Ahmadi Muslim VideoTube Programms,Rahe Huda Rah-e-Huda – Sadaqate Maseehe Maood pbuh

Rah-e-Huda – Sadaqate Maseehe Maood pbuh



Rah-e-Huda – Sadaqate Maseehe Maood pbuh

راہ ھدیٰ ۔ صداقت مسیح موعود مرزا غلام احمد قادیانی علیہ السلام

Rah-e-Huda | 30th January 2021

اس سال سے نبھانے ڈوب جااعوذ باللہ من الشیطٰن الرجیم بسم اللہ الرحمٰن الرحیم ناظرین کرام اسلام علیکم ورحمتہ اللہ وبراکاتہ کے ساتھ ہمیں آج میاں صاحب کی خدمت میں حاضر ہیں ہمیشہ کی طرح ہماری یہ پروگرام لائیو انٹریکٹ ہے پروگرام فرما رہے تھے اس میں حاضر ہوئے ہیں انشاءاللہ یہ سلسلہ ہمیشہ کی طرح ایک گھنٹہ چلے گا ہمارا پروگرام جیسا کہ میں نے بھی اس لائق ہے تو پروگرام کے دوران حضور ہم سے رابطہ کریں سال پیش کریں اس کے لیے ہیں جو سہولیات میسر نہیں کر سکتے ہیں مزید آپ کی طرح واٹس ایپ پر اپنا میسج کا جواب دیں گے اللہ بھروانہ صاحب اور اسی طرح مکرم و محترم رحمت اللہ بن جائے اسلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ حالات کی وجہ سے نظریں خاکساری اس کی خدمت میں حاضر ہے ہمارے ہیں وہ بھی جن کے لیے سے ہمارے اس پروگرام میں ساتھ شامل ہوں اور آپ کے سوالات کے جوابات دیں گے جیسا کہ آپ جانتے ہیں پروگرام رادھا اس کا بنیادی مقصد یہ ہے کہ ہمارے دیس کو ہمارے احمدی دوست احباب اور اسی طرح سے جو غیر جماعتوں سے ہے جو خالص تحقیق کے لئے سچائی جاننا چاہتے ہیں جماعت احمدیہ جماعت اسلامی کے بانی حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے بارے میں آپ کی تعلیمات آپ کے عقائد کے بارے میں اسی طرح سے جو ہمیشہ سے خدا تعالیٰ کی طرف سے ہوتے ہیں جن پر اٹھائے جاتے ہیں تو ان کی اگر یہ بات اور کے متعلق وہ حقائق ہیں وہ جانا چاہیں تو ضرور ہمارے ساتھ یہاں رابطہ کریں اور اس بار پیش کریں جس میں ہم اس ماعود آنے والے مسیح موعود اور امام مہدی علیہ السلام کے بارے میں گفتگو کر رہے تھے اور اس سے قبل ہم نے آپ کے سامنے رکھا کہ جس نے آخری زمانے میں آنا تھا یعنی جو چوتھی صدی بنتی ہے اسلامی کیلنڈر کے حساب سے وہ اللہ تعالی کے فضل سے تشریف لے آئے ہیں اور جماعت احمدیہ حضرت مرزا غلام احمد صاحب قادیانی علیہ السلام ہیں جنہوں نے عین وقت پر اللہ تعالی کی طرف سے مجبور ہوکر یہ دعویٰ کیا کہ خدا تعالی نے آپ کو ایسا ابن مریم کے نام سے موت بنا کر اس طرح سے مہدی بنا کر اور اسی طرح سے جو تمام ادیان میں جو محمود ایک آنے والے موعود کے متعلق جو پیشن گوئی تھی اور جو اپنی طرف بالکل درست اور برحق تھی وہ سب کچھ ہو گیا ہے اور اس ضمن میں جمع کریں کریں جو کسی اور کا نہیں بلکہ ہمارے پیارے آقا حضرت محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وسلم کا دین ہے جو قیامت تک قائم رہنے والا ہے اور جو نبی ص کے الفاظ روحانی ہمیشہ قیامت تک رہیں گے جو خاتون بین اس کا جو تعین ہوتا ہے وہ درد بنتی ہے جو گزشتہ صدی گزری ہے اس حوالے سے جو علامات ہیں آج ہم انشاءاللہ علامات اور نشانیوں کے بارے میں کچھ گفتگو کریں گے مزید آپ کے سوالات بھی رہیں گے تو علامات کے حوالے سے جب ہم غور کرتے ہیں تو جو علامات قرآن مجید میں مذکور ہیں اور جو تواتر کے ساتھ احادیث میں ہمیں سننے کو ملتے ہیں مسیح کو قیامت کی نشانی قرار دیتے ہیں جو عصا کا لفظ پر استعمال ہوتا ہے اسی کو سمجھ آتا ہے تو ان یہ نظریہ ہے آپ اس سوال سے براہ کرم ہمارے سامنے ہے اس کی حقیقت کھلی کچہری چوک علی ذائ کلہ طارق صاحب اللہ الرحمن الرحیم صاحب دامت قیمتی الفاظ میں بیان کیا ہے استعمال ہوئے ہیں اور نہ ہی ہے جو اسرائیل کے ساتھ جنگ لڑی اس کا یہ مطلب باحال قیامت بھی ہے لیکن اس کا صرف مطلب قیامت نہیں ہے بلکہ قیام سے پہلے اہم واقع ہیں مگر یا ہیں اسلام میں اور دنیا میں ان کے لئے بھی لفظ استعمال ہوا ہے اس طرح قیامت کا لفظ بھی قیامت کبریٰ کے لئے استعمال ہوا ہے اور قیامت صغریٰ کے لیے بھی استعمال ہوتا ہے سب سے بڑھ کر ہے دنیا میں انقلاب برپا قیامت اس کے ذریعے برپا ہوتی ہے نیک لوگ جنت ن روحانیات میں اعلیٰ ترقیات ہوتا ہے وہ لوگ جو ہیں وہ دوست کی طرز زندگی میں بڑھتے چلے جاتے ہیں قیامت کے دن کیا ہونا ہے کہ انسان فوت شدہ ہی ہوگا وہ دوبارہ گو کے اللہ تعالی ان کو کرے گا اسی طرح انقلاب ہوتا ہے نبی کے ذریعہ اس وقت بھی حشر اجساد ایک قسم کا ہوتا ہے اسی لئے قرآن کریم نے سورۃ انفال میں حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے ذریعے حیات زندہ کیے جانے کی طرف اشارہ کیا ہے حافظ ابن حجر عالم فرماتا ہے یا ایہا الذین آمنوا استجیبوا للہ وللرسول کے اہل لوگوں کو جو ایمان لائے ہو اللہ اور اللہ کے رسول کی بات کا جواب دو کیوں ادا کی گئی ہے صحابہ کرام کو یعنی انسان کے لیے روحانی تو آپ زندہ بن جاتا تھا اپنے لیے لفظ حساب اس ملک میں دو انگلیاں کاٹی ہے میرا اور جو اہل اس کا اسی طرح بات ہوئی ہے تو اگر صرف اس سے مراد جو قیامت صغریٰ حضور صلی وسلم کے لیے برپا ہوئی ہیں مراد تھی کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے ذریعے کی گئی ہے تو پندرہ سال ہو گئے ہیں اب تک قیامت نہیں آئی بلکہ اس سے کیا اس قیامت سے اس اس سے مراد وہ انقلاب تھا جو آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے ذریعے برپا ہوا بلکہ اس سے بڑھ کر نواز شریف نے ایک حدیث ہے ہے کہ جس میں حضور صلی اللہ علیہ وسلم ہمیں تو اس سے بھی پہلے آ گیا ہو گیا ہے ہے اس بابت وہ میں فاصلے میں سبقت لے گیا ہوں جلدی آ گیا ہوں تم اس بات کا تھا زیھا جائے تو دو انگلیوں کو یہ شہادت والی انگلی اور درمیانی آمدنی کو ملا کر فرمایا کہ جستجو دو انگلیاں کاٹی ہیں میں اور اس کا جو ہے مودی وہ اکٹھے موصول ہوئے ہیں جس طرح کے درمیان والی انگلی شہادت والی انگلی سے بڑی ہے اور اس سے سبقت لے جاتی ہے اسی طرح ہمیں اس حد تک لے گیا ہوں اگرچہ اس سے کیا مراد ہو سکتے ہیں یہ بھی تھی کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے ذریعے مرد حاکم ہے وہ زندہ ہوں یا حضور صل وسلم کی بعثت کے ذریعے جو مکہ فتح ہوگیا اسلام کا بول بالا ہوا وہ بھی مراد ہے اس کے علاوہ اور کئی مطالب ہو سکتے ہیں اس وقت ہم باہر حساب مرکزکب کہا گیا کے عربوں میں چاند دو ٹکڑے ہوا ویسے سادہ مراد یہ تھی کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے ذریعے جو عرب حکومت ہے وہ ختم ہو جائے گی اس کی تائید احادیث سے بھی ہوتی ہے حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی ایک زوجہ محترمہ حضرت صفیہ رضی اللہ عنہا تھیں جو ایک یہودی سردار کی بیٹی تھی انہوں نے خواب میں دیکھا کہ ان کی گود میں چاند گرہن ہے تو اس پر انہوں نے اپنی جب آپ اپنی والدہ کو بیان کی ہیں تو اس کی والدہ نے یہ تاویل کی کہ تو عرب کے بادشاہ سے شادی کرنا چاہتی ہیں تو چاند عرب حکومت کا نشان تھا جب بندہ کہتا ہے کہ چاند دو ٹکڑے ہوگیا قیامت اساں غریباں دے تو کیا محسوس ہوتا کہ جو حضور صلی وسلم کے لیے فتح مکہ اور دیگر فتوحات ہیں ان کا وقت قریب آپہنچا روحانی انقلاب بھی عثمان کل آپ کا بھی آچکا ہے وہاں سے مراد موت کھڑی تھی بلکہ اس سے بڑھ کر قرآن کریم میں مثال کے طور احساس ہوا میں نے فرمایا ہے کہ جو مکہ والے ہیں غافل لوگ ہیں آپ نے اس مخصوص سے توجہ ہٹائی ہوئے ہیں ان کے بارے میں فرماتا ہے اللہ سے حساب ہو گا حساب کا وقت قریب آگیا ہے وہ سے غفلت موزون وہ بھی تکافل میں پڑے ہوئے ہیں جہاں بے حساب کتاب سے مراد یوم القیامہ والا حساب کتاب نہیں تھا بلکہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے ذریعے جن کے سامنے حساب پیش کیا گیا خاص طور پر فتح مکہ کے دن مرا تھا اسی طرح بلکہ میں تو اللہ تعالی نے جو مکہ میں آخری دور میں نازل ہوئی صبح سے پہلے اس میں تو اللہ تعالیٰ فرماتا ہے انسان اطلاع دی جا رہی ہے اس خاص گھڑی وہی ہوا جب حضور صلی اللہ علیہ وسلم کو مکہ والوں نے مکہ سے نکالا تو صرف آٹھ سال کے قلیل عرصہ میں حضور صلی وسلم بڑی شان کے ساتھ فاتح کی حیثیت سے مکہ میں داخل ہوگئے بلکہ اس واقعہ نے تو یہاں تک کہ عطا فرماتا ہے عطااللہ اللہ کا جلوہ اللہ کا حکم آ گیا ہے اب جلدیکرنے کی ضرورت نہیں ہیں ہم کہہ سکتے ہیں کہ ساری اثاثے کی چیزیں مراد ہیں اور ان میں سے ایک بہت بڑی بھی ہوتی ہے جس کی پیش گوئی کی گئی ہے یہاں سے ایک مراد بہرحال یوم القیامہ بھی ہے اور اس سے بڑھ کر حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے تو یہاں تک فرمایا کہ جو بندہ فوت ہو جاتا ہے اس کی قیامت واقع ہوجاتی ہے جس سے ہی من مات فقد قامت قیامتہ وہ بندہ فوت ہوا اس کی قیامت واقع ہوگی دنیا کے حصول کے لیے دوبارہ اسی وقت ہو جاتی ہے اس لیے سورہ نمل میں اللہ تعالی نے ایک بڑا ہی پیارا مضمون ہم کو سمجھایا ہے وہ ہے جو مستقبل کی پیش گوئیاں ہوتی ہیں جب وہ عمل ظہور پذیر ہوتی ہے اس وقت کنفرم ہوتا ہے کہ اس کی ٹائمنگ کیا تھے اس اعزاز کے امراض قریب موت کھڑی ہے یا اصل صاحب کی نشانی ہے عود باتیں ہیں جن کی پیش گوئی کی جا رہی ہیں وہ تمہیں اللہ کھلائے گا پونا ہے جب وہ معاون باتیں پوری ہو جائیں گے ہم تم ان کو ان باتوں کو پہچان لو گے جس طرح آپ نے ابھی شروع میں کہا کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے آخری زمانے میں موت کے لئے اشراق کوثر کا ذکر کیا ہے کہ موت گڑیا جمعہ نشانیاں قرآن کریم نے بھی اس کی طرف اشارہ فرمایا ہے اور محمد اللہ فرماتا ہے کہ پہ غرور النساء کینو کے اثرات کا انتظار کر رہے ہیں تاہم ان کے پاس اچانک آ جائے تو وہ اس کی گڑیا اس کی اثرات ہیں اس کی نشانیاں وہ تو آگئی ہیں عربی دان طبقہ جانتا ہے کہ جو ماضی کا بعض اوقات یقینی مستقبل کے معنوں میں بھی استعمال ہوتا ہے وہ آشنا تو سایہ اسی آیت میں دو دفعہ کا ذکر آگیا نیو کا ذکر کیا گیا تو مثال کے طور پر اگر ہم اس کی تفصیل بھی سنیں کہ اس کے بارے میں اس وقت بھی کریں گے جس حد تک آپ کے فضل نے بتا دیا ہے ہمارے سامنے آجاتی ہے جو مزید معلومات حاصل کریں گے کہ جو ایسا کا استعمال قرآن مجید اور احادیث میں جو بھی نظر رکھی ہے اور اچھے انداز میں اپنے مختلف فیصلوں کی طرف ہمارے بھی نشاندہی کی گئی ہے کہ کس طرح سے اس اس سے مراد روحانی انقلاب ہے جو نبی کے وقت ہوتا ہے اس طرح سے لائے تو آپ صلی اللہ وسلم کی آمد کے ساتھ بھی یہی اساں کا لفظ استعمال ہوا جو اس طرف نشاندہی کرتا ہے کہ یہاں تو کیا مراد نہیں ہے بلکہ وہ انقلاب جو نبی کی بعثت کے ساتھ روحانی طورپربھی اور جسمانی طور پر مضبوط ہوگی تو آرام سے بات کریں گے میں پروگرام کو آگے چلاتے ہیں تو ابھی بہت سے پہلو ہے جس میں گفتگو کرنا چاہیے ہمیں بھی اس کے سوالات آنا شروع ہوگئی ہیں تو سب سے ایک بنیادی بات نظر جو اختلاف سامنے رکھنا چاہتا ہے وہ یہ ہے کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی احادیث میں بھی ذکر فرمایا ہے کہ جو شخص کو پسند کرے گا قیامت اس طرح سے دیکھنا چاہتا ہے کہ وہ اس نے اپنی آنکھوں سے دیکھ لیا ہے تو چاہیے کہ وہ سورۃ تقویر کی تلاوت کرے وہ سورہ کی تلاوت کرے اور اس طرح سورہ انشقاق کی تعریف کریں تو ان سورتوں کی طرف نشاندہی کی ہے اب آنسو کی طرح ہم دیکھتے ہیں تو جو علامات بیان ہوئی ہے جو آپ صلی وسلم کی آمد کے حوالے سے ان کا ذکر کر رہے ہیں تو وہ علامات تو کبھی بھی قیامت میں اس طرح سے واقف نہیں ہوسکتے قیامت کا مفہوم تو یہ زمین و آسمان تمام کائنات کا سارا نظام درہم برہم ہو جائے گا دنیا میں واپس ختم ہو جائے گی جس سے یہ اس کا آغاز ہوا تھا کہ بالکل بھی نہیں تھا آدمی تھا تو قیامت مرضی ہے کہ وہ علامات اپنی ذات نہیں مطالبہ کر رہی ہے کہ نظام قائم ہوں اس دنیا میں بھی دنیا کا بھی اسی طرح سے جو دنیا میں ہونے والے ہیں وہ بھی تو ہم مثال کے طور پر آپ کے سامنے ہی صورت کبھی رکھتے ہیں جن کی طرف رسول حسن شادی کی ہے وہ علامات دیا جائے گا جب ستارے ماند پڑ جائیں گے اور جب پہاڑ چلائے جائیں گےچھوڑ دی جائیں گے جب وہ سیدھے کیے جائیں گے اور جب سمندر جائیں گے جب زندہ درگور کی جانے والی اپنے بارے میں پوچھیں جائے گی آخر کس گناہ کی پاداش میں قتل کی گئی ہے تو فون کر کیے جائیں گے آپ کے سامنے سورج کے یہ چند آیات رکھی ہیں جن کی طرف ہمارے آقا دوجہاں حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم نے نشاندہی کی ہے فرمایا قیامت کی علامت ہے قیامت ہمارا ایک وہ دور ہے وہ وقت ہے جب دنیا میں پھر سے آخری زمانے میں ایک روحانی انقلاب ہونا تھا اور اس سعود نے مسیح الزمان نے تو سنا تھا تو ان الزامات کے حوالے سے اکثر مکرم فضل الرحمان صاحب آپ سے درخواست کرے گا کہ آپ کے سامنے رکھی ہیں تو کچھ نہ کچھ ہوجاتا ہے لیکن بات نہیں ہوتی ہے وہ تفسیر مانگتی ہیں اور استعارے بھی ہوتے ہیں تو بسم اللہ الرحمٰن الرحیم نے پیش کی جس میں قیامت کی علامات کے ساتھ جوڑا گیا ہے کہ جب تک اگر قیامت کا تصور قیامت کب آئے گی تو حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا سانسوں کو پڑھ لیں اس کا مطلب یہ ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے قیامت کی علامات بیان فرمائی ہے اور فرمایا کہ ان صورتوں میں یہ قیامت کی علامات بیان فرمائے اور ذکر ہوا ہے اور جب یہ علامات پوری ہو جائیں تو سمجھو کے وقت قیامت کا ہے کہ قیامت کے قریب کا زمانہ ہے ایک طرف تو حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے ان الزامات کا قرب قیامت کے ساتھ ذکر فرمایا دوسری طرف جو آنے والا ہوتا ہے اس کو بھی قیامت کی نشانی بیان فرمائی ہے جیسے ابھی رانا صاحب نے فرمایا کہ کیا نکلا نتیجہ یہ نکلا کہ وہ جب آئے گا اور یہ علامات جب پوری ہو جائیگی جس زمانے میں یہ علامات پوری ہو جائیگی وہی زمانہ اس موت کا زمانہ ہوتا اب ہم میں مختصر طور پر بیان سورۃ تقویر میں بھی ہیں اور اس پر مختصر ذکر کرتا ہوں کہ اللہ تعالی نے کس طرح تیرہویں صدی کے آخر پر اور چودھویں صدی کے ظہور کا انتظار  پورا فرمایا ہے اگر یہ پیشگوئی پوری ہوگئی ہیں یقینا یہی وہ زمانہ تھا اس میں اس میں آنا تھا اور وہ یقینا چکا اللہ تعالیٰ قرآن کریم میں فرماتا ہے الشمس کورت ادر سورج کو روک دیا جائے گا اب تو ظاہری طور پر اس میں یہ پیش گوئی کی تھی کہ اس کو گرہن لگے گا جیسے کہ اگر آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی امام مہدی کی نشانی میں سورج گرہن اور چاند گرہن کا ذکر فرمایا ہے اور دوسرا اس کا روحانی بھی ہے کہ ایک زمانہ ایسا آئے گا کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی اتباع کو ترک کر دیا جائے گا لوگ اپنی اپنی رائے پر عمل کریں گے امت میں بٹ جائے گی ہر کہ اپنی سوچ کے مطابق اس دین کی تشریح کرنے لگ جائے گا اسلام کی حقیقی تعلیمات کو بھلا دیا جائے گا اور دوسرے کے معنی ہیں کہ انوار محمدیہ جو آپ صلی اللہ وسلم کو سراج منیراگر ہم غور سے دیکھیں تو وہ غلط تاویلات اور تفصیلات اور غلط مانے کرکے اور نئی بدعت کو اسلام میں شامل کر کے مسلمانوں کے ساتھ ہوتا ہے پھر اللہ تعالیٰ قرآن کریم میں دوسری اہم نقاد رکھے آمین حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے صحابہ کو بھی موم کے ساتھ مشابہت بھی ہے حقیقت میں یہ مقدار ایک ماہ تک آئیں تو آپ نے فرمایا کہ میرے صحابہ جو ہیں وہ ستاروں کی مانند ہیں اگر ان کے پیچھے بھی چمکے کیونکہ وہ ہدایت یافتہ ہے تو کبھی گمراہ نہیں ہو گے اس نے بھی یہ ایک وقت آئے گا کہ اگر اعظم صلی اللہ علیہ وسلم کی اتباع کو ترک کر دیا جائے گا وہاں صحابہ کے راستوں کو بھی چھوڑ دیا جائے گا ان کے موجودہ حالات کا ذریعہ تھے اس کے ذریعے کو بھی امت محمدیہ جو ہے اس کو بھلا بیٹھے گی پھر سے مراد مشہور پیارا یا تیزی سے علمائے کرام ہیں عمرہ ہے اس میں میں یہاں مراد ہے وہ سیاسی رہنمائی کرتے ہیں علماء جو ہیں وہ مذہبی رہنمائی کرتے ہیں تو اس دن نوجوان قدرت کا ایک معنی یہ ہوا کہ عوام کا تعلق عمر اور علماء سے کمزور ہو جائے گا علماء اور امراء کا اسلام سے جاتا رہے گا اور علماء جو ہیں جو حقیقی دین کا حصہ تھے وہ اس تعلیم کو بلا کے وہ اپنی طاقت کے مطابق اس تعلیم کا دنیا میں رائج کر دیں گے اور اس طرح سے وہ رہا کی تعلیم سے دنیا کی توجہ بڑھ جائے گی اسی طرح امراء ہے آج ہم ان دونوں باتوں کو دیکھتے ہیں کہ دنیاوی حکمران ہیں مسلمان ممالک کے آج کتنے ممالک میں ہونے کے باوجود مسلمانوں کی کوئی طاقت نہیں ہے کسی علم عطا ہے ہر ملک میں ہزاروں لاکھوں علماء ملیں گے لیکن ایک بھی ایسا عالم عالم اسلام میں ایک ایسا علم نہیں ہے رسول حضرت مسیح موعود کی جماعت کے تمام طبقات کے حقوق ٹھاکر دے پھر ان قدرت کے مطلب اپنا سر رکھ دی ہے کہ اس زمانے کے اندر شہاب ثاقب گرنے سے گری گے یہ بھی 1885 میں بڑی عظیم اور بڑی واضح طور پر یہ پیشگوئی پوری ہو چکی ہے پھر آپ نے کہا اللہ تعالی مرحوم کے پہاڑ چلائے جائیں گے ایک وقت ایسا آئے گا تو پہاڑوں کو کاٹ کے راستے بنائے جائیں گے اور یہ ہم دیکھتے ہیں کہ جس طرح دنیا کو ملانے کے لیے سڑکیں ہیں سڑکوں کے جال بچھائے گئے ہیں اور جو جدید ذرائع کے ذریعے راستے بنائے گئے اس کی مثال تیری تسبیح میں نہیں ملتی تو پھر اللہ تعالی فرماتا ہے اور اب میں ہماری اور غذا یہ دونوں چیزیں ان سے وابستہ تھیں اس میں پیش ہوئے تھی ایک ایسا زمانہ آئے گا کہ ان تک لے جائیں گے اس سے زیادہ اچھی سواری نکل آئیں گی اور وہ جو دوسروں کے اوپر بھروسہ کرتے ہیں ان کو چھوڑ دیا جائے گا اس سے بہتر کروایا جائے گی ان شاء اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے پرانے علیہ وسلم نے فرمایا جس طرح کوئی القلاص فلا اثم علیہ ان کہانیوں کو چھوڑ دیا جائے گا کر دیا جائے گا تو آج ہم دیکھتے ہیں کہ آج دوسروں کی وہ اہمیت ہی نہیں جو آج سے چودہ سو سال پہلے یہ بھی اک تشنگی عظیم الشان پیشگوئی ہے یہ پوری ہو چکی ہے اور آج تمام دنیا میں جو وسائل الحسن کا استعمال کر رہے ہیں یہ اس بات کی شاہد اور گواہی دے رہے ہیں یہی وہ زمانہ ہے فائدہ شعرالعجم کی پیشگوئی کا پورا ہونے کا پھر اللہ تعالی فرماتا ہے دل وحشی رہا تھا ایک وقت آئے گا کہ جیسی جانوروں کو اکٹھا کر دیا جائے گا یہ بھی چوتھی صدی میں پوری ہو چکی ہے کہ آج دنیا میں جتنے چڑیا گھر بنائے گئے ہیں پھر جانوروں کی صحت کے لیے 10 سنٹر قائم کیے گئے ہیں پھر اس کے علاوہ تمام دنیا میں آپ کو ایک ملک ایسا نہیں جس میں جانوروں کو مختلف دنیا کے جانوروں کو ایک جگہ اکٹھا کیا گیا ہے یہیہ بھی تجویز دی اور چوتھی صدی کے آخر میں آغاز میں یہ متعارف کرائی گئی ہے جسے آج ہم دیکھتے ہیں کہ جس طرح مطبقانی تمام دنیا میں آج کا اخبار اور رسائل اور کتابوں کا مفت تبادل نشر کی گئی ہیں یہ بھی پہلی صدی کے آخر پر نصیب ہوسکے تو اسلام کے زمانے میں بڑی شان کے ساتھ کی پیشگوئی پوری ہوئی اور آج ہم دیکھ رہے ہیں کہ جتنا لائبریریوں کا قیام اور پڑھنے لکھنے کا رواج ہے اور اسی طرح آج سے ہزاروں سال پہلے کی تحریریں ہیں ان کے ریسرچ سینٹر قائم کیا گیا ہے کہ انسانی کے ساتھ ان تحریروں کا بھی پتہ لگا سکتا ہے پھر میں عزت اور شہرت کے جو آسمانی علوم ہیں وہ تمام دنیا کے سامنے پیش کردیئے جائیں گے آج آپ دیکھ لیں موسمیات بارش سے یہ دنیا کے جتنے بھی انسان چاند تک پہنچ گیا ان تمام آسمانی علوم ہے یہ بھی ہم اپنی زندگیوں میں دیکھ رہے ہیں کہ کس طرح اس چودھویں صدی میں مکمل طور پر ہمارے سامنے جس طرح آج روس میں فرق دیکھئے اس کی مثال چالیس سالوں میں نہیں ملتی یہ ایک ایک آیت جو ہے یہ اس بات کی گواہی دے رہی ہے کہ یہی وہ زمانہ ہے جو اس کا زمانہ ہے اور وہاں چکا جس نے آنا تھا اس کا انتظار کرنا حقیقت میں افسوس کی بات ہے اللہ تعالی نے بالکل واضح بتا دیا ہے ٹھیک ہے فیض صاحب بہت بہت شکریہ اس میں حقیقت تو یہ ہے کہ جن جن آیات کی طرف آپ نے بھی نشاندہی کی ہے یہ اپنی ذات میں ایک ایسی عظیم الشان پیشگویئ ہیں آپ سے بات ہو سکتی ہے لیکن ہمارے پروگرام میں شراب پی لے کر وہ سارے پہلو اپنے ساتھیوں سے ناظرین لیکن اسلام نے جس حد تک نشاندہی کی ہے تو اسی روز روشن کی طرح عیاں ہوتی ہے کہ کس طرح سے اللہ تعالی کے کلام میں آج کے زمانے کے متعلق خبر دی گئی ہیں اسے رسول کے فرزند قیامت کا نام دے رہے ہیں اور قیامت کے حوالے سے فرماتے ہیں کہ اسی زمانے میں اس کی حمایت دینے تشریف لانا ہے کے مطابق ظہور پذیر ہو گئے ہیں تو تو ہم آگے چلتے ہیں یہاں پر ہمارے ساتھ ایک کال بھی ساتھ شامل ہو گئی ہیں مگر محمد حسن صاحب ہیں جن میں سے اٹھا لے لیتے ہیں محمد السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ الحمد سے اور حدیث کی رو سے بھی مجھے بتا دیں کہ آپ پروگرام ہے وہ اس وقت یوں بھی اپلوڈ ہو چکا ہے اب میں بالکل اسی بات کے حوالے سے آپ کے سوال کے حوالے سے میں بہت تفصیل سے بات کی ہے تو کائنڈلی آپ کو ایک مرتبہ دیکھ لیں تو وہاں پر اگر مزید کوئی سوال اٹھتا ہوں تو پھر آپ کیجئے گا ہم کو اس کو یہاں سے برا نہ جائیں گے جی جی اور پھر سوال آپ کا بہت شکر شبیر حسین صاحبزادہ اسلام علیکم رحمت اللہ تو ہم یہاں سے آگے چلتے ہیں بلکہ رانا صاحب آپ سے خاکسار یہ درخواست کرے گا کہ ابھی لکھیں جس کی آیت شمس کورت کے حوالے سے بات چیت کی اور یہ سورج ہے آپ کی ذات ہے اسی صورت سے مسلمان ہوئے ہیں قرآن مجید بلکہ بڑے واضح الفاظ سے یہ آیت میں مذکور ہے کہ یارب ان قومی اتخذوا ہذا القرآن مہجورا کے یا اللہ اس امت میں آنے والے ہونگے وہ کہیں گے کہ میری قوم میں توانا مجھے اس کو چھوڑ دیا ہے مہجور کی طرح بالکل چھوڑ دیا اس پر توجہ نہیں کر سکتے تو زبان میں تمہیں پتا ہے صحابہ کس طرح سے کون جیتا عشق سے ایک حکم کے پیچھے چلتے تھے بلکہ ایسے احکامات کی آمد پر جاری کرتی ہے کہ دوسرے سے پورا دن معلوم صحابی تھے جو کہتے تھے کہ میری کوشش ہےاسے نشان کے اس دیس کے حوالے سے اور کس طرح سے یہ نشاندہی سورج چاند گرہن کا مسئلہ میں بھی کی صداقت کے بجائے ہوا آپ بتائیں کیا کرنا ہے ابھی اس وقت تکبیر کا تذکرہ ہوا کہ اللہ تعالی سے مراد یہ ہے کہ ایک ٹائم آئے گا جب موت کھڑی ہو گئی اور سورج کو لپیٹ دیا جائے گا اس میں بیٹھنے کی تشریح کیا ہے کچھ تو احادیث میں اس طرف بھی اشارہ موجود ہیں ابن عباس رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ ابو ہریرہ کہتے ہیں کہ جب تک آ جائے گا روشنی کم ہو جائے گی آئے گی آئے گی آئے گا یہ بات تو صرف ہم نہیں کہہ رہا ہے اس کا تذکرہ تو باقاعدہ طور پر قرآن کریم میں بھی موجود ہے کہ سورج گرہن ہونا ہے اور وہ قیامت سے قیامت کا انتظار کر  بچے ہیں کہ موت گاڑیوں کے ایک نام ہے قیامت قرآن کریم میں موجود ہے اس میں اس بات کی طرف اشارہ کیا گیا ہے کہ ایک وقت آئے گا جب انسان بھی سوال کرے گا کہ کیا ہوا کیسے ہوا مساجد والا ترانہ ما تا ہے یا سلوا یوم القیامۃ کے انسان سے سوال کرتا ہے کہ قیامت کب آئے گی یہ نہیں فرمایا کہ کیسے آئے گی بلکہ نا کب آئے گی جب انسانی آنکھ حیران ہو جائے گی یعنی ایسے عجیب و غریب حالات رونما ہوں گے پھر کیا ہوگا اپنا رخ اس فعل کا معروف چاند کو گرہن لگے گا ساتھ ہی فرمایا باجماعت شمس المعروف سورج اور چاند کو اکٹھا کر دیا جائے گا یہ پہلی نشانی چاند ڈالی تھی چاند کو گرہن لگے گا جب سورج چاند کو اکٹھا کیا جائے اور چاند گرہن لگے گا اور سورج گرہن لگے گا اس دن انسان کے کہے گا یہ قول انسان یومئذ این المفر کے اب میرے لیے بھاگ کر اس واضح نشانات کی موجودگی کے باوجود دائیں بائیں ہونے کی کوئی گنجائش موجود نہیں ہے حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے اس آیت کی تشریح فرمائی ہے کیونکہ اس آیت میں یہ نہیں بتایا گیا کہ کیا جائے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے آنے والے موعود کی نشانیاں بیان کی بہن علیمہ دیا جاتا ہے کہ ہمارے امام کے لیے دوائی نشانیاں ہیں جو مجھ کو پیدا کیا کبھی بھی پوری نہیں ہوئی کبھی بھی ذہنی طور پر نشان زد کیا گیا تین رمضان ہم کہ رمضان کے وہ موجود نہیں جن دنوں میں چاند گرہن لگتا ہے ان میں سے پہلے دن اس کو چاند گرہن ہوگا رومن ہوئی اور چاند گرہن سورج گرہن کے ایام میں سے درمیانی دن میں سورج گرہن ہوگا میرا قلم تو نہ ملا کر کے جب سے اللہ تعالی نے آسمانوں اور زمین کو پیدا کیا ایسا کبھی رونما نہیں ہوا چاند گرہن اور سورج گرہن نہ ہوگا بلکہ جب کہ اگر پہلے بھی ہوتے رہے ہیں لیکن اس حدیث میں جو دارقطنی کی حدیث ہے اس میں حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک سکتے لیکن جو ہمارا امام مہدی ہے اس کی نشانی ہے نمبر دو اس کے دور میں رمضان میں چاند گرہن اور سورج گرہن ہوگا نمبر تین چاند کی پہلی رات کو گا سورج گرہن جو سورہ کے نام ان کے درمیانی رات کو ہو گا جب مناقبت انگلش دوست کہہ دیا کرتے ہیںدور تو بکثرت لوگوں نے مسیح موعود علیہ السلام سے بھی اس بات کا مطالبہ کیا گیا اگر آپ سچے مسیحی سچے مہدی ہیں تو آپ کے لیے سورج اور چاند کا گرہن ہونا چاہیے جو چاند گرہن ہے وہ چاند کی راتوں میں 13 14 اور 15 کو ہوتا ہے اور جو سورج گرہن ہے وہ چاند کے مہینے کی 27 28 29 تاریخ کو ہوتا ہے یہ ایک درجن سے زائد کتابیں ایسی ہیں جن میں اس کی تفصیل لکھی ہوئی ہے کہ ان ایام میں ہی چاند گرہن اور سورج گرہن ہوتا ہے کہ جب سورج گرہن کا یہ عالم ہے تو ان ایام میں چاند سورج اور زمین کیسی ایک لائن میں ہوتے ہیں جس کی وجہ سے چاند گرہن اور چاند گرہن ہوتا ہے کہ جب زمین گردش کرتی ہے یا سورج اور چاند کے درمیان آجائے اور سورج کی ڈائری روشنی چاند پر نہ پڑے تو جانوں جاتا ہے اور جب صرف ہر مہینے کی ممکنہ طور پر سال میں چار دفعہ ہو سکتا ہے  ہے یہ ہے کہ سورج اور زمین کے درمیان گردش کرتا ہوں اور جب چاند ہو جاتا ہے جی میں تو آپ سال میں چار مرتبہ ہو سکتا ہے تو اس وقت سورج کی روشنی زمین پر نہیں پڑتی تھی وہاں سورج گرہن ہو جاتا ہے مسیح موعود علیہ السلام کی حیات میں دو دفعہ نشان پورا ہوا ہے 1894 میں جو ایشیا تھا اس طرف سے چاند گرہن اور سورج گرہن کا نشان کو رمضان کے مہینے میں اور 1895 میں جو امریکہ اور اس جگہ سے ہوا ہے وہ ہیں جنہوں نے فوری طور پر تاریخوں کا بتایا ہوا ہے صرف اس وقت موقع کی مناسبت سے ایک حوالہ میں پڑھتا ہوں ہمارے برصغیر میں پنجابی شاعر گزرے ہیں حافظ لکھو کے والے انہوں نے ایک حیات اخرت احوال آخرت کے نام سے ایک کتاب لکھی ہے ہے اس میں وہ لکھتے ہیں تیرہ سو برس جس کی پیشگوئی فرمائی دیر میں چند 28 سورج گرہن 29 تاریخ ا سرورعالم خود قاصر ہوں ماہ رمضان مہینے اندرج سب واقعہ موسی و امام محمد مہدی ظاہر 800cc حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے خود میں نے بولا اس سے پہلے والے لوگ ہیں جو خود بتا رہے ہیں کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام جامع مسجد ظاہر ہو گا تو اس وقت بھی کو چاند گرہن لگے گا اور 28 مئی کو جانا 27 28 29 کی درمیانی رات اٹھائیس کو سورج گرہن لگے گا اور اسلام کے دور میں یہ نشان پورا ہوا جس طرح کہہ دینا آفتاب آمد دلیل آفتاب کہ جب چاند چڑھا کے سامنے آجاتا ہے تو وہ دلیل ہوا کرتی ہے کہ چاند نظر آگیا ہے ہے اسی طرح سورج کے متعلق بھی کہا جاتا ہے اس کے شروع میں سورہ نمل کی آیت آپ کے ساتھ بیان کی تھی کہ رہی ہیں اللہ تعالی تمہیں بتاتا چلا جائے گا کہ جب وہ پورے ہوں گے نہ تعارف و نہار پھر تم کو واضح طور پر پہچان لوگ ان تو یہی ہوا جب حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے بارے میں ایک پیش گوئی تھی اس نے ظاہر ہو کر بتا دیا کہ یہ اصل یوم القیامہ جب حشر برپا ہو جائے وہ نہیں بلکہ محمود امام مہدی ہے اس کی نشانی تھی وہ ظاہر ہوچکی تھی کہ مجھے صاحب بہت بہت شکریہ جزاک اللہ بات کر سکتی سے ایسے لوگ بھی ہمیشہ ملتے ہیں اور آئندہ بھی ملتے رہیں گے جو خدا تعالی کے اتنے صاف ظاہر نشانوں کو جس میں انسان کا دخل بھی شامل نہیں ہے بلکہ ایسا نشان جو آسانی سے تعلق رکھتا ہے اور زمین میں کوئی کاروبار کوئی کام ہوتا تو انسان کر لیتا ہے اسلام کی آمد کے وقت میںمیاں صاحب ہیں عبدالرشید صاحب ہیں تو یہ بتاؤ صدیق صاحب ناصر صاحب مقصود مبارک مبارک طارق صاحب ناصر صاحب سے تو نازل جیسا کہ آپ جانتے ہیں ہمارے معاشرے میں سارے سوال تو نہیں لے سکتے لیکن خان صاحب کوشش کرتا ہے کہ کس حد تک موجود سے ریلیٹڈ ان کو ترجیح دی جائے اس سے اوپر آج کا سوال ہے آپ سے درخواست کروں گا کہ وہ پوچھ رہے ہیں کہ ہم وسلم مکہ میں مبعوث ہوئے مگر امام مہدی کیوں انڈیا میں ظاہر ہوئے تو اس کی تفصیل ہے یہ چاہیے تھا کہ وہ بچپن میں یہ پوچھ رہے تھے دراصل یہ تو اللہ تعالی کا کام ہے کہ کس کو کہا پر محدود کرنا ہے جس طرح جب ہم دیکھتے ہیں آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی احادیث میں اس میں ہمیں یہ نظر آتا ہے کہ اس ملک میں اصل میں اسی اسی علاقے میں ہی آنا تھا اب اگر دیکھا جائے تو ہندو واحد جگہ تھی جہاں تمام دنیا کے بڑے مذاہب اس وقت موجود تھے جن کی آپس میں بحث و تکرار ہے پھر بھی صدیق اکبر ہوں اور نہ صرف دنیا کے تمام عالمی مذاہب موجود تھے بلکہ مسلمانوں کے جو پھرتے تھے وہ بھی تمام میرا گھر ہندوستان تھا تو وہی آتا ہے جہاں پر بیمار ہوں دیکھا جائے تو سب سے بیماری جو روحانی بیماریوں ہندوستان میں ہوئی تھی پھر آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے حیوانات کے بارے میں شعر اس علاقے کے بارے میں بعض احادیث میں ذکر ملتا ہے مثلا صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا  اس کا مطلب یہ نہیں ہے کہ بھی نہیں ہے کہ وہ جو ماحول ہے مسیح بن مریم وہ کے مشرق میں آئے گا جب ہم جغرافیہ میں یہ چیز دیکھتے ہیں تو یہ بالکل ہندوستان کا علاقہ بنتا ہے قادیانی بنتا ہے جس میں حضرت مسیح موعود علیہ السلام آئے اگر ہم بغیر دیکھے تو جو انہیں مقررین نے اس بات کا ذکر کیا ہے اور کیا کہ مسیح کے ایک سے زیادہ لوگوں کا ذکر ملتا ہے جو ملتے ہیں تو کیا حضرت ایک حدیث کو لے کے کیا دوسری حدیث کو جھٹلایا جاسکتا ہے ایک سے زائد نام بھی آتے ہیں کہ مسیح تمنا عمادی کے کی طرح ایک سے زیادہ جیسے کہ مکہ میں نازل ہوگا پھر بدمعاش میں نازل ہوگا پھر میں بھی آپ سے عرض کیا کہ وہ عصر کی نماز ظہر ہوں گے اسی طرح انسان صلی اللہ علیہ وسلم کی ایک حدیث ہے یا نہیں جون حسن مشرک کے پیچھے نماز بھی ہے یعنی یہ حدیث بحار الانوار میں ذکر آیا ہے اس کی تھی اس نے فرمایا کہ مشرکوں سے ایسے لوگ ملیں گے جو مہدی کے لیے جگہ بتاۓ گے جو ان کا بادشاہ ہوگا کہ اس کی تائید کریں گے اس کے کام میں مدد کریں گے تو جہاں میں بھی ہوگا وہاں سے لوگ اس کی تائید کریں گے اس کی مدد کریں گے پھر اسی طرح مسند احمد بن حنبل میں ایک حدیث ہے کہ اللہ نے فرمایا کہ میری امت کے دو گروہ ہیں ان کو خدا تعالیٰ نے آگ سے آزاد کر دیا ہے ان میں سے ایک گروہ ہے جو ہندوستان میں جہاد کرے گا اور عیسی علیہ الصلاۃ والسلام کے ساتھ ہوگا اب اس حدیث میں بھی دراصل ہندوستان میں ہونے والی دو جماعتوں کا ذکر ہے اسی طرح حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے جو سورج ماں کی تشریح فرمائی وآخرین منہم لما یلحقوا بہم کی تشریح حضور نے فرمایا بخاری میں جس کا ذکر ہے اس کے کندھے پر ہاتھ رکھا اس میں یہ پیش گوئی نہیں تھی کہ وہ جو کھانے والا موت ہوگا وہ عربوں سے نہیں ہوگا وہ عجم سے ہوگا وہ باقیوں نسل ہوگا یا عجم سے عربوں کے بارے میں ہوگا یہ بھی ایک پیش گوئی کی تھی کہ وہ آنے والا ہوں جو ہے وہ تو خیر کو موٹا ہوگا نہیں ہوگا جس طرح کہ حضرت سلیمان فارسی جو ہے ان کا تعلق بھا رت سے تھا اور بھی بہت ساری احادیث جو ہے وہ بھی بیان کی گئی ہیں صرف ایک جواہر الاسرار میں ایک روایت ملتی ہے کہ یاسر المہدی من قریۃ یقال حق دا امام مہدی جو ہے وہ ایک بستی سے نکلے گا جس کو کہتے ہیں اور اسی طرح ایک روایت میں مہدی کا احسان ہے احسان پیدا ہو گا کہ میں نے بتایا کہ بہت ساری اس طرح کی روایتیں ملتی ہیں کہ جس کے اردو اشارہ کرتی ہیں کہ اس معاملے میں اصل میں مشرق میں بھی آنا تھا ہندوستان کے علاقے میں ہی آنا تھا اور جیسے کہ میں نے بتایا کہ اگر ہم ان جگہوں کے بارے میں دیکھیں تو وہ تو پھر پانچ سے چھاور لاکھوں کی تعداد میں مسلمانوں کو عیسائی بنایا جارہا تھا تو وہی میدان میں تھا اور انصار نے بھی اسی میدان جنگ میں آنا تھا بہت بہت شکریہ آپ نے شیخ صاحب جو انڈیا سے ہی ان کے سوال کا بھی آپ نے جواب دے دیا وہ یہ پوچھتے ہیں کہ میں مدینے پیدا ہونگے ایک حدیث حوالہ دیتے ہیں تو نہیں حقیقت تو یہ ہے کہ امام مہدی کے متعلق اتنی سی روایات ملتی ہیں اور اگر ان سب روایات کو تسلیم کیا جائے تو وہ دوسروں کو دوسرے کوئی مختصر بیانات اس میں موجود ہیں بہت سی ایسی روایات ہیں جو اب اگر کو من و عن قبول کریں گے تو آپ کو دوسری روایات کو ان کو رد کرنا پڑے گا تو جانبداری کا اور ایک مہمان طریقہ یہ ہے کہ جب کہ خدا تعالیٰ کی طرف سے آتا ہے وہ جو نشانات اپنے ساتھ لاتا ہے جو ہیں اور بے شمار کے مطابق ظاہری طور پر نظر دکھائی بھی دے رہی ہوتی ہیں تو انسان کو قبول کرلیتا ہے پھر اس سے پھر ان کے جوابات دل کرتا ہے کہ وہ چیزیں جو اس طرح سے کیا تاویلات ہیں تو ہم آگے چلتے ہیں ہمارے ساتھ اس وقت نہیں اس وقت ایک دوست ہیں مقصود صاحب جن سے وہ کال کرنا چاہتے ہیں سوال کرنا چاہتے ہیں تم نکال لیتے ہیں مثال ایک نعمت اللہ صاحب جناب آپ سنائیں کیا حال ہے آپ کا تعلق اسی موضوع چکے ہیں اور یہ جو پہاڑوں کا چلنا جو بھی سورج گرہن و چاند گرہن لگنا سبب ہو چکے ہیں پھر بھی نہیں دوست جب تک کہ ہم آ جائیں گے قیامت کا نیا خبر ہاں جی آپ کا سوال پیدا ہوتا ہے کہ آپ ہمارے پروگرام تھوڑا سا لیٹ ان کی ہے ہم نے بالکل اسی سوال کے ساتھ ان کے پروگرام کا آغاز کیا تھا کہ آنے والے مسیح کے متعلق جو قیامت کا ذکر آتا ہے کہ قیامت آنے چاہیے تھی ہماری غزل مسلموں تشریف لے آئے تو قیامت کا ہے تو اس کا جواب دیا گیا بعد میں نہیں ہوتا ہے تاہم اس کو بلند فرما لیجئے گا مجھ سے کیا مراد نہیں ہے جو کہ ہمیں برا ہے یہ وہ روحانی انقلاب ہے جو اسی دور میں یہ وسلم تشریف لائے تو وہ بھی قیامت کا نام ذکر ہوا تھا اور قیامت میں واقع ہوا تھا تو وہی انقلاب مصلح موعود علیہ السلام کے زمانے سے علامات ظاہر ہونا شروع ہوگئی ہیں اب بھی پوری ہو رہی ہے اور آئی لو یو بڑی شان کے ساتھ مختلف انداز میں اداکاری کرکے دکھا رہے گا سکھا رہا ہے اور آئندہ سال جنوری سے وہ مجھے دن کے حوالے سے جانا چاہتی ہیں کہ ان کے نام کیا ہیں جو ہنس رہا تھا مگر چوتھی صدی کے مجدد ہم تصور اس سے پہلے مجھے دن گزرے ہیں سارے نام تو اس طرف سے ایک امر پر اتفاق بھی نہیں ہے لیکن باہر جن کے متعلق ایک سے زائد ہو چکی ہوتی ہے لوگوں کی یہ مسجد ہے اگر آپ اس کی مختلف کتب میں موجود ہے مثال کے طور پر ہمارے برصغیر میں مشہور اہلحدیث عالم نواب صدیق حسن خان کی کتاب لکھی ہے اس میں انہوں نے بیان کی ہے کہ تیرا پہلے صدیوں کے مجددین فلاحی تو باقی سب نے بھی کہا کہ اس بارے میں بھی اتفاق نہیں ہر جگہ بھی ایک ہی مدد 11 میں ہوگا ایک سے زائد موجود ہوں گے کے بارے میں ایک سے زائدحضرت امام ابن عربی رحمہ اللہ کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ وہ بھی موجود ہیں کہ آٹھویں صدی میں اس کا نام لیا جاتا ہے کہ وہ مدت سے اسی طرح شمس الدین ابو عبداللہ محمد بن ابی بکر کو بھی محمد کا نام دیا گیا ہے نظریں میں حضرت امام ابن حجر عسقلانی مشہور شاعر بخاری ہیں ان کا نام لیا جاتا ہے کہ وہ نویں صدی کے مجدد تھے امام جلال الدین سیوطی رحمہ اللہ کا نام سے مشھور شیخ احمد فاروقی سرہندی سرہندی کا نام ہے کے طور پر لیا جاتا ہے تیری وادی میں حضرت سید احمد شہید بریلوی رحمہ اللہ کو بھی مد نظر رکھا گیا ہے اسی طرح ابن سید محمد عرفان جو ایک اللہ تعالی کی نصرت سے ان کو بھی کہا گیا ہے حضرت عثمان ڈان نیوز ٹی وی کا طریقہ کرنے والی قوم کے لیے مددگار لفظ ہماری تو ایک سے زائد ایسے مناتے رہیں مجید ساری دنیا کے لیے تو نہیں تھا یہ کیوں نہیں ہوتا ہر علاقے کا علاج بھی ہو سکتا ہے کہ علماء نے لکھا ہے کہ تیرے بارے ٹھیک ہے بالکل ہی اسے ایک چیز کا یہ بھی اندازہ ہوتا ہے کہ دی قسمت میں پہلے مجھے دینا پسند نہیں جاتا ہے لوگوں کو تسلیم بھی کرتے رہے اور ان کا نام بھی اس طرح کے ہیں کہ ہم آٹھ سے اپنے دور میں بھی روشنی حاصل کرتے تھے اور ویسے بھی آپ دیکھتے ہیں کہ خدا تعالیٰ کی طرف سے کسی حد تک ہدایت پانے والے تھے اور لوگوں تک بھی وہ قرآن مجید کی صحیح تعلیم پر جاتے تھے لیکن کبھی صدی میں ہمیں آگے یہ سلسلہ ختم ہوتا ہوا نظر آ رہا ہے صرف ایک جگہ یہ سلسلہ شروع ہوا ہے وہ جو خاتم الخلفاء تھا میں نے آنا تھا جو مجھ سے موت کے لقب کے ساتھ اور آپ کی امی روحانی طور پر آپ کے سامنے ایک لحاظ سے کیسا ہے اور آپ تشریف لائے اور یہ سلسلہ بھی شروع ہوا  ہوا اور دوسری طرف مجاہدین کی ضرورت ختم ہوگی آپ خفا ہیں جو اللہ تعالی کے فضل سے آج موسم کی پیشن گوئی کے مطابق آپ نے جو قیامت تک رہے گا ان شاء اللہ تعالی ہمارے یہاں پر آگے چلتے ہیں میں فضل اللہ صاحب ایک خاکسار کو ٹکٹ مل گیا تھا اس لئے آپ سے بات کرنا چاہتا تھا آپ نے ایک سورت کی آیات صحابہ کا بھی ذکر کیا اور جو لوگ تھے جو لوگوں کے لئے اپنے اپنے طور پر بھی روشنی دینے والے کا نام کیا تھا ایک پہلو یہ بھی ہے کہ علماء ہے وہ بھی اپنے اپنے دائرے میں یہ کام سرانجام دیتے ہیں ان کا ماننا رسول کی سنت یا حدیث میں بہت ہی اہم سخت الفاظ سے اور ایک ایسے ایسے الفاظ جس پر کھڑے ہو جاتے ہیں اور وہاں ڈنگ امت کو دی جاتی ہے کہ ایک وقت آئے گا کہ جو امت میں جمع ہوں گے گے ان سے مل جائیں تو ملے وہ فتنہ اور خرابی ہوگی اور اسلام کے خلاف یہ سب کچھ ہوگا تعلیمات ہوگی تو آپ اس کے حوالے سے ہمارے سامنے لا کر رکھ دیں نے آنے والے موسم کی علامات بیان فرمائی ہیں ان میں سے ایک علامت امت کے گرنے اور علماء کے بگڑنے کا ذکر فرمایا ہے آپ نے ایک طرف تو فرمایا علماء امتی کانبیاء بنی اسراءیل اور دوسری طرف فرمایا علماء کا حکم دیا کہ اس زمانے کے وہ علماء جو میری شریعت میں لائی ہوئی تعلیم کو بگاڑ دیں گے ان کا میرے ساتھ کوئی تعلق نہیں ہوگا حضرت علی کی ایک روایت ہے فرماتے ہیں کہ قال رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ما کوا یا ایھا الناس زمان لا یبقیٰ من الاسلام الا اسمہان کے مولوی سب سے بڑے فتنہ گر اور فتنوں کے مالک ہوں گے یہ اہل حدیث کا ترجمہ ہیں اسی طرح مولوی ثناء اللہ امرتسری صاحب کو نہیں جانتے ہیں جماعت کے بڑے مخالف ہیں وہ اس زمانے کے علماء کے بارے میں فرماتے ہیں جتنی رسولوں میں شرکیہ اور مسلمانوں میں آجکل ہو رہی ہے وہ مولا ہیں کہ مہربانی کا اثر ہے شرم شرم شرم اور علمائے اچھا ایک اور اہل حدیث کے بہت بڑے لیڈر ہے نورالحسن خان صاحب وہ اس حدیث کا ترجمہ کرتے ہوئے فرماتے ہیں کہ اب اسلام کا صرف نام قرآن کا فتنہ نقش باقی رہ گیا ہے مسجد ظاہر میں تو آباد ہیں لیکن ہدایت کے بالکل ویران ہیں علماء اس امت کے بدترین بحران سے ہیں انہی سے کتنے نکلتے ہیں اور انہی کے اندر پھر کیا جائے پھر کیے جاتے ہیں اس کتاب میں انہوں نے یہ ترجمہ اس حدیث کا کیا ہے آج ایک اور جگہ فرمایا کنز العمال کی حدیث ہے کہ دونوں کی امتیازات نبوی علامہ ابن حزم کہ میری امت میں ایک ایسا وقت بھی آئے گا کہ وہ آپس میں ان کی لڑائیاں ہوں گی کھڑے ہوں گے وہ اپنے علماء کا رخ کریں گے لیکن علماء کی کیا حالت ہوگی وہ پندرہ کی طرح ہوں گے ان کی نقالی کریں گے وہ اصل چیز کو بھلا بیٹھیں گے اسی طرح اگر آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی ایک اور حدیث ہے بخاری کی جس میں حضور صل وسلم نے فرمایا کہ وہ جو علماء کے فتوے سے علم چلا جاتا ہے اس کے بعد لوگ جاہلوں کے پاس جاتے ہیں ان سے پوچھتی ہے اور وہ بغیر علم کے فتویٰ دیتا ہے اور وہ خود بھی گمراہ ہوتے ہیں اور دوسروں کو بھی گمراہ کر کرتے ہیں اب اگر سب کچھ یہ ہے کہ آج کے زمانے میں بہتر کرے تو کیا ہر فرقہ دوسرے فرقے کے علماء کے بارے میں بتا دیجئے افضل صاحب بالکل درست بات آپ نے بالکل ٹھیک فرمایا تو میں ہاں میں ناظرین اس نقشہ آپ نے بھی سنا اور ابھی جو منظر دنیا میں نظر آرہا ہے جس طرح کہ وہ لمحے وہ کسی سے مخفی نہیں ہے کہ وہ کیا کر رہے ہیں ہمارے پروگرام کا وقت ختم ہوچکا ہے تو انشاءاللہ ہم اگلے ہفتے پھانسی براہ راست میں حاضر ہوں گے تب تک کے لئے السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ ہم تو ہم تو

Loading

Leave a Reply