Ahmadi Muslim VideoTube Rahe Huda Rahe Huda 17 06 2023

Rahe Huda 17 06 2023



Rahe Huda 17 06 2023

Rahe Huda 17 06 2023

کے دوران اگر آپ کے ذہن میں حضرت مرزا غلام احمد قادیانی علیہ الصلاۃ والسلام بانی جماعت احمدیہ کے عقائد کے حوالے سے آپ کے دعوی کے حوالے سے آپ کی تعلیمات کے حوالے سے یا بالعموم نظام جماعت کے حوالے سے کوئی بھی سوال آپ کے ذہن میں اٹھے تو دوران program جو ایک گھنٹے کا program انشاءاللہ ہے program کے دوران فون کر سکتے ہیں. آپ کو سکرین پر نمبر دکھایا جا رہا ہے. یا ٹیکسٹ میسج کر سکتے ہیں. اس پروگرام میں براہ راست شامل ہو سکتے ہیں. اپنے سوالات پیش کر سکتے ہیں. آپ کے سوالات ہم انشاءاللہ اس پینل میں موجود علماء کی خدمت میں رکھیں گے.

00:01:34

اور ان کے جوابات جاننے کی کوشش کریں گے.

00:01:37

آج ہمارے اس پینل میں جو علماء ہمارے ساتھ شامل ہیں. اس میں مکرم و محترم حفیظ اللہ مروانہ صاحب ہیں. اور اسی طرح مکرم و محترم رحمت اللہ بندیشہ صاحب ہیں. آپ دونوں حضرات کو بھی السلام علیکم ورحمتہ اللہ. وعلیکم السلام.

00:01:54

ناظرین اٹھارویں صدی عیسوی کی جو مذہبی تاریخ ہے اگر اس کا جائزہ لیا جائے تو یہ معلوم ہوتا ہے کہ اسلام پر ہونے والے حملے خاص طور پر اس صدی میں اپنی شدت اختیار کر چکے تھے.

00:02:09

ایک طرف تو دیگر مذاہب اسلام پر اپنی برتری کو ثابت کرنے کی کوشش کر رہے تھے. جبکہ دوسری طرف مسلمان بالعموم اپنی تعلیمات کو بھلا بیٹھے تھے. خدا تعالی کی صفات کے حوالے سے خدا تعالی کی وحدانیت کے حوالے سے آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے مقام و مرتبے کے حوالے سے قرآن کریم کی جو تعلیمات ہیں قرآن کریم کی تعلیمات پر عمل پیرا ہونے کے حوالے سے وہ بہت دور جا چکے تھے لہذا اس زمانے میں یا اس صدی میں آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی پیش گوئیوں کے مطابق اور خدا تعالی کے وعدے کے موافق ایک امام مہدی اور مسیح موعود کا ظہور ہوا جو کہ حضرت مرزا غلام احمد قادیانی علیہ الصلاۃ والسلام ہیں اور آپ علیہ صلوۃ سلام نے یہ اعلان کیا کہ دیکھ سکتا ہی نہیں میں ضوف دین مصطفی مجھ کو کر اے میرے سلطان کامیاب و کامگار جب حضرت مسیح موعود علیہ الصلاۃ والسلام نے یہ حالت دیکھی تو آپ نے اسلام کی برتری کو دنیا میں ثابت کرنے کے لیے مختلف قسم کی کوششیں کوششوں کا آغاز کیا اس میں جو ایک کوشش آپ علیہ الصلاۃ والسلام نے کی وہ یہ تھی کہ آپ نے اسلام کی برتری کو ثابت کرنے کے لیے تصنیفات اور تحریرات کا آغاز کیا آپ علیہ نے مسلمانوں کو اسلام کی جو خوبصورت تعلیمات ہیں ان کو مختلف پیرایوں میں سمجھانے کی کوشش کی نہ صرف یہی بلکہ دوسرے جو مذاہب کی کتب ہیں جو دوسرے مذاہب کی تعلیمات ہیں اس کا اسلام کی تعلیمات کے ساتھ موازنہ کر کے یہ ثابت کیا کہ اسلام کی تعلیمات برتری والی تعلیمات ہیں اور اسلام ہی وہ مذہب ہے جو خدا تعالی کی طرف سے ہے جو تمام دنیا کے لیے آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو کے طور پر بھجوایا گیا ہے.

00:04:02

تو آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا یہ دعوی اور اسلام کی یہ تعلیمات ساری دنیا کے لیے اور تمام زمانوں کے لیے ہیں.

00:04:09

چنانچہ ہم دیکھتے ہیں کہ جب حضرت مسیح موت علیہ الصلاۃ والسلام نے اپنی تصنیفات کا آغاز کیا. اور براہن احمدیہ تصنیف فرمائی. تو اس تصنیف لطیف کو بہت پذیرائی حاصل ہوئی. اور مختلف علماء نے اس پر view لکھے. اور اس کتاب کی عظمت کو اس کتاب میں قرآن کریم تعالیٰ آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اور اسلام کی جو تعلیمات کی برتری کو اس کے اس کا اظہار کیا کہ واقعی حضرت مسیح موت علیہ الصلاۃ والسلام نے اس کتاب کے ذریعے سے ان تمام چیزوں کو دوسرے مذاہب کے اوپر برتری ثابت کی ہے لیکن خدا تعالی کی سنت کے مطابق جیسے کہ ہمیشہ سے ہوتا آیا ہے کہ خدا تعالی کی طرف سے جب بھی کوئی مبعوث آتا ہے کوئی رسول آتا ہے اس کا اس پر ایک ایسا زمانہ بھی آتا ہے اس پر ایک ایسا وقت بھی ہے کہ اس کی تعلیمات کو اس کے عقائد کو اس کے جو پیروکار ہیں ان کو محلے اعتراض ٹھہرانے کی کوشش کی جاتی ہے اور یہی حال حضرت مسیح موت علیہ الصلاۃ والسلام بانی جماعت احمدیہ کے ساتھ ہوا اور آپ کی جو بعد میں آنے والی تحریرات ہیں جو آپ کی تصنیفات ہیں جو آپ کے داعوی ہیں ان کے اوپر اعتراض اٹھانے کی کوشش کی گئی اور انہی اعتراضات کو اور اس جیسے جو دوسرے ملتے جلتے اعتراضات ہیں جو نہ کہ صرف حضرت مسیح موت بلکہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اور دوسرے انبیاء پر بھی پڑھ سکتے ہیں.

00:05:34

انہی کا جائزہ لینے کے لیے ان کو سمجھنے کے لیے ان کی حقیقت کو جاننے کے لیے یہ پروگرام آپ کی خدمت میں پیش کیا جاتا ہے. تو اس حوالے سے اگر آپ کے ذہن میں کوئی بھی سوال ہو تو سکرین پر دکھائے جانے والے نمبرز پر رابطہ کر کے ضرور اپنا سوال پیش کریں. انشاءاللہ ہم آپ کے سوالات کے جوابات دیں گے. تو اسی حوالے سے جو آج کا پہلا سوال ہے وہ میں مکرم اور محترم حفیظ اللہ پروانہ صاحب کی میں رکھنا چاہوں گا کہ حضرت مسیح موت علیہ الصلاۃ والسلام نے خدا تعالیٰ کی صفات کو ظاہر کیا خدا تعالیٰ کی صفات کو اجاگر کیا تو ان صفات میں سے ایک یہ بھی صفت ہے کہ خدا تعالیٰ آج بھی کلام کرتا ہے تو لہذا جب حضرت مسیح موعد علیہ الصلاۃ والسلام سے خدا تعالیٰ نے وحی و الہام کے ذریعے سے ہم کلام ہوا تو اس پر یہ اعتراض اٹھایا جاتا ہے کہ جو قرآن کریم کی آیات آپ پر نازل ہوئیں اس سے آپ علیہ الصلاۃ والسلام نے ان کو اپنے اوپر چسپاں کیا اور گویا کہ آپ نے قرآن کریم کی توہین کی آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے حوالے سے جو آیات تھیں اپنے اوپر چسپاں کر لیں اور اس سے قرآن کی توہین ثابت ہوتی ہے.

00:06:35

تو اس حوالے سے میری گزارش ہوگی کہ اس پر روشنی ڈالیں.

00:06:38

اعوذ باللہ من الشیطان الرجیم بسم اللہ الرحمن الرحیم.

00:06:43

اس اعتراض کے ضمن میں ایک سوال تو پھر یہ یہ اٹھتا ہے. کہ قرآن کریم کی جو آیات ہیں وہ کسی امتی پر نازل ہو سکتی ہیں یا نہیں? دوسرا یہ بھی سوال ہو سکتا ہے کہ وہ آیات خصوصا جن جو مخاطب رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم ہیں. کیا وہ کسی امتی پر نازل ہو سکتی ہیں? اور یہ بھی بات ہے کہ اگر کوئی آیت قرآن کریم کی خواہ اس میں رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم مخاطب ہیں اگر وہ کسی امتی پر نازل ہو جاتی ہیں الہاما یا کشفا تو کیا وہ قرآن کریم کی توہین سمجھی جائے گی تو اگر تو یہ واقعی قرآن کریم کی توہین ہے تو پھر ہم ایک چھوٹا سا جواب دینے سے پہلے میں یہ سوال رکھنا چاہتا ہوں کہ وہ موعود جس کے بارے میں رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ وہ آخری زمانے میں آئے گا وہ عیسی بن وہ امام مہدی جن کو ہم تو مان چکے ہیں ہماری نظر میں وہ آ چکے اور انہوں نے اپنا کام سرانجام دیا لیکن وہ ہمارے دوست مسلمان یا دوسرے غیر مذاہب کے جو اس کے آنے کا انتظار کر رہے ہیں اب تک حضرت عیسی بن مریم کے آسمان سے آنے پہ جب وہ آئیں گے ان کے عقائد کے مطابق اور وہ کیا تعلیم دیں گے قرآن کریم کریم کی تعلیم دیں گے آنحضور صلی اللہ علیہ وسلم کی سنت سکھائیں گے وہ حقیقی تعلیم کے سامنے ان کو راستے کی اور حق کی اصل راستہ دکھائیں گے تو وہ حضرت عیسی علیہ الصلاۃ والسلام پر اگر قرآن کریم نازل نہیں ہو سکتا تو وہ کس کی تعلیم دیں گے دو ہی باتیں ہیں اگر وہ حضرت عیسی علیہ الصلاۃ والسلام دنیا میں ان کے اعتقاد کے مطابق آئیں گے ان کو قرآن کریم کون سکھائے گا کیونکہ وہ تو قرآن کریم کے ہی محافظ ہوں گے قرآن کریم کی تعلیم دنیا کو سکھائیں گے کیا علماء سکھائیں گے ان کو پھر سوال یہ ہوتا ہے کس مذہب کے علماء سکھائیں گے سنیوں کے علماء سکھائیں گے ان کو شیعوں کے سکھائیں گے تو جو حضرت عیسی کو سکھانے والا عالم ہو گا قرآن کریم کا جانا تو پھر حضرت عیسی کے آنے کی ضرورت ہی نہیں ہے اور اگر یہ کہا جائے کہ ان کو اللہ تعالیٰ سکھائے گا تو سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ وہ پھر قرآن کریم کیسے سکھائے گا خدا تعالیٰ تو ہمیں جو اللہ تعالیٰ نے راستہ دکھایا ہے کہ جو خدا کی لائی ہوئی شریعت یا لائی ہوئی تعلیم ہے اس کو سکھانے کا طریقہ کیا ہے وہ وحی اور الہامی ہے اس تو کوئی اور طریق ہمیں بتایا نہیں گیا تو اگر خدا تعالیٰ حضرت عیسی پر تو پھر پورا قرآن وہی کرے گا یا الہام کرے گا تو سب سے پہلے تو حضرت عیسیٰ قرآن کریم کی ان کے اس اعتراض کے مطابق توہین کر بیٹھیں گے تو حضرت عیسی آنے کے ساتھ ہی توہین کر بیٹھیں گے تو وہ تعلیم آگے کیا سکھائیں گے تو یہ بات درست نہیں بنتی اگر قرآن کریم کے کسی پر نازل ہونے کوئی آیت نازل ہو جاتی ہے خدا کی طرف وہ کہتا ہے کہ خدا کی طرف سے مجھے یہ الہام ہوا ہے تو اس کو توہین تو پھر تو حضرت عیسیٰ سب سے بڑے توہین کے مرتکب ہوں گے حضرت مسیح معوذ علیہ الصلاۃ والسلام نے کہیں بھی یہ نہیں فرمایا کہ یہ آیت قرآن کریم کی یا یہ سورت میری اور میری جماعت کے متعلق اتری ہے کہیں بھی نہیں فرمایا حضرت مسیح الصلاۃ والسلام نے کیا فرمایا ہے کہ یہ آیت یا یہ جو آیات ہیں جن کا میں نے ذکر کیا ہے خدا تعالیٰ نے رات کو بطور وحی کے مجھے یہ بتائی ہیں الہام مجھ پر نازل کی ہیں اس میں غلط کیا ہے ابھی جو جیسا کہ میں نے بتایا کیا یہ حضرت مسیح علیہ الصلاۃ والسلام کا صرف دعویٰ ہے یا وہ بزرگان وہ اولیاء جو اسلامی تاریخ میں دیکھتے ہیں جن کی تعداد کئی کئی سو تک پہنچ سکتی ہے جن کا یہ دعویٰ ہے کہ قرآن کریم کی آیات کے بارے میں ان کے الہامات ہوتے رہے ہیں ان کو ان پر وہی نازل ہوتی رہی ہے تو سب سے پہلے توہین قرآن کا تو پھر ان پر بھی الزام لگنا چاہیے سب سے ان کو پہلے مردے الزام ٹھہرانا چاہیے میں چند ایک مثالیں ان بزرگان کی دینا چاہتا ہوں سب سے پہلے چھٹی صدی کے بہت مشہور بزرگ حضرت الدین ابن عربی رحمہ اللہ فرماتے ہیں کہ قرآن کریم کا جو نزول ہے اولیاء کے دلوں پر باوجود اس کے کہ وہ اپنی اصلی صورت میں محفوظ ہے لیکن وہ منقطع نہیں ہوا اور یہ کیوں اللہ تعالی کے ولیوں کو اس نزول کا ذائقہ چکھایا جاتا ہے اور یہ جو شرف مقام ہے یہ صرف بعض اولیاء کو اللہ تعالی نصیب فرماتا ہے.

00:11:31

اسی طرح عبدالوہاب شعرانی اور حضرت محی الدین ابن عربی کا بھی یہی آہ مذہب تھا جیسا کہ میں نے ابھی ایک حوالہ ان کا پیش کیا ہے. اس میں وہ فرماتے ہیں.

00:11:44

آنے والے مسیح کے بارہ مقام فرما رہے ہیں.

00:11:54

کہ وہ مسیح مسیح موت کا مقام اس عظیم الشان ولی کا مقام ہے جس پر شریعت محمدیہ مطلقا نازل ہوگی وہ اور اس پر الہام اس پر نبوت مطلقا نازل ہو گی اور جو شریعت محمدیہ بطور الہام کے اتاری جائے گی اچھا یہ بزرگ تو فرما رہے ہیں کہ آنے والے مسیح پر شریعت ہے وہ بطور الہام کے نازل ہو رہی ہے کیسا ہی شریعت وہ کون سی ہے وہ قرآن کریم ہے اس کی قرآن کریم کیا ہے اس کی آیات اور اس کی سورتیں ہیں تو یہ بزرگ فرما رہے ہیں کہ وہ والے موت پر قرآن کریم جو ہے الہاما اور نازل ہوگا یہ کہتے ہیں یہ توہین قرآن ہو گئی ہے اچھا دوسری بات یہ ہے کہ کیا یہ جیسے کہ میں نے شروع میں عرض کیا کیا یہ قرآن کریم کی آیات کسی اور ولی نے کسی اور بزرگ نے دعویٰ نہیں کیا تو میں آپ کے سامنے چند ایک مثالیں رکھ دیتا ہوں حضرت مجدد الف ثانی رحمہ اللہ اپنے بیٹے کی پیدائش کے متعلق کے موقع پر فرماتے ہیں کہ اللہ تعالی نے سورۃ مریم کی یہ آیت مجھ پر نازل فرمائی الہاما غلام نسمہ یحییٰ اب اس آیت کا مخاطب کون ہے حضرت ذکریا علیہ الصلاۃ والسلام ہیں تو مخاطب تو حضرت ذکریا ہیں یہ مجدد الف ثانی رحمہ اللہ فرماتے ہیں کہ یہ میرے بیٹے کے بارے میں نازل ہوئی ہے تو توہین تو سب سے پہلے پھر ان پر بھی لگنی چاہیے اسی طرح حضرت خواجہ میر درد برصغیر پاک و ہند میں بہت بڑا نام ہے سب جانتے ہیں وہ کہتے ہیں کہ مجھے یہ آیت نازل ہوئی اچھا یہ آیت ہے اس کے مخاطب کون ہیں رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم جو یہ کہتے ہیں کہ جو خصوصا جو رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے مخاطب آیات ہیں وہ بھی مرزا صاحب نے کہا ہے کہ مجھ پر نازل ہوئی ہیں تو یہ تو بہت بڑی توہین ہوگئی تو خواجہ میر درد صاحب نے بھی یہ توہین کر دی ہے کہ وہ آیت جو رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم جس میں مخاطب تھے وہ فرماتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ نے مجھ پر یہ الہامن نازل فرمائی اچھا اسی طرح اور بہت سارے بزرگ ہیں جنہوں نے یہ دعویٰ کیا ہے ان میں سے ایک حضرت نظام الدین اولیا یہ بہت بلند پایا کے بزرگ ہیں ہر ایک ان کو جانتا ہے یہ فرماتے ہیں کہ اللہ تعالی نے مجھ پر نازل فرمائی اب یہ وہ آیت ہے جو خصوصا آنحضور صلی اللہ علیہ وسلم کی ذات کے ساتھ ہے کہ آپ کو تمام جہانوں کے لیے رحمت بنا کر بھیجا اچھا خواجہ نظام الدین اولیاء صاحب فرماتے ہیں کہ اللہ تعالی نے مجھ پر یہ وحی نازل ہوئی تو یہ تو بہت بڑی ان کے مطابق حضرت خواجہ نظام الدین اولیاء صاحب بھی توہین کر بیٹھے ہیں قرآن کریم کی کہ انہوں نے یہ دعوی کیا اچھا اس کے بعد اہل حدیث کے ایک بہت بڑے بزرگ ہیں عبداللہ حضرت مولوی عبداللہ غزنوی صاحب ان کے بارے میں آتا ہے انہوں نے لکھا ہے کہ مجھ پر سورۃ سورۃ الانشراح سورۃ الکوثر یہ وہ تمام صورتیں ہیں جن کے اولین مخاطب رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم ہیں اور وہ کہتے ہیں کہ یہ تمام کی تمام مجھ پر نازل ہوئی ہیں الہاما اچھا اس کے اوپر ایک اہل سنت کے بزرگ جو ہیں حضرت مولوی غلام علی قصوری صاحب نے اعتراض کیا کہ یہ تو قرآن کریم جیسے آج حضرت موسی علیہ السلام پر اعتراض کرتے ہیں کہ انہوں نے قرآن کریم کی توہین کر دی ہے تو اس کے جواب میں ان کے بیٹے نے یہ یہی جواب دیا اور انہوں نے فرمایا ان کا بیٹا جو حضرت مولوی عبداللہ غزنوی صاحب ہیں ان کے بیٹے نے فرمایا کہ یہ جو آیات نازل ہوئی ہیں یہ پہلے ان کے مخاطب تو رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم ہیں لیکن جب کسی بزرگ پر اگر وہ کہتا ہے کہ مجھ پر وحی یا الہام ہوا ہے تو اس کا مطلب یہ کہ یہ جو انشرائے صدر اور خدا تعالی کی رضا اور انعامات ہدایت ہے جس لائق یہ وہ انسان جس مقام پر ہوتا ہے خدا تعالی اس کے متحسب المنزلہ وہ انسان اس سے شرف یہ یہ شرف مقام حاصل کرتا ہے اور اس امر اور نواحی وغیرہ میں اس کو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے حال میں شریک سمجھا جائے گا یہی بات ہم حضرت مسیم الصلوۃ والسلام کے بارے میں کرتے ہیں تو وہاں توہین نہیں ہوتی حضرت الصلاۃ والسلام کی ذات میں توہین ہو جاتی ہے تو یہ بہت سارے حوالے ایسے ہیں جن میں بزرگان قرآن کریم کی آیات اپنے اوپر وحی اور الہام کا دعویٰ کیا ہے تو اگر تو یہ واقعی توہین ہوتی ہے تو پھر ان تمام بزرگان بشمول اس آنے والے مسیح حضرت عیسی بن مریم کے اوپر یہ سب سے پہلے توہین لگنی چاہیے تو اگر ان کے اوپر نہیں لگ سکتی تو حضرت والسلام کا صرف یہ کہنا صرف اس کے اوپر توہین پھر یہ ایمانداری نہیں اس کو ہم ایمانداری نہیں کہہ سکتے کیونکہ وہی آیات جب دوسرے بزرگان جو عام ولی ہیں جن کا وہ مرتبہ اور مقام نہیں ہے جو آنے والے امام مہدی اور مسیح محمد صلی اللہ علیہ وسلم کا کیونکہ امام مہدی کا مقام تو نبی کا مقام بیان کیا گیا ہے ذلی طور پر تو ایک ایسا صاحب مقام جو شخص ہے ایسے مقام پر پہنچا ہوتا ہے وہ خدا تعالیٰ سے خدا تعالیٰ سے وحی اور الہام پا کے قرآن کریم کی آیات کا ذکر فرما دیتا ہے یا ان کے ان کے مطالب کہتا ہے کہ اللہ تعالیٰ نے یہ مجھے ہیں.

00:17:02

تو اس پر یہ الزام لگا دینا کہ اچھا قرآن کریم کی توہین ہوئی ہے. تو پھر سب سے بڑی توہین ان سے پہلے آنے والوں نے کی ہے. اور اگر ان پر توہین ثابت ہوتی ہے تو پھر یہ توہین حضرت مسیح الصلاۃ والسلام نے بھی فرمائی ہے.

00:17:14

جزاکم اللہ حافظ صاحب آپ نے یعنی کہ جو مختلف قسم کے حوالہ جات اور بزرگان کا ذکر کیا ہے. تو ناظرین یہ یہی وہ چیز ہے جس کو ہمیں ہمیشہ مد نظر رکھنا چاہیے. اور یہ انصاف کا تقاضا یہ ہے. کہ ہم سوچیں کہ کیا یہ صرف اعتراض بائے اعتراض یا واقعی ہم اس اعتراض کی حقیقت کو سمجھ کر اس کو سمجھنا چاہتے ہیں اور اس کی پہنچنا چاہتے ہیں تو اگر اس حوالے سے دیکھا جائے تو جو ابھی حوالہ جات انہوں نے جیسے محترم حفیظ اللہ صاحب نے پیش کیے ہیں تو ظاہر یہی ہوتا ہے کہ یہ اسلام کی یا قرآن کریم کی توہین نہیں بلکہ اس کے بالکل برعکس ہے کہ آج بھی خدا تعالی اپنے جو قریبی قریبی ہیں اس کے جو اس کے ساتھ تعلق رکھنے والے ہیں ان کے ساتھ ہم کلام ہوتا ہے تو جزاکم اللہ اگلا سوال میں رحمت اللہ صاحب کی خدمت میں رکھنا چاہوں گا جیسے ابھی ذکر تھا کہ حضرت مسیح معاون علیہ الصلاۃ والسلام نے تصنیفات کا سلسلے کا آغاز کیا تو اس حوالے سے جو شروع کی جو تصنیفات ہیں اس پر اس کو بڑی ان کو بڑی پذیرائی ملی لیکن ساتھ ہی ساتھ جب جیسے ذکر ہوا کہ سنت کے مطابق مخالفت شروع ہو جاتی ہے تو حضرت مسیح معاون صلاۃ وسلام کی تحریرات پر بھی اعتراض ہونے شروع ہو گئے اور انہیں اعتراضات میں سے ایک اعتراض ہے جو میں وہ حوالہ پڑھ دیتا ہوں وہ ایک حوالہ پیش کر کے کہتے ہیں کہ حضرت مسیح معاون علیہ الصلاۃ والسلام کی مندرجہ ذہل عبارت پر یہ الزام لگایا جاتا کہ اس میں حدیث کی توہین کی گئی ہے.

00:18:34

اور یہ اصول حدیث خود ساختہ ہے. حوالہ یہ ہے میرے اس دعوے کی حدیث بنیاد نہیں بلکہ قرآن اور وہ وحی ہے جو میرے پر نازل ہوئی. ہاں تعیدی طور پر ہم وہ حدیثیں بھی پیش کرتے ہیں جو قرآن شریف کے مطابق ہیں اور میری وحی کے معارض نہیں. اور دوسری حدیثوں کو ہم ردی کی طرح پھینک دیتے ہیں. تو اس جملے پر کہ دوسری حدیثوں کو ہم ردی کی طرح پھینک دیتے ہیں.

00:18:56

اعتراض کیا جاتا ہے کہ توہین کی ہے. جزاکم اللہ بات دراصل یہ ہے کہ ہمیں قرآن کریم سے اور حضور صلی اللہ علیہ وسلم جس کی طرف سے یہ احادیث ساری منسوب ہیں آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف سے بیان کردہ تعلیمات کے مطابق یہ سمجھ لینا چاہیے کہ احادیث کو پرکھنے کا طریق کیا ہے. قرآن کریم کہتا ہے کہ اللہ تعالی نے سب مومنین کو مخاطب کر کے فرمایا ہے.

00:19:22

کہ اے نبی صلی اللہ علیہ وسلم تو اعلان کر دیں. کہ حدیث کہ کس آیت کس حدیث پر اللہ اور اللہ کی آیات کو چھوڑ کر یہ اس کے مخالف یہ ایمان لائیں گے. تو یہ بات تو hundred percent کنفرم ہے کہ کوئی حدیث ایسی ہو نہیں سکتی جو حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف سے ہو اور وہ قرآن کریم کی بین آیات کے خلاف ہو مسلمانوں میں بالعموم دو بڑے فرقے معروف ہیں ایک ہیں اہل سنت جو معتبر مانتے ہیں اور یہ ساری ہیں دوسرے ہیں اہل تشیع ہر دو فرقوں نے اس بات کو معیار بنایا ہے اور احادیث نبوی صلی اللہ علیہ وسلم کو ہی پیش کیا ہے کہ رسول اللہ اللہ علیہ وسلم نے بتایا تھا کہ اگر میری طرف منسوب کوئی بات تم تک پہنچے تو اسے قرآن کریم اور حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے عمل پر پیش کیا کرو مثال کے طور پر حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ اے لوگو احادیث مختلف کہ تمہارے پاس مختلف نام کے ساتھ مختلف افعال عوام اور نواحی کے ساتھ مبنی احادیث پہنچیں گی تو فرمایا کہ جو جو جو کتاب اللہ اور حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی practice کے ساتھ موافقت رکھتی ہو حدیث وہ پہنچے وہ میری طرف سے ہے لیکن فرمایا کہ جو مخالفا کتاب اللہ ہوگی جو خدا تعالیٰ کتاب کے خلاف ہوگی اور میری سنت کے برخلاف ہوگی وہ میری طرف سے نہیں ہے اس کو چھوڑ دینا ہے اسی طرح شیعہ کتب احادیث میں بھی لکھا ہے کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے اور اس طرح دیگر تمام آئمہ نے فرمایا کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ہے کے جب بھی ہماری طرف سے تمہارے پاس کوئی حدیث آئے تو اسے کتاب اللہ پر پیش کرو فرمایا جو اس کے کتاب اللہ کے موافق ہو گی اس کو پکڑ لو اس پر عمل کرو فرمایا اور جو کتاب اللہ کے مخالف احادیث ہوں گی ان کو چھوڑ دو تو یہ تو اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے ہمیں خود ہدایت کی ہے کہ جو کتاب جو حدیث جو قول جو فعل میری طرف سے تمہارے پاس پہنچے اسے قرآن کریم پر پیش کرنا ہے اور یہ آج پہلی دفعہ مسیح موعود علیہ السلام نہیں ہیں جنہوں نے اس بات کو بیان کیا ہے دیکھیں حیات نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے بھی حضور کی اس ہدایت پر عمل ہوتا تھا ایک حدیث میں لکھا ہے کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف یہ بات منسوب کر کے بیان کی گئی کہ میت کو جب اس کے گھر والے اس پر روتے ہیں تو اس بنا پر اس کو سزا دی جاتی ہے.

00:22:10

یہ روایت حضرت عائشہ رضی اللہ تعالی عنہا کے سامنے پیش ہوئی. تو حضرت عائشہ نے اس کو قبول کرنے سے لفظا انکار کر دیا. فرمایا جہاں تو اس سے پہلے اور بعد میں کچھ بیان کیا گیا ہے. جو راوی کو محفوظ نہیں اس کے ذہن میں رہا. جہاں پھر کچھ اور ہے. وجہ یہ ہے کہ قرآن کریم کہتا ہے.

00:22:27

کہ ایک نفس کا بوجھ کوئی دوسرا بوجھ نہیں اٹھا سکتا. تو میں ہاں حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ اگر کوئی فوت ہونے والا فوت ہونے سے پہلے لوگوں کو منتخب کر کے بیان کر دے کہ میں فوت ہوں. آپ نے بین ڈالنا رونا ہے تو پھر تو ظاہر ہے اس کا فعل ہے ورنہ نہیں بلکہ بعض احادیث میں جہاں تک لکھا ہے حضرت عائشہ رضی اللہ تعالی عنہا کے سامنے حضرت ابو ہریرہ کی ایک روایت بیان ہوئی حضرت ابو ہریرہ نے کہا کہ میں نے حضور سے سنا ہے کہ حضور نے فرمایا تین چیزوں میں نحوست ہے عورت گھر اور سواری فرمایا کہ یہ بات درست نہیں ہے آپ نے پوری بات نہیں سنی میں حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ اسلام سے پہلے لوگ یہ تصور کرتے تھے کہ ان تین چیزوں میں نحوست ہے حالانکہ ان میں نحوست نہیں ہے تو جس طرح کے یہ اعتراض پیش کر رہے ہیں دوست یہ اصل وہی بالکل کیفیت ہے کہ جہاں چند الفاظ کو تو پکڑ لیا ہے لیکن اس سے ماقبل حضور اس کی کیا تشریح کر رہے ہیں اس کو چھوڑ دیا گیا ہے دیکھیں نا اگر کوئی کہے جی نہیں تو ہم نے تو پورا ایک ایک پیش کر دیا ہے میں آپ کے سامنے قرآن کریم کی ایک آیت پیش کرتا ہوں اللہ تعالی فرماتا ہے تو اگر ہم اس کو پوری سورۃ کو نہیں پڑھیں گے صرف اتنے ٹکڑے کو پڑھ لیں تو کیا مطلب ہو گا کہ نماز پڑھنے والوں پر ہلاکت ہے کوئی کہے میں نے تو پوری آیت پیش کی ہے نہیں بھائی جب تک اس کا سیاق و سباق جان مجموعی طور پر تعلیمات جو قرآن کریم میں بیان ہوئی ہیں ان کو سامنے نہیں رکھیں گے سمجھ نہیں آئے گی قرآن کریم نے بطور اصول سورہ آل عمران کے آغاز میں فرما دیا ہے کہ قرآن کریم کی آیات جتنی بھی ہیں ٹوٹل دو قسم بڑے حصے ہیں میں ایک حصہ محکمات کا ہے جن پر بعض جگہ قرآن کریم کی تفصیل بیان ہوئی ہوتی ہے میں دوسری جگہ متشابہات ہیں جہاں کچھ تفصیل بیان کر کے دیگر مضامین کی طرف اشارہ ہوتا ہے تو یہاں بھی حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے عمل کو جب دیکھتے ہیں یہ حوالہ جو آپ نے پیش کیا ہے یہ اعجاز احمدی کا ہے ہوا یہ ہے کہ حضرت مسیح موعود علیہ کی حیات میں مود ایک جگہ تھی وہاں مباحثہ ہوا جس میں کے ایک صحابی سید سرور شاہ صاحب حضور کی نمائندگی میں کہ دوسری طرف سے مولوی ثناءاللہ صاحب تھے انہوں نے وہاں پہ متفرض کتابوں کے نام بیان کر دیے گئے ان میں تو آنے والے امام مہدی موت کی فلاں فلاں فلاں علامت بیان ہوئی ہے جو لفظا لفظا پوری نہیں ہوئی تو حضور نے وہ بیان کی فرمایا کہ اگر جتنی کتابوں کا جو نام لے رہے ہیں اگرچہ انہوں نے نہ انہوں نے نہ ان کے آباؤ اجداد نے جو کتابیں ساری پڑھی ہوں گی اگر میں ان کو دیکھ لیں تو جو جو ان میں آنے والے امام مہدی اور مسیح موعود کی علامات بیان ہوئی ہیں یہ آپس میں اس قدر متضاد ہیں کہ کبھی آپس میں ان کی تدبیق نہیں کی جا سکتی میں ایک طرف کہتے ہیں کہ امام مہدی وہ جو آنے والا حصہ ہے وہ صحیح مسلم کی حدیث میں ہے کہ مشقی دمشق کے مینارے میں ایک شرقی مینارہ ہے اس پر نازل ہوگئے اس کے ساتھ نازل ہوگا میں ایک حدیث میں لکھا ہے جبل عفیق پر امام مہدی عیسی علیہ السلام نازل ہوں گے ایک روایت میں لکھا ہے کہ آنے والا امام مہدی جو ہے وہ بیت المقدس میں نازل ہوگا.

00:25:25

میں ایک روایت میں لکھا ہے کہ مسلمانوں کو لشکر میں نازل ہوگا. تو یہ تو کیسے آپ ان کی تدبیر کر سکتے ہیں. فرمایا بات یہ ہے کہ اگر صرف اور صرف احادیث کو لے لیا جائے اور قرآن کریم کو معیار اصل نہ بنایا جائے. فرمایا کہ دیکھیں نا سب سے بنیادی حکم اسلام کا پریکٹیکل ہے نماز. حضور نے مثال دی فرمایا کہ نماز دیکھیں مسلمان کتنے فرقوں میں منتقم ہیں.

00:25:50

کوئی رفع الیدین کا قائل ہے کوئی میں کہ ہاتھ سینے پہ باندھتا ہے کوئی نیچے باندھتا ہے کوئی کہتا ہے کہ نہیں ہاتھ کھلے رکھنے چاہیے کوئی کہتا ہے نہیں ہاتھ کھول بند کر کے نماز پڑھنی چاہیے میں نماز پہ ہی ان کے آپس میں اتنے اختلافات ہیں اگر ساری کی ساری احادیث سو فیصد درست ہیں تو اختلاف نہیں ہو سکتا تھا اس لیے حکم ہے یہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف سے کہ آنے والا امام مہدی حاکم عدل ہو گا تو حکم عدل کیا ہے جس نے فیصلہ کرنا کون سی روایات درست ہیں کون سی نہیں تو حضرت مسیح موود علیہ السلام نے اس بارے میں ایک بنیادی فیصلہ ہے حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے فرمایا کہ جو حدیث قرآن کریم کے موارث اور مخالف پڑھے اور کوئی راہ تطبیق کی پیدا نہ ہو اس کو رد کر دو تو یہ تو حضور نے بنیادی اصول بیان کر دیا جس کتاب کا حوالہ دے دیا گیا ہے اعجاز احمدی کا اور یہ صفحہ نمبر ایک سو چالیس کا حوالہ ہے اسے ایک صفحہ پہلے حضور نے اسی بارے میں فرمایا ہے فرمایا ہم یہ نہیں کہتے کہ تمام حدیثوں کو ردی کی طرح پھینک دو بلکہ ہم ہیں ان میں سے وہ قبول کرو جو قرآن کے منافی وعرض نہ ہوں تاکہ ہلاک نہ ہو جاؤ تو جب حضور کہتے ہیں نہ کہ احادیث کو ردی کی طرح پھینک دو تو یہ والی احادیث نہیں کون سی ہوں گی جو قرآن کریم کے مخالف ہیں تو ظاہر ہے کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف منسوب قول جو ہے دیکھیں اگر ساری کی ساری روایات درست ہی ہیں تو پھر علماء جو شارحین احادیث گزرے ہیں سارا کا سارا اسماء و رجال کا علم ہے سارا کا سارا پھر ضرورت ہی کوئی نہیں تھی جو بات حضور کی طرف کریں ماننی پڑے گی تو یہ ہمارا صرف کہنا نہیں ہے بلکہ ایک جگہ تو حضرت علیہ السلام نے جہاں تک لکھا ہے فرمایا کہ جو بھی حکم آئے گا چلیں کل کو ان کا ہی آ جاتا ہے حضرت عیسی علیہ السلام فرض کے نازل ہو جاتے ہیں وہ آ کے کچھ احادیث کو درست منایا گیا حضرت عیسی علیہ السلام دمشق کی نعرے دمشق میں جو مینار ہے وہاں پہ نازل ہو جاتے ہیں تو یہ باقی احادیث ہیں کہ وہ جبل عفیق پر نازل ہو گا بیت المقدس مقدس میں نازل ہو گا مسلمانوں کے لشکر میں نازل تین احادیث تین چار کو تو مختلف تو چھوڑ دیا نا فرمایا امام مہدی ایک روایت میں لکھا ہے امام حسن کی اولاد ہے ایک میں لکھا ہے امام حسین کی اولاد ہے کسی میں لکھا ہے کہ وہ ابن عباس کی اولاد میں سے ہوگا میں بخاری شریف میں لکھا ہے کہ وہ اہل فارس میں سے ہوگا تو فرمایا جو بھی حکم آئے گا وہ حکم عدل ہوگا حق و عدل کا کام ہے قرآن کریم کے مخالف جتنی بھی روایات حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف منسوب کی جاتی ہیں عملا نہیں ہے وہ روایات منسوب ہیں ان کو ردی کی طرح پھینکنا ہے اور کیا کرنا ہے جزاکم اللہ آپ نے اس کا یعنی کہ مختلف پہلوؤں سے اور خاص طور پر جو اعتراض کا ایک حصہ یہ بھی تھا کہ یہ خود ساختہ اصول ہے تو اس پر بھی آپ نے روشنی ڈال دی ہے کہ یہ اصول نے بیان کیا ہے خود ساختہ اصول نہیں ہے بلکہ اللہ کے رسول نے یہ بیان کیا ہے صحابہ نے اس کو اس طرح سے دیکھا ہے اس کو سمجھے ہیں اور آگے انہوں نے اس چیز کو پہنچایا ہے اور حضرت نے بھی اسی اصول کو قائم کیا ہے اور بلکہ اس کے مطابق اس کو زیادہ بہتر طریقے پر ہمارے سامنے پیش کیا تھا کہ ہم کھول کر بیان کر دیا ہمارے لیے جزاکم اللہ اگلا سوال ہم حفیظ اللہ صاحب کی خدمت رکھنا رکھنا چاہوں گا کہ حضرت مسیما میں جیسے ذکر ہوا تھا کہ دیگر مذاہب جو اسلام پر اپنی برتری کو ثابت کرنے کی کوشش کر رہے تھے ان کے ان کی کتابوں سے ان کی تعلیمات کے مطابق ادھر سے چیزیں لے کے اسلام کی برتری کو ان پر ثابت کیا تو اعتراض اس پر یہ اٹھایا جاتا ہے کہ آپ علیہ الصلاۃ والسلام نے پہلے ہندوؤں اور عیسائیوں کے جو بزرگ ہیں ان کو گالیاں دی ان کے خلاف اس طرح کی زبان استعمال کی تو پھر انہوں نے آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے نازیبا الفاظ استعمال کیے.

00:29:30

تو اس حوالے سے میری گزارش ہو گی کہ اس پر روشنی ڈالیں.

00:29:35

دیکھیں یہ خلاف واقعہ اعتراض ہے.

00:29:39

تاریخ میں یہ کوئی مشکل بات نہیں ہے. اور افسوس یہ ہے کہ یہ اعتراض کرتے وقت حضرت موسی علیہ الصلوۃ والسلام کی دشمنی میں دیکھیں کہ یہ کیا سے کہاں سے کہاں پہنچ جاتے ہیں. اب بات کیا حضرت مسیح علیہ الصلاۃ والسلام نے اگر کسی مذہب کے ماننے والوں کے خلاف سخت الفاظ استعمال کیے ہیں تو کیوں کیے ہیں? ہاں حضور اللہ علیہ وسلم کی محبت میں آپ حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی عزت کے دفاع میں قرآن کریم کے دفاع میں اسلام کے دفاع میں تو یہ کہتے ہیں کہ چونکہ انہوں نے اسلام کا دفاع کیا ہے رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی جو اس پر آپ کی ذات پر اعتراضات کیے گئے ان کا دفاع کیا لہذا وہ دوسروں کو ناراض کر بیٹھے ہیں عجیب قسم کا اعتراض ہے اور پھر جو یہ اعتراض ہے کہ حضرت سلام نے چونکہ ان کے بزرگوں کو اور ان کو سخت زبان استعمال کی ہے یا سب و ستم کیا ہے اس وجہ سے انہوں نے گالیاں انہوں نے حضور صلی پر حملہ کیا یا قرآن کریم اور اسلام پر حملہ کیا یہ بات درست نہیں ہے حضرت موسی علیہ السلام نے کئی جگہوں پہ یہ ذکر فرمایا ہے اور تاریخ سے بھی یہ دیکھا جا سکتا ہے کہ آغاز کس کی طرف سے ہوا ہے آغاز دوسری طرف سے ہوا ہے عیسائیوں نے یا ہندوؤں نے یا دوسرے مذاہب کے ماننے والوں نے اسلام پر اعتراضات کیے ہیں اسلام پر حملے کیے ہیں قرآن کریم پر حملے کیے ہیں ان کے بچے بچے رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی ذات پر اور آپ کو ہنسی اور ٹھٹھہ کا اور مذاق بناتے تھے اور ایک لمبا عرصہ تک یہ ایسا سلسلہ چلتا رہا ہے حضرت موسی علیہ السلام نے کہیں فرمایا تیرہ سال تک ہم صبر کرتے رہے ہیں.

00:31:15

کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی ذات پر وہ اس طرح کے حملے کر رہے تھے. اور یہ جب حضرت نسیم الصلاۃ والسلام کے زمانے میں بھی یہ بتا جب یہ اعتراض اٹھا تو حضور نے فرمایا کہ بعض سمجھتے ہیں کہ میں نے اپنی تحریرات میں گویا کہ نعوذ باللہ ان کو گالیاں دی ہیں. صبر شدہ کیا ہے تو حضور نے فرمایا کہ یہ بالکل غلط خیال ہے.

00:31:37

میں نے وہی بات بتائی ہے جو حقائق ہیں. جو ان کی کتاب میں موجود ہیں جب اس قدر حضرت مسیح موسی علیہ السلام نے فرمایا کہ جب اعتراضات اس حد تک بڑھ گئے اور رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی ذات پر اعتراضات اور حملے کرنے لگے تو حضرت نے کیا کیا ہے حضرت مسیح موسی علیہ السلام نے کیا ہندو اور کیا عیسائی اور کیا دیگر مذاہب کے انہی کی کتابوں میں سے انہی کے دین انہی کے مذہب کے مطابق ان کو اصلیت ان کو آئینہ دکھایا ہے کہ تم رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم پر اعتراض کرتے ہو تمہارے ماننے والے تمہارے بزرگ دین کے مطابق ان کا یہ مقام تھا ان کے یہ حالات تھے تو حضرت مسیح الصلاۃ والسلام نے اپنے پاس سے تو کچھ نہیں فرمایا ان کی تعلیم کو عیسائیوں کو بائبل کے ساتھ مورد الزام ٹھہرایا ان کی بائبل کے مطابق ان کے یسوع کی جو تصویر کھینچی گئی ہے انہوں نے حضرت مسیح الصلاۃ والسلام نے وہ ان کے سامنے رکھی ہندوؤں کے جو بانی ہیں ان کی جو مقدس کتابیں ہیں ان سے حوالے نکال کے ان کے سامنے رکھے کہ آپ کے آپ کیا اعتراض حضرت بانی اسلام پر کرتے ذرا اپنے گھروں کی طرف جھانکیں.

00:32:44

اپنے اندر دیکھیں. کہ آپ کی تعلیم کے مطابق آپ کے معززین کیا تھے? تو حضرت مسیح الصلوۃ والسلام نے یہ الزامی جوابات دیے ہیں. ان کو کہنا کہ یہ حضور نے اس طریقے سے حملہ کیا ہے. اور اس وجہ سے انہوں نے آن حضور صلی اللہ علیہ وسلم پر حملہ کر دیا. کہ یہ وجہ بنی یہ بالکل درست بات نہیں ہے. دوسری بات یہ ہے.

00:33:04

کہ سخت زبانی کیا منع ہے? کسی کے بارے میں اس طرح جو حقائق پر مبنی ہو.

00:33:11

حقیقت پر مبنی ہے تو پھر تو قرآن کریم کو جب ہم دیکھتے ہیں قرآن کریم کے اندر بھی سخت الفاظ استعمال کیے ہیں اللہ تعالی قرآن کریم میں فرماتا ہے اللہ تعالیٰ کفار کے بارے میں فرماتا ہے کہ جو تم عبادت تم اور جس کی تم عبادت کر رہے ہو وہ جہنم کا ایندھن ہے یہ پھر فرمایا کہ تمام بدتر مخلوق جو دنیا میں ہے اس سے بد ترین تم ہو اس سے زیادہ سخت الفاظ اور کیا سکتے ہیں تو پھر تو قرآن کریم پر بھی نعوذ باللہ اعتراض اٹھتا ہے کہ قرآن کریم نے کے اندر تو اس طرح بہت ہی سخت زبانی دوسرے مذاہب کو راضی کرنا تھا نہ کہ ان کو ناراض کرنا تھا تو کیا کفار یہ باتیں سن کر کیا وہ خوش ہوتے ہوں گے اسی طرح اس سے تھوڑا سا دور چلے جاتے ہیں حضرت عیسی علیہ الصلاۃ والسلام کے بارے میں جو سب سے زیادہ حضرت عیسی علیہ الصلاۃ والسلام نے جو زبان کی تلوار چلائی ہے کسی نبی نے نہیں چلائی آپ نے یہودیوں کے فقیوں ان کے فریسیوں کے بارے میں فرمایا یہ سور اور بندر ہیں اس کے علاوہ ولد الحرام کا لفظ استعمال کیا ہے اور جو ان کے ایک معزز نے کیا وہ ہیرو دوست تھے ان کو لومڑی کہا خطاب دیا اور انتہائی دل آزار اور سخت الفاظ استعمال کیے ہیں اور یہاں تک کہ ان سخت الفاظ کی وجہ سے حضرت عیسی علیہ الصلاۃ والسلام کو مار بھی کھانا پڑی آپ کے منہ پر تمانچہ مارا گیا اسی طرح حضرت یحیی کے بارے میں بھی آتا ہے کہ انہوں نے بھی یہ کے خلاف سخت الفاظ استعمال کیے ہیں اچھا آن حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے آ جاتے ہیں آپ نے جب اسلام کی تبلیغ کی اور اللہ تعالی نے آپ پر شریعت نازل فرمائی تو یہ جب قرآن کریم میں یہ شریعت کے الفاظ اترے اور اسی طرح پلید نجس یہ مکہ کے قریب نہ جائیں تو یہ جب اس طرح کے الفاظ آئے تو وہ کفار کا جو وفد ہے ہم سب جانتے ہیں کہ وہ حضرت وہ آپ کے داد عبدالمطلب کے پاس آپ کے چچا ابو طالب کے پاس آئے اور ان کے سامنے یہ رکھا کہ ہمارے بتوں کو یہ برا بھلا کہتے ہیں ان کو کہیں کہ اس سے بعض آ جائے تو رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس اس وقت کیا طاقت تھی بظاہر انسانی طاقت تو نہیں تھی لیکن رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے کیا فرمایا کہ جو کچھ میں کہہ رہا ہوں یہ خلاف واقعہ نہیں یہ حقیقت ہے یہ ایسا ہی ہے اور میں ان چیزوں سے باز نہیں آ سکتا کیونکہ میرے خدا تعالی نے مجھے یہ بتایا ہے کہ یہ جس کی عبادت کر رہے ہیں ان کا کوئی مقام نہیں کا کوئی حیثیت نہیں ہے.

00:35:40

یہ ایک جھوٹ ہے جس کے اوپر یہ چل رہے ہیں. اور یہ سب کچھ وہ ایذا اور تکالیف اور مصائب اور مشکلات سہنے کے باوجود آپ اپنی تبلیغ سے باز نہیں آئے. اور کفار جو کہ ہر چیز پر آمادہ نظر آتے ہیں. صرف ایک ان کا مطالبہ تھا. کہ ہمارے بتوں کو برا بھلا کہنا چھوڑ دے. لیکن ہاں حضور صلی اللہ علیہ وسلم کیا اس سے باز آئے? حضرت آپ حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا.

00:36:05

خواہ اس بارے میں میری جان چلی جائے. یہ مرضی کر لیں. لیکن میں جو خدا تعالی نے مجھے پیغام دیا ہے اس سے میں پیچھے نہیں ہٹوں گا. تو یہی بات ہمیں نظر آتی ہے. کہ حضرت مسیح الصلوۃ والسلام نے کہیں بھی اس کو سب و ستم کہنا یہ یا آپ کی گالیاں آپ نے دی اور دوسروں کو برا بھلا کہا. یہ حقیقت نہیں ہے.

00:36:25

حضرت مسیح الصلاۃ والسلام نے ان کے سامنے وہی رکھا. جو ان کی کتابوں میں موجود تھا. جو ان کی کتابوں, ان کے بزرگوں کے مقام اور مرتبے اور جو ان کی تعلیم کے مطابق بیان کیا گیا. خواہ وہ حضرت جو ان کے ہاں یسوع تھا یا ہندوؤں کے یا دوسرے مذاہب کے وہی حضور نے ان کے سامنے رکھا اور کب رکھا اس وقت جب انہوں نے وہ دوسرے مذاہب کے ماننے والے ہاں حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی ذات پر اعتراضات اور حملے کرنے سے باز نہیں آئے قرآن کریم اور اسلام پر اعتراض کرنے سے باز نہیں آئے تو اس وقت حضرت مسیح الصلاۃ والسلام نے ان کو اپنا آئینہ دکھایا ہے نہ کہ حضرت نسیم الصلاۃ والسلام نے ان کی ان کے اوپر حملے کیے ہیں جزاکم اللہ اگلا سوال اب یہ ہمیں ایک سوال موصول ہوا ہے ظہیر احمد صاحب کی طرف سے میں رحمت اللہ صاحب سے درخواست کروں گا کہ وہ اس بارے میں جواب بیان فرمائیں وہ یہ کہتے ہیں کہ اعتراض کیا جاتا ہے کہ امام مہدی نے تو مکہ میں پیدا ہونا تھا جبکہ حضرت مرزا غلام احمد صاحب قادیانی علیہ الصلاۃ والسلام جو ہیں آہ وہ قادیان میں پیدا ہوئے ہیں.

00:37:29

تو اس کو کس طرح سے سمجھا جا سکتا ہے. جزاکم اللہ حضرت آنے والے امام مہدی اور عیسی علیہ السلام کے بارے میں جس طرح میں نے پہلے بھی تذکرہ کیا کہ متفرق قسم کی احادیث لکھی ہوئی ہیں کتب احادیث میں.

00:37:43

بلکہ مقدمہ ابن خلدون میں تو جہاں تک لکھا ہے کہ امام مہدی کے بارے میں جتنی بھی احادیث ہیں وہ جرح سے خالی نہیں ہیں.

00:37:54

باقی جہاں تک یہ کہنا کہ صرف مکہ کے بارے میں لکھا ہے دیکھیں یہ بات درست نہیں ہے احادیث میں لکھا ہے مثال کے طور پر بخاری شریف میں لکھا ہے کہ جب سورۃ جمعہ کی آیات نازل ہوئیں.

00:38:08

تو اس وقت حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی مجلس میں موجود ایک غیر عرب جو حضرت سلیمان فارسی رضی اللہ تعالی عنہ تھے ان کے کندھے پہ ہاتھ رکھا بار بار پوچھنے پر تیسری دفعہ فرمایا کہ اگر ایمان ثریا ستارے تک بھی چلا گیا تو ان لوگوں میں سے ان لوگوں میں سے وہاں سے ایمان لا کر دنیا میں قائم کرنے والے آ جائیں گے لوگ امام مہدی ان لوگوں میں سے آئے گا شیعہ کتب میں جہاں تک حضرت علی رضی اللہ تعالی عنہ کی روایت ہے وہ کہتے ہیں کہ کہ میرے نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے میرے محبوب نے میرے سے یہ پکا وحد وعدہ لیا ہے عہد لیا ہے کہ کہ میں آنے والے امام مہدی کا نہ تو نام کسی کو بتاؤں نہ اس کی جائے پیدائش بتاؤں تو بھئی حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے معین نہیں کی کہ کس جگہ پہ اس آنے والے امام مہدی کی جائے پیدائش ہے بلکہ بعض روایات میں اس کے بالمقابل دیکھیں تو احادیث میں لکھا ہے حضور نے میں مجھے مشرق کی طرف سے ٹھنڈی ہوا آتی ہے مکہ سے مشرق قادیان ہے ہندوستان ہے.

00:39:14

تو حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے نہ تو کوئی معین جائے پیدائش بتائی ہے. نہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے آنے والے امام مہدی کا نام معین کوئی نام نہیں بتایا. صفات بتلائی ہیں. اور وہی صفات جو ہیں آنے والے امام مہدی میں پوری ہو رہی ہیں. جہاں تک دوسرا حصہ ہے اس سوال کا دیکھیں ہمارے نزدیک تو امام مہدی اور عیسی علیہ السلام الگ وجود ہے ہی نہیں.

00:39:36

ابن ماجہ میں حدیث معروف ہے کہ حضرت ابن حضرت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کہ امام مہدی اور عیسی ایک ہی وجود ہیں. اور آنے والے عیسی علیہ السلام کے بارے میں میں نے پہلے بتا دیا روایات میں لکھا ہے کہ دمشق مشرقی مینارے پر نازل ہوگا بعض روایات میں لکھا ہے کہ آنے والا امام مہدی جو ہے وہ مسلمانوں کو لشکر میں اترے گا بعض میں لکھا ہے کہ جبل حفیظ پر آئے گا کسی میں لکھا ہے بیت المقدس میں نازل ہوگا تو یہ ساری کی ساری صفاتی طور پر تو ان کو اکٹھا ایک یکجا کیا جا سکتا ہے قرآن کریم کی روشنی میں ورنہ معین جگہ کا نام معین date of birth یہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے نہیں بتائی ٹھیک ہے جزاکم اللہ تو سر حوالے سے ظہیر صاحب امید ہے کہ آپ کو آپ کے سوال کا جواب مل گیا ہوگا اگلا سوال جو ہے وہ میں حفیظ اللہ صاحب کی خدمت میں رکھنا چاہوں گا یہ سوال حضرت علیہ الصلاۃ والسلام نے جو جماعت تیار فرمائی خدا تعالی کے حکم کے مطابق آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی پیش گوئیوں کے مطابق تو اس پر اعتراض کیا جاتا ہے کہ حضرت نسیم علیہ الصلاۃ والسلام نے اپنی تحریرات میں اپنی جماعت کی مذمت کی ہے تو آپ علیہ الصلوۃ والسلام کے آنے کا اثر کیا ہوا کیونکہ آپ اپنی جماعت کی مذمت کر رہے ہیں دیکھیں حضرت مسیم الصلوۃ والسلام نے جہاں سے یہ صاحب جس کتاب کا حوالہ دے رہے ہیں یہ بالکل یعنی کہ شروع کے زمانہ کی یہ کتاب ہے حضرت موسی علیہ السلام کے دعوے کے بعد کی جہاں کہیں یہ ذکر فرمایا ہے لیکن یہ بھی دیکھنا چاہیے کہ حضرت مسیح الصلوۃ والسلام نے متعدد جگہ پر بے شمار جگہوں پر اپنی جماعت کی کس طرح تعریف فرمائی ہے تو ایمان لانے کے فورا بعد کوئی بھی اعلی مقام پر فائز نہیں ہو جاتا اس کے لیے تربیت ضروری ہوتی ہے آ صلی اللہ علیہ وسلم کی اگر جب ہم زندگی کا مطالعہ کرتے ہیں اور آپ کے صحابہ کا حضرت ابو ابو ذر غفاری کو کون نہیں جانتے تو ایک دفعہ ان کا کسی کے ساتھ کوئی جھگڑا تھا تو حضور نے فرمایا کہ تیرے اندر ابھی تک بھی وہ جاہلیت کی چیزیں نظر آتی ہیں اب کوئی یہ کہہ دے کہ حضرت رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے تو اپنے صحابہ کی مذمت کر دی ہے حالانکہ وہ تو صحابی تھے تو یہ بن جاتی ہے.

00:41:53

تو یہ بات درست نہیں ہے. اب قرآن کریم میں جب ہمیں مطالعہ قرآن کریم کے مطالعہ کرتے ہیں تو خدا تعالی کی آہ جو آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی دوسرے انبیاء کی بھی صفت نظیر اور بشیر بیان کی گئی ہے. کہ وہ بشارتیں بھی دیتے ہیں اور ڈراتے بھی ہیں. تو جب ہم حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے صحابہ کو دیکھتے ہیں تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے صحابہ نے آپ کی تربیت کے بعد وہ اصحاب میں ورنہ اس سے پہلے اللہ تعالی کیا فرماتا لیکن جب ان کی تربیت ہوئی جب ان کو اللہ تعالی کے رسول نے ان کو روحانیت کے رنگ میں ڈالا تو وہ کیا وہ اصحابی کن نجوم کہلائے اب سورۃ جمعہ کا ہی ذکر کر رہے ہیں اس میں اللہ تعالی فرماتا ہے اب نماز کی فضیلت کے بارے میں معاذ اللہ صحابہ نہیں جانتے تھے اور وہ بھی فرض نماز اور وہ بھی جمعہ کی نماز فرما رہا ہے کہ جب وہ تجارت دیکھتے ہیں یا کوئی کھیل کود کا تو وہ تجھ کو اکیلا چھوڑ دیتے ہیں اور وہاں بھاگ جاتے ہیں تو یہ اب معاذ اللہ یہ کہنا یہاں پہ کوئی اعتراض کرنے والا حضور صلی اللہ علیہ وسلم اتنی تربیت نہیں کر سکتے کر سکے کہ ایمان لانے کے بعد یہ صحابہ کا ذکر ہے نا جو آپ پر ایمان لانے والے جو آپ کے پیچھے نمازیں ادا کرنے والے ہیں کہ یہ حال تھا کہ نمازیں چھوڑ کے وہ کے پیچھے بھاگ جاتے تھے لیکن یہی جب ان کی تربیت فرمائی تو بعد میں اللہ تعالی فرماتا ہے کہ ایک فرض نمازیں تو کیا وہ تو راتوں کو اٹھ کر خدا تعالی کے ساتھ ان کا ایسا تعلق پیدا ہو گیا ہے کہ وہ اپنی آرام گاہوں کو چھوڑ دیتے ہیں وہ دنیا کی آرام قربان کر کے خدا تعالی کے ساتھ دل لگاتے ہیں خدا تعالی نے بعد میں ان انہی لوگوں کی گواہی دی تو یہی اصل بات ہوتی ہے کہ جب اللہ تعالی جب کوئی نبی ہے تو وہ نبی کے پہلے دن کے آنے کے ساتھ انقلاب نہیں آجاتا ان کے ایمان لانے والے جو اس پر ایمان لاتے ہیں ان کے ایمان اور مقام اور ایکان اور عقائد میں آہستہ آہستہ اضافہ ہوتا ہے یہی وجہ ہے کہ جو اب خدا تعالی کے نبی ہوتے ہیں ان کے قریب ترین جو رہتے ہیں وہی اس سے استفادہ کرتے ہیں اور ان کی جو محافل میں بیٹھتے ہیں وہ خدا تعالی سے بہت بڑے مقام اور اجر پاتے ہیں اب دنیا کے مال کی کس کو ہوس نہیں ہوتی ابھی جو آیت میں نے آپ کے سامنے پیش کی ہے اس میں مال کی مال کا ہی ذکر ہے کہ وہ نماز اور اس کو چھوڑ کے لیکن وہی صحابہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی تربیت میں آ کر وہ کوئی گھر کا سارا سامان لا کے آپ کے قدموں میں نچھاور کر دیتا ہے تو کوئی آدھا سامان لا کے نچھاور کر دیتا ہے تو کوئی قحط کے دنوں میں اپنی تجارت کا ایک بہت بڑا حصہ جو ہے وہ غرباء اور فقراء میں بانٹ دیتا ہے تو اس مقام تک پہنچنے کے لیے وقت چاہیے ہوتا ہے یہی بات ہے کہ حضرت نے جب ان کی تربیت فرمائی تو اس میں پھر نورالدین بھی نکلے اس میں جو بے شمار ہم صحابہ کا ذکر ان کی قربانیاں اور ان کے بارے میں حضرت نے جو بیان فرمایا ہے ان میں سے میں صرف ایک کا ذکر کرتا ہوں جو بہت سارے حضور کے اقتباسات ہیں باقی مراقبے میں صرف ایک آپ کے سامنے رکھنا چاہتا ہوں حضور فرماتے ہیں کہ میں حلفا کہہ سکتا ہوں کہ کم is کم ایک لاکھ آدمی میری جماعت میں ایسے ہیں یہ حضرت کے زمانے کی اب تو اللہ تعالی کے فضل سے وہ تعداد بہت بڑھ چکی ہے کہ ایک لاکھ آدمی میری جماعت میں ایسے ہیں کہ سچے دل سے میرے پر ایمان لائے ہیں اور اعمال صالح بجا لاتے ہیں اور باتیں سننے کے وقت ایسے روتے ہیں کہ ان کے گریباں تر ہو جاتے ہیں میں اپنے ہزار ہا بیت کنندہ گان میں اس قدر تبدیلی دیکھتا ہوں کہ موسی نبی کے پیرو ان سے جو ان کی زندگی میں ان پر ایمان لائے تھے ہزار ہا درجہ ان کو بہتر خیال کرتا ہوں حضرت موسیٰ کے زمانے میں تھا کہ چالیس سال اپنی قوم کو چھوڑا تو وہ تمام کے تمام ایک بچھڑے کو معبود بنا بیٹھے اب یہ اعتراض کریں کہ حضرت موسیٰ علیہ الصلاۃ والسلام نے ان کی کیا تربیت فرمائی تو یہ حضور فرما رہے ہیں اچھا اور ان کے چہروں پر صحابہ کے اعتقاد اور صلاحیت کا نور پاتا ہوں شاز و نادر کے طور پر اگر کوئی اپنے فطرتی نفس کی وجہ سے صلاحیت میں کم رہا ہو تو وہ شاز و نادر میں داخل ہے تو حضور نے جہاں بیان فرمایا ہے یہ شاز و نادر ہے حضور نے خود بیان فرمایا ہے کوئی فطرت کی وجہ سے اس میں اگر کوئی نقص ہے تو یہ چند قلیل بہت ہی کم تعداد ہے میں دیکھتا ہوں کہ میری جماعت نے جس قدر نیکی اور صلاحیت میں ترقی کی ہے یہ بھی ایک معجزہ ہے پھر بھی ہمیشہ ان کو ترقیات کے لیے ترغیب دیتا ہوں اور ان کی نیکیاں ان کو نہیں سناتا مگر دل میں خوش ہوں تو یہ اصل بات ہے جو حضرت نسیم الصلاۃ والسلام نے بیان فرمائی ہے ٹھیک ہے جزاکم اللہ اگلا سوال میں رحمت اللہ صاحب کی خدمت میں رکھنا چاہوں یہ ایک سوال ہے جو قرآن کریم کی ایک آیت کو پیش کر کے پیش کیا جاتا ہے وہ یہ ہے کہ ہم جس کسی بھی رسول کو بھیجتے ہیں تو اس کی قوم کی زبان اس میں بھیجتے ہیں یعنی کہ وہ اپنی قوم کی زبان بولتا ہوتا ہے تاکہ وہ ان کے سامنے اس کو واضح طور پر بیان کرے تو حضرت مسیح احمد علیہ الصلاۃ والسلام پر جو اعتراض کیا جاتا ہے وہ یہ ہے کہ آپ کو مختلف زبانوں میں الہام ہوئے پنجابی میں الہام بھی ہوئے ہیں عربی میں ہے اسی طرح دوسری زبانوں کے الہامات پائے جاتے ہیں تو یہ قرآن کریم کی اس آیت کے خلاف نہیں اور کیا حضرت مسیح الصلوۃ والسلام پر جو وہ اعتراض کرتے ہیں کہ وہ درست نہیں دیکھیں حضرت مسیح مود علیہ السلام کسی خاص قوم یا قبیلے کے لیے تو آئے نہیں تھے مسیح موت علیہ السلام جو ہیں حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی اتباع میں آپ آئے ہیں تو پہلے حضور کی اپنی زبان میں کیا الہامات ہوئے ہاں حضور عربی بھی حضور جانتے تھے اردو بھی جانتے تھے پنجابی بھی جانتے تھے بعد چیمہ صاحب یہ ہے کہ دیکھیں بعض اعتراضات جو ہیں نا اس وقت کر دیے جاتے ہیں جب اپنے اپنے عقائد کے بارے میں سوچا بھی نہیں ہوتا دیکھیں سارے جو ہمارے مخالفین ہیں آج کل ایک نیا چھوٹا سا فرقہ پیدا ہوا جن کے بقول حضرت عیسیٰ نازل نہیں ہوں گے باقی سب کے خیال میں تو عیسی نے آنا ہے نا آسمان سے تو جس وقت عیسی علیہ السلام آسمان پر گئے تھے تو وہ تو ابرانی ہیں بعض کہتے ہیں نہیں یونانی میں باتیں کرتے تھے تو آج حضرت عیسی علیہ السلام بالفرض آ جاتے ہیں واپس تو وہ کیا میں بولیں گے یونانی میں بولیں گے یا وہ اگر وہ عربی سیکھیں گے نہیں عربی آئے گی نہیں ان کو تو پھر کیسے وہ بات کر سکتے ہیں بھئی جو آنے والا امام مہدی ہے جو آنے والا ماؤد مسیح ہے اس میں اس کو تو اللہ تعالی کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی اقتدا میں مختلف قسم کے الہامات ہونے تھے دوسرا جہاں پہ کا ہے ماضی کا سیکھا ہے کہ سابقہ جو گروہ آئے ہیں انبیاء کا وہ کیونکہ ایک ایک قوم کی طرف آتے تھے قبیلے کی طرف آتے تھے تو اس لیے وہ جس قوم یا قبیلے کی طرف آتے تھے اس قوم یا قبیلے کی لازمی طور پر بولتے تھے محدود نہیں تھا ورنہ تو قرآن کریم میں اللہ تعالی کہتا ہے کہ ہم نے حضرت سلیمان علیہ السلام کو منطق طائف پرندوں کی زبان سکھائی ہے تو بھائی حضرت سلیمان انسانوں کی طرف کیا مبعوث ہوئے تھے یا نہیں ہوئے تھے تو پھر ایک تو ہوگی ان کو انسانوں والی زبان آیت آتی ہوگی کتنی قسم کے پرندے تھے ان کو سب کی زبان ان کو آتی تھی وہ کتنے قسم کے پرندے تھے جو ان کی طرف الہام ہوتا تھا تو آنے والے امام مہدی کے بارے میں آنے والے مسیح موت کے بارے میں اگر تو وہ ابرانی یورانی بولے گا تو پھر مسلمانوں کا فائدہ کوئی نہیں ہے وہ سارا اسلام کا ماخذ قرآن و حدیث وغیرہ جو ہیں وہ تو عربی میں ہیں تو جہاں تو وہ کسی مولوی سے عربی سیکھ لے گا تو تب بھی پھر درست نہ ہوا بقول ان کے جہاں اللہ تعالی سکھلا دے گا تو پھر نعوذ باللہ کہ اللہ تعالی کے آپس میں آیات جو ہیں ان میں مخالفت واقع ہو گی نہیں تو یہ اعتراض صرف اعتراض برائے اعتراض ہے ورنہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام اردو جانتے تھے اردو میں الہامات ہوئے آپ عربی جانتے تھے آپ کو عربی میں الہامات ہوئے آپ پنجابی جانتے تھے آپ کو پنجابی میں الہامات ہوئے خدا تعالی نے اپنے کو دفلانے کے لیے بتانے کے لیے میں قادر ہوں.

00:50:06

آپ کو ان الفاظ میں بھی الہام کیا ہے جن کو بظاہر آپ اس موقع پر نہیں جانتے تھے. لیکن وہ جب حضور نے پیش کیا کہ جی مجھے بتایا گیا ہے. صحابہ نے بتایا کہ ہاں اس کا یہ مطلب ہے تو پتہ لگا کہ خدا تعالی قادر ہے. تو خدا تعالی قدرت دفلانے کے لیے دیگر زبانوں میں بھی الہامات ہو سکتے ہیں.

00:50:24

آہ ورنہ تو روایات میں جہاں تک لکھا ہے کہ حضرت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف بھی ایک ہوا تھا الہام فارسی میں.

00:50:33

بھی بعض فارسی کے الفاظ بول لیتے تھے تو کوئی قابل اعتراض بات ہے ہی نہیں.

00:50:37

جزاکم اللہ بہت شکریہ. ابھی آہ ہمارے ساتھ ایک کالر ہیں لائن پہ ان سے بات کر لیتے ہیں. السلام علیکم ورحمۃ اللہ.

00:50:48

السلام علیکم جی اسلام علیکم ورحمتہ اللہ وعلیکم السلام ورحمتہ اللہ جی جی آپ کی آواز آ رہی ہے آپ سوال پیش کریں جی میرا نام خالدہ رانا ہے اور دوسری بات میں اللہ کا بہت شکر ادا کرتی ہوں کہ میں جو بہت میں گھما رہی ہوں اور اللہ نے شفا دی اور آج میں راہ خدا میں شامل ہو رہی ہوں تو جی میں ہوں تو وہ آج کل مجھے ایک سوال بہت پوچھا جا رہا ہے کہ آپ بتائیں کہ حضرت اس کی موت کو کیسے پتہ چلا آپ کہتے ہیں ان کو پتہ کیسے چلا کیا کوئی آہ فرشتے نے انعام دیا یا کسی خبر کیسی آئی ان کو کیسے پتہ چلا تو میں سادی عورت ہوں جتنا مجھے آتا ہے میں نے ان کو سمجھایا لیکن وہ چاہتے ہیں کہ ان کے لفظ سننا چاہتے ہیں جو الفاظوں میں ان کو آیا اور انہوں نے اپنی زبان سے ٹھیک ہے جزاکم اللہ بہت شکریہ ابھی ہم میں حفیظ اللہ صاحب سے درخواست کروں گا کہ سوال پر روشنی ڈالیں جی حضرت کو اسی ذات اسی ہستی نے یہ بتایا جو ہستی تمام انبیاء کو جس نے مبعوث کیا اور وہ خدا تعالی کی ذات ہے اور حضرت مسیح وسلام نے جا بجا اس کا ذکر فرمایا ہے اور یہی ہم تمہارا تو یہ ایمان اور عقیدہ ہے کہ اللہ تعالی ہی کھڑا کرتا ہے کسی کو روحانی میدان میں خدا تعالی ہی بھیجتا ہے خدا تعالی کے سوا دنیا کی روحانی میدان میں اور کوئی کھڑا نہیں کر سکتا اگر کوئی منصوبہ ساز ہے اپنے ذاتی منصوبے کے تحت اگر کوئی کھڑا تھا تو اللہ تعالی فرماتا ہے وہ کامیاب کبھی نہیں ہو سکتا قرآن کریم میں تو حضرت نسیم صلاۃ وسلام نے ایک نہیں متعدد الہامات ہیں آپ نے جو بھی دعوی ہے وہ خدا تعالیٰ سے روشنی پا کر خدا تعالیٰ سے الہام اور وحی پا کر ابھی ہم الہام اور وحی کی بات کر رہے تھے حضرت مسیح الصلاۃ والسلام کی کتاب التذکرہ ہے اس میں الہامات سارے موجود ہیں کئی قرآن کریم کی آیات آپ پر الہامات الہام نازل ہوئیں یہ آیت قرآن کریم کی حضرت والسلام پر نازل ہوئی تو جب آپ نے امام مہدی کا دعویٰ کیا تو خدا تعالیٰ نے آپ کو الہاما بتایا کہ آپ اس زمانے کے امام مہدی ہیں جب آپ حضرت عیسی علیہ الصلاۃ والسلام کی وفات جو بنی اسرائیل کی طرف تھا جب دنیا کے سامنے رکھا تو وہ بھی قرآن کریم کی روشنی میں اور اللہ تعالی کی طرف سے آپ کو بتانے کے بعد آپ نے فرمایا کہ وہ عیسی بن مریم جو اللہ تعالی کی نے عیسائیوں میں آہ عیسائی آہ بنی اسرائیل میں بھیجا تھا وہ فوت ہو چکا ہے اور اللہ تعالی نے آپ کو ہی یہ بتایا کہ ان آیات کے مصداق اور ان نبوات کے مصداق آپ ہیں اس وقت آپ وہ ابن مریم ہیں جو جو حضرت آہ صلی اللہ علیہ وسلم کی امت کی اصلاح کے لیے بھیجے گئے ہیں تو آپ نے جہاں ابن مریم کا دعویٰ کیا وہ اللہ تعالی کے الہامات اور وحی کی روشنی میں فرمایا جہاں آپ نے اپنی نبوت کا دعویٰ کیا ہے وہ بھی اللہ تعالی کے بتانے پہ کیا ہے جو قرآن کریم کی آیات ہے اس کی تفسیر اور اس کی تاویل اور ثابت کیا کہ اللہ تعالی نے جو یہاں پہ بیان فرمایا اور جو بیست ثانیہ ہے اس کا مصداق میں ہوں جو جو رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا تھا اور اس اس آیت کی تشریح میں کہ کی تشریح جو حضور نے فرمائی کیونکہ صحابہ کو بھی یقین تھا کہ وہ حضرت حضور صلی اللہ علیہ وسلم تو دوبارہ دنیا میں نہیں آئیں گے یہ کون ہیں تو جو اس کی تشریح کے مطابق آپ نے فرمایا وہ ظل وہ دوبارہ بعثت جو آن حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی ہونی تھی وہ میرے ذریعے ہوئی اور میں اس کا ظل ہوں اور یہی لیکن تمام آپ کے دعوی جو ہیں وہ قرآن کریم کی روشنی میں آ حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی احادیث کے عین مطابق ہے حضرت مسیح الصلاۃ والسلام نے تو کوئی ایک لفظ بھی اپنے پاس سے نہیں کہا جب اللہ تعالی نے آپ پر یہ عقدہ کھولا آپ نے برہن احمدیہ لکھی اس میں کئی ایسے آپ نے قرآن کریم کی آیات اور علامات کا ذکر فرمایا ہے لیکن اس کا مصداق اپنے آپ کو نہیں ٹھہرایا جب تک خدا تعالی نے آپ کو واضح نہیں بتا دیا تو ہمارا یہ ایمان ہے کہ حضرت مسیح علیہ الصلاۃ والسلام نے جب بھی دعویٰ فرمایا ہے مھدویت کا یا مسیحیت کا یا یا یا ذلی نبی ہونے کا تو وہ قرآن کریم کی روشنی میں اور خدا تعالی کی تائید اور آپ کے وحی اور الہام کے ذریعے ہی فرمایا نہ کہ اپنے پاس سے فرمایا بلکہ جب مسیح علیہ السلام نے کتاب لکھی نا تو پہلے حضرت مسیح نو علیہ السلام پہ الہام نازل ہوا کہ مسیح سبن مریم رسول اللہ فوت ہو چکا اور وعدہ کے رنگ میں وعدہ کے موافق اور مسیح کے رنگ میں تو آیا شاید اس میں ایک لفظ آگے پیچھے ہے تو اس کے بعد سے ازالہ ہم یہ ساری کتابیں فوری طور پر میں پہلے ہم تاویل کرتے تھے اب خدا تعالیٰ نے لفظا بھی بتا دیا ہے تو پھر حضور نے بتا دیا تو حضور اپنی طرف سے اس حفیظ اللہ نے بتایا کہ اپنی طرف سے is خود کوئی دعویٰ نہیں کر دیتے تھے دیکھیں نا برائی نے حضور کو نبی اللہ کے نام سے پکارا گیا تھا حضور نہیں کہا جب تک خدا تعالیٰ نے کہا نہیں کہ اعلان کرو تو اس کے لیے حضور نے پھر تشریح بھی کر دیا پڑھ لیں گے غلطی کا ازالہ کتاب اس میں حضور نے بتا دیا گویا کہ یہ کوئی ایسی بات نہیں ہے جو پہلے انبیاء کسی اور طریقے سے ان کو خدا تعالیٰ بتاتا تھا تو اب بالکل کوئی اور نیا طریقہ ایجاد ہونا چاہیے تھا بلکہ تاریخ یا سنت تو وہی رہے گی جو خدا تعالی نے ازل سے بنائی ہے اور اسی سنت کے مطابق جو ہے وہ تمام انبیاء کو خدا تعالی بتاتا رہا ہے اور اسی سنت کے مطابق حضرت وسیم اللہ علیہ الصلاۃ والسلام کو بھی بتایا ہے نظام اللہ بہت شکریہ ابھی ہمارا ہمارے پاس جو وقت ہے وہ بھی نسبتا کم ہے لیکن ابھی الہامات کا ذکر ہو رہا تھا حفیظ اللہ صاحب نے بھی الہام کا ذکر کیا آپ بھی اس سے پہلے جو تھا جو اعتراض اٹھایا جاتا ہے اس میں ہم الہامات کا ذکر کر رہے تھے تو حضرت کے الہامات کے حوالے سے یہ بھی کہا جاتا ہے کہ بعض الہامات شاید پورے نہیں ہوئے جن میں سے ایک الہام یا اعتراض اس رنگ میں پیش کیا جاتا ہے کہ حضرت کو الہام ہوا کہ آپ کے ایک پانچواں لڑکا ہوگا لیکن وہ پورا نہیں ہوا یہ بات درست ہے مسیح موعود علیہ السلام کو الہاما بتلایا گیا تھا کہ آپ کے گھر میں ایک اور لڑکا پیدا ہوگا پانچواں تو حضور نے خود تشریح کی ہے حقیقت الوحی میں ایک تو فرمایا کہ دیکھیں چوتھا پہلے چوتھے کا ہوا مرزا مبارک احمد صاحب پیدا ہوئے جب پانچویں کا ہوا تو فرمایا کہ نافلا تعلق یہ تیرے لیے وہ تیرا پوتا بھی ہو سکتا ہے باقی صرف simple قرآن کریم کو دیکھ لیں تو قرآن کریم نے جو ہے وہ بیٹے کے لیے بھی استعمال کیا ہے لفظ اور بیٹے کے بیٹے کے لیے بھی استعمال کیا ہے مثال کے طور پر کریم کہتا ہے حضرت ابراہیم علیہ السلام کے حوالے سے کہ اے ابراہیم ہم نے تجھے اسحاق اور یعقوب عنایت کیے ہیں تو حضرت یعقوب تو حضرت ابراہیم کے بیٹے نہیں تھے بلکہ اسحاق کے بیٹے تھے حالانکہ خدا تعالیٰ کہتا ہے کہ ہم نے تجھے ابراہیم دیے ہیں دیکھیں شروع سے لے کر end تک قرآن کریم نے جگہ جگہ آتا ہے کہ یا بنی اسرائیل یا بنی اسرائیل اے بنی اسرائیل کے بیٹوں اے اسرائیل کے بیٹوں تو اسرائیل تو حضرت یعقوب کا لقب تھا بھئی حضور صلی اللہ کی حیات میں موجود جو یہودی تھے وہ حضرت یعقوب کے براہ راست بیٹے تو نہیں تھے نسل تھے تو نسل کے لیے بھی بنی کا لفظ ابن کا لفظ استعمال ہو سکتا ہے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کو اس طرح کے جب الہامات ہوئے ساتھ ایک اور الہام بھی ہوا تھا کہ جب اولاد کے بارے میں الہامات ہوئے تو اگرچہ پانچویں کا ہوا چوتھے کا ہوا تو بعد میں اللہ تعالی نے یہ کہا کہ جو تیرے ہم عنایت کر چکے ہیں جو تیرے لیے کافی ہے ہاں دوسرا الہام یہ کر دیا اللہ تعالی نے معنوں میں کہ تیرے آباؤ اجداد سے اب جو نسل چل رہی تھی اس کو منقطع کیا جاتا ہے اور مرزا صاحب سے حضرت مسیح موعود علیہ السلام سے اس نئی نسل کا آغاز کیا جاتا ہے تو جب حضور پر یہ الہامات نازل ہوئے حضرت مسیح مولا سلام کے جو قریبی عزیز تھے وہ ستر سے زائد احباب موجود تھے اب صرف حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی اولاد جہاں آپ کے قریبی عزیزوں میں سے جنہوں نے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کو مانا صرف وہ رہ گئے ہیں.

00:58:56

وہ جو الہام تھا تو حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے خود حقیقت الوحید میں اپنے بیٹے کے لیے بیٹے کے بیٹے یعنی حضرت بشیر الدین محمود احمد رضی اللہ تعالی عنہ کے بیٹے کے لیے اس کو بطور پیش گوئی استعمال کیا ہے. اور یہ بات رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے بھی کہی تھی. حسن حسین کو میرے بیٹے ہیں. حالانکہ وہ نواسے تھے.

00:59:17

ٹھیک ہے. جزاکم اللہ اس حوالے سے یہ سوال بھی ہم نے واضح طور پر سمجھ لیا ہے. اور اسی طرح جو دوسرے سوالات کیے گئے تھے یا اعتراضات بھجوائے گئے تھے. ان کو بھی ہم نے کوشش کی ہے کہ علماء کی خدمت میں رکھ سکیں ان سے اس کے تسلی بخش جوابات حاصل کر سکیں. تو اسی طرح اور بھی مزید سوالات ہم ہمیں موصول ہوئے ہیں جن کو ہم بڑی معذرت کے ساتھ آج اس پروگرام میں شامل نہیں کر سکے.

00:59:40

بعض سوالات تو ایسے ہیں جن کا پہلے جن کے بارے میں ہم گفتگو کر چکے ہیں. ان کے جوابات دیے جا چکے ہیں. لیکن انشاءاللہ آئندہ پروگرام میں کوشش کریں گے. کہ ان سوالات کو بھی اور اگر کوئی دوران ہفتے کے دوران چونکہ اب آپ نے سنا ہے جیسے ابھی کچھ سوالات آپ نے بھجوائے ہیں. ساتھ ساتھ ہم ان کو شامل بھی کرتے رہے ہیں.

00:59:59

تو دوران ہفتہ بھی اگر کوئی سوالات اس قسم کے آپ کے ذہن میں آتے ہیں. تو آپ ضرور بھجوائیں. ہم انشاءاللہ ان کو بھی اگلے پروگرام میں شامل کرنے کی کوشش کریں گے. تو انشاءاللہ اگلے ہفتے ہم دوبارہ آپ کی خدمت میں راہ خدا کے پروگرام کے ساتھ حاضر ہوں گے. تب تک کے لیے اجازت دیجیے. السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ.

Leave a Reply