Ahmadi Muslim VideoTube Rahe Huda Rahe Huda 25 03 2023

Rahe Huda 25 03 2023



Rahe Huda 25 03 2023

Rahe Huda 25 03 2023

දෙල් සැහැ පුතා හත මුල් رحیم ناظرین کرام السلام علیکم ورحمتہ اللہ وبرکاتہ ناظرین آج پچیس مارچ سن دو ہزار تئیس عیسوی ہفتے کا دن ہے انڈیا میں اس وقت رات کے دس بجے ہیں اور جی ایم ٹی کے مطابق اس وقت سہ پہر کے ساڑھے چار بجے ہیں اور ناظرین یہ وقت ہے program راہ خدا کا ناظرین قادیان دار الامان سے program راہ خدا کے چار پر مشتمل سیریز کے تیسرے کے ساتھ آج ہم آپ کی خدمت میں حاضر ہے ہمارے regular viewers یہ بات جانتے ہیں کہ ہمارا یہ program ایک live program ہے اور live ہونے کے ساتھ ساتھ یہ program ایک interactive program بھی ہے اور یہ program اس حوالے سے ہے کہ ہمارے ناظرین ہمارے اس میں ہمارے ساتھ جڑ سکتے ہیں۔ ہمارے ساتھ شامل گفتگو ہو سکتے ہیں۔ یعنی ہم سٹوڈیو discussion کے ساتھ ساتھ اپنے ناظرین کی فون calls کو attend کرتے ہیں۔ ان کے سوالات کو سنتے ہیں۔ اور یہاں سٹوڈیو میں موجود علمائے کرام کے panel میں ان سوالات کو پیش کرتے ہیں۔ اور ہمارے علمائے کرام اسی program کے ذریعہ ہمارے ناظرین کے سوالات کے جوابات دیتے ہیں۔ ناظرین آپ ٹیلی فون لائن ہم سے رابطہ کر سکتے ہیں اسی طرح text messages fax messages اور ای میل کی سہولت بھی دستیاب ہے تو ناظرین اگر آپ ہم سے ہمارے اس program میں جڑنا چاہتے ہیں اور ہم سے شامل گفتگو ہونا چاہتے ہیں تو میں آپ کو یہ بتا دوں کہ ہماری ٹیلی فونز lines آپ سے activated ہیں اور میں یہ امید کرتا ہوں کہ ہمارے ناظرین اپنی ٹیلی vision سکرینز پر ہم سے رابطے کی تمام تفصیل ملاحظہ فرما رہے ہوں گے ناظرین جیسا کہ خاکسار نے ابھی عرض کیا کہ قادیان دارالامان سے program راہ خدا کے چار episodes پر مشتمل سیریز لے کر ہم آپ کی خدمت میں حاضر ہوئے ہیں آج کا یہ program اسی سیریز کا تیسرا episode ہے گزشتہ دو programs میں اسی طرح آج کے episode میں اور اس مکمل سیریز میں ہم سیدنا حضرت اقدس مسیح موعود علیہ الصلاۃ والسلام کے موضوع پر بات چیت کر رہے ہیں آپ کے مقام اور مرتبہ کو اس program میں واضح کیا جائے گا اسی طرح مسیح موعود علیہ الصلاۃ والسلام کی بعثت سے متعلق جو پیش گوئیاں قرآن مجید احادیث نبویہ صلی اللہ علیہ وسلم اور اکابرین اسلام میں پائی جاتی ہیں ان پر روشنی ڈالی جائے گی۔ حضرت امام الزمان کی بیت میں آنے کی ضرورت کو واضح طور پر بیان کیا جائے گا۔ اسی طرح جماعت احمدیہ کے خلاف جو اعتراضات پیش کیے جاتے ہیں ان اعتراضات کے جوابات بھی اسی program کے ذریعے آپ کی خدمت میں پیش کیے جائیں گے۔ ناظرین کے اس program میں خاکسار کے ساتھ جو دو علمائے کرام موجود ہیں میں سب سے پہلے ان کا تعارف کروا دیتا ہوں محترم مولانا محمد کریم الدین شاہد صاحب اسی طرح محترم مولانا عطا المجیب loan صاحب خاکسار کے ساتھ آج اس program میں شامل گفتگو ہوں گے میں ہر دو حضرات کا اس program میں خیر مقدم کرتا ہوں جزاک اللہ ناظرین اللہ تعالی نے قرآن مجید میں اور آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے احادیث صحیحہ میں ایسی پیش گوئیاں بیان فرمائی ہیں جن سے معلوم ہوتا ہے کہ مسیح موعود و مہدی معاود علیہ الصلاۃ والسلام کا ظہور چودھویں صدی ہجری کے شروع میں ہونا تھا۔ چنانچہ سیدنا حضرت اقدس مسیح موعود علیہ الصلاۃ والسلام بیان فرماتے ہیں کہ ایسا ہی احادیث میں آیا ہے کہ وہ مسیح موعود صدی کے سر پر آئے گا اور وہ صدی کا مجدد ہوگا ابراہیم احمدیہ حصہ پنجم روحانی خزائیں جلد اکیس صفحہ تین سو انسٹھ ناظرین امت مسلمہ میں گزشتہ صدیوں میں بے شمار بزرگان اولیاء کرام اور صلحائے امت گزرے ہیں جن کی تکریم ہر مسلمان کے دل میں ہے ان کرام نے بھی آنے والے موعود کے متعلق پیش گوئیاں بیان فرمائی ہیں۔ ناظرین آج کے اس program میں انہی پیش گوئیوں کے متعلق بات چیت کی جائے گی۔ اور اسی ضمن میں خاکسار کا سب سے پہلا سوال محترم مولانا محمد کریم الدین شاہد صاحب سے یہ ہے کہ کیا قرآن مجید میں ایسی پیش گوئیاں موجود ہیں جن سے یہ رہنمائی ملتی ہے کہ مسیح موعود کی بعثت چودویں صدی کے آغاز میں ہونا مقدر تھی۔ جو اعوذ باللہ من الشیطان الرجیم بسم اللہ الرحمن الرحیم ناظرین اور سامعین کرام سب سے پہلے تو میں اس مبارک مہینے کی مبارکباد دینا چاہتا ہوں رمضان المبارک کی اللہ تعالی ہم سب کے لیے یہ بابرکت مہینہ بابرکت کرے اور اس کے ذریعے سے اللہ تعالی ہمارے اندر وہ بصیرت عطا کرے کہ جس کے نتیجے میں ہم قرآن کو زیادہ بہتر رنگ میں سمجھ سکیں آنحضرت صلی اللہ کی پیش گوئیوں کو صحیح طور پر سمجھ کر اس کے مطابق ہم اپنے اندر ایک روحانی لذت بھی پیدا کریں اور روحانی اعتبار سے ترقی بھی کریں تو پہلی بات یہ ہے کہ حضرت نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے بارے میں اللہ تعالی نے قرآن مجید کی آ سورۃ الجمعہ میں اس بات کا ذکر فرمایا ہے سورۃ جمعہ کی تیسری اور چوتھی آیت ہے ترجمہ اس آیت کا یہ ہے کہ وہی خدا کی ذات ہے جس نے ان پڑھ لوگوں میں یا جاہل لوگوں میں اپنا رسول بھیجا جو ان کو ان پر کتاب پڑھ کر سناتا ہے اور اللہ کی آیتیں پڑھ کر سناتا ہے اور ان کو پاکیزہ کرتا ہے اور ان کو اللہ کی کتاب اور حکمت کی باتیں سکھلاتا ہے اور اگرچہ اس سے پہلے وہ بڑی بھول میں مبتلا تھے یا بڑی گمراہی میں مبتلا تھے اور اسی ایک دوسرا گروہ بھی ایسا ہے جو ابھی ان سے نہیں ملا ہے اور وھو العزیز الحکیم ان کے ذریعے سے بھی اللہ تعالی ایک انقلاب پیدا کرنے والا ہے تو اس میں صاف معلوم ہوتا ہے کہ نبی اکرم محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وسلم کی دو کا یہاں پر ذکر کیا گیا ہے ایک بعثت تو پہلی ہے جو کہ مکہ مکرمہ میں ہوئی اور اس کے ذریعے سے اللہ تعالی نے قرآن مجید جیسی کامل کتاب کامل شریعت آپ کو عطا کی اور دوسری کے بارے میں فرمایا کہ ابھی دوسرے لوگ ابھی ہیں جو ان سے نہیں ملے صحیح بخاری میں کتاب التفسیر میں یہ حدیث آتی ہے کہ اس مجلس میں جب کہ یہ آیت تعزل ہو رہی تھی تو حضرت ابوہریرہ بھی موجود تھے انہوں نے پوچھا کہ یا رسول اللہ یہ آخرین کون ہیں تو حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے دیکھا کہ اس مجلس میں سلمان فارسی رضی اللہ تعالی عنہ بھی بیٹھے ہوئے تھے آپ نے ان کے اوپر ہاتھ رکھا اور فرمایا کہ اگر ایمان سریا ستارے پر بھی چلا گیا ہوگا یعنی دنیا سے ایمان اٹھ گیا ہوگا گمراہی کا دور دورہ ہوگا جیسا کہ اللہ تعالی نے پہلے فرمایا تھا کہ وہی دور پھر دوبارہ آنے والا ہے باوجود اس کے کہ قرآن بھی پڑھیں گے حدیث بھی پڑھیں گے رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی سنت کو بھی جانتے ہوں گے لیکن ان اندر ایک ذلالت آجائے گی گمراہی آجائے گی مختلف اپنی من مانی تفسیریں کریں گے اور اس کے مطابق لوگوں کو گمراہ بھی کریں گے جس کی تفسیر میں انشاءاللہ آگے بھی بیان کروں گا تو اس پہ دو نعستوں کا ذکر آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی کیا گیا ہے وہ آخرین سے متعلق یہ فرمایا کہ یہ سلمان فارسی رضی اللہ تعالی عنہ کے کے لوگ ہوں گے ایک یہ ایک شخص ہو گا یا کئی ہوں گے تو اس لحاظ سے اگر دیکھتے ہیں تو سورۃ تکبیر کو اس کے ساتھ جب ہم ملا کر پڑھتے ہیں تو ہمیں یہ واضح طور پر معلوم ہو جاتا ہے کہ وہ زمانہ جو کہ آخری زمانہ سمجھا جاتا ہے یا یہ کہ آخرین کا زمانہ سمجھا جاتا ہے اس کے لیے علامتیں جو بیان کی گئی ہیں وہ میں قرآن مجید سے ہی پڑھ کے آپ لوگوں کے سامنے رکھتا ہوں چنانچہ بسم اللہ الرحمن الرحیم اللہ تعالی فرماتا ہے جب نور یافتہ لپیٹ دیا جائے گا.

00:10:21

اور شمس سے مراد محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وسلم ہیں. کیونکہ سورۃ عزاب میں اللہ تعالی نے آپ کو سراج منیر قرار دیا ہے. ایک چمکتا ہوا روشن سورج آپ ہیں. تو اس وقت آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی ذات پر کردار پر جو ہے وہ پردہ ڈال دیا جائے گا یا ان کو لپیٹ دیا جائے گا.

00:10:39

نجوم القدر اور جب ستارے دھندلے ہو جائیں گے. صحابہ کی جو تفسیریں ہم پڑھتے ہیں یا صحابہ کا کی جو ہم پڑھتے ہیں کہ کس رنگ میں انہوں نے زندگی گزاری کیسی زندگی تھی کیسے ان کو حضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی صحبت کے نتیجے میں پاکیزگی ایسی حاصل ہوئی کہ خود حضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا تھا کہ اصحابی کا نجوم کہ میرے صحابہ ستاروں کی مانند ہے جن کی بھی تم پیروی کرو گے تم ہدایت پا جاؤ گے تو ایسا بنا دیا تھا حضرت علیہ الصلاۃ والسلام نے کیا ہی خوب فرمایا ہے کہ اے محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وسلم تم نے اپنی قوم کو اس رنگ میں پایا کہ جیسا کہ ایک پلیت گرا ہوا گوبر یا لیز ہوتی ہے اور آپ نے ان کو ایک سونے کی ڈلی کی مانند بنا دیا تو گویا یہ کہ آپ کا معجزہ تھا کہ ایک جاہل قوم میں امی قوم میں آپ پیدا ہوئے خود بھی امی تھے لیکن ان امیوں کے اندر ایسی روحانیت پیدا حمد کے ترانے گاتے ہوئے اللہ تعالیٰ سے تعلق پیدا کرنے والے بن گئے کہا تو یہ کہ وہ شرابوں میں ڈوبے ہوئے ہوتے تھے زنا کاری میں مبتلا تھے ڈاکہ ڈالا ان کا کام پیشہ تھا تو ان تمام برائیوں کو چھوڑ کر ان لوگوں نے اللہ کی محبت کو اس رنگ میں اختیار کیا کہ وہ سونے کی ڈلیوں کے مانند ہو گئے آگے اللہ تعالی فرماتا ہے جب پہاڑ چلائے جائیں گے پہاڑ چلائے جانے سے یہ برا نہیں کہ ظاہری پہاڑ بلکہ سمندر میں جہاز چلتے ہیں آج کل آپ دیکھیں گے کہ ایسی technique ہو گئی ہے کہ بڑے بڑے ایسے جہاز جن کے اندر سینکڑوں لوگ بھی سفر کر سکتے ہیں اور اس کے اندر ہر قسم کے سازوسامان بھی ہوتے ہیں دو دو تین تین منزلوں کے بھی جہاز ہوتے ہیں ایسے لگتا ہے کہ جیسے پہاڑ چلے جا رہے ہیں وہ اس زمانے کا حال بتا رہا ہے کہ جب دس مہینے کی اونٹنیوں کو چھوڑ دیا جائے گا گویا کہ نئی سواریاں ایسی نکل آئیں گی کہ جس کے نتیجے اونٹوں کی سواری بیکار ہو جائے گی اور جب وحشی جانوروں کو اکٹھی کی اکٹھا کیا جائے گا تو کیا یہ دیکھیں زو کا چلن آج کل کے زمانے میں ہے ہر بڑے بڑے شہروں میں ذو بھی پائے جاتے ہیں مختلف قسم کے جانوروں کو بھی رکھا جاتا ہے اور ان کی دیکھ بھال بھی کی جاتی ہے ان کو پالا جاتا ہے اور جب دریاؤں کے پانی کو آ ملا دیا جائے گا دونوں معنی ہو سکتے ہیں کے معنی سکھانے کے بھی معنی ہیں اور ملانے کے بھی معنی ہیں تو نہروں کا نکالنا دریاؤں کا رخ موڑ دینا پھر سمندروں کو جو ہے وہ دو سمندر الگ الگ ہیں ان کو جو ہے درمیان کی خشکی کاٹ کے جو ہے بنا دیا ہے جیسے نہریں ہیں تو یہ زمانہ یہ ساری علامتیں ایسی ہیں جو موجودہ زمانے پر دلالت کرتی ہیں اور جب لوگوں کو جوڑ دیا جائے گا اب دیکھیے ساری دنیا ایک گلوبل دنیا جسے کہتے ہیں یہ ایک شہر کی مانند ہو گئی ہے جب زندہ گاڑی جانے والی لڑکی کے بارے میں سوال کیا جائے گا کہ کیوں آخر اس کو لکارا جاتا تھا کیا گناہ تھا اس کا کہ اس کو مار دیا جاتا آج کل دیکھیں مستورات کے بھی حقوق آگئے ہیں اور خود عورتوں نے یہ حقوق مانگنے شروع کیے اور ہمارا حق کیوں مارا جاتا ہے اور بڑے بڑے عہدوں پر بھی وہ فائز ہوتی ہیں اور جب کتابیں چھاپ دی جائیں گی یا پھیلا دی جائیں گی جب آسمان کھول دیا جائے گا تو یہ تمام علامتیں ایسی ہیں جو موجودہ چودھویں صدی کے اندر آکر پوری کی پوری عمل میں آ رہی ہیں تو اس سے یہ لازمی نتیجہ ملتا ہے کہ کی جو بےعزت تھی وہ چودھویں صدی میں آ کر پوری ہونے والی تھیں جن کی علامات قرآن مجید میں اللہ تعالی نے یہ بیان کر دی ہیں چنانچہ اب یہ دیکھیے لوگ یہ کہیں گے کہ جی ہم تو قرآن پڑھتے ہیں مسجدوں میں جاتے ہیں نمازیں پڑھتے ہیں سب کچھ کرتے ہیں تو پھر ہم گمراہ کیسے ہو گئے اب یہ خود ان کے دیکھیے اہل حدیث پر چودہ جون انیس سو بارہ کا ہے وہ لکھتا ہے سچی بات تو یہ ہے کہ ہم میں سے قرآن قرآن مجید بالکل اٹھ چکا ہے فرضی طور پر ہم قرآن مجید پر ایمان رکھتے ہیں مگر واللہ دل سے معمولی اور بہت معمولی اور بے کار کتاب جانتے ہیں قرآن مجید کھلواڑ بھی کرتے ہیں مختلف قسم کی ایسی توجیحات بیان کی جاتی ہیں جو سرے سے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی سرمداد اور قرآن مجید کی دوسری آیات سے بالکل میل نہیں کھاتے کئی لوگ اپنی اپنی من مانی کے تفسیریں کرنے لگ پڑے ہیں اسی طرح سے اختراب الصحا یہ نورالحسن خان صاحب کی تصریف ہے اس کے اندر انہوں نے لکھا اب اسلام کا صرف نام اور قرآن کا فقط نقش باقی رہ گیا ہے مسجدیں بظاہر آباد تو ہیں لیکن ہدایت سے ویران ہیں علماء اس امت کے بدترین ان کے ہیں چنانچہ حدیث میں بھی آتا ہے کہ لوگوں میں بڑی گھبراہٹ پیدا ہو جائے گی لوگ اپنے علماء کی طرف جائیں گے لوگ کیا دیکھیں گے کہ علماء نہیں بیٹھے ہوئے ہیں یہ بندر اور سور بیٹھے ہوئے ہیں اور کیوں یہ دو باتیں حضور نے بیان کی بندر کا کام ہے نقل ہی کرتا ہے نقل کرتا ہے انہوں نے صحابہ کی نقل کرتے ہوئے جبے تو پہن لیے داڑھیاں رکھ لیں سر پہ پگڑیاں بھی باندھ لیں ان کے اندر صرف یہ نقالی ہے اندر روحانیت کوئی نہیں ہے روحانیت سے خالی ہیں اور دوسری بات آپ نے فرمایا خنازیر کہ یہ لوگ سوروں کی طرح مانند ہوں گے سور کیا کرتا ہے زمین کھودتا ہے کھیتیاں اجاڑ دیتا ہے ایسے ہی امت کی کھیتی کو یہ اجاڑنے والے ہوں گے اب دیکھیں کتنے فرقے اڑ گئے ہیں کہ ہر ایک فرقہ دوسرے فرقے پر کفر کا فتوی دیتا ہے چنانچہ ایک شاعر نے کہا ہے رہا دین باقی نہ اسلام باقی ایک اسلام کا رہ گیا نام باقی علامہ اقبال کہتے ہیں شور ہے شور ہے ہو گئے دنیا سے مسلمان اب ہم یہ کہتے ہیں کہ تھے بھی کہیں مسلم موجودہ میں تم ہو نصاریٰ تو تمدن میں حمود یہ مسلماں ہیں جنہیں دیکھ کے شرمائے یہود یوں تو سید بھی ہو مرزا بھی ہو افغان بھی ہو تم سبھی کچھ ہو بتاؤ تو مسلمان بھی ہو تو یہ کون کہہ رہے ہیں ہم کہہ رہے ہیں یہ تمام آپ لوگوں کے ہی leader کہے گئے ہیں آپ لوگوں کے شاعر مشرق کہے گئے ہیں آپ لوگوں کے بڑے بڑے نامور شعراء یہ بات کہہ گئے ہیں تو یہ تمام باتیں کہتے ہوئے میں زیادہ اپنے بیان کو لمبا نہ کرتا ہوا حضرت مسیح موعود علیہ الصلاۃ والسلام کا ہی ایک حوالہ آپ کے سامنے پڑھ کر سناتا ہوں جس میں آپ نے ان تمام باتوں کو بیان کیا ہے چنانچہ آپ فرماتے ہیں اور آیت آخرینہ منہم میں جو اس گروہ کو منہم کی دولت سے یعنی صحابہ سے مشابہ کی نعمت سے حصہ دیا گیا ہے یہ اس بات کی طرف اشارہ ہے یعنی جیسا کہ صحابہ رضی اللہ تعالی عنہ نے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے معجزات دیکھے اور پیش گوئیاں مشاہدہ کیں ایسا ہی وہ بھی مشاہدہ کریں گے اور درمیانی زمانے کو اس نعمت سے قابل طور پر حصہ نہیں ہوگا چنانچہ آج کل ایسا ہی ہوا کہ تیرہ سو برس بعد پھر آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے معجزات کا دروازہ کھل گیا اور لوگوں نے اپنی آنکھوں سے مشاہدہ کیا کہ خصوف و خصوص رمضان میں موافق حدیث قطنی اور فتاوی ابن حجر کے ظہور میں آگیا یعنی چاند گرہن اور سورج گرہن رمضان میں ہوا جیسا کہ مضمون حدیث تھا اسی طرح پر چاند گرہن اپنے گرہن کی راتوں میں سے پہلی رات میں اور سورج گرہن اپنے گرہن کے دنوں میں سے بیچ کے دن میں وقوع میں آیا ایسے وقت میں کہ جب مہدی ہونے کا مدعی موجود تھا اور یہ سورج جب سے کہ زمین اور آسمان پیدا ہوا کبھی وقوع میں نہیں آئی کیونکہ اب تک کوئی شخص نظیر اس کی سفید میں ثابت نہیں کر سکا بعض لوگ کہتے ہیں کہ جی رمضان کے مہینے میں اور سالوں میں بھی گرن لگے ہیں ہم یہ کہتے ہیں کہ کوئی بدعی موجود تھا جس نے یہ دعویٰ کیا ہو کہ میں مہدی ہوں میں مسیح ہوں کوئی موجود نہیں تھا کوئی نظیر پیش نہیں کر سکتے آپ فرماتے ہیں کہ کیوں کہ اب تک کوئی شخص نظیر اس کی صفحہ تاریخ میں ثابت نہیں کر سکا سو یہ حضرت صلی اللہ علیہ وسلم کا ایک معجزہ تھا جو لوگوں نے آنکھوں سے دیکھ لیا پھر بھی جس کا نکلنا مہدی اور معود مسیح موعود کے وقت میں بیان کیا گیا تھا ہزاروں انسانوں نے نکلتا ہوا دیکھ لیا ایسا ہی جاوہ کی آگ بھی لاکھوں انسانوں نے مشاہدہ کی حدیث پہ پیش گوئی تھی کہ بڑی بھڑکتی ہوئی آگ نکلے گی ایسا ہی طاعون کا پھیلنا اور hajj سے روکا جانا بھی سب نے خود ملاحظہ کرلیا ملک میں ریل کا تیار ہونا اونٹوں کا بیکار ہونا یہ تمام آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے معجزات تھے جو اس میں اس طرح دیکھے گئے جیسا کہ صحابہ رضی اللہ تعالی عنہ نے معجزات کو دیکھا تھا حضور صلی اللہ علیہ وسلم کس خوبی سے بیان کر رہے ہیں کہ یہ جتنے بھی نشانات ظاہر ہوئے یہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے نشانات ہیں یہ ہمارے نشانات نہیں ہیں آپ فرماتے ہیں آ اسی وجہ سے اللہ جل شانہ نے اس آخری گروہ کو منہم کے لفظ سے پکارا تا یہ اشارہ کریں کہ معائنہ معجزات میں وہ بھی صحابہ کے رنگ میں ہی ہوں گے سوچ کر دیکھو کہ تیرہ سو برس میں ایسا زمانہ منہاج نبوت کا اور کس نے پایا اس زمانے میں جس میں ہماری جماعت پیدا کی گئی ہے کہ کئی وجود سے اس جماعت کو صحابہ رضی اللہ تعالی عنہ سے مشابہت ہے وہ معجزات اور نشانوں کو دیکھتے ہیں جیسا کہ صحابہ نے دیکھا وہ خدا تعالی کے اور تازہ با تازہ تائیدات سے نور اور نور اور یقین پاتے ہیں جیسا کہ صحابہ نے پایا وہ خدا کی راہ میں لوگوں کے ٹھٹھے اور ہنسی اور تان و تشنی اور طرح طرح کی دل آزاری اور بدزبانی اور قطع رحم وغیرہ کا صدمہ اٹھا رہے ہیں جیسا کہ صحابہ نے اٹھایا وہ خدا کی کھلے کھلے نشانوں اور آسمانی مددوں اور حکمت کی تعلیم سے پاک زندگی حاصل کرتے جاتے ہیں جیسا کہ صحابہ نے حاصل کیا وہ تیرے ان میں سے ہیں نماز میں روتے نگاہوں کو آنسوؤں سے تر کرتے ہیں جیسا کہ صحابہ رضی اللہ تعالی عنہ روتے تھے بہتری ان میں سے ایسے ہیں جن کو سچی خوابیں آتی ہیں اور الہام الہی سے مشرف ہوتے ہیں جیسا کہ صحابہ رضی اللہ تعالی عنہ ہوتے تھے بہتری ان میں سے ایسے ہیں کہ اپنی محنت سے کمائے ہوئے بالوں کو محض خدا تعالی کی رضا کے لیے ہماری سلسلے میں ہمارے سلسلے میں خرچ کرتے ہیں جیسا کہ صحابہ رضی اللہ تعالی عنہ خرچ کرتے تھے ان میں سے ایسے لوگ کئی پاؤ گے جو موت کو یاد رکھتے ہیں اور کو نرم اور سچے تقوی پر قدم مار رہے ہیں جیسا کہ صحابہ رضی اللہ تعالی عنہ کی سیرت تھی وہ خدا کا گروہ ہے جس کو خدا آپ سنبھال رہا ہے اور دن بدن ان کے دلوں کو پاک کر رہا ہے اور ان کے سینوں کو ایمانی حکمتوں سے بھر رہا ہے اور آسمانی نشانوں سے ان کو اپنی طرف کھینچ رہا ہے جیسا کہ صحابہ کو کھینچتا تھا غرض اس جماعت میں وہ ساری علامتیں پائی جاتی ہیں جو کے لفظ سے مفہوم ہو رہی ہیں حضرت ضرور کہ خدا تعالی کا فرمودہ ایک دن پورا ہوتا ایام صلح کا یہ حوالہ تھا تو بہرحال اس زمانے میں جو نئی نئی ایجادات ہوئی ہیں یہ بتا رہی ہیں کہ یہی وہ زمانہ ہے جس میں کہ مسیح موعود یا مہدی معود نے ظاہر ہونا تھا اور اللہ کے فضل سے وہ ظاہر ہوا اور اللہ تعالی کے فضل سے جماعت احمدیہ پر ایک صدی سے زیادہ کا عرصہ گزر چکا ہے جزاکم اللہ تعالی حسن الجزا ناظرین اب ہمارے ساتھ ہمارے اس پروگرام میں کچھ کالرز جڑے ہیں تو ہم ان کی طرف سے سوالات لے لیتے ہیں کینیڈا سے محمد صادق صاحب اس وقت ہمارے ساتھ لائن پر موجود ہیں تو ہم ان کا سوال سن لیتے ہیں محمد صادق صاحب السلام علیکم ورحمتہ اللہ وعلیکم السلام ورحمتہ اللہ وبرکاتہ کیا میری آواز آ رہی ہے جی صادق صاحب آپ اپنا سوال پیش کریں اب آپ کی آواز آ رہی ہے ہے میرا سوال یہ ہے کہ کیا حضرت مرزا غلام احمد علیہ السلام کے علاوہ اس پچھلے ڈیڑھ سو سال میں کسی نے مسیح یا مہدی کا دعویٰ کیا ہے اور اگر کیا ان کا پھر کیا آ ان کا نام و نشان ہے جی ٹھیک ہے صادق صاحب آپ نے ہم نے آپ کا سوال سن لیا ہے میں محترم مولانا عطا المجیب لون صاحب سے درخواست کرتا ہوں کہ اس سوال کا کچھ اختصار سے جواب فرمائیں جی جزاکم اللہ بسم اللہ الرحمن الرحیم صادق صاحب کا سوال یہ ہے کہ کیا گزشتہ جو صدی گزری ہے ایک سو سال سے زائد کا عرصہ حضرت علیہ الصلاۃ والسلام کی وراثت کے بعد ہوا ہے تو کیا اس عرصے میں بھی کسی نے مسیح ہونے کا یا مہدی ہونے کا دعویٰ کیا ہے تو اس میں سب سے پہلے تو میں عرض کروں گا کہ جہاں تک مسیح ہونے کا سوال ہے مسیح کے حوالے سے جماعت احمدیہ کے علاوہ تقریبا تمام جو امت کے فرقے ہیں ان کا یہ اعتقاد ہے کہ مسیح جو ہے وہ آسمان سے نازل ہوگا۔ حضرت عیسیٰ علیہ الصلاۃ والسلام جو آج سے تقریبا دو ہزار سال پہلے مبعوث ہوئے تھے وہ زندہ آسمان پر چلے گئے ہیں اور وہی زمین پر واپس نازل ہوں گے اور وہی مسیح موعود ہوں گے۔ سوائے جماعت احمدیہ کے جس کا عقیدہ یہ ہے کہ حضرت عیسی علیہ الصلاۃ والسلام کی وفات ہو چکی تھی ہو چکی ہے اور مسیح علیہ السلام کی خوبو پر ان کے مشابہ ایک وجود نے امت میں آنا تھا اور وہ وجود جو ہے حضرت مرزا غلام محمد قادیانی علیہ الصلاۃ والسلام کی صورت میں مبعوث ہو چکا ہے تو اس لحاظ سے چونکہ مسیح کے متعلق ان کا یہ اعتقاد ہے کہ آسمان سے آئے گا اس لیے مسیح کے تعلق سے کوئی کسی اور شخص نے کوئی ایسا دعویٰ نہیں کیا کہ میں مسیح لیکن جہاں تک مہدی معود کا دعوی ہے اس تعلق سے جو دیگر فرقے ہیں جماعت احمدیہ کے علاوہ جو امت مسلمہ کے فرقے ہیں ان کا یہ اعتقاد ہے کہ امام مہدی امت میں سے ہی ہوگا اور عیسیٰ آسمان سے نازل ہو کر ان کے ساتھ ملے گا اور پھر وہ دنیا کو فتح کریں گے تو مہدی کے تعلق سے بعض نے یقینا دعویٰ کیے ہیں اور کئی ایسے اشخاص ہیں جنہوں نے دعویٰ کیے ہیں جن میں سے مثال کے طور پر عرب ممالک میں ہی ایک گزرے ہیں جن کا نام محمد تھا ان کے والد کا نام عبداللہ تھا تو انہوں نے اپنا دعویٰ پیش کیا کہ اس زمانے میں مہدی معود کی جو بشارت حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے بیان فرمائی ہے میں وہی مہدی معود ہوں میرے باپ کا نام عبداللہ ہے میرا نام محمد ہے میری ماں کا نام آمنہ ہے مختلف چیزیں اس نے اپنے ساتھ جوڑی اور یہ دعویٰ کیا کہ میں مہدی ہوں اور میں اسلام کی اسلام کا جو غلبہ ہے ساری دنیا پر کرنے کے لیے مبعوث ہوا ہوں اور کچھ لوگ بھی اپنے ارد گرد اکٹھے کیے اور تلوار کے زور پہ اس نے یہ پیغام دیا کہ تلوار کے ذریعے میں دنیا کو فتح کروں گا لیکن اس وقت کی جو حکومت تھی انہوں نے اس کو قید کر لیا اس کے ساتھیوں کو بھی قید کیا گیا وہ تتر بتر ہو گئے اور اس طرح ان کی کہانی جو ہے وہ ختم ہو گئی تو اس طرح بعض لوگوں نے کوشش کی ہے دعوی کرنے کی لیکن کسی کوئی بھی ایسا مہدی جس نے مہدی ہونے کا دعوی کیا حضرت مسیح علیہ الصلاۃ والسلام کے بعد وہ دنیا میں قائم نہیں کسی کا بھی حضرت مسیح موعود علیہ الصلاۃ والسلام کی صداقت کی یہ دلیل ہے کہ آپ علیہ الصلوۃ والسلام کے علاوہ دنیا میں جس نے بھی یہ دعویٰ کیا ہے اس کا وجود آج کہیں نہیں ہے اس کی کوئی جماعت ہمیں کہیں نہیں ملتی ہے اس کی اس کو کوئی ماننے والا یا اس کو پیروکار دنیا کے کسی خطے میں کسی حصے میں ہمیں کہیں بھی نظر نہیں آتا سوائے حضرت مسیح موعود علیہ الصلاۃ والسلام کے حضرت مرزا غلام محمد قادیانی علیہ الصلاۃ والسلام کے جنہوں نے مسیح موعود اور مہدی موعود ہونے کا دعوی اور چونکہ صرف اور صرف آپ کا دعوی سچا تھا اس لیے آپ کو ہی اللہ تعالی نے ترقی عطا فرمائی اور اس وقت ہم دیکھتے ہیں کہ وہ دعوی اللہ تعالی کے فضل سے دنیا کے کونے کونے میں پہنچا ہے اور دو سو دس دو سو تیرہ ممالک میں آپ علیہ الصلاۃ والسلام کا پیغام پہنچا ہوا ہے اور ہر ملک میں جماعت احمدیہ قائم ہے منظم رنگ میں قائم ہے اسلام کا پیغام اور جماعت کا پیغام دنیا میں پھیلا رہی ہے تو خلاصتا یہی عرض ہے کہ بعض لوگوں نے دعوے کی تو کی لیکن ان کا وجود اس وقت دنیا میں ہمیں کہیں بھی نظر نہیں آتا ان کا کوئی پیروکار ہمیں نظر نہیں آتا اور یہی اس بات کا ثبوت ہے یہی اس بات کی صداقت کا ثبوت ہے کہ صرف اور صرف سچے مسیح اور سچے مہدی جو دنیا میں مبعوث ہوئے وہ سوائے حضرت مرزا غلام محمد قادیانی علیہ الصلاۃ والسلام کے اور کوئی نہیں جزاکم اللہ تعالی حسن الجزا ناظرین ایک اور ٹیلی فون کالر مکرم عارف زمان صاحب بنگلہ دیش سے اس وقت ہمارے ساتھ لائن پر موجود ہیں ہم ان کا بھی سوال سن لیتے ہیں مکرم عارف صاحب السلام علیکم ورحمۃ اللہ وعلیکم السلام ورحمتہ اللہ وبرکاتہ جی عارف صاحب آپ کی آواز آ رہی ہے آپ اپنا سوال پوچھ سکتے ہیں میرا سوال ہے مسلم کی صداقت کے بارے میں بہت ساری پیشگوئی محسن اسلام نے کیا زلزلہ کے بارے میں بھی بہت پیشگوئی ہے کہ نہیں اور یہ کیسے پوری ہوئی کب پوری ہوئی اس کے پس منظر اور تھوڑا سا مجھے بیان کیجیے جزاکم اللہ جزاک اللہ میں محترم مولانا محمد کریم الدین شاہد صاحب سے درخواست کرتا ہوں کہ اختصار کے ساتھ اس سوال کا جواب الزمان صاحب بات یہ ہے کہ آپ بھی کتابیں پڑھی ہوں گی تو بہرحال اس میں کہ حضرت نے کثرت سے زلزلوں کی پیش گوئیاں کی ہیں اور آپ نے فرمایا کہ زلزلے سے دیکھتا ہوں میں زمین زیرو زبر وقت اب نزدیک ہے آیا کھڑا طوفان ہے دنیا نے دیکھ لیا کہ نہ صرف ہندوستان میں بلکہ باہر کے ملکوں میں بھی بہت سارے زلزلے آئے ابھی چند دنوں کی بات ہے کہ افغانستان بڑا ایک زلزلے کا center تھا سے زلزلہ آیا تو شمالی ہندوستان تک پورا لرز اٹھا تھا تو یہ زلزلے بار بار جو آ رہے ہیں یہ کی صداقت کا نشان ہیں اور جیسے کہ آپ نے فرمایا تھا بہار میں بھی زلزلے آئے یہاں ہماچل پردیش میں بھی زلزلے آئے پنجاب میں بھی زلزلے آئے دیگر ممالک میں بھی زلزلے آئے ہیں اور ابھی دیکھئے حال میں ترکی میں جو زلزلہ آیا تھا اور یہ وہاں پر بھی آپ نے دیکھا ہوگا ترکی میں زمین زیرو ہو گئی اور ہزاروں لوگ جو ہیں اس میں مارے گئے ہیں تو بہرحال یہ تمام زلزلے کیوں آ رہے ہیں آفات کیوں آ رہی ہیں اس لیے کہ آنے والے مسیح اور مہندی کو لوگوں نے نہیں مانا ٹھکرا دیا تو بہرحال تو آیا کھڑا طوفان ہے طوفان بھی کئی جگہ پر طوفان بھی آئے ہیں سمندری طوفان بھی آئے ہیں بارش کے طوفان بھی آئے ہیں ابھی چند دن پہلے ہم دیکھ رہے ہیں کہ فصلیں کھڑی تھی گندم کی بے شمار بارش ہوئی بہت ساری فصلیں تباہ ہو گئی ہیں تو یہ تمام علامتیں اس بات کی ہیں کہ جس مسیح نے آنا تھا وہ آ چکا اس نے نشان دکھائے زلزلوں کی پیشگوئی کی اور زلزلے صرف آپ نے فرمایا کہ یہ پانچ دفعہ جو ہے یہ زلزلوں کا جو ہے یہ زلزلوں سے مراد صرف زمینی زلزلے نہیں ہیں بلکہ جنگیں بھی ہیں تو جو زبردست جنگ جنگ عظیم اول اور دوم تو ہم دیکھ چکے ہیں اور دعا کا ہے ہماری کہ اللہ کرے کہ تیسری جنگ عظیم نہ آئے اگر آئی تو دنیا ہو جائے گی تو جنگوں کی بھی کی بھی پیشگوئی ہے اور طوفانوں کی بھی پیشگوئی ہے یہ سب اس واسطے ہیں کہ اللہ تعالی نے اس آنے والے فرشتے کو قبول نہیں کیا جس نے مسیح محمدی کے ذریعے سے مسیح محمدی بن کر آیا اور جو حضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی شان کو دنیا میں بلند کرنے کے لیے آیا اور یہ بتانے کے آیا کہ اس زمانے میں اگر خدا سے کوئی تعلق پیدا ہو سکتا ہے تو وہ صرف اور صرف محمد مصطفی صلی اللہ علیہ کے ذریعے سے ہو سکتا ہے آپ کی جو پیروی کرے گا اللہ تعالی اس سے ہم کلام ہو گا اور اس کو وسیع صفت بھی بنا سکتا ہے اور خود آپ نے دعوی کیا ہے کہ اللہ تعالی کے متواتر مجھ پر الہام نازل ہوتے ہیں متواتر اللہ تعالی مجھ سے ہم کلام ہوتا ہے اور اس نے مجھے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی پیروی کی برکت سے یہ تمام نعمت عطا کی ہے جزاکم اللہ تعالی حسن الجزا program کے تسلسل میں خاکسار محترم مولانا عطاء المجیب بلون صاحب سے عرض کرتا ہے کہ تمہید میں بھی اس بات کا ذکر کیا تھا کہ سیدنا حضرت اقدس مسیح موعود علیہ الصلاۃ والسلام نے اپنی تحریر میں فرمایا تھا ابراہیم احمدیہ کا میں نے ایک اقتباس پیش کیا کہ آپ نے فرمایا تھا کہ احادیث صحیحہ میں اس بات کا ذکر ہے کہ مسیح نے چودھویں صدی کے سر پر آنا تھا تو خاک سر درخواست کرتا ہے کہ اس کی کچھ تفصیل بیان فرمائے جی جزاک اللہ جیسا کہ ابھی محترم مولانا کریم الدین صاحب شاہد نے ابھی سے سورہ جمعہ کی آیت کا ذکر فرمایا اور اس آیت میں آ کتاب تفسیر میں جو حدیث آئی ہے اس کا بھی ذکر ہوا جس میں حضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت سلمان فارسی رضی اللہ تعالی عنہ کے کندھے پہ ہاتھ رکھتے ہوئے فرمایا کہ اگر ایمان ستارے پر بھی چلا جائے تب بھی سلمان فارسی کی قوم میں سے ایک شخص یا کچھ اشخاص اس کو واپس زمین پر لائیں گے اور ایمان کو از سر نو دنیا میں قائم کریں گے اب اس میں جو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ہے کہ اس میں دراصل دو پیشگوئیاں تھیں ایک پیش گوئی یہ تھی کہ ایک ایسا زمانہ آنے آنے والا ہے اسلام میں جب کہ ایمان اٹھ جائے گا دنیا سے اسلام صرف نام کا رہ جائے گا بڑی تفصیل سے حدیث آتی ہے جس میں حضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا اسلام اس میں حضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک زمانے کا نقشہ کھینچا جس میں بتایا کہ اسلام صرف نام کا رہ جائے گا قرآن مجید کے صرف الفاظ رہ جائیں گے مساجد عالی شان ہوں گی لیکن ہدایت سے خالی ہوں گی اور علماء جو اس زمانے کے ہوں گے وہ آسمان کے نیچے بدترین مخلوق ہوں گی یہ ایک پہلو حضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے بیان فرمایا اور اس کے ساتھ پھر دوسرا پہلو یہ بیان فرمایا ایسے زمانے میں پھر امام مہدی اور مسیح معود کی بعثت ہوگی جو کہ سلمان فارسی کی قوم میں سے ہو اب سوال یہاں پر یہ پیدا ہوتا ہے کہ وہ زمانہ جس کا حضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے نقشہ کھینچا ہے کیا وہ زمانہ آیا کہ نہیں تو اس کا جب ہم غور کرتے ہیں اور دیکھتے ہیں علماء کی باتوں کو ہی جب ہم انہیں کا جائزہ لیتے ہیں تو ہمیں پتا لگتا ہے کہ علماء اس زمانے میں یعنی چودھویں صدی کے شروع میں اور تیرویں صدی کے آخر میں جس زمانے میں حضرت مسی محمد علیہ الصلاۃ والسلام کی بعثت ہوئی ہے اور آپ نے دعویٰ فرمایا ہے اس زمانے کے علماء برملا اس بات کا اظہار فرما رہے تھے کہ اسلام کی کیا حالت ہے قرآن مجید کی کیا حالت ہے ایمان کی کیا حالت ہے بڑے مشہور اشعار ہیں بار بار پیش کیے جاتے ہیں مولانا حالی کے اس نے لکھا ایک شعر میں رہا دین باقی نہ اسلام باقی اسلام کا رہ گیا فقط نام باقی پھر وہ لکھتا ہے اسلام کو باغ سے تشبیہ دیتے ہوئے پھر ایک باغ دیکھنے کا اجڑا سراسر پھر ایک باغ دیکھے گا اجڑا سراسر جہاں خاک ہے ہر سو برابر نہیں زندگی کا کہیں نام جس پر ہری ٹہنیاں جھڑ گئیں جس کی جل کر نہیں پھول پھل جس میں آنے کے قابل ہوئے راکھ جس کے جلانے کے قابل پھر اقبال کے تعلق سے آتا ہے انہوں نے بھی نقشہ کھینچا یوں کہ ہاتھ بے زور ہیں الحاد سے دل خوگر ہیں امتی باعث رسوائی پیغمبر ہیں بت شکن اٹھ گئے باقی جو رہے بت گر ہیں تھا ابراہیم پدر اور پشر آذر اور پھر مسلمانوں کی عملی حالت کا نقشہ یوں کھینچا انہوں نے کہ وضع میں تم ہو نصاری تو تمدن میں ہنود یہ مسلمان ہیں جنہیں دیکھ کے شرمائے ہو پھر مولوی سید ابوالحسن علی ندوی جو دارلعلوم ندوہ کے معتمد تعلیم تھے انہوں نے اس زمانے کا نقشہ کھینچتے ہوئے فرمایا کہ مسلمانوں پر آپ عام طور پر یاس و نا امیدی اور حالات و ماحول سے شکست خوردگی کا غلبہ تھا اٹھارہ سو ستاون عیسوی کی جدوجہد کے انجام اور مختلف اور عسکری تحریکوں کی ناکامی کو دیکھ کر معتدل اور معمولی ذرائع اور طریقہ کار سے انقلاب حال اور اصلاح سے لوگ مایوس ہو چلے تھے اور عوام کی بڑی تعداد کسی مرد غیب کے ظہور اور کسی ملہم اور معجد من اللہ کی آمد کی منتظر تھی کہیں کہیں یہ خیال بھی ظاہر کیا جاتا تھا کہ تیرویں صدی کے اختتام پر مسیح موعود کا ظہور ضروری ہے تو یہ وہ زمانہ تھا چودھویں صدی کا تیرویں صدی کا آخر چودھویں صدی کی ابتدا جس کے بارے میں یہ بڑے بڑے جید علماء جو ہیں یہ باتیں بیان کر رہے تھے وہی بات جو میں نے بیان کی کہ حضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا تھا کہ اسلام کی یہ حالت ہو گی تو یہ برملا اس چیز کا اظہار کر رہے ہیں کہ وہ حالت ہو گئی اسلام کی تو اب سوال پیدا یہ ہوتا ہے کہ جب وہ حالت ہو گئی تو اس زمانے وہی زمانے کے بارے میں تو حضرت نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا تھا کہ اسی زمانے میں مسیح معود اور امام مہدی کی بعثت ہو گی تو یہی تو وہ زمانہ تھا اور اسی کے مطابق حضرت مرزا غلام محمد قادیانی علیہ الصلاۃ والسلام نے مسیح اور مہدی ہونے کا دعوی پیش فرمایا پھر بڑی مشہور حدیث ہے جو حضرت امام مہدی اور مسیح موعود کی صداقت کے ثبوت کے طور پر حضرت نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے بیان فرمائی ہے اور سنن دار قطنی میں بیان ہوئی ہے اور اس کے الفاظ یہ ہیں کہ کہ ہمارے مہدی کے لیے دو نشانیاں ہیں جو اور اس میں حدیث میں یہ بھی آتا ہے کہ جب سے یہ زمین و آسمان ہے تب سے کسی کے لیے بطور نشان کے لیے یہ ظاہر نہیں ہوا اور دو نشانیاں یہ بیان فرمائی کہ رمضان کے مہینے میں اتفاق سے ابھی رمضان کا مہینہ یہ چل رہا ہے اور اسی رمضان کے مہینے میں حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ رمضان کے مہینے میں دو نشانات ظاہر ہوں گے ایک نشان یہ ہوگا کہ چاند کو اس کی گرہن کی تاریخوں میں سے پہلی تاریخ کو اور سورج کو اس کی گرہن کی تاریخوں میں سے بیچ کی تاریخ کو گرہن لگے گا یہ امام مہدی کی صداقت کی نشانی ہوگی اور اس صداقت کی نشانی کا مطلب یہ ہے کہ امام مہدی موجود ہوگا وہ دعوی کر چکا ہوگا اس کے بعد اس کی صداقت کے لئے اللہ تعالی یہ نشان ظاہر فرمائے گا اب ہمیں اس میں یہاں پر یہ دیکھنا ہے کہ یہ نشان ظاہر ہوا کہ نہیں ہوا اور اگر ہوا تو امام مہدی مبعوث ہوا کہ نہیں ہوا تو ہم دیکھتے ہیں اللہ تعالی کے فضل سے اٹھارہ سو چورانوے عیسوی میں تیرہ سو گیارہ ہجری میں جو چودہ چودویں صدی کا ابتدائی زمانہ تھا اور حضرت مسیح معود علیہ الصلاۃ والسلام مسیح معود ہونے اور امام مہدی ہونے کا دعوی کر چکے تھے اٹھارہ سو چورانوے میں اللہ تعالی کے فضل سے من و عن یہ نشان صداقت کا جو ہے آپ کی سچائی میں اللہ تعالی نے ظاہر فرما دیا تو اس کے ظاہر ہونے سے دو باتیں واضح ہو گئیں ثابت ہو گئیں ایک تو یہ کہ حضرت مرزا غلام احمد قادیانی علیہ السلام نے جو دعوی مسیحیت اور محدویت فرمایا ہے وہ بالکل درست ہے وہ بالکل سچائی پر قائم ہے اور اس سچائی کے لیے یہ نشان ظاہر ہوا اور دوسری چیز یہ بھی اس سے ثابت ہوئی کہ چونکہ یہ نشان تیرہ سو گیارہ ہجری میں میں وقوع پذیر ہوا اس سے یہ واضح ہو گیا کہ یہی زمانہ امام مہدی کی باسط کا تھا یعنی چودھویں صدی کی ابتدا اور اسی زمانے میں نشان ظاہر ہو گیا تو اس نے واضح کر دی دونوں باتیں کہ حضرت مرزا غلام محمد قادیانی علیہ الصلاۃ والسلام سچے مسیح اور سچے مہدی ہیں اور ان کی باسط چودھویں صدی کے ابتدا میں ہی ہونی تھی اور اسی لیے چودھویں صدی کے ابتدا میں یہ نشان ظاہر ہوا اس کے علاوہ بھی اور بھی احادیث ہیں جن میں سے چند ایک کا وقت کی رعایت سے میں تذکرہ کروں گا ایک حدیث آتی ہے سنن ابن ماجہ کتاب الفتن میں جس میں حضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ مہدی اور مسیح معود کی نشانیاں جو ہیں وہ دو سو سال کے بعد ظاہر ہوں گی یہ جو اس میں دو سو سال کے الفاظ آتے ہیں اس کا مطلب آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے دو سو سال بعد نہیں ہے بلکہ اس لیے اس کی تشریح ملا علی قاری رحمۃ اللہ علیہ نے یہ بیان فرمائی ہے کہ اس سے دراصل مراد ایک ہزار سال کے بعد جو دو صدیاں گزریں گی اور الف لام جو اس پر جو الف لام داخل ہوا ہے پہ اس سے انہوں نے اس بات کا استدلال کیا ہے کہ یہ دو خاص صدیاں مراد ہیں یہاں اور یہ دو خاص صدیاں دراصل ایک ہزار سال کے بعد ظاہر ہونی ہے تو ایک ہزار سال اور plus یہ دو دو سو سال بارہ سو سال کے بعد اس کا مفہوم یہ بنتا ہے امام مہدی اور مسیح معود کی نشانیوں کا ظہور ہونا تھا اور وہ نشانیاں جو ابھی بڑی تفصیل سے محترم مولانا آ محمد کریم الدین صاحب شاہد نے ناظرین کے سامنے بیان فرمائی تو وہ ساری نشانیاں اسی زمانے میں جو بارہ سو سال عرصہ تھا اس کے بعد سے یہ ساری نشانیاں جو ہیں اللہ تعالی کے فضل سے ظاہر ہونی شروع ہوئیں اور اس کے بعد امام مہدی کی بعثت ہوئی پھر ایک حدیث ہے جو میں درج ہوئی ہے اس میں حضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کہ جب بارہ سو چالیس سال گزر جائیں گے تو اللہ تعالی مہدی کو مبعوث کرے گا یعنی تیرویں صدی کے آخر اور چودھویں صدی کا وہی ابتدا جو ہے یہ زمانہ اس حدیث سے بھی پتا لگتا ہے کہ تیرویں صدی کا آخر یا پھر چودھویں صدی کا ابتدا امام مہدی کی باسط کا زمانہ ہے پھر ایک حدیث ہے ابو داؤد کی حدیث ہے الجدو میں کہ یقینا اللہ تعالی اس امت میں ہر صدی کے سر پر ایک ایسے شخص کو مبعوث کرے گا جو اس کے دین کی تجدید کرے گا اب تیرہ سو سال تک جو مجددین گزرے ہیں ان کی بازو نے فہرستیں بھی مرتب کیے ہیں چنانچہ الکرامہ میں نواب صدیق حسن خان صاحب نے ان مجددین کے اسماء درج کیے ہوئے ہیں اور اس بات کا ذکر کیا ہے کہ اب چودہویں صدی شروع ہو گئی ہے اب چودویں صدی کے سر پہ جو آ مجدد آئے وہ دراصل مسیح اور مہدی ہوگا۔ تو تیرہ سو سال کے بعد چودھویں صدی میں اس بات کا اقرار کیا انہوں نے کہ اس صدی میں جو مجدد آئے گا وہ مسیح اور مہدی ہوگا اور یہی دراصل حضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی اس پیش گوئی سے ثابت ہوتا ہے کہ تیرویں صدی کے بعد پھر چودھویں صدی میں امام مہدی کی بعثت ہوگی۔ پھر ایک حدیث ہے کہ کہ وہ امت کیسے ہلاک ہو گی جس کے شروع میں میں ہوں اور میرے بعد بارہ سعید اور عقل مند لوگ ہیں اور مسیح ابن مریم اس کے آخر میں ہوں گے میرے بعد بارہ مجددین گزریں گے اور اس کے بعد امام مہدی کی بعثت ہوگی مسیح معود کی بعثت ہوگی اس سے بھی ہمیں پتا لگتا ہے وہی جو میں نے ابھی حدیث پیش کی ہر صدی کے سر پر مجدد تو وہ صدیق جب گزرتی گزرتی تیرہ صدیاں ہو جائیں گی تو بعد جب چودہویں صدی آئے گی تو چودھویں صدی کے سر پر جس مجدد نے مبعوث ہونا تھا اس مجدد نے مجدد ہونے کے ساتھ ساتھ امام مہدی اور مسیح موعود بھی ہونا تھا اسی طرح اور بھی بعض احادیث ہیں اسی پر میں اپنی بات کو مختصر کرتے ہوئے یہی خلاصتا عرض کرنا چاہوں گا کہ یہ ساری احادیث اور قرآن مجید کی آیات بھی جو ابھی محترم مولانا محمد کریم الدین صاحب نے پیش فرمائی ہیں ان سے ہمیں اس بات کا اندازہ ہوتا ہے کہ وہ زمانہ جس کی حضرت نبی اکرم صلی اللہ وسلم نے ہمیں بتایا تھا کہ اس زمانے میں اسلام صرف نام کا رہ جائے گا قرآن مجید کے صرف الفاظ رہ جائیں گے وہ زمانہ دراصل یہی تیرویں صدی کا آخر اور چودھویں صدی کا ابتدائی زمانہ تھا اور اسی زمانے میں سلمان فارسی کی قوم میں سے امام مہدی اور مسیح موہود نے مبعوث ہونا تھا اور انہیں پیش گوئیوں کے عین مطابق حضرت مرزا غلام احمد صاحب قادیانی علیہ الصلاۃ والسلام کو اللہ تعالی نے اسی زمانے میں جس زمانے میں ان کی باسط کی ضرورت تھی اسی زمانے میں اللہ تعالی نے ان کو مبعوث کیا اور امام مہدی اور مسیح معود آپ کا نام رکھا جزاکم اللہ تعالی حسن الجزا program کو آگے بڑھاتے ہوئے خاکسار کا اگلا سوال محترم مولانا محمد کریم الدین شاہد صاحب سے یہ ہے کہ بزرگان سلف نے بھی مسیح موعود کی آ چودویں صدی ہجری میں ظہور کی پیشخبریاں بیان فرمائی ہیں تو اس تعلق سے کچھ تفصیل بیان فرمائی کافی باتیں تو محترم عطاء المجید صاحب نے بیان کر دی ہیں سے جیسا کہ انہوں نے ایک حدیث پیش کی ہے.

00:45:14

حضرت صلی اللہ علیہ وسلم کا قول ہے.

00:45:17

اس کی تشریح میں ملا علی قاری رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں.

00:45:31

کہ یہ اس بات کا امکان ہے کہ یہاں پر جو الف لام آیا ہوا ہے تو یہ دراصل عہد کا ہے. ہے ایک ہزار سال کے بعد پھر دو سو سال کا بات ہے اور یہ دراصل مہدی کے ظہور کا وقت ہے تو گویا کہ بارہ صدیوں کے بعد تیرویں صدی جب آئے گی تو مہدی کی ظہور کا وقت آئے گا چنانچہ اسی تعلق سے نواب صدیق حسن خان صاحب بوپالوی نے اپنی کتاب حج الکرامہ صفحہ اکیس میں اسی طرح دو سو چورانوے میں اور صفحہ دو سو پچانوے پر یہ بہت سی روایت نقل کر کے یہ نتیجہ نکالا ہے کہ مہدی تیرہویں صدی میں نازل ہونا چاہیے آگے انہی کے فرزند ہیں نواب نورالحسن خان صاحب لکھتے ہیں اس حساب سے ظہور مہدی علیہ السلام کا شروع تیرویں صدی پر ہونا چاہیے تھا مگر یہ صدی پوری گزر گئی مہدی نہ آیا اب چودھویں صدی ہمارے سر پر آئی ہے اس صدی سے اس کتاب کے لکھنے لکھنے تک چھ مہینے گزر چکے ہیں یعنی یہ جو انہوں نے کتاب لکھی ہے یہ کہتے ہیں کہ ابھی تیرہویں صدی کے گزرنے کے بعد میری یہ جو کتاب لکھی جا رہی ہے یہ چھ مہینے اور بھی گزر گئے ہیں شاید اللہ تعالی اپنا فضل و عدل رحم و کرم فرمائے چار چھ برس کے اندر مہدی ظاہر ہو جائیں تو گویا کہ بڑے بڑے علماء کا یہی خیال تھا کہ چاہے وہ ہمارے ہندوستان کے ہوں یا باہر کے ہوں عرب ممالک کے بھی بعض علماء جیسا کہ احادیث کی تشریح کرنے والے ہیں انہوں نے ذکر کیا کہ تیرویں کے بعد ہی امام مہدی کا ظہور ہونا تھا یا مسیح کا.

00:47:24

مسیح اور مہدی تو دراصل ایک ہی ہے.

00:47:26

ایک حدیث آتی ہے. تو اس لحاظ سے مسیح اور مہدی کا ہونا ایک ہی وجود ثابت کرتا ہے. تو دو الگ الگ وجود نہیں ہوں گے. جیسا کہ بیان ہوا. تو اس تعلق سے ہمارے علماء کرام چودھویں صدی کے منتظر تھے. جب وہ چودھویں صدی گزر گئی. اور اللہ تعالیٰ کے نشانات بھی دیکھ لیے. چاند اور سورج گرہن کو گرہن بھی لگ گیا.

00:47:50

بجائے اس کے کہ اس گرہن سے فائدہ اٹھاتے حضرت مسیح معود علیہ الصلاۃ والسلام کے وقت میں بعض علماء نے دیکھا کہ عین حدیث کے مطابق سورج اور چاند کو گرہن لگا ہے اور وہ لوگ کہیں بجائے اس کے کہ ایمان لاتے یا لوگوں کو تلقین کرتے بھئی صحیح علامت ظاہر ہو گئی ہے وہ سر پیٹنے لگے او ہو اب تو لوگ گمراہ ہو جائیں گے لوگ گمراہ ہو جائیں بھئی اللہ کا نشان دیکھ کے کوئی گمراہ ہوتا ہے وہ تو ہدایت پاتے ہیں اور اللہ کا فضل ہے کہ اس گرہن کے میں بھی اللہ تعالی نے بہت سارے نیک سعید روحوں کو ایمان بخشا اور مسیح مہدی علیہ السلام کے وہ انصار اور مددگار بنے اور اس کے نتیجے میں اللہ تعالی نے ایک ایسی جماعت پیدا کر دی جو بے عینی آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے صحابہ کے مثال کے طور کی مسیل کے طور پہ کام کر رہی ہے وہی خدمت دین کر رہی ہے وہی خدمات بجا لا رہی ہے وہی قربانیاں پیش کر رہی ہیں جیسا کہ میں نے خود مسیح معوذ سلام کا حوالہ پیش کیا تو اس لحاظ سے امت محمدیہ میں کا جو وجود تھا وہ ظاہر ہو چکا ہے اور اب بھی دیکھیں کہ اگر ایمان کی وجہ سے یہ تو سوال یہی تھا کہ ایمان ثریا پر بھی گیا ہوگا تو کہ اہل فارس میں سے کوئی شخص لے آئے گا یا کئی اشخاص لے آئیں گے اس کو تو اس لحاظ دیکھا جائے تو وہی زمانہ گویا کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کا دوبارہ واپس آ گیا تھا کہ وہی قربانیاں جماعت احمدیہ پیش کر رہی ہے وہی شہادتیں پیش کر رہی ہے اسی قسم کی اطلاعوں میں سے گزر رہی ہے کافر اور دجال کیا کیا نام نہیں رکھایا کافر اور دجال ہمیں کہتے ہیں نام کیا کیا غم ملت میں رکھایا ہم نے تو حقیقت یہی ہے کہ وقت تھا وقت مسیحا نہ کسی اور کا وقت میں نہ آتا تو اور ہی آیا ہوتا تو زمانہ پکار پکار کر یہ کہہ رہا تھا یہی زمانہ ہے جب امت بگڑ چکی ہے جب ہر قسم کے ایوب ان کے اندر پائے جاتے ہیں اور امت محمدیہ وہ پہلی جیسی نہیں رہی اور اس کے علاوہ بہت سارے آفات اور بلایا آ رہی ہیں جو اسلام کو نابود کرنے کے لیے تلی ہوئی ہیں خاص طور پر دجالی فتنہ جو تھا اور ان تمام ہونے کے باوجود بھی ابھی تک بصیح کا انتظار کر رہے ہیں مہدی کا انتظار کر رہے ہیں اور جو آیا ہے اس کو وہ قبول نہیں کر رہے اللہ تعالی ان کی آنکھیں کھولیں اور ان کو ہدایت نصیب کرے جزاکم اللہ تعالی حسن الجزاء program کو آگے بڑھاتے ہوئے خاکسار کا اگلا سوال محترم مولانا عطاء المجیب لوند صاحب سے یہ ہے کہ اللہ تعالی نے سیدنا حضرت اقدس مسیح موعود علیہ الصلاۃ والسلام کو چودویں صدی ہجری کے شروع میں مبعوث فرمایا تھا تو اس تعلق سے سیدنا حضرت اقدس مسیح موت علیہ الصلاۃ والسلام نے خود کیا دعویٰ فرمایا ہے اس کی تفصیل بیان فرمانے کی درخواست ہے جی جزاک اللہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلاۃ والسلام نے یہ تمام جو دلائل ہیں جو ابھی تک اس program میں بیان ہوئے ہیں قرآن مجید کے حوالے سے یا احادیث کے حوالے سے یا بزرگان امت کے حوالے سے یہ تمام دلائل حضرت مسیح محمد علیہ الصلاۃ والسلام نے اپنی مختلف کتب میں ان کا ذکر فرمایا ہے اور ان کا ذکر فرماتے ہوئے مسلمانوں کو مخاطب کرتے ہوئے یہ بات ان پر واضح کی ہے کہ یہ سارے دلائل من جملہ ہمیں بتاتے ہیں کہ یہی وہ زمانہ تھا جس میں حضرت امام مہدی اور مسیح معود کی باسط مقدر تھی اور ضروری علیہ الصلاۃ والسلام نے بعض جگہ یہ الفاظ بھی بیان فرمائے کہ زمانہ پکار پکار کر کہہ رہا تھا کہ یہی زمانہ امام مہدی کی باسط اور مسیح موعود کی باسط کا زمانہ ہے تو ایسے کیسے ممکن ہو سکتا ہے کہ زمانہ باسط کو تو آ گیا لیکن اللہ تعالی آ اپنے وعدے کو اور اپنے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے ذریعے کیے گئے وعدے کو پورا نہ کرتا چنانچہ آپ نے اپنے بعض اشعار میں بھی اپنے زمانے کا ذکر کرتے ہوئے اس موعود وقت کا ذکر کرتے ہوئے بیان فرما اس بات کو جیسا کہ ابھی ایک شعر محترم مولانا محمد کریم الدین صاحب شاہد نے بھی پیش فرمایا کہ وقت تھا وقت مسیحا نہ کسی اور کا وقت میں نہ آتا تو کوئی اور ہی آیا ہوتا تو آپ نے اس شعر میں بڑے ہی واضح انداز میں اس بات کو ظاہر فرمایا کہ امام مہدی کی باسط ضروری تھی مسیح موعود کی باسط ضروری تھی اس با اس یہ یہ چیز ضروری نہیں تھی کہ وہ کون ہوگا وہ وقت آ چکا تھا اس لیے اس وقت مسیح اور مہدی کی باسط ضروری تھی اگر میں نہیں آیا ہوتا یہ اللہ تعالی نے اس زمانے میں مسیح اور مہدی بنا کر مبعوث کیا ہے تو اس لیے میں نے اپنا دعویٰ پیش کیا ہے اگر میں نہیں آتا تو کوئی اور آیا ہوتا لیکن وقت اس امام مہدی اور مسیح موعود کی بعثت کا یہی تیرویں صدی کا آخر اور چودھویں صدیقہ کی ابتدا تھا اور اسی وقت میں اس کا ظاہر ہونا ضروری تھا پھر ایک شعر میں حضور علیہ الصلاۃ والسلام نے یہی بات یوں بھی بیان فرمائی کہ میں وہ پانی ہوں جو آیا آسمان سے وقت پر میں وہ ہوں نور کہ میں وہ پانی ہوں جو آسمان سے وقت پر آیا ہے جس وقت اس پانی کی آسمانی پانی کی زمین کو ضرورت تھی بنجر زمین کو زرخیز بنانے کے لیے جس آسمانی پانی کی جس وقت ضرورت تھی اس وقت میں نازل ہوا ہوں اس وقت میں آسمان سے آیا ہوں اور پہلے شعر میں جیسا کہ میں نے ابھی وضاحت کی حضور نے فرمایا میں نہیں آتا اس وقت تو کوئی اور آیا ہوتا کیونکہ یہ وسعت کا زمانہ مقدر یہی تھا پھر ایک فارسی شعر میں آپ نے فرمایا آسمان کہ آسمان نشان برساتا ہے اور زمین الوقت کہتی ہے یہ دونوں گواہ میری تصدیق کے لیے خدا کی طرف سے کھڑے تو زمین جو ہے الوقت پکار پکار کر کہہ رہی ہے کہ یہی وہ وقت ہے جس میں امام مہدی کی بعثت ہونی چاہیے جس میں مسیح محمد کی بعثت ہونی چاہیے تو اس زمانے میں اس کی باسط ضروری تھی اس لیے اللہ تعالی نے مجھے مبعوث کیا آیت کریمہ جس میں امام مہدی کی باسط کی بشارت حضرت نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے ذریعے اللہ تعالی نے قرآن مجید میں واضح فرمائی ہے اس آیت میں بھی اس ٹکڑے میں بھی حضرت علیہ الصلاۃ والسلام نے ایک نقطہ بیان فرمایا کہ اس کے جو حروف ابجد ہے وہ بھی اس بات سے یہ ظاہر کرتے ہیں اس بات کو کہ یہی وہ زمانہ تھا جس میں امام مہدی نے مبعوث ہونا تھا چنانچہ خطبہ جمعہ تین فروری دو ہزار چھ عیسویں میں حضرت خلیفہ خامس آیت اللہ تعالی بن عصر عزیز نے اس نقطے کا ذکر کرتے ہوئے فرمایا کہ اس بارے میں حضرت مسیح معود علیہ السلام نے آیت کے حوالے سے ایک اور نقطہ بیان فرمایا ہے کہ اس کے عادات بارہ سو پچھتر بنتے ہیں۔ یعنی جس شخص نے آخرین کو پہلو سے ملانا ہے یا ملانا تھا اس کو اسی زمانہ میں ہونا چاہیے تھا۔ جس کے بارے میں سب توقع کر رہے تھے اور جس کی ضرورت بھی تھی اور حضرت مسیح محمد علیہ الصلاۃ والسلام نے فرمایا ہے کہ یہی وہ سال بنتے ہیں جب میں روحانی لحاظ سے اپنی بلوغت کی عمر کو تھا اور اللہ تعالی مجھے تیار کر رہا تھا تو یہی وہ زمانہ تھا جو اس آیت میں دراصل اللہ تعالی نے جیسے کہ حضرت مسعود علیہ الصلاۃ والسلام نے فرمایا حروف ابجد اس کے بھی بتا رہے تھے کہ اسی زمانے میں امام مہدی کی باسط ہونی ہے اور چنانچہ آپ اس زمانے میں مبعوث پھر حضرت مسی محمد علیہ الصلاۃ والسلام نے ابھی جو میں نے پچھلے جواب میں ذکر کیا کہ امت میں جو مختلف قسم کے تفرقے اور فتنے پیدا ہوئے تو اس حوالے سے حضور نے فرمایا کہ یہی زمانہ حکم کی ضرورت کا متقاضی تھا اور ضروری تھا کہ امت محمدیہ کو ایک حکم اللہ تعالی کی طرف سے ملتا تاکہ یہ اختلافات جو ہے وہ دور کرتا اور پھر حضور علیہ الصلاۃ والسلام نے اس ضمن میں ایک بات یہ بھی بیان فرمائی ایک عجیب ہو گیا ہے جس کی طرف نصوص قرآنیہ اور حدیثیہ کا اشارہ پایا جاتا ہے کہ جیسا کہ حضرت عیسی علیہ السلام حضرت موسی سے تیرہ سو برس بعد چودھویں صدی میں پیدا ہوئے اسی طرح یہ عاجز بھی چودویں صدی میں خدا تعالیٰ کی طرف سے مبعوث ہوا معلوم ہوتا ہے کہ اسی لحاظ سے بڑے بڑے اہل کشف اس بات کی طرف گئے ہیں کہ مسیح معود چودویں صدی میں مبعوث ہوگا اور تعالی نے میرا نام غلام احمد قادیانی رکھ کر اس بات کی طرف اشارہ فرمایا کیونکہ اس نام میں تیرہ سو کا عدد پورا ہو گیا ہے یعنی آپ علیہ الصلوۃ والسلام کے نام میں بھی یہ عادت پورا ہو رہا ہے اور یہاں جو اسلام نے موصوی سلسلہ اور محمدی سلسلہ کی مشابہت کا بھی یہاں ذکر فرمایا ہے اور بعض اور اقتباسات میں بڑی واضح رنگ میں اس مشابہت کو آپ علیہ الصلاۃ والسلام نے بیان فرمایا کہ صدی میں موسوی سلسلہ میں تیرہ سو سال کے بعد مسیح ابن مریم چودھویں صدی میں مبعوث ہوئے اور چونکہ دونوں سلسلوں میں موسوی سلسلہ میں اور امتی سلسلہ میں مشابہت ہے اس لیے محمدی سلسلہ میں بھی تیرہ سو سال بعد چودھویں صدی میں مسیح کے مشابہ ایک وجود نے آنا تھا چنانچہ وہ وجود میں ہوں اللہ تعالی نے مجھے اس زمانے کا مسیح قرار دیا ہے اس زمانے کا مہدی قرار دیا ہے اور میری باسط جو ہے وہ چودھویں صدی میں ہوئی وقت چونکہ مختصر ہے اس لیے اسی پر اتفاق کرتا ہوں جزاکم اللہ تعالی ناظرین کرام اس کے ساتھ ہی ہمارے آج کے اس program کے اختتام کا وقت ہوا چاہتا ہے انشاءاللہ تعالیٰ اس سیریز کے اگلے اور آخری episode میں اسی موضوع پر بات چیت کو آگے بڑھائیں گے program کے اختتام پر خاکسار سیدنا حضرت اقدس مسیح معود علیہ الصلاۃ والسلام کا ایک اقتباس پیش کرنا چاہتا ہے سیدنا حضرت اقدس مسیح علیہ الصلاۃ والسلام فرماتے ہیں میں اس لیے بھیجا گیا ہوں کہ تا ایمانوں کو قوی کروں اور خدا تعالی کا وجود لوگوں پر ثابت کر کے دکھلاؤں کیونکہ ہر ایک قوم کی ایمانی حالتیں نہایت کمزور ہو گئی ہیں اور عالم آخرت صرف ایک افسانہ سمجھا جاتا ہے اور ہر ایک انسان اپنی عملی حالت سے بتا رہا ہے کہ وہ جیسا کہ یقین دنیا اور دنیا کی جاہ و مراتب پر رکھتا ہے اور جیسا کہ بھروسہ اس کو دنیاوی اسباب پر ہے یہ یقین اور یہ بھروسہ ہرگز اس کو خدا تعالی اور عالم پر نہیں زبانوں پر بہت کچھ ہے مگر دلوں میں دنیا کی محبت کا غلبہ ہے حضرت مسیح نے اسی حالت میں یہود کو پایا تھا اور جیسا کہ ضعف ایمان کا خاصہ ہے یہود کی اخلاقی حالت بھی بہت خراب ہو گئی تھی اور خدا کی محبت ٹھنڈی ہو گئی تھی اب میرے زمانہ میں بھی یہی حالت ہے سو میں بھیجا گیا ہوں کہ تا سچائی اور ایمان کا زمانہ پھر آوے اور دلوں میں تقوی پیدا ہو سو یہی افا میرے وجود کی علت غائ ہیں۔ مجھے بتلایا گیا ہے کہ پھر آسمان زمین کے نزدیک ہوگا۔ بعد اس کے کہ بہت دور ہو گیا تھا۔ کتاب البریا روحانی خزائن جلد تیرہ صفحہ دو سو اکانوے تا دو سو چورانوے حاشیہ۔ ناظرین اس کے ساتھ ہی ہمارا آج کا یہ program اختتام پذیر ہوتا ہے۔ اجازت دیجیے السلام علیکم ورحمة اللہ وبرکاتہ۔ کہ یہی نوح خدا لو تمہیں کہ یہیں خدا پاک گے لو تمہیں تسلی کا بتایا ہم نے

Leave a Reply