Rah-e-Huda – Quran Ki Sadaqat
راہ ھدیٰ ۔ قرآن کی صداقت اور محمد ﷺ پر اعتراض کا جواب
Rah-e-Huda | 13th February 2021
جب ہم تو رکھتے ہیں مسلمانوں کا دیں دل سے ہے خدا دی میں ختم المرسلیں سے ہے خدا میں ختم مرسلی من الجزائر بسم اللہ الرحمن الرحیم اسلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ 13 فروری 2020 ہفتہ کا دن ہے انڈیا میں اس وقت رات کے ساڑھے نو بجے ہیں اور چیونٹی کے مطابق سہ پہر چار بجے ہیں اور زرین یہ وقت پروگرام رہے ہو خدا کا قادیانیوں سے پروگرام رائے کی ایک نئی سیریز لے کر اس وقت ہم آپ کی خدمت میں حاضر ہیں جیسا کہ ہم سب جانتے ہیں کہ جو گمراہ کے چار ایپیسوڈ پر مشتمل سیریز میں ان سے بھی آپ کی خدمت میں پیش کرتے ہیں ہونے والے سوٹ بھی حسب معمول لائیو نشر کیے جاتے ہیں اور ہمارا یہ پروگرام انٹرویو بھی ہوتا ہے یعنی ہم کسی موضوع کے تحت سٹوڈیو میں اپنے علماء کرام کے ساتھ گفتگو کرتے ہیں اور اپنی گفتگو کے دوران ہمارے مجاہدین کو بھی اپنے ساتھ اس پروگرام میں شامل کرتے ہیں اور ان کے ذہن میں جو مختلف سوالات اور استفسار ہوتے ہیں ان کو سنتے ہیں اور اس پروگرام کے ذریعے ان کے جوابات بھی دینے کے حوالے سے ہم کوشش کرتے ہیں ٹیلی فونز کے ذریعے ہمارے ساتھ بات کر سکتے ہیں اور اپنے سوالات ہم تک پہنچا سکتے ہیں اس کے علاوہ ٹیکس میسیج فیس میس اور ای میلز کی سہولت موجود ہے جس کے ذریعے آپ اپنے سوالات ہماری ٹیم تک پہنچ سکتے ہیں تناظری آج کے سوٹ میں آپ ہمارے ساتھ رابطے میں رہنا چاہتے ہیں امید کرتا ہوں کہ اس وقت پر ہم سر آپ کی تفصیل کو ملاحظہ فرما رہے ہوں گے ان سے جو اس وقت ہم آپ کی خدمت میں لے کر حاضر ہوئے ہیں اس مکمل سیریز میں ہم ان شاء اللہ العزیز قرآن مجید کی عظمت اور قرآن مجید خدا کا کلام ہے اور قرآن مجید کے حقائق و معارف اور قرآن مجید کے حوالے سے جو مختلف اعتراضات کیے جاتے ہیں یا مختلف لوگ مختلف مقامات کے شکار ہیں ان کے ازالہ کے حوالے سے بھی اس موجودہ سیاست سے ہم کوشش کریں گے بات کریں گے ہوا اور کس طرح اس کا انتظام کیا گیا کے حوالے سے مسلمانوں میں بھی اعتقاد کی کمزوریاں پائی جاتی ہیں اور جماعت احمدیہ کس طرح قرآن مجید کی شان و شوکت اور اس کی عظمت کو دنیا میں قائم کرنے کے لیے کوشش کر رہی ہے اس حوالے سے مزید گفتگو کریں گے گے پروگرام میں شامل ہونے کے لئے جو علماء کرام اس وقت ہمارے ساتھ میں تشریف رکھتے ہیں ان کا تعارف کروا دیتا ہوں مگر محترم مولانا محمد حنیف صاحب ہیں اور ان کے ساتھ تشریف رکھتے ہیں مکرم و محترم مولانا دین محمد 2015 کی قادیانی سیریز کے نگران پہلے ہی کا پروگرام میں پرفارم کرتا ہوں کرم خدا تعالیٰ نے بنی نوع انسان کے رشد و ہدایت اور رہنمائی کے لئے اور اس کی فلاح و بہبود کے لیے ہر زمانے میںصلی اللہ علیہ وسلم کے ذریعہ سے قرآن مجید جیسی عظیم الشان کتاب بنی نوع انسان کو عطا فرمائے اور اللہ تعالی نے فرمایا کہ اس میں قائم رہنے والے احکامات ہیں کہ انسان ہر زمانے میں اس تعلیمات کے مطابق عمل کرسکتا ہے اور چاہے انسان جس جگہ پر بھی قیام پذیر ہو وہاں پر بھی انسان قرآن مجید کی تعلیمات کو اپناتے ہوئے اس پر عمل کرتے ہوئے اپنی زندگی کو بہتر بنا سکتا ہے اور اپنی زندگی کو سنوار سکتا ہے کیونکہ اللہ تعالی نے ایک عالمگیر تعلیم بنو انسان کے لئے عطا فرمائے قرآن مجید کی شکل میں چنانچہ اللہ تعالی نے خود اس عالمگیر تعلیم کی حفاظت کی ذمہ داری اپنے ہاتھ پر اٹھائیں اور اللہ تعالی نے فرمایا کہ میں خود اس کی حفاظت کروں گا اور اس عظیم الشان تعلیم کی حفاظت کے لئے مختلف ا نتظامات کروں گا چنانچہ قرآن مجید کی عظیم الشان کتاب حضرت محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وسلم پر جس طرح نازل کی گئی اس کی شکل میں آج بھی اللہ تعالی کے فضل سے محفوظ موجود ہے اور ایک وسیع پیمانے میں دنیا اس کتاب سے فائدہ اٹھا رہی ہے اور بنی نوع انسان اس میں یہ بھی پیش گوئی تھی کہ ایک زمانہ آئے گا کہ قرآن مجید کی تعلیمات کو بھلا بیٹھیں گے تو اس کے لیے میں نے حضرت محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وسلم کو یہ خوشخبری عطا فرمائے جو ایسا زمانہ ہوگا تو مایوس نہ ہونا لیکن اللہ تعالی اپنی جناب سے ایک مسئلہ کو اس دنیا میں مبعوث کرے گا جو آکر ایک مرتبہ پھر قرآن مجید کی حقیقی تعلیمات سے دنیا کو روشناس کرائے گا اور قرآن مجید کی جو عظمت ہے اور شان وشوکت ہے اس کو ایک مرتبہ پھر دنیا میں قائم کرے گا جماعت احمدیہ کے عقیدے کے مطابق حضرت مرزا غلام احمد صاحب قادیانی علیہ الصلاۃ والسلام جو قادیان پنجاب میں پیدا ہوئے وہ مقدس موجود ہیں جن کی پیشگوئی حضرت محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمائی تھی کہ اس زمانے میں میں مسیح موعود و مہدی معہود کے طور پر ایک شخص کو اللہ تعالیٰ کی طرف سے محفوظ کیا جائے گا جو قرآن مجید اور اللہ تعالی کی تعلیمات ہے اس کے احیاء کے حوالے سے عظیم الشان کارنامہ سر انجام دے گا آج جب ہم حضرت اقدس مسیح موعود علیہ السلام کی تعلیمات کو دیکھتے ہیں اور جس انداز میں حضرت اقدس مسیح موعود علیہ السلام نے قرآن مجید کے حقائق و معارف کو کھول کر دنیا کے سامنے بیان کیے ہیں تو اسے ہم میں واضح طور پر پتہ لگ جاتا ہے کہ قرآن مجید ایک ایسی کتاب ہے جو اللہ تعالی کی طرف سے آتا ہے اس پر کاربند ہوتے ہیں تو یقینا ہماری زندگی بہتر ہو سکتی ہے اور جس مقصد کے لئے خدا تعالی نے انسان کو پیدا کیا ہے اس مقصد کو حاصل کرنے کے لئے قرآن مجید کی پیروی کے اور کوئی راستہ باقی نہیں رہتا ہے اس مختصر سی تمہید کے بعد ایک مرتبہ پھر میں اپنے ناظرین کو یاد دلانا چاہوں گا کہ قرآن مجید کے حوالے سے بات کریں گے اس کی تعلیمات اس کی برکات اور قرآن مجید کی عظمت اور شان و شوکت سے بات کریں گے اگر آپ کے ذہن میں قرآن مجید کے حوالے سے کوئی سوال ہے تو بلا جھجک میں ٹیلی فون کریں انصاف کے لیے ایکٹیویٹ ہیں تو میں امید کرتا ہوں کہ ہمارے اس پروگرام سے فائدہ بھی اٹھائیں گے اور جو بھی ان کے احساسات ہیں وہ بھی آپ کی خدمت میں پیش کرنے کے بعد آج ہمارے episode میرے پاس مولانا محمد کو صاف کرنا چاہتا ہوں کے بارے میں عام طور پر یہ اعتراض اللہ کا کلام نہیں ہے لیکن جب ایک انسان قرآن مجید کو پڑھتا ہے اور اس کے معاملے پر غور کرتا ہے طور پر اعتراض ہے کہ اس ضمن میں اپنی باتیں نوزلح بنا لی ہیں اس میں قرآن مجید کے حقائق و معارف کی روشنیاں واپس جانا چاہوں گا سے چودہ سو سال پہلے قرآن مجید کا نزول پیسہ 610 شروع ہوا کے مطابقپھر اس کے ساتھ ہی اللہ تعالی نے ایک بات اور بتائیں کہ ان نحن نزلنا الذکر وانا لہ لحافظون ہو کہ ہم نے ہی اتارا ہے اور ہم ہی اس کی حفاظت کریں گے قرآن مجید میں قرآن مجید کے بہت سے نام آئے ہیں ان میں سے ایک نام اس کا قرآن ہے اور نام کا مطلب ہے نہ سب سے زیادہ پڑھی جانے والی کتاب پھر اس کا نام ہے اہل کتاب یعنی یہ لکھی جانے والی کتاب بھی ہے حضرت صاحبزادہ مرزا بشیر احمد صاحب رضی اللہ تعالی عنہ کی تحقیق کے مطابق جو آپ نے سیرت خاتم النبیین فرمائیں قرآن مجید کے الفاظ سات ہزار نو سو چونتیس ہے جو نزول کا پورا زمانہ ہے وہ 23 برس ہے جس کے ایام سات ہزار 970 بنتے ہیں یعنی آف ناول لفظ قرآن مجید کے رسول اکرم صلی وسلم پر نازل ہوتے تھے اور وہ جو دونوں اس کے نام ہیں ہیں قرآن کے وہ پڑھی جانے والی کتاب ہے حضور وہ الفاظ اپنے صحابہ کو یاد کرو آتے جاتے تھے ساتھ ساتھ کتاب کے ساتھ اس وقت سے ترا ہائے یہ مسلسل یاد کیا جاتا رہا اور اس کو ساتھ رکھا جاتا تھا اب جو فرما رہے ہیں اللہ تعالی نے خود اس کا جواب دیا جب یہ ناز ہو رہا تھا اس وقت ہیں کہ سوال پیدا ہوا تھا تو اللہ تعالی نے قرآن مجید میں فرمایا آمین اور مسئلہ اگر تم یہ سمجھتے ہو کہ یہ افتراء ہے ذرا اس نے جھوٹ مان لیا محمد ہم تمہیں چینج کرتے ہیں ہماری طرف سے یہ بتا دی ہے قرآن مجید کی کوئی دس سورتیں تم کسی جگہ سے انتخاب کر لوں اس کے اعتبار سے فصاحت و بلاغت کے اعتبار سے طہارت کے اعتبار سے ایجاز اختصار اور تفصیل کے لحاظ سے تم کہیں سے وہ دس سورتیں لے لو اور اس جیسی ہم سمجھ لیں گے کہ یہ انسان کی استطاعت میں ہے لکھنا اور تم لکھ کر بتا دو تا کہ یہ بات ثابت ہو جائے تو دوسری طرف آئے فرمایا ان کنتم فی ریب مما نزلنا علی عبدنا فاتوا بسورۃ من مثلہ کی اگر تم کو شک ہے کہ یہ یہ جو قرآن ہے یہ جو ہم نے اتارا ہے اس میں تمہیں شک اور شبہ ہے تو ہم ایک طریقہ بتاتے ہیں سمجھ لیں گے کہ جو تم کہہ رہے ہو وہ درست ہے اور قرآن مجید کا یہ افتراء کا تمہارا الزام ہے اس کا اقرار کر دیں گے یہ دو باتیں ہوگئے چودہ سو سال سے یہاں خطرات اور اس کا سلسلہ جاری ہے مگر کوئی بھی نا عرب و عجم میں سے جس کو قبول کیا جو اللہ تعالی نے خود اپنی اس کتاب میں دیا تھا پس ثابت ہوا کہ جو یہ الزام لگایا جاتا ہے کہ یہ رسول کے اوصاف کا خود ساختہ کلام ہے اور آپ نے خود بنا دیا ہے بالکل جھوٹ ہے یہ انسان کی استطاعت میں نہیں کہ اس کلام کا مقابلہ کرسکے جو اللہ تعالی کی طرف سے نازل شدہ ہے پہلی بات تو یہ دوسری بات میں یہ بتانا چاہتا ہوں کہ دیکھیں دیکھیں اگر یہ رسول اکرم صاحب کا خود تراشیدہ کلام ہوتا آپ کا اپنا بنایا ہوتا دنیا میں اتنا بڑا انقلاب پیدا نہ کرتا نزول قرآن سے لے کے اب تک سینکڑوں اولیاءاللہ پیدا ہوئے جنہوں نے یہ اعلان کیا کہ قرآنی تعلیمات پر چل کر ہمیں اللہ تعالی سے ملاقات ہوئی ہم نے اللہ تعالی کا شرف حاصل کیا کبھی بھی من گھڑت کلام چھوٹے کلام پسندیدہ کلام کے اوپر عمل کر کے ہزارہا اولیاء اور صلحاء پیدا نہیں ہوا کرتے ہیں ہیں ویسے اس کے ساتھ ہی ایک بات اور یہ یہ عصر حاضر میں186 سال پہلے حضرت مرزا غلام احمد صاحب اس بستی کا بیان میں پیدا ہوئے جہاں سے یہ پروگرام پیش کیا جا رہا ہے اور آپ کی عمر میں پہنچے تو آپ نے یہ اعلان کیا کہ قرآن مجید پر عمل کرکے حضرت محمد صلی وسلم کی اتباع سے اللہ تعالی نے مجھے وہ مقام عطا فرمائے جو کہ سب سے اعلی و ارفع مقام ہے وہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی اطاعت میں اور اللہ کے اس میں اللہ تعالی نے مجھے مقام نبوت اور ہوں اور میں مسیح موعود ہو مہدی معہود ہوں اور آپ نے خود فرمایا اور اصرار کیا دل میں یہی ہے ہر ہر دم تیرا صحیفہ چوموں دل میں یہی ہے ہر دم تیرا قرآن مجید جس کے بارے میں یہ لوگ کہتے ہیں کہ یہ من گھڑت اور خود ساختہ کلام ہے حضرت مسیح موعود علیہ السلام اپنے تجربے سے کہہ رہے ہیں اس نے خدا ملایا وہ یار اس سے پایا وہ خدا ہم نے اس قرآن کے ذریعہ سے اور محمد صل وسلم کی اتباع کے ذریعہ سے ہم نے وہ خدا پایا وہ یار اس نے اس نے ملایا ہم کو اس پیار کے ساتھ اور ہمیں کسی طریقہ سے نہیں ملا پھر حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام فرماتے ہیں کہ دیکھو دیکھو اگر تم کو شک ہے اگر قرآن کا تعارف بیان کریں میں کوئی میرا ہم پہلا اس کے بار بار اس نے اسی بستی میں یہ اعلان کیا کہ اس کے نتیجے میں اللہ تعالی نے مجھے وحی و الہام سے متشر فرمایا ہے ٹھیک ہے تو آؤ میرے پاس آؤ میں تمہیں دکھاؤں گا اور آپ نے اپنی پہلی باضابطہ تصنیف جوال براہین احمدیہ فیہ قرآن مجید احتیاط نبوت کیوں ہیں کی نبی کریم سے پیار کیا ہے اگر کوئی مسئلہ ہوا یہ سمجھتا ہے کہ قرآن مجید میں یہ حقائق و معارف نہیں ہے تو وہ اپنی کتاب سے وہ دکھا دے تو میں اس کو جو ہے وہ دے دوں گا اور پہلے آپ نے کہا کہ اس کے برابر پھر آپ نے فرمایا آگے پھر فرمایا اس سے بھی کم آخر میں آپ نے یہاں تک کہ اس کو بتایا کہ اگر میرے اندر دلیل کے مقابلے میں تنزلی نہیں لکھ سکتے تو کم از کم دس ہزار روپے دے دوں گا اپنی ساری جائیداد تمہاری نعمتوں سے کلام کے بارے میں ظاہر ہوگا وہ انسان بڑے ہی پڑھ لے درجے کا اہم ہوگا جو یہ کہتا ہے کہ حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم کا بنایا ہوا انسان کے اندر طاقت نہیں ہوتی کہ اس کے اوپر عمل کرکے ایک انسان اللہ تعالی پہنچائے سیدنا خضر علیہ السلام نے اپنی کتاب کشتی نوح میں فرمایا کہ قرآن مجید ایک ہفتے میں ایک انسان کو پاک کر سکتا ہے اگر اس پر عمل کرے گا یہ ایک ہفتے میں اللہ تعالی اس کو پاک کر دے گا میں یہ بات نہیں ہوتی ہے اتنا بڑا تغیر اور انقلاب پیدا نہیں کرتی کہ آج دنیا میں جو دلائل حضرت مسیح علیہ سلام پیش کر رہے ہیں اس کا کوئی توڑ ہو سکے اور اس کا کوئی جواب دے سکے بات یہ ہے کہ اصل چیز ہے دعویٰ دلائل اور پھر ایسے دلائل جس کا ثبوت ہے مثال کے طور پر اس بیان میںاللہ تعالی نے ان کو سکھا ہی حضرت عبداللہ سنوری صاحب رضی اللہ تعالی عنہ بیان کرتے ہیں کہ ایک دفعہ انسان کو عرض کیا یا سیدی جب میں بیان آتا ہوں اور یہاں آپ کی صحبت میں رہتا ہوں تو ایسا محسوس کرتا ہوں کہ قرآن کی معرفت عید کی کوئی پوئٹری ہے کوئی خزانہ ہے جو میرے اندر منتقل ہو رہا ہے یہ کسی خود ساختہ کلام کا نتیجہ نہیں ہوتا ہے فرمایا ہم علوم قرآن دے کے بھیجے گئے ہیں ہم قرآن کا عرفان دے کے بھیجے گئے ہیں یہ وہ سارے اور پھر اس کے علاوہ سینکڑوں صحابہ یہاں پہ آئے جنہوں نے قرآن مجید کو سمجھا اور قرآن مجید کو سمجھایا اور یہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی برکت ہے کہ آج دنیا کے اندر یہ قرآن مجید کا ایک مقام ہے اور آج جماعت احمدیہ نے یہ کہتی ہے کہ اس کے افراد نے حضرت مسیح موعود علیہ السلام اور آپ کے خلفاء کرام سے جو قرآن مجید کے علوم و معارف سیکھیں اس کے نتیجے میں ان کے ہاں ہمارے مسلمان جتنے بھی فرقے ہیں ہیں حضور پاک نے ان کے بعد کہی تھی سید صرف ایک رسمی طور پر رہ گیا ہے مسجدوں میں رہ گیا ہے عدالتوں میں جھوٹی قسم کھانے کے لیے رہ گیا ہے ورنہ ان کے نزدیک اور ان کی کوئی حکومت نہیں اور یہی بات رسول پاک صلی اللہ وسلم کو البانی اللہ تعالی نے کہا کہ ایک زمانہ آئے گا کہ یہ لوگ میری قوم قرآن کو محصور کر بھی چھوڑ دیا ہے تو جو مسلمان بھائی ہماری بات سن رہے ہو اگر وہ سچا اسلام چاہتے ہیں قرآن مجید کے سچے علوم سات ہیں تو وہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی جماعت میں شامل ہو سورہ جمعہ میں جو بتایا کہ قرآن میں مکی سکھانے کے لیے ایک معلم کامل کی ضرورت ہوتی ہے وہ عالم ہے کام صرف جماعت احمدیہ میں ہے جلدی مسلمان اس حقیقت کو سمجھ جائیں گے ان مصائب کے پہاڑوں میں سے نکلیں گے نہیں تو اسی طرح چلے گئے ہیں اساتذہ کی فون کالز اس وقت ہمارے ساتھ ٹیلیفون لائن پر موجود ہیں اور انتظار کر رہے ہیں ان کو بھی پروگرام میں شامل کرتے ہوئے ان کو موقع دیتے ہیں سب سے پہلے ہم بات کریں گے یوں کیسے مکرم محمد عبدالرشید صاحب ہیں اس وقت ہمارے خون میں موجود ہیں ان کو اپنے پروگرام میں شامل کرتے ہیں اسلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ شیخ صاحب السلام علیکم عبدالحکیم صاحب سے بات کرنے کی کوشش کرتے ہیں اسلام علیکم ورحمۃ اللہ السلام علیکم موجود ہیں ہیں ہم اپنے فون کالز سے دوبارہ رابطہ کرنے کی کوشش کریں گے اسی اثنا میں وہ اپنے پروگرام کو بھی جاری رکھتے ہیں اب محترم مولانا زین الدین صاحب ہم آپ سے میرا یہ سوال ہے کہ قرآن مجید کے جمع اور ترتیب کے حوالے سے بھی مستشرقین کے طرف سے بھی مختلف اعتراضات اٹھائے جاتے ہیں کہ قرآن مجید کی شکل میں موجود نہیں ہے بلکہ ابھی اس کی شکل تبدیل ہوگئی ہے اور مختلف جو تاریخی باتوں کا صحیح فہم اور اس کی سہیلی بنانے کے حوالے سے کیے جاتے ہیں تو میں آپ سے جاننا چاہوں گا کہ قرآن مجید کی جمع آوری کی ترتیب اور اس کی حفاظت کے حوالے سے انتظامات تھے وہ ہمارے نزدیک اس کی تفصیل بتائی ہے صحبت کے لیے نکلتا ہےاپنے وقت کے لحاظ سے اپنی ضرورت کے لیے تھی اس لیے اللہ تعالی نے ان کتابوں کی حفاظت کا کوئی وعدہ نہیں فرمایا وہ ساری کتابیں محرف و مبدل تبدیل تحریف و تبدیلی کے شکار ہوئے تو آج دنیا میں کوئی ایسا مذہب نہیں جو دعوی کرتا ہوں کہ ان کے ان کو جو کتابیں دی گئی ہے وہ اپنی اصل شکل میں محفوظ ہے لیکن اللہ کے فضل سے قرآن مجید دشمن دوست و دشمن سب ایک سامنے طرف ہے قرآن مجید جس طریقے سے نازل ہوا ہے ویسے ہی آج بھی قائم ہے ہمیشہ قائم رہے گا کہ شدید ترین دشمن بھی تھے جو اگر اسلامی تعلیمات کے خلاف بات کرتے ہیں لیکن اس بات کے معترف ضرور ہے کہ جس طرح حضرت محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وسلم جس شکل میں نازل ہوئی ہے میں آج بھی موجود ہے اس کا ہرگز یہ مطلب نہیں ہے کہ اللہ تعالی کی طرف سے نہیں تھی بلکہ خدا کی طرف سے تھی لیکن قرآن مجید کی حفاظت کا کیوں وعدہ کیا گیا اس کی وجہ ہے کہ قرآن مجید ایک دائمی شریعت پر مشتمل کتاب ہے اور ہمیشہ ہمیشہ کے لئے تا قیامت آنے والی تمام نسل انسانی کی ہدایت و رہنمائی کے لیے اللہ نے مبعوث فرمائے فرمایا آپ نے فرمایا چار مرتبہ تاکید کے حروف کا استعمال کیا ہے آنا ہے نہ ہی نزدیک روینا الحافظ کے ساتھ یہ فرمایا ہے کہ ہم نے اس قرآن کو نازل کیا ہے اور ہم ہی اس کی حفاظت کریں گے ابھی حفاظت کا جہاں تک تعلق کس کے دو پہلو ہے اور دوسری حفاظت معنی حفاظت ہے تو قرآن مجید کے مطالعے اور دنیا کی اسلامی تاریخ کے مطالعہ سے پتہ لگ جاتا ہے کہ اللہ تعالی نے قرآن مجید کے ساتھ ان دونوں کی حفاظت کا وعدہ ہے ساتھ ساتھ کے فضل سے اس کی طبیعت اور اس کی حفاظت کرنے میں اللہ تعالی نے ارشاد فرمایا ہے کہ اس کے بے شمار ثبوت ملتے ہیں کہ یہ نہیں کہ نزول قرآن کے بعد ایسا ہوا قرآن مجید کے بارے میں جیسا کہ مولانا صاحب نے فرمایا تھا یہ وہ کی شکل میں نازل ہوا ہے نہیں ہوا 23 سال کے عرصہ میں یہ قرآن مجید کا نزول ہوا ہے جبکہ آیا میں نبوت کے لحاظ سے 23 سال کا عرصہ سے دیکھا جائے قرآن مجید کے حروف جو آیتوں کی تعداد کے لحاظ سے دیکھا جائے تو ایک آیت بھی نہیں بنتی اللہ تعالی کی ہی قیمتی آہستہ آہستہ آہستہ نازل کیا تاکہ لوگ اس کی اس کے لفظ تک بھی انتظام کر سکیں اور اسی طرح اس بیماری کا چاند کی پرواز کا تعلق ہے کہ اللہ تعالی نے ہر زمانے میں ایسے ہم افراد جو آتا ہے اس کی حفاظت کا بہترین مصرف کیا جا سکےمیں آپ کا تبین وحی کو لکھا تے پھر سنتے تھے اس کی اصلاح فرماتے تھے اور اسی طرح ایک ساتھ نازل نہیں ہوا اس زمانے کے کفار بھی اعتراض کرتے تھے وقال الذین کفروا لولا نزل علیہ القرآن جملۃ واحدۃ کا یہ اعتراض کہ قرآن مجید ایک کٹھن کیوں نہیں ہوا اگر یہ واقعی ہی تمہارا یہ دعویٰ ہے کہ خدا کی طرف سے تو کچھ کلام نہیں کیا جواب دیا اس کے بے شمار رحمتیں فرمایا کذاب لکھ رہی ہے ایسے ہی نازل ہوا ہے آیت کے نازل ہوا ہے اور اس کی نسبت تاکہ تمہارے دل کو صبح بچے اور نہ ہوتا تیرا میں بہت ہی آسان بنائے کا قرآن کا سب سے پہلا اور اہم ترین یہ جو دریا تھا وہ کتاب پڑھتا تھا تا کہ پینے والی مقرر تھے مجھے نکال کے ساتھ ساتھ اس کو لکھنے کا انتظام تھا اور دوسرا اہم ترین ذریعہ ہے جو قرآن مجید سے ہمیں پتہ لگتا ہے اور تاریخی واقعات کی روشنی میں پتہ لگتا ہے وہ حافظ قرآن ہے کیونکہ عرب کے بارے میں مجھے پتا لگ جاتا ہے کیا ہوا تھا زمانہ جاہلیت کے اشعار ہیں ہزاروں کی تعداد میں شہری یاد کرتے تھے اور خاص اہتمام ہوتا ہے ان کو حفظ کرنے کا خاص محل تعمیر کیا تھا اب جو صحابہ قرآن مجید کے نزول کے جوان سے صلی اللہ علیہ وسلم سناتے تھے وہ سب صاحب کے ساتھ یاد کرنے کا بیان تھا مشہور واقعہ کا واقعہ جب مطالبہ ہوا کہ ہمیں کو دین سکھانے کے کچھ لوگوں کو بھیج دے ستر افراد کو بھی بھیجا گیا اس طرح کے ستر حفاظ کرام میں سے تھے سر دھو کے سے ان کو شہید کردیا وہ اسے یہ بتانا مقصود ہے کہ یہ لفظ کا رجحان بہت زیادہ تھا اس کی حفاظت کا ایک کتاب کا انتظام تھا اور دوسرا اہم فریضے حج زکاتاں صاحب کے ساتھ سینہ بسینہ جملہ عربوں کا طریقہ یہ تھا کہ مختلف معلومات سینہ بسینہ آگے منتقل کرنے کا الزام تھا اور پیغام رسانی کا ایک عظیم ملک کا سمندر تھا یا پھر آگئے قرآن مجید ٹکڑے ٹکڑے میں کیوں نازل ہوا آہستہ آہستہ نازل ہوا اس کی حکمت بیان کرتے ہوئے اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ عام ہو قرآن کو ہم فرق نہ ہم نے ایسے ٹکڑے ٹکڑے کرکے نازل کیا ہے تاکہ تم لوگوں کو سنا سکے بڑھا سکے البتہ ترک بڑھا سکے نہ ہو ترین ذیل ہم نے اس کو بہت ہی عظمت و شان کے ساتھ اس کو نازل کیا ہے فرمایا ہے قرآن مجید کی آیات کے حالات کے مطابق ضرورتوں کے پیش نظر مختلف ادوار میں مختلف ہیں اور حالات کے مطابق نازل ہوتے رہے ہیں اس لئے تاکہ جو ان کے مسائل کا حل بھی ممکن ہوسکے اور مسلمان اس کو آرام سے حفظ بھی کر سکیں تو یہ اسی طرح کا تبین وحی کے تعلق سے میں نے عرض کیا ہے تو فرمایا ارشاد تھا یہ مصرع اللہ علیہی احمد بن حنبل نے بھی اس روایت کی ہے جب بھی کوئی آیت نازل ہوتی رہتی ہیں اس کو بلاتے ہیں تو پھر آگئی اس کو آتے ہیں ایک اور اہم ترین ذریعہ سے قرآن کا وہ حضرت جبرئیل علیہ السلام کے ذریعے سے دور کرنے کا ہے اس میں آتا ہے جبریل ہر سال آتے تھے لیکن ہوا اس وقت علیہ السلام دو دفعہ تو یہ ایک عظیم الشان نظریہ اللہ تعالیعام جو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے ارشادات و لکھنے کی اجازت نہیں ہوتی تھی جو دراصل وہی مطلب ہے جو قرآن مجید کی شکل میں التاجر فرمایا ہے اس کی حفاظت اللہ تعالی اس طرح انتظام کیا تو کتابت کا ہر لفظ کا اسی طرح کتاب کا ہم تو کہتے ہیں کہ زمانے میں جو پتھروں کی سلوں میں تو میں اس کی حفاظت کا وعدہ فرمایا وہاں جمع اور تدوین کا بھی وعدہ فرمایا تھا کہ وہ بدل جاتا ہے کیا اس سے ثابت ہوتا ہے 157 جو رنگ میں مختلف سورتوں کی شکل میں جگہ جگہ سے توا حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ تعالی عنہ نے ایک شخص کو جمع کیا ہے کتابی شکل میں جمع کیا ہے حضرت عمر رضی اللہ تعالی عنہ نے مشورہ دیا کہ جب جنگ یمامہ میں لے آئیں گے بہت زیادہ ایک نازک دور تھا بہت زیادہ اطلاعات کا دور تھا حضرت عمر رضی اللہ تعالی عنہ نے مشورہ دیا وقت کے خلیفہ کو کہ قرآن مجید کے حفاظت کے ساتھ مارے جا رہے ہیں یا شہید ہو رہے ہیں تو ہمیں اس کی حفاظت کا انتظام کرنا چاہیے تو شروع میں حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ نے فرمایا کہ جو انداز نہیں کیا میں کون ہوتا ہوں اللہ تعالی کی تقریب ہوئی کی رہنمائی سے اللہ تعالی کی تفصیل کے مطابق آپ نے یہ کام کیا ہے تو بعض صحابہ کی ڈیوٹی لگائی ٹیم بنائی اور اس کے ساتھ صحابہ بیانات امانت داری کے لیے اسے بہت اعلی مقام پر فائز تھے اس لئے انہوں نے بڑی احتیاط کے ساتھ اس امانت کو بنی نوع انسان کی ہدایت کے لئے اور قیامت تک ہونے والی تمام نسلیں انسان کی ہدایت کے لئے قرآن مجید نازل ہوا ہے اس لیے اس کے اللہ تعالی کے والد کے مطابق اس کی حفاظت کا بھی شاندار نظام کیا ہے یا آج ہمارے پاس جو قرآن موجود ہے یہ وہی ہے جو چودہ سو سال پہلے احمد محمد صلی اللہ علیہ وسلم پر نازل ہوا تھا اور یہ دوست و دشمن سب اس کے متعلق ہے صاحب کے ساتھ دوبارہ ہمارا رابطہ ہوا ہے ان سے بات کرنے کی کوشش کرتے ہیں اسلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ میں اللہ تعالی مغفرت فرمائے اللہ ہر چیز پر قادر ہو یا چھوٹی سی کیفیت پیدا کر سکتا ہے تو یہ غیر احمدی علم کہتے ہیں اور پھر کال کیوں نہیں اگر اس السلام کو آسمان پر پہنچا سکتا ہے ٹھیک ہے جزاک اللہ شکریہ محترم مولانا محمد کاشف صاحب سے درخواست پر کچھ سب کچھ کرسکتا ہے لیکن سوال یہاں پریہ ہے ہے کیا اس نے کیا کیا کرسکتا ہے ایک بعد کیا ہے قرآن مجید سے احادیث سے انجیل سے تاریخ سے مرہم عیسی سے واقعہ سے یہ ثابت نہیں ہوتا کہ اس نے کیا کیا فرق صرف ہو سکتا ہے اور ہوا میں فرق کے لئے کر سکتے ہیں اگر ہوا ہوتا تو ہم سب سے پہلے اس کو مانتے ہیں اللہ تعالی ہمیں سب سے پہلے سمجھاتا ایسا ہوا ہے اور دوسری بات نعت جب عیسی علیہ السلام ان کے لیے آپ کہتے ہیں ان پر اٹھا لیا اور رسول پاک صلی اللہ علیہ وسلم جب غار ثور میں تھے یا احد میں آپ زخمی ہوئے کیا انہوں نے کہا نہیں تھا تھا پر اس کی حکمتیں تقاضا کیا گیا نہصلیب پر کچھ حصہ دو تین گھنٹے ہو رہے اس زمانے کی قسم کی نہیں تھی جسے موجودہ زمانے کی پھانسی وہ اتارے گئے ایک نے بھلا مارا ان کے جسم سے خون اور پانی نکلا اس کے بعد ان کو ایک غار میں رکھا گیا اور غار میں رکھنے کے بعد جب زخم ٹھیک ہو گئے اور مامون کے لئے تیار کی گئی جو آج تک رحمہ اللہ کے نام سے مشہور ہے وہاں سے ہجرت کر کے پاس گئے وہ دن رات گئے اور آخری عمر میں آکے کشمیر میں رہے اور اللہ پاک کا کلام ثابت ہوا دی اور بولا وہ جگہ ہے جہاں پر ہے اس کے پیچھے ویری نائس ناک کا عظیم اتنا بڑا ہے کہ اس کے ذریعہ تھا اور جیل نکلتا ہے اور یہ قرآن مجید کی تفسیر کے بالکل عین مطابق ہے تو وہ بات نہ کہی جو اللہ نے ہی نہیں آئی عبدالرشید صاحب کا سوال بھی آف لائن ہمیں موصول ہوا ہے محترم مولانا زین الدین صاحب ہم آپ سے ملنا چاہوں گا وہ یہ پوچھ رہے ہیں کہ قرآن مجید میں حضور صلی اللہ علیہ وسلم کو وحی صرف اول المسلمین اور اولین کیوں کہا جاتا ہے حضرت آدم سے حضرت ابراہیم کو کیوں نہیں کہا جاتا ہے اللہ تعالی نے ہر قوم میں ہر علاقے میں نبی مبعوث ہوتے رہے ہیں اور اس زمانے کے لحاظ سے تعلیمات کو ملتی رہی ہیں تو وہ سب سے پہلے جو مخاطب ہے وہ تو وہ نبی ہوتا ہے جن پر وہ تعلیمات نازل کی جاتی ہے کہ یہاں پر کیونکہ قرآن مجید کی تعلیم حضور صلی اللہ علیہ وسلم پر نازل ہوئی ہے اور اس سے آپ المسلمین ہیں سب سے پہلے ایمان لانے والی وہ نبی ہوتا ہے جن پر قلم نازل ہوتا ہے اور وہ زمانے کی راہ سے ہر زمانے کے انبیاء کے زمانے کے لیے اس کے برابر ہوتے ہیں ہے اور مسلمین کی حالت میں مسلمان کہا گیا ہے کہ اس دور میں بھی اور پہلے بھی تو اسلام کا مطلب ہے کہ مکمل طور پر اللہ تعالی کی فرمانبرداری اختیار کرنا اور تمام پر اللہ تعالی کی طرف سے عطا کردہ تمام صلاحیتوں کو تمام تر طاقتوں کو خدا تعالیٰ کی مرضیات کے مطابق دین اسلام ہی کی وجہ سے اور آپ کے ماننے والے سب کے سب یہی ہے کہ حضرت علی کا ذکر عبادت کا کے احکامات کو سر تسلیم خم کرنا ہے اس پر عمل کرنا ہے تو یہاں پر یہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا یہ کہنا ہرگز یہ مطلب نہیں کہ نہیں تھے ان کا مقصد یہی ہوتا ہے کہ عبادت کے لیے ہی تو ہے کہ توحید کے قیام میں اور غیر اللہ کی عبادت سے اجتناب کرنا ہے تو تمام انبیاء کا مشترک کی تعلیمات ہے تو اس لیے اس زاویے سے دیکھنا چاہیے کیونکہ قرآن مجید کے مخاطب اور قرآن مجید کی منازل طے ہوا ہے اس لیے یہ بالکل بجا ہے ان کا یہ دعویٰ بالکل صحیح ہے کہ اسکے بعد پھر تمام نے دوسروں کو پہنچایا سلیم ہلکا ہلکا ہلکا بڑھتا چلا گیا پھر وہ اللہ کے فیصلے کے دن کی شکل کو آگے بڑھاتے ہوئے مولانا محمد یوسف صاحب سے ہمارا سوال ہے کہ آج مسلمانوں کی یہ بڑی بدقسمتی ہے کہ ان کے اندر ناسخ و منسوخ کا ایک ایسا عقیدہ پیدا ہو گیا ہے جس کے نتیجے میں کئی شہری ہیں اور اس کی وجہ سے قرآن مجید کی تعلیم جمع تھے اس سے وہ دراصل محروم ہو رہے ہیں تو جماعت احمدیہ کا اس حوالے سے کیا حکم ہے اور کیا جماعت احمدیہ نے اس حوالے سے دنیا کو سمجھایا ہے اس بارے میں آپ سے دوستی کرنا چاہتا ہوں قرآن مجید ہوا جن حالات میں نازل ہوا اور جو ماحول اس وقت تھامعروف ہے پھر یہ کہ اس قدر بعض آیات نہ سیکھا ہی بات منسوخ ہے بس اسی ناسخ اور منسوخ کی بات کرتے ہیں ان مسلمانوں نے قرآن مجید کے کوئی پانچ سو آیات کو منسوخ قرار دیا ایک زمانے میں کبھی زیادہ ہوئی کم ہوئی کبھی ختم ہوئی آخری دور میں ہمارے ہندوستان کے ولی اللہ محدث دہلوی کے پہنچے کے پانچ آیات ہیں جو حل نہیں ہو سکتی ہے نہیں یہ سارا نفس قرآن کا جو انہوں نے مگر قرآن مجید میں فرماتا ہے ماہ نسخوں میں سے کہ ہم کوئی آئے اگر منسوب کرتے ہیں تو اس میں یا اس سے طلب بات یہ ہے کہ آیا ہے ہے قرآن کا کہیں ذکر نہیں ہے قرآن کی آیت کا بھی ذکر نہیں ہے اور آیت قرآن مجید میں بہت سی عورتوں سی چیزوں کو کہا گیا ہے کہ انسان کہاں ہے نوح علیہ السلام کی کشتی کو بھی آزما رہا ہے آیات مفصلات نہیں کھلا نشانات تو یہاں پر قرآن مجید کی توقع ذکر ہی نہیں ہے تو اس کی کوئی آیت ہے ہے آپ یہاں سوال یہ کہ سیدنا حضرت مسیح موعود علیہ السلام اور سیدنا مسلم اور فضیلت اللہ نے تفسیر کبیر میں اس کی تفصیل لکھی ہے جو بات اس کے اندر ہے ایک بات سب سے بنیادی یاد رکھنے کے قابل ہے کہ الف لام میم میں نے شروع میں یہ بات کہہ دی کہ یہ وہ کتاب ہے لارا قسم کا شک نہیں ہے اور اس کا جو مقصد ہے اور اس میں ناسخ اور منسوخ مانتے ہیں ہم اللہ تعالی کے اس فرمان کے بالکل خلاف کریں گے کہ ہم اس میں شکر ہے اس کا فیصلہ کون کرے گا اور دوسری بات یہ ہے کہ یہاں یباتک یہودیوں اور عیسائیوں کی طرف سے انہوں نے کیا کیا انہوں نے کہا کہ ہماری کتاب تو محرم بدلہ کی ورزش کو دن میں داخل کیا جائے اور وہ باتیں اس سے متاثر ہو کر مسلمان مبصرین ماضی اور بازو نا مستشرقین نے یہ وسوسہ پیدا کرنا شروع کیا اب جو یہ آیت ہے جس کو عام طور پر یہ پیش کرتے ہیں کہ منصوبے کے لیے آپ یہ دیکھیں کہ اس کے سیاست سیاست سوا کو سارےلے یہاں پر یہود کا اور بنی اسرائیل کے ایک پورے حالات کا ذکر ہے اور اس کے بعد تورات میں یہ وعدہ دیا گیا تھا کہ 18 شریعت یعنی جلالی شریعت ملے گی اور اللہ نے فرمایا ایک نیا عہد وفا یہاں پر آیات سے مراد اور رسالت و یعنی ایسی شریعت جو پہلے چلے آ رہی تھی اس میں سے کچھ حصے قرآن مجید حفظ کرلیے صوفی ابراہیم اور موسی علیہ السلام کے صحیفے بھی ہیں اور ابراہیم علیہ السلام کی ہے جو تعلیمات رکھنے کے قابل تھی وہ قرآن مجید میں آئی جو قرآن پاک کی تعلیمات مرور وقت کے ساتھ اس زمانے سے محبت تھی اس کو چھوڑ دیا گیا یہ اس آیت کے اندر ذکر کیا گیا ہے اس کے علاوہ اور کچھ نہیں اس وقت جب کہ ہم اس دور میں سے گزر رہے ہیں میں اپنے مسلمان بھائیوں کو بڑے دس سے پھر یہ نصیحت کرتا ہوں کہ دیکھیں قرآن مجید کے اوپر غور کریں اگست اس سے نکلنا ہے سو رہے جمعہ میں فرماتا ہے الباسط اور رسول کا کام ہے اس کو سمجھانا یوز کی ہیں و علمہ الکتابآج اگر خود ساختہ تفاسیر سے ہی قرآن کو سمجھنا اور سمجھانا ہے اس کا نتیجہ سوائے اس کے کچھ نہیں نکلے گا جو نسخہ زیر اور تفسیر یہ سالم کے اس سے ملتی اس کی صرف یہی نہیں ملتی اس سے ملتی تھی اور اسی لئے تو نہیں آیا تھا قرآن مجید توافق اعلی مقام تک پہنچانے کے لئے تھا اور یہی آیت کا دوسرا حصہ وہ آخری نہ کہ وہی باجا جو محمد صل وسلم کو اللہ نے بھیجا آپ کی بہت مزہ آئے گا جو وہی کام کرے گا جو رسول کو سمجھنا سے باہر نکلنا ہے ان سے باہر نکل کے صحیح سلامت پر چل رہا ہے اللہ کی طرف جانا ہے نہ ہوسکا تزکیہ کرنا ہے تو کیونکہ اس کو ماننا ہو گا کیونکہ اسی آیت کے تحت حضور نے فرمایا بعض روایات میں القرآن لیکن اس امام مہدی علیہ السلام سے ہی مختصر تھا اور آپ کے خلاف اس سے تو میرے بھائیو قرآن مجید کو محل نہ بنائیں اختلافات نہ بنائیں جگہ سائیں نہ بنائیں بلکہ اس کو ایک دن ہدایت کے طور پر دنیا کے سامنے پیش کریں اور ان تفاسیر کے ساتھ پیش کرے جو عصر حاضر کے امام بہ ثانیہ کے مظہر اوراق کے خلاف انہوں نے دنیا کو دی تھی اسی میں نجات ہے اسی میں ہمارا والا ہے اور اسی میں اللہ تعالی کا فرمان ہے بلغ ما انزل الیک یہی صورتحال ہے پہنچا سکتے ہیں اگر ہم کسی کو یاد کرکے یہ لوگ قرآن و غایت و ناسخ و منسوخ سے بھرا ہوا ہے میں اس کو کیا کروں کہ یہ اس کا جواب کیا جواب ہے اس سے نفرت کرے جو تحریف تورات اور انجیل اور وظیفۃبتائیں ہوا اس سے بچایا سکوں اور وہ کام کریں جو آج جماعت احمدیہ اور عصر حاضر کے تمام سمجھا رہے ہیں اسی میں ہم سب کا لیڈر اللہ آپ کو توفیق دے مولانا ظفر الدین صاحب سے ہمارا یہ سوال ہے کہ ایک طرف تو قرآن مجید یہ کہتا ہے کہ اس سے پہلے اللہ نے جس قدر بھی تعلیمات دی ہیں اور کتابیں دی ہیں اس کا اعتراف اور دوسری طرف قرآن مجید کی یہ خوبی ہے کہ گزشتہ جس قدر بھی اللہ تعالی کی طرف سے تعلیم حاصل کی گئی ہیں اور ان میں سے جو ایسی تعلیمات ہیں جس پر عملدرآمد ممکن ہے میں جمع کردیا ہے اور کیا یہ بات ہوئی تھی کہ اس میں بھی ہم نہیں کر سکتے ہیں تو اس حوالے سے میں آپ سے مزید تفصیل جاننا چاہوں گا شکریہ کی کتاب ہے اور ہمیشہ کے لئے ہے اور اسی طرح گزشتہ تمام جتنی بھی کتابیں اللہ تعالی کی طرف سے نازل کی گئی ہے ان سب تعلیمات کا نچوڑ قرآن میں موجود ہے چنانچہ سورۃ البینہ میں اللہ تعالی فرماتا ہے رسول من اللہ یتلو صحفا مطہرہ فیھا کتب قیمہ ہے جو یاسر مطلب پاکیزہ کتاب کی تلاوت فرماتے ہیں اور فرمایا کتب قیمہ اس میں قائم رہنے والی اور قائم رکھنے والی تعلیمات موجود ہے قرآن مجید کا اگر مطالعہ کرتے ہیں تلاوت کرتے ہیں اور اس کا موازنہ کرتے ہیں دیگر کتب مقدس کتب کے بعد میں پتہ لگ جاتا ہے بہت ساری تعلیمات بنیادی طور پر جو مذاہب میں پائی جاتی تھی وہ سب کے سب بہتر شکل میں قرآن مجید میں شامل کر دی گئی ہے یا نجس ہوئے ہیں پہلے زمانے میں ان سب کی یہ تعلیم تھی قرآن مجید فرماتا ہے وہ ما امروا الا لیعبدوا اللہ مخلصین لہ الدین سب انبیاء کی تعلیم کا خلاصہ یہ ہے کہ الا لیعبدوا اللہ مخلصین کہ وہ عبادت کریںکدی جو قائم رہنے والی رہنے کی تعلیمات ہے اور قائم رکھنے کے لائق تعلیمات ہے اور ایک خاص نکتہ حضرت موسی علیہ السلام نے بیان فرمایا ہے کہ خاتم النبیین کے لئے آپ کی رسالت کو کی تصدیق کرنے کے لیے تشریف لائے اور خاتمنبین ہے یعنی نبوت کے جتنے کمالات تھے اس سب آپ کے اوپر جمع تھے جس کے بعد تین مرتبہ پر فائز تھے تو یہ جو خاتم کا لفظ یہ تقاضہ کرتا ہے کہ آپ کے اوپر آپ پر نازل ہونے والی جو شریعت ہے وہ خاتون کتب ہو تو حضرت نے فرمایا جس طرح حضرت محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وسلم خاتم النبیین بالکل آپ کے اوپر نازل ہونے والی کتاب خاطرات کتب ہے یعنی تمام کمالات کا مجموعہ ہے تمام کمالات اس نے جامع مسجد کے اندر پائے جاتے ہیں اور دیگر کتب میں وہ نہیں ہے یہ اس کا مطلب میں نے پہلے بھی ذکر کیا تھا وہ تمام کتاب اگرچہ خدا کی طرف سے نازل شدہ تھی لیکن وہ محدود قوم کے لئے محدود وقت کے لئے حاضر ہوئی تھی تا قیامت ہمیشہ کے لئے دائمی شریف نہیں تھی لیکن قرآن مجید قیامت آنے والی تمام انسانوں کی ہدایت و رہنمائی کے لئے نازل ہوا ہے اس لئے اللہ تعالی ہے کہ مذاہب میں پائی جاتی ہے جو قائم رکھنے کی تعلیم ہے بنیادی طور پر موجود ہے وہ سب کے سب کو قرآن مجید میں جمع کیا گیا ہے حضرت موسی علیہ الصلاۃ والسلام نے اپنے کاروبار میں بہت ہی شاندار انداز میں یہ اس کا موازنہ کرتے ہوئے فرمایا ہے فرمایا کہ یہ جو قانون صرف قبل مسلح دیجئے قرآن مجید سے پہلے نازل ہوتے رہے اور میں مسکرا دیجیے خوارج کی طرح ہے مطلب ہی نہیں آتی ہے تو اس کو کہتے ہیں کہ تمام کتب کا موازنہ کرتے ہوئے فرماتے ہیں کہ تمام کتابیں اس سے قبل از وقت بچے جنتی ہے لیکن پھر فرمایا والی تمام تمام تمام انسان کو کمال تک پہنچانے کے لیے آیا ہے بھی واضح ہو گا کہ وہ وافر مقدار میں روحانیت کا دودھ ہوسکے دودھ حاصل کر سکے یہ ایک عظیم الشان حضرت موسی نے فرمایا نبی کا فرمان ہے قرآن و صوفیاء کے تمام گذشتہ کتابوں کی ماں ہے قرآن مجید فل مووی اس لئے کہ سابقہ کتابوں کی ماں ہیں اور عربی زبان تمام زبانوں کی ماں ہیں اسی مناسبت سے قرآن مجید نازل کیا ہے حضرت موسی علیہ السلام نے ایک عورت کو ختم کر دیا ہے بہت ہی شاندار اور بہت ساری دعائیں بیان کرنے کے بعد آپ نے فرمایا جس طرح اس پوسٹ جو ہے جو انسان کے جانوروں کے پیٹ میں جاتے ہی ہوتے ہیں وہ وہاں پر لہو بن جاتے ہیں اس کے بعد وہاں سے پھلوں میں جاتے ہیں پھر وہ بے شک اس میں بہت ہی اعلی درجے کے دودھ میں تبدیل ہوجاتا ہے اسی طرح پائیوں رات میںاور تم ہو جاتا ہے آخر میں حضرت اقدس مرزا غلام احمد قادیانی مسیح موعودو مہدی معہودعلیہ علیہ السلام کا ایک اقتباس آپ کی خدمت میں پیش کرتا ہوں جس نے حضور فرماتے ہیں اے بندگان خدا یقین یاد رکھو کہ قرآن شریف میں غیر محدود معارف و حقائق اعجاز ایسا کامل اعجاز ہے جس نے ہر ایک زمانے میں تلوار سے زیادہ کام کیا ہے اور یہ زمانہ اپنی جگہ پیش کرتا ہے یا جس میں موجود ہے اور جس طرح کے ہوتے ہیں یہی حال اور فعل میں مطابقت ہو ہم نے اپنے اگلے پی سوڈ میں بھی قرآن مجید کی شان و شوکت اور اس کی تعلیمات کیا ہوا اے سے بات کریں گے مورخہ 20 فروری 2020 ہفتہ کے دن انڈین ٹائم کے مطابق رات کے ساڑھے نو بجے اور چیونٹی کے مطابق سہ پہر چار بجے ہم قائداعظم ان سے آپ کی خدمت میں پیش کریں گے تب تک کے لئے اجازت دیجیے گا سلام علیکم و رحمتہ اللہ و برکاتہ اور تسلی بخش ہے