہے وہ مسلمانوں کا وہ یہ کہتا ہے کہ حضرت عیسی علیہ صلاۃ آئیں گے تو سہی لیکن حضرت عیسی علیہ الصلاۃ والسلام امتی صرف ہوں گے آپ بطور نبی کے جو ہے وہ امت محمدیہ میں تشریف نہیں لائیں گے اب اس بات پہ غور کریں کہ حضرت عیسی علیہ الصلاۃ والسلام آئیں گے صحیح لیکن آپ خدا تعالی کے نبی نہیں ہوں گے نعوذ باللہ تاریخ انبیاء دیکھ لیں ایک لاکھ چوبیس ہزار انبیاء آئے ہیں کسی نبی کے متعلق ہم نے یہ نہیں سنا کہ تیس سال یا چالیس سال یا پچاس سال تک وہ منصب نبوت پہ فائز رہا ہو اور اس کے بعد اللہ تعالی نے اس کو نبوت کے مقام سے جو ہے وہ گرا دیا ہو اور نبوت کا عہدہ جو ہے وہ اس سے چھین لیا ہو.

00:06:17

اور اس کے ساتھ سابق نبی کی اصطلاح جو ہے وہ استعمال ہونا شروع ہو گئی ہو. سابق وزیراعظم کا تو ہم سنتے ہیں. سابق صدر کا تو ہم سنتے ہیں. سابق گورنر کی اصطلاح تو استعمال ہوتی ہے. لیکن کبھی بھی مذاہب کی تاریخ میں آپ نے یہ نہیں سنا ہوگا کہ سابق نبی. کہ یہ پہلے نبی تھا لیکن اب جو ہے وہ نبی نہیں ہے.

00:06:39

نبی تو بھائی عمر کے لیے جو ہے وہ نبی ہوا کرتا ہے تو یہ عقیدہ یا یہ پہلو خدا تعالیٰ کی شان کے خلاف بھی ہے اور نبوت کی شان کے خلاف بھی ہے اس کو ایک اور پہلو سے دیکھیں آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے امت محمدیہ میں آنے والے وجود کو اگر مسیح نبی اللہ کہا ہے تو آنے والے مسیح کا مقام نبی اللہ کہا ہے اگر آپ نے امت محمدیہ میں آنے والے مسیح کو جو خادم اسلام مسیح ہے اس کا مقام ولی اللہ کا قرار دیا تو آپ ولی اللہ ہیں چنانچہ احادیث ہم دیکھتے ہیں تو سچی کیا ہمیں کوئی جھوٹی حدیث بھی ایسی نہیں ملتی جس میں آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے یا جو بات منسوب کی گئی ہو حضور کی طرف کہ مسیح آئے گا تو صحیح لیکن نبی نہیں ہو گا کوئی موضوع حدیث کوئی ضعیف حدیث کوئی کمزور حدیث کسی قسم کی ایسی نہیں ملتی جس میں یہ امر ذکر ہو کہ حضرت عیسی علیہ الصلاۃ والسلام آئیں گے امت محمدیہ میں لیکن نبی نہیں ہوں گے اس کے بالمقابل جہاں بھی آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے مسیح کا مقام بیان کیا ہے نبی اللہ کا مقام بیان کیا ہے چنانچہ صحیح مسلم جو سہائے ستہ میں ہے اور بخاری کے بعد اس کا مقام اور مرتبہ ہے ایک ہی حدیث میں آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے خادم اسلام مسیح کو چار دفعہ نبی اللہ کہا ہے کہ مسیح نبی اللہ آئے گا مسیح نبی اللہ آئے گا ایک ہی حدیث میں چار دفعہ فرمایا ابو داؤد کی حدیث میں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ کہ میرے اور آنے والے مسیح موعود کے درمیان اور کوئی نبی نہیں ہوگا۔ تو گویا میں بھی نبی ہوں اور آنے والا جو خدمت اسلام کے لیے آنے والا مسیح ہے اس کا مقام بھی جو ہے وہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نبی فرمایا ہے۔ پھر ایک اور پہلو سے اس کو دیکھتے ہیں۔ قرآن کریم ابدی شریعت ہے قیامت تک یہ شریعت محفوظ رہے گی اور اسی پہ عمل رہا ہو۔ اسی پہ مسلمان عمل کریں گے۔ بالفرض غیر احمدیوں کے عقیدے کے مطابق حضرت عیسی علیہ الصلاۃ والسلام آجاتے ہیں اور آکے وہ تمام لوگوں کو یہ بتاتے ہیں کہ میں ہوں تو وہی عیسیٰ لیکن میں نبی اللہ نہیں ہوں دوسری طرف مسلمان قرآن پڑھیں گے قرآن میں کیا لکھا ہوا ہے فرمایا مسیح ابن مریم اس کا مقام کیا ہے وہ تو صرف ایک رسول ہے ایک اور جگہ پہ حضرت عیسی علیہ الصلاۃ والسلام کی زبان سے ہی اللہ تعالی نے یہ کہلوایا کہ میرے خدا نے جو ہے وہ مجھے مقام نبوت عطا کیا ہوا ہے میرے خدا نے مجھے نبی قرار دیا ہوا ہے چنانچہ جب قرآن پڑھیں گے وہ کہے گی کہ عیسی نبی اللہ ہے جب عیسیٰ علیہ الصلاۃ والسلام اعلان کریں گے وہ وہ کہیں گے میں نبی اللہ نہیں ہوں اب کس کی بات کو درست تسلیم کریں یا حضرت عیسی علیہ الصلاۃ والسلام کی بات کو یا قرآن کریم کی بات کو دونوں چیزیں جو ہیں وہ آپس میں متضاد ہیں تو یہ چیز بنیادی کہ حضرت عیسی علیہ الصلاۃ والسلام آئیں گے اور آپ نبی اللہ نہیں ہوں گے یہ شان نبوت کے خلاف عقیدہ ہے یہ قرآن کریم کے خلاف عقیدہ ہے یہ احادیث مبارکہ کے خلاف عقیدہ ہے اور عقل کے عقیدہ ہے اسی لیے امت محمدیہ کے جو سابقہ بزرگان ہیں انہوں نے بھی اس بات کو بڑی وضاحت سے بیان کیا ہے کہ جب حضرت عیسی علیہ الصلاۃ والسلام آئیں گے تو وہ خدا تعالی کی طرف سے مقام نبوت پر فائز ہوں گے چنانچہ حضرت محی الدین ابن عربی رحمۃ اللہ علیہ چھ سو اڑتیس ہجری جو ہے وہ ان کا زمانہ ہے انہوں نے اپنی کتاب فتوحات مکیہ میں یہ لکھا ہوا ہے کہ عیسی علیہ السلام من غیر تشریف بلا شک کہ عیسی علیہ الصلاۃ والسلام ہم میں آئیں گے لیکن نئی شریعت لے کر نہیں آئیں گے لیکن بلاشبہ بلا مبالغہ اس میں کوئی شک نہیں ہے کہ وہ خدا تعالی کی طرف سے نبی ہوں گے تو یہ تمام امور جو ہیں وہ ہماری رہنمائی کر رہے ہیں کہ حضرت عیسی علیہ الصلاۃ والسلام آئیں گے لیکن آپ کا مقام جو ہے وہ نبوت والا ہو گا اب کون سے عیسی ہوں گے بنی اسرائیل والے ہم کہہ رہے ہیں کہ وہ فوت ہو گئے ہیں ان کے مسیل جو ہیں وہ اسی امت محمدیہ میں آئیں گے اور سارے ہیں آنے والے موت کو مسیح نبی اللہ کے نام سے یاد کر رہے ہیں۔ بہت شکریہ ساجد صاحب ناظرین اکرام جس طرح ساجد صاحب نے اس موضوع کو بہت واضح طور پہ آپ کے سامنے پیش کر دیا ہے اگر آپ کا تعلق جماعت احمدیہ سے ہے اور کبھی اسی دوست یا کسی بھائی سے آپ کی اس موضوع پہ بات ہوتی ہے تو اس کے سامنے کھل کے آپ جماعت احمدیہ کا موقف پیش کریں۔ اور اس کو یہ بتائیں۔ کہ حضرت بانی جماعت احمدیہ جو بات بیان فرما رہے ہیں وہ نا صرف دلائل پہ بنیاد رکھتے ہوئے حوالوں پہ بنیاد رکھتے ہوئے قرآن و حدیث کے مطابق بلکہ عقل کے بھی مطابق ہے جب کہ اس کے خلاف جو عقیدہ پیش کیا جاتا ہے وہ نہ صرف یہ کہ قرآن و حدیث کے خلاف ہے بلکہ عقل کے بھی خلاف ہے محترم منصور ضیاء صاحب دیکھیں ہم نے عمومی طور پہ تو اس موضوع پہ کافی گفتگو کی ہے مختلف پہلوؤں سے اب میں چاہ رہا ہوں کہ ایک طرف ہمیں سوالات بھی موصول ہو رہے ہیں لیکن چند باتیں جو بڑی بنیادی حیثیت کی باتیں ہیں ان پہ بھی گفتگو کر لیں مثلا ہمارے مخالفین جو ہیں وہ ایک حدیث پیش کرتے ہیں جو ابو داؤد میں بیان کی گئی ہے حدیث کی مشہور کتاب ہے اس میں ذکر ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ میرے بعد تیس جھوٹے مدعیان نبوت آئیں گے جب کہ میں خاتم النبین ہوں اور میرے بعد کوئی نبی نہیں ہے اب اس حدیث سے تو صاف پتہ لگ گیا کہ کسی نبی نے نہیں آنا تو پھر اس حدیث کے ہوتے ہوئے حضرت بانی جماعت احمدی کا دعوی کس طرح درست ہے جی جزاک اللہ عمران صاحب بہت شکریہ دیکھیں بات والی یہ ہے کہ جب ہم نے احادیث کے حوالے سے کسی بھی قسم کا کوئی موقف لینا ہے تو سب سے پہلے ہم یہ دیکھیں گے کہ کیا اس مضمون سے متعلقہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی صرف چند ایک احادیث ہی ہیں یا اس کے علاوہ کوئی اور حدیث بھی ہے اور پھر ان کا اجتماعی رنگ میں اس کو ہم ایک نتیجہ نکالیں گے اور اجتماعی رنگ میں اس سے ہم وہ مضمون اخذ کریں گے اب اگر یہ مضمون اخذ کیا جائے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد کوئی نبی نہیں یہ مضمون اخذ کیا جائے کہ جو نبی بھی آئے گا وہ جھوٹا نبی ہوگا تو یہ مضمون اور یہ نتیجہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی دوسری دیگر جو بیان فرمودہ احادیث ہیں ان کے ساتھ ٹکراتا ہے تو ہم اس اس نتیجے کو کیسے درست قرار دے سکتے ہیں آپ نے فرمایا کہ میرے اور اس کے درمیان کوئی نبی نبی نہیں بالکل ٹھیک اور وہ ضرور نازل ہوگا دوسری جگہ فرمایا کہ کہ کیا حالت ہوگی تمہاری اس وقت جبکہ مسیح ابن مریم نازل ہوگا بطور نبی اللہ کے اس کی وضاحت بھی آ چکی وہ نازل ہوگا اور تم میں تم ہی میں سے تمہارا امام ہوگا ایک جگہ فرماتے ہیں چار مرتبہ حضرت عیسی علیہ السلام کو نبی اللہ کہہ کے کہ وہ نازل ہوں گے اور وہ آکے اس امت میں جو دجال آئے گا اس کا مقابلہ کریں گے جگہ فرماتے ہیں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم بڑے واضح انداز میں کہ دیکھو جو بھی نبی آئے گا وہ نبی آ کر امت کی اصلاح کرے گا اب یہ دیکھیں کہ ایک طرف یہ پیش گوئی موجود ہے کہ امت میں نبی کی ضرورت موجود ہے امت میری گمراہ ہو گی فرمایا کہ یہود سے مشابہت اختیار کر کے تو بہتر کی بجائے وہ تہتر فرقوں میں but جائے گی اور اسی طرح مشابہت اختیار کریں گے جیسے ایک جوتی دوسری جوتی کے ساتھ کرتی ہے اسلام کا صرف نام باقی رہ جائے گا تو یہ تمام چیزیں جب ہم تو ہم اس نتیجے پر پہنچتے ہیں کہ ایک طرف آپ نے امت کے بگاڑ کی خبر دی اور دوسری طرف اس کی اصلاح کے لیے آنے والے نبی اللہ کی بھی خبر دی کہ وہ نبی بھی آئے گا اس لیے اگر ہم اس حدیث سے یہ نتیجہ نکالنا شروع کریں کہ آپ کے بعد کوئی نبی نہیں اور جھوٹا ہی نبی آئیں گے تو یہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی شان کے خلاف ہے آپ کی دیگر احادیث کے خلاف ہے قرآن کریم کی کے خلاف ہے اب دیکھیں اس بات پہ ذرا غور کریں کہ اگر یہ کہا جائے کہ اس امت میں فتنے پیدا ہوں گے لیکن جو بھی آئے گا اس فتنوں کو دور کرنے والا نہیں آئے گا بلکہ جھوٹے نبی تیس جھوٹے نبی آجائیں گے ایک بھی سچا نہیں آئے گا عجیب بات ہے یہ عجیب نتیجہ ہے اب اس امت کے بارے میں اللہ تعالی فرماتا ہے کہ تم وہ بہترین امت ہو کہ جو لوگوں کے لیے بنائی گئی لوگوں کے لیے پیدا کی گئی اور تم سب سے بہترین امت ہو دیگر امتوں سے اب اگر دیگر امتوں میں نبی ہوئے دیگر میں جب کوئی بگاڑ پیدا ہوا تو ہم قرآن کریم سے دیکھتے ہیں کہ حضرت موسیٰ علیہ السلام کی امت میں بگاڑ بگاڑ پیدا ہوا تو اس کی اصلاح کے لیے نبی آئے تو کیا یہ ایک ایسی امت مرحومہ ہے کہ جس کے جس میں بگاڑ پیدا ہونے کا ذکر تو ملتا ہے لیکن اس کی اصلاح کے لیے کسی نبی اللہ کے آنے کا ذکر نہیں ملتا اور جو بھی آئے گا وہ نعوذ باللہ من ذالک اس حدیث کے مطابق اگر ہم اس کا یہی مطلب لیں تو وہ جھوٹا ہو گا ایسا ہرگز نہیں ہے بلکہ اس اس امت ساتھ بھی اللہ تعالی نے وعدہ فرمایا کہ لازما جو ہے نبی آئیں گے اور نبی آئے گا اور اس کی اصلاح کے لیے آئے گا اور اس کے لیے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی جو وہ حدیث ہے جو میں نے شروع میں میں عرض کی کہ اگر ہم اس کو دیکھیں تو گویا کہ اس حدیث کی تشریح اس رنگ میں کی جائے گی کہ میرے اور اس کے درمیان کوئی نبی نہیں اور اس سے پہلے اگر کسی جھوٹے نبی نے آنا ہوا تو ممکن ہے ان سے پہلے لوگ یا ان کے قریب قریب جھوٹے جھوٹا نبی ہونے تو اس میں کوئی مطلب یہ پیشگوئی اس رنگ میں پوری ہوئی اور عجیب بات یہ ہے کہ جو لوگ یہ کہتے ہیں کہ یہ امت میں صرف جھوٹے نبی آ سکتے ہیں وہ مسلم کی جو جہاں پہ جو شرح اس کی بیان کی ہوئی ہے وہ شرح ہی نہیں دیکھتے شرح میں بڑا واضح لکھا ہے میں وہ ذکر کر دیتا ہوں جی سر اقمال الاکمال مسلم کی شرح ہے جی ان کے جو لکھنے والے ہیں وہ آٹھ سو اٹھائیس ہجری میں فوت ہو چکے تھے ٹھیک انہوں نے گویا حضرت وسیم اسلم سے آنے سے چار سو سال پہلے فوت ہو گئے یہ بڑا واضح لکھتے ہیں اس حدیث کے اوپر تبصرہ کرتے ہوئے کہتے ہیں اس حدیث کی سچائی ظاہر ہو چکی صلی اللہ علیہ وسلم کہ اگر آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم سے آج تک جھوٹے نبوت جو جو جھوٹے دعویدار ہیں نبوت کے ان کو اگر ہم ان کی تعداد کو گنیں تو کہتے ہیں اب تک وہ عدد ہو چکا بالکل ٹھیک اور یہ تعداد پوری ہو چکی اور آگے کہتے ہیں تاریخ جو تاریخ دان ہیں وہ ان کو جان لیں گے تو گویا حضرت مسیح موعود علیہ الصلاۃ والسلام سے چار سو سال پہلے تک اس حدیث کی سچائی اگر ان کے بارے میں یہی مانا جائے کہ تیس جھوٹے نبی پیدا ہوں گے تو حضرت مسیح موعود علیہ الصلاۃ والسلام سے پہلے پیدا ہو گئے اب اس کو حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے بارے میں کیسے چسپاں کیا جا سکتا ہے نعوذ باللہ من ذالک اور جو حکم عدل ہو کر آئیں گے اور جن کی سچائی آج اتنی عیاں ہے اتنی عیاں ہیں کہ اللہ کے فضل سے پوری دنیا میں وہ message پہنچ چکا بڑی واضح دلائل موجود ہیں میں تیری تبلیغ کو زمین کے کناروں تک پہنچاؤں گا یہ ایک چھوٹی سی پیشگوئی تھی اور اللہ تعالی نے وہ پیش گوئی اس رنگ میں پوری کی کہ آج ہم اس بات کے گواہ ہیں آج ہم جو یہاں بیٹھے ہیں ہم سب اس بات کو کہ گویا کہ گواہ بن چکے کہ حضرت مسیح کو جو خدا تعالی نے باتیں بتائیں وہ اسی طرح من و عن پوری ہو رہی ہیں بالکل بالکل ٹھیک سچے بالکل جس طرح آپ نے بیان کیا دیکھیں احادیث کو ہم نے مکمل طور پہ سمجھنا ہے نا کہ ہمارے آقا و مولا حضرت محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وسلم ہماری رہنمائی فرما رہے تھے آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس بات کا بھی ذکر کیا کہ جھوٹے دعویدار بھی ہوں گے اور تاریخ میں ہم نے دیکھا ہے جس کا آپ نے حوالہ بھی پیش کیا وہاں پہ بھی یہ بات ثابت ہو گئی لیکن پھر ساتھ ہی ساتھ دیگر احادیث میں آنے والے اس سچے موعود کا بھی ذکر ہے تو اس کو بھی جاننا اور پہچاننا ضروری ہے جس کا ہم یہاں پہ ذکر کر رہے ہیں ناظرین کرام آپ کی طرف سے سوالات کا سلسلہ شروع ہو چکا ہے عارف الزمان صاحب کا بھی نام سکرین پر ہے مبشر قریشی صاحب کا بھی ظفر محمود آپ احمد صاحب کا بھی اور شیخ مبارک احمد صاحب کا بھی آپ کے سوالات اس program میں شامل کرتے ہیں آپ ضرور ہمارے ساتھ رہیں لیکن دیگر ناظرین اگر آپ بھی سوال کرنا چاہیں تو ضرور سوال کریں میں بات کرنا چاہوں گا ساجد محمود صاحب سے ساجد صاحب کیا آپ کو میری آواز رہی ہے جی ساجد صاحب ساجد صاحب آپ کے سامنے میں عارف الزمان صاحب کا سوال آ رہی ہے آپ کی جی بہت شکریہ میں چاہوں گا کہ مختصر وقت میں جس طرح آپ جواب دینا چاہیں ضرور دیں عارف الزمان صاحب بنگلہ دیش سے پوچھنا چاہ رہے ہیں مسند احمد بن حنبل کی ایک حدیث میں ذکر ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ میں اس وقت سے خاتم النبین ہوں جب سے کہ آدم علیہ السلام کیچڑ میں پیدائش کی حالت تھے اس سے کیا مراد ہے اس حدیث سے کیا مراد ہے جی ساجد صاحب جی جی جزاک اللہ اس میں ایک تو جو ہمارے غیر احمدی بھائیوں کا جو مطلب ہے خاتم النبیین کا کہ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم زمانے کے لحاظ سے سب سے آخری نبی ہیں یہ حدیث اس نظریے کی تردید کر رہی ہے چونکہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم فرما رہے ہیں کہ میں تو خاتم النبین اس وقت بھی تھا جب کہ حضرت آدم علیہ الصلاۃ والسلام کی پیدائش ہی نہیں ہوئی تھی اگر خاتم کا ترجمہ زمانے کے لحاظ سے سب سے آخری نبی ہے تو گویا حضرت آدم کے بعد تو ایک لاکھ چوبیس ہزار انبیاء آئے ہیں وہ پھر کیسے آ گئے ہیں اگر رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم زمانے کے لحاظ سے آخری نبی ہیں تو اس حدیث نے ہماری بڑی سادگی کے ساتھ رہنمائی یہ کر دی بڑی وضاحت کے ساتھ کہ خاتم النبین کا ترجمہ جو ہے وہ زمانے کے لحاظ سے آخری نبی نہیں ہے پھر مطلب کیا ہے مطلب یہ ہے کہ خدا تعالی نے دنیا میں انسانوں کی رہنمائی کے لیے انسانوں کی ہدایت کے لیے جو چنیدہ بندے ہیں اپنے انبیاء وہ بھیجنے تھے ان انبیاء میں سے جو سب سے نبی تھا سب سے عظیم الشان نبی اور سب سے افضل نبی وہ ہمارے آقا و مولا حضرت اقدس محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وسلم تھے تو گویا خدا تعالیٰ نے جو ایک تقدیر لکھی ہوئی تھی کہ اس اس طرح میں نے انبیاء بھجوانے ہیں جہاں جہاں مجھے ضرورت پڑی اور انبیاء میں سے جو chief of the prophet ہوگا جو master of the prophet ہوگا سب انبیاء سے اعلی سب انبیاء سے افضل وہ مکہ کے رہنے والے ہمارے آقا و مولا حضرت اقدس محمد مصطفیٰ صلی اللہ علیہ وآلہ ہوں گے۔ اسی لیے ایک اور حدیث میں اللہ تعالی نے یہ مضمون بیان فرمایا کہ کہ اے محمد اگر تو نہ ہوتا تو میں یہ زمین و آسمان پیدا ہی نہ کرتا۔ تو رسول اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم وجہ تخلیق کائنات ہیں۔ ساجد صاحب منصور ضیاء صاحب اگلا سوال لیتے ہیں سوالات کیونکہ آ رہے ہیں تو میں چاہتا ہوں کہ ہم انہی پہ زیادہ وقت لگائیں مبشر قریشی صاحب برطانیہ سے پوچھ رہے ہیں جماعت احمدیہ کی طرف سے جب امکان نبوت آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد پیش کی جاتی ہے تو غیر احمدی احباب ترمذی کی ایک حدیث پیش کرتے ہیں جس کا مفہوم یہ ہے کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں اگر میرے بعد کوئی نبی ہوتا تو عمر بن خطاب ہوتے یہ حدیث پیش کر کے غیر احمدی کہتے ہیں.

00:22:42

حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد نبوت ختم ہے. حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد کوئی نبی نہیں آ سکتا. برائے مہربانی اس حدیث کی وضاحت کر دیں. جی جزاک اللہ پھر میں وہی عرض کروں گا کہ دیکھیں سب سے پہلے کوئی حدیث کا ایسا مفہوم جو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی دیگر احادیث کے خلاف ہو. ہم اس مفہوم سے وہ نتیجہ اخذ نہیں کر سکتے.

00:23:06

جو آہ مضبوط احادیث کے خلاف اب اس حدیث کے بارے میں ہم دیکھتے ہیں کہ اس کے متعلق علماء نے کیا لکھا ہے یہ حدیث ترمذی آ کتاب المناقب مناقب عمربن خطاب رضی اللہ تعالی عنہ وہاں پہ موجود ہے لکھا ہے اگر میرے بعد نبی ہوتا تو عمر رضی اللہ تعالی عنہ نبی ہوتے لیکن اس کے فورا بعد ہی لکھ دیا کہ یہ حدیث غریب ہے یعنی کہ یہ کمزور حدیث ہے اب اگر اس حدیث کو ہم باقی دیگر کیونکہ ہمارا جماعت احمدیہ کا ایک موقف یہ ہے اور حضرت مسیح نے اس کی طرف ہمیں توجہ بھی دلائی اور لازما فرمایا کہ سب سے پہلے اس حدیث کی تشریح دیگر کسی بھی حدیث کو آپ یہ نہ کہیں کہ یہ ضعیف ہے اور فورا اس کو ترک کر دیں بلکہ اس کی عزت کریں اور جس حد تک ہو سکتا ہے اس کی دیگر احادیث اور قرآن کریم کے مطابق کرنے کی کوشش کریں اور یہی ہم کرتے ہیں اس کی تطبیق کرنے کی کوشش کرتے ہیں چنانچہ اس حدیث کی اگر بھی کریں دیگر احادیث کے ساتھ تو اس کا مطلب یہ بنے گا کہ میرے فورا بعد نبی نہیں ہو سکتا کیونکہ اگر میرے فورا بعد بھی مثلا نبی آ نبوت جاری ہو تو وہ حضرت عمر رضی اللہ تعالی عنہ فورا بعد ان میں یہ qualities تھیں اور اس کی حدیث کی شرح ایک اور حدیث بھی کرتی ہے جو کمزور نہیں ہے چنانچہ فرمایا کہ اے عمر اگر میں نبی نہ ہوتا میں نبی مبعوث نہ کیا جاتا تو تجھے نبی بنا دیا جاتا گویا کہ زمانہ تو نبوت کا آ قائل اور مطالبہ کر رہا تھا نبوت کا کہ نبی ہونا چاہیے ان کی اصلاح کے لیے لیکن حضرت عمر رضی اللہ تعالی عنہ کے بارے میں فرمایا کہ ان میں وہ potentially وہ بلقوہ ان میں وہ qualities موجود ہیں کہ جو ایک نبی میں ہوتی ہیں اور چنانچہ ہم دیکھتے بھی ہیں کہ کئی قسم کی جو وحی تھی وہ حضرت عمر رضی اللہ تعالی عنہ کی آ جو ان کی ان کے خیالات تھے ان کی سوچ تھی ان کے مطابق نازل ہوئی مثلا امم جو اذان والا معاملہ بھی تھا اذان والا جو تھا وہ بھی حضرت عمر رضی اللہ تعالی عنہ کے بارے میں ہوا اس کے علاوہ یہ جو پردہ ازواج مطہرات کا جو پردے کا حکم اترا وہ بھی حضرت عمر رضی اللہ تعالی عنہ کے اس کے مطابق اترا پھر جنازہ پڑھنا تھا اور عبداللہ بن ابی بن سرول کا حضرت عمر رضی اللہ تعالی عنہ کی خدمت میں حاضر ہوئے اور عرض کیا کہ یا رسول اللہ ان کو بالکل بھی جنازہ ان کا نہ پڑھیں تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ دیکھو قرآن کریم نے مجھے یہ فرمایا ہے کہ اگر تم ان کے لیے مرتبہ استغفار کرو گے تو میں نہیں بخش تو تو یہ نہیں بخشے جائیں گے لیکن میں کوشش کروں گا میں ستر مرتبہ سے زیادہ دفعہ استغفار کروں جی ہاں لیکن بعد میں اللہ تعالی نے حضرت عمر رضی اللہ تعالی عنہ کی اس رائے کے مطابق جو وحی نازل کی اور فرمایا کہ کہ ان میں سے اگر کوئی فوت ہو جائے تو اس پر کبھی بھی ان کی نماز جنازہ ادا نہ کرنا منافقین کے بارے میں تو کہنے کا مطلب یہ ہے کہ ان کے اندر ایک ایک یہ صلاحیت موجود تھی ان کے اندر وہ نور نبوت کا حصہ موجود تھا اسی لیے فرمایا کہ اگر میں آ مبوث نہ ہوتا تو اے عمر تو مبعوث کیا جاتا تو اس حدیث کی تشریح ہم صرف یہی کر سکتے ہیں کہ حضرت عمر رضی اللہ تعالی عنہ میں وہ صلاحیتیں موجود تھی لیکن یہ جو ترجمہ ہے یہ جو حدیث ہے ان الفاظ کے ساتھ یہ حدیث جو علماء بتاتے ہیں کہ وہ غریب ہے کمزور ہے اور وہ قابل آ قبول نہیں ہے تو یعنی اختصار کے ساتھ صرف دو پہلو اس میں اہم ہیں ایک تو یہ کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم یہ بیان فرما رہے ہیں کہ فورا میرے بعد کوئی نبی نہیں ہوگا اور طرف حضرت عمر رضی اللہ عنہ کا وہاں مقام و مرتبہ گویا ان کے اندر جو اللہ تعالی نے صلاحیتیں ودیت کی گئی تھی ان کا ذکر ہو رہا ہے بہت شکریہ منصور صاحب ساجد صاحب کی طرف چلتے ہیں سوالات آ رہے ہیں ایک ایک کر کے سوالات پیش کرتے ہیں ساجد صاحب ظفر محمود احمد صاحب نے پاکستان سے دو سوالات بھیجے ہیں لیکن ان میں سے ایک سوال میں آپ کے سامنے پیش کرتا ہوں وہ کہتے ہیں مسلمانوں میں نبوت بند ہونے کا عقیدہ کیوں کر پیدا ہوا کیا فیضان نبوت کے جاری رہنے کے دلائل نہیں جی ساجد صاحب جی برہان صاحب جہاں تک قرآن کریم والا تعلق ہے کہ دلائل ہیں کہ نہیں میرا خیال ہے گزشتہ program میں بھی ہم نے چند آیات پیش کی تھیں صرف چند ایک میں دہرا دیتا ہوں قرآن کریم بڑی وضاحت سے اس امر کا ذکر کر رہا ہے کہ قیامت تک امت مسلمہ میں نبوت کا دروازہ کھلا ہوا ہے اللہ تعالیٰ جب چاہے گا جب چاہے گا جس زمانے میں چاہے گا جس علاقے میں چاہے گا جس بندے کو نبی بنانا چاہے گا اللہ تعالیٰ جو ہے وہ بنائے گا قرآن کریم میں سورۃ الحج کی آیت نمبر چھہتر ہے بہت سادہ الفاظ میں اللہ تعالی بڑی وضاحت سے یہ مضمون بیان فرما رہا ہے اللہ لوگوں میں سے بھی رسول چنے گا اللہ تعالی فرشتوں میں سے بھی رسول چنے گا اسی طرح سورۃ العراف کی آیت نمبر چھتیس ہے اللہ تعالی نے یہ مضمون بیان کیا حکم دیتے ہوئے کہ کہ اے ابنائے آدم جب بھی تمہارے پاس میری طرف سے نبی آئیں رسول آئیں تو جو انسان بھی تقویٰ اختیار کرے گا ایمان لانے کے بعد ایمان کے تقاضے پورے کرتے ہوئے متقی بنے گا اور اپنی نیت میں اصلاح کرے گا اور اپنے اعمال میں اصلاح پیدا کرے گا تو اس کا فائدہ اسے کیا ہوگا اس کو نہ ماضی کا کوئی خوف ہوگا نہ آئندہ آنے والے واقع اور مستقبل کا کسی قسم کا کوئی خوف ہوگا سورۃ جو نور ہے جو آیت استخلاف آیت نمبر چھپن ہے اس میں اللہ تعالی نے یہ مضمون بیان کیا کہ وہ لوگ جو ایمان لائے ہیں اور جو ان میں سے مناسب حال اعمال بجا لائیں گے اللہ تعالی نے ان سے وعدہ کیا ہے کیا وعدہ کیا ہے کہ ان کو زمین میں خلافت کا اسی طرح عظیم الشان انعام دے گا جیسا کہ مسلمانوں سے امتوں کو دیا ہے مسلمانوں سے پہلی امتوں کو کون سے نام ملے خلافت والے نمبر ایک وہ خلفاء جن کو خدا تعالیٰ نے نبی بنایا تھا جیسے حضرت آدم علیہ الصلاۃ والسلام نبی ہیں لیکن اللہ تعالی نے فرمایا کہ حضرت آدم کو خلیفہ قرار دیا حضرت داؤد علیہ الصلاۃ والسلام نبی ہیں اللہ تعالی نے فرمایا کہ اے داؤد ہم نے تجھے زمین میں خلیفہ بنایا ہے تو گویا جو پہلے کا انعام ملا وہ ایک صورت نبوت والی تھی قرآن کریم کی یہ آیت ہمیں بتا رہی ہے کہ ویسا ہی انعام جو ہے وہ امت محمدیہ میں ملے گا خلافت کی دوسری صورت وہ تھی کہ وہ خلیفہ تھے لیکن خدا تعالیٰ کی طرف سے نبی نہیں تھے جیسے حضرت موسیٰ علیہ الصلاۃ والسلام کے بعد آئے حضرت عیسیٰ علیہ الصلاۃ والسلام کے بعد خلافت کا سلسلہ جاری ہوا اسی طرح حضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد ہوا اور پھر حضرت اقدس مسیح موجود کے بعد بھی خلافت کا جاری ہوا جو نبی نہیں ہے تو دونوں قسم کی خلافت کے سلسلے جو ہے وہ قرآن کریم کی سورۃ آیت جو سورۃ نور ہے وہ بیان کر رہی ہے تو قرآن کریم کی یہ آیات بڑی وضاحت سے ہماری رہنمائی کر رہی ہیں کہ نبوت کا دروازہ جو ہے وہ قیامت تک کھلا ہوا ہے چنانچہ محی الدین ابن عربی رحمۃ اللہ ان کا ایک حوالہ میں نے پہلے پڑھا تھا چھ سو اڑتیس ہجری میں ان کی وفات ہوئی ہے ان کا یہ قول ہے جو نبوت ہے وہ جاری ہے قیامت تک امت محمدیہ میں فتوحات مکیہ میں حضرت محی الدین ابن عربی رحمۃ اللہ نے یہ والا مضمون بیان کیا ہوا ہے تو قرآن کریم ہماری اس بات کی طرف بڑی واضح رہنمائی کر رہا ہے جو پہلا حصہ ہے کہ پھر ختم نبوت کا یا نبوت بند ہونے کا عقیدہ پیدا کہاں سے ہوا ہے اصل بات یہ ہے امت محمدیہ کی اکثریت آج بھی خواہ وہ اہل تشیع ہیں خواہ وہ اہل سنت ہیں خواہ وہ اہل حدیث ہیں ان کی majority آج بھی مسیح خادم اسلام مسیح نبی اللہ کی منتظر ہے حضرت عیسیٰ علیہ الصلاۃ والسلام کا انتظار کر رہے ہیں تو نبوت کا دروازہ تو کھلا ہوا ہے خود یہ اکثریت جو ہے وہ مان رہے ہیں ہاں یہ نعرہ جو بلند کیا ہے وہ جماعت انبیاء کی مخالفت کی وجہ سے کیا ہے اور وجہ یہ ہے کہ اگر نبوت کا دروازہ کھولتے ہیں اور حضرت مسیح محمد علیہ الصلاۃ والسلام نے اعلان نبوت کیا ہے اور آپ معیار نبوت جو قرآن کریم نے بیان کیا ہے ان پہ سچے اتر رہے ہیں تو پھر ان کو ماننا پڑے گا جب مانیں گے تو علماء کے لیے نقصان کیا ہو گا ان کے اپنے مناسب جو ہیں وہ سجاتے جائیں ان کی کھوکھلی حالت جو اندر ایمان والی اور روحانیت والی ہے وہ عوام الناس کو پتہ چلے گی تو عوام جو علماء ہیں ہمیشہ ہر دور میں اپنے سچے نبی کا انکار کرتے رہے ہیں وجہ کیا کہ ان کی اپنی جاہ و عشمت میں جو ہے وہ فرق پڑتا ہے عوام کیوں انکار کرتے ہیں عوام اس لیے انکار کرتے ہیں کہ ان کو پتا ہے کہ نبی کو اگر مان لیا تو پھر اس کے احکام پر چلنا پڑے گا پھر قربانیاں دینی پڑیں گی پھر اپنے وقت کو خدا تعالی کی خاطر قربان کرنا پڑے گا اپنے اموال کو خدا تعالیٰ کی خاطر کرنا پڑے گا.

00:32:39

تو عوام کا ایک حصہ قربانیوں سے ڈرتا ہے. تو بجائے اپنا قصور سمجھنے کے وہ نعوذ باللہ خدا تعالی کی طرف یہ بات منسوب کر دیتے ہیں. کہ اب ہمیں کسی قسم کے نبی کی جو ہے وہ ضرورت نہیں ہے. نبوت کا دروازہ جو ہے وہ بند ہو چکا ہے. بہت شکریہ ساجد صاحب یہ بات بڑی واضح ہو گئی ہے. اور ہمارے ناظرین اور سامعین کو بھی یہ بات اچھی طرح سمجھ لینی چاہیے.

00:33:00

یہ تو اختلاف ہے ہی نہیں. کہ نبی نے نہیں آنا. اس پہ تو اتفاق ہے کہ نبی نے آنا ہے.

00:33:08

بس صرف ڈر اس بات کا ہے کہ حضرت مرزا غلام احمد قادیانی علیہ الصلاۃ والسلام کی سچائی کو اگر مان لیا گیا تو پھر اسلام کی حقیقی تعلیمات پر عمل پیرا ہونا پڑے گا اس لیے ہمارے مخالفین پتہ نہیں بزوم ہم کسے کہتے ہیں خیالی دنیا میں رہتے ہوئے اس پرانے عیسی ابن مریم کا انتظار کر رہے ہیں حالانکہ ایک طرف قرآن کریم اور دوسری طرف احادیث نبویہ ہماری یہ رہنمائی کرتی ہیں کہ آنے والے نے آنا ہے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی کامل اتباع اور کامل پیروی کے ساتھ ہی نبوت کا مقام و مرتبہ اس نے پانا ہے ایک بات کا ضرور ذکر کرنا چاہوں گا اگلے سوال پہ چلنے سے پہلے جماعت احمدیہ کے جو بھی عقائد ہیں ہم جو بھی باتیں کرتے ہیں یہ کوئی چھپی ہوئی چیزیں نہیں ہیں جماعت احمدیہ کی official ویب site ہے الاسلام dot آگ ہر تحقیق کرنے والے کے لیے یہ کھلا میدان ہے آپ ضرور ویب site پر جائیں اور جماعت احمدیہ کے عقائد کے بارے میں پڑھیں اور جب آپ کے کانوں تک یہ آواز پہنچ جائے کہ زمانے کا نبی وہی موعود جس کے بارے میں ہمارے آقا و مولا حضرت محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وسلم نے پیش گوئی فرمائی تھی وہ آ چکا ہے تو اس بارے میں تحقیق کرنا آپ کا فرض بنتا ہے منصور صاحب پہلے ہم نے ظفر محمود صاحب کے سوال کا جواب لیا ساجد صاحب سے آپ کے سامنے میں شیخ مبارک احمد صاحب کا سوال پیش کرنا چاہوں گا جنہوں نے ملائیشیا سے ہمیں اپنا یہ سوال بھیجا ہے وہ کہتے ہیں غیر احمدی مسلمان یہ کہتے ہیں کہ ختم نبوت کا مطلب یہ ہے کہ کوئی نیا نبی پیدا نہیں ہوگا بہرحال جس طرح لوگ بات کرتے ہیں اسی طرح وہ پیش کر رہے ہیں ہم نے پہلے بھی گفتگو کی ہے لیکن اب دوبارہ ان کے سوال کا جواب دیں جب کہ حضرت عیسی علیہ الصلاۃ والسلام کو نبوت پہلے دے دی گئی تھی لہذا اس سے ختم نبوت عقیدے کی خلاف ورزی نہیں ہوتی۔ برائے مہربانی ان کو وضاحت کر دیں۔ اس کا جواب دے دیں۔ دیکھیں بڑی عجیب بات ہے۔ کہ وہ یہ تو تسلیم کرتے ہیں کہ امت محمدیہ میں ایک نبی کے آنے کی ضرورت موجود ہے۔ امت محمدیہ میں بگاڑ ہو گا اور اس بگاڑ کی اصلاح کے لیے ایک نبی آئے گا لیکن وہ کہتے یہ ہیں کہ ایسا نبی آئے گا جو کہ گزشتہ امت کا ہے وہ نبی آئے گا جو جس کے بارے میں قرآن کریم فرماتا ہے رسول بنی اسرائیل کہ ہم نے اس کو بنی اسرائیل کی طرف رسول بنا کر بھیجا۔ تو جب امت میں خرابی پیدا ہو گی تو اس امت کو میں تو ایسا کوئی نہیں ہو گا اگر ہم اس کو درست مان لیں تو اس امت میں کوئی ایسا شخص نہیں ہو گا جو اس بگاڑ کی اصلاح پیدا کرے اس اس اصلاح کرے البتہ کرنا یہ پڑے گا کہ ہمیں ادھار لینا پڑے گا ایک شخص جو دوسری امت سے آ کے ہماری امت میں آ کے اصلاح کا کام کر سکے بڑا عجیب و غریب سا نظریہ ہے اور اس میں امت محمدیہ کی کوئی شان نہیں بلند ہو رہی آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی کوئی شان نہیں بلند ہو رہی بلکہ میں کمی آتی ہے مثلا آپ یہ دیکھیں عجیب سی بات ہے کہ کسی کے گھر میں کوئی ڈاکہ پڑے اور گھر میں کوئی مرد ہوں سب موجود ہوں لیکن کوئی مقابلہ کرنے والا نہ ہو تو ان کو ہمسایوں سے کوئی آ کے آ کے ان ڈاکوؤں کا مقابلہ کرے اور ان کو بھگا دے اور آخر میں جب وہ ڈاکو بھاگ جائیں اور اصلاح ہو جائے سب کچھ ٹھیک ہو جائے تو صبح وہ گھر والے اٹھ کے شور مچائیں دیکھیں جی ہم نے کیسا زبردست مقابلہ کیا اور ڈاکوؤں کو ہم نے مقابلہ کر کے بھگا دیا کیا وہ یہ کے میں حق بجانب ہوں گے کہ انہوں نے مقابلہ کیا انہوں نے تو کچھ نہیں کیا ساتھ والے ہمسایوں نے آکے help کی ہے اب اس امت کے بارے میں تو آ حضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے قرآن کریم فرماتا ہے کہ تم بہترین امت ہو خیر امت میں ایک شخص بھی ایسا نہیں جو اس بگاڑ کی اصلاح کے لیے آ سکے اور پھر اس امت سے نبی لیا جائے جس کے بارے میں قرآن کریم فرماتا ہے کہ رسول اللہ بنی اسرائیل کے بنی اسرائیل کی طرف رسول ہو گا تو یہ بنیادی بات نوٹ کرنے والی بات ہے اور پھر ایک اور نظریے سے نوٹ ایک ایک اور نظریے سے غور کریں کہ عیسی علیہ الصلاۃ والسلام جب آئیں گے اس امت میں پرانے نبی تو کیا اس سے ختم نبوت نہیں ٹوٹے گی آخر میں کون فوت ہو گا بالکل جس طرح آپ نے ذکر کیا آپ نے ڈاکے کا ذکر کیا نا تو مجھے یاد آ گیا ہمارے اوپر الزام لگایا جاتا ہے حضرت بانی جماعت احمدیہ کے حوالے سے کہ گویا ختم نبوت پر جماعت احمدیہ نے ڈاکہ ڈال دیا ہے حالانکہ جو نظریہ یہ بیان کر رہے ہیں وہ ڈاکہ ڈالنے والی بہت بہت شکریہ منصور صاحب اگلا سوال لے کر ساجد صاحب کی طرف جاؤں گا ساجد صاحب مختصرا اس سوال کا جواب ریحان جنجوعہ صاحب ہیں کراچی سے وہ سوال کر رہے ہیں ہمارے ایک غیر احمدی دوست کا سوال ہے کہ جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم آگئے تو اب کسی اور نبی کی کیا ضرورت ہے بار بار یہ سوال ہوتا ہے ہم بار بار اس کا جواب دیں گے ساجد صاحب جی جب رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم آگئے ہیں اگر آگے ہیں تو حضور کی برکات ہمیں کم ملیں گی حضور کی اطاعت اور فرمانبرداری کے نتیجے میں رسول اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اگر اس بات کو کافی سمجھتے کہ میں آ گیا ہوں اب قیامت تک کسی اور نبی کی ضرورت نہیں ہوگی تو رسول خدا صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کبھی بھی امت محمدیہ میں خادم اسلام مسیح نبی اللہ کی بشارت نہ دیتے تو آپ صلی اللہ وآلہ وسلم کے خاتم النبیین کہنے کے باوجود آپ کے آنے کے باوجود رسول اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا مسیح نبی اللہ کی بشارت دینا یہ ہماری رہنمائی کر رہا ہے کہ واقعی آئندہ زمانے میں نبی کی ضرورت ہوگی اور خدا تعالیٰ جو ہے وہ نبی بھیجے گا پھر صرف بشارت نہیں ہے آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اس حد تک اس مضمون کو بیان کیا ہے کہ آج چودہ سو سال گزر رہے ہیں چودہ سو سال سے زیادہ کا عرصہ ہو ہے لیکن اس کے باوجود آپ بھی آج بھی آپ کی طرف منصوب ہونے والے مسلمانوں کی اکثریت مسیح نبی اللہ کا انتظار کر رہے ہیں تو رسول اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا پیغام اپنی امت کو اس حد تک وضاحت کے ساتھ ابلاغ کے ساتھ پہنچانا کہ آج بھی چودہ سو سال سے زیادہ عرصہ گزرنے کے باوجود مسلمانوں کی اکثریت کا اس بات پہ متفق ہونا کہ مسیح نبی اللہ آئے گا یہ دل کی گواہی ہے کہ واقعی نبی کی جو ہے وہ ضرورت ہوگی آخری زمانے میں اور اس کے ذریعے سے جو ہے خدا تعالیٰ اسلام کا صحیح جو نقشہ ہے یا اسلام کا صحیح پیغام جو ہے وہ دنیا کے کناروں تک پہنچائے گا بہت بہت شکریہ ساجد محمود صاحب ناظرین اکرام آپ کے سوالات کا سلسلہ جاری ہے شیخ مبارک صاحب کے سوال ابھی ہم نے کیا تھا اس کے بعد ریحان جنجوعہ صاحب کا شیخ مبارک صاحب کا ایک اور سوال بھی موجود ہے ظفر محمود صاحب کا بھی لیکن اس وقت ہم بات کرتے ہیں خان صاحب سے جو مانچسٹر برطانیہ ہم سے بات کرنا چاہتے ہیں السلام علیکم خان صاحب وعلیکم السلام جی خان صاحب آپ کیا سوال کرنا چاہیں گے سوال میرا تھوڑا سا بڑا دلچسپ ہے اور interesting ہے نان احمدی اور احمدی ان کے درمیان پچھلے seventy three سال سے یہ argument چل رہا ہے کہ مرزا صاحب نے یہ کر دیا یہ کیا وہ کیا وہ کیا آپ کہتے ہیں کہ یار آپ ترجمہ غلط کرتے ہو ہم ٹھیک ہیں ان کو آنا چاہیے تھا یہ نبی اللہ ہے یہ بات ہے جی ایک تیسرا رخ بھی ہے جو نہ کبھی آپ نے دیکھا نہ مسلمانوں نے دیکھا اور نہ ہی اس پر خان صاحب اسلام علیکم خان صاحب خان صاحب میں آپ کے سوال کا منتظر ہوں میں آپ سوال پیش کر دیں یہ جو آپ باتیں اضافی بتا رہے ہیں یہ ہمارے علم میں ہیں تو آپ برائے مہربانی اپنا سوال پیش کر دیں جی please بات تو سن لیں میں آپ مرزا صاحب کہتے ہیں میں اپنی نبوت کا آغاز اس دعویٰ سے کر رہا اللہ کی قسم میں نے آپ کو وظیفہ بھیج دیا پڑھیں آپ کی کتاب سے حرمت جہاد اطاعت برطانیہ ہیں اور میرے پانچ اصول ہیں یہ دو اصول لکھے ہیں انہوں نے باقی اصول آپ کے سامنے table پر پڑھیں میں نے پورا صفحہ بھیج دیا آپ کو اگر تھوڑا سا خیال کریں اس جانب پوری story سمجھ جائیں گے خان صاحب خان صاحب میں معذرت چاہتا ہوں میں ابھی تک آپ کا سوال نہیں سمجھ سکا میں آپ سے کرتا ہوں کہ آپ اپنا سوال بیان کر دیں جی خان صاحب میں نے آپ کو اس کتاب کا حوالہ بھیجا ہے جو انگریزوں نے لکھی ہے ڈبلیو ڈبلیو خان صاحب خان صاحب دیکھیں آپ کا حوالہ مل گیا آپ مجھے یہ بتائیں کہ آپ اس حوالے پہ کرتے ہوئے سوال کیا کرنا چاہ رہے ہیں آپ اپنا سوال پیش کر دیں کیوں کہ دیکھیں جو آپ نے حوالہ مجھے بھیجا ہے وہ اس وقت نہ ناظرین کو نظر آ رہا ہے نہ ہمارے panel ممبران کو نظر آ رہا ہے یہاں تک کہ میرے پاس بھی نہیں ہے وہ یقینا ہمارے جو کال جہاں receive ہو رہی ہے وہاں ہوگا۔ تو آپ برائے مہربانی اپنا سوال پیش کریں۔ چلو سوال تو بڑا سادہ سا تھا بڑا شفاف تھا لیکن آپ کی سمجھ میں نہیں آیا کوئی بات نہیں خان صاحب ابھی تک آپ کا سوال ہی نہیں آیا ہے پورا پورا ٹائم پورا وقت حرمت کا ہاتھ اتا ہے کہ برطانیہ کے لیے وقف کر رکھا تھا یہ ہے میرا سوال منصور صاحب آپ سمجھ سکیں خان صاحب کا سوال مجھے واضح تو نہیں ہوا اتنا لیکن یہ کہ مجھے جو لگتا ہے وہ یہ پوچھ یہ کہنا چاہ رہے ہیں کہ گویا کہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلاۃ والسلام کی جو تمام تحریریں ہیں اور حضور نے جو تعریف کی ہے government انگریزی کی انگلش کی تو وہ تعریف جو ہے وہ گویا غلط کی ہے یا اس اس حوالے سے وہ کچھ کہنا چاہ رہے ہیں اور وہ کہنا چاہ رہے ہیں کہ صرف گویا کہ صرف اور صرف جہاد کے بھی انہوں نے ذکر کیا کہ حرمت جہاد ہے تو گویا کہ ایک اس حکم کو جو ہے منسوخ کرنے کی کوشش کی گئی تو بات یہ ہے خان صاحب کہ دیکھیں یہ جو حضرت مسیح موعود علیہ السلام کا جو نظریہ تھا کہ آج کل کے دور میں جہاد اس ان معنوں میں یعنی کہ کے حساب سے نہیں ہوگا یہ نظریہ کوئی ایسا نہیں ہے جو حضرت مسیح اسلم نے اپنی طرف سے پیش کر دیا قرآن کریم یہ کہتا ہے کہ قرآن کریم کے ذریعے سے جہاد کبیر اس کو جہاد کبیر قرار دیا کہ سب سے بڑا جہاد یہ ہے کہ قرآن کریم کے ذریعے سے جہاد کرو قرآن کریم کی تعلیمات پر عمل کرو قرآن کریم کی تعلیمات کو پھیلاؤ تو یہ جہاد ہے ایک موقع پہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم اپنے صحابہ کے ساتھ غزوہ سے واپس تشریف لا رہے تھے اور فرمایا آپ نے اس موقع پہ کہ ہم چھوٹے جہاد یعنی تلوار کے جہاد کو آپ نے چھوٹا جہاد قرار دیا ہم چھوٹے جہاد سے بڑے جہاد کی طرف آ رہے ہیں اور وہ بڑا جہاد کیا ہے صحابہ نے پوچھا کہ یا رسول اللہ بڑا جہاد کیا ہے تو فرمایا کہ کہ اپنے اپنی خواہشات سے اپنے نفس سے جو مجاہدہ کرنا ہے وہ ایک جہاد ہے جو انسان کا بہت مشکل ہے جو مستقل جاری و ساری ہے بالکل ٹھیک تو یہ حضرت مسیح محسن نے اگر کوئی نظریہ پیش کیا تو وہ نیا نہیں اور پھر احادیث کی طرف دیکھیں احادیث میں یہ خبر موجود ہے کہ مسیح کے زمانے میں جہاد گویا کہ ختم ہو جائے گا جو تلوار کا جہاد ہے وہ نہیں رہے گا کیونکہ اس کی وجہ یہ ہو گی کہ جو جو مخالفین اسلام ہوں گے انہوں نے اپنی روش چھوڑ دی ہو گی تلوار کے ذریعے فتح کرنے والی انہوں نے قلم کے ذریعے شروع کیے ہوں گے اور اسلام کو degrade کرنے کے لیے devalue کرنے کے لیے اعتراضات کے پلندے ہوں گے چنانچہ کتابیں لکھی گئیں دیکھیں اسلام کے خلاف امہات المومنین کتاب لکھی گئی جس میں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی تنقید کی گئی اور کئی طرح کے الزامات لگائے گئے ان کے جواب حضور نے پھر اپنے قلم سے دیے اور سلطان قلم کا خطاب پایا تو گویا یہ ایک حصہ تھا اب یہ کہ کیا government انگریزی کے خلاف اس زمانے میں جہاد جاری تھا کہ نہیں لوگ کہتے تھے کہ جہاد چونکہ یہ غیر اسلامی سلطنت ہے تو اس لیے جہاد ہونا چاہیے لیکن مزے کی بات یہ ہے کہ ان کے اپنے leader اس زمانے میں کھڑے ہو کے یہ اعلان کر رہے تھے کہ ہرگز جو ہے اس طرح کا نہیں آپ نے کرنا جہاد نہیں کرنا مثلا آ ابو الاعلی مودودی صاحب امیر جماعت اسلامی وہ لکھتے ہیں کہ ہندوستان اس وقت بلاشبہ دارالحرب تھا جب انگریزی حکومت یہاں اسلامی سلطنت کو مٹانے کی کوشش کر رہی تھی اس مسلمانوں کا فرض تھا کہ یا تو حفاظت میں اسلامی سلطنت کی حفاظت میں جانیں لڑا دیتے یا ہجرت کر دیتے لیکن جب وہ مغلوب ہو گئے انگریزی حکومت قائم ہو گئی اور مسلمانوں کو personal law کے مطابق آزادی کے ساتھ ان کے ان کے مذہب پر عمل کرنے کا موقع مل گیا تو لکھا ہے اب یہ ملک دارالحرب نہیں رہا اور یہ فتوی صرف اور صرف ان کا نہیں ہے بلکہ اس کے علاوہ کثرت سے اور بھی ملتے ہیں تو اس لیے یہ مسیح مسلم کے اوپر یہ الزام نہیں لگ سکتا کہ گویا کہ آپ نے جو ہے نا انگریز حکومت کی بالکل ٹھیک منصور صاحب آپ نے تو جو خان صاحب نے clues دیے تھے ان سے اندازہ لگا کے یہ جواب دے دیا ہے مجھے کال center سے بتایا جا رہا ہے کہ سب سے پہلی بات تو یہ ہے کہ خان صاحب نے ایک کسی کتاب کا ٹائٹل page بھیجا ہے اور جو حوالہ کوئی جس کا وہ ذکر کر رہے تھے وہ یہاں پہ موجود انہوں نے بھیجا ہی نہیں ہے دوسرا یہ کہ انہوں نے ہمیں یہ بتایا کہ وہ ختم نبوت کے بارے میں ایک آیت پیش کرنا چاہتے ہیں جس طرح گزشتہ program میں بھی ایک آیت پیش کی تھی لیکن خود اس آیت کا کیا مطلب ہے وہ وہ جاننا چاہتے تھے جو ہم نے ان کے سامنے پیش کیا دیکھیں بات اصل یہ ہے میں خان صاحب سے بھی اور دیگر محققین سے جو جماعت احمدیہ کے بارے میں جاننا چاہتے ہیں آپ یقینا بڑی محنت کے ساتھ ہمارے مخالفین کی کتاب سے ایک حوالہ وہ بھی آدھا کوئی نکال کر بغیر پڑھے ہمارے سامنے پیش کر رہے ہیں آپ ہماری بھی ایک دفعہ مانیں نا اگر آپ یہ جہاد کا موضوع سمجھنا چاہتے ہیں تو حضرت بانی جماعت احمدیہ حضرت مرزا غلام احمد قادیانی علیہ الصلاۃ والسلام کی کتاب ہے government انگریزی اور جہاد میں خان صاحب خاص طور پر آپ کی خدمت میں عرض کروں گا بہت مختصر سی کتاب ہے ایک دفعہ وقت نکال کر آپ اس کتاب کو اول سے آخر تک پڑھیں اور پھر میں آپ کو ضرور کہوں گا کہ آپ ہمارے اگلے کسی program میں ضرور آئیں اور اس کتاب کو سامنے رکھتے ہوئے اگر کوئی آپ کا اعتراض اول تو ہوگا نہیں لیکن اگر بنتا ہے پیش کریں لیکن یہ روش بہرحال درست نہیں ہے کہ کسی اور کا اٹھایا ہوا حوالہ جس کو آپ نے اصل سے چیک بھی نہیں کیا اور خود بھی اس کی سمجھ نہیں ہے اور آپ یہاں پیش کر رہے ہیں لیکن بہرحال میں آپ کا ممنون ہوں کہ آپ بڑی محنت کر کے اپنا سوال پیش کرتے ہیں جس سے بہرحال ہمارے دیگر ناظرین اور سامعین کو یقینا فائدہ ہوتا ہے اگر آپ کا کوئی اور سوال ہو تو ضرور ہمارے سامنے پیش کریں اگلا سوال لے کر میں ساجد صاحب کے پاس جانا چاہوں گا ساجد صاحب نیادی باتیں ہیں جن کا ذکر بہت ضروری ہے میں چاہوں گا اس موقع پر آپ کر دیں دیکھیں ہمارے غیر احمدی دوست ہیں وہ زور لگا رہے ہیں کہ کسی طرح نبوت کا دروازہ جو ہے اس کو بند کر دیں جبکہ دوسری طرف جماعت احمدیہ ہے جو اس بات کا ذکر کر رہی ہے کہ قرآن کریم اور احادیث کے مطابق نبی کا آنا تو بنتا ہے لیکن صرف اسی نبی کا جس کے بارے میں ہمارے آقا و مولا حضرت محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وسلم نے پیش گوئی فرمائی ہے تو میں آپ کے سامنے سوال یہ رکھنا چاہتا ہوں کیا یہ اور خیال واقعی قابل فخر ہے کہ نبوت بند ہوگئی یا پھر قابل فکر اور پریشانی ہے ساجد صاحب ہاں جی برہان صاحب جزاک اللہ اصل میں اس سوال پہ غور کرنے کی ضرورت ہے بڑے فخر سے علماء جو ہے وہ جماعت کی مخالفت میں یہ پیش کرتے ہیں کہ لو جی نبوت کا دروازہ بند اب نبی کوئی نہیں آ سکتا اب سوال یہ ہے بندش جو ہے وہ دو قسم کی ہوا کرتی ہے اچھی چیز کی بندش اور بری چیز کی بندش اگر کوئی بری چیز بند ہو جائے تو ہر انسان اس پہ فخر کرتا ہے ہر شریف انسان کو اس پہ خوشی ہوا کرتی ہے مثلا کہا جاتا ہے بند ہو گئی بھئی خوشی والی بات ہے اس پہ خوشی ہونی چاہیے کہا جائے گا کہ لو جی چوری بند ہو گئی فلاں علاقے سے بڑی خوشی والی بات ہے یہ کہا جائے گا کہ سمگلنگ بند ہو گئی اچھی بات ہے شراب بند ہو گئی بدکاری بند ہو گئی زنا بند ہو گیا corruption بند ہو گئی یہ ساری بری باتیں ہیں چنانچہ بری باتوں کی بندش سے دنیا کا ہر پڑھا لکھا انسان اور ہر صاحب عقل انسان اور ہر شریف انسان جو ہے وہ اس سے خوش ہوتا ہے اور اس پہ تسلی پاتا ہے لیکن اس کے قابل اگر کوئی اچھی چیز بند ہو جائے تو اچھی چیز کی بندش کی وجہ سے ہر انسان کو تکلیف ہوتی ہے وہ بات اس کے لیے باعث فخر نہیں ہوا کرتی وہ بات اس کے لیے باعث اطمینان اور باعث خوشی نہیں ہوا کرتی مثلا کہا جائے تعلیم بند ہو گئی سکول بند ہو گیا یونیورسٹی بند ہو گئی ہسپتال جو ہے وہ بند ہو گیا نظر انسان کی وہ بند ہو گئی اس میں ہے کوئی خوشی والی بات قوت سماعت انسان کی بند ہو گئی انسان کے سننے کے وہ بند ہو گئی اس میں کوئی ہے خوشی والی بات تو جتنی بھی اچھی چیزیں ہوں گی ان کی بندش سے انسان کو تکلیف پہنچے گی اب اس معیار کے مطابق دیکھ لیں کہ نبوت ہے کیا چیز بھائی اگر تو نبوت اچھی ہے تو پھر اس کی بندش کے نتیجے میں ہمارے لیے یہ خوشی والی بات ہی نہیں ہے ہمارے لیے یہ فخر والی بات ہی نہیں ہے نعوذ باللہ پھر آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے خود اپنے ہاتھ سے ایک اچھی چیز کا دروازہ بند کر دیا ہے ایک فیض تھا جاری تھا دنیا میں اور آپ نے آ کر جو ہے اس کو بند کر دیا نعوذ باللہ لیکن اگر نبوت چیز ہے نعوذ باللہ تو پھر اس پہ جو ہے وہ فخر ہونے والی بات ہے ہر مسلمان جانتا ہے کہ نبوت خدا تعالی کی طرف سے بہت بڑی رحمت ہے نبوت خدا تعالیٰ کی طرف سے بہت بڑی برکات لے کے آیا کرتی ہے نبوت خدا تعالیٰ کا بہت بڑا انعام ہے حضرت موسیٰ علیہ الصلاۃ والسلام اپنی قوم کو اس انعام کا بار بار ذکر کر رہے ہیں قرآن کریم اس کا حوالہ دے رہا ہے کہ اے میری قوم ان انعاموں کو یاد کرو جب اللہ تعالی نے تمہیں انبیاء بھیجے ہیں تو تو خدا تعالیٰ کا انعام ہے اب اگر یہ عقیدہ بنا لیا جائے کہ نعوذ باللہ یہ انعام یہ برکت یہ رحمت یہ فضل جو ہے وہ بند ہو گیا ہے تو یہ بات باعث فضیلت نہیں ہے یہ بات جو ہے وہ باعث فخر نہیں ہے اصل وجہ یہ ہے کہ ہمارے مسلمان بھائیوں نے فقرہ صرف سن لیا کہ نبی بند ہو گئے نبوت بند ہو گئی نبوت بند ہو گئی اس پہ غور کیا ہی نہیں ہے اگر غور کریں تو انسان کا دل انسان کا دماغ انسان کی فطرت اس بات کی گواہی دے گی کہ نبوت تو خدا تعالی کا بڑا جو ہے وہ فیض ہے نبوت خدا تعالیٰ کی بہت بڑی رحمت اور انعام ہے پھر یہ کہنا کہ یہ عقیدہ نبوت بند ہونے والا ختم نبوت کا یہ مانا بھائی آپ لوگ دنیا میں اکیلے نہیں ہو جن کا یہ عقیدہ ہے آج سے تقریبا ساڑھے تین ہزار سال پہلے جو حضرت یوسف علیہ الصلاۃ والسلام آئے ہیں ان کے زمانے میں جو ان کے مخالفین تھے ان کا بھی یہی عقیدہ تھا اور وہ بھی یہ سمجھ رہے تھے کہ اب جو ہے وہ خدا تعالیٰ جو ہے وہ دنیا میں کوئی نبی مبعوث جو ہے وہ نہیں کرے گا چنانچہ وہ حضرت علیہ الصلاۃ والسلام کا خدا تعالی نے ذکر کیا ہے کہ یوسف تمہارے پاس کھلے کھلے نشانات لے کے آیا تھا جب تک وہ رہا اس وقت تم شک میں مبتلا رہے جب حضرت یوسف علیہ السلام فوت ہو گئے تو تم نے یہ عقیدہ بنا لیا کہ اب اس کے بعد اللہ تعالی دنیا میں کبھی کوئی رسول مبعوث نہیں کرے گا کس کا عقیدہ ہے نبی کے مخالفین کا عقیدہ ہے آج جس عقیدے کو ختم نبوت کی غلط تشریح کر کے اپنے سینے سے چمٹائے ہوئے ہیں خدا تعالیٰ حضرت یوسف علیہ السلام کے زمانے کے مخالفین کا ذکر کر رہا ہے کہ یہ ان بدبختوں کا بھی یہ عقیدہ تھا کہ اب جو ہے حضرت یوسف کے بعد قیامت تک دنیا میں کوئی نبی نہیں آئے گا نہیں نبی آئے خدا تعالیٰ نے بے شمار انبیاء بھیجے ہیں تو نبوت خدا تعالیٰ کا انعام ہے نبوت خدا تعالیٰ کی برکت ہے نبوت خدا تعالیٰ کی طرف سے فضل ہے غیر معمولی رحمتوں کا جو ہے وہ مجبور کرتی ہے اور اس کا دروازہ جو ہے وہ قیامت تک خدا تعالیٰ کے فضل سے کھلا ہوا ہے بہت بہت شکریہ ساجد محمود صاحب ناظرین و سامعین ہمارے کالر خان صاحب ہمیں یہ پیغام بھیج رہے ہیں کہ میں احمدی ہو جاؤں گا اگر آپ لوگ کوئی european پیش کر دیں جس نے احمدیت قبول کی ہو خاص طور پر لندن میں کسی مسجد میں دکھا دیں نہایت ادب کے ساتھ خان صاحب کو میں دعوت دینا چاہوں گا کہ آپ ضرور ہماری مساجد میں تشریف لائیں اور خاص طور پر ایم ٹی اے international دیکھیں گاہے گاہے آپ کو european نظر آئیں گے کیونکہ آپ نے یورپ کا ذکر کیا تو ہمارے امیر جماعت احمدیہ جرمنی جو ہیں وہ جرمنی سے تعلق رکھتے کیا آپ کو وہ european نظر نہیں آتے? گائے گائے وہ ایم ٹی اے پہ نظر آتے رہتے ہیں.

00:55:00

اور بھی بے شمار نام ہیں. لیکن کیونکہ آپ نے یہ challenge دیا ہے کہ کوئی ایک آپ نے دکھانا ہے. تو میں ایک ملک کے جو جماعت احمدیہ کے امیر جماعتیں انہی کا آپ کے سامنے ذکر کر رہا ہوں. اب آپ کو بہرحال آمدیت قبول کر لینی چاہیے. لیکن بہرحال ہم اپنے program کا سلسلہ آگے بڑھاتے ہیں. منصور صاحب میں چاہوں گا آخر میں مختصرا.

00:55:22

حضرت بانی جماعت احمدیہ کے الفاظ میں ان کا دعویٰ نبوت ہے کیا؟ سب سے پہلے تو میں یہ عرض کر دوں کہ حضرت مسیحا اسلم نے اپنے بارے میں ایک اعلان کیا ہے کہ میں کیا یقین رکھتا ہوں۔ وہ میں اعلان آپ کے الفاظ میں ہی پڑھنا چاہوں گا۔ جی۔ حضرت مسیح علیہ السلام فرماتے ہیں مجھ کو خدا کی عزت و جلال کی قسم کہ میں مسلمان ہوں۔ اور ایمان رکھتا ہوں اللہ تعالی پر اور اس کی کتابوں پر اور تمام رسولوں اور تمام فرشتوں اور مرنے کے بعد زندہ کیے جانے پر اور میں ایمان ہوں اس پر کہ ہمارے رسول حضرت محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وسلم تمام رسولوں سے افضل اور خاتم النبین ہیں یہ وہ اعلان ہے جو حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے اپنی کتب میں اس سے ملتے جلتے الفاظ میں کثرت سے کیا ایک اور جگہ پہ آپ نے اپنی نبوت کا ذرا اظہار کرنے کے لیے کہ میں کن معنوں میں نبی ہوں اس حوالے سے اپنی وفات سے تین دن پہلے تئیس مئی کو آپ نے ایک اخبار میں اشتہار شائع کیا اور اس میں اپنا عقیدہ تحریر کیا۔ اور وہ آپ کی وفات والے دن چھبیس مئی انیس سو آٹھ کو وہ شائع ہوا۔ حضرت مسیح اسلم اس میں آ تحریر کرتے ہیں۔ کہ یہ الزام جو میرے ذمے لگایا جاتا ہے کہ گویا میں ایسی نبوت کا دعوی کرتا ہوں۔ جس سے مجھے اسلام سے کچھ تعلق باقی نہیں رہتا۔ اور جس کے معنی یہ ہیں کہ میں مستقل طور پر اپنے تعین نبی سمجھتا ہوں۔ قرآن قرآن کی پیروی کی کوئی حاجت نہیں رکھتا اپنا علیحدہ کلمہ علیحدہ قبلہ بناتا ہوں اور شریعت اسلام کو منسوخ کی طرح قرار دیتا ہوں یہ الزام صحیح نہیں ہے بلکہ ایسا دعوی نبوت میرے نزدیک کفر ہے پھر فرماتے ہیں کہ میں ان معنوں میں نبی ہوں اور امتی بھی کہ ہمارے سید و آقا حضرت محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وسلم کی وہ پیش گوئی پوری ہو کہ آنے والا مسیح امتی بھی ہوگا اور نبی بھی ہوگا بہت بہت شکریہ منصور صاحب جس طرح خاکسار بھی گاہے گاہے اس program میں ذکر کرتا رہتا ہے ناظرین اکرام یہ ساری باتیں ہماری ویب site الاسلام dot اوک پہ موجود ہیں حضرت اقدس مسیح کی تحریرات جو سب سے زیادہ اہمیت رکھتی ہیں وہ آپ کے لیے موجود ہیں ان کو ضرور پڑھیں اور ان پر غور کریں یہ پروگراموں کا جو سلسلہ تھا آج اپنے اختتام کو پہنچ رہا ہے میں اپنے پینل ممبران منصور احمد ضیاء صاحب اور ساجد محمود بوٹر صاحب کا بھی شکر گزار ہوں اور ہمیشہ کی طرح یہ میرا فرض ہے کہ میں اپنے ناظرین اور سامعین کا شکریہ ادا کروں جو بڑی محنت کے ساتھ سوچ کر اپنے سوالات پیش کرتے ہیں ہم کوشش کر آپ کے تمام سوالات کے جواب دیں لیکن ہمیں خوشی ہے کہ ہم ہمیشہ تمام سوالات کے جوابات وقت کی کمی کی وجہ سے نہیں دے پاتے اس پہ ہماری معذرت قبول کریں لیکن اپنے سوالات ضرور پیش کرتے رہیں اور آخر میں پھر یہی عرض کرنا چاہوں گا کہ ہمارے مخالفین حضرت بانی جماعت احمدیہ اور جماعت احمدیہ پر یہ الزام لگاتے ہیں کہ گویا ہم آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی شان کو کم کرتے ہیں حالانکہ ہمیں حضرت بانی جماعت احمدیہ یہ کہتے ہوئے نظر آتے ہیں جان و دلم فدائے جمال محمد است حاکم نثار کوچہ آل محمد است یعنی میری جان اور میرا دل آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے حسن پر قربان ہو اور میرا جسم آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے آل کی گلی پر اس پر قربان ہو جائے اور آگے فرماتے ہیں بعد is خدا با عشق محمد گر کفر اول نمبر پہ اللہ تعالی کی محبت اور دوسرے نمبر پہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کا عشق اگر اس وجہ سے کوئی مجھے کافر قرار دیتا ہے تو پھر میں کافر ہی سہی اللہ تعالی ہم سب کو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی کامل پیروی کرتے ہوئے آپ کے بتائے ہوئے ارشادات کے مطابق وقت کے امام مسیح موت اور امام مہدی کو ماننے کی توفیق عطا فرمائے اگلے program تک لیے اجازت دیجیے اگلا program ایم ٹی اے international کے کسی اور سٹوڈیو سے آپ کی خدمت میں پیش کیا جائے گا اس وقت تک کے لیے اجازت دیجیے السلام علیکم ورحمتہ اللہ وبرکاتہ تو رکھتے ہیں مسلمانوں کا دین ہم تو رکھتے مسلمان کا دین دل سے ہیں ختمر سلیم

Leave a Reply