Ahmadi Muslim VideoTube Rahe Huda Rahe Huda 01 07 2023

Rahe Huda 01 07 2023



Rahe Huda 01 07 2023

آج یکم جولائی سن دو ہزار تئیس عیسویں ہفتے کا دن ہے انڈیا میں اس وقت رات کے دس بجے ہیں اور جی ایم ٹی کے مطابق اس وقت سہ پہر کے ساڑھے چار بجے ہیں اور ناظرین یہ وقت ہے program راہ خدا کا ناظرین قادیان دار الامان سے program راہ ہدا کے چار episodes پر مشتمل سیریز کے ساتھ ہم آپ کی خدمت میں حاضر ہوئے ہیں ہمارے viewers یہ بات جانتے ہیں کہ program راہ خدا ایک live discussion program ہے اور live ہونے کے ساتھ ساتھ یہ program ایک interactive program بھی ہے یہ program interactive اس حوالے سے ہے کہ ہمارے ناظرین ہمارے ساتھ ہمارے اس program میں جڑ سکتے ہیں ہمارے ساتھ شامل گفتگو ہو سکتے ہیں یعنی ہم سٹوڈیو discussion کے ساتھ ساتھ اپنے ناظرین کرام کی فون calls کو attend کرتے ہیں ان کے سوالات کو سنتے ہیں اور یہاں سٹوڈیو موجود علماء کرام کے panel میں ان سوالات کو پیش کرتے ہیں۔ اور ہمارے علمائے کرام اسی program کے ذریعہ ہمارے ناظرین کے سوالات کے جوابات دیتے ہیں۔ ناظرین آپ ہم سے ٹیلی فونز لائنز کے ذریعے رابطہ کر سکتے ہیں۔ اسی طرح text messages fax messages اور ای میل کی سہولیت بھی دستیاب ہے۔ تو ناظرین اگر آپ ہم سے ہمارے اس program میں جڑنا چاہتے ہیں۔ ہمارے ساتھ شامل گفتگو ہونا چاہتے ہیں۔ اور اپنے سوالات کے جوابات حاصل کرنا چاہتے ہیں۔ تو میں آپ کو یہ بتا کہ ہماری ٹیلی فونز لائنز اب سے activated ہیں اور ہمارے ناظرین اپنی ٹیلی vision سکرینز پر ہم سے رابطے کی تمام تفصیل ملاحظہ فرما رہے ہوں گے ناظرین جیسا کہ ابھی خاکسار نے عرض کیا کہ قادیان دارالامان سے program راہ خدا کے جو چار episodes پر مشتمل سیریز نشر کی جاتی ہے آج اس سیریز کا آغاز ہو رہا ہے اور آج کا یہ episode اس سیریز کا پہلا episode ہے ناظرین اس مکمل سیریز میں ہم سیدنا حضرت اقدس مسیح موعود علیہ الصلاۃ والسلام کی تصنیف لطیف اسلامی اصول فلاسفی کے تعلق سے بات چیت کریں گے ناظرین یہ وہ مضمون ہے جسے سیدنا حضرت اقدس مسیح مود علیہ الصلاۃ والسلام نے قلم بند فرمایا اور اس مضمون کے قلم بند ہونے کے وقت اللہ تعالی کی خاص تائید و نصرت آپ کے شامل حال رہی اللہ تعالی نے قبل is وقت ہی آپ علیہ السلام کو اس عظیم الشان مضمون کی کامیابی کی بشارت عطا فرمائی تھی ناظرین اس مضمون کے حوالے سے ان چاروں میں ہم بات چیت کریں گے اور اس میں حضرت مسیح موت علیہ الصلاۃ والسلام نے جو امور پیش کیے ہیں ان کا تذکرہ ہوگا ناظرین آ انسان کی جسمانی، روحانی اور اخلاقی حالتوں کے تعلق سے اس کتاب میں جو باتیں بیان کی گئی ہیں وہ باتیں بیان کی جائیں گی۔ انسان کی اس دنیاوی زندگی کے متعلق اور اس دنیاوی زندگی کے بعد موت کے بعد جو اس کی حالت ہے اس کے بارے میں بات کی جائے گی۔ اسی طرح ایک انسان کس رنگ میں حقوق اللہ اور حقوق العباد کی ادائیگی کر سکتا ہے اس بارے میں بھی بات چیت بات چیت ہوگی۔ ناظرین سٹوڈیو میں موجود علماء کرام کے panel میں اس بات کا بھی تذکرہ ہوگا کہ سیدنا اقدس مسیح موعود علیہ الصلاۃ والسلام کے اس عظیم الشان اور پر معرف مضمون کے مطالعہ کے کیا فوائد ہیں اس کتاب کو پڑھنے کے بعد ایک انسان روحانی علوم اور معارف سے کے خزانے سے کس طرح حصہ حاصل کر سکتا ہے کس طرح اپنے ذہن کو منور کر سکتا ہے اور کس طرح اللہ تعالی کا قرب حاصل کر سکتا ہے ناظرین ان امور پر بات چیت کرنے کے لیے خاکسار کے ساتھ آج کے episode میں جو دو علمائے کرام ہیں میں ان کا تعارف کروا دیتا ہوں محترم مولانا محمد حمید کوثر صاحب اور محترم مولانا شیخ مجاہد احمد شاستری صاحب آج کے اس program میں خاکسار کے ساتھ شامل گفتگو ہوں گے میں ہر دو حضرات کا اس program میں خیر مقدم کرتا ہوں ناظرین سیدنا حضرت اقدس مسیح موعود علیہ الصلاۃ والسلام نے ادیان عالم پر اسلام کی برتری اور دنیا بھر کی الہامی کتب پر قرآن مجید کی عظمت کو ثابت کرنے کی غرض سے ایک مضمون رقم فرمایا تھا۔ جسے لاہور میں منعقد ہونے والے جلسہ اعظم مذاہب میں پڑھ کر سنایا گیا۔ اس عظیم الشان مضمون نے آ اپنوں اور غیروں تمام کی طرف سے زبان کے ذریعہ اور قلم کے ذریعہ شاندار خراج تحسین وصول کیا تھا۔ ناظرین اس مضمون کی بعد میں جب اشاعت کی گئی تو اسلامی اصول کی فلاسفی کے نام سے اس مضمون کا نام رکھا گیا اور کتابی رنگ میں اس مضمون کو شائع کیا گیا ناظرین اس کتاب کو علم الادیان کے تقابلی جائزہ اور اسلام میں عبادات اور حقوق العباد کے philosophy کے حوالے سے عوام و خواص میں بہت سی مقبولیت حاصل ہوئی اور ایسی مقبولیت حاصل ہوئی کہ اب تک اس کتاب کی نسب سب سے زائد زبانوں میں تراجم شائع ہو چکے ہیں۔ ناظرین اس مختصر سی تمہید کے بعد خاکسار آج کے اس program کا پہلا سوال محترم مولانا محمد حمید کوثر صاحب سے یہ پوچھنا چاہتا ہے کہ سیدنا حضرت اقدس مسیح موعود علیہ الصلاۃ والسلام نے کس مقصد کے تحت اس مضمون کو جس کا نام اسلامی اصول کی فلاسفی رکھا گیا ہے آپ نے یہ تحریر فرمایا۔ ناظرین کرام اللہ تعالی نے قرآن مجید کی سورہ صف میں بیان فرمایا وہ اللہ ہی ہے جس نے اپنے رسول کو ہدایت کے ساتھ بھیجا اور سچے دین کے ساتھ تاکہ اسے غالب کرے تمام ادیان پہ اس کو غلبہ عطا فرمائے یہ اس کا مقصد ہے سورہ صف کی اس آیت کے پہلے مخاطب سیدنا حضرت محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وسلم ہیں.

00:07:46

اور اس کے دوسرے مخاطب آپ کی بعثت ثانیہ کے مظہر حضرت مرزا غلام احمد صاحب قادیانی علیہ السلام ہیں.

00:07:57

آپ کے دور میں یہ پیش گوئی کس طرح پوری ہوئی اس کی بہت سی مثالیں ہیں.

00:08:03

سب سے پہلے اٹھارہ سو اسی سے اٹھارہ سو چوراسی تک جب حضرت مسیح ماؤد علیہ الصلاۃ والسلام نے براہینہ احمدیہ کے چار حصے تقسیم فرمائے. اور اس میں تمام ادیان کے سربراہان کو یہ چیلنج دیا یا دعوت دی. کہ جتنی خصوصیات اور خوبیاں اور کمالات میں نے اسلام اس کتاب میں پیش کیے ہیں اگر تم اتنے نہیں تو ان سب کو بالترتیب توڑ بھی دو گے تب بھی میں تمہیں دس ہزار روپیہ انعام دوں گا یہ پہلا وہ غلبہ تھا یہ اس کا پہلا ثبوت تھا کہ ابراہیم احمدیہ کا کوئی جواب لکھنے کے لیے تیار ہی نہیں ہوا اور لکھنا تو ایک الگ بات تھی ہمم دوسرا اس کا اظہار اس طرح سے ہوا کہ اٹھارہ سو چھیانوے میں اس سے پہلے ایک صوابی تھے صوامی شوگن چندر جی وہ ایک صوامی تھے گجرات کے رہنے والے تھے اکثر وہ پیروں کے پاس اور مذہبی رجحان تھا ان کا وہ کئی جگہ پر گئے کئی جگہ پہ انہوں نے مذہبی کانفرنسیں کیں مگر بعد میں ان کا ذہن اس طرح منتقل ہوا کہ اس طرح چھوٹی چھوٹی کانفرنسیں کرنے سے کوئی زیادہ فائدہ نہیں آ رہا تو کیوں نہ لاہور میں جو اس وقت متحدہ پنجاب کی راجدھانی تھی وہاں پر ایک کانفرنس منعقد کی جائے اور سارے مذاہب کے لوگوں کو وہاں بلایا جائے اور وہ سوالات اختیار کیے جائیں چنے جائیں منتخب کیے جائیں جس کا تعلق ہر انسان سے ہے ایک تو اجتماعی طور پر ہوتا ہے وہ الگ بات ہے لیکن ہر فرد سے جو اس روئے زمین پر انسانی جامع اور شکل میں ہے اس کے اس کا تعلق ہو ایسے سوالات منتخب کیے جائیں ایک committee بنی بہت بڑے بڑے اس میں قانون دان تھے اور بہت دانشور تھے بہت سے سوالات بنے آخر میں پانچ سوالات رکھے گئے اور یہ شرط طے ہوئی کہ یہ ہر مذہب کے سربراہ کو دیے جائیں کہ اپنی دینی اور آسمانی کتاب جس کو وہ سمجھتا ہے اس کی روشنی میں ان کے جوابات دینے ہیں نہ کہ اپنی ہی کوئی مضمون بیان کر دینا ہے چنانچہ یہ یہ قادیان آئے اور حضرت مسیح ماؤد علیہ السلام کو وہ سوالات دیے کہ آپ بھی ان سوالات کے جوابات لکھے حضرت مسیح معود علیہ الصلاۃ والسلام علالت طبع کے باعث ذرا اس مضمون لکھنے میں تھوڑا سا حضور کو تحمل تھا لیکن اللہ تعالی نے آپ کی توجہ اس طرف مبذول فرمائی اور آپ دعا کی اور یہ مضمون آپ نے لکھنا شروع کیا جو پانچ سوالات ہیں وہ بالترتیب میں پڑھ کے سنا دیتا ہوں نمبر ایک انسان کی جسمانی اخلاقی روحانی حالتیں ہر انسان کی کیا حالت ہوتی ہے نمبر دو انسان کی زندگی کے بعد کی حالت یعنی اقبا نمبر تین دنیا میں انسان کی ہستی کی اصل غرض کیا ہے اور وہ غرض کس طرح پوری ہو سکتی ہے نمبر کرم یعنی اعمال کا اثر دنیا اور میں کیا ہوتا ہے نمبر پانچ علم یعنی گیان اور معرفت کے ذرائع کیا ہیں یہ پانچ سوالات کے جوابات ہر مذہبی دانشور نے اپنی مذہبی کتاب سے دینے ہیں اگر کوئی آریا سماجی ہے تو اس کو سے دینا ہے والا ہے وید اور گیتا سے دینا تھا عیسائی ہے اس کو بائبل سے دینا تھا سکھ مذہب والے ہیں گرو گرنتھ صاحب سے انہوں نے دینا تھا یہ ساری طے ہوئی تھی۔ اللہ تعالی نے حضرت مسیح ماؤد علیہ الصلاۃ والسلام کو خبر دی۔ جب آپ یہ مضمون لکھ رہے تھے۔ مضمون وہاں جو پیش گوئی کی گئی تھی۔ کہ تمام ادیان پہ غالب آنے کا۔ یہاں جب آپ لکھ رہے تھے تو اللہ تعالی نے آپ کو خبر دے دی کہ مضمون بالا رہا۔ اب حضور نے جو اشتہار اکیس دسمبر اٹھارہ سو کو دیا اس کا ایک اقتباس میں پڑھ کے سناتا ہوں حضور فرماتے ہیں جلسہ اعظم مذاہب جو لاہور ٹاؤن لاہور میں چھبیس ستائیس اٹھائیس دسمبر اٹھارہ سو چھیانوے کو اس میں اس عاجز کا ایک مضمون قرآن شریف کے کمالات کے بارے میں پڑھا جائے گا philosophy جو بات کہی گئی وہ اس کے تحت تھا ایک مضمون قرآن شریف کے کمالات کے بارے میں پڑھا جائے گا یہ وہ مضمون ہے جو انسانی طاقتوں سے برتر اور خدا کے نشانوں میں سے ایک نشان اور خاص اس کی تائید سے لکھا گیا ہے اس میں قرآن شریف کے وہ حقائق اور معارف درج ہیں جن سے آفتاب کی طرح روشن ہو جائے گا کہ درحقیقت یہ خدا کا کلام اور رب العالمین کی کتاب ہے اور جو شخص اس مضمون کو اول سے آخر تک پانچوں سوالوں کے جواب میں سنے گا میں یقین کرتا ہوں کہ ایک ایمان اس میں پیدا ہوگا اور ایک نیا نور اس میں چمک اٹھے گا اور خدا تعالی کے پاک کلام کی ایک جامع تفسیر اس کے ہاتھ میں آجائے گی یہ دعویٰ یہ اعلان اور کسی مذہب کے سربراہ نے نہیں کیا تھا حضرت مسیح موعود علیہ الصلاۃ والسلام نے یہ پہلے سے اعلان کر دیا تھا ایک طرف تو حضرت مسیح علیہ السلام یہ اعلان فرما رہے تھے اور دوسری طرف تھا کہ ایک شخص ایسا بھی تھا ہو سکتا ہے اس نے اوروں کو بھی یہ کہا ہو خواجہ کمال الدین صاحب انہوں نے حضرت مسیح علیہ السلام سے یہ درخواست کی کہ وہ مضمون جو مذاہب عالم کے جلسے میں پڑھا جانا ہے مجھے دیں تو حضرت مصیب علیہ السلام نے ان کو پڑھنے کے لیے مسودہ دے دیا انہوں نے پڑھایا اور ان کو یہ مضمون پسند نہیں آیا انہوں نے حضرت مسیح علیہ السلام کو کہا کہ حضور یہ اس معیار کا مضمون نہیں ہے اس سے تو وہاں غذائی ہو گی ایک مذاق ہو گا لیکن حضور نے اس کے اوپر خاموشی اختیار کی لیکن اس کا اظہار ضرور کیا کہ ایک شخص نے پڑھنے کے بعد اس کے اوپر یہ رائے قائم کی تھی بہرحال یہ مضمون پڑھا گیا اور دوسرے مضامین بھی پڑھے گئے حضرت مسیح ماؤد علیہ السلام کا یہ مضمون حضرت مولانا عبدالکریم صاحب رضی اللہ تعالی عنہ نے پڑھا پہلے سوال کا جواب تقریبا تین یا چار گھنٹے میں مکمل ہوا اور پہلے جو اٹھائیس دسمبر کا دن تھا وہ سارا اسی میں ختم ہو گیا ٹائم ختم ہو گیا اس پر مولوی صاحب نے تقریر کے دوران کہا کہ یہ تو ابھی پہلے سوال کا جواب ہے چار سوال تو باقی ہیں اس پر سارا مجمع جو سات ہزار کے قریب تھا وہ back زبان کہنے لگا کہ ایک دن کا اضافہ کیا جائے ہم پانچوں سوالوں کے مکمل جواب سننا چاہتے ہیں چنانچہ منتظمین نے غیر حالات کے باوجود ایک دن کا اضافہ کیا انتیس تاریخ کو یہ اعلان کیا گیا کہ صبح نو دس بجے جلسہ شروع ہوگا اور نو بجے ہی حال کچا کچ بھر گیا تھا جگہ تک نہیں رہی تھی اس جواب کو سننے کے لیے ساروں نے یہ سوال سنیں ساروں نے یہ مضمون سنا اور اس کے بعد یہ مضمون شائع ہوئے سارے کے سارے رپورٹ جلسہ مذاہب عالم کے نام سے یہ سارے کے سارے مضامین شائع بھی ہوئے آج بھی ان مضامین کو پڑھ لیں تمام مذاہب کے علمبردار اور دانشوروں نے جو وہاں پڑھا اس کا ان سوالوں سے کوئی ربط ہی نہیں نہ کسی نے اپنی مذہبی کتاب سے اس کا صحیح رنگ میں جواب دیا حضرت مسیح معاود علیہ السلام نے اس کا جواب دیا اس کے آخر پہ ایک بات اور میں کہنا چاہتا ہوں کہ دیکھیں ہماری جماعت کے لوگوں کو افراد کو اس اسلامی اصول کی philosophy کا بڑا گہرا مطالعہ کرنا چاہیے یہ بہت ہی ایک گہری اور پرمعارف کتاب ہے بہت سے لوگ اس کتاب کو پڑھ کے جماعت احمدیہ میں شامل ہوئے مثال کے طور پہ علمی شافعی صاحب مرحوم مصر کے تھے ایک دفعہ میں نے ان سے پوچھا کہ آپ کس طرح جماعت احمدیہ میں شامل ہوئے آپ تو پڑھے لکھے ایک انجینئر تھے آپ کو کس چیز نے راغب کیا جماعت احمدیہ کی طرف تو انہوں نے کہا چیز نے مجھ کو راغب کیا وہ اسلامی اصول کی فلاسفی کا مطالعہ تھا اسی طرح ایک اور ابراہیم غزک صاحب تھے اور بہت سے لوگ تھے کہ اسلامی اصول کی فلاسفی جو تھی اس میں ہم پر بہت گہرا اثر کیا جس کی وجہ سے ہم جماعت احمدیہ میں شامل ہوئے اس لیے اس کتاب کو بڑی گہرائی سے پڑھنا ہو گا ایک بات اور عرض کر دوں کہ ہو سکتا ہے بعض احباب یہ سمجھتے ہوں کہ یہ بڑی مشکل ہے آج کل کیوں کہ اردو دان طبقہ کم ہے.

00:18:03

حضرت مسیح ماؤد علیہ السلام حضرت مولانا شیر علی صاحب رضی اللہ تعالی عنہ بیان کرتے ہیں حضرت مسیح ماؤد علیہ السلام نے فرمایا جو میری کتابوں کو کم is کم تین مرتبہ نہیں پڑھتا اس میں ایک قسم کا کبر پایا جاتا ہے تین دفعہ جب آپ اس کتاب کو پڑھیں گے اور رک رک کے پڑھیں گے اور سمجھ سمجھ کے پڑھیں گے تب ہی یہ آپ کے ذہن میں مضمون آئے گا موجودہ دور میں جو حالات چل رہے ہیں جس میں سے گزر رہا ہے جن مشکلوں میں سے گزر رہا ہے جن برائیوں میں سے گزر رہا ہے ان برائیوں سے بچنے کے لیے اور دوسروں کو بچانے کے لیے اس کتاب کا مطالعہ از حد ضروری ہے اور بار بار اس کو پڑھنا چاہیے یہ بہت فائدے کی کتاب ہے اور اس سارے جتنے بھی مضامین اس جلسے میں پڑھے گئے ان کا مطالعہ کر کے دیکھ لیں اور حضرت مسیح معود علیہ السلام کی اس مضمون کا مطالعہ کر کے دیکھ لیں ہر انسان برملا یہ کہے گا کہ مضمون جو پیش گوئی تھی وہ پوری طرح صادق آئی اور اسی طرح وہاں پر بیسیوں ایسے اخبارات ہیں جنہوں نے اس کی رپورٹنگ جب شائع کی اس کے بارے میں انہوں نے برملا یہ کہا کہ یہ مضمون سب سے اعلی اور بالا تھا اور بڑی دلچسپی کے ساتھ اس کو حاضرین نے سنا باقی مضامین میں تو لوگ اٹھ کے چلے جاتے تھے لیکن یہ مضمون اتنی خاموشی سنا گیا اتنی توجہ سے سنا گیا کہ دوسرے مضامین کا ذرہ بھر بھی اس طرح سے وہ مضامین نہیں سنے گئے تو یہ جو اللہ تعالی نے حضرت محسن کو خبر دی تھی کہ مضمون بالا رہا اب تک وہ بالا ہے اور ہمیشہ بالا رہے گا اور جو جو اس کو صحت نیت کے ساتھ پڑھے گا جیسا کہ حضرت محسن صاحب نے فرمایا اس کو قرآن مجید کی ایک نئی تفسیر ملے گی اس کو قرآن مجید کے بارے میں نکات کا علم ہوگا اور یہ قیامت تک جو جو اس کا مطالعہ کرے گا وہ اس سے استفادہ کرے گا اللہ تعالیٰ ہمیں اس کی توفیق عطا فرمائے جزاکم اللہ تعالی حسن الجزا program کو آگے بڑھاتے ہوئے خاکسار کا اگلا سوال محترم مولانا شیخ مجاہد احمد شاسی صاحب سے یہ ہے کہ اس conference کے لیے جو پہلا سوال تجویز کیا گیا تھا وہ انسان کے طبعی اخلاقی اور روحانی حالتوں سے متعلق تھا تو قرآن مجید نے ان حالتوں کو کس طریقے سے تقسیم کیا ہے اس بارے میں کچھ جزاکم اللہ حسن و جزا ناظرین کرام ہم سب جانتے ہیں اور ابھی ہم نے تفصیل سے سنا کہ اسلامی اصول کی فلاسفی کا جو مضمون ہے یہ قرآن مجید کی حقائق اور معارف بیان کرنے کی ایک عظیم الشان تفصیل ہے اور اسی طرح سیدنا حضرت اقدس مسیح موعود علیہ الصلاۃ والسلام کا قرآن مجید سے جو بے پایا عشق تھا اس عشق کو ظاہر کرنے کا بھی ایک ذریعہ ہے یہ کتاب اسلام کے جو بنیادی عقائد تھے ان عقائد کی منطقی انداز میں پیش کرنے والی جو کتب ہیں ان میں سے ایک بہترین کتاب ہے یعنی اسلام کی جو خوبیاں ہیں اس کو منطقی حساب سے آپ نے دنیا کے سامنے پیش کیا اور بتایا کہ یہ وہ مضمون ہے جس میں دنیا کے اور کوئی شخص بھی اس کے مقابل پہ ٹھہر نہیں سکتا اور ابھی آپ نے تفصیل سنی کہ اللہ تعالی نے الہامن بیان فرما دیا کہ یہ وہ مضمون ہے جو بالا رہے گا اس مضمون کی جو خاص دو خوبیاں ہیں جس کی طرف میں ناظرین کی توجہ دلانا چاہتا ہوں اس کی ایک خاص خوبی یہ ہے کہ حضرت مسیح معود علیہ السلام نے اس مضمون کی میں یہ بیان فرمایا ہے کہ میں جو کچھ بھی دعویٰ بیان کر رہا ہوں اس کتاب کا اسلام کے بارے میں اس کی دلیل قرآن مجید سے ہی دوں گا اور آپ نے اس لیے حدیث کو بھی چھوڑ دیا کہ حدیث جو ہیں وہ قرآن مجید کی آیات سے ہی نکلتی ہیں اس کا چشمہ ہے تو پہلی بنیاد آپ نے یہ بیان فرمائی کہ اسلام کی جو بھی حقانیت اور اس کے فیوض اور اس کے بارے میں اس کی تفصیل میں بیان کروں گا اس کے ثبوت کے طور پہ میں قرآن مجید کی آیات سامنے رکھوں گا دوسرا یہ کتاب اس رنگ میں لکھی گئی ہے کہ اس میں دوسرے کسی مذہب کے بارے میں کوئی نقطہ چینی نہیں کی گئی بلکہ اپنے مذہب کی خوبیاں بیان کی گئی ہیں اس کے دلائل بیان کیے گئے ہیں اور اس کی تفسیر بیان کی گئی ہے یہی وجہ ہے کہ یہ کتاب جس وقت شائع ہوئی انیس سو پانچ میں یہ پہلی بار ضیاء الاسلام press قادیان سے شائع ہوئی اور اس سے پہلے ہی اٹھارہ سو ستانوے میں یہ رپورٹ کے ساتھ شائع ہو چکی تھی حضرت مسیح اسلام کی تقریر لیکن جب سے یہ شائع ہوئی انیس سو پانچ سے لے کے آج تک دنیا کے مختلف زبانوں میں اس کے تراجم ہوئے ہیں اور کئی ایک سعید روحیں اس کتاب کو پڑھنے کے بعد اس کے مطالعہ کرنے کے بعد جماعت میں شامل ہوئیں اور اسلام کی حقانیت کا اقرار کیے بغیر نہیں رہ سکتی ابھی ناظرین آپ نے تفصیل سے سن لیا کہ اور اس committee نے مل کے پانچ سوالات تیار کیے تھے جس میں سے پہلا سوال یہ تھا کہ انسان کی جسمانی اخلاقی اور روحانی حالتیں کیا ہیں یہی آج کا جو سوال ہے یہ مختصر تمہید کے بعد حضرت مسیح الصلاۃ والسلام نے منطق کے طرز پہ ہی بالکل صاف بیان فرمایا کہ قرآن مجید نے انسان کی جو تین حالتیں ہیں یعنی جسمانی اخلاقی اور روحانی حالتیں ہیں ان تینوں حالتوں کو تین الگ الگ مبدا یعنی شروعات کرنے والی بیان فرمائے ہیں اور ان کے تین سرچشمے قرار دیے ہیں یعنی یہ تینوں حالتیں تین دوسری حالتوں سے نکلتے ہیں اور قرآن مجید نے اس کو علیحدہ علیحدہ نام سے بیان فرمایا ہے پہلی حالت جو طبعی حالت کہلاتی ہے یا جسم حالت کہلاتی ہے اس کا جو پہلا مبدہ ہے قرآن مجید نے اس کو نفس امارہ بیان کیا ہے اور چونکہ قرآن مجید کی آیات سے ہی حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے اس کے اصول بیان فرمائے چنانچہ سورہ یوسف آیت چون میں اللہ تعالی نے بیان فرمایا یعنی پہلی حالت جو ہے جس کو ہم جسمانی حالت کہہ لیں یا طبعی حالت کہہ لیں وہ یہ ہے کہ وہ انسان کو بدیوں کی طرف دھکیلتی ہے اور میں جو اخلاق ہے وہ ابھی شروعات ہی نہیں ہو رہے ہوتے بلکہ وہ اس کو برائیوں کی طرف گرا رہی ہوتی ہے اسی لیے وہ پہلی حالت نفس امارہ کی ہے جو اس کو انسانیت کے درجے سے بھی گرا کے نیچے گرا رہی ہوتی ہے اس کے اوپر کا جو درجہ ہوتا ہے جو دوسری حالت قرآن مجید نے بیان کی ہے وہ نفس عوامہ کے نام سے بیان فرمائی چنانچہ سورہ قیامہ آیت تین میں اللہ تعالی نے بیان فرمایا اور اس نفس کی اللہ تعالی نے اس لیے قسم کھائی کہ جو بدی کے کام ہیں اور جو برائیوں کے کام ہیں اس پر یہ نفس انسان کا جو ضمیر ہے وہ اس کو ملامت کرتا ہے یعنی یہ دوسری حالت بن گئی جو طبعی حالتوں میں سے اخلاقی حالت میں تھی کہ انسان جب کوئی بدی کرتا ہے کوئی برائی کرتا ہے تو اس کا ضمیر اس کے اندر ہی اس کو ایک ملامت کرتا ہے کہ یہ کام تم نے غلط کیا اسی لیے اللہ تعالی نے اس نفس کی قسم کھا کے کہا کہ اب اس کی ایک شروعات ہو رہی ہے آگے بڑھ کی طرف لیکن اس کی حالت ابھی ایسی نہیں ہوتی کہ وہ روحانیت کے اعلی مقام کی طرف چلا جائے بلکہ مسیح موت علیہ السلام بیان فرماتے ہیں کہ اس بچے کی حالت ہوتی ہے جو چلنا تو چاہتا ہے اور اس میں خواہش ہوتی ہے کہ میں چلوں لیکن اس میں اتنی طاقت نہیں ہوتی کہ وہ چل سکے لہذا وہ گرتا ہے ٹھوکریں کھاتا ہے اور آگے لہذا نفس ابھی اس حالت میں پہنچتا ہے کہ جب ابھی وہ لوامہ کی حالت میں ہوتا ہے اور وہ برائیوں سے آگے نہیں نکل رہا ہوتا ہے بلکہ کوشش کرتا ہے اور اسی کوششوں میں اٹھک پٹک اس کی ہو رہی ہوتی ہے تیسری حالت جو روحانیت کی ابتداء ہے وہ ہے نفس مطمئنہ اور سورہ الفجر آیت نمبر اٹھائیس تا اکتیس میں اللہ تعالی نے اس نفس کے بارے میں بیان فرمایا اے نفس مطمئنہ تو اپنے رب کی طرف راضی اور مرضی ہو کے آ جا اور میرے بندوں میں داخل ہو جا اور میری اس جنت میں ہو جا یہ وہ تیسری ہوتی ہے جب انسان برائیوں سے پاک ہو جاتا ہے اور خدا تعالی کی رضا کے مطابق اس کے احکامات کے مطابق اپنے اعلی مدارج کو حاصل کر رہا ہوتا ہے اور اس وقت اللہ تعالی انسان کو آرام کی حالت میں دیتا ہے اور جس مسیح موسم بیان فرماتے ہیں اس کتاب میں کہ جیسے پانی نیچے کی طرف بہتا ہے تو انسانی نفس جو ہے وہ بہشت کی طرف جا رہی ہوتی ہے تو یہ پہلے سوال کے جو جواب ہے مختصرا عرض کیا ہے کہ انسان کی جسم اخلاقی اور روحانی حالتوں کے تین مسیح موعود علیہ السلام نے بیان فرمائے جو قرآن مجید کی روشنی میں نفس نفس لوامہ اور نفس مطمئنہ ہیں جزاک اللہ تعالی حسن الجزا ناظرین کرام ہمارے اس program میں ہمارے ساتھ ایک ٹیلی فون کالر جڑے ہیں ہم ان کا سوال سن لیتے ہیں بنگلہ دیش سے مکرم عارف الزمان صاحب اس وقت ہمارے ساتھ line پر موجود ہیں السلام علیکم عارف الزمان صاحب وعلیکم السلام ورحمة اللہ وبرکاتہ میری آواز آ رہی ہے سر؟ جی عارف الزمان صاحب آپ اپنا سوال پوچھ سکتے ہیں جی جی پہلے تو سب کو آپ کا program کا مبارکباد میرا پہلا سوال یہ ہے حضرت موسی علیہ السلام کی یہ کتاب اسلامی لکھنے کے پیچھے یہ بندہ کہاں سے آیا اب وہ اس کا کیا تھا آج اس کے پس منظر کیا تھا یہ مجھے تفصیل چاہیے جزاکم اللہ جزاکم اللہ اکثر محترم مولانا محمد حمید کوثر صاحب سے درخواست کرتا ہے کہ اختصار کے ساتھ اس سوال کا جواب دیں یہ صوامی شوگن چندر یہ ایک صوابی تھا گجرات کا اور یہ پہلے military میں تھا حضرت بھائی عبدالرحمن صاحب قادیانی رضی اللہ تعالی عنہ کی ایک روایت آتی ہے اس تعلق سے یہ وہاں تھا اس کے بعد حادثات ہوئے بعض اس کے خاندان میں اموات ہوئیں تو یہ دنیا سے بالکل الگ تھلگ ہو گیا پھر یہ سوامی بن گیا اور اس کے نام کے ساتھ سوامی اور سادھو لگنے لگ پڑا اس نے وہ پیلے رنگ کے کپڑے جو سادھو ہمارے یہاں پہنتے ہیں وہ پہننے شروع کر اور پھر اس کو یہ بعض مسلمان پیروں کے پاس بھی گیا وہاں بھی رہتا تھا اور اس کے بعد کچھ ہندو سادھوؤں کے پاس بھی رہا یعنی بالکل دنیا سے اجاٹ مذہب کی طرف اس کا رجحان تھا پھر یہ یو پی کے بعض علاقوں میں آیا متھرا میں آیا آگرہ میں آیا کئی جگہ اس نے جلسے کیے اور جلسے کرنے کے بعد لوگوں کو مذہب کی طرف اللہ کی طرف بلانا شروع کیا اس زمانے تک حضرت منسی علیہ السلام کی بہت شہرت ہو چکی ہوئی تھی خاص براہیم احمدیہ کی وجہ سے اور یہ جو حضرت مصیح علیہ السلام کا ایک مناظرہ ہوا تھا جنگ مقدس کے نام سے اور بھی کئی کتابوں کی وجہ سے ایک کافی شہرت ہو چکی تھی چنانچہ یہ کہا جاتا ہے کہ اٹھارہ سو بانوے میں یہ پہلی دفعہ قادیان آیا تھا حضرت مسیح علیہ السلام سے اس کی ملاقات ہوئی تھی اس زمانے میں ہی یہ کچھ ایسا program بنا رہا تھا کہ ایک مذہبی conference کی جائے اور کے بعد پھر یہ مختلف مراحل میں سے گزرتا ہوا اٹھارہ سو چھیانوے میں پھر یہ وہ جلسہ ہوا جس کے اندر کے یہ سارے program طے ہوئے اور یہ تقاریر طے ہوئی میں یہ سمجھتا ہوں اللہ تعالی نے اس کو ایک ذریعہ بنایا تھا اگر کوئی اور ایسا کرتا تو سارے لوگ جمع نہیں ہوتے کیونکہ اس نے سارے لوگوں سے ایک رابطہ رکھا ہوا تھا اور ساروں کو قسم دے کے ایک بات کہی تھی اس نے کہ دیکھو میں تم کو تمہارے مذہب کی قسم دے کے کہتا ہوں کہ ان کے جوابات دینے کے لیے آؤ تاکہ یہ انسان اس سے فائدہ اٹھائے اور وہ بیچارے مجبور بھی ہوئے بعض اور آ کے انہوں نے پھر یہاں پر شامل ہوئے لیکن اس کے بعد میں نے کافی اس کے اوپر تحقیق بھی کی پتہ بھی کہا کہ یہ کہاں گیا اس کے بعد لیکن کوئی اب تک اس کے بارے میں پتہ نہیں چل سکا یہی یہ مختصر سی تاریخ ہے اس کی جزاکم اللہ تعالی program کے تسلسل میں کا اگلا سوال محترم مولانا محمد حمید کوثر صاحب سے ہی یہ ہے کہ حضرت مسیح علیہ الصلاۃ والسلام نے اس کتاب میں اصلاح کے کون سے تین طریق بیان فرمائے ہیں اس بارے میں کچھ روشنی ڈالیے دیکھیں اس مضمون کو بیان کرنے سے پہلے تھوڑا سا میں قرآن مجید کی روشنی میں ایک تھوڑی تمہید بیان کرتا ہوں.

00:31:01

اللہ تعالی نے قرآن مجید میں ایک جگہ فرمایا اللہ تعالی اس میں فرماتا ہے. کہ میں شہادت کے گواہی کے طور پہ پیش کرتا ہوں. انسان نفس کو بھی اور اس کو بے عیب بنانے میں اس کو بے عیب بنایا گیا ہے پھر کیا ہے اور اللہ نے نفس پر اس کی بدکاری کی راہیں اور اس سے بچنے کی راہیں نیکی کی راہیں یہ دونوں واضح کر دی ہیں اب اس کو میں سمجھانے کے لیے خاص طور پر ہماری نئی نسل کو کہ نفس کی بات یہاں کہی جا رہی ہے ایک نفس کی حالت یہ ہوتی ہے یہ تین حالتیں ہوتی ہیں انسان کے نفس کی جو اس پہ آتی ہیں ایک ہے بچپن کی حالت جو انسانی نفس پہ ہوتی ہے وہ اچھے اور برے میں تمیز نہیں کر سکتا جیسے ایک چھ مہینے ایک سال کا بچہ ہو تو وہ جلتی ہوئی آگ کے شورے کو دیکھ کے پکڑنے کی کوشش کرتا ہے اس لیے کہ اس کو بڑا خوش نما لگتا ہے اس کو یہ پتہ نہیں کہ یہ اس کو نقصان پہنچا دے گا یہ پکڑنا وہاں اس کی دخل اندازی کرتی ہے اور اس کا باپ دخل اندازی کر کے اس کو بچاتا ہے کہ یہ تجھے تکلیف دے گی یہ بات حتی کہ وہ بلوغت کی عمر میں پہنچتا ہے وہاں جا کے پھر اللہ تعالی نے اس کو یہ سمجھا دیا ہے ہم نے اس کے اندر ودیت کر دیا سمجھا دیا ہے کہ یہ ہے فجور کی راہیں یہ ہیں گناہوں کی راہیں یہ ہیں برائیوں کی راہیں جو تجھے اس دنیا میں بھی نقصان پہنچا دیں گی اور یہ ہے ان سے بچنے کی ہیں اور ان نیکی اختیار کرنے کی راہیں وہ سب اس نے ہمیں بتا دی ہیں اب یہاں پر دیکھیں آپ موجودہ زمانے میں جتنی برائی ہے اب یہاں مثال کے طور پر پنجاب ہے ہمارا ہم جس پنجاب میں بیٹھے ہیں روز یہاں منسٹروں کے بیان ہو رہے ہوتے ہیں ڈرگز کے خلاف نشوں کے خلاف فلاں کے خلاف وہ ایک برائی ہے اور کہتے ہیں کہ ہماری نوجوانی تباہ ہو رہی ہے اس میں یہ ہو رہا ہے وہ ہو رہا ہے اب کون نہیں جانتا کہ یہ نقصان دہ چیز ہے لیکن جو استعمال کرنے والا ہے وہ نفس امارہ سے مجبور ہو جاتا ہے اپنے نفس امارہ پہ وہ نفس کی اس حالت پہ کنٹرول نہیں کر سک رہا ہوتا اور اس کو وہ کھینچتا ہے نفس عمارہ وہ برائی کی طرف حکم دیتا ہے وہ اس کی طرف لے جاتا ہے اب مثال کے طور پہ بھی یہاں ڈرگز کا ہے چوری ہے رسوں میں رستے میں روک کے ڈاکہ مار لینا ہے فلاں کر لینا ہے یہ ساری وہ برائیاں ہیں جھوٹ ہے جنسی بے راہ روی ہے زنا کی اور فاحشات کی انتہا ہے کون نہیں جانتا یہ بری باتیں ہیں لیکن ہر وہ انسان جو اس کا ارتکاب کرتا ہے وہ امارت البسوء اس کا نفس اس کو دھکیل کے دوسری طرف لے جاتا ہے اصل میں انسان کا امتحان یہ ہوتا ہے یہاں وہ کھڑا ہو جاتا ہے کہ اب اس کو نفس امارہ اپنے اس نفس کی حالت میں رہنا ہے جس دلدل میں وہ جا پڑا ہے یا اس سے باہر نکلنا ہے یہ اس انسان کو خود فیصلہ کرنا ہے اور حضرت مسیح موعود علیہ السلام اس کی پہلی حالت یہ بتاتے ہیں کہ پہلے اس کو انسانیت سکھاؤ یہ جو بہیمیت اور حیوانیت میں چلا گیا وہ انسان اس کو کہو یہ انسانوں کے کام نہیں ہیں جو تو کر رہا ہے یہ وہ مردار ہے جو تو کھا رہا ہے یہ وہ حرام ہے جو تو کھا رہا ہے تیرے جسم کو بھی یہ تباہ کر رہا ہے تیری روحانیت کو بھی برباد کر رہا ہے اور حضور نے فرمایا جیسے پورٹ بلئیر اور جنگلوں کے لوگوں کی تربیت کی جاتی ہے ان کو حلال حرام میں تمیز ہی نہیں رہتی ہے وہ تو سب کچھ کرتے چلے جاتے ہیں پہلے تو اس کو انسانی آداب سکھانے ہوں گے اور اس کو یہ سمجھانا ہو گا کہ انسانیت ہے کیا چیز اس کا نفع نقصان اس کو بتانا ہو گا اور اس کو اس حیوانیت سے اس بہیمیت سے اس کو باہر نکال کے انسان کے دائرے میں لانا ہو گا اور یہاں لانے کے بعد اس کو پھر اس stage پہ لانا ہو گا کہ اس کو اخلاق سکھانے ہوں گے اور اخلاق سکھانے کے لیے اس کو وہ اخلاق جو انسانیت سے تعلق رکھتے ہیں وہ اس کو سکھانے ہوں گے کہ کھانے کے آداب یہ ہیں اور بد سے بچنے کے آداب یہ ہیں یہاں پر نمازوں پڑھنے کے تیرے لیے یہ فوائد ہیں اور دوسری یہ ساری باتیں اس کو سکھانی ہوں گی اور پھر وہاں سے اس کو ترقی کر کے مطمئنہ کے مقام پر لانا ہو گا یہاں پر ایک بات اور میں ضمنا بتانا چاہتا ہوں ہے اس کا سب سے بڑا دیکھیں اللہ تعالی نے سورہ جمعہ میں سیدنا حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے جو فرائض بیان کیے کہ وہ ان کا تزکیہ کرتا ہے وہ ان کی تطہیر کرتا ہے تزکیہ کے معنی تطہیر وہ ان کو پاک کرتا ہے جسمانی لحاظ سے بھی پاک کرتا ہے روحانی لحاظ سے بھی پاک کرتا ہے اور اس کے بعد وہ کتاب سیکھ اگر کوئی کہے کہ ان نفس کے ان تین حالتوں میں سے میں عمارہ سے خود بخود نکل جاؤں لوامہ میں آ کے مطمئنہ تک پہنچ جاؤں یہ بہت مشکل بات ہے اس کے لیے اس کو کسی مضبوط اس انسان کی ضرورت ہے جو اس کو سہارا دے کے وہاں سے نکالے وہ تو ایک گندے گڑھے میں گر گیا ہوا ہے اس کو وہاں سے نکالنے کے لیے ایک امام کی ہوتی ہے دیکھیں اس وقت جو جماعت احمدیہ ہے اللہ تعالیٰ کے فضل و کرم سے جماعت احمدیہ حضرت مسیح علیہ السلام پر ایمان لائی حضرت مسیح موعود علیہ الصلاۃ والسلام پر ایمان لانے کے نتیجے میں آپ دیکھیں وہ احمدی جو کہ امارہ کے ان کے نفس کی حالت امارہ کی وہ تھی وہ گناہوں کی دلدل میں پھنسے ہوئے تھے لیکن حضرت مسیح موعود علیہ السلام پر ایمان لانے کے وہ سارے کے سارے وہاں سے وہ نکلے پھر ترقی کرتے کرتے وہ مطمئنہ کے مقام پر پہنچے آج ہمارے ہم صرف جماعت احمدیہ ایک ایسی جماعت ہے جس کا ایک خلیفہ ہے وہ تطہیر جسمانی بھی کرتا ہے اور تطہیر روحانی بھی کرتا ہے وہ ہم کو آداب بتاتے ہیں کہ اس طرح یہ پاکیزگی کے آداب ہیں اور جب ہم ان کی سنیں گے۔ اور ان کے اوپر ان کی باتوں پر عمل کریں گے۔ تب ہی ہم عمارہ کی اس حالت سے نکل کر باہر آئیں گے۔ اور قرآن مجید اس مضمون کو ایک دوسری جگہ یوں بیان کرتا ہے۔ اب یہاں وہ کہتا ہے جب اللہ اور اس کا رسول تم کو بلائے کہ تمہیں زندہ کریں تو تم اس کی آواز پہ لبیک کہا کرو۔ آج صرف جماعت احمدیہ ہے جس کا اللہ تعالی کے فضل سے ایک امام ایک خلیفہ ہے جو ہر ہفتے ہر خاص موقع پر ان کو ایسا روحانی پیغام دیتے ہیں جو ان کی روحانی احیا کا باعث بنتے ہیں۔ اور یہی وہ طریقہ ہے جس سے نفس کی اس حالت سے نکلا جا سکتا ہے اور نفس کی اس حالت سے نکلنے کے بعد ایک انسان لوامہ میں آتا ہے اب جیسا لوامہ میں پہنچتا ہے لوامہ کے بارے میں حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے کافی تفصیل سے اس کتاب میں بیان کیا ہے یہ ایک نفس کی ایسی حالت ہوتی ہے کہ جس میں انسان ایک ڈامہ ڈول ہوتا ہے کبھی اس کو عمارہ پھر کھینچ لیتا ہے لیکن پھر وہ وہاں سے نکلتا ہے اور نکلنے کے بعد پھر وہ اللہ تعالی کے حضور جھکتا ہے اور اس کا نفس لوامہ کہتے ہی اس لیے ہیں کہ اس کا نفس ملامت کرنے لگتا ہے اور ملامت کرنے کے بعد پھر وہ جھکتا ہے اللہ تعالی کی طرف اور پھر وہ آگے بڑھنے کی کوشش کرتا ہے اور اس کے بعد مطمئنہ کا وہ درجہ ہوتا ہے جہاں وہ اللہ تعالی سے براہ راست تعلق پیدا کر لیتا ہے اب یہاں ایک واقعہ سناتا ہوں آپ کو حضرت مولانا نورالدین صاحب رضی اللہ تعالی عنہ جو بعد میں خلیفۃ المصیع اول بنے ان سے ایک دفعہ ایک آدمی نے سوال کیا کہ آپ تو بہت بڑے مولانا تھے آپ کو مرزا صاحب کی بحث سے کیا ملا? اس امام کے ساتھ لگ کے آپ کو کیا حاصل ہوا? تو مولوی صاحب نے جواب دیا.

00:40:57

کہ دیکھیں میں نے اپنی روحانیت میں یہاں آ کے بہت ترقی کی.

00:41:02

پہلے رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے میری زیارت خواب میں ہوتی تھی.

00:41:08

اب بیداری میں میری رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے زیارت ہو جاتی ہے. یہ دیکھیں یہ ہے تعلق.

00:41:16

جب امام سے تعلق ہوتا ہے. تو ایک انسان پھر وہ مطمئنہ کے درجے پہ پہنچ جاتا ہے. اسی طرح ہماری جماعت میں اور بھی بہت سے لوگ ہیں. جب حضرت مسیح معود علیہ السلام کی صحبت میں آئے. تو بہت سے صحابہ کی روایت ہیں اس بارے میں. کہ جب ہم مسیح موعود علیہ السلام کی صحبت میں ہوتے ہیں تو ہماری ساری روحانی غذا غلاظتیں آلائشیں وہ دھلنی شروع ہو جاتی ہیں اور ہم ایک بالکل صاف اپنے آپ کو محسوس کرتے ہیں اور مطمئنہ کے درجے پہ محسوس کرتے ہیں تو صحبت ایک بہت بڑی چیز ہوتی ہے امام ایک بہت بڑی چیز ہوتی ہے اب حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے بھی ذکر کیا ہے کہ رسول کریم صلی وسلم کے صحابہ کیا تھے کہ وہ ایسے تھے جیسے ایک گوبر کا گوبر کی طرح وہ ذلیل تھے لیکن رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی روحانیت میں ان کو رکھ کر اپنے پروں کے نیچے ان کو رکھ کر ان کو سونے کی ڈلیا بنا دیا تو یہ ہوتی ہے روحانی تربیت کہ کہاں وہ نفس عمارہ جو کہ مسجد میں بھی پیشاب کر دیتے تھے انسانیت اتنے بھی آداب نہیں تھے۔ یہ حالت تھی کہ اپنے سوتیلی ماں سے شادیاں کر لیتے تھے۔ یہ حالت تھی کہ زندہ لڑکیوں کو درگور کر دیا کرتے تھے۔ لیکن دیکھیں مسیح علیہ السلام نے کس نفس کی حالت سے نکال کے کہاں ان کو مطمئنہ کے درجے پہ پہنچایا اور یہی حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے کیا۔ مسیح موعود علیہ السلام نے اپنی کتاب اسلامی اصول کی فلاسی میں صرف فلسفہ ہی بیان نہیں کیا۔ بل اس کے عملی نمونے پھر ہمیں آپ کی حضور کی زندگی میں ہمیں ملتے ہیں کہ عملی طور پہ آپ نے کر کے دکھایا کہ کہاں سے کہاں سے انسان نے اپنے صحابہ کو بچایا تو یہ مختصر سا اس سوال کا جواب ہے کہ دیکھیں انسان کی جو مختلف حالتیں ہوتی ہیں اس کے لیے بڑی محنت کی ضرورت ہے اور اس کے لیے اسی کتاب میں سے انسان نے فرمایا ہے کہ صحبت صالحین صادقین صادق کی صالح کی صحبت نیک آدمی کی صحبت بد لوگوں سے بچنا اور صالحین کی صحبت میں بیٹھنا وہ اس کو عمارہ سے نکال کے لوامہ اور پھر مطمئنہ تک لے جائے گا اور یہی آج کی سب سے بڑی ضرورت ہے آج آپ دیکھیں کہ دنیا باتیں تو بہت کرتی ہے مجموعی طور پہ ساری دنیا میں دیکھ لیں ہر جگہ سے آپ گواہی لے لیں سب لوگ back زبان یہ کہیں گے کہ جمال احمدیہ کے افراد اخلاق کے لحاظ سے روحانیت کے لحاظ سے باقی تمام سے بہت اعلی اور بہت افضل ہے حتیٰ کہ آپ اپنے قادیان میں پوچھ لیں گے اپنے گردونواح میں پوچھ لیں گے یہ وہ برکت ہے جو حضرت مسیح ماؤد علیہ السلام کے پر ایمان لانے اور خلیفتہ المسیع اید اللہ تعالیٰ بن ذالعزیز کی رہنمائی ہے جس نے ہم کو کی ڈلیا بنا دیا ورنہ ہم بھی دوسروں کی طرح ہوتے تو یہ ہے عظمت سلطان کی وہ حالتیں جو حضور نے یہاں تفصیل سے بیان فرمائی جزاکم اللہ تعالی حسن الجزا ناظرین کرام ہمارے ساتھ ہمارے اس program میں ایک اور کالر جڑے ہیں انڈیا سے اس وقت بشیر احمد صاحب ہمارے ساتھ ٹیلی فون لائن پر موجود ہیں میں ہم ان کا سوال سن لیتے ہیں السلام علیکم ورحمتہ اللہ بشیر صاحب وعلیکم السلام ورحمة اللہ وبرکاتہ ہر ایک کے لیے میرا سلام خاص طور پر حضور کو بھی ہمارا سلام پہنچانا ہے جی سن رہے ہیں? بشیر صاحب آپ کی آواز آ رہی ہے آپ اپنا سوال پیش کیجیے یہ جو حضرت مسلم علیہ السلام کو جو اسلامی اصول کے فلاسفی میں جو وہ تین حالتیں ہیں مگر حضرت مسلم علیہ السلام کے پانچویں حصے میں روحانی حالات کے بارے میں فرمایا ہے اس میں چھ حالات کے بارے میں فرمایا ہے تو اس کے ساتھ اس کو کیسے یہ کر سکتے ہیں ہم شامل کر کے اس کے بارے میں میرا سوال تھا جزاکم اللہ میں محترم شیخ مجاہد احمد شاستری صاحب سے درخواست کرتا ہوں کہ اختصار کے ساتھ اس سوال کا جواب پیش کریں۔ جزاک اللہ بشیر صاحب۔ نفس عمارہ کی تین حالتوں کے بارے میں اس کتاب میں اسلامی اصول کی فلاسفی میں تفصیل سے حضرت مسیح معود علیہ الصلاۃ والسلام نے بیان فرمایا ہے اور براہین مدیہ حصہ پنجم میں حضرت مسیح معود علیہ السلام نے روحانیت کے جو مراتب بیان فرمائے ہیں وہ الگ الگ ترتیب چھ درجے بیان فرمائے ہیں نفس مطمینہ کی جو حالتیں ہیں وہ الگ الگ حالتیں ہیں اسے مختلف مدارج ہیں براہین حدیہ میں حضرت مسیح معود علیہ الصلاۃ والسلام نے جو پہلا درجہ بیان فرمایا ہے روحانی ترقی کا وہ یہ بیان فرمایا ہے قد افلہ المومنون الذنہ فی صلاۃ وہ مومنین کامیاب ہو جاتے ہیں جو اپنی نمازوں میں خشوع اختیار کرتے ہیں اور اللہ تعالی کے حضور گریہ آزاری کر رہے ہوتے ہیں روحانیت کا دوسرا درجہ جو قرآن مجید میں بیان فرمایا ہے وہ یہ ہے کہ وہ لغو کاموں سے مجلسوں سے لغو حرکتوں سے اپنے آپ کو اجتناب کر لیتے ہیں وہاں بچ رہے ہوتے ہیں تیسرا درجہ بیان فرمایا کہ وہ اپنی زکوۃ کو صحیح رنگ میں ادا کر رہے ہوتے ہیں یعنی انفاق فی سبیل اللہ میں آگے بڑھ رہے ہوتے ہیں چوتھا وجوہ جو فرمایا یعنی اپنے خروج کی شرم گاہوں کی حفاظت کر رہے ہوتے ہیں یعنی ایمان کے جو مختلف مدارج ہیں یعنی مختلف کیفیات ہیں درجات ہیں یا برائیوں سے بچنے کی مختلف جو حالتیں ہیں وہ درجہ بدرجہ آپ نے بیان فرمائی ہیں اور مطمئنہ کی حالت میں ہی یہ انسان جو مختلف حالتیں ہوتی ہیں اس میں سے یہ بھی بتایا اور آج کے زمانے میں اگر آپ دیکھ لیں تو اپنے خروج کی حفاظت کرنا ایک بہت بڑا معرکہ ہے اور مجاہدہ ہے اور انسان کو میں ہی اگر وہ لگا رہے تو اس میں مشغول رہے گا محفوظ رہنا ہی مشکل ہو گیا ہے اسی طرح پانچواں درجہ بیان فرمایا یعنی وہ اپنی امانتوں کی اور جو ان کی ذمہ داریاں دی گئی ہیں ان کی حفاظت کرتے ہیں ان کے ذمے جو کام دیے گئے ہیں وہ احسن رنگ میں ادا کر رہے ہوتے ہیں پھر چھٹا درجہ بیان فرمایا وہ اپنی نمازوں کی بروقت حفاظت کر رہے ہوتے ہیں پس نفس امارہ کی حالتیں تو وہ تین طبعی حالتیں ہیں جس کا مبدا اس کے اندر بیان فرمایا گیا ہے اور اس کی تفصیل اگر ہم سمجھے مطمئنہ کی کہ مطمئنہ کی وہ مختلف کیفیات ہیں جو چھ اس مدارج کے اندر بیان فرمائی ہے کہ روحانیت کی مدارج ہیں جن میں جو مطمئنہ کی حالت میں پہنچ رہے ہوتے ہیں انہیں ان چھوں حالتوں میں سے بچتے ہوئے آگے بڑھنا ہوتا ہے اور دراصل یہ وہی معاملہ ہے کہ انسان ہر ایک وقت مومن ہونے کی حالت میں گزارے کیونکہ اس نہیں پتا کہ اس کی وفات کس وقت ہوگی اور کس وقت اس کا خاتمہ ہوگا تو خاتمہ بل خیر کے لئے اس کو چاہیے کہ وہ اپنی ساری زندگی کو ہی مطمئنہ کے اوپر رہتے ہوئے چلا جائے اور حضرت مسلم موت رضی اللہ تعالی عنہ سے ایک بار کسی نے سوال کیا کہ اگر کسی شخص کو خدا تعالی سے ملاقات ہو جائے تو کیا پھر اس کو مزید نماز میں پڑنے کی ضرورت ہے حضرت مسلم موت نے اس کا جواب دیا کہ اگر وہ دریا لامتناہی ہے ایک مثال کے ذریعہ کہ کوئی کشتی میں اگر جا رہا ہے اور اگر وہ لا متناہی دریا میں ہے تو جہاں وہ اترے گا وہی ڈوب جائے گا بس یہی حال کہ انسانی زندگی میں کس وقت انسان کب برائی کی طرف راغب ہو جائے کب نیچے گرے تو لہذا ضروری ہے کہ وہ اپنی اس مطمینہ کی حالت کو قائم رکھے اور اس کو آخر تک رکھتے ہوئے مدارس کے اوپر سے گزرتا ہوا چلا جائے program کے تسلسل میں خاکسر کا اگلا سوال محترم مولانا شیخ مجاہد احمد شاستری صاحب سے ہی یہ ہے کہ قرآن مجید کی اصلاحات ثلاثہ کی پہلی اصلاح جو کہ ادب کے نام سے موسوم ہے سیدنا حضرت اقدس نے اس کی کیا تفصیل بیان فرمائی ہے جزاکم اللہ ناظرین کرام ابھی آپ نے تفصیل سے محترم مولانا صاحب سے اس بارے میں کچھ سنا اس میں دو چیزیں پہلے میں بیان کرنا چاہوں گا تاکہ آپ کو یہ مضمون سمجھنے میں ذرا آسانی ہو جائے کہ قرآن مجید کا جو اصل منشا ہے انسانی پیدائش کا وہ یہی ہے کہ اصطلاحات ثلاثہ یعنی انسان پہلے درجے سے اٹھتا ہوا آخری تیسرے درجے میں پہنچ جائے اور دوسرا یہ کہ جو طبعی ہوتی ہیں جو پہلا درجہ ہے وہی طبی حالتوں کو جو جب ہم تعدیل کے ساتھ استعمال کر رہے ہوتے ہیں تو وہ اخلاقی حالتیں بن جاتی ہیں وہ دوسری حالتوں میں ہو جاتی ہیں یعنی اس کو اور تھوڑا سا مثال سے میں بیان کرنا چاہوں گا تاکہ اس کو سمجھ سکیں انسان کے اندر مختلف قوتیں اللہ تعالی نے رکھی ہیں عدل کی قوت ہے وفاقی قوت ہے صبر کی قوت ہے کی قوت ہے ان قوتوں کو بر محل جب استعمال کیا جا رہا ہوگا تو وہ اخلاق بن جاتی ہے ورنہ تو وفاداری اگر کہی جائے تو وہ کتے میں بھی وفاداری ہوتی ہے اپنے مالک کے ساتھ لیکن وہ با اخلاق نہیں کہلایا کہلا سکتا مسیحا اسلام نے اس کتاب میں بیان فرمایا یہی مثال دیتے ہوئے لہذا پہلی چیز یہ ہے کہ اصل مقصد قرآن مجید کا یہی ہے کہ انسان کا اصطلاحات ثلاثہ ہی اصل قرآن مجید کا مقصد ہے کہ اس کو لوامہ سے مطمئنہ تک لے کے چلا جائے اور عمارہ سے اٹھاتے ہوئے لوامہ لوامہ سے پھر مطمئنہ پر لے کے آئے پہلی حالت جس کے بارے میں تفصیل سے بھی بیان فرمایا وہ یہ ہے کہ قرآن مجید نے یہ جو اصول بیان فرمائے ہیں یہ تا قیامت تک جس دور میں قرآن مجید کا ظہور ہوا اس کی ضرورت کیوں پڑی کہ ابتدائی حالت سے شروع کیا جائے تو عرب کی وہ حالت ہمارے سامنے نظر آتی ہے کہ وہ ابھی وحشی جانوروں کی زندگی گزار رہے تھے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم جب ان میں مبعوث ہوئے تو ان کی جو حالت تھی وہ یہ تھی کہ وہ اپنی بیٹیوں کو بھی زندہ درگور کر رہے تھے مسجدوں میں پیشاب کرنے کا بھی ذکر آتا ہے پھر ان کی حالتیں تھی کہ وہ مال دولت کو لوٹ لینا جنگ و جدوجہد تمام تاریخ میں موجود ہے اس لیے قرآن نے انسانیت کی شروعات کی پہلی حالت بیان کی کہ پہلے انسان بناؤ انسانیت سکھاؤ اور انسانیت کی یہ باتیں جو ہیں یہ انسانی آداب کی ہیں حضرت مسیح مثال دیتے ہیں کہ جیسے پورٹ بلیر کے جنگلیوں کو اگر کچھ سکھانا ہو تو سب سے پہلے ان کو ابتدائی باتیں سکھائی جائیں گی یہی وجہ ہے کہ حضرت مسیح علیہ السلام نے پھر تفصیل سے بیان فرمایا کہ جس کو ہم ادب کے نام سے معصوم کر رہے ہیں یہ ان میں کیا چیز ہے یعنی پہلی چیز ہے معاشرت کے اصول بتائے قرآن مجید کو کھول کے دیکھ لیں ایک ایک باپ کو کھول کے بتایا کہ فلانی عورت سے شادی کرنی ہے فلانی سے نہیں کرنی فلانی تمہارے لیے حرام ہے فلانی فلانی تمہارے لیے حرام ہے بظاہر معلوم ہوتا ہے آج کہ اتنی چھوٹی چھوٹی باتیں بتائی جا رہی ہیں لیکن یہ ان لوگوں کے لیے ابتدائی طور پر بتائی جا رہی تھی جو ابھی انسانیت پر بھی نہیں پہنچے تھے اسی طرح ان کو پھر کھانے پینے کے آداب سکھائے گئے معاشرتی زندگی تو نکاح کے بارے میں بیان کھانے پینے کے آداب بتائے گئے پھر بتایا کہ اولاد کو قتل نہ کرو پھر یہ بتایا خود نہ کرو پھر اسی طرح بتایا کہ لوگوں کے گھروں میں جب تم داخل ہوتے ہو تو بنا منہ اٹھائے ایسے ہی نہ داخل ہو جایا کرو بلکہ سلام کر کے داخل کیا ہوا کرو اور اگر اندر گھر سے جواب آئے کہ اس وقت نہ آؤ تو آپ واپس آ جاؤ اور اس میں برا نہ مناؤ پھر یہاں تک بھی آیا ابتدائی باتیں بیان کی گئی گھروں کی دیواریں پھلانگ پھلانگ کے اندر نہ چلے جاؤ تو یہ پہلے ابتدائی مراحل تھے جو اس کو انسان بنانے کے لیے بتائے گئے اسی طرح کھانے پینے کے بارے میں تفصیل سے بتایا گیا کہ مردار کو نہیں خون کو نہیں کھانا پھر لاٹھی سے مرے ہوئے کو نہیں کھانا پھر جو بتوں پہ چڑھائی جاتی ہیں چیزیں ان کو بھی نہیں کھانا پھر کھانے کے بارے میں بتایا کہ کھاؤ پیو بے شک لیکن اصراف نہ کرو یہاں تک کہ پھر بول چال کے آداب سکھائے گئے مجالس کے آداب سکھائے گئے کہ لہو باتیں نہیں بولنی بر محل باتیں بولنی ہیں بدن کو صاف رکھنا ہے نہانا دھونا ہے یہ وہ ابتدائی باتیں تھیں جو انسان کو انسانیت سکھا رہی تھی یعنی اس کو بالکل جو جنگلی عادتیں تھیں ہٹا کر پہلے درجے پر لا رہی تھی کہ یہ جب آپ کے اندر آجائیں گے تو اس کے بعد پھر یہی حالتیں جب اپنے بر محل استعمال میں آنے لگے گی تو پھر وہ اخلاق بن جائیں گے تو اصلاحات ثلاثہ میں سے یہ پہلی حالت جو طبعی حالتیں تھی وہ یہی ہے کہ انسان کو انسان بنایا جائے اور اس کو انسانیت سکھایا جائے اور یہ قرآن مجید کا ایک عظیم الشان احسان ہے ساری دنیا پر اور یہ اس کا ایک عظیم الشان معجزہ ہے کہ اس نے اس دور میں انسانیت کی باتیں سکھانا شروع کی کہ جب کہ ابھی وہ باتیں لوگ بھول چکے اور وہ اس کے بارے میں جانتے ہی نہیں تھے اور صرف یہی نہیں کہ وہ ابتدائی باتیں سکھا کر رک گیا بعض دیگر مذاہب یہ کہتے ہیں کہ اپنی برتری ثابت کرنے کے لیے کہ ہمارے میں بھی یہ تعلیم پائی جاتی ہے اور ہم نے دیکھو اسلام سے پہلے یہ باتیں بیان کر دیں لیکن قرآن مجید نے نہ صرف ان باتوں کو بتایا بلکہ اس کے اوپر کے جو مدارس تھے ان کو بھی کھول کھول کے تفصیل سے بیان کیا اور اتنی تفصیل سے بیان کیا کہ دنیا کی کوئی کتاب اس کا مقابلہ نہیں کر سکتی مثلا ایک اللہ تعالی کی ہستی کے بارے میں لے لیں تو دنیا کی ہر مذہبی کتاب میں اللہ تعالیٰ پہ ایمان لانے کا ذکر ملتا ہے لیکن خدا تعالی کی صفات کو کھول کھول کے بیان کرنا اس کی صفات کی ایک ایک بات کو تفصیل کے ساتھ بیان کرنا یہ قرآن مجید کا ہی اعجاز ہے اسی طرح ہر ایک احکام میں قرآن مجید نے جو حکم دیے ہیں وہ ابتدائی مدارس کے بھی ہیں اس کے اوپر کے مدارج کے بھی ہیں اور اس سے اعلی مدارج کے بھی ہیں تو پہلی جو اصطلاح جو حضرت مسیح موعود علیہ الصلاۃ والسلام نے طبی حالتوں کے حوالے سے بیان فرمائی وہ یہی ہے کہ انسان کو انسانیت سکھائی اور یہ انسان کے وہ ابتدائی آداب تھے جو بالکل معمولی نظر آتے ہیں لیکن انہی کو سیکھنے کے نتیجے میں پھر اگلے آداب اور اگلے مدارج پہ انسان ترقی کرتا چلا جاتا ہے جزاکم اللہ جزاک اللہ تعالی ناظرین کرام اس کے ساتھ ہی ہمارے آج کے اس episode کے اختتام کا وقت ہوا چاہتا ہے program کے اختتام پر خاکسار سیدنا حضرت اقدس مسیح موعود علیہ الصلاۃ والسلام کا ایک اقتباس پیش کرے گا سیدنا حضرت اقدس مسیح موعود علیہ الصلاۃ والسلام فرماتے ہیں میں تو اے حرف بھی نہیں لکھ سکتا اگر خدا تعالی کی طاقت میرے ساتھ نہ ہو بارہا لکھتے لکھتے دیکھا ہے ایک خدا کی روح ہے جو تیر رہی ہے قلم تھک جایا کرتی ہے مگر اندر جوش نہیں تھکتا طبیعت محسوس کرتی ہے کہ ایک ایک حرف خدا تعالی کی طرف سے آتا ہے ملفوظات جلدوم صفحہ چار سو اٹھتیس ایک اور مقام پر آپ علیہ السلام فرماتے ہیں اور وہ جو خدا کے معمور اور مرسل کی باتوں کو غور سے نہیں سنتا اور اس کی تحریروں کو غور سے نہیں پڑھتا اس نے بھی سے ایک حصہ لیا ہے سو کوشش کرو کہ کوئی حصہ تکبر کا تم میں نہ ہو تاکہ ہلاک نہ ہو جاؤ اور تا تم اپنے اہل و عیال سمیت نجات پاؤ نزول المسیح روحانی فضائیں جلد اٹھارہ صفحہ چار سو تین ناظرین اس کے ساتھ ہی ہمارا آج کا یہ episode اختتام پذیر ہوتا ہے انشاء اللہ تعالی اگلے episode میں اسی موضوع کو آگے بڑھائیں گے اور اس موضوع پر بات چیت کریں گے اجازت دیجیے السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ اللہ کہ یہیں خدا گے تمہیں بتایا آ لو کہ یہی نوح خدا گے لو تمہیں نہیں

Facebook Video Link – Rahe Huda 01 07 2023

Leave a Reply