Ahmadi Muslim VideoTube Rahe Huda Rahe Huda 01 04 2023

Rahe Huda 01 04 2023



Rahe Huda 01 04 2023

Rahe Huda 01 04 2023

දෙල් සැහැ හොදා හත මුල් මුර ස وبرکاتہ ناظرین آج یکم اپریل سن دو ہزار تئیس عیسوی ہفتے کا دن ہے انڈیا میں اس وقت رات کے دس بجے ہیں اور جی ایم ٹی کے مطابق اس وقت سہ پہر کے ساڑھے چار بجے ہیں اور ناظرین یہ وقت ہے program راہ ہدا کا ناظرین قادیان سے program راہ خدا کے چار پر مشتمل سیریز کے چوتھے اور آخری کے ساتھ آج ہم آپ کی خدمت میں حاضر ہیں ہمارے regular viewers یہ بات جانتے ہیں کہ ہمارا یہ program ایک live discussion program ہے اور live ہونے کے ساتھ ساتھ یہ ایک interactive program بھی ہے یہ program interactive اس حوالے سے ہے کہ ہمارے ناظرین ہمارے اس program میں ہمارے ساتھ جڑ سکتے ہیں ہمارے ساتھ گفتگو ہو سکتے ہیں یعنی ہم سٹوڈیو discussion کے ساتھ ساتھ اپنے ناظرین کرام کی فون calls کو attend کرتے ہیں ان کے سوالات کو سنتے ہیں اور یہاں سٹوڈیو میں موجود علمائے کرام کے panel میں ان سوالات کو پیش کرتے ہیں اور ہمارے علمائے کرام اسی program کے ذریعہ ہمارے ناظرین کے سوالات کے جوابات دیتے ہیں ناظرین آپ ہم سے ٹیلی فون لائنز کے ذریعے رابطہ کر سکتے ہیں اسی طرح text messages fax messages اور ای میل کی بھی دستیاب ہے تو ناظرین اگر آپ ہم سے ہمارے اس program میں جڑنا چاہتے ہیں اور اپنے سوالات کے جوابات حاصل کرنا چاہتے ہیں تو میں آپ کو یہ بتا دوں کہ ہماری ٹیلی فونز lines آپ سے activated ہیں اور میں یہ امید کرتا ہوں کہ ہمارے ناظرین اپنے ٹیلی vision screens پر ہم سے رابطے کی تمام تفصیل ملاحظہ فرما رہے ہوں گے ناظرین جیسا کہ ابھی خاکسار نے عرض کیا کہ قادیان دارالامان سے program راہ خدا کے چار episodes کی سیریز لے کر ہم آپ کی خدمت میں حاضر ہوئے ہیں آج کا یہ اسی سیریز کا چوتھا episode ہے ناظرین اس مکمل سیریز میں اور آج کے episode میں بھی ہم bases سیدنا حضرت اقدس مسیح موعود علیہ الصلاۃ والسلام کے موضوع پر بات چیت کریں گے آپ علیہ السلام کے مقام و مرتبہ کو واضح طور پر بیان کریں گے حضرت مسیح موعود علیہ الصلاۃ والسلام کی bases سے متعلق جو پیش گوئیاں قرآن مجید احادیث نبویہ صلی اللہ علیہ وسلم اور اکابرین اسلام میں موجود ہیں ان پر روشنی ڈالیں گے حضرت امام زمان کی بیت میں آنے کی ضرورت کو واضح طور پر بیان کریں گے۔ علاوہ ازیں جماعت احمدیہ کے خلاف جو اعتراضات پیش کیے جاتے ہیں۔ ان اعتراضات کے جوابات بھی اسی program کے ذریعے آپ کی خدمت میں پیش کیے جائیں گے۔ ناظرین آج کے program میں خاکسار کے ساتھ جو دو علمائے کرام موجود ہیں۔ میں سب سے پہلے ان کا تعارف کروا دیتا ہوں۔ محترم مولانا محمد حمید کوثر صاحب اور محترم مولانا زین الدین حامد صاحب آج اس program میں خاکسار کے ساتھ شامل گفتگو ہوں گے.

00:04:16

میں ہر دو حضرات کا اس program میں خیر مقدم کرتا ہوں.

00:04:21

ناظرین غیر is جماعت مسلمانوں کے ذہنوں میں یہ سوال پیدا ہوتا ہے کہ اگر حضرت مسیح موعود علیہ الصلاۃ والسلام اللہ تعالی کی طرف سے مبعوث ہوئے ہیں اور آپ علیہ السلام مسلمانوں کو حقیقی اسلام کی طرف لانے کے لیے آئے ہیں اور اس کی امن بخش تعلیم کی طرف بلاتے ہیں اور اسلام پر قائم کرنے کے لیے اور اس پر عمل کرنے کے لیے آئے ہیں تو وہ یہ کرتے ہیں کہ اگر ہم پہلے سے ہی مسلمان ہیں تو آپ علیہ السلام کو ماننا ہمارے لیے کیوں ضروری ہے ایسے مسلمانوں کے دلوں میں شکوک و شبہات ہیں اور وہ تباہ میں پڑے ہوئے ہیں اور حضرت امام مہدی کو ماننے میں عذر پیش کرتے ہیں اور مختلف قسم کے سوالات اور اعتراضات بھی کرتے ہیں ناظرین آج کے اس episode میں ہم اسی موضوع پر بات چیت کریں گے اور اسی ضمن میں خاکسار کا سب سے پہلا سوال محترم مولانا محمد حمید کوثر صاحب سے یہ ہے کہ حدیث کی روشنی میں یہ بیان فرمائیں کہ ایک مسلمان کو حضرت مسیح موت علیہ الصلاۃ والسلام یا آپ علیہ السلام کے بعد آپ کے خلفاء کرام کے ہاتھ پر بیت کر کے جماعت میں شامل ہونا کیوں ضروری ہے ناظرین کرام عرض یہ ہے کہ وہ مسلمان جو قرآن مجید اور سیدنا حضرت محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وسلم کے احکام پر عمل کرتا ہے اس کے لیے لازم ہے کہ حضرت مرزا غلام احمد صاحب کی بیعت کرے اور آپ کی جماعت میں شامل ہو اور یہ قرآن مجید کا حکم ہے اور یہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا حکم ہے اب اس کو ثابت کیسے کرنا ہے? اس کے دلائل کیا ہیں? سورہ آل عمران کی آیت نمبر بیاسی میں اللہ تعالی فرماتا ہے جب اللہ نے نبیوں والا میثاق لیا اور یہ سیدنا حضرت محمد مصطفیٰ صلی اللہ علیہ وسلم سے بھی سورہ احزاب آیت نمبر آٹھ میں لیا گیا ہم نے نبیوں سے یہ میثاق لیا تھا اور تجھ سے بھی لے رہے ہیں اے محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وسلم اصل میں یہ نبیوں کی وساطت سے ان کی امتوں سے لیا جاتا ہے یہ عہد اور اسی عہد کا یہاں ذکر ہے اب وہ عہد ہے کیا اس کا اللہ یہاں ذکر کرتا ہے جب میں تم کو کتاب اور حکمت دے چکا قرآن مجید دے چکا شریعت دے چکا اور جو احکامات سنت کے تھے وہ سیدنا محمد صلی اللہ علیہ وسلم تمہیں دے چکے اس سب کو دینے کے بعد اگر اس کے بعد بھی کوئی رسول آتا ہے جو اس کا مصدق ہے جو تمہارے پاس ہے یعنی قرآن مجید احادیث رسول صلی اللہ علیہ وسلم سنت نبوی صلی اللہ علیہ وسلم وہ جو تمہارے پاس ہے اس کو وہ پورا کرنے والا ہے اس کا وہ مصدق ہے اس کی وہ تصدیق کرتا ہے اب اس کو ہم لیتے ہیں حضرت مرزا غلام احمد صاحب اللہ تعالی نے سیدنا حضرت مرزا غلام احمد صاحب قادیانی علیہ السلام کو حضرت محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وسلم کی بعثت ثانیہ کا مظہر بنا کر مسیح موعود مہدی موعود امتی رسول امتی نبی بنا کر بھیجا آپ بعثت ثانیہ رسول پاک صلی اللہ علیہ وسلم کی بعثت ثانیہ قرآن مجید اور حدیث کے بعد آپ تشریف لائے آپ اپنے آپ نہیں آئے اللہ تعالی نے آپ کو بھیجا اللہ تعالی نے آپ کو کہا آپ اعلان کریں اب جب آئے تو آپ مصدق ہیں ان تمام پیش گوئیوں کی جو آپ کی بعثت اور آمد کے تعلق سے سورہ جمعہ سورہ سب سورہ ھود سورہ بروج اور بہت سی آیات میں مذکور اس کے آپ پورا کرنے والے اس کے مصدق ہیں اور آپ کے آنے سے وہ پیش گوئیاں پوری ہوئی ہیں اب جب یہ پیش گوئیاں پوری ہوئی ہیں ہر مسلمان جو قرآن مجید پر ایمان رکھتا ہے اور قرآن مجید کو وہ یہ سمجھتا ہے اس کے مطابق اس کا محاسبہ ہونا ہے اس کو یہ حکم ہے اس کے اوپر تم نے ایمان لانا ہے نون سکیلا لگا ہوا ہے اس میں اپنی مرضی نہیں ہے قرآن کو مانا ہے قرآن مجید کو مانا ہے تو اس کے اوپر ایمان لانا ہے جو آیا ہے اور اس کی کرنی ہے جہاں تک ہو سکے اس کی مدد کرتے چلے جانا ہے یہ رسول کریم یہ قرآن مجید کا حکم ہے اور یہ عام حکم نہیں ہے یہ قرآن کا اللہ تعالی کا حکم ہے حضرت مرزا غلام احمد صاحب قادیانی کی بعثت کے تعلق سے یہاں میں ایک بات عرض کرنا چاہتا ہوں قبل اس کے کہ میں حدیث کی بات کروں آج رمضان المبارک کا دن ہے تمام مسلمانوں کی مساجد میں تراویح پڑھائی جا رہی ہے ویسے مسلمان قرآن مجید پڑھ رہے ہیں میری ان کی بڑے ادب سے یہ درخواست ہے دیکھیں قرآن مجید میں چوبیس پچیس انبیاء کا ذکر ہے قرآن مجید کی سورہ بقرہ میں پہلے پارے میں بنی اسرائیل کا ذکر شروع ہو جاتا ہے کیا وجہ ہے بنی اسرائیل کا ذکر شروع میں لایا گیا اس کی وجہ یہ ہے اللہ تعالی کہتا ہے یہ وہ قوم ہے جن کو ایک زمانے میں ہم نے تمام جہانوں پر فضیلت دی ہوئی تھی لیکن بعد میں یہی قوم جب سیدنا محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وسلم آئے ان کا اس نے انکار کیا اس سے پہلے حضرت عیسی علیہ السلام جو شریعت موسوی کے احیاء کے لیے آئے جیسے حضرت مرزا غلام احمد صاحب قادیانی علیہ السلام امت محمدیہ میں مسیح مسیح کے طور پہ آئے جو سلوک یہود نے حضرت مسیح سے کیا وہی آج کے یہ مسلمان حضرت مسیح موعود علیہ السلام سے کر رہے ہیں ان کی بہت بڑی تعداد اور وہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی اس پیشگوئی کے مزداک بن رہے ہیں بنی اسرائیل ترمزی کی حدیث ہے یہ اور بھی دوسری احادیث میں ہے کہ وہ زمانہ جو کہ بنی اسرائیل کا زمانہ تھا وہی حالات میری امت میں آئیں گے اور اتنے رکھیں گے جیسے ایک جوتی دوسری جوتی سے جو سلوک انہوں نے حضرت مسیح ناصری علیہ السلام سے کیا وہی حضرت مرزا غلام احمد صاحب سے کیا اسی طرح آپ کو صلی پر لٹکانے کی کوشش کی وہ تو اقدام قتل کے مقدمہ میں اللہ تعالی نے آپ کو بچا لیا رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم پر ایمان لانے کے لیے تین قبیلے مدینہ میں آ کے آباد ہوئے لیکن جب حضور صلی اللہ علیہ وسلم تشریف لائے تو انہوں نے صاف انکار کر دیا انہوں نے کہا ایک بات ایک غلط فہمی جو مسلمانوں کو لگی ہے وہ اس کا ازالہ بہت ضروری ہے مسلمان کہتے ہیں کہ ہماری رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم شفاعت کریں گے ہم رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی خیر امت ہیں یہی قول یہود رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے بارے میں کہتے تھے کہ ہم ہود ہیں ہم ہدایت پر ہیں ہم احباب اللہ ہیں ہم اللہ تعالی محبوب قوم ہے اولیاء اللہ ہیں ہمیں کیا ضرورت ہے اس کے اوپر محمد صلی اللہ علیہ وسلم پر ایمان لانے کی ہمیں کیا ضرورت ہے مسیح علیہ السلام پر ایمان لانے کی وہی قول وہی باتیں آج کے مسلمان کر رہے ہیں اب ان مسلمانوں کو سمجھ لینا چاہیے حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے انظار فرمایا تھا یہ جو تراویحوں میں قرآن مجید دہرا رہے ہیں خدا کے اس کے اوپر غور کریں۔ نوح علیہ السلام کا واقعہ اس میں موجود ہے۔ ہود علیہ السلام صالح علیہ السلام سارے انبیاء ابراہیم علیہ السلام کا ذکر دو گروہ بنے ایک مقذبین کا ایک مصدقین کا ایک کا مصداق بنا اور ایک وہ جو ان کی تکفیر کا مصداق بنا۔ اب یہ ان کو سوچنا ہے کس میں شامل ہونا ہے۔ حضرت مرزا غلام احمد صاحب قادیانی نے چودھویں کے چھٹے سال تیرہ سو چھ میں رجب کے مہینے میں جماعت احمدیہ کی بنیاد رکھی تھی چالیس افراد سے یہ جماعت شروع ہوئی بیعت لینے کا طریقہ اور آج کروڑوں کی تعداد میں اس ایک عرصے کے اندر اس جماعت احمدیہ میں لوگ شامل ہوئے اور جن کو توفیق ملی اور وہ جو دوسرے مکذبین اور مقفرین میں چلے گئے اب یہ ان کو سوچنا ہے کہ کیا کریں گے اب ایک بات اور میں کہہ دینا چاہتا ہوں کیونکہ اس سوال کا ایک دوسرا حصہ ہے کہ حدیث یا رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا کیا فرمان ہے دیکھیں رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اسی آیت کے پیش نظر رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی احادیث ملتی ہیں ہمیں حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے امام مہدی علیہ السلام کے تعلق سے مسلمان ہر مسلمان جو سیدنا محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف منسوب ہوتا ہے اور آپ پر ایمان رکھتا ہے اس کو آپ نے کیا حکم دیا سنن ابن ماجہ کی حدیث ہے حدیث صحیح ہے کہ حضور فرماتے ہیں جب تم اس کے بارے میں دیکھنا اور سننا اس کی بیعت کرنا امر کا صیغہ ہے اب جو یہ کہتے ہیں ہمیں بیعت کی ضرورت نہیں وہ تو رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے اس حکم کی سرعن نافرمانی کر رہے اس کی بیعت کرنا اور اتنی شدت اختیار کی حضور نے کہ اگر تمہیں گھٹنے کے بل بھی جانا پڑے تو تم جانا لیکن اس کی جا کے بیعت کرنا کیوں وہ اللہ کی طرف سے خلیفہ اور نبی بنا کے بھیجا گیا ہے اس کی جا کے بیعت کرنا اور پھر آپ فرماتے ہیں صحیح مسلم کی حدیث ہے جو ایسی حالت میں مرا کہ اس کی گردن پہ کسی کی بیعت نہیں وہ جاہلیت کی موت مرا اب جو مسلمان اپنا انجام بخیر دیکھنا چاہتے ہیں جاہلیت کی موت نہیں مرنا چاہتے ان پہ لازم ہے کہ سیدنا حضرت مسیح موود علیہ السلام کی جماعت میں شامل ہو اور حضرت کی بیت کریں اور آپ کی جماعت میں شامل ہوں میں ان کے آگاہی کے لیے یا ان کے علم کے لیے یہ بتاتا ہوں کہ چوبیس مارچ کو حضور نے ایک خطبہ ارشاد فرمایا ہے چوبیس مارچ دو ہزار تئیس کو حضور نے خطبہ ارشاد فرمایا ہے یوم مسیح موت کی مناسبت سے حضرت خلیفہ المسیح خامس میری درخواست ہے کہ مسلمان اس خطبے کو سنیں سارے حقائق واضح ہو جائیں گے پھر ان کا جی چاہے تو ایمان لائیں جی چاہے تو نہ ایمان لائیں پھر ان کی جواب دہی اللہ تعالی کے سپرد ہے اب ایک بات اور بتاتا ہوں یہ تو تھی قرآن مجید کی پیش گوئیاں حدیث کی پیش گوئی اور نصیحت اللہ تعالی نے حضرت مسیح موود علیہ السلام کو الہاما کیا فرمایا وہ بھی سن لیں یہ مسلمان آج جو مخالفتیں کر رہے ہیں اچھی طرح سے سن لیں یہ اللہ کا کلام ہے اللہ کی وحی ہے جو اللہ تعالی نے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی طرف نازل کی آپ فرماتے ہیں حضرت موسی علیہ السلام فرماتے ہیں جو اللہ آپ کو فرماتا ہے اللہ حضرت مسیح علیہ السلام کو کہہ رہا ہے جو شخص تیری پیروی نہیں کرے گا جو شخص تیری پیروی نہیں کرے گا اور تیری بیت میں داخل نہیں ہوگا۔ اور تیرا مخالف رہے گا۔ وہ خدا اور رسول کی نافرمانی کرنے والا اور جہنمی ہے۔ بات مرزا غلام احمد صاحب پہ ایمان لانے کی نہیں ہے۔ بات قرآن مجید اور حضرت محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے حکم کی شرعا نافرمانی کی ہے اور یہاں پہ فرمایا رسول کی نافرمانی کرنے کی وجہ سے وہ جہنم میں جائے رسول کی نافرمانی اور یہ چلے جانا کہ شفاعت شفاعت کہاں سے ہو گی جب کہ آپ نافرمانی کی طرف یہ مسلمان چل رہے ہیں تو یہاں پر بالکل واضح فرما دیا انہوں نے اللہ تعالی نے حضرت مسیح علیہ السلام کو کہ جو شخص تیری پیروی نہیں کرے گا اور تیری بیعت میں داخل نہیں ہوگا اور تیرا مخالف رہے گا وہ خدا اور رسول کی نافرمانی کرنے والا جہنمی یہ حضرت مسیح ماؤد علیہ السلام کو اللہ تعالی نے کہا تھا کہ ان مسلمانوں کو یہ پیغام پہنچا دیں آج یہ ایم ٹی اے کے ذریعے سے یہ پیغام پہنچایا جا رہا ہے رمضان کا مہینہ ہے قرآن مجید پہ غور کریں کہ کوئی رسول اس دنیا میں نہیں آیا مگر اس کے ساتھ استزا کیا گیا کسی رسول اور نبی کی آمد پر اس اس کے زمانے میں لوگوں نے یہ نہیں کہا کہ تو آ ہم تیرا استقبال کریں گے ہم تو تیرا انتظار کر رہے تھے سب سے بڑھ کر سیدنا محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وسلم آپ کے ساتھ بھی استغزا کیا گیا اگر وہی وہی سلوک یہ مسلمان حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے ساتھ کر رہے ہیں ایک گروہ ہے جس کو ایمان لانے کی توفیق ملی مل رہی ہے اور یہاں تک کہ ان کو اس راہ میں شہید ہونے کی بھی توفیق مل رہی ہے ایک وہ ہیں جو کر رہے ہیں کرنے والے اپنا انجام سوچ رہے ہیں اور حضرت مسیح موعود علیہ السلام کا یہ شعر یاد رکھیں صدق سے میری طرف آؤ صدق سے میری طرف آؤ اسی میں خیر ہے اگر خیر چاہتے ہو میری طرف آؤ صدق سے میری طرف آؤ اسی میں خیر ہے ہیں درندے ہر طرف میں عافیت کا ہوں حصار عصر حاضر میں اس دنیا میں اور اصل تو حساب اگلی دنیا میں جا کے ہونے ہیں۔ انجام تو وہاں بھگتنے ہیں جا کے۔ میں عافیت کا ہوں حصار۔ اگر عافیت چاہتے ہو تو تمہیں میری بیعت میں شامل ہونا ہو گا۔ میری جماعت میں شامل ہونا ہو گا۔ یہ مرزا غلام احمد صاحب قادیانی علیہ السلام کی طرف سے جماعت نہیں ہے۔ یہ اللہ کی قائم کردہ ہے اور اللہ نے کہا ہے جو تیری پیروی نہیں کرے گا اس کا انجام بہت برا ہوگا۔ وہ اس کا مواخذ اللہ تعالی کے حضور ہوگا اس دنیا میں تو ہے ہی میں اس تفصیل میں جانا نہیں چاہتا کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی تکذیب کر کے مسلمانوں نے وہ ذلت picked up ہے آج کہ آج ساری دنیا میں ان کی ذلت وہ سب کے سامنے ہے اور وہ قوم جس کو مغذوب اور ظالم کہا گیا وہ آج ان کے اوپر مسلط ہیں اپنے آپ کو خیر امت کہنے والے تکذیب کر کے کس گڑھے میں جا پڑے وہ لوگ جن کو یہ مغذوب کہتے تھے ظالین کہتے ہیں وہ آج دیکھیں ان کے اوپر مسلط ہیں ان کو سوچنا چاہیے اور جیسا کہ حضرت خلیفۃ النسی خامس ناصر اللہ ناصر العزیزہ نے پچھلے خطبے میں بھی فرمایا کہ مسلمانوں کی فلاح اور بہبود صرف اس سے وابستہ ہے کہ وہ مسیح معود علیہ السلام کی جماعت میں شامل ہوں خلافت کی بیعت کریں ان کے مطیع اور بردار ہو جائیں تب ان کو ساری برکتیں ملیں گی ورنہ ذلت کے علاوہ ان کے نصیب میں کچھ نہیں جزاکم اللہ تعالی حسن الجزا ناظرین کرام ہمارے اس program میں ہمارے ساتھ ایک ٹیلی فون کالر جڑے ہیں انڈیا سے مکرم بشیر احمد صاحب اس وقت ہمارے ساتھ ٹیلی فون لائن پر ہیں ہم ان کا سوال سن لیتے ہیں السلام علیکم مکرم بشیر احمد صاحب وعلیکم السلام ورحمۃ اللہ وبرکاتہ جی بشیر صاحب آپ اپنا سوال پوچھ سکتے ہیں جی ہمارے ایک دوست ہیں وہ نیا بیج کیا ہے نائنٹین نائنٹی فائیو میں بیت کیے ہیں مگر اس کے پہلے جو نائنٹین نائنٹی ٹو میں وہ حج کیے ہیں.

00:23:03

ہم سن رہے ہیں آپ سوال مکمل کریں۔ نائنٹین نائنٹی ٹو میں انہوں نے hajj کیے ہیں مگر بیت تو تین سال کے بعد نہیں کیے ہیں اس وجہ سے وہ جو hajj ہے احمدی ہونے سے پہلے کیا ہوا ہے وہ ان کے لیے منظور ہوگا میں محترم مولانا محمد حمید کوثر صاحب سے درخواست کرتا ہوں. بات یہ ہے کہ اسی قسم کا ایک سوال سیدنا حضرت محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وسلم سے بھی ہوا تھا.

00:23:32

وہ حج ان کا قبول ہوا تب ہی ان کو احمدیت قبول کرنے کی توفیق ملی.

00:23:40

یہ سب سے بڑی علامت ہے کہ hajj کر کے آئے hajj کیا اللہ تعالی نے hajj مبرور بنایا اس کو اور ان کو جو صحیح راستہ تھا اھدنا الصراط المستقیم اس کو اختیار کرنے کی اللہ تعالیٰ نے توفیق دی اور ان کی یہ خوش قسمتی ہے کہ ان کا وہ hajj اللہ کی درگاہ میں قبول ہوا اب سوال یہ ہے کہ وہ قبول ہوا بظاہر دنیا میں ہم ایسا دیکھ رہے ہیں اور ہماری توقع اور امید ہے کہ اللہ کی درگاہ میں بھی ان کا وہ hajj قبول ہو گیا ہوگا اور اللہ اس کو قبول کرے اس کے اور برکات ہمیشہ ان کو ملتے چلے جائیں یہ ہماری دعا ہے جزاکم اللہ تعالی حسن الجزا program کے تسلسل میں خاکسار کا سوال محترم مولانا زین الدین حامد صاحب سے یہ ہے کہ جو مسلمان حضرت مرزا غلام احمد صاحب قادیانی علیہ السلام کو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے بحثیت ثانیہ کا مظہر مسیح موعود و مہدی ماہود علیہ السلام تسلیم نہیں کرتے کیا جماعت احمدیہ کے لحاظ سے یا ان کے وہ لوگ کافر ہیں سیدنا حضرت اقدس مسیح موود علیہ الصلاۃ والسلام اس تعلق سے کیا فرماتے ہیں شکریہ نصراللہ صاحب سیدنا حضرت اقدس مسیح علیہ الصلاۃ والسلام پر یہ الزام لگاتے ہیں.

00:25:02

مخالفین کی طرف سے الزام لگایا جاتا ہے. کہ آپ نے بیس کروڑ کلمہ گو مسلمانوں کو کافر قرار دیا ہے. اور اسی طرح آپ کی جماعت پر بھی یہ الزام لگایا جاتا ہے. اس کی حقیقت حقیقت کیا ہے? تاریخ کے تاریخی واقعات کے اس سے انشاءاللہ تعالی میں کچھ تفصیل بیان کروں گا.

00:25:20

قبل اس کے کہ میں وہ تاریخی حقائق آپ کے سامنے پیش کروں اور حضرت اقدس مسیح علیہ الصلاۃ والسلام کے اپنے الفاظ میں وہ بات کھول دوں. اس سے پہلے بطور تمہیں چند باتوں کی طرف ناظرین کی توجہ مبذول کروانا چاہتا ہوں. چونکہ اللہ تعالی کی طرف سے جو بھی آتا ہے. تو وہ اس لیے آتا ہے. کہ اس کی اطاعت کی جائے.

00:25:42

اس کی جماعت میں شامل ہو جائے. اور ان کے ذریعے سے جو جس جن مقاصد کو لے کر وہ اللہ تعالی ان کو بھجواتا ہے. وہ مقاصد اس مقاصد کی تکمیل کے لیے ان کے ساتھ تعاون کیا ہے جیسا کہ مولانا کوثر صاحب نے تفصیلی گفتگو کی ہے. تو حضرت اقدس مسیم علیہ الصلاۃ والسلام آئے ہیں. احیای اسلام لیے, اشاعت اسلام کے لیے, غالب اسلام کے لیے.

00:26:04

بے شمار پیش گوئیوں کو پورا کرتے ہوئے, قرآن مجید کی پیش گوئیاں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی پیش گوئیاں اس کے علاوہ سابقہ مذاہب کے میں جو ایک معروض ہے, اقوام عالم کی بعثت کی پیش گوئیاں پائی جاتی ہیں. ان سب الہی نوشتوں کو مکمل کرتے ہوئے, ان پیش گوئیوں کو پورا کرتے ہوئے حضرت اقدس علیہ الصلاۃ والسلام تشریف لائے ہیں.

00:26:25

تو اب یہ ہے کہ اب ان کو ماننا یا نہیں ماننا, اس کے بارے میں تفصیل گزر چکی ہے. تو اٹھارہ سو آہ بیاسی میں معمولیت کا پہلا الہام آپ کو ہوتا ہے. اور کچھ سال کے بعد اٹھارہ سو اٹھاسی میں آپ کو اللہ تعالی کے ذن کے مطابق آپ ایک اشتہار کے ذریعے بیعت کا اعلان فرماتے ہیں. تو اس کے بعد اٹھارہ سو نواسی میں باقاعدہ لدھیانے میں چالیس افراد نے آپ کے ہاتھ پہ بیعت کی اور اسی طریقے سے یہ آہ کاروان شروع ہوا اور جماعت کا قیام عمل میں لایا گیا.

00:27:02

اٹھارہ سو نوے اور اکانوے کا سال جماعت حملے میں زیادہ اہمیت رکھتا ہے. اس کی وجہ یہ ہے کہ یہ وہ ساحل ہے جس میں حضرت اقدس مسیح علیہ الصلاۃ والسلام نے یہ مختلف اشتہارات کے ذریعے سے اپنی کتابوں کے ذریعے سے اعلانات کے ذریعے سے یہ واضح کر دیا. کہ یہ جو عقیدہ مسلمانوں میں پایا جاتا ہے کہ حضرت مسیح علیہ السلام اب تک زندہ ہیں اور آسمان پہ بیٹھا ہوا ہے اور یحیی اسلام کے لیے وہ نازل ہوں گے.

00:27:31

تو اللہ تعالی کی توفیق کے مطابق الہامات کے مطابق حضرت اقدس مسیم علیہ الصلاۃ والسلام نے یہ کیا یہ عقیدہ بالکل غلط ہے اسلامی تعلیم کے منافی ہے کہ امہ امم کی امت کی اصلاح کے لیے ایک ایسا رسول کا انتظار کیا جائے ایسے نبی کا انتظار کیا جائے جو ایک محدود قوم کے لیے محدود وقت کے لیے مبعوث ہوئے تھے. جیسے قرآن کریم رسول بنی اسرائیل علیہ السلام بنی اسرائیل کی اصلاح کے لیے مبعوث ہوئے تھے.

00:28:03

تو حضرت اقدس علیہ السلام جو اللہ تعالی نے فرمایا. کہ مسیح بن مریم فوت ہو چکا. اور اس کے رنگ وعدے کے موافق تو آیا ہے یہ برائے تذکرے میں موجود ہے اور مختلف اور رنگ میں حضور نے حضور علیہ السلام نے اس کا واشگاف الفاظ میں اعلان فرمایا جیسے یہ اعلان فرمایا اور آپ نے مسیح موعود ہونے کا دعوی کیا اور دعوی مختلف قسم کے دعوی آپ مختلف رنگ میں آپ نے اس اپنے دعوے کو آہ لوگوں کے سامنے پیش کیا ہے ایک تو فرمایا کہ مسلمانوں کی اصلاح کے لیے جو پیش کے مطابق مہدی بن کے آیا ہوں.

00:28:44

عیسائیوں کی اصلاح کے لیے میں مسیح بن کر آیا ہوں اور اسی طرح ہندوؤں کے لیے کشن بن کے آیا ہوں. اور باقی تمام مذہب کے لیے ان کی تعلیمات کے مطابق ان کے معود بن کر آیا ہوں. جیسے ہی جیسے یہ اعلان شائع ہوا. مختلف رنگ میں حضرت اقدس علیہ السلام نے اعلان فرمایا. پورے ملک میں ایک سرے سے لے کے دوسرے سرے تک مخالفت کا ایک طوفان امڑ آیا.

00:29:06

خاص طور پر آپ کے بچپن کے ساتھی جو مولا مولوی محمد حسین بٹالوی صاحب جو ابراہیم کے زمانے میں بہت شاندار ریویو بھی لکھا انہوں نے یہ سوچا کہ یہ حق کی آواز کو میں نے بہرحال دبانا ہے یہ پنجاب سے باہر نکلنے ہی نہیں دینا وہ ایک طوفانی دورہ کیا ملک gear دورہ کیا پورے ہندوستان میں دورہ کیا اور دو سو سے زائد مولویوں کے سے کفر کے فتوے حاصل کر کے انہوں نے کفر کا فتوی شائع کیا یہ ایک ایسا آہ اقدام تھا مخالفین کی طرف سے حضرت بار بار اعلان فرماتے رہے.

00:29:47

اللہ تعالی کے فصلوں میں مسلمان ہو. اور کئی رنگ میں آپ نے بیان فرمایا. کلمہ گو مسلمانوں کو کی تکفیر کرنا کسی صورت میں بھی مسلمان کے لیے جائز نہیں. لیکن وہ باز نہیں آئے. ان کے فتاوی تکفیر اگر آپ ایسے ہیں ایسے الفاظ ایسے گندے اور غلیظ الفاظ اس میں استعمال کرتے رہے. کہ مہذب مجالس میں پیش کرنے کے بھی لائق نہیں ہیں.

00:30:12

بہرحال میں ایک آدھ اقتباس اس میں اس میں پیش کروں گا. تاکہ پتہ تو لگ جائے کہ کس طریقے سے ان کا یہ فتاوے کفر جو ہے نا فتوے تکفیر کا کس رنگ میں انہوں نے آگے بیان کیا ہے. تو میں ایک نمونہ تن وہ پیش کروں گا.

00:30:30

ان کے فتووں کی زبان اس قدر گندی اور غلیظ تھی جیسا کہ انہوں نے بتایا. کسی عام مجالس میں پیش کرنے کے لائق نہیں. تاہم ناظرین کے علم کے لیے ان فتووں کا ایک چھوٹا سا حصہ بطور نمونے پیش کیا پیش ہے لکھتے ہیں چونکہ یہ سارے فتوے جو ہیں نا محسن بٹالوی کی کا رسالہ سننے میں چھپواتے رہے وہ لوگوں کو اکسانے کے لیے ایک نمونہ دیکھیں دو چار لائن میں آپ پڑھ دیتا ہوں اس کذاب قادیانی کے کفر میں کوئی شک نہیں وہ قطعا کافر اور مرتد ہیں وہ بڑا بھاری دجال ہیں وہ دائرہ اسلام سے خارج اور ملحد اور زندیق ہیں وہ کافر اور بدکردار بدترین خلائق اور خدا کا دشمن جو اس کے گمراہ ہونے میں شک کرے وہ بھی ویسا ہی گمراہ ہے وہ کافر بلکہ اکثر ہے اس قادیانی کے چوزے ہنود و نصاری کے مخنص ہے وہ اس شیطان سے بھی زیادہ گمراہ ہے جو اس سے کھیل رہا ہے اس کو مسلمانوں کی قبروں میں دفن نہ کیا جائے یہ ملحد قادیانی اشدال مرتدین اور عجیب کافر اور منافق لاثانی ہے وہ نبیوں کا دشمن ہے اور خدا اس کا دشمن اب دیکھیں ان فتووں کا حضرت اقدس مسعود نے بڑے تحمل کے ساتھ یہ سب برداشت کرتے رہے اور آپ نے اپنے ایک شعر میں یہ اس کا اظہار فرمایا فرمایا کافر و ملحد و دجال ہمیں کہتے ہیں نام کیا کیا غم ملت میں رکھا ہے ہم نے پھر بڑے درد کے ساتھ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو مخاطب کر کے آپ نے فرمایا تیرے منہ کی قسم اے میرے پیارے احمد تیری خاطر سے یہ سب بار اٹھایا ہم نے پھر ایک عربی اشعار میں آپ فرماتے ہیں یعنی انہوں نے مجھے کافر اور فاسق قرار دیا اور بھیڑیے کی طرح مجھ پر حملہ کیا اور ایسی تلوار کے ساتھ مجھ پر حملہ آور ہوا جو کاٹ ڈالنے والی پھاڑ ڈالنے والی تلوار یعنی چاروں طرف سے فتح کفر آپ کے اوپر لگائے جا رہے تھے لیکن آپ بڑے تحمل کے ساتھ یہ اعلان کر رہے تھے ہم تو رکھتے ہیں مسلمانوں کا دین دل سے ہے خدام خاتم المرسلین سارے پہ ہمیں ایمان ہے خاک راہ احمد مختار ہے.

00:32:56

اب دیکھیں ایک طرف حضرت اقدس مسعود علیہ السلام اور آپ کی جماعت کے خلاف اس قسم کے فتاوی کفر شائع کر رہے تھے دوسری طرف جس قدر بھی تنظیمیں فرقے اور جو جماعت اسلام کی نمائندگی میں کار تھے اور جماعتیں کام کر رہی تھی اسلام کے لیے وہ سب کے سب اکٹھے ہو کر جماعت خلاف کام کرنے شروع کر دیے اور ان کا جہاں تک ان کے باہمی تکفیر کا تعلق ہے وہ بھی غیر معمولی ہے کوئی فرقہ جو دوسرے فرقوں کا کافر نہ ٹھہراتا ہو سارے کے ان کے فتوے چھپے ہوئے موجود ہیں جتنے بھی فرقے موجود ہیں چونکہ صلی اللہ علیہ وسلم کی پیش گوئی موجود ہے کہ مسلمان تہتر فرقوں میں but جائیں گے سب کے سب جہنمی ہوں گے اور صرف ایک ملت کے وحی الجماع وہ ایک ایسی جماعت ہے جس کا ایک واجب الطاعت امام ہوں گے وہ بعد میں انشاءاللہ ثابت کروں گا کہ واقعی وہ جماعت جو باہر فرقے ایک طرف اور ایک طرف جماعت عملیہ ہے تو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم جس ناجی فرقے کا آ کا تعین فرمایا ہے دراصل وہ حضرت نسیم علیہ الصلاۃ والسلام کے قائم کردہ جماعت ہی ہے اب دیکھنا یہ ہے کہ وہ حضرت علیہ الصلاۃ والسلام کی طرف سے کوئی جواب نہیں ہے بعد میں بارہ سال تک انتظار کرتے رہے سمجھاتے رہے اور کبھی بھی کلیموں کو مسلمانوں کو کافر مت کہیے ہم مسلمان ہیں تمام حکموں پر ہم ایمان رکھتے ہیں اب آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کا فتوی کیا ہے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی کے ارشاد کے مطابق مسلمان کون ہیں ہم جب حدیث کا مطالعہ کرتے ہیں آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے واضح رنگ میں فرمایا ہے فرمایا یعنی جو شخص ہماری طرح نمازیں پڑھتا ہے ہمارے قبلے کی طرف رخ کرتا ہے ہمارے ذریعے کو کھاتا ہے وہ مسلمان ہے اللہ اور اس کے رسول کی پناہ ان کو حاصل ہے پھر فرمایا اللہ تعالی کے جو پناہ ہے اس کو توڑنے کی کوشش مت کرو یہ دیکھیں اس قدر واضح رنگ میں حضرت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے مسلمانوں کی تحریر فرمائی اسی طرح سے کسی صورت میں بھی پھر دوسری بات ہے اب سلام نے ان کو کافر قرار دیا تو کس background میں کیا ہے حضرت اقدس رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی بعض احادیث ہے اس میں پتا لگتا ہے جو کوئی بھی کسی مسلمان کو کافر قرار دے گا اگر وہ کافر نہیں تو وہ کفر ان پر الٹ پڑتا ہے ایک حدیث بطور نمونہ پیش کرتا ہوں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم یعنی کوئی بھی اپنے مسلمان بھائی کی تکفیر کرے گا.

00:36:02

ان پر کفر کا فتوی لگائے گا. اگر وہ کافر نہیں تو کفر ان پر الٹ پڑے گا. یعنی وہ کافر بن جائے گا. حضرت اقدس علیہ السلام نے ایک جگہ فرماتے ہیں.

00:36:11

کہ مخالف علماء ان کے ہمنوا اپنے فتوی فتاوی تکفیر سے باز نہیں آ رہے تھے. تو حضور نے ان کو مخاطب کر کے اعلان فرمایا.

00:36:22

فرمایا میں کسی کلمہ گو کو کا نام کافر نہیں رکھتا. جب تک کہ وہ تکفیر اور تکذیب کر کے اپنی خود کافر نہ بنا لیوے سو اس معاملے میں ہمیشہ سے سبقت میرے مخالفوں کی طرف سے ہے انہوں نے مجھے مجھ کو کافر کہا میرے لیے فتوی تیار کیا میں نے سبقت کر کے ان کے ان کے لیے کوئی فتوی تیار نہیں کیا اور اس بات کا وہ خود اقرار کر سکتے ہیں کہ اگر میں اللہ تعالی کے نزدیک مسلمان ہوں تو مجھے کو مجھ کو کافر بنانے سے رسول اللہ صلی علیہ وسلم کا فتوی ان پر یہی ہے کہ وہ خود کافر ہیں۔ سو میں ان کو کافر نہیں کہتا بلکہ وہ مجھ کو کافر کہہ کر خود فتوے نبوی کے نیچے آتے ہیں اس مسئلہ کو ان کے مزید فرماتے ہیں۔ ہم کسی کلمہ گو کو اسلام سے خارج نہیں کہتے۔ جب تک وہ خود کافر کہہ کر کافر نہ بن جائیں۔ جو ہمیں کافر نہیں کہتا ہم اسے کافر ہرگز نہیں کہتے لیکن جو ہمیں کافر کہتا ہے اسے کافر سمجھیں تو اس حدیث اور متفقہ علیہ کی حدیث متفقہ علیہ کے مسئلے کی مخالفت لازم آتی ہے جو یہ ہم سے ہو نہیں سکتا.

00:37:38

میں حضرت اقدس مسیح علیہ السلام کا ایک جامع اقتباس پیش کرنا چاہوں گا. یہ تمام جھگڑوں کا حل اس میں موجود ہے. جو یہ الزام ہے مسلم اور آپ کی جماعت نے جمہور مسلمانوں کو کافر قرار دیا ہے. اس کے لیے ایک اس کے منہ اعتراضات کو منہ بند کرنے کے لیے اقتباس سننا ضروری ہوتا ہے.

00:37:58

حضرت بانی سلسلہ علی احمد علیہ السلام علماء کے فتاوی کے ذکر میں تحریر فرماتے ہیں فرمایا پہلے ان لوگوں نے میرے پر کفر کا فتوی تیار کیا قریبا دو سو مولوی نے اس پر مہریں لگائی اور ہمیں کافر ٹھہرایا گیا اور ان فتووں میں یہاں تک تشدد کیا گیا کہ بعض علماء نے یہ بھی لکھا ہے کہ یہ لوگ کفر میں یہود و نصاریٰ سے بھی بدتر ہے اور عام طور پر یہ بھی فتوے دیے کہ ان کو مسلمانوں کے قبرستان میں دفن نہیں کرنا چاہیے.

00:38:30

اور ان لوگوں کے ساتھ سلام اور مصافحہ نہیں کرنا چاہیے اور ان کے پیچھے نماز درست نہیں. کافر ہو جائیں. بلکہ چاہیے کہ یہ لوگ مساجد میں داخل نہ ہونے پاوے. کیونکہ کافر ہیں مسجدیں ان سے پلید ہو جاتی ہے. اگر داخل ہو جائیں تو مسجد کو دھو ڈالنا چاہیے. اور ان کا مال چرانا درست ہے. اور یہ لوگ واجب القتل ہیں.

00:38:53

کیونکہ مہندی خونی کے آنے سے انکاری.

00:38:57

جہاد سے منکر ہے. مگر باوجود ان فتنوں فتووں کے ہمارا کیا بگاڑا. جن دنوں میں یہ فتوی ملک میں شائع کیا گیا. ان دنوں میں دس آدمی بھی میری بیعت میں نہ تھے. مگر آج خدا تعالی کے فضل سے تین لاکھ سے بھی زیادہ ہیں. اور حق طالب بڑے زور سے اس جماعت میں داخل ہو رہے ہیں. کیا مومنوں کے مقابل پر کافروں کی مدد خدا ایسے ہی کیا کرتا ہے. پھر اس جھوٹ کو تو دیکھو. کہ ہمارے ذمہ یہ الزام لگاتے ہیں کہ ہم نے بیس کروڑ مسلمان اور کلمہ گو کو کافر ٹھہرایا حالانکہ ہماری طرف سے کوئی سبقت نہیں ہوئی خود ہی ان کے علماء نے ہم پر کفر کے فتوے لکھے اور تمام پنجاب اور ہندوستان میں شور ڈالا کہ یہ لوگ کافر ہیں اور نادان لوگ ان فتووں سے ایسے ہم سے متنفر ہو گئے کہ ہم سے سیدھے منہ سے کوئی نرم بات کرنا بھی ان کے نزدیک گناہ ہو گیا کیا کوئی مولوی یا کوئی مخالف یا کوئی سجادہ نشین یہ ثبوت دے سکتا ہے کہ پہلے ہم نے لوگوں کو کافر ٹھہرایا تھا.

00:39:57

اگر کوئی ایسا کاغذ یا اشتہار یا رسالہ ہماری طرف سے ان لوگوں کے فتوے کفر سے پہلے شائع ہوا ہے جس میں ہم نے مخالف مسلمانوں کو کافر ٹھہرایا ہو تو وہ پیش کریں. ورنہ خود سوچ لیں کہ یہ کس قدر خیانت ہے. کہ کافر تو ٹھہراوے آپ اور پھر ہم پر یہ الزام لگاوے. کہ گویا ہم نے تمام مسلمانوں کو کافر ٹھہرایا ہے. اس قدر خیانت اور جھوٹ اور خلاف واقعہ تہمت کس قدر حقیقت روئی صفحے ایک سو تئیس.

00:40:29

جزاکم اللہ تعالی حسن الجزا.

00:40:32

ناظرین ہمارے اس پروگرام میں ایک اور ٹیلی فون کالر جڑے ہیں. بنگلہ دیش سے مکرم عارف الزمان صاحب اس وقت ہمارے ساتھ لائن پر موجود ہیں. مکرم عارف الزمان صاحب السلام علیکم.

00:40:47

وعلیکم السلام ورحمۃ اللہ وبرکاتہ میری آواز آ رہی ہے جی عارف الزمان صاحب آپ کی آواز آ رہی ہے آپ اپنا سوال پیش کر سکتے ہیں جی میں نے تو سب کو سلام بہت شکریہ program کے لیے میرا سوال رمضان چل رہا ہے روزے سے یاد آیا حضرت مفتی محمد علیہ السلام نے آٹھ نو مہینہ ایک روزہ رکھا تھا لگاتار اس کا وضع کیا تھا اس روزے کی حالت میں ان کو کیا روحانی آ مرتبہ نہیں تھی اس کا کوئی روشنی ڈال دیجیے.

00:41:21

السلام علیکم. وعلیکم السلام.

00:41:23

محترم مولانا زین الدین صاحب سے درخواست کرتا ہوں کہ اقتصار کے ساتھ اس سوال کا. حضرت اقدس نسیم علیہ الصلاۃ والسلام کی سیرت کے متعلق سے پتہ لگتا ہے. آپ نے آغاز میں کچھ عرصہ لمبا عرصہ روزے رکھتے رہے ہیں. یہ اللہ تعالی کے خاص منشا اور خاص اذن سے آپ نے خود اس کی وضاحت فرمائی ہے. کہ کسی قدر روزہ رکھنا سنت ابرار انبیاء ہیں اسی سنت کی پیروی کرتے ہوئے اللہ تعالی کے خاص اذن اور منشا کے مطابق آپ نے متواتر کئی مہینے روزے رکھے ہیں یہ عام حکم نہیں ہے عام احمدیوں کے لیے مسلمانوں کے لیے واجب الواجب تعمیل حکم نہیں ہے اللہ تعالی کے خاص منشاء کے مطابق آپ نے یہ روزے رکھے ہیں جزاک اللہ تعالی حسن الرضا program کو آگے بڑھاتے ہوئے خاکسار محترم مولانا محمد حمید کوثر صاحب سے درخواست کرتا ہے کہ اس سوال کا جواب بیان فرمائیں کہ حضرت مسیح محمد علیہ الصلاۃ والسلام نے غیر از جماعت مسلمانوں کو ایمان لانے اور جماعت میں ہونے کے لیے کچھ جو ہیں اس کے تعلق سے کچھ ہمدردانہ نسائے فرمائی ہیں۔ کچھ مختصر طور پہ اس میں سے بیان فرمائی ہیں۔ ناظرین کرام آج قادیان دارالامان میں دس رمضان چودہ سو چوالیس ہجری قمری کی تاریخ ہے.

00:42:43

دس رمضان چودہ سو چوالیس ہجری قمری کی تاریخ ہے آج.

00:42:49

دسویں رمضان کی تراویحاں ابھی پڑھی جا چکی ہیں.

00:42:54

آج سے ایک سو تینتیس سال پہلے اسی قادیان میں مسجد مبارک کی چھت پر سیدنا حضرت مرزا غلام احمد صاحب قادیانی علیہ السلام نے وہ نشان دیکھا جس کا ذکر قرآن مجید میں اور حدیث میں موجود ہے.

00:43:19

تیرہ رمضان تیرہ سو گیارہ ہجری میں اور اسی طرح اٹھائیس رمضان تیرہ سو گیارہ ہجری میں چاند اور سورج کو گرہن لگا.

00:43:35

اسی مسجد مبارک کی مبارک چھت پر وہ مسیح موعود جس کے لیے قرآن اور حدیث کی یہ پیش گوئی پوری ہوئی وہ مسیح موعود اس کو دیکھ رہا تھا اس نشان کو دیکھ رہا تھا. اور آپ یہ فرما رہے تھے. اللہ تعالی کے اس نشان کو دیکھتے ہوئے آسماں میرے لیے تو نے بنایا ایک گواہ.

00:44:05

چاند اور سورج ہوئے میرے لیے تاریک وطار وہ پیش گوئی تھی جو پوری ہوئی.

00:44:14

اللہ تعالی نے قرآن مجید میں اس کا ذکر فرمایا تھا.

00:44:26

کہ پہلے چاند کو گرہن لگے گا.

00:44:30

پھر سورج اور گرہن میں شامل ہو جائے گا. اور اس دن نیک وقت انسان کہے گا.

00:44:38

اب ہم مسیح موت کا انکار کر کیسے سکتے ہیں. جبکہ چاند اور سورج کو گرہ لگ گیا یہاں مجھے ایک واقعہ یاد آیا یہاں پونچھ کے علاقے میں ایک بہت بڑا گاؤں ہے چار coat نام ہے حضرت قاضی محمد اکبر صاحب ایک بزرگ تھے جب انہوں نے چار coat کے افق پر چاند اور سورج کو گرہن لگا تو انہوں نے اپنے ساتھیوں کو کہا یہ تو امام مہدی علیہ السلام کے ظہور کی علامت ہے یہ پوری ہوئی ہے وہ امام مہدی کہاں ہے.

00:45:17

انہوں نے پھر اس کی جستجو شروع کی.

00:45:24

اور جستجو کرنے کے بعد ان کو کسی طرح سے میں مختصر کرتا ہوں. یہ علم ہوا کہ قادیان میں وہ امام مولوی برہان الدین صاحب سے رضی اللہ تعالی عنہ سے ان کا رابطہ قائم ہوا. انہوں نے ان کو کے بارے میں بھیجا. انہوں نے تین آدمی بھیجے. انہوں نے تحقیق کی بہرحال.

00:45:44

اس کے بعد ان کو خود یہاں قادیان آکے بیعت کرنے کی توفیق ملی.

00:45:49

اب جو سعید فطرت تھے. انہوں نے چاند سورج کو دیکھا اور گرہن کو دیکھا اور قرآن مجید کی اس پیشگوئی کو دیکھا اور وہ پھر حضرت مصیح علیہ السلام کی جماعت میں شامل ہوئے یہ اتنا بڑا نشان تھا اب حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے جب یہ نشان ظاہر ہوا تو آپ نے فرمایا سورج اور چاند کو رمضان میں گرہن لگنا کیا یہ میری اپنی طاقت میں تھا کیا میں لگا سکتا تھا آپ تو جماعت کا اور مسیح موعود ہونے کا اعلان تو اٹھارہ سو اکانوے میں کر چکے ہوئے تھے اور یہ اٹھارہ سو چورانوے کی بات دیکھیں عقل ذرا سی بھی ہو گی تو ایک انسان سمجھ جائے گا۔ سورج اور چاند کو رمضان میں گرہن لگنا کیا یہ میری اپنی طاقت میں تھا۔ کہ میں اپنے وقت میں اسے کر لیتا جس طرح پر آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کو سچے مہدی کا نشان قرار دیا تھا۔ خدا تعالی نے اس نشان کو میرے دعوے کے وقت میں پورا کر دیا۔ اگر میں اس کی طرف سے نہیں تھا۔ تو کیا خدا تعالی نے خود دنیا کو گمراہ کیا ارے سوچو کتنی بڑی بات کر رہے ہیں کیا اللہ اپنی مخلوق کو خود گمراہ کرے گا چاند اور سورج کو گرہن لگا کے کیا مرزا غلام احمد صاحب کی استطاعت میں تھا کہ رمضان کی معین تاریخوں میں چاند اور سورج کو گرہن لگا لیتے حضور فرماتے ہیں اگر میں اس کی طرف سے نہیں تھا تو کیا خدا تعالی خود دنیا کو گمراہ کرتا اس کا سوچ کر جواب دینا چاہیے کہ میرے انکار کا اثر کہاں تک پڑتا ہے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی تکذیب اور پھر خدا تعالی کی تکذیب لازم آتی ہے اسی طرح پر اس قدر نشانات ہیں کہ ان کی تعداد دو چار نہیں بلکہ ہزار لاکھوں تک ہے تم کس کس کا انکار کرتے چلے جاؤ گے اب حضرت مسیح معود علیہ الصلاۃ والسلام یہ ایک نصیحت کرتے ہیں یہ جو آج تکذیب کرتے ہیں نا اور ایک سو تینتیس سال سے تکذیب کرتے چلے آ رہے ہیں حضرت مسیح موعود علیہ السلام ان کو ایک نصیحت کرتے ہیں اگر یہ سچے ہیں تو اس رمضان پہ اس کے اوپر عمل کریں حضور نے بھی کل خطبے میں فرمایا کہ دعا کریں اور یہ بھی حضرت السلام کی اس دعا کو آزمائیں حضور فرماتے ہیں میں محض نصیحتا للہ مخالف علماء اور ان کے ہم خیال لوگوں کو کہتا ہوں کہ گالیاں دینا اور بد زبانی کرنا طریق شرافت نہیں اگر آپ لوگوں کی یہی دینت ہے تو خیر آپ کی مرضی لیکن اگر مجھے آپ لوگ کاذب سمجھتے ہیں تو آپ یہ بھی تو اختیار ہے کہ مساجد میں اکٹھے ہو کر یا الگ الگ میرے پر بد دعائیں کریں اور رو رو کر میرا استحصال چاہیں پھر اگر میں کاذب ہوں گا تو ضرور وہ دعائیں قبول ہو جائیں گی اور آپ لوگ ہمیشہ دعائیں کرتے بھی ہیں لیکن یاد رکھیں اگر آپ اس قدر دعائیں کریں کہ زبانوں میں زخم پڑ جائے اور اس قدر رو رو کر سجدوں میں گریں کہ ناک گھس جائیں آنسوؤں سے آنکھوں کے ہلکے بن جائیں بلکہ پلکیں جھڑ جائیں اور کثرت گریہ و زاری سے بینائی کم ہو جائے تب بھی وہ دعائیں سنی نہیں جائیں گی۔ کیونکہ میں خدا سے آیا ہوں۔ جو شخص میرے پر بد دعا کرے گا وہ بدعا اسی پر پڑے گی اور جو شخص میری نسبت یہ کہتا ہے کہ اس پر **** ہو وہ **** اس کے دل پر پڑے گی مگر اس کو خبر نہیں یہ اعلان حضور نے انتیس دسمبر انیس سو کا فرمایا تھا آج دو ہزار تئیس ہے ایک سو تئیس سال یہ دعا کرتے ہو گئے جس طرح یہ کر رہے ہیں جس طرح یہ مظالم کر رہے ہیں جماعت احمدیہ کو ختم ہو جانا چاہیے تھا اگر یہ اللہ تعالی کی طرف سے نہیں ہوتی تو ان کی کوششیں کامیاب ہو جانی تھی اور حضرت محسن صاحب فرماتے ہیں مخالفی لوگ ابس اپنے تہیں تباہ کر رہے ہیں میں وہ پودا نہیں کہ ان کے ہاتھ سے اکھڑ سکوں اگر ان کے پہلے اور پچھلے اور ان کے زندے اور ان کے مردے تمام جمع ہو جائیں اور میرے مارنے کے لیے دعائیں تو میرا خدا ان تمام دعاؤں کو **** کی شکل بنا کر ان کے منہ پہ بھرے گا پھر حضور فرماتے ہیں یہ اگر انساں کا ہوتا کاروبار اے ناقصاں ایسے کاذب کے لیے کافی تھا وہ پروردگار کچھ نہ تھی حاجت تمہاری نہ تمہارے مکر کی خود مجھے نابود کرتا وہ جہاں کا شہر ہے یار یہ نسائے ہیں جو حضرت نے ان کو کی ہیں میری دعا ہے اور التجا ہے کہ سعید روحیں جو مسلمانوں میں سے ہیں وہ اس کے اوپر کریں اور رمضان المبارک میں دعا اور استخارہ کر کے جماعت احمدیہ میں شمولیت اختیار کریں کیونکہ نجات کا راستہ یہی ہے اس کے علاوہ اور کوئی نہیں جزاکم اللہ تعالی حسن الجزا program کو آگے بڑھاتے ہوئے خاکسار محترم مولانا زین الدین حامد صاحب سے یہ پوچھنا چاہتا ہے کہ امام مہدی سیدنا حضرت اقدس مسیح موعود علیہ الصلاۃ والسلام کو ماننے اور آپ کی بیعت میں آ کر خلفائے عظام کے تابع ہونے سے ایک افراد دیگر مسلمانوں سے کس طرح سے ممتاز ہیں جماعت احمدیہ اور دیگر جماعتوں میں جو امتیاز بابل امتیاز ہیں.

00:51:54

یا جماعت احمدیہ کے وابست سے وابستہ احباب اور دیگر مسلمانوں کے درمیان جو امتیاز ہے. اس سلسلے میں چند ایک باتوں کی طرف اشارہ کروں گا. وقت تھوڑا ہے. سب سے بنیادی امتیاز یہ ہے کہ جماعت احمدیہ اللہ تعالی کے ازن سے ایک معمور من اللہ کے ذریعے سے قائم جماعت ہے. دنیا کے پردے پر جس قدر بھی اسلام کی نمائندگی میں جماعتیں کام کر رہی ہے.

00:52:20

کر رہی ہے. یا دیگر مذاہب سے تعلق رکھنے والے ہیں. دیگر تنظیمیں ہیں مختلف تنظیمیں ہیں جو اسلام کے نام پر یا مذہب کے نام پر کام کر رہی ہیں. لیکن ان میں سے کسی ایک کا بھی دعوی یہ نہیں ہے. کہ اس کے بانی معمور میں اللہ ہے. جتنے بھی بعض علماء مل کر جماعتیں قائم کر لیتے ہیں. اور لیکن جماعت عملیہ اللہ تعالی کے فضل سے اللہ تعالی کے ازن سے اور ان تمام پیش گوئیوں کو پورے کرتے ہوئے یہ عرض وجود میں یہ جماعت آئی ہے.

00:52:50

اس کا مقابلہ دنیا کی کوئی جماعت نہیں کر سکتی.

00:52:54

اب دیکھیں حضرت اقدس مسلم علیہ الصلاۃ والسلام باقاعدہ آپ کا دعوی معمولیت کا ہے. آپ نے بارہا یہ اعلان فرمایا کہ خدا کی طرف سے میں آیا ہوں اور خدا کے ازن سے یہ جماعت قائم کر رہا ہوں اور چنانچہ اللہ تعالی نے الہامن آپ کو بتایا.

00:53:12

کہ ایک کشتی تیار کر ہماری وحی کے مطابق اور ہمارے اذن سے ہماری وحی کے مطابق کشتی تیار کر. چونکہ اللہ تعالی نے معین طور پر آپ کو یہ حکم دیا تھا کہ آپ آہ یہ جماعت اس کے مطابق پھر آپ نے اعلان فرمایا کہ با شگاف الفاظ میں اعلان کیا صفحات کے صفحات آپ نے اپنے دعوے کے اعلان میں صرف کیے تو ایک دو باتوں کی طرف اشارہ کرتا ہوں ایک تو حضور نے فرمایا میں رب کریم کی طرف سے بھیجا گیا ہوں میں اپنی طرف سے نہیں آیا بھیجا گیا ہوں رب رحیم کریم کی طرف سے طوفان ذلالت کے طوفان کے موقع پر مسلمانوں کو لوگوں کو دنیا کو بچانے کے لیے بنے ہوئے انسان کو بچانے کے لیے میں بھیجا گیا ہوں اللہ کی طرف سے بھیجا گیا ہوں ایک تو سب سے بنیادی امتیاز یہی ہے کہ یہ جماعت کسی ذاتی طور پہ کسی انسان کے ذریعے بنائی گئی جماعت نہیں ہے بلکہ اللہ تعالی کے ازن سے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی پیش گوئی کے مطابق اس زمانے کے معمور اور مرسل حضرت اقدس مسیح علیہ الصلاۃ والسلام کے ذریعے سے قائم جماعت ہے یہ ایک ایسا امتیاز یہ دنیا کی تمام جماعتوں سے تمام مذاہب سے جماعت احمدیہ کو ممتاز کرنے والا یہ امتیاز ہے دوسرا جو امتیاز یہ ہے کہ جماعت احمدیہ زندہ خدا اور زندہ رسول اور زندہ قرآن کے قائل ہیں ہم کبھی نہیں کہتے کہ ہم اللہ تعالی کے ساتھ تعلق قائم نہیں کیا جا سکتا ہم تو یہ کہتے ہیں کہ حضرت الفاظ میں فرمایا ہے کہ بن دہ کے کس طرح کسی ماہ رخ پہ آئے دل کیوں کر کسی خیالی صنم سے آئے دل دیدار حسن و جمال یار کے آثار ہی سہی یعنی جماعت انبیاء ایک زندہ خدا پر ایمان رکھتی ہے.

00:55:06

دوسری بات ہے کہ زندہ رسول آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کا فیضان کبھی ختم نہیں ہوتا. آپ خاتم النبین ہیں. آپ کے ذریعے سے آپ نبیوں کے مصدق ہے. آپ کے مہر تصدیق کے بغیر کوئی نبوت کے مقام پر فائز نہیں ہو سکتا. نہ صرف نبوت کے بلکہ کوئی بھی ادنیٰ سے ادنیٰ روحانی مراتب بھی اگر انسان تبھی حاصل کر سکتا ہے جب آنحضور صلی اللہ علیہ وسلم کے سے فیض یاب ہو.

00:55:29

تو حضرت اقدس ایک جگہ فرماتے ہیں. کیونکہ مسیح کو زندہ قرار دیتے ہیں. اس کے مقابلے حضور نے فرمایا.

00:55:41

عیسی علیہ السلام تو سر جھکا جھکائے ہوئے مر گئے. وہ فات ہوگئی ان کی. کبھی زندہ نہیں نہ آسمان پر زندہ بیٹھا ہے نہ کبھی اسرائیل کے لیے آئیں گے. بلکہ ہمارے رسول حضرت اقدس محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وسلم زندہ کے لیے زندہ ہے یقینا رب کی قسم انہوں نے مجھ سے ملاقات بھی کی فرمایا اللہ کی قسم کہ میں نے آپ کی خوبصورتی کو میں نے دیکھا ہے آپ کی آپ کے جمال کو میں نے مشاہدہ کیا ہے کیسے میری جسمانی آنکھوں سے اپنی جگہ بیٹھے ہوئے تو حضرت اقدس مسیم علیہ الصلاۃ والسلام کی تعلیم کی وجہ سے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم ہمیشہ کے لیے زندہ مانتے ہیں زندہ نہیں مانتے روحانی فیوض کبھی ختم نہیں ہوں گے آپ خاتم النبین ہیں تمام تر روحانی مدارس خواہ وہ صالحیت کا ہو صدیقیت کا ہو شہادت کا ہو اور نبوت کا ہو کوئی بھی مقام مرتبہ روحانیت کا صلی اللہ علیہ وسلم کی پیروی کے بغیر نہیں ہو سکتا اسی طرح قرآن کریم خاتم الکتب ہے تمام کتابوں میں قائم رہنے والی تمام تر تعلیم اس میں جمع کر دی گئی ہے ہمیشہ کے لیے زندہ کرام پھر ایک اور امتیاز وقت کے لیے ایسے مختصر ایک دو لفظ کے اشارہ کرنا چاہتا ہوں وہ ہے نعمت خلافت.

00:57:02

آج جماعت احمدیہ نعمت خلافت سے متمت جماعت ہے. آج ایک واجب الاطاعت امام ہمارے پاس موجود ہے. آج پوری دنیا ایک ہی ہے جو دو سو سے زائد ممالک میں پھیلی ہوئی ہے اپنا جماعت احمدیہ آج اپنے امام کے ہاتھ میں ایسے متحد ہے. اور ایمان کو بھی اپنے ہر احمدی کے ساتھ جو پیار اور محبت کا تعلق ہے. اس کا میں ایک اقتباس پیش کرنا چاہتا ہوں.

00:57:27

حضور نے فرمایا دنیا کا کوئی ملک نہیں جہاں میں رات کو سونے سے پہلے چشم تصور میں میں نہ پہنچتا ہوں اور ان کے لیے سوتے وقت بھی اور جاگتے وقت بھی دعا نہ ہو میں یہ باتیں اس لیے نہیں بتا رہا کہ کوئی احسان ہے یہ میرا فرض ہے اللہ کرے کہ اس سے بڑھ کر میں فرض ادا کرنے والا بنوں تو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے جس امت واحدہ کا تصور دنیا کے سامنے پیش کیا حضور نے فرمایا کہ امت محمد, امت واحدہ, امت محمدیہ کی مثال ایک جسم کی مانند ہے.

00:58:10

جسم کے کسی حصے میں بھی کوئی تکلیف ہوتی ہے پورا جسم شبت داری کے ذریعے سے اور بخار میں مبتلا اگر اس کو مثال محسوس کرتا ہے پورا جسم یہی حال آج اللہ تعالیٰ آج اگر امت واحدیہ کا تصور ہے وہ صرف اور صرف جماعت احمدیہ میں ہے اور جماعت احمدیہ کا خلیفہ پوری دنیا میں پھیلے ہوئے احمدیوں سے ایک ایک فرض سے اس قدر محبت رکھتے ہیں.

00:58:31

اسی طرح برعکس بھی اور ہر جان سے زیادہ اپنے پیارے امام کو عزیز رکھتے ہیں اور یہ ایک باہمی تعلق ہے آپس میں پیار اور محبت کا عزت و احترام کا یہ ایسا امتیاز ہے دنیا میں کسی جماعت میں کسی جگہ یہ ایسا امتیاز پایا نہیں جاتا جزاک اللہ تعالی حسن الجزا ناظرین کرام قادیان دارالامان سے program راہ خدا کے چار episodes کے ایک آخری episode کا اختتام ہوتا ہے ان شاء اللہ تعالی کسی اور موضوع پر ایک نئی سیریز کے ساتھ آپ کی خدمت میں حاضر ہوں گے.

00:59:06

Program کے اختتام میں خاکسار سیدنا حضرت اقدس مسیح موعود علیہ الصلاۃ والسلام کا ایک ایک لباس پیش کرنا چاہتا ہے. سیدنا حضرت اقدس مسیح موعود علیہ الصلاۃ والسلام فرماتے ہیں. اے تمام وہ لوگوں جو زمین پر رہتے ہو. اور اے تمام وہ انسانی روحوں جو مشرق اور مغرب میں آباد ہو. میں پورے زور کے ساتھ آپ کو اس طرف دعوت کرتا ہوں. کہ اب زمین پر سچا مذہب صرف اسلام ہے.

00:59:33

اور سچا خدا بھی وہی خدا ہے جو قرآن نے بیان کیا ہے اور ہمیشہ کی روحانی زندگی والا نبی اور جلال اور تقدس کے تخت پر بیٹھنے والا حضرت محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وسلم ہے جس کی روحانی زندگی اور پاک جلال کا ہمیں یہ ثبوت ملا ہے کہ اس کی پیروی اور محبت سے ہم روح القدس اور خدا کے مکالمہ اور آسمانی نشانوں کے انعام پاتے ہیں تیری عقل قلوب روحانی خزائیں جلد پندرہ صفحہ ایک سو اکتالیس ناظرین اس کے ساتھ ہی ہم یہ program اختتام پذیر ہوتا ہے اجازت دیجیے السلام علیکم ورحمتہ اللہ وبرکاتہ لوگوں کے یہی خدا پر گے لو تمہیں بتایا ہم نے لوگوں کے یہیں خدا پر گے

Leave a Reply