Rah-e-Huda – Quran par aiterazaat k jawab
راہ ھدیٰ ۔ قرآن پر اعتراضات کے جوابات
Rah-e-Huda | 20th February 2021
ہم تو رکھتے ہیں مسلمانوں کا دینی دل سے ہے خدا میں تم سے ملے دل سے ہے خدا میں ختم المرسلیں منت بسم اللہ الرحمن الرحیم اسلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ آج 20 فروری 2019 ہفتے کا دن ہے انڈیا میں اس وقت رات کے نو بجے ہیں اور چیونٹی کے مطابق سہ پہر چار بجے ہیں اور ناظرین یہ وقت آپ روزمرہ غذا کا قادیانیوں سے پروگرام رہ کی سیریز کے دوسرے کے ساتھ اس وقت ہم آپ کی خدمت میں حاضر ہیں اور پیش کرکے ان کے جوابات حاصل کر سکتے ہیں ٹیلی فونز کے ذریعے ہم سے رابطہ کر سکتے ہیں وہ ٹیکسٹ میسجز اور اس میں سے جس کی سہولت موجود ہے جس کے ذریعے ہمارے ہوتے ہیں امید کرتا ہوں کہ اس وقت آپ پر ہم سے رابطہ کی تفصیل کو ملاحظہ فرما رہے ہوں گے ہم ان سے جو موجودہ سیریس ہم آپ کی خدمت میں پیش کر رہے ہیں اس میں قرآن مجید کے حوالے سے بات کر رہے ہیں اس کی کیا شان وشوکت ہے اور اس کی حفاظت کس طرح اللہ تعالی نے مختلف انتظامات کیے ہیں اور کس طرح اس کی تعلیمات پر عمل کرتے ہوئے انسان اس دنیا میں سکتا ہے اسی طرح قرآن مجید کے حوالے سے مختلف اعتراضات مستشرقین کی طرف سے کیا جاتے ہیں اور مختلف مقامات جو لوگوں کے دلوں میں پائے جاتے ہیں ان کے ازالہ کے حوالے سے بھی ہم اس پروگرام کے ذریعے سے کوشش کر رہے ہیں تو آج کے دور میں بھی قرآن مجید کے حوالے سے ہی بات ہوگی کہ یہ خدا تعالیٰ کا کلام ہے اور اس کے پاس ورڈ میں جو علماء کرام اس وقت ہمارے ساتھ شامل ہو رہے ہیں ان کا ہی رہتے ہیں مگر محترم شیخ صاحب 2002 گمراہیوں کے قادیانی سیریز کھیلے اور پرانے پہنتے ہیں یا بدعت گمراہی میں خیر مقدم کرتا ہوں قرآن مجید خدا تعالیٰ کا کلام ہے اور قرآن مجید میں اللہ تعالیٰ نے بنی نوع انسان کی فلاح و بہبود اور اس کی روحانی ترقی اور اعلی اخلاق کے قیام کے حوالے سے مختلف تعلیم عطا فرمائی ہیں جس پر عمل کرتے ہوئے ایک انسان اس دنیا کی زندگی میں بھی مجید کی تعلیمات پر انسان ہر زمانے میں عمل کرسکتا ہے اور زمان ومکان کی قیود سے ہٹ کر قرآن مجید کی تعلیمات پورے عالم پر محیط ہے اور ہر زمانے میں قرآن مجید کی تعلیمات پھل دینے والی تعلیمات ہیں ہیں اور چونکہ قرآن مجید میں ہمیشہ کے لیے قائم رہنے والے احکامات اور بنی نوع انسان کے لیے رہنمائی موجود ہے اس وجہ سے اللہ تعالی نے قرآن مجید کی حفاظت کی ذمہ داری بھی قرآن مجید میں یہ اعلان فرمایا ہے کہ ان الذکر وانا لہ لحافظون یقینا ذکر کو یعنی قرآن مجید کو ہم نے ہی نازل فرمایا ہے اور ہم ہی اس کی حفاظت کے ذمہ دار ہوں گے ایک کو سرسبز و شاداب سید کی معنوی حفاظت کے ساتھ ساتھ اس کے لوگوں کی حفاظت کا اللہ تعالی نے ایسا انتظام فرمایا ہے کہ اپنے پرستاروں کو ہر زمانے میں دنیا میں اللہ تعالی نے ہر زمانے میں قرآن مجید کے جو خزائن ہیںلوگوں کے سامنے آتے گئے ہیں قرآن مجید کی تفسیر کے حوالے سے جب ہم بات کرتے ہیں تو یہ بات بھی میں ضرور ذکر کرنا چاہتا ہوں کہ آج 20 فروری ہے اور جماعت احمدیہ کی تاریخ میں یوم مصلح موعود کے نام سے اس دن کو منایا جاتا ہے اور پروگرام سے جلسے منعقد کئے جاتے ہیں اس کا یہی ہے کہ حضرت اقدس مرزا غلام احمد قادیانی مسیح موعود و مہدی موعود علیہ السلام نے اللہ تعالی سے الہام پاک کر ایک پیشگوئی دنیا کے سامنے خود اللہ کی زندگی کا وجود کے نشانی کے طور پر پیش فرمائیں جس میں آپ نے فرمایا کہ خدا تعالیٰ اپنی جناب سے مجھے ایک بیٹا عطا کرے گا اور اس کی مختلف خوبیاں بیان فرمائی اور اس میں سے ایک خوبی پیش گوئی کرنے میں آپ نے یہ بھی فرمایا کہ کلام اللہ کا مرتبہ لوگوں پر ظاہر کرے گا یعنی اللہ تعالیٰ کا کلام قرآن مجید ہے اس کی شان اور مقام ومرتبہ اور اس کے حقائق و معارف کو بے مثال رنگ میں دنیا کے سامنے پیش کرے حضرت مرزا بشیرالدین محمود احمد صاحب جماعت احمدیہ کے دوسرے خلیفہ رہے ہیں انہوں نے ایک طویل زندگی پائی اور پیش گوئی کے مطابق مسلمان ہونے کا اعلان فرمایا اور ان کی تفسیر صغیر اور تفسیر کبیر میں قرآن مجید کی ایسی عظیم الشان تفاسیر آپ نے بیان فرمائی ہیں بصیرت افروز رنگ میں اور خدا تعالیٰ کی خاص ہدایت سے اپنی طرف سے دنیا کے سامنے پیش فرمائی ہے کہ اس کی مثال گزشتہ فصلوں میں اس کی نظیر نہیں ملتی ہے تو مختلف لوگ جو قرآن مجید کی آیات کو مسج اور فکلام خیال کرتے تھے قرآن مجید کے جو حروف مقطعات ہیں ان کی تفصیل سے وہ محروم تھے ایسے لوگوں کو ایسی مسلم دنیا کو حضرت ام سلمہ رضی اللہ تعالی عنہ نے اللہ تعالی کی تائید سے ان تمام آیات کا اہتمام کلام کا اور قرآن مجید کی عظیم الشان تفسیر اور اس کے معنی اور حقائق ہماری دنیا کے سامنے پیش کیے ہیں تو جماعت احمدیہ نے قرآن مجید کی عظمت اور اس کی شان و شوکت کو قائم رکھنے کے لیے حضرت اقدس مسیح موعود علیہ السلام کی قیادت میں اور آپ کے بیان کردہ اصول کے تحت اور پھر جماعت احمدیہ میں آتے رہے ہیں اور اس وقت جو ہم خلافت خامسہ کے بابر کا دور سے گزر رہے ہیں اس میں بھی جماعت احمدیہ کا خاص طور پر دنیا کو قرآن مجید کی شان و شوکت سے روشناس کرنے کے حوالے سے جماعت احمدیہ کا کردار نبھا رہی ہے جس کا کہ ہم خدا کا شکر گزار بھی ہیں کہ قرآن مجید نے اس کتاب کی خدمت کا جماعت احمدیہ کو اعلیٰ مقام عطا فرمائے ہے مختصر سی تمہید کے بعد جیسا کہ میں نے آپ کو بتایا بھی ہم بات کریں گے قرآن مجید کی شان و شوکت اور اس کی عظمت کے تعلق سے اور قرآن مجید خدا تعالیٰ کا کلام ہے اس کے حوالے سے دلائل اور براہین جو ہیں وہ ہم کوشش کریں گے کہ قرآن مجید سے ہیں آپ کی خدمت میں پیش کریں ایک مرتبہ پھر میں آپ کو یاد دلانا چاہتا ہوں کہ اگر اس کے حوالے سے آج کے پاس ورڈ جوان ہے آپ کے ذہن میں سوالات ہیں تو فون کریں ہمارے دل خون کے آنسو روتا ہے میں امید کرتا ہوں کہ ہمارے مشاہدے بھی ہمارے ساتھ آج میں لڑنے کے حوالے سے کوشش کریں گے آج کے پروگرام میں گفتگو کا آغاز مولانا محمد یوسف صاحب سے کرنا چاہتا ہوں جس نے بھی یہ بات بتائیں کہ بعض لوگ یہ اعتراض کرتے ہیں کہ قرآن مجید جو ہے یہ مکہ کے قدیم ترین جو لوگ تھے ان کے لئے نازل کی گئی تھی اور اس کی تعلیمات پر صرف اسی زمانے میں عمل ہو سکتا تھا اور جو دور نثر حاضر کے تقاضے ہیں اس کے مطابق قرآن مجید کی تعلیمات نہیں پیش کرتی ہیں تو اس حوالے سے میں آپ سے جواب حوصلہ دینا چاہوں گا جزاک اللہ بسم اللہ الرحمن الرحیم جیسا کہ آپ نے نے یہ کہ بعض لوگ یہ اعتراض کرتے ہیں کہ قرآن مجید کی تعلیمات ایسی ہیں کہ جو پرانے زمانے کے لوگ تھے ان کے تشفی کے لئے کافی تھے موجودہ زمانے میں جب کہ ہر لحاظ سے ترقی پذیر یا زمانہ ہے اور اس کی تعلیمات پر عمل نہیں ہو سکتی یہ ایک قابل عمل نہیں ہے یہ بات بالکل کی ہے جنہوں نے قرآن مجید کو نہ تو غور سے دیکھا اور نہ ہی اس قرآن مجید کو ماننے کے نتیجے میں جو انقلاب پیدا ہوا اس پر انہوں نے غور کیا اور نہ ہی یہ دیکھا کہ حضرت محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس قرآن مجید کے ذریعے سے ان نواحی گاؤں ان لوگوں کے اندر جو روحانیت پیدا کی ہے اور ان کے اندر جرات اور حوصلہ پیدا کیا اور اسانتہائی ناگفتہ بہ حالت میں تھی شراب خوری ذمہ داری اور ہر قسم کی عیاشی چوری ڈکیتی قتل و غارت گری ہے کہ کوئی ایسی بدی نہیں تھی جو ان عربوں میں پائی نہیں جاتی تھی لیکن یہ غور کرنے والی بات ہے جو لوگ یہ اعتراض کرتے ہیں کہ مٹی والوں کے لیے تعلیم تھی لیکن ہمارے لئے نہیں ہے وہ صرف اس کو ایڈ کر کے اس سے بچنا چاہتے ہیں اس کی وجہ یہ ہے کہ ایسی قوم جو کہ انتہائی درجے میں گری ہوئی قوم تھی اور اردگرد کی حکومت تھی حکومت ملی ایران کی حکومت لے لیں وہ ان کو ملانا بھی پسند نہیں کرتے تھے کہ ان کے پاس جا کر کریں گے کیا احسان علاقہ ہے نہ کچھ پیداوار ہے کچھ مدد نہیں ہے اور صرف پھرے لوگ ہیں ان سے کیا لینا دینا ان کی ضرورت نہیں ہم کو ایک لحاظ سے اپنا ہاتھ ان کے اوپر کتے ضرور تھے لیکن لیکن ان کو اپنے زیر نگرانی رکھنا ان کو گوارا نہیں تھا کیونکہ اس واسطے کہ انتہائی جاھل کو تھی لیکن یہی قوم جو بدکاری میں مبتلا تھی جوا نتہائی جہان بتائی تھی حضرت محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی غلامی میں جب داخل ہوتی ہے جب قرآن مجید کی تعلیمات پر عمل پیرا ہوتی ہے اور اس کی کر جاتی ہے کہ خود آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ بشارت بھی لوگوں کو کہ اصحابی کانجوم تو ستاروں کی مانند ہے کہ وہ گندگی سے شادی کرو گے حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے اس انقلاب کو اس رنگ میں بیان کیا ہے کہ صحافت حق ومن زرع حصد لتا فالتو کا صدقہ یعنی کے ٹوٹنے سے محمد صلی اللہ علیہ وسلم آپ نے اپنی قوم کو ایسی حالت میں پایا کہ جیسے کہ سڑکوں پر ادھر سے غلاظت پڑی ہوئی ہوتی ہے جانوروں کی لت پڑی ہوتی ہے گوگل پڑا ہوا ہے یہ حالت تھی ان کی لیکن جب آپ کی صحبت میں چاہتا ہوں کہ صدیقی لاثانی تم نے ان کو سونے کی ڈلیاں بنا دیا تو کہا تو گندگی اور کہا سونے کی چڑیا کیا تو یہ ایسی بات نہیں ہے کہ قرآن مجید کی تاثیر اتنی ہے یا یہ تعلیم تو اس زمانے کے لیے ہیں ہمارے زمانے کے لیے یہ بالکل غلط بات ہے بلکہ اس زمانے میں مسیح موعود علیہ السلام حضرت مرزا غلام احمد صاحب قادیانی علیہ السلام کو اللہ تعالی نے حضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی متابعت میں آپ کی غلامی اور اور آپ کی شاگردی میں وہ نور جہاں کا کیا مسیح موعود ہونے کا درجہ بھی عطا کیا اور ظلی نبوت کا درجہ بھی آپ کو عطا کیا ہے لیکن آپ نے فرمایا کہ اگر محمّد مصطفیٰ صل وسلم کی پیروی نہ کرتا تو خواب پہاڑوں کے برابر میرے اعمال ہوتے تب بھی میں درجہ مکالمہ نہیں سکتا تو ہر جگہ اپنے اپنے آپ کو آنا ہے آپ نے فرمایا ہے لائن سولر خیالات میں باقی ہو ماحول پاکیزہ ہو ایسی صورت میں قرآن مجید کے معارف اور حقائق انسان کے دل میں اترنا شروع ہو جاتے ہیں اللہ تعالی کے دلائل کو سکھاتے ہیں چنانچہ آپ نے فرمایا وہ خزائن جو ہزاروں سال سے مدفون تھےکوئی چارہ نہیں ہے کہ انسان روحانی اور مادی طور پر بھی ترقیات حاصل کر سکے ابھی آپ نے ذکر کیا ہے حضرت مصلح موعود رضی اللہ تعالی عنہ کا حضرت موسی علیہ السلام کے تعلق سے اندر وسلم کی پیروی ہے بائبل کی بھی بھیجتے ہیں بالکل نہیں کہنا چاہیے کہ یہودیوں کی احادیث کی کتابیں ہیں اس کے اندر بھی پائی جاتی ہے بھائی کے کئی دفعہ ہمارے سنی بھی ہو گی کہ آنگن وسلم نے فرمایا تازہ ہو جاویں نہ دلوں کی موت ایک جگہ خاص شادی کرے گا اور اس کے لئے ایک عظیم الشان بیٹا بھی عطا کیا جائے گا جیسا کہ اوپر ذکر کیا ہے اور اسی طرح سے یہودیوں کی کتاب ہے حدیث کی کتاب ہے جب آئیں گے تو ان کی وفات کے بعد ان کا بیٹا اور ان کا پوتا اس کی روحانی جو سلطنت ہوگی اس کا یہ مسلمہ رضی اللہ تعالی عنہ نے خطبہ جمعہ 19 فروری کو لندن میں فرمایا اس میں آپ نے واضح طور پر آپ صرف وہ سخت سہی نہیں ہوگا اور علوم ظاہری و باطنی سے پر کیا جائے گا اس کا ایک معمولی سا حصہ پیش کیا ہے تو اس لحاظ سے آپ نے دنیا کو چیلنج نہیں کیا کہ میرے پاس اگر کوئی شخص آگے مجید پر اعتراض کرتا ہے ہو نہ ہو سکا دھوم مچانے والا ہو یا اسی طرح کسی بھی علم کا ماہر شخص کوئی نہ ہو وہاں قرآن مجید پر کوئی اعتراض کرتا ہے تو میں قرآن مجید یہیں سے اس کا جواب دوں گا اس میں بڑا چیلنج آپ کے ساری دنیا کو دیا اور پھر لوگ کہتے ہیں کہ قرآن مجید پرانے زمانے کے لوگوں کے لئے تھا آج کے زمانے کے لیے نہیں قرآن مجید نے تو یہ ذکر کیا ہے کہ دیکھئے قرآن مجید کی خاصیت یہ ہے اور اس کی ضرورت بھی اس سے ثابت ہوتا ہے کہ حضرت محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وسلم کی بعثت ہوئی ہے تو اس وقت تو یہودی بھی موجود تھے جو عہد نامہ قدیم میں مرنے والے ہیں اسی طرح عیسائی بھی موجود تھے جو ہے تاہم جدید کو ماننے والے تھے یا بائبل کو مرنے والے تھے قدیم اور جدید دونوں کو مانتے ہیں وہ اور اسی طرح سے آپ دیکھیں گے کہ ایران کی صورت میں جو خریدی تھی وہاں پر جو ہے وہ حضرت علی علیہ السلام کی بےعزتی ہوئی تھی اور ان کی کتاب داستان موجود تھی علاوہ ازیں ہندوستان میں درد ہے ہے تھے آتا تو دنیا میں مختلف مذاہب تھے لیکن سب یہ ایک دوسرے سے مختلف اپنے آپ کو سمجھتے تھے ایک دوسرے کی جو ہے وہ تائید نہیں کرتے تھے بلکہ دوسرے کو گرانے کی کوشش کرتے تھے ان سب کو یکجا کرنے کے لیے بہرحال کسی ایسی کتاب کی ضرورت تھی جو ان تمام کو متحد کرکے ایک اسٹیج پر لا کر رکھے چنانچہ اب دیکھئے کہ قرآن مجید کے اندر رہنے والی خلقت میں موجود ہے اسے ضرورت معلوم ہوتی ہے کہ یہ تمام مذاہب جو اس زمانے کے تھے جب کہ ذرائع رسل و رسائل موجود نہیں تھے ایک جگہ نبی بو تو دوسرے لوگوں کو خبر نہیں ہوتی تھی دوسری جگہ دوسرا دیا تھا بہت سارے انبیاء تو دنیا میں آئے ہیں اور ضرورت کے مطابق آئے ہیں ان سب کی تعلیمات کوزبردست دین کے لئے یہ تعلیمات تھی یہ بہت ہی کم عقلی کی بات میں سمجھتا ہوں اس وقت میں حضرت مسیح موعود علیہ السلام کا ایک اقتباس پیش کرنا ضروری سمجھتا ہوں جو حضور فرماتے ہیں یہ ہنسی میں دعوت کے صفحہ 178 پہ والا نقل کیا ہے حضور فرماتے ہیں یہ کتاب جو قرآن شریف ہے یہ مجموعہ ان تمام کتابوں کا ہے جو پہلے بھیجی گئی تھی اس آیت کا مطلب یہ ہے کہ خدا نے پہلے متفرق طور پر حکومت کو جدا جدا دستورالعمل بھیجا اور پھر چاہا کہ جیسے ایک خدا ہے وہ بھی ایک ہوجائیں تب سب کو اکٹھا کرنے کے لئے قرآن کو بھیجا اور مردی ایک زمانہ آنے والا ہے کہ خدا تمام قوموں کو ایک قوم بنا دے گا یہ قرآن مجید میں بھی موجود ہے لیکن فوج نے فرمایا تھا کہ زمانہ آنے والا ہے کہ تمام لوگ جو ہیں یہ سب کے ساتھ ہیں ایک قوم کی طرح سے ہو جائے گی وہ منہاج ہم دیکھ رہے ہیں اور فرمایا کہ خدا تمام قوموں کو ایک قوم بنا دے گا تمام کر دے گا جیسا کہ ہم دیکھتے ہیں دنیا جو ہے آج بلوچ کہلاتی ہے دیا ہے اللہ تعالی نے فرمایا اور تمام تمام زبانوں کو ایک ہی زبان زبان بنا دے گا دیکھتے ہیں کہ دن بدن دنیا ہی صورت کے قریب آتی جاتی ہے اور مختلف کے لیے وہ سامان میسر آ گئے ہیں جو پہلے نہیں تھے حالات کے بعد معدے کے لیے بڑی بڑی آسانی ہو گئی ہیں ایک ہی سفر بہت سہل اور آسان ہو گئے ہیں اور خبر رسانی کے قدرتی ذرائع پیدا ہوگئے ہیں یہاں پر بیٹھے ہیں ایک منٹ کے اندر جو ہے ایک اور لندن میں کہیں بھی ہم نے خبر دیتے ہیں اور خبر رسانی کے خوارق عادت ذرائع پیدا ہوگئے ہیں اسے پایا جاتا ہے کہ خدا تعالی کے مختلف کاموں کو جو کسی وقت ایک تھی پھر ایک ہی بننا چاہتا ہے اس کا دائرہ پورا ہو جائے اور اے خدا اور ایک ہی نبی ہوں اور ایک ہی دن ہو یہ بات نہایت معقول ہے کہ ہر ایک ملک میں بھیجے اور کسی سے بغض نہیں کیا جب تمام ملک میں ایک قوم بننے کی استعداد پیدا ہوگی تب سب ہدایتوں کو اکٹھا کر کے ایک ایسی زبان میں جمع کر یا جَامعُ سلسلہ ہے یعنی زبانیں عربی تو یہ ضرورت کی قرآن مجید کے نزول کی اور حقائق اور معارف کو اس کے اندر سمونے کی چاہ کو ہر سائنس کے مضامین ہو اگر کوئی شخص کہ قرآن مجید تو سائنسی مضامین سے بھرا ہوا ہے ان فی خلق السماوات والارض واختلاف اللیل والنہار رات اور دن کے آنے جانے میں اگر ہم غور کریں گے تو اس کے اندر جو عقل مند ہے غور و فکر کرنے والے لوگ ہیں ان کے لیے بے شمار ہمارے صاحب جہاں پر الیکٹرانک کا جو ہے کیا ہے یہ کوشش کر رہے تھے کہ جو ہے ان دو طاقتوں کو ایک خط میں ثبوت دینے کی کوشش کر رہے تھے اگر آرمی وفا نہیں کی تو بہر خدا کے سے ایک ہے اسی طرح سے ان شاء اللہ تعالی کی زبانہندوستان کے رہنے والے کسی بھی ملک کے رہنے والے ہو گیا عالمگیر شخصیت اور عالمگیر نبوت اور عالمگیر تعلیمات جو قرآن مجید میں ہیں سوائے قرآن مجید کے اور کہیں پائی نہیں جاتی اور اللہ تعالی نے فرمایا الیوم اکملت لکم دینکم و اتممت علیکم نعمتی تو یہ کمال رکھا گیا ہے پرانے مجید میں دین اسلام میں کسی اور برف کا یہ دعویٰ نہیں ہے تو لہذا ضرورت تھی اس بات کی کے قابل ذکر عالمگیر مذہب آتا تو ان تمام مذاہب کی تعلیمات کو اکٹھا اپنے اندر سمو کے لوگوں کی روحانی ترقی اور دنیا کی ترقی کے سامان کرتا ہے لہٰذا اگر اب بھی ہم اپنے کچھ سے ٹیلی فون کالز کی طرف جاتے ہیں جو اس وقت موجود ہیں اور اس وقت ہمارے ساتھ فرائض ہیں یہ کہتی ہے کی بیٹی فرمائی اس کو اپنانے کی پہلی موجود ہے ایک دوسرا ملک صاحب کیا آج وہ ساری تعلیمات کا حامل ہے یا نہیں جیسا کہ آپ نے ابتدا میں فرمایا کہ آج نمبر بند جا رہا ہے کہ حضرت سلیمان کا چھوٹا سا ڈیٹا علامہ سید علی شہرستانی فرماتے ہیں میں میں اجتماعی در کا خدا کی قسم کھا کر کہتا ہوں کہ جس کے قبضہ قدرت میں میری جان ہے کہ باہر کے رویا بتائی ہے وہ مجھے اس طرح آئی ہے میں خدا کو گواہ کے نام کے معنی کسی حالت میں کہاں عن المسیح الموعود خلیفۃ المسیح الموعود مسئلہ و خلیفتہ پر کی تاریخ جزاک اللہ بہت شکریہ آپ نے تین سوال کیے ہیں ہم کوشش کریں گے کہ پروگرام میں آپ سے ایک سوال کو جو ہے نا وہ جواب دیں جو کہ آپ نے پہلے کیا تھا تم مولانا شیخ مجاہدہ نفس اسی میرا یہ سوال ہے جو گزشتہ کتب مقدسہ کے تعلق سے ایک سوال تھا کہ قرآن مجید کی صورتحال ویانا میں اللہ تعالی نے بیان فرمایا ہے رسولوں میں ہے کتاب لائے پھر ایسا ہی فائدہ ہے جو بطاہر ہے پاکیزہ تعلیمات اپنے اندر رکھتا ہے پھر اس کی مزید خصوصیات بیان کر دی کہ وہ کیسی تعلیمات ہے یہ اقتباس یعنی ایسی تعلیم اس کے اندر موجود ہے جو دائمی اور ابدی تعلیمات کا خلاصہ ابھی محترم مولانا صاحب نے تفسیر کے ساتھ بھی اس کو بتایا کہ قرآن مجید نے جو تعلیمات پیش کی ہیں وہ یونیورسل ٹروتھ ہے یا دیگر مذاہب میں تھی اور میں منتخب ہوئی تھیں ان کو مختصر اور جامع کرکے پیش کردیا توحید کی کتاب لے لیجئے ایک تعلیمی بنیادیں ہے یعنی انسانی فطرت کے اندر یہ بات موجود ہے کہ وہ ایک خدا تعالی کی عبادت کرنا چاہتا ہے وقت اور زمانے اور حالات کے حساب سے وحشت مشرک ہو جائے یا وہاں سے دور ہو جائے لیکن اس کی فطرت کے اندر یہ تعلیم موجود ہے قرآن مجید کے کوئی ایک دفعہ کھول لیجئے کسی بھی جگہ سے ہر ایک صفحے سے خدا تعالیٰ کی توحید اس کی وحدانیت اس کے ایک ہونے کا ذکر ملتا ہے یہی توحید کی ابتدائی تعلیم جب ہم دیگر خطوں میں دیکھتے ہیں دیگر کتابوں میں جو قرآن و حدیث سے پہلے پائی جاتی ہے جو نبی گزرے ہیں ان کا کلام کی تعمیر اٹھا کر دیکھ لیں گے تاکہ اور اس کا جو لوگ ہیں اس کے اندر موجود ہے کہ عاشورہ سرورمحمود غزنوی اور اس کے صحیفے کا ذکر کیا گیا ہے حضرت مصلح موعود رضی اللہ تعالی عنہ نے جو تفسیر کبیر لکھیں اور 24 فروری کا بھی دن ہے خاص طور پر اس حوالے سے بھی میسج کرتا ہوں کہ آپ نے قرآن مجید کی تفسیر لکھی ہے سورہ البقرہ کی تفسیر کی الف لام میم درج کئے ہیں اور بتایا ہے کہ علم نے اس وقت کے ساتھ بتایا کہ موت نبی آئے گا جو فاران کی چوٹیوں سے جلوہ گر ہو گا اور دس ہزار کے ساتھ دوسری موجود ہوں گے تو اس طرف اشارہ موجود ہے اسی طرح حضرت عیسی علیہ السلام کی پیشگوئیاں بھی موجود ہیں بس مختصر یہ کہ جدائی میں تعلیم ہے جو قرآن مجید نے پیش کی ہیں اور دیگر کتابوں کے اندر موجود تھی قرآن مجید کو مفصل طور پر بیان کیا اور صرف زبان کے فرق کے ساتھ اگر اس کو کھلے دل کے ساتھ سو جائے تو وہ تمام کتابیں جو اس سے پہلے کسی بھی مذہب میں پائی جاتی تھی وہ کتاب ایک آنے والے موعود نبی اور اس کے قابل ادائیگی شریعت کی طرف اشارہ کر رہی ہے لہٰذا ایک اور صاحب ہیں انہوں نے اپنا سوال لکھ کے بھیجو آیا ہے مولانا محمد یوسف صاحب کے اخلاق کے بارے میں پوچھنا چاہتا ہوں کہ ایک عیسائی پادری نے یہ نکتہ اٹھایا تھا کہ قرآن مجید یہ کہتا ہے کہ تورات میں یہود نے تحریر کی ہے ٹھیک ہے مان لیا مگر قرآن میں کہیں نہیں لکھا کہ انجیل میں تحریف ہوئی ہے اسے ثابت ہوا کہ تحریف سے پاک ہے اس کا جواب برائے کرم فرما دیں توموت مولانا مفتی محمد سعید کی درخواست کروں گا کہ آپ نے جنرل فون الکلم عن مواضعہ موازنہ سے جو ذکر فرمایا ہے اس میں یہود اورعیسائی دو ہی مراد ہے کہ مراد لیا ہوا ہے اہل کتاب کتاب یہودی بھی ہیں اور عیسائی بھی ہیں اپنے آپ کو تورات کی طرف منسوب کرتے ہیں بس ان کو چھوڑا نہیں ہے جیسا کہ مسیح حضرت مسیح علیہ السلام نے فرمایا تھا کہ میں تورات کو منسوخ کرنے نہیں بلکہ اس کو پورا کرنے کے لئے آیا ہوں تو اس لحاظ سے یہ کہنا کہ جیل میں نہیں تو اصل بات یہ ہے کہ ہے کوئی حقیقت میں دیکھا جائے تو وہ چند جو ہماری تھے حضرت عیسی علیہ السلام کے درمیان مان لیا جائے تو وہ کوئی الہامی کتاب لگتی نہیں ہے بلکہ باعث بنتی ہے اور ہماری تھا اس نے لکھ دی باتیں اسی طرح سے دوسرے اور کچھ پادریوں کے ان کے خدوخال ہیں تو اس لحاظ سے جو الہامی کتاب کہنا جو ہے وہ میرے خیال میں تو دو درست نہیں ہے کیونکہ عیسائی ہمارے بھائی اس کو ایک الہامی کتاب کے طور پر پیش کرتے ہیں تو چلو ہم مان لیتے ہیں کہ شاید اللہ تعالی نے ان کی رہنمائی کی ہوگی تو انہوں نے واقعات کے رنگ میں بہت ساری باتیں لکھ دی نہیں ہوئی ہے یہ واقعات کے خلاف بات ہے ہمارے حق کی ہوئی ہے جہاں پر بات میں تحریف کا ذکر کیا ہوا ہے وہاں پر اناجیل میں ایک انجیر کچھ بات کرتی ہے دوسری دیر میں کچھ اور بات ہوتی ہے اس کے اندر بھی پایا جاتا ہے اور اس کے ہوتے ہیں یہ بات ہمیں یاد رکھنی چاہیے کہ یونانی زبان میں لکھی گئی ہے نانی زبان سے جو ہے پھر اس کے تراجم ہوتے گئے ہیں تو ان تراجم کے اندر بھی جو ہے بہت ساری باتیں بھی ہوتی رہی ہیں یا یہ کہ ایک دوسرے کے کسی لفظ سے نکالا اس طرح سے اس کے اندر پائی جاتی ہے تو یہودی اور عیسائی دونوں ہی مراد یہ نہیں کہ صرف یہودی تعریف کرتے ہیں تحریف نہیں کرتے ایک اور ٹیلیفون کال بھی اس وقت ہمارے ساتھ موجود ہیں مکرم عارف زمان صاحب جو کہ بنگلہ دیش سے اس وقت ہمارے ساتھ صرف انہی پر موجود ہیں ان کا بھی سوال سنتے ہیں اسلام علیکم رحمت اللہ صاحب عارف زمان صاحبہے اللہ جی پہلا سوال اس پروگرام میں شامل کرتے ہیں قرآن مجید کو عربی زبان میں نازل کرنے میں کیا حکمت ہے مولانا محمد یوسف صاحب عربی میں کیوں نازل ہوا اس واسطے کہ یہ عربی تمام زبانوں کی ماں حضرت علی علیہ السلام نے تمام دنیا کو اس طرف توجہ دلانے کے لیے اپنی کتاب میں الرحمن جو ہے نہ کی اور اس کے بعض الفاظ کا استعمال کیا اور آگے تحقیق کا دروازہ اور آپ نے کھولا ہے جو ہے مولانا محمد احمد صاحب نے اس رنگ میں مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کی رہنمائی میں بہت سارے عربی کے الفاظ انگریزی کے الفاظ اور دوسری زبانوں کے الفاظ کو لکھے اس میں یہ بیان کیا ہے کہ اس روڈ اس کا جو ہے عربی میں یہ ہے اور تھوڑا بہت جو ہے اختلاف کے ساتھ یا بگڑنے کے ساتھ جو ہے کچھ انگریزی میں آگیا دوسری زبانوں میں آ گیا ہے اور وہ بھی ابھی پوری نہیں ہوئی تھی ان کی وفات ہوگئی ابھی یہ سلسلہ بھی اللہ کے فضل سے جاری ہے جماعت احمدیہ کی قیمت ہے تو انشاء اللہ تعالی جب یہ کام مکمل ہو جائے گا دیکھئے ہے یہ بھی ایک پرانی زبان ہے اور 15 سالہ کر دیکھا جائے تو اس کا روٹھ بھی جو ہے وہ عربی زبان سے نکلا ہوا ہے بہت سارے اس کے فوائد ہیں اور اس کا گہرا ہے اور بہت ساری باتیں ملتی جلتی ہیں جو عربی زبان کی گرامر وغیرہ سے ملتی ہیں تو یہ تحقیق کا کام جاری ہے اور مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام نے اس کی داغ بیل ڈالی ہے جماعت احمدیہ اس پر مصروف عمل ہے اور انشاءاللہ یہ محسوس کریں گے کہ جو اس زمانے کے مسلمانوں نے موت نے ہمیں اس طرف توجہ دلائی تھی وہ آخر کہ صحیح نہیں نکلیگی عربی واقع ہے اللہ تعالی نے قرآن مجید کو عربی زبان میں نازل کیا دوسری بات یہ ہے لفظ ہے اس کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ تعلقہ 60 کے قریب اس کے بارے بنتے ہیں تو ایک قصبے کی معنی نکل آتے ہیں تو اس لحاظ سے عربی زبان کو یہ حقیقت بھی حاصل ہے کہ اس کی زبان کے اندر فساد اور بلاغت کے بے شمار نکاح ہو سکتے ہیں جو کسی دوسری زبان میں نہیں آتے ہیں لہٰذا پروگرام کو آگے بڑھاتے ہوئے محترم شیخ صاحب میرا یہ سوال ہے کہ اس پر عمل کرتے ہوئے انسان کر سکتا ہے چنانچہ اللہ تعالی نے اس کی حفاظت کے مختلف انتظامات کئے ہوئے ہیں تاکہ تاکہ احمدیہ کتاب ہر انسان کو فائدہ پہنچاتے چلی جائے تو قرآن مجید کی حفاظت کے انتظامات ہے اس کے بارے میں بتائیں حسن رضا اللہ الرحمن الرحیم ایم اے مجید خدا تعالیٰ کا عظیم الشان کا نام ہے جو انسانوں کی ہدایت کے لیے خالق کائنات اللہ تعالی نے خاتم النبیین حضرت محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وسلم پر 23 سال کے عرصے میں نازل فرمایا اور خود خدا تعالی نے اس کی حفاظت کی ذمہ داری لی یا کا پروگرام کے شروع میں بتایا کہ اللہ تعالی نے یہ دعویٰ فرمایا کہ ان نحن نزلنا الذکر وانا لہ لحافظون آیت نمبر 10 یعنی یہ ذکر قرآن کریم میں نے اتارا ہم نے اتارا شرکت کے لیے اور ہم ہی اس کی حفاظت کرنے والے ہیںوطن میں کسی قسم کی کوئی تبدیلی نہیں پائیں گے یہ جو حفاظت خدا تعالی نے دعویٰ کیا تھا اس کا عملی ثبوت ہے اب سوال یہ ہے کہ اگر کوئی کیسے اللہ تعالی نے وہ کیا ذرائع استعمال فرمائے جس میں ہمارے سامنے موجود ہے یہی آج ہمارا سوال ہے ناظرین انسان جب کسی چیز کی حفاظت کرنا چاہتا ہے تو اس کے لیے وہ اپنی سمجھ اور عقل کے مطابق جو کہ ناقص ہوتی ہے مختلف طریقے اختیار کرتا ہے مثال دیتا ہوں اپنی عبارت کی حفاظت کے لیے اس کو لگتا ہے اور آپ کو یکجا کرنے کے لئے کتاب بناتا ہے جس بندی کرتا ہے خوبصورت دل کرتا ہے پھر زندگی خوبصورت بھی ہو جائے سب کچھ ہو جائے اس کو ایسی جگہ کتاب کو رکھا جاتا ہے کہ نہ پہنچے وہ کتاب ڈسٹ سے خراب نہ ہو تو اس کو اگر ہم یہ کہیں کہ وہ مختلف ٹول استعمال کرتا ہے جس کے ذریعے وہ اس کو حفاظت کر رہا ہوتا ہے ہے ہم اپنی زبان میں اسے ٹور زکریا قرآن مجید میں اللہ تعالی نے اس کو جون کے لفظ سے بیان کیا ہے چنانچہ سورہ الفتح آیت میں بیان فرمایا عزیزاللہ قیمہ کہ خدا تعالی جنت میں نہ آسمانوں کے سب لشکر اسی کے قبضہ قدرت میں ہی ہے کہ آج ٹول کی ضرورت ہوتی ہے جس کی ضرورت ہوتی ہے انسان فرشتے اس کی ایک مثال سے سمجھنے کے لئے اس جواب کو ایک مثال دینا چاہوں گا اللہ تعالی نے قرآن مجید نے بیان فرمایا کہ فرعون کو تیری لاش بطور عبرت محفوظ کی جائے گی میں نے اس کو پانی میں غرق کیا پانی کا استعمال ہوا اسی پانی نے اس کو باہر نکال پھینکا جب باہر نکال پھینکا تو مصر کے رواج کے مطابق جیسے وہاں پر بادشاہوں کی اور بڑے بڑے فرعونوں کی لاشوں کو حنوط کیا جاتا تھا اس کی لاش روس کی گئی وہ انسان نہیں کی لیکن آج بھی وہ بتا رہی ہو موجودہ وفات تک رضی اللہ تعالی نے یہ اللہ تعالی نے اس کا کام پانی سے لیں اور پھر وہ انسانوں سے لیا اسی طرح قرآن مجید کی حفاظت کے لیے اللہ تعالی نے انتظامات فرمائے ان کو ہم دو حصوں میں تقسیم کرسکتے ایک اس کی ظاہری حفاظت دوسری قرآن کی حفاظت کرنی تھی قرآن مجید ایک دن میں نازل نہیں ہوا ہم سب جانتے ہیں آہستہ آہستہ لمحہ لمحہ 23 سال کے عرصے میں نازل ہوا ہے اور جب حضرت جبرئیل علیہ السلام قرآن مجید کا نزول فرماتے تو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم سے سونے جا رہے تھے اس کے الفابیٹ کی حفاظت کی جاتی ہے اس کو انگلش نہیں آتی تو عربی کے الفاظ کی حفاظت کی جاتی ہے میں ہوتا کسی کو بلاتے ہیں جن میں سے اور وہ لکھی جاتی ہے تاکہ وہ محفوظ کے ساتھ ساتھ لکھنے کے ساتھ ساتھ عربوں کا حافظہ مشہور تھا نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کے ہر لفظ کی تحریک کی اور ایک کے بعد ایک زمانے تسلسل کے ساتھ آپ دیکھ لیجئے ہزاروں لاکھوں حفاظ ہمیشہ موجود تھے یہ پہلا طریقہ تھا عزت کا طریقہ یہ تھا کہ معنی اور مفہوم کی حفاظت کی جائے القرآن کے وقت میں جو لفظ تھا اس کے جو معنی اور مفہوم تھے آج چودہ سو سال گزرنے کے بعد بھی وہی معلوم ہو کہ اس وقت اگر اس سے یہ مراد لیا جاتا تھا کہ نماز پڑھنے کا طریقہ کیا اسلام آباد تو آج بھی اس سے وہی ماننا وہ نہ مانے نہ ہو جائے قرآن مجید کی حفاظت کے لیے اللہ تعالی نے یہ پھول استعمال فرمائے یہ طریقہ کار استعمال نہیں کیا جس زبان میں قرآن مجید نازل ہوئی جیسے بھی سنا کہ عربی زبان میں نازل ہوئی ہے اس کے ذریعہ قرار دے دیا محققین کیا یہ ہے کہ آج سے چودہ سو سال پہلے کی نزول قرآن کے وقت کی جو بھی زبانی دنیا میں رائج تھیں آج وہ ختم ہو چکی ہیں اس لئے میں نہیں زبان میں آچکی ہیں لیکن قرآن مجید کو جو کہ اللہ تعالی نے دائمی شریعت قرار دیا ہے اور یہ قیامت تک کے لیے ہے اس کی زبان کو بھی دائمی قیامت تک کے لیے کردیا حمزہ دور کیوں جائیں آج سے دو سو تین سو سال پرانی اردو اٹھا کر دیکھ لے وہ اردو اور آج کی اردو میں زمین آسمان کا فرق ہو گیا انگریزی دیکھ لیں کہ جو شخص پر کئی زمانے کے انگریزی کچھ ہے کچھ اور انگریزی بول رہے ہوتے مگر قرآن سے پہلے کی جو عربی تھی وہ بھی قرآن کے نزول کے بعد بھی عربی ہے وہ ہے جس کے ذریعہ ہم ان کے تھے اس عزت اللہ تعالی نے کردی مثلا حضرت نے جو صحابہ کو سکھایا کہ روزہ رکھنا ہے نماز کیسے پڑھی ہے جنازے کا یہ طریقہ کار ہے جو قرآن مجید کے احکامات تھے ان احکامات کو تسلی تو مل کے ساتھقرآن مجید کی دو آیات کا نزول ہوا خدا تعالی نے اس کے شان نزول کے کو بھی محفوظ کر دیا یعنی اس وقت کون سے آئے ہوئے اکثر آیات کے بارے میں پتا ہے اس کے بارے میں بھی پتا ہے پھر ہم دیکھتے ہیں کہ ہم ہی نے قرآن میں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم قرآن آپ کی زندگی کو محفوظ کر دیا اور تمام انبیاء میں سے سب سے زیادہ مضبوط محسن زبان اور زندگی اگر کسی نبی کی ہے تو ہمارے پیارے آقا کے خاتم النبیین حضرت محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وسلم کی تو یہ ظاہری جو حفاظت کے طریقے تھے اس کے علاوہ مختلف النساء بالرجال وغیرہ وغیرہ لیکن اس کے علاوہ ایک معنوی حفاظت میں تھے یہ تھی کہ اللہ تعالی نے قرآن مجید کے حقائق اور معارف بیان کرنے کے لیے ہر زمانے میں ایسے لوگ پیدا کئے جو خدا تعالی کی وہیں سے مشرف ہو کر قرآن مجید کے نئے سے نئے معنی لوگوں کے سامنے بیان کرتے تھے اور قرآن مجید پر جو زمانے میں اعتراضات ہوتے تھے اعتراضات کو دور دور کرتے تھے آج کے زمانے میں اللہ تعالی نے بانی جماعت احمدیہ حضرت مرزا غلام احمد صاحب قادیانی مسیح موعود علیہ السلام کا مقام و مرتبہ عطا فرمایا کہ آپ نے خدا تعالی سے اطلاع پاکر اعلان فرمایا کہ عید کے لیے بھیجا ہے تاکہ میں اس پر آشوب زمانہ میں حضرت رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی عظمت ظاہر کرو اور ان تمام دشمنوں کو اسلام پر حملہ کر رہے ہیں ان نوروں اور برکات اور فوارے اور علوم عقلیہ کی مدد سے جواب دو جو مجھے عطا کئے گئے ہیں حضور کے پیروی میں آپ کے بعد خلافت کا نظام جاری ہے آج ہم خلافت خامسہ بابر کے دور میں سے گزر رہے ہیں ہمارے پیارے آقا حضرت منصور احمد صاحب خلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ عظیم کو آج ساری دنیا میں بیان کر رہے ہیں بس حقیقت یہی ہے کہ قرآن مجید کو سمجھنے کے لئے اس کے معنی اور مفہوم کو اپنے ذات میں اتارنا ضروری ہے صرف زبانی پڑھنا ہی کافی نہیں بنا اللہ تعالی نے تو اس کی ظاہری حفاظت کا وعدہ لے لیا ہے ہم جو قرآن مجید کے ماننے والے ہیں تمام مسلمان ہیں ہمارا اولین فرض ہے کہ ہم اس زمانے کے معمول کو تسلیم کریں اور اس کی طرف سے جو حقائق اور معرفت کے ذریعہ ہے جا رہے ہیں اس پر ہم عمل کرے اور اس کو آگے بڑھاتے ہوئے مولانا محمد یونس صاحب ہمارے سوال ہے کہ ایک اعتراض قرآن مجید کے بارے میں یہ بھی ہوتا ہے کہ اس میں صرف ہے قرآن مجید کی فصاحت و بلاغت کے تعلق سے اپنے سے پہلے بھی بتایا تھا تو اس حوالے سے اس کا کیا جواب دیں گے میں آپ سے تفصیل جاننا چاہوں گا گا اور غیر مسلم کا کلام بھی ہے لیکن اس کے ساتھ اس کی خصوصیت یہ ہے کہ وہ صرف ہو مسجع کلام صرف لوگوں کو ہٹانے کے لئے نہیں ہے بلکہ اس کے اندر بے شمار حقائق اور معروف ہیں پیش گوئیاں ہیں انداز زمانے کی اس کے اندر رسولوں کے جو اعمال تھے اس کے بارے میں بیان کیا گیا ان کے حالات بیان کیے گئے ہیں اور ان حالات بیان کرنے کے اندر بھی آئی ہوئی ہے کہ آئندہ کبھی یہ حالات آنے والے ہیں پھر اسی طرح سے اس کے اندر روحانیت کے جو اصول ہے کس طرح ہے کیا جا سکتا ہے کہ اللہ تعالی قریب آ سکتا ہے کس طرح اللہ والے لوگ بن سکتے ہیں ایک دو نہیں بلکہ قرآن مجید پر جن لوگوں نے عمل کیا ہے بے شمار امت محمدیہ اولیاء اللہ پیدا ہوئے ہیں اور آج بھی دیکھیں گے ان کی کرامتیں اور ان کے متعلق بلا کا اجڑتا ہےچل دیئے کہ میرے کپڑوں کو پوجا بلکہ وہ انتہائی اللہ والے لوگ تھے ان کو اللہ تعالی کی معرفت اور اس کے نتیجے میں ان کے اندر روحانی علم ہے جو کہ اور الہام کا خدا سے تعلق کا وہ قرآن مجید کی تعلیم سے پیدا ہوا تو دوسرے کسی کو سچا کلام میں یہ حقیقت نہیں ہے مجھے یاد پڑتا ہے کہ سورۃ الکوثر ہوئی ہے رحیم گل فر دس لی خانہ کعبہ پر کہتے ہیں لکھے لگائی ہوئی تھی تو اس کے ساتھ النبی اس میں وحشت پڑی تو اس کے نیچے اس نے اپنے قلم سے لکھ دیا کہ انسان کا کلام نہیں ہو سکتا اور اسی کے بارے میں آتا ہے کہ خلافت عثمانیہ حضرت عمر رضی اللہ تعالی عنہ کے زمانے میں میں ایک تمام عرب شہر ابا جو ہے وہ منعقد کیا گیا اس نے نبی کو بھی دعوت دی گئی چھوٹی کا یہ شعر طالبان کا خاتمہ بھی اس کے غلام ہیں تو اس نے لکھا کہ اب میں نے جو قرآن مجید کا نزول ہوا اور میں نے اسلام قبول کیا ہے میں نے شعر کہنا چھوڑ دیا کہ گویا اس میں چھوٹی کا شاعر ہے قرآن مجید کے نزول کے بعد اس نے شیئر کرنا چھوڑ دیا تو حقیقت ہے میرا لیکن کل آپ قرآن مجید کا کلام ہے تو برا نہ صرف اور مسجع کلام ہے بلکہ اس کے اندر بے شمار مہالم روحانی نے کہا ہے اور جیسا کہ میں پہلے بیان کر چکا ہوں ہر خلیفۃ المسیح الثانی رضی اللہ تعالی عنہ المسلمون نے تمام دنیا کو چیلنج کیا ہے کہ دنیا کا کوئی عالم کوئی فلسفہ کوئی کسی قسم کا ماہر اقتصادیات و و و وہ اگر قرآن مجید کی کسی تعلیم پر یا کسی آیت پر اعتراض کرتا ہے تو میں قرآن مجید ہی سے اس کا جواب دوں گا یہ آپ کے علم و فضل کا چرچا تھا جو اللہ تعالی نے آپ کو عطا کیا ہوا تھا کہ علوم ظاہری اور باطنی سفر کیا جیسا کہ آپ نے ذکر کیا ہے جس کے ذریعے سے آیا ہوا پھر میں چونکہ بہت کم رہ گیا ہے حضرت موسی علیہ السلام کا ایک عام آدمی تھے لیکن ٹائم نہیں ہے یہ ہے حضور فرماتے حرف قرآن کریم ایک ایسی کتاب ہے جس میں ہر قسم کے لوگ ہیں پھر کہتا ہوں کہ ضرورت ہے اللہ تعالی نے فرمایا لا الہ الا المطہرون پھنسایا نہیں ہے سکتے ہیں اس آیت و بلاغت میں ناممکن ہے لیکن سورہ فاتحہ کی موجودہ ترتیب چھوڑ کر کوئی عورت استعمال کروں تو وہ مطالب العالیہ اور مقاصد مسجد آواز میں جو اس ترتیب میں موجود ہیں ممکن نہیں کہ کسی دوسری تصویر میں بیان ہوس کی کوئی سی سورت ہے وہ واحد ہی کیوں نہ ہو سن رکھ کر اور حقائق ہے وہ کوئی دوسرا بیان نہ کر سکے گا یہ بھی فقط اعجاز قرآنی ہے مجھے حیرت ہوتی ہے جب بعض مقامات حریری یاصباح کو بے نظیر اور بیسن کرتے ہیں اور اس کے مندرجات پر حملہ کرنا چاہتے ہیں وہ اتنا نہیں سمجھتے کہ وہ تو ہری کہ مصنف نے کہیں اس کے بے نظیر ہونے کا دعویٰ نہیں کیا اور دوم یہ کہ مصنف خود قرآن کریم کی فصاحت کا خیال تھا علاوہ ازیں ناراستی اور صداقت کو ذہن میں نہیں رکھتے بلکہ ان کو چھوڑ کر محض الفاظ کی طرف جاتے ہیں مندرجہ بالا کے سابقہ اور ایک منٹ سے خالیہمیشہ جاری ہے اور وہ ہر زمانے میں اسی طرح نمایاں اور درخشاں ہے جیسا حضرت صلی وسلم کے وقت میں تھا قرآن سیکھے جو معجزہ ہے وہ اپنی ظاہری بناوٹ کے اعتبار سے اپنی معرفت کے اعتبار سے اپنے مضامین کے اعتبار سے اپنی جامعیت کے اعتبار سے اپنے علم غیب کے اعتبار سے ہر ایک لحاظ سے اور خاص طور پر حروف مقطعات کے لحاظ سے بھی ایک معجزہ ہے قرآن کریم کی 29 سورتوں کے آغاز میں کل تیس حروف مقطعات ہیں جن میں سے کچھ کو نکال دیا جائے تو چودہ آئے ہیں ان تمام حروف مقطعات میں حرف تہجی کے استعمال کیے جاتے ہیں کیونکہ یہ حروف الگ الگ بولے جاتے ہیں اسی لیے حروف مقطعات کہتے ہیں جو ایک سے لے کر پانچ کی تعداد طلباء سورتوں کے شروع میں بیان ہوئے ہیں ان میں سے ایک ہے کہ وہ بعض مضمون کو چھوٹے الفاظ میں بیان کر دیا جاتا ہے ہے ہے ہے ہے اس کے بدلے میں کہہ دیا قرآن مجید نے اس سے پہلے عربوں میں بھی یہ طریقہ جاری تھا کہ وہ بعض محبوب کو بیان کرنے کے لیے چھوٹے ایک لفظ بول دیا کرتے تھے قرآن مجید نے جو یہ حروف مقطعات استعمال کیے ہیں یا اپنے اندر ایک عظیم الشان پیشگویئ رکھتے ہیں اور ابھی 24 فروری کے حوالے سے بھی ہے حضرت مصلح موعود رضی اللہ تعالی عنہ مشیخۃ دن محمود احمد خلیفۃ المسیح الثانی نے قرآن مجید کے عظیم الشان تفصیل لکھی تفسیر کبیر کی شروعات میں پہلی جلد ہے سورہ البقرہ کے شروع میں الف لام میم آیا اس میں حروف مقطعات کی بڑی گہری اور تفصیلی بحث کی ہے اور جو کچھ یہاں کام نہیں ہے وہ سارے لکھنے پڑھنے نہیں جا سکتے تھے حضور نے اس نے بیان فرمایا کہ بعض لوگ یہ کہتے ہیں کہ خدا تعالیٰ کا اصرار ہے اس کے پیچھے پڑھنا چاہیے لہذا انہوں نے اس کو چھوڑ دیا بازوں نے یہ کہا کہ اس میں اللہ تعالی نے قسم کھائی ہیں ہیں لیکن اگر مسلمان بیان فرماتے ہیں ان حروف مقطعات کی جو ہر سورت کی شروعات میں جو آئے ہیں اس صورت میں جو خاص طور پر خدا تعالی کے اسماء الہی بیان کیے گئے ہیں وہ ان صفات کے ذریعہ سے بیان کئے گئے اور احادیث میں اس کی تائید بھی ملتی ہے ایک ام ہانی سے روایت آتی ہے کہ آپ نے بیان فرمایا کہ حروف مقطعات میں جو بات اس میں بیان کی گئی ہیں اس میں خاص طور پر احساس دلاتا ہے حروف کے عدد بتا دیا جائے اس حساب سے اس کے اندر پیشگوئیاں موجود ہے پھر امام زمان سیدنا حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام نے یہ بیان فرمایا ہے کہ اس عاجز کے ساتھ ہر مقام پر بیان فرماتے ہیں کہ اکثر یہ عادت اللہ جاری ہے کہ وہ وہ صبح انھوں بعض اسرار اعداد حروف تہجی میرے ظاہر کر دیتا ہے کہ اسلام نے اپنی کتب کے اندر جا بیان فرمایا جیسے وآلہ وسلم کے بارے میں خبر کی خبر دی گئی اور اس کے حروف تہجی کو جوڑ کر آپ نے بتایا کہ میرے بارے میں خبر دی گئی حروف مقطعات قرآن مجید کا حصہ ہیں قرآن مجید میں اس میں جو پیش کی ہیں ان کی کہ وہ اس میں موجود ہیں جس سورت کے شروع میں موجود ہیں اس کی خاص بات اس میں موجود ہیں اور جو لوگ یہ کہتے ہیں کہ یہ مجھے مل ہی نہیں ہے وہ درست نہیں ہے امام زمان نے اس کا کے کھولا اور بتایا کہ خدا تعالی کے اسمائے الہی اور آئندہ بھی اس میں سے ناراض نہیں ہوتے چلے جائیں گے اس کے ساتھ آج کا ہمارا سوال ختم ہو جاتا ہے آخر میں بانی جماعت احمدیہ حضرت مرزا غلام احمد قادیانی کا ایک اقتباس آپ کے سامنے پیش کرتا ہوں جس میں حضور فرماتے ہیں قرآن شریف ایسا معجزہ ہے کہ وہ اول مسئلہ ہوا اور نہ آخر کبھی ہوگا اس کے فیوض و برکات کا درد ہمیشہ جاری ہے اور وہ ہر زمانے میں اس طرح نمایاں اور درخشاں ہیں جیسا حضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے وقت تھا اتنا آسان قرآن مجید کی عظمت و شان و شوکت کے حوالے سے ہم اپنی سہیلی سے آئندہ کے پیسوں سے بھی گفتگو کریں گے مورخہ 27 فروری 2019 ہفتے کے دن انڈین کے مطابق رات کے ساڑھے نو بجے کے مطابق سہ پہر چار بجے قادیان دارالامان سے ہم آپ کی خدمت میں پیش کریں گے تب تک کے لئے اجازت دیجیے گا السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ کے لیے ہی تنور تھا دعا مانگے گے تا تسلی بھی بتایا ہے آپ آؤ گے لوگ تمہیں رات اور تثلیث کا بتایا ہے تمھیں تسلی دی ہم نے