Ahmadi Muslim VideoTube Rahe Huda Rahe Huda 08 07 2023

Rahe Huda 08 07 2023



Rahe Huda 08 07 2023

Rahe Huda 08 07 2023

اظرین آج آٹھ جولائی سن دو ہزار تئیس عیسوی ہفتے کا دن ہے انڈیا میں اس وقت رات کے دس بجے ہیں اور جی ایم ٹی کے مطابق اس وقت سہ پہر کے ساڑھے چار بجے ہیں اور ناظرین یہ وقت ہے program راہ خدا کا ناظرین قادیان دار الامان سے program راہ خدا کے چار episodes پر مشتمل سیریز کے دوسرے episode کے ساتھ ہم آپ کی خدمت میں حاضر ہیں regular viewers یہ بات جانتے ہیں کہ program راہ خدا ایک live discussion program ہے اور live ہونے کے ساتھ ساتھ یہ program ایک interactive program بھی ہے ناظرین یہ program اس حوالے سے ہے کہ ہمارے ناظرین ہمارے ساتھ ہمارے اس program میں جڑ سکتے ہیں ہمارے ساتھ شامل گفتگو ہو سکتے ہیں یعنی ہم سٹوڈیو کے ساتھ ساتھ اپنے ناظرین کی فون calls کو کرتے ہیں ان کے سوالات کو سنتے ہیں اور یہاں میں موجود علماء کرام کے panel میں ان سوالات کو پیش کرتے ہیں اور ہمارے علمائے کرام اسی program کے ذریعہ ہمارے ناظرین کے سوالات کے جوابات دیتے ہیں ناظرین آپ ہم سے ٹیلی فونز لائنز کے ذریعے رابطہ کر سکتے ہیں اسی طرح text messages fax messages اور ای میل کی سہولت بھی دستیاب ہے تو ناظرین اگر آپ ہم سے ہمارے اس program میں شامل گفتگو ہونا چاہتے ہیں اور اپنے سوالات کے جوابات حاصل کرنا چاہتے ہیں تو میں آپ کو یہ بتا کہ ہماری ٹیلی فونز lines اب سے activated ہیں اور ہمارے ناظرین اپنے ٹیلی vision سکرینز پر ہم سے رابطے کی تمام تفصیل ملاحظہ فرما رہے ہوں گے ناظرین جیسا کہ خاق صاحب نے ابھی عرض کیا کہ قادیان دار الامان سے program راہ خدا کے جو چار episodes کی سیریز نشر کی جاتی ہے آج کا یہ program اسی سیریز کا دوسرا episode ہے گزشتہ program کی طرح آج کے episode میں بھی اور آئندہ دو episodes میں بھی ہم سیدنا حضرت اقدس مسیح موعود علیہ الصلاۃ والسلام کی تصنیف لطیف اسلامی اصول کی کے موضوع پر بات چیت کریں گے ناظرین اسلامی اصول کی فلاسفی وہ مضمون ہے جسے سیدنا حضرت اقدس مسیح موعود علیہ الصلاۃ والسلام نے رقم فرمایا تھا اور جس وقت آپ علیہ السلام اس مضمون کو رقم فرما رہے تھے اللہ تعالی کی خاص تائید ونصرت آپ کے شامل حال تھی اللہ تعالی نے خود قبل is وقت ہی آپ علیہ السلام کو اس مضمون کی کامیابی کی بشارت عطا فرمائی تھی اور ناظرین یہ مضمون اپنی ذات میں خود سیدنا حضرت اقدس مسیح موعود علیہ الصلاۃ والسلام کی صداقت کی بین دلیل ہے اور بین نشان ہے۔ ناظرین اس مکمل سیریز میں ہم اسلامی اصول کی فلاسفی کے موضوع پر جو مختلف امور ہیں اس پر روشنی ڈالیں گے۔ آپ علیہ السلام نے اس کتاب میں جو معارف اور حقائق کی باتیں بیان کی ہیں۔ ان کا تذکرہ کیا جائے گا۔ یہاں studio میں موجود علماء کرام اسلام اسلامی اصول کی فلاسفی کے جو مضمون ہے۔ اس کے مطالعہ کی جو افادیت ہے۔ اس پر ڈالیں گے۔ اسی طرح اس بات پر بھی روشنی ڈالیں گے کہ ایک شخص اس کتاب کو پڑھنے کے نتیجہ میں کس طرح روحانی علوم اور معارف کا خزانہ حاصل کر سکتا ہے۔ کس طرح وہ اپنے ذہن کو منور کر سکتا ہے اور کس طرح اللہ تعالی کا قرب حاصل کر سکتا ہے۔ ناظرین ان تمام امور پر بات چیت کرنے کے لیے آج کے episode میں خاکسار کے ساتھ جو دو علمائے کرام موجود ہیں میں ان کا تعارف کروا دیتا ہوں۔ آج کے اس episode میں خاکسار کے ساتھ محترم مولانا منیر احمد صاحب خادم اور محترم مولانا کے طارق احمد صاحب شامل گفتگو ہوں گے میں ہر دو حضرات کا اس program میں خیر مقدم کرتا ہوں ناظرین چھبیس تا اٹھائیس دسمبر سن اٹھارہ سو چھیانوے عیسوی کی تاریخوں میں آ ٹاؤن ہال لاہور میں جلسہ اعظم مذاہب کے انعقاد کا فیصلہ ہوا تو سیدنا حضرت اقدس مسیح موعود علیہ الصلاۃ والسلام اس بات پر بہت خوش ہوئے اور باوجود ہونے کے آپ نے ایک مضمون قلم بند کرنا شروع کر دیا۔ جلسے کے انعقاد سے پہلے ہی اللہ تعالی کی طرف سے آپ علیہ السلام کو الہام ہوا کہ یہ مضمون ہے جو سب پر غالب آئے گا۔ حضرت مسیح موعود علیہ الصلاۃ والسلام نے مورخہ اکیس دسمبر سن اٹھارہ سو چھیانوے عیسوی کو ایک اشتہار شائع فرماتے ہوئے یہ تاکید فرمائی کہ اس اشتہار کی زیادہ سے زیادہ ارشاد کی جائے۔ اور اس اشتہار میں دیگر تمام مضامین پر اس مضمون کے غالب رہنے کے جو الہامی خبر تھی وہ بھی کی گئی۔ چنانچہ لاہور میں مخالفین کی طرف سے اس اشتہار کو اتارنے اور پھاڑ کر ضائع کرنے کی کوششوں کے باوجود احمدیوں نے اس اشتہار کی کثرت کے ساتھ اور بھرپور رنگ میں اشاعت کی۔ اور کئی راتوں تک شہر کی نمایاں جگہوں پر اس اشتہار کو آویزاں کرنے کے غرض سے مشقت کے ساتھ کوششیں جاری رکھیں۔ ناظرین اس مختصر سی تمہید کے بعد خاکسار آج کے اس program کو آگے بڑھاتے ہوئے اپنا پہلا سوال محترم مولانا منیر احمد صاحب خادم سے یہ کرنا چاہتا ہے کہ سیدنا حضرت اقدس مسیح موعود علیہ الصلاۃ والسلام نے فرمایا ہے کہ اخلاق کی دو قسمیں ہیں ایک ترک شر اور دوسرا ایصال خیر تو ترک شر اور پاک دامن رہنے کے تعلق سے جو حضرت مسیح مود علیہ الصلاۃ والسلام نے پانچ علاج بیان فرمائے ہیں اس کے تعلق سے کچھ روشنی ڈالنے کی درخواست ہے بسم اللہ الرحمن الرحیم سیدنا حضرت اقدس مسیح موت علیہ الصلاۃ والسلام کی تصنیف یہ آپ کا lecture اسلامی اصول کی philosophy کے عنوان سے جس کے بارے میں ابھی ہم یہاں پہ آپس میں تذکرہ کر رہے ہیں.

00:07:15

یہ جو آپ نے اس حوالے سے بھی سوال کیا ہے کہ حضرت علیہ الصلاۃ والسلام نے اس میں اخلاق کی دو قسمیں بیان فرمائی ہیں. ایک ترک شر اور ایک ایصال خیر تو اس کو اس مضمون کو پیش کرنے سے پہلے انہوں نے تمہیدی طور پر چند باتیں اور بھی بیان کرنا چاہتا ہوں. وہ یہ ہے کہ حضرت علیہ الصلاۃ والسلام نے اس سوال کو اس رنگ میں اٹھایا.

00:07:43

کہ جو ان سے حضور سے اس اجلاس میں پوچھا گیا تھا کہ انسان کی جسمانی, اخلاقی اور روحانی حالتیں کیا ہیں? یا انسان کی طبعی اور اخلاقی اور روحانی حالتیں کیا ہیں? تو حضور نے سب سے پہلے تو انسان کی طبعی حالتوں کا ذکر فرمایا. اور فرمایا کہ قرآن مجید نے اس کو نفس امارہ کے نام سے موصوم کیا ہے? کہ نفس عمارہ کا مطلب یہ ہے کہ یہ وہ حالت ہے کہ انسان کو گناہوں اور بدیوں پر ابھارتی ہے کیونکہ ابھی اس کے اندر وہ اخلاق نہیں ہوتے وہ اطوار نہیں ہوتے جو اسلام یا قرآن مجید یا اللہ تعالی پیدا کرنا چاہتا ہے تو آپ نے فرمایا کہ جو طبعی حالتیں ہیں وہ ایسی ہیں کہ قرآن مجید نے ان کا بھی تذکرہ سب سے پہلے قرآن مجید میں کی اور وہ کیا ہیں کہ انسانوں کو سب سے پہلے کھانے, پینے, رہنے, سہنے, اٹھنے, بیٹھنے, شادی بیاہ کرنے کے جو طریقے بتائے ہیں.

00:08:47

اور کیسے پاک ہونا ہے, کیسے غسل کرنا ہے. کیسے نہانا, ہیں? شراب نہیں پینی, جوا نہیں کھیلنا.

00:08:55

مردار نہیں کھانا. یہ ابتدائی چھوٹی چھوٹی باتیں ہیں. پھر یہ بھی ذکر آتا ہے کہ انسان کا یہ حق ہے. کہ اس کو رہنے کے لیے صاف پانی پھر یہ ہے کہ اس کو چھت ہونی چاہیے اس کے سر کے اوپر پھر یہ ہے کہ وہ ننگا نہیں گھومنا چاہیے یہ ابتدائی باتیں ہیں تو حضرت اس کتاب میں یہ بیان فرما رہے ہیں کہ قرآن مجید میں اللہ تعالی نے ابتدا سے ہی جو انسان کو جس چیز کی ضرورت ہے سب سے پہلے اس کی نشاندہی کی اس کے بعد حضور فرماتے ہیں کہ طبعی حالتوں کے بعد اخلاقی حالتیں آتی ہیں اور یہ اخلاقی حالتیں طبعی حالتوں سے کوئی الگ چیز نہیں ہے انہی طبعی حالات کو جب انسان موقع اور محل کے مطابق استعمال کرتا ہے اللہ تعالی کے بیان کردہ جو فرمودات ہیں ان کے مطابق استعمال کرتا ہے تو وہی طبعی باتیں اخلاقی باتیں ہو جاتی ہیں مثال کے طور پر طبعی باتوں میں ایک بات یہ شامل ہے کہ ایک بچہ جو ہے وہ شروع سے ہی وہ آگ میں ہاتھ ڈال دیتا ہے مسلم نے اس کی اس کی مثال دی ہے اور اسی طریقے سے درندے جو ہیں وہ آ حملہ آور جاتے ہیں وہ تو ہم کیا ان کو بہادر کہیں گے ہم نہیں ان کو بہادر کہہ سکتے وہ ان کے تبھی حالات ہیں بہادر ہم تب ہی کہیں گے جب وہ ایک ظالم سے بچانے کے لیے وہ صفت کا استعمال کرتا ہے تو کہا جائے کہ یہ شخص بڑا بہادر ہے کہ ظلم سے اس نے جو ہے چھٹکارا دلایا تو میں یہ لے کے چل رہا ہوں اس مضمون کو کہ جو ابھی آپ نے سوال کیا اس تک بات پہنچانے کے لیے اس کے بعد حضرت مسیح محمد علیہ الصلاۃ والسلام فرماتے ہیں کہ دیکھو اخلاق جو ہے اس کی دو قسمیں ہیں اخلاق کی دو قسموں میں ایک قسم ہے جس کا تعلق ہے ترک شر سے دوسرا ہے ایصال خیر یعنی دوسرے کو خیر پہنچانا جو ترک شر ہے اس کے اندر سب سے پہلی قسم ہے احسان احسان کا یہ جو لفظ ہے یہ الف ہے صاد الف نون حسنون جس کا معنی قلعے سے ہے کہ کسی مرد اور عورت کو ایسے قلعے میں باندھ دینا کہ جنسی اعتبار سے وہ بے راہ روی کا شکار نہ ہو تو حضرت مسیح علیہ الصلاۃ والسلام فرماتے ہیں ترک شر کے جو اخلاق ہیں جن سے دنیا میں شر پھیلتا ہے اب آپ دیکھ لیں یہ جو احسان ترک شر کی صفت ہے اس کی اس میں بے راہ روی اختیار کرنے کے نتیجے میں دنیا میں کس قدر فساد برپا ہے کہ مرد اور عورت کے جو جنسی تعلقات ہیں ان کے اندر جو بے اعتدالی ہے جو بے راہ روی ہے جو وہ طریقوں سے ہٹے ہیں جو قرآن مجید چاہتا ہے کہ کے اندر وہ ہونے چاہیے۔ تو اس کے نتیجے میں دنیا میں اس قدر فساد پھیل گیا کہ آج وہ لوگ جو پہلے اس کو فساد نہیں سمجھتے تھے۔ پہلے وہ یہ اعتراض کرتے کرتے تھے کہ تم لوگ آزادی میں مخل ہوتے ہو آج بڑی بھاری تعداد ایسے لوگوں کو بھی آ گئی ہے کہ جو کہتے ہیں کہ نہیں اب ہمیں احسان کی صفت یعنی پاک دامنی کی صفت کی طرف آنا چاہیے۔ تو حضرت مسیح محمد علیہ الصلاۃ والسلام نے اس حوالے سے جو بات بیان فرمائی ہے میں اس خلاصے کے رنگ میں حضور کی کتاب میں سے جو میں نے نوٹ کیا وہ بیان کرتا ہوں کہ حضرت مسیح معاذ علیہ الصلاۃ والسلام نے اس میں قرآن مجید کی آیات آ آگے فرما یہ حضور علیہ الصلاۃ والسلام نے قرآن مجید کی سورہ نور قرآن مجید کی سورہ بنی اسرائیل سے جو ہے اور الحدیث سے یہ آیات لی ہیں اور ایک جگہ اکٹھی کی ہے ان کو کیونکہ اسی مضمون سے میں یکجائی آیتیں ہیں ترجمہ ان کا اس طرح ہے کہ اے ایمانداروں ایمانداروں کو جو مرد ہیں کہہ دیں کہ آنکھوں کو نامحرم عورتوں کے دیکھنے سے بچائے رکھیں اور ایسی عورتوں کو کھلے طور سے نہ دیکھیں جو شہوت کا محل ہو سکتی ہوں اور ایسے پر خوابیدہ نگاہ کی عادت پکڑیں اور اپنے ستر کی جگہ کو جس طرح ممکن ہو بچاویں ایسا ہی کانوں کو نامحرموں سے بچائیں یعنی بیگانہ عورتوں کے گانے بجانے اور خوش الہانی کی آوازیں نہ سنیں ان کے ان کے حسن کے قصے نہ سنیں یہ طریق پاک نظر اور پاک دل رہنے کے لیے عمدہ طریق ہے فرماتے ہیں ایسا ہی ایماندار عورتوں کو کہہ دیں کہ وہ بھی اپنی آنکھوں کو نامحرم مردوں کے دیکھنے سے اور اپنے کانوں کو بھی نامحرموں سے بچاوے یعنی ان کی پرش حوات آوازیں نہ سنیں اور اپنے ستر کی جگہ کو پردہ میں رکھیں اور اپنی زینت کے اعضاء کو کسی غیر محرم پر نہ کھولیں اور اپنی اوڑھنی کو اس طرح سر پر لیں کہ گریبان سے ہو کر سر پر آ جائیں یعنی گریبان اور دونوں کان اور سر اور کنپٹیاں سب چادر کے پردہ میں رہیں اور اپنے پیروں کو زمین پر ناچنے والوں کی طرح نہ ماریں وہ تدبیر ہے کہ جس کی پابندی ٹھوکر سے بچاتی ہے پھر فرماتے ہیں اور دوسرا طریق بچنے کے لیے یہ ہے کہ خدا تعالی کی طرف رجوع کریں اور اس سے دعا کریں تا ٹھوکر سے بچاوے اور لغزشوں سے نجات دے زنا کے قریب مت جاؤ یعنی ایسی تقریبوں سے دور رہو جس سے یہ خیال بھی دل میں پیدا ہو سکتا ہو اور ان راہوں کو اختیار نہ کرو جن سے اس گناہ کے وقوع کا اندیشہ ہو جو زنا کرتا ہے وہ بدی کو انتہا تک پہنچا دیتا ہے زنا کی راہ بہت بری راہ ہے یعنی منزل مقصود سے روکتی ہے اور تمہاری آخری منزل کے لیے سخت خطرناک ہے اور جس کو نکاح میسر نہ آوے چاہیے کہ وہ اپنی عفت کو دوسرے طریقوں سے بچاوے مثلا روزہ رکھے یا کم کھاوے یا اپنی طاقتوں سے تن آزار کام لے اور لوگوں نے یہ یہ بھی طریق نکالیں کہ وہ ہمیشہ نکاح سے دستبردار رہیں یا خوجے بنیں اور کسی طریقے سے رہبانیت اختیار کریں مگر ہم نے پر یہ حکم فرض نہیں کیے اس لیے وہ ان بدعتوں کو پورے طور پر نبھا نہ سکے اسلام نے رہبانیت کے اصول کو تسلیم نہیں کیا بعض مذاہب نے تسلیم کیا ہے لیکن قرآن مجید یہ بھی فرماتا ہے کہ انہوں نے جب اس اصول کو اپنایا تو اس کو نبھا نہ سکے کیونکہ یہ ایک ایسی صفت ہے کہ انسان اس کو اگر استعمال کرتا ہے ہر صورت میں لیکن قرآن مجید کہتا ہے استعمال کرو لیکن قاعدے کے اندر آ کر اگر جب قاعدے کے اندر تو قرآن مجید اس کو پاک دامنی قرار دیتا ہے آگے فرماتا ہے کہ پاک دامن رہنے کے لیے پانچ علاج ہیں ان آیات میں خدا تعالیٰ نے خلق احسان یعنی عفت کے حاصل کرنے کے لیے صرف اعلیٰ تعلیم ہی نہیں فرمائی بلکہ انسان کو پاک دامن رہنے کے لیے پانچ علاج بھی بتلا دیے ہیں یعنی یہ کہ نمبر ایک اپنی آنکھوں کو نامحرم پر نظر ڈالنے سے بچانا نمبر دو کانوں کو نامحرموں کی آواز سے بچانا نمبر تین نامحرموں کے قصے نہ سننا نمبرچار اور ایسی تمام تقریبوں سے جن میں اس بد فعل کا اندیشہ ہو اپنے بچانا نمبر پانچ اگر نکاح نہ کرنا اگر نکاح نہ ہو تو روزہ رکھنا وغیرہ اس جگہ ہم بڑے دعوی کے ساتھ کہتے ہیں حضرت مسیح علیہ الصلاۃ والسلام فرماتے ہیں اس جگہ ہم بڑے دعوی کے ساتھ کہتے ہیں کہ یہ اعلی تعلیم ان سب تدبیروں کے ساتھ جو قرآن شریف نے فرمائی ہے صرف اسلام سے ہی خاص ہے خدا تعالیٰ چاہتا ہے کہ ہماری آنکھیں اور دل اور ہمارے خطرات سب پاک رہیں اس لیے اس نے یہ اعلیٰ درجہ کی تعلیم فرمائی اس میں کیا شک ہے کہ بے قیدی ٹھوکر کا موجب ہے ہو جاتی ہے اگر ہم ایک بھوکے کتے کے آگے نرم نرم روٹیاں ڈال رکھ دیں اور پھر امید رکھیں کہ اس کے کتے کے دل کو اور اس کے اس کتے کے دل میں خیال تک ان روٹیوں کو نہ آوے تو ہم اپنے اس خیال میں غلطی پر سو خدا تعالیٰ نے چاہا کہ نفسانی قواع کو پوشیدہ کاروائیوں کا موقع بھی نہ ملے اور ایسی کوئی بھی تقریب پیش نہ آوے جس سے بد خطرات جنبش کر سکیں اسلامی فرماتے ہیں اسلامی پردہ کی یہی فلاسفی اور یہی ہدایت شرعی ہے خدا کی کتاب میں پردہ سے یہ مراد نہیں کہ فقط عورتوں کو قیدیوں کی طرح حراست میں رکھا جائے یہ ان نادانوں کا خیال ہے جن کو اسلامی طریقوں کی خبر نہیں بلکہ مقصود یہ ہے عورت مرد دونوں کا آزاد نظر اندازی اور اپنی زینتوں کو دکھانے سے روکا جائے کیونکہ اس میں دونوں مرد اور عورت کی بھلائی ہے حضرت مسیح محمد علیہ الصلاۃ والسلام نے اس خلق کو خلق اخلاق کی جو تفصیل ہے جو فہرست ہے اس میں تب داخل فرمایا حضور فرماتے ہیں جب کسی کے اندر اس صفت کی قوت بھی موجود ہو اگر ایک آدمی جنسی طور پر طاقت ہی نہیں رکھتا اور وہ کہتا ہے کہ بہت پاک باز ہے تو وہ بااخلاق اس صفت کے اعتبار سے نہیں کرا سکتا اسی لیے قرآن مجید نے یہ فرمایا ہے کہ یہ جو صفت ہے اس کو استعمال کرنے کے قواعد بتائے ہیں اور جب ان کے اندر وہ صفت اور وہ قوت موجود ہے موجودگی کی حالت میں اس کو کس رنگ میں آپ نے استعمال کرنا ہے یہاں تک بھی حدیث میں آتے ہیں تیری بیوی کا بھی تجھ پر حق ہے اگر تو اپنی بیوی کے منہ میں ایک لقمہ بھی ڈالتا ہے تو اللہ تعالی تجھے ثواب اس کے بدلے میں دیتا ہے تو یہ ایسی بات کہ قرآن مجید نے جو قوت جو خلق احسان ہے اس کے ایسے ایسے شعبے بیان فرمائے ہیں اور حضرت اقدس مسیح محمد علیہ الصلاۃ والسلام نے ان سب اس کتاب کے حصے میں ایسے کھول کھول کر ان کو بیان فرما دیا ہے کہ ابھی جیسے آپ فرما رہے تھے کہ چاہیے کہ ہم اس کتاب کا جو نہایت ہمارے لیے ضروری ہے اور ایک ایک لحاظ سے یہ سمجھنا چاہیے کہ خدا تعالی کے الہام کی روشنی میں لکھی گئی ہے تو اس کتاب کا مطالعہ کرنا ہم سب پر بہت ضروری اور فرض ہے جزاکم اللہ تعالی حسن الجزا ناظرین اس وقت ہمارے اس program میں ایک ٹیلی فون کالر جڑے ہیں ہم ان کا سوال سن لیتے ہیں بنگلہ دیش سے مکرم عارف الزمان صاحب اس وقت فون لائن پر موجود ہیں عارف الزمان صاحب اسلام علیکم ورحمتہ اللہ وعلیکم السلام ورحمتہ اللہ وبرکاتہ پہلے تو آپ ایک خوبصورت program کے لیے بہت بہت مبارک میرا سوال ہے اسلامی اصول کی فلاسفی کتاب کے نام کیوں رکھا گیا آؤ یہ پانچ سوال کیسے ہوا جزاکم اللہ جی جزاک اللہ میں محترم مولانا کے طارق احمد صاحب سے درخواست کرتا ہوں کہ اختسار کے ساتھ سوال کا جواب جزاکم اللہ تعالی حسن جزا عارف الزمان صاحب ان کا یہ سوال تھا کہ اس کتاب کا نام اسلامی اصول کی فلاسفی کیوں رکھا گیا ہے اور اس میں جن پانچ سوالوں کے جوابات مختلف مذاہب کے نمائندگان کی طرف سے گئے ہیں وہ پانچ سوالات کیا ہیں؟ تو اس حوالے سے میں یہ عرض کرنا چاہتا ہوں کہ سوامی سادھو شوگن چندر صاحب ان کا یہ خیال تھا کہ مختلف مذاہب جو ہیں وہ آپس میں جھگڑتے رہتے ہیں تو اس اعتبار سے جو شخص سچے مذہب کی تلاش میں رہتا ہے وہ اس کے اندر ایک نا امیدی سی جو ہے وہ پیدا ہو گئی ہے چنانچہ انہوں نے باقاعدہ ایک committee تشکیل فرمائی اور ان کا یہ مقصد تھا کہ مختلف مذاہب کے ماننے والوں کو ایک ایسے پلیٹ فارم میں جمع کیا جائے جہاں پر آ کر وہ اپنے مذہب کی خوبیاں دوسروں کے سامنے پیش کریں اور جو حاضرین ہوں گے وہ خود فیصلہ کر سکیں گے کہ کون سا مذہب ہے جس میں بہت سی خوبیاں پائی جاتی ہیں اور وہ اس مذہب کو اختیار کرنے کا ان کو موقع بھی مل سکتا ہے چنانچہ جو committee انہوں نے تشکیل فرمائی تھی انہوں نے سب سے پہلا اجلاس جو ہے وہ اپنا conference جو ہے وہ اجمیر میں منعقد کیا تھا اور جو دوسرا conference ہے وہ لاہور میں منعقد ہوا اٹھارہ سو چھیانوے میں جس میں حضرت اقدس مسیح علیہ السلام کا بھی lecture پڑھ کر سنایا گیا تو اس میں جو سوالات committee کی طرف سے تجویز کیے گئے تھے اس conference کے لیے وہ یہ تھے کہ سب سے پہلے انسان کی روحانی اخلاقی اور اس کی جسمانی حالتیں دوسرا سوال یہ تھا کہ اس دنیا کی زندگی کے بعد عقبہ یعنی اخروی جو زندگی ہے اس کے بارے میں کیا تعلیمات ہیں تیسرا ان کا یہ سوال تھا کہ انسان کی جو پیدائش ہے اس کا مقصد کیا ہے اور اس غرض کو انسان کس طرح حاصل کر سکتا ہے چوتھا یہ سوال تھا کہ کرم یعنی اعمال کا اس دنیا میں کیا اثر ہے اور آخری اخروی میں اس کا کیا اثر ہوتا ہے اور پانچواں سوال یہ تھا کہ گیان یعنی علم اور معرفت اس کے حصول کے کیا ذرائع ہیں تو یہ پانچ سوالات مقرر کیے گئے تھے اور مختلف مذاہب کے نمائندگان کو بلایا گیا تھا جنہوں نے اپنی اپنی مذہبی تعلیمات کی روشنی میں ان سوالات کے جوابات حاضرین کے سامنے پیش کیے تو اس کتاب کے نام کے تعلق سے انہوں نے جو سوال کیا ہے اس کے بارے میں میں یہ عرض کرنا چاہتا ہوں کہ سب سے پہلے یہ جو conference منعقد کرنے والا جو ان کی انتظامیہ ہے ان کی طرف سے تو اسلام کے ہی یہ lecture جو ہے وہ یہ شائع کیا گیا تھا کہ اسلام کے نمائندے نے یہ اپنی تعلیمات کے حساب سے یہ باتیں پیش کی ہیں تو اسلام اس کا نام رکھا گیا لیکن بعد میں حضرت اقدس علیہ الصلاۃ والسلام کی مبارک زندگی میں ہی یہ کتاب جماعت کی طرف سے بھی شائع کی گئی تو اس موقع پر جو ہے اس کتاب کا نام اسلامی اصول کی فلاسفی اور پھر اسلام اور اس کی حقیقت یہ نام جو ہے اس کا رکھا گیا جس کو ہم کا جو ہے اس میں بھی اس کو ہم ملاحظہ کر سکتے ہیں اور کیوں رکھا گیا یہ واضح ہے اس اجلاس کی یہ شرط تھی کہ ہر مذہب اپنی مذہبی کتب کی تعلیمات کی روشنی میں ان سوالات کا جو ہے نا وہ جوابات پیش کرے چنانچہ حضرت مسیح علیہ السلام نے اس کتاب میں قرآن مجید کی آیات اور اسلامی تعلیمات اور آنحضور صلی اللہ علیہ وسلم کی جو اسوہ حسنہ ہے اور حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے جو ارشادات ہیں اس کے مطابق آپ نے یہ اپنا lecture مرتب کیا تھا جس کو حضرت عبدالکریم صاحب سیالکوٹی رضی اللہ تعالی عنہ نے پڑھ کر سنایا ہے تو یہ کتاب کا جو عنوان ہے بالکل اس کتاب کے مواد مواد کے عین مطابق ہے کہ اس میں اسلامی تعلیمات کی جو خوبصورتی ہے اور اس کی جو فلاسفی ہے وہ اس lecture میں آپ علیہ الصلاۃ والسلام نے بیان فرمایا ہے جزاکم اللہ تعالی program کے تسلسل میں خاص طور کا اگلا سوال محترم مولانا کے طارق احمد صاحب سے ہی یہ ہے کہ حضرت مسیح مود علیہ الصلاۃ والسلام نے ایصال خیر کی کون سی جو ہیں اقسام اس کتاب میں بیان فرمائی ہے جی جزاک اللہ کتاب اسلامی اصول کی فلاسفی جو حضرت اقدس علیہ السلام کی کتاب ہے طور پر موجودہ زمانے میں اس کی مطالعہ اور اس میں جو باتیں بیان کی گئی ہیں اس کو اپنی زندگیوں میں ڈھالنے کی بہت زیادہ ضرورت ہے کیونکہ موجودہ زمانے میں ہم دیکھتے ہیں کہ مختلف فتنہ و فساد دنیا کے ہر حصے میں اس وقت برپا ہے انسان اپنے بھائی کا حقوق ادا نہیں کرتا ہے اور اخلاقی اعتبار سے بھی اگر ہم انسان کی زندگی کا جائزہ لیتے ہیں تو وہ بہت پستی کی طرف اور اس میں بہت زیادہ گراوٹ جو ہے وہ ہمیں نظر آتی ہے تو ایسے حضرت اقدس علیہ السلام کی یہ جو کتاب ہے خاص طور پر ابھی ہم نے ترک شر کے بارے میں سنا ہے کہ کس طرح انسان کو مختلف برائیوں اور گناہوں سے اپنے آپ کو بچانا چاہیے یہ ایک پہلو ہے دوسرا پہلو حضرت اقدس مسیح علیہ السلام نے یہ فرمایا ہے کہ صرف گناہوں سے اپنے آپ کو بچا لینا کافی نہیں ہے بلکہ انسان کو نیکی میں بھی آگے بڑھنے کی ضرورت ہے جس کو آپ علیہ الصلاۃ والسلام نے کتاب حاضہ میں ایصال خیر بتایا ہے یعنی دوسروں کو بھلائی پہنچانا دوسروں کو فائدہ پہنچانا اس میں آپ علیہ الصلوۃ والسلام نے سب سے پہلے یہ بیان فرمایا ہے کہ ایک انسان کے اندر یہ خلق ہونا چاہیے سب سے پہلا خلق جو آپ نے بتایا ہے وہ ہے یعنی دوسرے کی غلطی کو معاف کرنا جب انسان سے کوئی غلطی سرزد ہو جاتی ہے تو وہ سزا کا مستحق ہوتا ہے جب اسے کوئی گناہ سرزد ہو جاتا ہے تو وہ سزا کا مستحق ہوتا ہے کہ اس کو ہم قید کر لیں کوئی جرمانہ اس پر عائد کر دیں لیکن اسلام یہ بھی تعلیم دیتا ہے کہ اگر مناسب ہے اور اصلاح مدنظر ہے جس نے گناہ کیا ہے اس کی اصلاح مدنظر ہے اور معاشرے کی بہتری مد نظر ہے تو پھر سزا دینے کی بجائے عفو و درگزر سے بھی کام لینا چاہیے جس کے نتیجے میں معاشرے میں نیکی جو ہے وہ بڑھتی چلی جاتی ہے چنانچہ حضرت اقدس مسیح موت علیہ الصلاۃ والسلام نے اس حوالے سے قرآن مجید کی بھی آیت پیش فرمائی ہے کہ آپ علیہ الصلاۃ والسلام نے فرمایا کہ قرآن مجید میں اللہ تعالی فرماتا ہے یہ سورۃ سورۃ العمران کی ایک پینتیسویں آیت ہے کہ وہ نیک لوگ ہوتے ہیں وہ اعلی اخلاق کے مالک ہوتے ہیں جو اپنے غصے کو پی جاتے ہیں اپنے غصے پر قابو رکھتے ہیں اور جو لوگوں سے درگزر اور عفو سے جو ہے وہ کام لیتے ہیں آپ علیہ الصلوۃ والسلام نے یہ بھی بیان فرمایا ہے کہ اسلامی تعلیمات جو ہیں وہ بڑے معتدل ہیں اور میانہ روی ہے اس میں چنانچہ آپ نے قرآن مجید کی آیت پیش فرمائی کہ کہ اگر کسی انسان کو کوئی تکلیف پہنچائی جاتی ہے یا کوئی برائی اسے کی جاتی ہے تو اس کا اتنا ہی حق ہے کہ جتنی تکلیف اس کو دی گئی ہے اتنی تکلیف وہ دوسروں کو بھی دے دے جس نے اس کو تکلیف پہنچائی ہے لیکن اس سے بڑھ کر قرآن مجید نے یہ تعلیم بھی دی ہے کہ اگر اصلاح کی نیت سے اگر کوئی اپنی بھائی کے گناہ کو اپنے بھائی کی غلطی کو معاف کر دیتا ہے درگزر کر دیتا ہے تو اللہ تعالی اجر دینے والا اللہ تعالیٰ اس کو بہت بڑا اجر سے جو ہے وہ نوازے گا تو حضرت اقدس مسیح موت علیہ الصلاۃ والسلام نے سب سے پہلا خلق جو بیان فرمایا ہے عیسیٰ علیہ خیر کا وہ عفو ہے اور درگزر ہے جو ایک انسان کے اندر پیدا ہونا چاہیے اور پھر حضرت اقدس مسیح علیہ السلام نے یہ بھی فرمایا ہے کہ یہ بھی نہیں ہے کہ آپ عفو اور درگزر کرتے چلے جاؤ لیکن اسلام جو خلق جو پیش کرتا ہے اس میں انسان کو عقل سے کام لینے کی ضرورت ہے اور موقع و محل کے حساب سے اس کو اپنے اس خلق کا جو ہے وہ اظہار کرنا چاہیے حضور نے جانوروں کی مثال دی ہے کہ مثال کے طور پر گائے یا بکری ہے ہم کہتے ہیں کہ بہت جو ہے نا وہ سنجیدہ ہے لیکن اس کا وہ خلق جو ہے وہ نہیں اس کو تسلیم کیا جاتا ہے کیونکہ اس کے پاس عقل نہیں ہے لیکن انسان جس کے پاس عقل ہے وہ موقع اور محل کو دیکھتے ہوئے اپنی عقل کو استعمال کرتے ہوئے جب کا جو خلق ہے اس کا اظہار کرتا ہے تو پھر وہ ایک نیکی ہوتی ہے اور اس نیکی کے ذریعے سے پھر انسان آگے بڑھتا ہے تو یہ جو عفو کی قرآن مجید میں تعلیمات دی گئی ہیں اس کی مثال ہم حضرت اقدس محمد مصطفی وسلم کی زندگی میں بخوبی دیکھ سکتے ہیں جب آپ علیہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو مکہ والوں نے تکلیف دی اور آپ نے ہجرت کی لیکن پھر بھی منکرین نے آپ کا تعاقب کرنا نہیں چھوڑا اور اسلام کو نیست و نابود کرنے کی کوشش کی تب اللہ تعالی کے اذن سے آپ نے دفاعی جنگیں بھی کی ہیں اور جب فتح یاب ہو کر جب آپ مکہ میں داخل ہوئے تھے اس وقت آپ نے یہ اعلان فرمایا کہ آج کے دن تم سے کسی قسم کا مواخذہ نہیں کیا جائے گا تو یہاں سے ہمیں معلوم ہوتا ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے جب سزا دینے کا موقع تھا تو اس موقع پر آپ نے سزا دی ہے اور جب معاف کرنے کے نتیجے میں ایک بہت بڑی قوم کو جو ہے وہ اسلام میں داخل ہونے کا جب موقع تھا تو اس موقع پر آپ نے اس قوم کو معاف بھی فرمایا ہے پھر آگے حضرت اقدس مسیح محمد علیہ الصلاۃ والسلام ایصال خیر کے حوالے سے مزید خلق کا یہ بیان کرتے ہیں کہ دوسرا خلق جو ہے وہ عدل ہے تیسرا خلق جو ہے احسان ہے اور چوتھا خلق جو ہے وہ ہے چنانچہ حضرت اقدس مسیح موذ علیہ الصلاۃ والسلام نے اس حوالے سے قرآن مجید کی یہ آیت پیش فرمائی کہ کہ آپ علیہ الصلوۃ والسلام نے فرمایا ہے کہ اس آیت کریمہ میں تین خلق ایسے بیان کیے گئے ہیں جن کا تعلق ایصال خیر کے ساتھ ہے سب سے پہلا یہ ہے کہ عدل کرنے کا قرآن مجید میں دیا گیا ہے اور آپ علیہ الصلوۃ والسلام نے فرمایا ہے کہ یہ ادنیٰ درجے کا جو ہے وہ خلق ہے یعنی اگر کوئی تم سے نیکی کرتا ہے تم بھی اس سے نیکی کرو یہ عدل ہے آگے آپ نے فرمایا ہے کہ احسان کا سلوک کرنا چاہیے قرآن مجید میں یہ تعلیم دی گئی ہے اور اس کے بارے میں آپ نے فرمایا ہے کہ یہ اوسط درجے کی نیکی نیکی ہے اوسط درجے کا جو ہے وہ خلق ہے اور اس کی مزید آپ نے یہ تفصیل بیان فرمائی ہے کہ انسان جب احسان کرتا ہے تو اس میں کا عیب بھی موجود ہوتا ہے ایک کمزوری بھی ہوتی ہے وہ یہ ہے کہ بسا اوقات انسان یہ چاہتا ہے کہ جس پر میں یہ احسان کر رہا ہوں وہ میرا شکر گزار ہو یا کم سے کم یہ کہ وہ جو ہے وہ مجھے دعائیں دینے والا ہو تو اس طرح کچھ نہ کچھ بدلے کی جو ہے وہ امید انسان کے دل میں باقی رہتی ہے جس کو حضرت اقدس مسیح علیہ السلام نے فرمایا کہ اس درجے میں ایک عیب ہے ایک کمزوری ہے کہ جب انسان احسان کرتا ہے تو اس کے دل میں یہ خیال پیدا ہوتا ہے اور بسا اوقات جس سے وہ احسان کا سلوک کرتا ہے بدلے میں وہ اس کو کوئی تکلیف پہنچاتا ہے تو انسان کہہ بھی دیتا ہے کہ اس نے احسان فراموشی کی ہے تو احسان جو ہے وہ ایک اوسط درجے کی نیکی ہے اور قرآن مجید کا بھی جب ہم مطالعہ کرتے ہیں تو معلوم ہوتا ہے کہ اللہ تعالی فرماتا ہے کہ کہ تم جو صدقہ کرتے ہو اس کو دوسروں کو یاد دلا کر اپنے احسان کو اپنے احسان کو جتلا کر یا ان کو تکلیف پہنچا کر اپنے صدقات کو جو ہے نا تم ضائع نہ کرو قرآن مجید میں اللہ تعالی نے یہ حکم دیا ہے تو یہ احسان کا وہ درجہ ہے اس کے بعد حضرت اقدس علیہ الصلاۃ والسلام نے فرمایا ہے اس کے بعد کا درجہ ہے یہاں پر انسان آہستہ آہستہ اپنی روحانی اور اخلاقی حالت میں ترقی کرتے کرتے یہاں تک پہنچتا ہے جب وہ کسی کی مدد کرتا ہے یا کوئی نیکی کرتا ہے تو اس میں احسان کا بھی کوئی پہلو باقی نہیں رہتا ہے بلکہ محض ہمدردی کی جوش کے ساتھ جو ہے وہ نیکی کا سلوک کرتا ہے اور حضرت اقدس نے اس کی مثال جو ہے وہ والدہ مہربان سے دی ہے والدہ جب اپنے بچے سے حسن سلوک کرتی ہے تو اس کا کوئی مطالبہ نہیں ہوتا ہے یا کوئی معاوضہ کوئی معاوضہ جو ہے وہ نہیں چاہ رہی ہوتی ہے تو ایسا جو سلوک ہے وہ انسان کو دوسروں کے ساتھ کرنا چاہیے اور نیکی کے اس معیار پر جو ہے وہ انسان کو قائم ہونا چاہیے پھر حضرت اقدس مسیح علیہ السلام نے ایک بڑی ہی پر حکمت بات یہاں پر یہ بیان فرمائی ہے کہ یہ جو خلق ہے عدل احسان اور عطائی ذوالقربہ آپ علیہ الصلاۃ والسلام نے فرمایا ہے کہ جس طرح کے لیے آپ نے ذکر کیا ہے کہ یہ بھی جو ہے وہ موقع اور محل کے حساب سے جو ہے وہ موقع اور محل کے حساب سے جو ہے وہ ہونا چاہیے تبھی جو ہے وہ اس کا معاشرے کو فائدہ ہوگا اور انسان کی اپنی اخلاقی جو ترقیاں ہیں اس کو حاصل ہوں گی اور آپ علیہ الصلاۃ والسلام نے یہ بھی فرمایا کہ خاص طور پر جب عربی کی جو بنیادی گرامر ہم جانتے ہیں کہ اس میں نکیرا اور معارفہ کا جو ہے نا وہ بیان ہوتا ہے اسم کے حوالے سے کہ اگر الف لام لگا دیا جاتا ہے تو وہ معارفہ بن جاتا ہے تو یہاں پر عدل کے ساتھ بھی کے ساتھ بھی اور میں بھی اللہ تعالی نے الف لام لگا کر اس کو مخصوص کر دیا ہے کہ اس میں ایک رعایت ہے کہ انسان نے اپنے عقل کا استعمال کرتے ہوئے موقع اور محل کے حساب سے ان خلق کا جو ہے انسان کی طرف سے اظہار ہونا چاہیے پھر ساتھ ہی اس آیت کریمہ میں جو یہ بھی بیان فرمایا گیا ہے کہ حضرت اقدس نے فرمایا ہے کہ اگر موقع اور محل کے حساب سے یہ صفات اگر بروئے کار انسان کی طرف سے نہیں لائی جاتی ہیں پھر جو عدل ہے وہ اس قدر اگر بے محل انسان کرنا شروع کر دے گا تو اس کے نتیجے میں وہ فحشا میں بدل جائے گا کہ ایک ناپاک صورت جو ہے نا وہ اختیار کر جائے گی اسی طرح احسان اگر بر موقع اور بر محل نہ ہو تو پھر عقل اور conscious جو ہے وہ اس کا انکار کرنے لگ جائے گا وہ منکر میں جو ہے وہ صفت بدل جائے گی اسی طرح جو ہے وہ اگر موقع اور محل کے حساب سے نہ ہو تو پھر وہ یعنی بغاوت کی طرف جو ہے وہ انسان جو ہے وہ بڑھتا چلا اور حضرت اقدس مسیح علیہ السلام نے بغا جو لفظ ہے اس کے تعلق سے بھی یہ بیان فرمایا ہے کہ ایسی بارش کو کہتے ہیں جو حد تجاوز کر جائے جس کے نتیجے میں کھیتی جو ہے وہ اجڑ جاتی ہے تو اس میں بھی دراصل یہی بات بیان کی گئی ہے کہ بھی اگر کوئی ہم حد تجاوز کر جائیں اس پہ اور بر موقع اور محل اس کا اظہار ہم نہ کریں تو اس کے نتیجے میں ایک برائی میں جو ہے وہ بڑھنے والی بات ہو جائے گی اور بغاوت جو ہے وہ پیدا ہونے کا اس میں خدشہ ہوتا ہے تو یہ ایصال خیر کے تعلق سے چار خلق ہیں جو حضرت اقدس مسیح علیہ السلام نے اس کتاب میں بیان فرمائی ہیں اس کے علاوہ بھی قرآن مجید کی آیات کی روشنی میں آپ نے غریبوں سے حسن سلوک کرنے کا پڑوسیوں سے ہمدردی کرنے کا اسی طرح دکھ اور تکلیف جو مستحقین ہیں ان کے دور کرنے کے تعلق سے مختلف تعلیمات قرآن مجید کی آیات میں اس سوال کے ضمن میں جو ہے وہ آپ نے بیان فرمائی ہیں جزاکم اللہ تعالی حسن علی جزا ناظرین کرام اس وقت ہمارے ساتھ ایک اور فون کالر ہمارے program میں جڑ چکے ہیں انڈیا سے مکرم بشیر احمد صاحب اس وقت ہمارے ساتھ فون لائن پر موجود ہیں مکرم بشیر احمد صاحب السلام علیکم ورحمتہ اللہ وعلیکم السلام ورحمتہ اللہ وبرکاتہ بشیر صاحب آپ اپنا سوال پوچھیں ایک دعا کے سلسلے میں میرا ایک سوال ہے جی.

00:35:00

دعا کے سلسلے میں جی بشیر صاحب آپ کی آواز آ رہی ہے آپ اپنا سوال پوچھیے اچھا یہ ہم ہم ہمیشہ حضور کو دعا کے لیے درخواست کرتے رہتے ہیں میں کچھ نہ کچھ اس کا علامات معلوم پڑتا ہے اگر اپنے کوئی ایسے بندہ ہے اس سے دعا کے لیے ہم درخواست کرتے ہیں تو ان کا دعا قبول ہوا ہے بلکہ ہمیں کس طرح پتہ لگے گا اس کے لیے کوئی علامت ہے وہی بندے سے ہمارا دعا قبول ہوا ہے یہ کیسے معلوم میں محترم مولانا منیر احمد خادم صاحب سے درخواست کرتا ہوں کہ اختصار کے ساتھ اس سوال کا کچھ جواب بتائیے انہوں نے یہ سوال کیا ہے کہ دعا کے لیے ہم حضور کی خدمت میں لکھتے ہیں اسی طرح بعض اور لوگوں کو بھی لکھتے ہیں تو اب دعا کے لیے جس کو کہا گیا تھا ہمیں کیسے پتہ لگے گا کہ دعا ان کی قبول ہوئی کہ ان کو قبول ہوئی آپ نے دعا کے لیے لکھا ہے آپ کی دعا جو آپ کا منشا تھا وہ قبول ہوئی ہے تو سب سے پہلی بات تو یہ ہے کہ ہم لوگوں کا سب کا ایمان اور یقین تو یہ ہے کہ دعاؤں کی قبولیت کا جو خزانہ اللہ تعالی نے ہم کو عطا فرمایا وہ خلیفہ وقت ہیں جب خلیفہ جب وہ دعا آپ کی قبول ہو گئی تو سب سے پہلے اللہ تعالی نے خلیفہ وقت کی دعا کو ہی قبول فرمایا ہے پھر انہیں پیروی میں اگر آپ بعض اور لوگوں کو بھی کہتے ہیں اور انہوں نے بھی دعا کی ہے اور وہ بات جو آپ نے دعا کے لیے کہی تھی وہ پوری ہوئی اللہ تعالی نے اپنے فضل سے پوری فرما دی تو وہ اب انہی کی پیروی میں اور لوگوں کی دعائیں بھی قبول ہوئی ہم یہ نہیں کہہ سکتے کہ یہ سوال ذرا تھوڑا سا عجیب سا لگ رہا ہے مجھے کہ اصل دعا کے لیے ہم لکھتے ہیں خلیفہ وقت کی خدمت میں خلیفہ وقت اس وقت خدا تعالی کے نمائندہ ہیں اور کی خدمت میں جب ہم دعا کے لیے لکھتے ہیں تو اللہ ہمیں اس بات کا یقین بھی ہے کہ اللہ تعالیٰ دعائیں قبول کرتا ہے بعض ایسے ایسے لوگ بھی ہیں ہر ایک انسان کی زندگی میں ایسی باتیں اللہ تعالیٰ کے فضل و کرم سے ہوئی ہیں ہر احمدی کی زندگی میں کہ وہ آپ کو بتائیں گے کہ ہم نے حضور کی خدمت میں دعا کے لیے لکھا اور ابھی یہاں سے خط post کیا اور اللہ تعالیٰ نے اپنے فضل سے دعا کو قبول فرما لیا خود بشیر صاحب کی زندگی میں بھی ایسی باتیں ہوں گی ہماری اب سب کی میں ایسی باتیں ہیں.

00:37:26

تو دعا تو اسی کی قبول اللہ تعالی فرماتا ہے جس کو خدا نے اپنا نمائندہ بنایا ہوتا ہے. لیکن اس کے ساتھ ہم یہ کہتے ہیں ہم آپس میں احمدی بھائی بھی ایک دوسرے کو دعا کے لیے کہتے ہیں. اور ایک دوسرے کے لیے دعا کرتے بھی ہیں. اور اس میں نقطہ یہ ہے. کہ دعا جب کسی کو کے لیے کہا جاتا ہے.

00:37:47

دعا کے لیے اور اللہ تعالی دعا قبول کرتا ہے. تو ایسا ہی شخص دعا کرتا بھی ہے اور اس کی دعا قبول بھی ہوتی ہے. جس کا تعلق ہوتا ہے اس شخص کے ساتھ. جو دعا کے لیے کہہ رہا اسی لیے بعض ایسے صوفیا کے بارے میں بھی مشہور ہے کہ وہ جو جب کوئی دعا کے لیے کہنے کے لیے آتا ہے تو اس کو کہتے ہیں کہ کچھ میٹھا لے آؤ تو میٹھا کھانے کے بعد پھر دعا کرتے ہیں تو ان کا مقصد یہ تھا کہ دعا کے لیے جو کہہ رہا ہے اس کے ساتھ ہمارا ایک تعلق قائم ہو جائے تو ہمارا پختہ ایمان ہے اللہ تعالی کے فضل و کرم سے کہ خلیفہ وقت کے ساتھ ہمارا ایسا ہی پختہ تعلق ہے اور اس پختہ تعلق کے نتیجے میں دعائیں قبول ہوتی ہیں پھر کے بعد جو دوسرے لوگ ہیں ان میں جیسے والدین ہیں یا اور بہت قریبی رشتہ دار ہیں جو اس دعا کے نتیجے میں اللہ تعالی کی طرف ان کی توجہ مائل ہوتی ہے کہ ہم نے اس کے لیے دعا کرنی ہے جو پھر ساری ساری رات اٹھ کے روتے بھی ہیں جیسے ماں باپ ہیں بچوں کے لیے روتے ہیں اللہ تعالی ان کی دعاؤں کو قبول کرتا ہے تو دعا کی قبولیت کا جو نقطہ ہے وہ ہے تعلق اور تعلق بلا تعلق بھی خلیفہ وقت کے ساتھ ہے ہم سب کا اور تعلق بلا بھی اسی کو حاصل ہے تو اس لیے اس سوال کے جواب میں بالکل جو ہے وہ صاف ہو جانا چاہیے کہ جو جو دعائیں ہیں وہ اللہ تعالی اس شخص کی قبول کرتا ہے جس کا خدا سے تعلق ہو اور پھر قبولیت اس رنگ میں بھی ہوتی ہے کہ جو دعا کے لیے کہنے والا ہے اس کا کتنا تعلق ہے اسی لیے حضور ہمیں ہمیشہ یہ بات بیان فرماتے ہیں کہ دیکھو جو میرے ارشادات ہیں جو میرے فرمودات ہیں جو میں بیان کرتا ہوں ان کو غور سے سنو ان کو ان کے اوپر عمل کرو ایک بات دوسری بات حضور یہ بھی بیان فرماتے ہیں دیکھو اگر تم میرے لیے مجھے دعا کے لیے لکھتے ہو تو اس کے لیے گر یہ ہے تم خدمت دین کی طرف آ جاؤ اگر کوئی خدا تعالی کی طرف سے کے حوالہ سے تم کو دینی خدمت سپرد کی گئی ہے تو اس دینی خدمت کو اس رنگ میں بجا لاؤ کہ اس کے نتیجے میں میرے ساتھ آپ کا تعلق قائم ہو جب تعلق قائم ہو گا تو اس کے لیے دعائیں کرنے کی طرف توجہ بھی پیدا ہوتی ہے تو ایک تو یہ ہے کہ ہم خلیفہ وقت کے ساتھ مضبوطی سے تعلق قائم کریں دوسری بات یہ ہے کہ ہم دینی خدمات کی طرف متوجہ ہوں تو تعلق کے نتیجے میں اللہ تعالیٰ پھر حضور کی دعائیں سنتا ہے اور دوسرے لوگوں کی بھی تو ہمیں دعائیں بھی حصہ رکھ دی جیسا جیسا ان کا تعلق ہوتا ہے سنتا رہتا ہے اللہ تعالیٰ تو یہ تو ایک بہت بڑی نعمت ہے اللہ تعالیٰ کی جو ہم احمدیوں کو حاصل ہے اس بات کو ہمیشہ یاد رکھنا چاہیے کہ آج دعائیں اور دعاؤں کی قبولیت کا جو نشان ہے وہ صرف اور صرف جماعت احمدیہ سے خاص ہے باقی سب لوگوں میں صرف ایک رسم ہے کہ میرے لیے دعا کرنا میرے لیے دعا کرنا اس کے لیے دعا آپ دیکھ لیں کوئی ایسی خاص بات نظر نہیں آتی لیکن یہاں پر دعاؤں کے کہنے والے اور دعاؤں کے کرنے والے میں ایک عجیب و غریب قسم کی اللہ تعالی کی طرف سے جو ہے وہ رقت بھی ہوتی ہے سلیقہ بھی ہوتا ہے طریقہ بھی ہوتا ہے اور یہ سب ہم کو حضرت اقدس علیہ الصلوۃ والسلام نے سمجھایا ہے اور پھر اس میں ایک بات اور بڑھا دیتا ہوں کہ اسلامی اصول کی فلاسفی میں بھی حضور نے دعاؤں کی قبولیت کے گر بتائے ہیں تو اس کتاب کو بھی اگر غور سے پڑھیں گے نا تو اس میں بھی ان کو باتیں مل جائیں گی جزاک اللہ تعالی حسن الجزا program کو آگے بڑھاتے ہوئے خاکسار کا اگلا سوال محترم مولانا منیر احمد خادم صاحب سے یہی ہے کہ حقیقی شجاعت سچائی صبر اور ہمدردی خلق کے متعلق حضرت مسیح مودی علیہ الصلاۃ والسلام نے اس مضمون میں کیا بیان فرمایا ہے شجاعت جو ہے اس کے معنی ہیں بہادری کے اور حضرت مسیح محمد علیہ الصلاۃ والسلام نے فرمایا کہ یہ بھی ایک طبعی حالت ہے جو سب بعض انسانوں میں بھی اور یہاں تک کہ بعض جانوروں میں بھی پائی جاتی ہے.

00:41:44

بعض درندے بھی جو ہیں دوسرے کے اوپر حملہ کرتے ہیں.

00:41:48

تو ہم نہیں کہہ سکتے کہ وہ بڑا بہادر ہے اور با اخلاق ہے.

00:41:53

اخلاق کی جو شکل ہے اس میں تب پیدا ہوتی ہے جب وہ اس خلق کو موقع اور محل کے مطابق استعمال کرے حضرت اقدس علیہ الصلاۃ والسلام نے اس کی آگے قرآن مجید سے مثالیں دی ہیں حضور فرماتے ہیں یہ جو آیات ہیں سورۃ البقرہ سورۃ اور سورہ آل عمران اور سورہ انفعال کی ہیں ان کا ترجمہ حضور نے جو فرمایا وہ اس طرح ہے یعنی بہادر وہ لوگ ہیں کہ جب لڑائی کا موقع آ پڑے یا ان پر کوئی مصیبت آ پڑے تو بھاگتے نہیں ان کا صبر لڑائی اور سختیوں کے وقت میں خدا کی رضا مندی کے لیے ہوتا ہے تو سب سے بڑا بہادر وہ ہوا جو صابر ہوتا ہے حضور نے یہاں یہ بیان فرمایا اور اس کے کے وہ طالب ہوتے ہیں نہ کہ بہادری دکھلانے کے فرماتے ہیں کبھی تو وہ اپنی ذاتی شجاعت سے اپنے نفس کے جذبات کا مقابلہ کرتے ہیں ایک بہادری تو دشمن سے مقابلہ ایک بہادری یہ ہوتی ہے اپنے نفس سے مقابلہ نیکیوں کو اختیار کرنے کے لیے باوجود شیطان کے اکسانے کے ڈٹ جانا یہ بھی ایک بہت بڑی بہادری ہے تو حضور نے ایک اور یہ نقطہ شجاعت کا اور بہادری کا بیان فرمایا کبھی تو وہ اپنی ذاتی شجاعت سے اپنے نفس کے جذبات کا مقابلہ کرتے ہیں اور اس پر غالب آتے ہیں اور کبھی جب دیکھ کہ دشمن کا مقابلہ قرینہ مصلحت ہے تو نہ صرف جوش نفس سے بلکہ سچائی کی مدد کے لیے دشمن کا مقابلہ کرتے ہیں مگر نہ اپنے نفس پر بھروسہ کر کے مگر خدا پر بھروسہ کر کے بہادری دکھاتے ہیں اور ان کی شجاع شجاعت میں ریاکاری اور خود بینی نہیں ہوتی یہ شجاعت کا ایک اور خلق حضور نے بیان فرمایا کہ حقیقی شجاع با اخلاق شجاع وہ ہے کہ جب وہ بہادری دکھاتا ہے تو اس کی اس کے اندر نہیں ہوتا ریاکاری نہیں ہوتی خود بینی نہیں ہوتی فرمایا اور نہ نفس کی پیروی بلکہ ہر ایک پہلو سے خدا کی رضا مقدم ہوتی ہے اگلا سوال آپ نے فرمایا کہ سچائی کے بارے میں حضرت مسیح علیہ السلام نے اس خلق کے بارے میں کیا بیان فرمایا تو یہ بھی میں آپ کو خلاصہ بتاتا ہوں حضور نے فرمایا اور من جملہ انسان کی طبعی حالتوں کے جو اس کی فطرت کا خاصہ ہے سچائی ہے انسان جب تک کوئی غرض نفسانی اس کی محرک نہ ہو جھوٹ بننا نہیں چاہتا تبھی جذبہ ہے انسان کے اندر سچائی کا کبھی کوئی انسان خود سے جھوٹ نہیں بولتا سوائے اس کے کہ جھوٹ بولنے کے لیے کوئی بہت زیادہ مجبور ہو جائے اس کا نقصان ہوتا ہو اور کوئی پریشانی آتی ہو تو جھوٹ بولتا ہے تو اخلاق کیا ہے یہی پہ اخلاق بھی اسی کے اندر اخلاق کا بیج پھوٹ پڑا کیا کہ ان حالات میں جب انسان سچائی کو اختیار کرے گا تو وہ با اخلاق انسان ہو جائے گا اس کے لیے حضرت اقدس مسیمد علیہ الصلاۃ والسلام نے بعض آیات پیش فرمائی ہیں اور بعض تفاسیل بیان فرمائی کہ سچائی کیا فرماتے ہیں.

00:45:20

گواہوں کو بلایا جائے تو وہ انکار نہ کریں یعنی سچی گواہی دینے کے لیے بلایا گیا ہے تو کوئی ڈر جائے کہ میں سچی گواہی دوں گا تو میرا نقصان ہو جائے گا فرمایا کہ وہ با اخلاق نہیں کہلا سکتا سچائی کے معاملے میں فرمایا گواہی کو مت چھپاؤ جو اس کو چھپائے گا تو اس کا دل گنہگار ہے جب کہو تو انصاف کی بات کیا کرو چاہے قریبی رشتہ داروں کے خلاف ہی انصاف کرنا پڑے یہ ہے سچائی آگے فرماتے ہیں کھڑے ہو جاؤ انصاف کے لیے گواہی دیتے ہوئے خواہ وہ تم کو گواہی اپنے والدین کے خلاف دینی پڑے خواہ اپنے خلاف دینی پڑے والدین چاہے قریبی رشتہ داروں کے خلاف یہی تین ہیں اپنے خلاف کوئی آدمی جھوٹ بول سچائی اگر اس کا نقصان ہوتا ہو تو بہت مشکل ہو جاتی ہے والدین بھی آڑے آ جاتے ہیں رشتہ دار بھی آڑے جاتے ہیں تو قرآن مجید فرماتا ہے کہ دیکھو سچائی یہ ہے سچائی کا اگر استعمال کرنا چاہتے ہو بااخلاق طور پر سچائی کی خاطر بننا چاہتے ہو تو یہ ہے اصل سچائی آگے فرماتے ہیں یعنی سچائی کے کا جو خلق ہے اس پر خود قائم نہیں رہتے بلکہ اوروں کو بھی نصیحت کرتے رہتے ہیں کہ آؤ بھائی تم بھی صبر کی طرف آؤ آؤ بھائی تم بھی حق کی طرف آؤ آؤ بھائی تم بھی سچائی کی طرف آؤ تو آگے فرماتے ہیں اگلا جو سوال کیا ہے وہ ہے صبر کے بارے میں صبر کے بارے میں فرماتے ہیں من جملہ انسان کے طبی امور کے ایک صبر ہے جو اس کو ان مصیبتوں اور بیماریوں اور دکھوں پر کرنا پڑتا ہے جو اس پر ہمیشہ پڑتے ہیں اور انسان بہت سے سیاپے اور جزا فضا کے بعد صبر اختیار کرتا ہے لیکن جاننا چاہیے کہ خدا تعالی کی پاک کتاب کی روح سے وہ صبر اخلاق میں داخل نہیں ہے بلکہ وہ ایک حالت ہے جو تھک جانے کے بعد ضرورتا ظاہر ہو جاتی ہے تو صبر کیا ہوا کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم فرمایا ایک شخص کو کہ جب اس کو حضور نے نصیحت کی تو وہ کہنے لگا کہ بھئی اگر عورت تھی کہ اگر آپ کے کوئی بچے فوت ہوتے تو ہم دیکھتے تو لوگوں نے بتایا کہ حضور ہیں تو تم ایسی باتیں کر رہے ہیں کہ مجھے میں نے پہچانا نہیں تھا تو میں اب صبر کرتی ہوں حضور نے فرمایا نہیں صبر پہلے صدمے کے وقت ہی ہوتا ہے تو حضور نے اس کی صبر کی ایک خلق کے حوالے سے ایک یہ نقطہ فرمایا کہ صبر کیا ہے کہ جب انسان کے اوپر مصیبت اور پریشانی آ جائے تو اسی پہلے مرحلے پر صبر اختیار کرے آگے فرماتے ہیں میں چھوڑتا ہوں ایک ہے ہمدردی خلق آخری ہے یہ کہ ہمدردی خلق کا یہ حضور فرماتے ہیں کہ منجملہ انسان کے طبعی امور کے جو اس کی طبیعت کے لازم حال ہیں یہ ہے ہمدردی خلق کا ایک جوش قومی حمایت حضور فرماتے ہیں جانوروں میں بھی ہوتا ہے جب کسی کوے کو نقصان پہنچایا جائے تو سارے کوے اکٹھے ہو جاتے ہیں اسی طرح انسان اگر ایک دوسرے کے لیے اکٹھے ہو جائیں تو یہ کوئی نہیں اسلام کون سی قومی ہمدردی کی طرف بلاتا ہے انسان اس قومی ہمدردی کی طرف بلاتا ہے کہ یہ نہیں دیکھنا کہ کون طبقہ ہے کون رنگ ہے کون نسل ہے کس خطے کا آدمی ہے اس کے لیے ہم بھلائی کریں گے اس کی خدمت کریں گے اس کی ہمدردی نہیں اسلام نے جو تعلیم دی ہے اور یہ اسلام کی پہلی تعلیم ہے اور اس سے پہلے کسی مذاہب کے اندر ایسی تعلیم نہیں آئی باقی مذاہب میں تو قوموں خطوں نسلوں وغیرہ کے اعتبار سے سانوں کو تقسیم کیا گیا لیکن آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے خطبہ حجۃ الوداع کے موقع پر جو خطبہ دیا اس میں اس بات کو بالکل واضح کر دیا کہ قومی ہمدردی اصل کیا چیز ہے تو حضرت علیہ الصلاۃ والسلام فرماتے ہیں کہ تعاون کرو نیکی اور تقویٰ کے معاملے میں نہ کہ گناہ اور زیادتی کے معاملے معاملے میں تو یہ ہے اسلام کی ہمدردی ہمدردی خلق اللہ تعالی ہم سب کو حضرت اقدس علیہ الصلوۃ والسلام کی نصیحتوں پر عمل کرنے کی توفیق عطا فرمائے جزاکم اللہ تعالی program کو آگے بڑھاتے ہوئے خاکسار اپنا اگلا سوال محترم مولانا کے طارق احمد صاحب سے کرنا چاہتا ہے کہ حضرت مسیح مود علیہ الصلاۃ والسلام نے یہ فرمایا ہے کہ انسان کی فطرت میں اس امر کو ودیت کیا گیا ہے کہ وہ ایک برتر ہستی کی تلاش کرے تو اس بارے میں کچھ وضاحت فرمانے کی درخواست ہے جزاکم اللہ یہ بھی بڑا سوال ہے اور بڑا اہم اور گہرا مضمون ہے جو حضرت اقدس مسیح علیہ السلام نے بیان فرمایا ہے اور آج کل جتنی بھی برائیاں ہم دیکھتے ہیں حضور انور رضی اللہ تعالی بن عصر عزیز بار بار اس طرف اشارہ فرماتے ہیں کہ انسان چونکہ خدا تعالی سے دور ہوتا چلا جا رہا ہے اس وجہ سے فتنہ و فساد میں ملوث ہے اور ظلم اور تابدی میں جو ہے وہ انسان بڑھتا چلا جا رہا ہے تو اس خدا کو پہچاننے کی بڑی ضرورت ہے اور خاص طور پر عصر حاضر میں اس کی طرف توجہ کرنے کی بہت زیادہ ضرورت ہے حضرت اقدس مسیح علیہ السلام نے یہ بات بیان فرمائی ہے کہ انسان کی فطرت میں اللہ تعالی نے یہ بات ودیت کر رکھی ہے کہ وہ اپنے سے برتر ہستی کو تلاش کرنے میں مصروف رہتا ہے اور اس کی طرف ایک کشش محبت بھی جو ہے وہ انسان کی فطرت میں ودیت کر رکھی گئی ہے حضرت اقدس علیہ السلام نے بیان فرمایا ہے کہ جب بچہ پیدا ہوتا ہے تو سب سے پہلی جو روحانی کیفیت اس کے اندر ظاہر ہوتی ہے وہ یہ ہے کہ وہ بچہ اپنی ماں کی طرف جو مائل ہوتا ہے اور ماں کے ساتھ جو ہے وہ اس کی محبت اس کے اندر جا گزری ہوتی ہے اور جیسے جیسے وہ بچہ بڑھتا چلا جاتا ہے وہ اس کے حواس جو ہیں وہ کھلتے چلے جاتے ہیں اور اس کا نشونما ہوتا ہے تو وہ اس محبت میں مزید بڑھتا چلا جاتا ہے یہاں تک کہ بجوز ماں کی گود کے اس بچے کو اور کہیں آرام ہی نہیں ملتا ہے اور آپ جتنی بھی اچھی چیزیں ہیں اور جتنی بھی نعمتیں ہیں اس کے سامنے پیش کرتے ہیں لیکن جب ماں جب اس کو چاہیے ہوتا ہے تو وہ کسی چیز کی پرواہ نہیں کرتا ہے حضرت اقدس مسیح موذ علیہ الصلاۃ والسلام نے فرمایا کہ یہ جو ایک بچے کے اندر والدہ کے لیے جو کشش محبت پیدا کی گئی ہے یہ دراصل کیا ہے آپ علیہ السلام نے یہ سوال اٹھایا ہے اور آپ نے خود ہی اس کا جواب ارشاد فرمایا آپ نے فرمایا کہ یہی دراصل معبود حقیقی کی تلاش میں جو ہے وہ انسان لگا رہتا ہے پھر حضرت اقدس مسیحا السلام نے فرمایا کہ جب انسان بڑا ہو جاتا ہے تو وہ مال سے بھی محبت کرنے لگتا ہے پھر اس کی بیوی ہے اس سے محبت کرنے لگتا ہے پھر اپنی اولاد سے بھی محبت کرتا ہے یا اوقات کوئی اچھی آواز میں کوئی گیت سن لیتا ہے تو وہ اس کو پسند آ جاتی ہے تو حضرت اقدس علیہ السلام نے اس کی مثال دی ہے کہ جس طرح انسان کوئی چیز کھو لیتا ہے اور مختلف چیزیں اس کے سامنے پڑی ہوئی ہیں تو وہ ایک ایک کو اٹھا کے جو ہے وہ ٹٹولتا ہے کہ کہیں یہ تو نہیں وہ میری والی محبت یا کہیں یہ تو نہیں جو میرے اندر فطری طور پر میں جس چیز کو تلاش کر رہا ہوں تو حضور علیہ السلام نے فرمایا کہ یہ جو باقی محبتیں انسان کے دل میں پیدا ہوتی ہیں یہ دراصل وہ کیفیت ہے کہ انسان اصل جو کشش ہے اس کو تلاشنے کے لیے مختلف محبتوں کو ٹٹولتا ہے اس کو محسوس کرتا ہے لیکن پھر بھی اس کو اس میں تسلی جو ہے وہ نہیں ملتی ہے چنانچہ حضرت اقدس علیہ السلام نے فرمایا ہے کہ انسان کو جب کوئی نعمت خدا تعالیٰ کی طرف سے دی جاتی ہے تو وہ اس نعمت سے تو محبت کرنے لگ جاتا ہے لیکن جس حستی نے اس کے لیے وہ چیز فراہم کی ہے جسے اس کی جو ہے نا وہ دل لگ چکا ہے اس ہستی کی طرف انسان کو جو ہے وہ توجہ نہیں ہے اور حضرت اقدس وسیم علیہ السلام نے فرمایا کہ یہاں پر انسان جو ہے خدا تعالی پانے میں جو ہے وہ غلطی کرتا ہے حضور علیہ السلام نے قرآن مجید کی مثال دی ہے کہ خدا تعالیٰ کی ہستی جو ہے وہ ایک شیش محل کی طرح ہے کہ شیشہ ہے اس کے نیچے پانی بہتا ہے تو انسان اوپر سے دیکھتا ہے کہ یہ تو پانی ہے اور اس میں پیر رکھنے سے بھی ڈرتا ہے کہ میں کہیں بہہ جاؤں لیکن اس کو یہ احساس نہیں ہوتا ہے کہ اس کے اوپر شیشہ ہے تو حضرت اقدس مسیح محمد علیہ الصلاۃ والسلام فرماتے ہیں کہ انسان ذرائع کو دیکھتا ہے اور ان ذرائع پر جو ہے وہ دل لگا کر بیٹھتا ہے لیکن جو اصل اس کے محرک ہے جو ہستی ہے جو کہ خدا تعالیٰ کی اس کی طرف اس کو جو ہے وہ توجہ نہیں ہے پھر حضرت اقدس مسیح علیہ الصلاۃ والسلام نے مختلف سائنسدانوں کی بھی مثال دی ہے کہ دنیا کی جو ہے نا وہ اس حد تک انہوں نے کھوج کی ہے اجرا میں فلکی کو انہوں نے دیکھا ہے اور اگر زمین کے حوالے سے انہوں نے تحقیق شروع کی تو زمین میں ہی جو ہے وہ دھنس گئے اور مختلف انہوں نے جو ہے نا وہ انکشافات بھی دنیا کے سامنے پیش کیے ہیں لیکن جب وہ دیکھتے ہیں کہ یہ بڑا مضبوط نظام ہے ابلغ نظام ہے ایک محکم نظام ہے تو وہ یہ کہہ دیتے ہیں کہ اس کا بنانے والا کوئی ہونا چاہیے۔ یہ جو دنیا کا جو یہ کاروبار ہے یہ ایسے نہیں چل رہا یا دنیا جو اللہ تعالی نے پیدا کیا ہے یہ ایسا ہی نہیں پیدا ہوا بلکہ خالق ہے اس کے پیچھے جس نے اس دنیا کو بنایا ہے۔ تو یہاں پر وہ یہ کہتے ہیں سائنسدان اور philosopher کے خدا ہونا چاہیے۔ تو حضرت اقدس علیہ السلام نے فرمایا کہ یہ جو ہے یہ ناقص معرفت ہے۔ اور حضور نے فرمایا کہ ناقص معرفت کا نقصان ہوتا ہے۔ اس کی حضور نے یہ مثال دی کہ مثال کے طور ایک کھوٹری ہے وہ کوٹھری جو ہے وہ اندر سے جو ہے وہ زنجیریں لگی ہوئی ہیں تالا بند ہے تو باہر جو انسان کھڑا ہے وہ یہ سوچتا ہے کہ یہاں پر یہ کھوٹری ہے اور اندر سے جو ہے وہ زنجیر لگی ہوئی ہے اور باہر کھڑا ہوا انسان کیا کرتا ہے وہ آواز دینا شروع کرتا ہے مالک کو لیکن جب صدیوں سے اور سالوں سے آواز دیتا رہتا ہے اور کوئی آ کے کھول نہیں رہا اس کنڈی کو تو پھر انسان کا جو خیال ہے وہ تبدیل ہو جاتا ہے وہ سوچتا ہے کہ شاید اس کے پیچھے کوئی ہے نہیں کنڈی لگانے والا تو حضور نے فرمایا ہے کہ یہ جو ہونا چاہیے کا ہے اور انسان یہاں پر جو ہے وہ آواز دیتا رہتا ہے کہ ہونا چاہیے اور جو خالق ہے وہ سامنے آئے تو اگر اسی خیال میں برقرار رہتا ہے تو پھر انسان جو ہے وہ اپنا نقصان اٹھاتا ہے اور وہ اپنے خالق حقیقی کو جو ہے نہیں پہچان سکتا ہے تو آگے پھر حضرت اقدس علیہ السلام نے فرمایا ہے کہ جب انسان اپنی روحانی حالتوں کو بہتر کرتا ہے تو اس کے نتیجے میں اس کو خدا تعالی سے ہی مدد مانگنی چاہیے مسیح علیہ السلام نے فرمایا ہے کہ اگر انسان خود ہی اپنی محنت سے تلاش کر کے خدا کو پا لے تو وہ کیا ہستی ہوئی بلکہ آپ علیہ السلام نے کہ خدا تعالیٰ کا وجود ایسا ہے کہ عن الموجود کی آواز جو ہے وہ خود بخود خدا تعالیٰ دیتا ہے حضرت اقدس علیہ السلام نے قرآن مجید کے حوالے سے بھی آیت پیش فرمائی ہے کہ آپ نے فرمایا کہ قرآن مجید میں آتا ہے کہ انسان اپنی آنکھوں سے خدا تعالی کو نہیں حاصل کر سکتا ہے لیکن اللہ تعالی خود وہ بصارت انسان کو عطا کرتا ہے جس کے نتیجے میں وہ خدا کی شناخت اس کو حاصل ہوتی ہے اور اس خدا کو جو ہے وہ پہچانتا ہے طرح قرآن مجید میں یہ بھی اللہ تعالی نے بیان فرمایا ہے کہ جب انسان خدا تعالی کو پانے کے لیے کوشش کرتا ہے اور اپنی روحانی حالت کو بہتر کرنے کے لیے کوشش میں لگا رہتا ہے اور خدا تعالی سے اس کے لیے دعائیں مانگتا ہے تو پھر اللہ تعالیٰ اپنے قرب کے راستے جو ہیں وہ اس کو دکھا دیتا ہے یہاں پر حضرت اقدس حضور علیہ الصلوۃ والسلام فرماتے ہیں کہ انسان کا خدا تعالی پر کامل ایمان اسی وقت ممکن ہو سکتا ہے جب خدا تعالی اپنے وجود کا اس پر اظہار کرتا ہے اور آپ نے فرمایا کہ وہ وحی وحی اور الہام کے ذریعے سے ہوتا ہے کہ جب خدا انسان کے ساتھ ہم کلام ہونا شروع کر دیتا ہے اور اس پر الہام کرنا شروع کر دیتا ہے تو اس کے نتیجے میں صحیح معنوں میں ایک انسان کو خدا تعالی کی معرفت جو ہے وہ حاصل ہوتی ہے اور اس معرفت میں جو ہے وہ انسان ترقی کرتا چلا جاتا ہے لیکن انسان کی اس دنیاوی زندگی ایک محدود ہے یہ تو نہیں ہم کہہ سکتے ہیں کہ خدا تعالی مکمل طور پر کسی نے جو ہے اس کی کامل معرفت حاصل کر لی ہے جتنا اللہ تعالی اپنے وجود کے تعلق سے کسی شخص پر انکشاف فرماتا ہے اتنا اس کی جو ہے نا وہ خدا تعالی کا قرب اس کو حاصل ہوتا ہے اور قرب کی نشانیاں جو ہے وہ ہم اپنی زندگیوں میں مشاہدہ کر سکتے ہیں کہ خدا تعالیٰ ہماری دعاؤں کو جو ہے وہ سنتا ہے ان کو قبول کرتا ہے یا ہماری تکلیف کو جو ہے نا وہ دور کر دیتا ہے جب ہم جو چیز اسے مانگتے ہیں وہ چیز ہمیں عطا کر دیتا ہے تو یہ وہ نشانیاں ہیں جس سے ہمیں معلوم ہوتا ہے کہ ہم نے خدا کو کسی حد تک جو ہے وہ حاصل کر لیا ہے اور اس کی معرفت کے حصول کے حصول کا جو راستہ ہے جو سیڑھی ہے اس میں جو ہے وہ ہم ترقی کرتے چلے جاتے ہیں تو اللہ تعالی ہمیں حضرت اقدس نے خدا تعالی کی ہستی کی معرفت کے حوالے سے جو باتیں کتاب اسلامی اصول کی فلاسفی میں بیان فرمائی ہیں اس کو سمجھنے کی بھی توفیق عطا فرمائے اور جن باتوں کے حوالے سے آپ علیہ السلام نے اس کو اپنانے کی طرف ہمیں نصیحت فرمائی ہے ان باتوں کو اپنانے کی بھی اللہ تعالی ہم سب کو توفیق عطا فرمائے جزاکم اللہ تعالی ثناء الجزا ناظرین کرام اس کے ساتھ ہی ہمارے آج کے اس episode کے اختتام کا وقت ہوا چاہتا ہے program کے اختتام پر خاکسار سیدنا حضرت اقدس مسیح موعود علیہ الصلاۃ والسلام کا ایک اقتباس پیش کرے گا سیدنا حضرت اقدس مسیح موعود علیہ الصلاۃ والسلام فرماتے ہیں یہ لوگ سمجھتے نہیں کہ ہم میں کون سی بات اسلام کے خلاف ہے ہم لا الہ الا اللہ کہتے ہیں اور نمازیں بھی پڑھتے ہیں اور روزے کے دنوں میں روزے بھی رکھتے ہیں اور زکوۃ دیتے ہیں مگر میں کہتا ہوں کہ ان کے تمام اعمال اعمال صالحہ کے رنگ میں نہیں ہیں بلکہ محض ایک post کی طرح ہیں جن میں مغز نہیں ہے ورنہ اگر یہ اعمال صالحہ ہیں تو پھر ان کے پاک نتائج کیوں پیدا نہیں ہوتے اعمال صالحہ تب ہو سکتے ہیں کہ وہ ہر قسم کے فساد اور ملاوٹ سے پاک ہوں لیکن ان میں یہ بات کہاں ہیں میں کبھی یقین نہیں کر سکتا کہ ایک شخص مومن اور متقی ہو اور اعمال صالحہ کرنے والا ہو اور وہ اہل حق کا دشمن ہو یہ لوگ ہم کو بے قید اور دہریہ کہتے ہیں اور خدا تعالی سے نہیں ڈرتے میں نے اللہ تعالی کی قسم کھا کر بیان کیا کہ مجھ کو اللہ تعالی نے معمور کر کے بھیجا ہے اور اگر اللہ تعالی کی کچھ عظمت ان کے دل میں ہوتی تو وہ انکار نہ کرتے اور اس سے ڈر جاتے کہ ایسا نہ ہو کہ ہم خدا تعالی کے نام کی تخفیف کرنے والے ٹھہریں لیکن یہ تب ہوتا جبکہ ان میں حقیقی اور اصل ایمان اللہ تعالی پر ہوتا اور وہ یوم الجزا سے ڈرتے علم پر ان کا عمل ہوتا۔ ملفوظات جلد اول صفحہ تین سو ترتالیس ایڈیشن انیس سو پچاسی عیسوی مطبوعہ انگلستان۔ ناظرین اس کے ساتھ ہی ہمارے آج کے episode کا اختتام ہوتا ہے۔ انشاء اللہ تعالی اگلے episode میں اسی موضوع پر بات چیت کو آگے بڑھائیں گے۔ اجازت دیجیے۔ السلام علیکم ورحمة اللہ وبرکاتہ کے یہی نور خدا پر گے تمہیں بتایا کہ یہی نوح خدا پاک گے تمہیں بتایا

Leave a Reply