Ahmadi Muslim VideoTube Rahe Huda Rahe Huda 08 04 2023

Rahe Huda 08 04 2023



Rahe Huda 08 04 2023

Rahe Huda 08 04 2023

اور جی ایم ٹی وقت کے مطابق اس وقت ساڑھے چار بجے ہیں. اور ایک بار پھر ہم آپ کی خدمت میں پروگرام راہ خدا کے ساتھ حاضر ہیں.

00:01:02

ناظرین کرام جیسا کہ آپ کے علم میں ہے یہ پروگرام لائیو اور ہوتا ہے اور آپ بھی ہمارے ساتھ شریک گفتگو ہو سکتے ہیں اور جو بھی آپ کے پاس سوالات ہیں اسلام احمدیت کی تعلیمات کے متعلق جماعت احمدیہ کے عقائد کے متعلق وہ آپ ضرور کریں جو سوالات بھجوانے کی یا کرنے کی تفصیلات ہیں وہ آپ سکرین پر جو ہے وہ دیکھ سکتے ہیں ملاحظہ کر سکتے ہیں اور آپ سے درخواست ہے کہ آپ اپنے سوالات بھجوائے گا اور ہم انشاء اللہ کوشش کریں گے کہ آپ کے سوالات کے جواب دیں اور ہمارے ساتھ آج panel میں علمائے کرام موجود ہیں میں ان کا جو ہے وہ تعارف کرواتا چلا جاؤں ہمارے ساتھ میری بائیں جانب جو ہیں محترم حفیظ اللہ بھروانہ صاحب ہیں اور اسی طرح محترم شمشاد احمد قمر صاحب جزاکم اللہ حسن جزا آپ تشریف لائیں ناظرین کرام اللہ تعالی کے فضل و کرم سے اس وقت ہم رمضان المبارک کے بابرکت مہینے سے گزر رہے ہیں اور جیسا کہ جانتے ہیں رمضان المبارک کا قرآن کریم اور نزول قرآن کے ساتھ ایک بڑا گہرا تعلق ہے جیسا کہ اللہ تعالی بھی قرآن کریم میں فرماتا ہے کہ پوری دنیا میں سب مسلمان کوشش کرتے ہیں کہ قرآن کریم کی تلاوت کی طرف اپنی عبادتوں میں زیادہ توجہ دیں اور قرآن کریم جو ہے اس کو زیادہ جو ہے وہ ہم پڑھیں لیکن صرف سرسری جو ہے وہ تلاوت کرنے سے نہیں پورا ہوتا ہم سب کو چاہیے کہ ہم قرآن کریم کا مطالعہ کریں غور و فکر سے اس کا مطالعہ کریں تدبر کریں قرآن کریم میں کیا لکھا ہے اللہ تعالی کا یہ کلام ہے اس میں اللہ تعالی نے کیا فرمایا ہے اگر ہم اس پر تدبر کرتے ہیں تو پھر ہمیں سنت الہی یا سنت اللہ کا پتہ لگتا ہے کہ اللہ تعالی کن حالات میں اپنے انبیاء کو مضبوط فرماتا چلا آیا ہے اس وقت دنیا کے حالات کیا ہوتے تھے اور جب اللہ تعالی ایک نبی کو مبعوث فرماتا ہے تو کس طرح لوگ جو ہے وہ اس کے ساتھ پیش آتے ہیں.

00:03:21

نبی کی قوم جو ہے اس کے ساتھ کیسے پیش آتی ہے.

00:03:24

دعوی نبوت سے قبل اس نبی کے کیا حالات ہوتے ہیں. اور جب نبوت کا دعوی کرے تو اس کے بعد جو مخالفت ہوتی ہے. پھر اسی طرح جو ہے اعتراضات اٹھائے اٹھائے جاتے ہیں. اور سب سے بڑھ کر ہمارے آقا و مولا آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم پر اعتراضات جو ہیں وہ اٹھائے گئے.

00:03:44

اسی طرح آج بھی اللہ تعالی نے حالات کو دیکھ کر اور رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی بے شمار پیش گوئیوں کے مطابق اور قرآن کریم کی تعلیم کے مطابق آج کے زمانے کے لیے حضرت مرزا غلام احمد مسیح موعود و مہدی موعود علیہ الصلاۃ والسلام کو مبعوث فرمایا اور وہی حالات جو پہلے ہم دیکھتے آ چکے ہیں ہم قرآن کریم میں پڑھتے ہیں وہی حالات ہمیں آج بھی نظر آتے ہیں کہ دنیا کا جو ہے کس طرف جا رہا تھا دنیا کے حالات کیسے تھے اللہ تعالی نے پھر اپنے نبی کو مبعوث فرمایا پیش گوئیوں کے مطابق کس طرح لوگوں نے جو ہے مخالفت کی اعتراضات اٹھائے اور آج تک جو ہے وہ اٹھائے جا رہے ہیں تو اس پہ بہرحال جو ہے ہم سب کو توجہ دینی چاہیے ہم پہلے بھی اعتراضات کے جواب دیتے چلے آئے ہیں اور انشاءاللہ آئندہ بھی دیتے رہیں گے وہ اعتراض جو حضرت اقدس مسیح محمد علیہ الصلاۃ والسلام پر آپ کی ذات پر اور آپ کی جماعت جو ہے وہ اٹھائے جاتے ہیں اس بات پر لیکن غور کرنے کی درخواست ہے انشاءاللہ آج پہلا program ہے جو serious ہے ہم انشاءاللہ جو ہے وہ آج سے start کر رہے ہیں اور اس میں انشاءاللہ آپ کے سوالات ہم لیں گے اعتراضات جو کیے جاتے ہیں حضرت اقدس مسیح الصلاۃ والسلام پر ان کو ہم جو ہے وہ یہاں پر علماء کرام کے ساتھ جو ہے وہ اس پر گفتگو کریں گے ان کے جوابات انشاءاللہ ہم دیں گے تو پہلا سوال جو موصول ہوا ہے اور اکثر ہے وہ یہ کیا جاتا ہے محترم شمشاد قمر صاحب سے خاک صاحب جو ہے وہ پوچھنا چاہتا ہے کہ شمشاد صاحب مختلف جو ہے نشانیاں اور پیش گوئیاں جو ہیں ان کا ذکر کیا جاتا ہے کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی امت کے لیے مختلف معلومات بتائیں اور نشانیاں بتائیں کہ کس طرح ہم اس آنے والے مہدی کو امام مہدی کو مسیح موت کو پہچان سکیں گے اور کہا جاتا ہے کہ متواتر روایات میں یہ بات ثابت ہے کہ جو آنے والا امام مہدی ہوگا اس کا نام بھی محمد ہوگا صلی اللہ علیہ وسلم پھر یہ کہا جاتا ہے کہ اس کے والد کا نام عبداللہ ہوگا وغیرہ تو وہ آل محمد میں سے ہوگا تو پہلے تو یہی سوال بنتا ہے کہ واقعی ہی ایسی روایات ہیں متواتر جیسے کہا جاتا ہے کہ جس میں یہ بات ان باتوں کا ذکر ہے اور اگر ذکر ہے تو پھر یہ اعتراض اٹھایا جاتا ہے کہ مرزا صاحب کا نام تو نہ محمد تھا نہ آپ کے والد کا نام عبداللہ تھا نہ آپ کی والدہ کا نام تھا.

00:06:17

تو اس پر اگر آپ کچھ روشنی ڈال سکیں.

00:06:20

اعوذ باللہ من الشیطان الرجیم.

00:06:22

بسم اللہ الرحمن الرحیم.

00:06:25

عرض یہ ہے کہ جب کسی نبی کی باسط کے بارے میں پیش گوئی کی جاتی ہے. تو عموما دیکھا جاتا ہے کہ وہ اسی نام سے یا اس وہی یعنی وجود نہیں ہوتا.

00:06:39

بلکہ پیش گوئیوں کے اندر بعض اخفا کے پہلو ہوتے ہیں. جو وقت آنے پہ ظاہر ہوتے ہیں.

00:06:46

اگر یہ کیا جائے کہ آنحضور سر آ کہ آنحضور صلی اللہ علیہ وسلم نے آنے والے مہاتی کا نام محمد رکھا تھا اور والد کا نام عبداللہ تھا تو اس کے مطابق حضرت موعود علیہ السلام کا نام ہونا چاہیے تھا جو نہیں ہے اور آپ جو ہیں وہ اس سے تاویلات گھڑ لیتے ہیں جو قابل قبول نہیں ہیں اگر یہ معیار رکھنا ہے کہ وہی نام ہونا چاہیے تو پھر سوال یہ ہے کہ قرآن کریم میں حضرت عیسی علیہ الصلاۃ والسلام کی پیش گوئی مذکور ہے کہ کہ میرے نام میرے بعد ایک رسول آئے گا جس کا نام احمد ہوگا. اور ہم بھی یہ تسلیم کرتے ہیں اور امت مسلمہ ساری امت مسلمہ یہ تسلیم کرتی ہے کہ اس پیش گوئی سے مراد حضرت اقدس محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وسلم ہے.

00:07:47

اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ حضرت عیسی علیہ السلام نے جو پیش گوئی کی تھی وہ یہ تھی کہ اس کا نام احمد ہوگا.

00:07:56

کیا آں حضور صلی اللہ علیہ وسلم کا نام آپ کی والدہ نے احمد رکھا تھا. آپ کے والد نے رکھا تھا. آپ کے دادا نے چچا نے جنہوں نے آپ کی پرورش کی یا کسی رشتہ دار نے بھی آپ کی باسط سے قبل آپ کا نام احمد رکھا ہو. کسی روایت سے یہ ثابت نہیں ہے. کسی حدیث سے یہ ثابت نہیں ہے.

00:08:20

تاریخ سے یہ ثابت نہیں ہے. بلکہ آپ کا نام جو رکھا گیا تھا. وہ محمد بن عبداللہ صلی اللہ علیہ وسلم رکھا گیا تھا. اب اگر یہ رکھنا ہے تو پھر تو نعوذ باللہ من ذالک حضور صلی اللہ علیہ وسلم پر بھی یہ اعتراض بن جاتا ہے جب کہ ہم یہ تسلیم کرتے ہیں کہ آپ احمد تھے اگر یہ کہا جائے کہ ہاں حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے خود اپنے بارے میں فرمایا کہ میں احمد ہوں تو یہ تو حضور کا دعویٰ ہے جو مخالفین کے اوپر تو یہ حجت نہیں ہو سکتا ہاں حجت صرف اس صورت میں ہو سکتا ہے کہ جو پیشگوئی کی تھی کہ وہ احمد ہو گا اس کا نام احمد ہو گا ایک ہی طریقہ ہے وہ یہ کہ اس کا نام طور پر احمد ہوگا یعنی احمد کی جو صفات ہونی چاہئیں جو اس کے اندر خوبیاں ہونی چاہئیں وہ حضرت اقدس محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وسلم کے اندر موجود تھی اس بنا پر ہم کہتے ہیں کہ آپ احمد بھی تھے اور اسی بنا پہ آپ نے دعویٰ بھی کیا کہ میں محمد بھی ہوں میں احمد بھی ہوں اور بالکل یہ درست تھا ہم اس کو تسلیم کرتے ہیں اسی طرح بائبل پہ ہم دیکھتے ہیں تو وہاں حضرت ایلیہ کے آنے کی پیشگوئی تھی اور تمام یہودی آج تک یہ تسلیم کرتے ہیں کہ حضرت مسیح کے آنے سے پہلے ایلیا تشریف لائیں گے اور ان کا بھی یہی عقیدہ تھا کہ وہ جیسے آج حضرت عیسی علیہ السلام کو مسلمان آسمان پر مانتے ہیں یہودی حضرت ایلیہ کو آسمان پر تسلیم کرتے ہیں کہ وہ زندہ آسمان پر چلے گئے اور وہ واپس آئیں گے اس کے بعد مسیحا آئے گا اور آج تک وہ انتظار کر رہے ہیں حضرت عیسی علیہ السلام تشریف لائے تو انہوں نے پھانسی دینے کی کوشش کی اور جب پوچھا گیا کہ آپ سے پہلے ایلیا نے آنا تھا تو حضرت عیسی علیہ السلام نے یہی فرمایا کہ ایلیا تو آ چکا وہ کون تھا یوحنا تو ان کو کا نام کیوں دیا گیا اس لیے کہ آپ کے اندر کی صفات تھیں صفاتی طور پہ آپ حضرت یحیی علیہ السلام اور یہی حضرت عیسی علیہ السلام کا عقیدہ ہے اور یہی آج تک تمام عیسائیوں کا عقیدہ ہے اور مسلمان بھی یہی تسلیم کرتے ہیں کیونکہ ہم حضرت عیسی علیہ السلام پر ایمان لاتے ہیں اور یہی یہودی اس کو آج تک تسلیم نہیں کرتے پھر ہم دیکھتے ہیں قرآن کریم میں سورہ جمعہ میں آ حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے متعلق اللہ تعالی فرماتا ہے کہ یہ وہ یعنی وہی رسول اللہ پھر آپ کی آگے صفات بیان فرمائی کہ ان امین میں اللہ تعالی نے یہ رسول بھیجا ہے یعنی حضرت اقدس محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وسلم اور پھر آگے فرمایا ایک آخرین کی جماعت بھی ہو گی ان میں سے ان کے اندر بھی یہ نبی آئے گا یہی نبی آئے گا یعنی حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی آمد کی ہی پیشگوئی اللہ تعالی قرآن کریم میں بیان فرما رہا ہے تو صحابہ نے یہ سوال کیا کہ یہ جو آخرین کون ہیں یا رسول اللہ آپ نے حضرت سلمان فارسی رضی اللہ تعالی عنہ کے کندھے پہ ہاتھ رکھا اور فرمایا کہ اگر ایمان سریا ستارے پہ بھی چلا گیا تو ان لوگوں میں سے ایک شخص ہو گا جو ایمان کو واپس زمین پہ لائے گا کیا مطلب یہ کہ جب صحابہ نے یہ پوچھا کہ یہ آخرین کون ہیں جن میں آپ تشریف لائیں گے تو حضور نے اپنے آنے سے کیا مراد لی حضرت سلمان فارسی کے کندھے پہ ہاتھ رکھ کے بتایا کہ ان میں سے آئے گا جو میرے نام پہ ہوگا وہ عملا تشریح آپ نے یہ فرما دی کہ میرے آنے سے مراد میرا آنا نہیں بلکہ میرے آنے سے میرے نام کے اوپر میری صفات رکھنے والا ان لوگوں میں سے ہوگا جو آئے گا تو یہ ساری چیزیں بتاتی ہیں کہ ہاں حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے وضاحت کے ساتھ یہ بیان فرما دیا اور حضور نے یہ نہیں فرمایا کہ اس کا نام محمد ہو گا اس کے والد کا نام عبداللہ ہو گا بلکہ یہ کہ کہ اس کا نام میرے نام کے مطابق ہوگا.

00:12:18

کہ اس کے والد کا نام میرے والد کا نام ہوگا. ورنہ یہ کیوں نہیں فرما دیا سیدھا کہ اس کا نام محمد اور والد کا نام عبداللہ ہوگا. یہ نہیں فرمایا. بلکہ فرمایا اس کا نام میرے نام کے مطابق اس کے باپ کا نام میرے باپ کے نام کے مطابق ہوگا. اب یہ چیز بھی بتاتی ہے کہ گویا اس کو میرے سے الگ وجود نہ سمجھنا. وہ میری ہی رکھنے والا ہو گا میرا زل اور میرا بروز ہو گا اتنا یعنی اس کے ساتھ پختہ تعلق ہو گا اتنی محبت کا تعلق ہو گا اتنی صفات وہ میری اپنے اندر رکھتا ہو گا کہ وہ جیسے ایک باپ سے بچے میں صفات آتی ہیں وہی جینز آتے ہیں اس کی شکل اس کے اوپر ہوتی ہے صورت اس کے مطابق ہوتی ہے تو فرمایا ایسے وہ میرا ہی زل ہو گا بروز ہو گا میری صفات رکھنے والا ہو گا تو ضد کی بات نہیں ہے جب ہم تاریخ انبیاء دیکھتے ہیں, قرآن سے دیکھتے ہیں, بائبل سے دیکھتے ہیں, حدیث سے دیکھتے ہیں.

00:13:14

یہ ثابت کرتی ہے کہ حضرت عیسی علیہ السلام اسمو احمد کی پیش گوئی کرتے ہیں تو ہم دیکھتے ہیں وہ صفاتی طور پہ پوری ہوئی.

00:13:22

بائبل میں حضرت آ یہ جو ایلیا کی پیش گوئی ہے تو عملی طور پہ دیکھتے ہیں وہ صفاتی طور پہ پوری ہوئی. پھر قرآن کریم میں رسول پاک صلی اللہ علیہ وسلم کے متعلق فرمایا کہ وہ آخرین میں بھی آئیں گے. حضور حدیث میں خود اس کی وضاحت فرما رہے ہیں. کہ میرے مراد میرا نہیں حضرت سلمان فارسی کے کندھے پہ ہاتھ کے ان ان کی اولاد میں سے ایک بندہ آئے گا اس کا آنا مراد ہے جب قرآن میں یہ چیز بیان کر دی بائبل نے یہ چیز بیان کر دی حدیث میں رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ چیز بیان کر دی آج یہی بات ہے جو حضرت مسیح موعود علیہ الصلاۃ والسلام نے بیان فرمائی ہے کہ میں محمد بھی ہوں میں احمد بھی ہوں لیکن ذلی اور بروزی طور پر میں اس نام سے آیا ہوں اس کی صفات لے کے آیا ہوں میرے اندر وہی سب کچھ ہے سب ہم نے اس پایا شاہد ہے تو خدایا.

00:14:16

وہ جس نے حق دکھایا وہ میں نے کہا یہی ہے. تو یہ وہ چیزیں ہیں جو غور کرنی چاہیے. دیکھیں تمام فرق کیا ہے? فرق یہ ہے. کہ تمام انبیاء اللہ تعالی کے کی صفات کے مظہر ہوتے ہیں.

00:14:30

اور وہی صفات آ کے وہ دنیا میں تقسیم کرتے ہیں. وہی سکھاتے ہیں.

00:14:35

لیکن اب کیا ہے? اب خدا تعالی نے اس شریعت کے اندر یہ پابندی لگا دی کہ ان کو کہہ دے اے نبی اگر تم اللہ سے محبت کرنا چاہتے ہو.

00:14:48

پہلے تمہیں میری اگر تم اللہ کی صفات اختیار کرنا چاہتے ہو. وہ رنگ اپنے اندر پیدا کرنا چاہتے ہو تو پہلے میرا رنگ اختیار کرو.

00:14:58

میرے مسیل بنو. میری صفات اپنے اندر پیدا کرو گے تو چونکہ میرے اندر یہ خوبی ہے کہ جو میری صفات اختیار کرے گا وہ اللہ کا رنگ اختیار کر جائے گا. وہ اللہ سے محبت کرے گا اللہ اس سے محبت کرے گا. تو یہ تو رسول پاک صلی اللہ علیہ وسلم نے واضح کر دیا ہے. قرآن میں اللہ نے واضح کر دیا ہے. اور یہ قرآن کریم کا طریقہ ہے. کہ جو ظاہری حالات ہوتے ہیں ظاہری چیزوں کے نام ہوتے ہیں ان سے خدا تعالی کو غرض نہیں ہوتی خدا تعالی اس کی صفات کو دیکھتا ہے اعمال کو دیکھتا ہے ظاہری طور پر ہماری آنکھیں ہیں کافروں کے بھی آنکھیں ہیں کان بھی ہیں زبانیں بھی ہیں دل بھی ہیں لیکن اس کے باوجود کہ وہ دیکھ رہے ہیں سنتے بھی ہیں بولتے بھی ہیں اللہ فرما رہا ہے یہ نہیں دیکھتے اور پھر دوسری جگہ فرمایا کہ ان کے دل ہیں پر سوچتے نہیں ہیں کان ہیں پر سنتے نہیں ہیں آنکھ ہیں دیکھتے نہیں ہیں.

00:15:59

وہ ڈنگر ہیں.

00:16:00

مویشی ہیں. حالانکہ وہ انسان ہیں. لیکن اللہ ان کو انسان نہیں سمجھ رہا. کیوں? انسانوں والی صفات ہونی چاہیے. جو خدا انسانوں کے اندر دیکھنا چاہتا ہے. اگر وہ صفات نہیں ہیں. تو خدا ان کو انسان بھی قرار نہیں دیتا. تو یہی وہ چیز ہے جو ہمیں قرآن کریم سے نظر آتی ہے. اور دوسری پہلی کتابیں جو الہی کتابیں ہیں ان میں نظر آتی ہے. اور حضرت اقدس محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وسلم کی سنت سے جو ثابت ہے.

00:16:28

وہ یہی ہے.

00:16:30

کہ جب نام دیکھے جائیں گے تو پھر صفاتی طور پہ دیکھا جائے گا. صفات کو نظر انداز اگر کریں گے تو پھر ہم آہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی وہ پیش گوئی بھی پوری نہیں کر سکتے اس کو ثابت نہیں کر سکتے. اس لیے تقوی اختیار کرنا چاہیے. جو خدا کی طرف سے آیا ہے. صاف دل کے ساتھ اس کی طرف جائیں اور اس کو دیکھیں اس کی تعلیم کو دیکھیں. اگر وہ تعلیم باقی خدا کی محبت پیدا کرنے والی ہے تو پھر وہ خدا سے ہی ہے.

00:16:55

اور اس پر ایمان لائیں. اس بات میں مت الجھیں.

00:17:00

اس کے اوپر اسرار نہ کریں کہ جی ہم وہ نام ہوگا تو ہم مانیں گے نام سے نہیں اس کی صفات کو دیکھنا ہوگا جو صفات اللہ تعالی نے اگر وہ پیدا کی ہیں تو پھر نام اس کا وہی ہے جو حضرت اقدس محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وسلم کا نام تھا ناظرین کرام جیسا کہ ہم نے ابھی سنا یہ بات بہت ضروری ہے ہم سب کے لئے سمجھنے والی کے اعتراض کرنے سے پہلے ہمیشہ جو ہے وہ یہ بات ضرور سوچ لی جائے کہ آیا یہی اسی قسم کا اعتراض حضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم پر تو نہیں پڑتا اور ویسے تو بڑی وضاحت کے ساتھ یہ بات جو ہے وہ ہو گئی ہے لیکن پھر بھی اس کا ایک تھوڑا مختلف زاویہ ہے وہ میں سوال جو ہے کی شکل میں اب میں جو ہمیں موصول ہوا ہے وہ پیش کرنا چاہوں گا میں محترم حفیظ اللہ صاحب سے کہ یہ بھی ساتھ کہا جاتا ہے کہ بہت ساری روایات ہیں کہ بنو فاطمہ میں سے جو امام مہدی ہو گا اور چونکہ مرزا صاحب جو ہیں بنو فاطمہ میں سے نہیں تھے اس لیے وہ مہدی نہیں ہو سکتے اور ساتھ یہ بھی کہا جاتا ہے کہ اس میں جسمانی بیٹا مراد تھا کہ جسمانی بیٹا ہو گا نہ کہ روحانی بیٹا اور آگے سے پھر یہ بات جو ہے وہ اکثر کہی جاتی ہے کہ ورنہ تو پھر ہر کوئی جو ہے وہ اٹھ کے دعویٰ کر دے محدویت کا دعویٰ کر دے اور ساتھ اپنی توجیحات پیش کرے اور کہے کہ میں بھی روحانی بیٹا ہوں رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا اور میں امام مہدی ہوں تو اس کے زاویے سے جو ہے اگر آپ اس پہ روشنی ڈال دیں اس کا کیا جواب ہو گا بسم اللہ الرحمن یہ جو کہا جاتا ہے کہ امام مہدی جو ہیں وہ سادات سے ہوں گے.

00:18:37

اس کی ایک وجہ تو یہ ہے کہ مسلمانوں میں یہ عقیدہ رائج ہے کہ امام مہدی اور مسیح دو شخصیات آہ ہوں گی. ایک شخصیات نہیں ہیں. دوسری ایک وجہ یہ بھی ہے کہ شیعہ حضرات خصوصا جو ہمارے شیعہ دوست ہیں وہ یہ کہتے ہیں کہ آل فاطمہ جو ہے جو فاطمہ کی اولاد میں سے ہیں حضرت رضی اللہ عنہا ان کے امام مہدی کا یا امام یا سادات جو کیا اس کو کہتے ہیں جو سردار ہیں ان کا حق صرف آل فاطمہ سے ہی ہے باہر سے کوئی اور نہیں آ نہیں سکتا کہ جو تقوی کے اعلیٰ معیار پر ہیں وہ صرف سادات خاندان ہی ہیں حالانکہ اللہ تعالی تو فرماتا ہے کہ اللہ تعالی کے نزدیک کوئی کسی قوم سے یا کسی family سے وہ معزز نہیں ہو سکتا اصل جو معزز انسان ہے سب سے قریب ترین خدا تعالیٰ کے وہ تقویٰ کی وجہ سے ہے اللہ تعالیٰ تقویٰ کو معیار بناتا ہے کہ خدا تعالیٰ کے قریب سب سے زیادہ خدا تعالیٰ کے مکرم اور معزز وہی ہے جو تقویٰ کے اعلیٰ معیار پر ہے دوسری بات یہ ہے کہ الرسول جو ہے وہ صرف نبی کی اولاد ہی آل رسول نہیں کہلاتی بلکہ اس کے برعکس اگر نبی کی اولاد ان کے اندر اعمال صالح نہیں ہے تو وہ عالم شمار ہی نہیں ہوتے قرآن کریم اس کے بارے میں ہمیں بتاتا ہے اللہ تعالیٰ تو حضرت کے قصہ میں بیان فرماتا ہے کہ حضرت نوح کو اللہ تعالی کی طرف سے یہ بشارت تھی کہ جب وہ طوفان آئے گا جب عذاب تیری قوم پر آئے گا تو تیرے اہل اور عیال کو اس سے بچایا جائے گا محفوظ رکھا جائے گا جب حضرت نوح علیہ الصلاۃ والسلام نے اپنے بیٹے کو آنکھوں کے سامنے ڈوبتے دیکھا تو اللہ تعالی کا وہ وعدہ اللہ تعالی کو یاد کرایا حضرت نوح نے تو اس کے جواب میں اللہ تعالی نے فرمایا کہ اے نوح یہ یاد رکھ کہ میرا وعدہ تو یقینا ہے کہ تیرے اہل کو اس سے بچایا جائے گا.

00:20:42

لیکن تیرا بیٹا جو ہے وہ تیرے آل اور تیرے اہل میں سے نہیں ہے. کیوں? کیونکہ اس کا عمل نیک نہیں ہے. تو یہ قرآن کریم یہ ہمیں بتا رہا ہے کہ جو نبی کی اعلی اولاد یا آل وہی کہلاتی ہے جو نبی کی تعلیم پر عمل کرتی ہے. جو نیک اعمال بجا لاتی ہے. ورنہ خونی رشتہ تو حضرت نوح کے ساتھ اس کے بیٹے کا تھا.

00:21:05

اللہ تعالی اس اس رشتے کو رد کر رہا ہے.

00:21:08

روحان کے اعتبار سے دوسری بات یہ ہے کہ نبی کے جو ماننے والے ہوتے ہیں حقیقت میں وہی اس کے آل کہلاتے ہیں حضرت ابراہیم علیہ الصلاۃ والسلام قرآن کریم میں فرماتے ہیں کہ جو میرے پیروی کرنے والے ہیں حقیقت میں وہی میری آل ہے وہی میری ذریت ہیں اس سے بعد جو میرے نافرمان ہیں وہ میری ذریت میں سے نہیں ہیں یہی دعا جب حضرت اللہ تعالی نے جب اللہ تعالی نے آپ کو فرمایا کہ آپ کی آپ میں سے میں آپ کو امام بنانے لگا ہوں تو اس وقت اللہ تعالی نے حضرت ابراہیم نے فرمایا اللہ تعالی نے فرمایا کہ ٹھیک ہے ذریت میں سے امام بناؤں گا لیکن صرف انہی کو جو تیرے نقش قدم پر چلیں گے لیکن جو ظالم ہوں گے ان تک میرا کوئی وعدہ نہیں کوئی عہد نہیں ہے تو اللہ تعالی نے اس میں بھی حضرت ابراہیم کو صاف کہ آل جو نبی کی ہوتی ہے وہ بنیادی طور پہ نبی کی پیروی کرنے والی اعمال صالح بجانے لانے والی خدا تعالی کے ساتھ حقیقی تعلق جوڑنے والی وہی نبی کی آل اور وہی نبی کی ذریت ہوتی ہے ابی داود میں ایک حدیث ہے رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ اولیائی المتقون کہ ایک شخص جو میری قوم میں سے ہوگا میری آل میں سے ہوگا وہ یہ دعوی کرے گا کہ وہ میری آل میں سے ہے رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم فرما رہے ہیں وہ میری آل میں سے نہیں ہوگا میری آل میں سے صرف وہی ہوں گے میرے دوست وہی ہوں گے جو متقی ہوں گے تو یہاں رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے بھی اس پر مہر لگا دی کہ جو نبی کی پیروی کرتے ہیں وہی نبی کی آل کہلاتے ہیں اسی طرح شیعہ کی ایک مسند کتاب ہے اس میں حضرت رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا صفا کا خطبہ درج ہے جو آپ نے صفا پر چڑھ کر خطبہ دیا اس میں رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم بنو ہاشم اور بنو عبدالمطلب کو مخاطب کرتے ہوئے فرماتے ہیں کہ آپ یہ جو آپ فرماتے ہیں انہوں نے فرمایا کہ یہ نہ کہنا کہ محمد صلی اللہ علیہ وسلم جو ہیں وہ ہم میں سے ہیں اور ہم بھی داخل ہو جائیں گے جہاں محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم داخل ہوں گے بلکہ آپ نے فرمایا نہ تم میرے دوست ہو سکتے ہو نہ تمہارے علاوہ کوئی میرے دوست ہو سکتے ہیں.

00:23:49

سوائے وہ جو تقوی کی راہوں پر چلیں گے. تو اصل بات یہ ہے یہ تمام جو احادیث ہیں. قرآن کریم جو ہے ہمیں تو یہ بتاتا ہے کہ نبی کے ماننے والے ہی نبی کی اصل آل اور اولاد ہوتے ہیں. جو نبی کی تعلیم پر عمل نہیں کرتا خواہ ان سے جسمانی رشتہ بھی ہو وہ آل نہیں کہلاتے. دوسری بات عجیب یہ دلچسپ ہے.

00:24:11

کہ بحار الانوار میں دو روایات درج ہے. ایک ابو جعفر سے ایک ابو عبداللہ سے. کہ جب امام مہدی آئیں گے تو ان کا یہ کہہ کر انکار کر دیا جائے گا کہ یہ آل فاطمہ میں سے نہیں ہے تو ہوا بھی یہی کہ جب حضرت نے دعویٰ فرمایا تو دعوے میں جب اپنی صداقت کے دلائل دیے تو ان کا یہ انکار کر دیا جاتا ہے کہ یہ آل فاطمہ میں سے نہیں ہے یہ آنحضور صلی اللہ علیہ وسلم کی ایک اور پیش گوئی حضرت والسلام کے حق میں پوری ہو رہی ہے یہ اعتراض اٹھا کر پھر جہاں تک جسمانی تعلق ہے حضرت نسیم نے حقیقت میں جسمانی تعلق بھی آل فاطمہ سے آپ نے ثابت کیا ہے کہ میری دادیاں جو ہیں وہ سادات خاندان سے تھیں تیسری بات یہ ہے کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ جو آپ کی آلاد اور آل میں سے ہوگا حقیقت میں صرف یہ جو آپ دوسرا اس کا اعتراض جو یہ صاحب کرتے ہیں کہ وہ پھر کوئی بھی شخص اٹھ کے مادیت کا دعویٰ کر دے گا سوال یہ ہے کہ کیا رسول حضرت مسیح نے کیا یہ ایک ہی اپنی صداقت کی دلیل دی ہے یہاں تو پہلے بھی کئی مہدیوں کا دعویٰ کیا ہے وہ کیا کوئی ایسا شخص جو اپنے آپ کو محمد کہلاتا ہے کیا یہی دلیل کافی ہے اس کا نام محمد ہے اس کے والد کا نام عبداللہ ہے اس کی والدہ کا نام ہے وہ آل فاطمہ میں سے ہے تو وہ کیا امام مہدی اس کو مانیں گے حضرت مسیم نے تو ہزاروں نشانات کا ذکر فرمایا ہے حضرت مسیم کی صداقت کے لیے تو آسمان نے بھی گواہی دی ہے زمین گواہی دی ہے.

00:25:48

حضرت مسیح الصلوۃ والسلام کے زمانہ میں جو تمدنی مسلمانوں کے حالات تھے. جو روحانی حالات تھے. جو اخلاقی حالات تھے. حضرت آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے جو ان کے بارے میں پیش گوئیاں فرمائی ہیں. کیا وجہ ہے کہ وہ تمام کی تمام پیش گوئیاں اس زمانے میں پوری ہو رہی ہیں. جس میں حضرت نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے دعویٰ فرمایا. تو ایسی بے شمار آپ کی صداقت کی پیش گوئیاں اور ہیں.

00:26:11

جیسا کہ میں نے بتایا.

00:26:12

آسمانی جو پیش گوئیاں اس میں تو کسی شخص کا ہاتھ نہیں ہے. وہ بھی آپ کے آپ کے حق پوری ہو رہی ہیں زمانی جو زمین کی زمینی پیش گوئیاں ہیں وہ بھی آپ آپ کے حق میں پوری ہو رہی ہیں تو وہ بے شمار جو دوسری پیشگوئیاں حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانے ہم آپ کو اس لیے سچا مانتے ہیں کہ صرف یہ نہیں ہے کہ آپ روحانی آل فاطمہ میں سے ہیں یا جسمانی آل فاطمہ میں سے ہم ان ہزاروں پیش گوئیاں جو رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمائی اور جو آپ کی ذات میں آپ کے زمانے میں من و عن وہ پوری ہوئیں اور وہ آپ کی شخصیت میں ثابت ہوئیں اور اس وقت صرف ہی امام مہدی ہونے کا دعویدار تھا وہ حضرت وسلام تھے چوتھی اور آخری بات یہ ہے کہ یہ جو اس طرح کی خصوصا امام مہدی کے بارے میں یہ جو روایات ہیں یہ نہ امام بخاری نے ان کو لیا ہے نہ امام مسلم نے لیا ہے کیونکہ ان ان روایات میں تضاد ہے اب صرف ایک نہ ایک تو نہیں کہ آل فاطمہ میں سے وہ امام مہدی ہوگا اور بھی روایات ہیں امام حسن کی اولاد میں سے یہ بھی ہے کہ ہوگا پھر ایک آیت ہے کہ امام حسین کی اولاد میں سے ہوگا.

00:27:18

پھر ایک روایت ہے کہ حضرت عباس کی اولاد میں سے ہوگا. پھر حضرت عمر کا ایک قول ہے کہ ایک شخص میری اولاد میں سے ہوگا. جو زمین کو عدل اور انصاف سے بھر دے گا. جبکہ پہلے وہ ظلم اور جبریت سے بھری ہوئی تھی. اس کے علاوہ آں حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے جو ثریا ستارے سے ابھی شمشاد صاحب نے جو حدیث پیش کی ہے. اس سے واپس جو دین کو لے آئے گا.

00:27:41

وہ فارسی النصر حضرت سلمان رضی اللہ تعالی عنہ کے کندھے پہ ہاتھ رکھا.

00:27:46

ساتھ فرمایا تو اس کا مطلب ہے کہ حضرت سلمان کی آل میں سے بھی آ سکتا ہے تو پھر ایک مہدی تو نہیں پھر یہ تو چار پانچ مہدیوں کے بارے میں اگر نام پہ جانا تو پھر چار پانچ مہدی ماننے پڑیں گے کیونکہ ہر ایک احادیث میں ذکر ہے تو حضرت امام بخاری اور حضرت امام مسلم کا ان احادیث کو ان روایات کو نہ لینا اس بات کی دلیل ہے کہ ان روایات میں یہ بعد میں یعنی کہ سیاسی عناصر کی وجہ ان میں بعض چیزیں جو ہیں وہ دخل اندازی کی گئی ہے ورنہ یہ حضرت عیسی علیہ الصلاۃ والسلام یا مسیح کے بارے میں تو حضرت امام مسلم میں بھی ملتی ہیں امام بخاری کی بھی روایات ملتی ہیں تو ان کو نہ لینا اس بات کی دلیل ہے کہ ان میں چونکہ اختلافات ہیں یہ سیکھا نہیں ہے یہ مستند نہیں ہے اور ان کے لفظی لفظی ان کو اس طرح مان لینا یہ حقیقت میں صرف ایک ہی بات ہے کہ اس شخص سے بغض ہے جو اس وقت خدا تعالی نے بھیجا ہے اور اس پہ نہ ایمان لا ایمان نہ لانے کے بہانے کیے جاتے ہیں اور اسی طرح ہوتا رہا ہے پہلے بھی انبیاء کے ساتھ اسی طرح سلوک کیا جاتا تھا اور اعتراض کیے جاتے تھے تو جزاکم اللہ حسن جزا ناظرین کرام ویسے تو جیسا کہ ابھی محترم حفیظ اللہ صاحب نے ذکر کیا ہے بہت سارے نشانات ہیں آسمانی نشان ہیں جو پورے ہو چکے ہیں بے شمار پیش گوئیاں ہیں اس مختصر وقت میں program میں تو صرف چند ایک باتوں کا ذکر ہو سکتا ہے لیکن ہر قسم کی معلومات جو ہیں وہ ہماری ویب site پر بھی موجود ہیں الاسلام dot out پہ اسی طرح یوٹیوب پہ جو ہے جو ہمارا چینل ہے ایم ٹی اے کا وہاں پر پروگرام دیکھ سکتے ہیں اور بے شمار جو ہیں نشانات ان کا ذکر ہو بھی چکا ہے پہلی جو قسطیں گزری ہیں راہ خدا کی تو ضرور آپ جو ہے ان کو ملاحظہ فرمائیے اور امم باقی جو ہے یہ بھی بہرحال ایک ذہن میں بات ہوتی ہے اکثر مسلمانوں کے کہ عیسی علیہ الصلاۃ والسلام جو ہے وہ زندہ آسمان پر چلے گئے ہیں وہاں پر موجود ہیں اور انہی نے جو ہے وہ آخری میں نزول فرمانا ہے اب وہ تو الگ بحث ہے اس کے متعلق جو ہے وہ ہم بے شمار دفعہ گفتگو کر بھی چکے ہیں آئندہ بھی انشاءاللہ کریں گے کہ آیا عیسیٰ علیہ الصلاۃ والسلام ابھی زندہ ہیں یا نہیں زندہ تو اگلا سوال جو ہمیں موصول ہوا ہے اس کی طرف آتے ہیں کہ محترم شمشاد احمد قمر صاحب سے سوال جو ہے وہ خاک سر کرے گا کہ شمشاد صاحب مختلف جو ہے وہ لکھا ہے کہ شیعہ سنی تمام مسلمان اس بات کے قائل ہیں کہ عیسی اور مہدی دو الگ شخصیات ہیں اب ویسے یہ بھی ایک دعویٰ ہے پہلے کہ آیا واقعی تمام مسلمان اس کے ہیں کہ عیسی مہدی جو ہے وہ ایک ہی شخص ہوگا اور کہا جاتا ہے اور یہ اکثر مسلمانوں کے ذہنوں میں ہے کہ جب عیسی علیہ الصلاۃ والسلام نازل ہوں گے تو وہ امام مہدی کی اقتداء میں نماز بھی ادا کریں گے اور کہتے ہیں آگے کہ یہ بات تواتر کے ساتھ ثابت ہے اور جو احمدی مسلم ہیں کس کے بنا پر یہ کہتے ہیں کہ عیسی علیہ السلام اور امام مہدی ایک ہی شخص ہیں اور پھر ساتھ وہ اس روایت کا بھی جو ہے وہ ذکر کرتے ہیں کہ عیسی کی روایت معتبر نہیں ہے کہ جسم حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے خود فرما دیا ہے کہ عیسی علیہ السلام اور مہدی ایک ہی شخص ہوں گے تو اس کے بارے اگر آپ کچھ وضاحت کر دیں جہاں تک تواتر کا ذکر آپ نے کیا ہے یا جو ہمارے سوال کرنے والے ہیں کہ تمام اس بات پر متفق ہیں کہ حضرت عیسی علیہ السلام اور حضرت امام مہدی دو الگ الگ وجود ہیں تو سوال یہ ہے کہ کون سے عیسی علیہ السلام مراد ہیں کیا وہ جو بنی اسرائیل کی طرف آئے تھے وہ اور امام مہدی وہ تو واقعی الگ ہیں وہ اور تھے یا اور ہیں یا جو آئیں گے.

00:31:34

وہ اور امام مہدی الگ الگ وجود ہیں. تو میرے خیال میں یہاں آنے والے مسیح کی ہی بات ہو رہی ہے. میرے نزدیک یہ بھی درست نہیں ہے. کہ تمام جو مسلمان ہیں وہ اس بات پر متفق ہیں کہ امام مہدی اور آنے والا مسیح وہ الگ الگ وجود ہیں.

00:31:53

مسلمانوں میں سے تو بعض فرقے وہ ہیں. جو مانتے ہی نہیں کہ حضرت عیسی علیہ السلام آئیں گے.

00:31:58

وہ تو وفات یافتہ تسلیم کرتے ہیں. یعنی سارے فرقے یہ نہیں تسلیم کرتے. کہ حضرت عیسی علیہ السلام زندہ آسمان پہ ہیں. بہت سارے مسلمان وہ ہیں. ایسے ہیں.

00:32:10

جو ہماری طرح حضرت عیسی علیہ السلام کو وفات یافتہ تسلیم کرتے ہیں اور لیکن ان کا فرق ہے وہ کہتے ہیں اب کوئی بھی نہیں آئے گا. وہ آنے سے بھی انکار کرتے ہیں. اس لیے پہلی بات تو یہ درست نہیں ہے. جو کہا جائے کہ جی تمام مسلمان متفقہ طور پر متفقہ طور پہ یہ عقیدہ نہیں ہے. کیونکہ بعض ایسے ہیں جو مانتے ہی نہیں کہ آئیں گے.

00:32:31

رہی دوسری بات کہ یہ جو حدیث ہے یہ کمزور ہے.

00:32:37

تو اسم اور بات بھی وہ کہتے ہیں. وہ کہتے ہیں کہ جی ایک طرف تو کہتے ہیں کمزور ہے دوسری طرف اس کی تاویل بھی کرتے ہیں. تاویل یہ ہے کہ اس میں کہتے ہیں جی ہے.

00:32:51

کہ اس کے ساتھ کوئی مہدی ایسا نہیں جس کے ساتھ عیسی نہ آئے یہ بھی ترجمہ ہی غلط بن جاتا ہے اس لیے جب ترجمہ غلط ہے اور وہ اپلائے ہی نہیں ہو سکتا تو پھر خواہ مخواہ محضوف گھسیڑنے کی ضرورت نہیں ہے. کیوں اس کا معنی پھر یہ بنتا ہے کہ جو بھی مہدی آئے گا اس کے ساتھ عیسی لازمی ہو گا. اور یہ ممکن اس لیے کہ مہدی تو ایک سے زیادہ ہیں.

00:33:19

آہ حضور صلی علیہ وسلم نے تو اپنے خلفائے راشدین کو بھی مہدی قرار دیا فرمایا کہ تم پہ میری اور میرے خلفائے راشدین کی جو مہدیین ہیں مہدی ہیں وہ ان کی سنت ضروری ہے کیا ان کے ساتھ بھی کوئی عیسی ہے ہاں عیسی ہوتا ہے لیکن وہ کون سا یہ میں بات میں بتاتا ہوں بات یہ ہے کہ یہاں ہم یہ کہتے ہیں کہ یہ ایک ہی وجود کے دو نام ہیں یہاں بھی بات وہی صفات والی ہے کہ یہ صفاتی نام ہیں مسیح ابن مریم وہ نہیں ہے جو آئے گا.

00:33:56

ان کو ان کی صفات کی وجہ سے یہ نام دیا گیا. اور مہدی بھی دراصل ہدایت یافتہ ہونا یہ صفاتی نام ہے. یہ کسی کا ذاتی نام نہیں ہے. یعنی جو مسیح آئے گا وہ ہی مہدی ہوگا. اس کی جو وضاحت ہے وہ دوسری احادیث سے بھی ملتی ہے. کہ مسند احمد بن حنبل میں حدیث ہے کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا.

00:34:32

وغیرہ وغیرہ آگے تھے کہ قریب ہے کہ تم میں سے جو زندہ رہے وہ عیسی علیہ السلام سے ملاقات کرے اس حال میں کہ وہ امام مہدی ہوں گے یہ حال ہے کہ عیسی علیہ السلام اس حال میں ظاہر ہوں گے کہ وہی امام مہدی ہوں گے اب یہ چیز اگر وہ حدیث کمزور بھی ہے تب بھی مضمون اس کا یہ بتا رہا ہے کہ وہ اس حدیث کے مطابق ہے اور یہ وہ حدیث جس کے بارے میں لکھا ہے کہ یہ صحیحین کی شرط کے اوپر یہ صحیح ہے حدیث یعنی حضرت امام بخاری اور حضرت امام مسلم رحمہ اللہ تعالی ان کی شرائط جو احادیث کی ہیں ان کے مطابق یہ صحیح حدیث ہے تو یہاں حضور صلی اللہ علیہ وسلم وضاحت فرما رہے ہیں کہ جو مسیح آئے گا وہ امام مہدی بن کر آئے گا.

00:35:20

اور ایک اس کی صفت یہ ہو گی کہ وہ امام مہدی ہوگا پھر آگے دوسری صفت بتائی کہ وہ حکم ہوگا اور عدل ہوگا. اب اس کو کہاں لے کیا اس کو بھی کوئی الگ شخصیت قرار دیں گے ایسا نہیں ہے. اور پھر آگے جو کام بتائے ہیں کہ وہ خنزیر کو قتل کرے گا صلی کو توڑے گا یہ امام مہدی کے بھی یہی کام بتائے گئے ہیں اور مسیح کے بھی یہی کام بتائے گئے ہیں جب کام دونوں کے ایک ہیں تو اس کا مطلب وجود بھی ایک ہی ہے.

00:35:48

اور پھر حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی دوسری احادیث دیکھیں حضور نے فرمایا کہ خیر و حاضر امت کہ اس امت یہ جو امت ہے یہ کیفا پہلے کو کہ یہ امت کیسے ہلاک ہو سکتی ہے.

00:36:06

کہ جس کے اول میں ہوں شروع میں میں ہوں اور حضرت عیسی بن مریم اس کے آخر میں ہیں پھر ایک اور حدیث میں حضور فرماتے ہیں کہ کہ وہ امت کیسے ہلاک ہو سکتی ہے جس کے شروع میں اللہ کا رسول ہے حضور صلی اللہ علیہ وسلم ہیں اور آخر میں حضرت عیسی علیہ السلام ہیں درمیان میں کیا ہے ٹیڑھے پن کا کجی والے لوگ ہیں تو ان کا فرمایا مجھ سے تعلق نہیں میرا ان سے تعلق نہیں ہے تو یہاں تو حضرت عیسی علیہ السلام کو ہی آخر میں رکھا اور وہ امام مہدی جس کے بارے میں فرمایا کہ وہ امام ہوگا اور حضرت عیسی اس کے پیچھے نماز پڑھیں گے مقتدی کا تو ذکر رسول پاک نے فرما دیا امام کا ذکر نہیں فرمایا اس کا ذکر ان تمام حدیثوں میں چھوڑ جاتے ہیں یہ ممکن نہیں اصل مسئلہ کیا ہے اصل مسئلہ یہی ہے اصل بات یہی ہے کہ امام مہدی اور عیسیٰ علیہ السلام ایک ہی وجود ہیں مہدی دراصل اس وجود کی صفت ہے جو بھی مسیح بن کر آئے گا وہ خدا کی طرف سے مہدی بھی ہوگا اسی لیے یعنی حضرت امام بخاری رحمتہ اللہ علیہ اور حضرت امام مسلم نے امام مہدی کا کوئی الگ باب باندھا ہی نہیں ہے.

00:37:32

انہوں نے مسیح ابن مریم کا ہی باندھا ہے. اس لیے نہیں باندھا کہ وہ الگ وجود اس کو سمجھتا ہی نہیں ہے. اور دراصل یہ صفت اسی طرح ہے کہ یہ صفاتی نام ہے اور مہدی بھی صفت کے طور پہ آیا ہے کہ وہ خدا کی طرف سے ہدایت یافتہ ہوگا. اور مسیح بننا ہی بنتا ہی تب ہے بندہ جب وہ مہدی بنتا ہے.

00:37:53

خدا کی طرف سے اس کو ہدایت ملتی ہے. اور خدا کی طرف سے ہدایت کب ملتی ہے? حضرت مسیح الصلاۃ والسلام فرماتے ہیں کہ کامل مہدی کے مرتبے پہ بندہ تب ہی پہنچتا ہے جب وہ مسیح بنتا ہے اور مسیح کب بنتا ہے جب اس کا وہ اپنا نفس تباہ کر دیتا ہے اپنے نفس پر فنا جاری کر دیتا ہے صرف روح باقی رہ جاتی ہے جب وہ روح اللہ بن جاتا ہے اپنے نفس پر فنا جاری کر دیتا ہے تو پھر وہ مسیح بنتا ہے جب مسیح بنتا ہے پھر یہی تو اس کا مرتبہ ہے کہ پھر وہ خدا کی طرف سے ہدایت پاتا ہے دراصل یہی مطلب ہے حدیث ٹھیک ہے وہ حدیث کمزور ہے دوسری حدیث صحیح ہے تو احادیث میں بھی جو امام مہدی اور عیسی علیہ السلام کو ایک ہی وجود قرار دیا گیا ہے الگ الگ وجود نہیں ہے ٹھیک ہے جزاکم اللہ حسن جزا تو ناظرین کرام آپ کے پاس یہ موقع ہے ابھی بھی آپ جو ہے وہ سوالات آپ نے بھجوائیے گا اور اسی طرح ہمارے احمدی احباب ہیں جو ہمارے ناظرین ہیں اگر آپ کے ذہنوں میں بھی کوئی سوال ہو اب عقائد کے متعلق حضرت مسیح الصلاۃ والسلام کے حوالے سے بھی اور آپ کی بعثت کے متعلق یا آپ سے کسی نے کبھی سوال کیا ہو تو وہ بھی آپ ضرور کیجیے گا اس وقت ہمارے پاس جو ہے وہ ایک سوال ہمیں موصول بھی ہوا ہے اور وہ ابھی جو ہے اس طرف انشاءاللہ ہم آئیں گے وہ میں ایک دفعہ پڑھ کے بھی سنا دیتا ہوں اور امم ویسے تو اب کافی باتیں جو ہیں وہ ابھی ہو چکی ہیں اور وضاحت بھی ہو چکی ہے تو لیکن اس کے باوجود جو ہے وہ سوال انشاءاللہ جو ہے وہ بھی ہم لیں گے اور امم وہ سوال یہ ہے کہ ویسے محترم شمشاد قمر صاحب نے اس بات کی وضاحت کر دی ہے کہ دو مختلف کام ہوتے ہیں یا زیادہ کام ہوتے ہیں ایک ہی وجود کی شکل میں جو ہے وہ پھر پورے ہوتے ہیں اور ان کو جو ہے وہ کیا جاتا ہے اور یہ عام ہے سنت الہی میں ہمیشہ ہم یہ دیکھتے رہے ہیں کہ اللہ تعالیٰ جو ہے وہ انبیاء کو محبوب فرماتا ہے اور اسی طرح جو ہے یہ سوال ہے کہ نبی اور رسول میں کیا فرق ہے تو وہ بھی محترم شمشاد قمر صاحب سے جو ہے وہ سوال پوچھیں گے اور طرح آگے وہ لکھتے ہیں کہ قرآن کریم میں امتی نبی کا کیا کوئی ذکر ملتا ہے وضاحت فرمائیے اور اس سے پہلے جو ہے کہ اس طرف ہم آئیں محترم حفیظ اللہ صاحب سے جو ہے وہ خاص سوال کرنا چاہے گا کہ آپ نے پہلے ذکر کیا تھا مختلف آسمانی نشان بھی ہیں اور ساتھ یہ بھی وضاحت فرما دی تھی کہ ایسے آسمانی نشانوں میں تو انسان کا کوئی عمل دخل ہو ہی نہیں سکتا اور وہ بھی اللہ تعالی نے حضرت مرزا غلام احمد قادیانی مسیح علیہ الصلاۃ والسلام کے لیے دکھائے اور ان کا ظہور ہوا اور ایک بڑا نشان جس کا اکثر جو ہے وہ ذکر بھی کیا ہے کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے آنے والے مہدی موت کا ایک یہ نشان بتایا تھا کہ اللہ تعالی جو ہے میرے مہدی کے لیے سورج اور چاند گرہن جو ہے وہ ظہور میں لائے گا اور اس حوالے سے اگر آپ تھوڑا سا اس کا پس منظر بتا سکیں کہ وہ کون سا نشان ہے مختصر طور پہ اور اس کے بعد جو ہے اس کے متعلق بعض اوقات سوالات بھی ہوتے ہیں لیکن ناظرین کرام یہ بات ضرور جو ہے وہ یاد رکھنے والی ہے کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ بھی فرمایا تھا کہ اللہ تعالی نے کسی کے لیے آج تک جو ہے زمین و آسمان جب سے پیدا ہوئے ہیں یہ نشان نہیں دکھایا اور جیسا کہ ابھی ذکر ہوا ہے اس میں انسانی عمل دخل ہو ہی نہیں سکتا تو محترم حفیظ اللہ صاحب سے درخواست ہے کہ اس کا جواب دے دیں اور ساتھ بلکہ اس اعتراض کا بھی جواب دے دیں کہ اس میں تاریخ کے متعلق کہا جاتا ہے کہ پہلے تو یہ حدیث جو ہے آیا یہ معتبر ہے یا نہیں اور پھر جو تواریخ ہیں اس حوالے سے بھی بعض اوقات سوال ہوتا ہے کہ کس تاریخ میں یہ وقوع ہونا تھا ہمم.

00:41:49

یہ جو حدیث ہے یہ دار کتنی کی حدیثوں کی حدیث کی کتاب ہے اس میں یہ مذکور ہے حضور صلی اللہ علیہ وسلم یہ امام محمد بن علی سے روایت ہے امام باقر جن کو کہتے ہیں کہ ہمارا جو ہے. اب یہاں یعنی کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ مہدی اور بھی ہوں گے. لیکن جو ہماری طرف سے مبوث ہے اسی لیے آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ جو ہمارا مہدی جو سچا مہدی ہوگا جو ہماری طرف سے مبعوث ہوگا اس کی دو نشانات ہوں گے.

00:42:36

اور وہ نشانات بھی کیا ہے کہ جب سے زمین آسمان و آ زمین بنے ہیں وہ اس طرح کا نشان کبھی ظاہر نہیں ہوا. کہ سورج کو گرہن لگے گا چاند کو گرہن لگے گا اس کی چاند کی گرہن کی پہلی راتوں میں اور سورج کو گرہن سورج کے گرہیں لگنے کی درمیانی رات کو درمیانی دن کو اور پھر دوبارہ فرمایا کہ ایسا نشان کبھی بھی جب سے زمین و آسمان بنے ہیں نہیں ہوئے اچھا ایک تو میں یہ بتا دوں کہ یہ حدیث جو ہے صرف دار قطنی نے روایت نہیں کی بلکہ بہت سارے علماء نے سلف نے اس کو روایت کیا ہے ان میں سے چند ہے کہ میں صرف نام اس وقت پڑھ سکتا ہوں مختصر وقت کی وجہ سے علامہ سیوطی نے ذکر کیا ہے علامہ قرطبی نے علامہ ابن حجر حیثمی نے اس کے شیعہ کی بعض مسند کتب میں بھی اس یہ روایت موجود ہے اور حضرت سے پہلے کہ سینکڑوں علماء اور محدثین اس نشان کو ظاہر کرنے کے لیے دعائیں کرتے رہے اور رو رو کر منبروں پر یہ کہہ کہ اللہ تعالی اس نشان کو ظاہر فرما دے لیکن یہ نشان صرف ایک ہی شخص کے لیے ظاہر ہوا ہے وہ حضرت والسلام کے لیے اور جب حضرت مسیح الصلوۃ والسلام نے دعویٰ فرمایا اس وقت سے مطالبہ کیا گیا کہ اگر واقعی آپ امام مہدی اور آپ سچی ہیں اور خدا کی طرف سے مبعوث ہیں تو آنحضور صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ جو خصوصا پیش گوئی فرمائی ہے یہ آپ کے حق میں پوری ہونی چاہیے پھر خدا تعالی کا کیا کرنا کہ وہ واقعی حضرت مسیح الصلوۃ والسلام کے دعوی کے چند سال بعد اللہ تعالی نے اس نشان کو پورا کر دیا اور انہی راتوں میں جس میں اللہ تعالی آ حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ وہ رمضان مہینے میں کیونکہ اس پیشگوئی میں چار بنیادی باتیں تھیں کہ چاند گرہن لگے گا رمضان رمضان چاند گرہن لگے گا چاند گرہن کے جو مخصوص ایام ہیں ان میں سے سب سے پہلے دن پہلی رات دوسرا یہ سورج گرہن لگے گا اس کی درمیانی دن میں اور پھر تیسرا یہ تھا کہ یہ واقعہ کب ہوگا اکٹھا ہوگا رمضان کے مہینے میں اور چوتھی جو اس میں بنیادی بات تھی کہ اس موت کا اس وقت دعوے دار کا ہونا ضروری ہے ورنہ تو کوئی بھی جب پیش گوئی ہو جائے کوئی بھی اٹھ کے دعویٰ کر سکتا ہے کہ جی یہ پیش گوئی میرے حق میں میں امام مہدی اللہ نے مجھے کھڑا کر دیا ہے تو یہ چار باتیں اس پیش گوئی میں موجود تھیں تو اگر ہم اس پیشگوئی کو مختصر طور پہ میں اگر آپ کو بتاؤں کہ جیسا کہ آپ حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا جب سے زمین و آسمان پیدا ہوئے ہیں یہ نشان کسی کے حق میں ظاہر نہیں ہوا کہ انہی تواریخ میں ایک ہی مہینے میں دعوے دار کے ہونے کے وقت یہ نشان ظاہر ہوا ہو اب حضرت مسیح الصلاۃ والسلام نے فرمایا ہے کہ انہی آیا میں کہ ایک مولوی صاحب محمد لکھو کے والے نے اپنی کتاب احوال الآخرت میں یہ ایک شعر درج کیا ہے آپ وہ یہ اس میں یہ بھی ظاہر ہو جائے گا کہ جو اس وقت علماء تھے چاند اور سورج گرہن کو کن راتوں میں کن دنوں میں وہ خیال کرتے تھے وہ فرماتے ہیں تیرویں, چند, ستیمی, سورج, گرہن, غوثی و صالح اندر ماہ رمضان لکھیا ایک روایت والے اب یہ جو صاحب ہیں جو بزرگ ہیں ان کو خدا تعالی کے علاوہ تو کوئی نہیں بتا سکتا کہ یہ ان کو آج تو سائنسی ایجاد ہے ہر چیز نے ثابت کر دیا ہے لیکن بین ہی اسی طرح کہ تیرہ چن یہ پہلی رات بنتی ہے گرین کی اور ستائیسویں آہ آہ سورج کی یہ دوسرا دن بنتا ہے چھبیس ستائیس اٹھائیس یہ تین رات عموما سورج کو گرہن لگتا ہے اندر ماہ رمضان رمضان کا وہ مہینہ ہو گا لکھیا ایک روایت والے نے تو یہ کس طرح یعنی کہ اس وقت کے علماء اس حدیث کو یہ base بناتے تھے امام مہدی کی صداقت اور امام مہدی کے ظہور کے لیے تو جیسا کہ میں نے بتایا یہ تمام باتیں سوائے حضرت والسلام کے اور کسی نے نہ دعویٰ کیا اور نہ یہ نشان جو ہے ظاہر ہوا رہا یہ کہ اس کی جو سند یا اس کی حدیث کی صحت تو یہ ایک بلکل بودہ خیالات ہے یہ آ حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی بھی توہین ہے پہلی تو بات یہ ہے کہ ایک ایسی پیش گوئی جو تیرہ سو سال سے مفت اسلامی کتب میں مذکور چلی آ رہی ہے اور وہ پوری ہو جاتی ہے اس سے بڑی اس کی صحت کی صداقت اس کی صحت کی دلیل اور کیا ہو سکتی ہے اس کی صداقت پہ مہر لگ جاتی ہے یہ کہ اگر یہ درست نہ ہوتی تو اس کا مطلب نعوذ باللہ ایک جھوٹے نے ایک ایسی بات کہی جو چودہ سو سال کے بعد وہ پوری ہو رہی ہے تو ذرا غور کرنا چاہیے ایسے اعتراض کرنے والوں کے بھی رہا سند کی بات اور سند بھی پیچھے رہ جاتی ہے ایک یہ جو اعتراض کیا ہے کہ امام باقر کا یہ قول ہے یہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا قول ہے ہی نہیں ہے تو اس میں اس کی جو یہ بات ہے میں اس میں ہمیشہ امام باقر نے اس اعتراض کے یہ آپ کے وقت بھی اعتراض ہوا اور آپ سے پوچھا گیا کہ آپ بلا سند احادیث روایت کر جاتے ہیں تو بعض لوگ یہ کہتے ہیں کہ یہ تو پھر آپ کے اقوال ہیں تو امام باقر نے یہ آپ کا قول جو ہے کتاب الارشاد بہ حوالہ بحار الانوار اس میں یہ درج ہے جب پوچھنے والے نے آپ سے پوچھا تو آپ نے ہمیشہ اپنی روایات کے متعلق ایک پختہ اصول بتا دیا آپ فرماتے ہیں کہ جب کوئی حدیث بیان کرتا ہوں اور ساتھ اس کی سند بیان نہیں کرتا تو اس کی سند اس طرح ہوتی ہے کہ بیان کیا مجھ سے میرے پدر بزرگوار علی زین العابدین نے اور ان سے میرے جد نامدار امام حسین نے اور ان سے ان کے جد امجد جناب رسالت مآب صلی اللہ علیہ وسلم نے اور آپ سے جبرائیل نے بیان کیا اور ان سے خداوند عالم نے ارشاد فرمایا آپ نے پوری سند یہ بیان کر دی کہ جب آپ سے کوئی روایت ہوگی تو وہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی ہی ہوگی تو یہ آپ نے ایک تو جو سند کے بارے میں اعتراض ہے یہ آپ نے اس اعتراض کا امام امام باقر نے خود اس کا جواب دے دیا تو جیسا کہ میں نے بتایا نہ اس کی تاریخوں پر اعتراض کیا جا سکتا ہے آج کی سائنس اس قدر ترقی کر چکی ہے کہ کسی لحاظ سے بھی چاند کی پہلی تاریخ کو گرہن لگ سکتا ہی نہیں ہے عربی زبان میں کسی بھی منجد میں کسی بھی موجم کی کتاب اٹھا کے دیکھ لیں کسی بھی جو ادباء ہیں بڑے بڑے انہوں نے کبھی بھی چاند کی پہلی رات کے چاند کو کمر نہیں کہا یہاں پہ کمر مراد ہے اس میں اختلافات ہیں لیکن یہ متفق بات ہے کہ پہلی رات اور دوسری رات کے چاند کو ہمیشہ عرب ہلال کہتے ہیں کمر نہیں کہتے.

00:49:33

اور دوسرا جیسا کہ میں نے بتایا آج کی یہ سائنس نے ثابت کر دیا ہے. کہ پہلی رات یا دوسری رات کے چاند کو یا تیسری رات کے چاند کو گرین لگ ہی نہیں سکتا. یہ سائنسی طور پہ ثابت شدہ بات ہے. چاند کی تاریخ جو اصل اکثر جو گرہن لگتا ہے. وہ لگتا ہی تیرہویں اور چودھویں اور پندرہویں رات کو ہے.

00:49:53

اور اسی طرح سورج کے جو grain ہے. وہ چھبیس, ستائیس اور اٹھائیسویں کی رات کو لگتا ہے. تو یہ جتنے اعتراضات اس وقت اس روایت کے اوپر کیے اصل میں اس کے اوپر غبار ڈالنے کی کوشش کی یہ ایک ایسی صداقت ہے ایسی پیش گوئی ہے اور یہ صرف حضرت مسیم کو محض اس پر ایمان لانے کا ایک عذر بیان کیا جاتا ہے لیکن یہ نہیں سوچتے کہ اس عذر کو بیان کرتے کرتے یہ حضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی بھی اہانت کر رہے ہیں کہ ایک ایسی پیش گوئی جو آپ کی بیان کردہ چودہ سو سال بعد لفظا لفظا پوری ہوئی آج امت مسلمہ اس پیش گوئی کو جھٹلا رہی ہے بالکل جزاکم اللہ حسن جزا ناظرین کرام جیسا کہ ہم آپ کو پتہ ہے ہم رمضان المبارک کے بابرکت مہینے سے جو ہے وہ گزر رہے ہیں اور اس حوالے سے بھی حضرت اقدس مسیح علیہ الصلاۃ والسلام پہ جو ہے وہ مختلف اعتراضات کیے جاتے ہیں بعض سوالات جو ہیں وہ آپ کے موصول ہوئے ہیں ابھی ایک سوال سورہ چاند گرہن کے حوالے سے بھی جو ہے موصول ہوا ہے لیکن محترم حفیظ اللہ صاحب نے اس کا جواب بڑے اچھے انداز میں دے دیا ہے کہ اگر اللہ تعالی نے اس نشان کو دکھا دیا ہے تو سب سے بڑا ثبوت یہی ہے اس کے بعد روایت ہے یا نہیں اس کی بحث ہی ویسے فضول ہے کیونکہ اللہ تعالیٰ نے دکھا دیا اور سب سے بڑا جو ہے اس کا ثبوت یہی ہے تو بہرحال جو message کے ذریعے سے جو سوال آیا تھا محترم شمشاد احمد قمر صاحب کی طرف سے وہ چلتے ہیں دوبارہ جو ہے وہ میں اس سوال کو دہرا دیتا ہوں ویسے تو بہت لمبی بحث ہے تو محترم شمشاد صاحب اگر مختصر طور پر آپ بتا سکیں کہ نبی اور رسول جو ہے اس میں کیا فرق ہے اور پھر آیا امتی نبی جس کا ہم ذکر کرتے ہیں حضرت نسیم علیہ الصلاۃ والسلام امتی نبی تھے تو آیا اس کا بھی ذکر قرآن کریم سے ملتا ہے دیکھیں تک نبی اور رسول میں فرق کا تعلق ہے یہاں بعض فرقے یا بعض علماء اس میں فرق کرتے ہیں ہم اس میں کوئی فرق نہیں سمجھتے.

00:51:50

ہمارے نزدیک نبی اور رسول ایک ہی چیز ہے. ہاں فرق صرف اتنا ہے کہ رسول کا لفظ عام ہے اور نبی کا لفظ عام نہیں ہے.

00:51:59

اور جو علماء حضرات کرتے ہیں وہ یہ کرتے ہیں وہ کہتے ہیں کہ جی رسول جو ہوتا ہے وہ شریعت والا ہوتا ہے. جس کو اللہ تعالی شریعت عطا کرتا ہے. اور نبی جو ہوتا وہ بغیر شریعت کے ہوتا ہے. جب ہم قرآن کریم کو دیکھتے ہیں تو اس میں ہمیں اس قسم کا کوئی فرق محسوس نہیں ہوتا. رسول کس کو کہیں گے. اللہ تعالی جب کسی کو بھیجتا ہے. وہ رسول ہے. وہ اللہ کا پیغمبر ہے.

00:52:26

اللہ کا پیغام لے کے آتا ہے.

00:52:28

وہ فرشتے کو اپنا پیغام دیتا ہے. فرشتہ رسول ہے.

00:52:33

فرشتہ آگے نبی کو وہ پیغام دیتا ہے. وہ نبی رسول بن جاتا ہے. اللہ کا کیونکہ اس نے آگے پیغام پہنچانا ہے. تو وہ نبی اللہ کا رسول ہے وہ نبی بھی ہے رسول بھی ہے. لیکن جب وہ ہمارے پاس آتا ہے تو ہمیں جو کچھ وہ بتاتا ہے وہ خبر ہوتی ہے.

00:52:50

کہتے ہیں خبر کو. جب ہمیں بتاتا ہے تو وہ خدا کی طرف سے جو پیغام ملا تھا ہمارے لیے وہ خبر ہوتی ہے اس لیے ہمارے لیے وہی ہستی جو ہے وہ نبی کہلائے گی. اب اللہ تعالی کو تو وہ خبر نہیں دیتا رسول.

00:53:06

اللہ تو ہر چیز کو جانتا ہے. وہ تو عالم الغیب ہے. اللہ کو تو خبر نہیں دی جا سکتی. اس لیے اللہ کے لیے نہیں. ٹھیک ہے. وہ اللہ کا نبی تو کہلائے گا. اللہ کا رسول کہلائے.

00:53:17

ہمارے لیے وہ نبی ہے جب مخلوق کی طرف آئے گا تو وہ نبی ہو گا خدا کی طرف ہو گا تو پھر رسول ہو گا یہ ایک بنیادی ایک چیز ہے دوسرا میں نے جیسے عرض کیا کہ رسول کا لفظ عام ہے وہ صرف انسان کے لیے نہیں وہ غیر غیر نبی کے لیے بھی بولا جا سکتا ہے وہ فرشتے کو بھی رسول قرار دیا گیا ہے اللہ تعالی قرآن کریم میں فرماتا ہے کہ اللہ تعالی چھومتا ہے لوگوں میں سے بھی فرشتوں میں سے بھی اب فرشتے بھی رسول ہو سکتے ہیں اس آیت کے مطابق اور ہوتے ہیں اللہ تعالی ان کو چنتا ہے پیغام دیتا ہے وہ پیغام لے کے جاتے ہیں اس کی رسالت پہنچاتے ہیں لیکن کسی فرشتے کو نبی نہیں کہا گیا نبی ہمیشہ وہ جو رسول جو انسانوں میں سے جس کو اللہ چنتا ہے وہی نبی کہلا سکتا ہے نبی کے علاوہ کسی کو رسول نہیں کہا جا سکتا ہاں رسول کا لفظ نبی کے بھی بولا جا سکتا ہے.

00:54:18

فرشتے کے لیے بولا جا سکتا ہے. پھر کوئی ایک بندہ دوسرے کو پیغام دے کے کسی کی طرف بھیجے تو اس کو بھی عربی میں رسول ہی کہیں گے. رسالہ اکثر ہم پڑھتے ہیں جی ماہانہ رسالے ہوتے ہیں. دوسرے رسالہ کیا وہ پیغام ہی ہے. تو اس لیے اس میں بنیادی طور پہ فرق نہیں. فرق صرف اتنا ہے کہ رسول کا لفظ عام ہے. وہ غیر نبی بھی ہو سکتا ہے.

00:54:38

اور نبی کا لفظ عام نہیں ہے. غیر نبی جو ہے وہ نبی نہیں کہلا سکتا. نبی کا لفظ نہیں آئے گا. ایک چیز.

00:54:47

دوسری بات اگر رسول سے مراد شریعت والا نبی ہی ہو سکتا ہے. اور غیر جو شرعی ہوتا ہے. وہ صرف نبی کہلا سکتا ہے. رسول نہیں کہلا سکتا اس کی بھی تائید ہمیں قرآن کریم سے نہیں ملتی. ایک امت کی طرف ایک ہی وقت میں دو نبی ہو سکتے ہیں. دو رسول ان معنوں میں نہیں ہو سکتے کہ دو شریعتیں لے کے آ جائیں.

00:55:09

لیکن عملی طور پہ ہم دیکھتے ہیں. ایک وقت میں کئی کے رسول ہوتے رہے ہیں. اور خاص طور پہ دیکھیں موسیٰ علیہ السلام کو اللہ تعالی بیان فرماتا ہے ہم نے اس کے بعد پے در پے رسول بھیجے ہیں پے در پے شریعتیں تو نہیں آئی نبی آئے ہیں انہی نبیوں کو رسول بھی کہا گیا ہے حالانکہ وہ یعنی حضرت موسیٰ علیہ السلام کی امت میں سے تھے اسی شریعت کو لے کے آگے چلتے تھے اسی طرح پھر حضرت موسیٰ علیہ السلام کے اپنے زمانے میں حضرت موسیٰ علیہ السلام کی درخواست پہ حضرت ہارون کو نبی بنایا گیا بطور وزیر ٹھیک اب دونوں کو رسول کہا گیا.

00:55:52

قرآن کریم سورہ طحہ میں اللہ تعالی فرماتا ہے.

00:55:57

کہ ہم دونوں تیرے رب کے رسول ہیں. یعنی حضرت ہارون بھی رسول. حضرت موسی بھی رسول. پھر ایک دوسری یعنی سورہ شہری میں بھی اللہ تعالی فرماتا ہے.

00:56:09

رسول اور رب العالمین کہ ہم رب العالمین کے رسول ہیں.

00:56:13

اگر رسول شریعت والا ہوتا ہے. تو کیا حضرت ہارون الگ شریعت تھی اور حضرت موسی کی الگ شریعت تھی. یا دونوں کو دی گئی نہیں دی گئی تھی صرف موسیٰ علیہ سلام کو حضرت ہارون علیہ سلام آپ کی مدد کے لیے تھے آپ کی جانشینی کرتے تھے اور اس میں ہی یعنی آپ کی پیروی کرتے تھے وہ تو اس لیے ثابت یہ ہوتا ہے کہ دونوں ایک وقت میں دو شریعتیں لے کے نہیں آئے شریعت ایک ہی تھی تو حضرت آ ہارون علیہ سلام کو بھی رسول کہا گیا حالانکہ وہ شریعت لے کے نہیں آئے تھے اور حضرت موسی علیہ السلام کو بھی رسول کہا گیا تو ایک بات دوسرا جہاں تک یہ تعلق ہے کہ جی کیا امتی نبی کا ذکر ملتا ہے اگر تو امت کا لفظ ڈھونڈیں گے کہ جی امتی رسول اور اس طرح یہ تو اردو کی اصطلاح ہے.

00:57:06

اصل چیز تو یہ دیکھنا ہے کہ جو امتی نبی کی وضاحت حضرت مسیح موت علیہ الصلاۃ والسلام نے فرمائی ہے. کیا اس sense میں کوئی نبی پہلے آیا ہے. کیا کہ وہ پچھلے نبی کی شریعت پر عمل کرتا ہو.

00:57:21

اس کی اس کے ماتحت ہو. اسی کو لے کے آگے چلتا ہو اسی کی امت میں سے ہو تو اسی کو امتی نبی کہا گیا ہے نا وہ یہی مثال جو ابھی میں نے آپ کے سامنے حضرت موسی اور حضرت ہارون علیہ السلام کی پیش کی ہے اس میں کیا بتایا گیا ہے کہ حضرت موسیٰ علیہ السلام اصل میں شریعت لے کے آئے تھے حضرت ہارون علیہ السلام آپ کے ساتھ تھے آپ کی مدد کے لیے تھے جب آپ حضرت موسیٰ علیہ السلام چالیس راتوں کے لیے گئے تو بعد میں کیا فرمایا کہ نہیں میری جان اور پھر جب واپس آئے دیکھا کہ قوم جو ہے وہ بچھڑے کی پوجا کر رہی ہے.

00:58:00

تو حضرت موسی علیہ سلام فرما فرماتے ہیں قرآن کریم میں آتا ہے.

00:58:10

کہ تجھے کس چیز نے منع کیا تھا جب تو دیکھ رہا تھا کہ یہ گمراہ ہو رہے ہیں. تو نے میری پیروی کیوں نہیں کی? کہ تو نے میرے حکم کی خلاف ورزی کی ہے. مطلب کیا کہ آپ ماتحت تھے وہ امتی ہی تھے گو لفظ نہیں آیا لیکن عملی طور پہ اس کا مطلب وہی ہے جو حضرت نسیم علیہ السلام بیان فرما رہے ہیں کہ حضرت ہارون حضرت موسی کی امت میں سے ہی تھے اسی شریعت کو لے کے آگے چلتے تھے اس کی نافرمانی نہیں کر سکتے تھے تو یہی حضرت علیہ السلام نے فرمایا ہے تو اس میں فرق تو کوئی نہیں قرآن کریم سے رسول کا بھی ثابت ہوتا ہے کہ وہ لازمی نہیں کہ شریعت لے کے آئے رسول اور نبی میں کوئی فرق نہیں ہے بالکل ہاں باقی رہا کہ امتی نبی ہو سکتا ہے بالکل قدم پہ امت نبیوں کی تفصیل ہے کہ امت میں نبی آتے رہے جو پچھلے نبی کی شریعت پر عمل کرتے رہے ہیں اس لیے اس میں کوئی انکار کی بات نہیں ہے جزاکم اللہ حسن جزا ناظرین کرام ہم آج کے program کے اختتام کو پہنچ گئے ہیں تو میں جو ہے وہ علماء کرام کا شکریہ ادا کرنا چاہتا ہوں آپ تشریف لائے اور آپ نے جو ہے وہ سوالات کے جواب دیے اور ناظرین کرام ابھی کل ہی امام جماعت احمدیہ عالمگیر حضرت خلیفہ عزیز نے اپنے live خطبہ جمعہ حضرت اقدس مسیح کے ارشادات کی روشنی میں قرآن کریم کے جو محاسن ہیں قرآن کریم کی جو تعلیمات ہیں ان کے متعلق جو ہے وہ ان پر روشنی ڈالیے خطبہ ارشاد فرمایا تو میں سمجھتا ہوں کہ اگر ہم اس خطبے کو ہی کل والے خطبے کو جو life اس پہ یوٹیوب پہ جو ہے وہ میسر ہے اس کو دیکھ لیں تو پھر جو ہے ہم سب کو جو ہے وہ بات بالکل واضح ہو جائے گی کہ وہی امام مہدی اور مسیح موعود علیہ الصلاۃ والسلام ہیں جنہوں نے کریم کی اسلام کی اس طور پہ خدمت کی جس طرح پیش گوئیوں میں کہا گیا تھا اللہ تعالی جو ہے وہ ہم سب کو جو ہے وہ توفیق عطا فرمائے کہ ہم جو ہے اب اللہ تعالی کے ساتھ جو ہے وہ ایسا تعلق بنائیں اور دعا کے ذریعے سے جو ہے وہ ہم حضرت اقدس مسیح احمد علیہ الصلاۃ والسلام کی تعلیمات پر ان کو سمجھنے والے بنیں اور اس کی حقیقت کو سمجھیں اللہ تعالی ہم سب کو اس بات کی توفیق عطا فرمائے جزاکم اللہ احسن جزا ناظرین کرام آپ کا بھی کہ آپ نے جو ہے وہ program دیکھا ملاحظہ کیا اور انشاءاللہ اگلے ہفتے کے روز ہم اسی وقت جی ایم ٹی کے وقت کے مطابق ساڑھے چار بجے آپ کی خدمت میں حاضر ہوں گے جزاکم اللہ اسلام علیکم ورحمتہ اللہ وبرکاتہ تو رکھتے ہیں مسلماں کا دن ہم تو رکھتے مسلماں کا دن دل سے ہیں خود ختم

Leave a Reply