Ahmadi Muslim VideoTube Friday Sermon,Friday Sermon Khalifa IV Friday Sermon – Khalifa IV – 13-04-1984

Friday Sermon – Khalifa IV – 13-04-1984



Friday Sermon – Khalifa IV – 13-04-1984

خطبہ جمعہ خلیفۃ المسیح الخامس مرزا طاہر احمد

عاشورا با اللہ محمد رسول اللہ اللہ ھما بعد فاعوذ باللہ من الشیطٰن الرجیم یوم مصلح اللہ الرحمن الرحیم الحمدللہ رب العالمین آمین اللہ الرحمن الرحیم گانا یار گانہ سراوان الصطفی دفعات النبی منانا عنوان تعلیم ہم محبوب الہی نسیم میں نعرہ مستانہ نور پر سلام اللہ ھما سواری مولا صلی اللہ علیہ وسلم بلال حیات موسم والوں سے نعت مبشر صاحب سونگ مصیبت والا البینہ السلام سے بدون آلود ناللہ وانا الیہ راجعون قول علیہ السلام و علیکم من ربکم ورحمۃ اول الامر من قبل ومن بعد ورحمۃ اللہ و اعلموا انسان کے مقدر میں میں خوف بھی ہے اور بھوک بھی ہے اور اعمال کا نقصان بھی ہے اور جانوں اور پھلوں کا نقصان بھی ہے ہے اور اس کا مذہب سے کوئی تعلق نہیں نہیں کوئی انسان مذہبی ہوں یا غیر مذہبی خدا پر ایمان رکھنے والا ہو یا دہریہ ہوں مادہ پرست ہوں یا روحانیت کا قائل ہوں اس کی زندگی میں یہ ساری چیزیں ہیں اس کے ساتھ لگی ہوئی ہےانسان کو گھیرے ہوئے ہیں ہیں لیکن ہر خوف سے بہتر وہ خوف ہے جو خدا کی خاطر انسان برائے کیا جائے آئے کوئی اور خوف کا مقابلہ نہیں کر سکتا کتا کیسے تو ایسے ہی بد قسمت میں بھی ہوتی ہیں جو خود اپنے بچوں کو کھلاتی ہیں اور ان دیکھی چیزوں کا خوف دلاتی ہے ہے بعض بچے بھی جا رہے ہیں جن میں بھٹو کے تصور میں ڈرتے ڈرتے اپنا بچپن گزارا کرتے ہیں اور ایسا خوف سے دہلی کے بڑے ہوتے ہیں کہ ساری زندگی ہوئے ہیں ان کے بادشاہ ہیں جن کو یہ خوف ہے کہ کسی وقت ہمارا تک نہ دیا جائے دوسری حکومتوں کا خوف کھا رہی ہیں بعض تصاویر نظام بعد دوسرے نظاموں کا خوف کر رہے ہیں ہیں تو خوف سے تو کوئی ممبران ہیں نہیں ناممکن ہے کہ انسان خوف کے بغیر زندگی گزار سکے کے مگر قرآن کریم ایک ایسے خوف کر ذکر فرماتا ہے انسان کا کوئی قصور نہ ہو ہو کوئی اس کی خواہش نہ ہو ہو جو کسی دوسرے کی خواہش پر پردہ ڈالنے والی علی کوئی اس کی حرص نہ ہو جس کے نتیجے میں کسی غیر کا نقصان ہوتا ہوں کوئی علاقہ فتح کرنے کی تمنا نہ ہو ہو کوئی جبر اور حکومت کی تمنا کے دل میں نہ ہو کوئی مراد ایسی نہ ہو جو دوسرے کی مراد سے ٹکراتی ہو بلکہ خالص پن کے لیے انسان کسی دوسرے انسان کو کوئی خوف نہ ہو وہ جب غیروں سے سے ایسے حالات دیکھ سکتا ہے ایسے بتا دیں اس کو نظر آتے ہیں کہ ان کے نتیجے میں بظاہر اس کے دل میں خوف پیدا ہونا چاہیے آئے کسی خصور کے نتیجے میں نہیں نہیں بلکہ اصل حقیقت اپنی بات نیکیوں کے نتیجے میں اس کو خوف لاحق ہو جاتا ہے غیروں سے سے کیسے خوف خدا ذکر فرماتا ہے کہ یہ خوف محض اللہ کی خاطر اس پر آئے کیا گیا یا کیسے خوفناک خوشخبری کے طور پر پیش کرتا ہے ہے ڈرامے کے طور پر نہیں کر کے طور پر نہیں نہیں فرماتا ہے کچھ میرے نیک بندے ہیں ان کے مقدر میں ایسا بھی ہوتا ہے ہے کہ جو خوف میں خدا کی خاطر پر ڈالا جاتا ہے ہے باوجود اس کے کہ ان کی طرف سے کسی کو کوئی فرق نہیں ہوتا ان کا السلام ہوتا ہے ان کا فل سلام ہوتا ہے ہے مہر قوم کی دعوت دیتے ہیں اپنی طرف سے بے خوفی کا پیغام دیتے ہیں اس پر ایسی مصیبت کھڑی کرنے کی کوشش کرتے ہیں کہ پیشتر اس کے کہ وہ سیتی عملی جامہ پہنانے ایک خوف کی حالت طاری کر دی جاتی ہے ہے آتا ہے ایسی صورت میں ہم تمہیں آزمائیں گے گے بھائی میرا رپورٹ ایک خاص قسم کے خوف میں سے کچھ حصہ تو میں دیا جائے گا آئے اور اس کو تم آزمائش میں مبتلا ہو گئیں اگر تو واقعات ن جنگ یہ خوف خدا کی خاطر ہے ہے تو تمہیں یہ خوف مختصر نہیں کرسکے گا کے تم مجھے خوف اس طرح ڈرا نہیں سکے گا جیسے اہل دنیا کو دنیا کی خوب راغلی کرتے ہیں ہیں یہ ہے کہ ہر گز یہ مطلب نہیں کہ مسلمان جو سچا مومن ہوں جو اللہ پر توکل رکھتا ہوں وہ خوف کے نتیجے میں خوف زدہ ہو جاتا ہے ہے کہ قرآن کریم کی دوسری آیت اس مضمون کی نفی فرما رہی ہیں ہیں اللہ تعالی واضح طور پر فرماتے ہیں الا ان اولیاء اللہ لا خوف تو کوئی خوف نہیں ہوتا شرمندہ خوف کا مطلب یہ ہوگا google کی طرف سے خوف پیدا کرنے کی کوشش کی جاتی ہے دنیا کی طرف سے خوف پیدا کرنے کی کوشش کی جائے گیجو اللہ کے نہیں ہوں گے یا کسی حد تک غیر کی ملونی ان کے دلوں میں شامل ہوں گی اس حد تک وہ آپ سے متاثر ہو جائیں گے اسی طرح یہ یاد نہ کریں ہمیں بتاتی ہے کہ بھوک بھی انسان کے مقدر میں ہے ہے بڑے سے بڑا امیر آدمی بھی ہو اس کے اوپر بھی ایسے حالات آجاتے ہیں کہ کسی نہ کسی وقت وہ کا شکار ہوتا ہے جیسا ہونے کے باوجود بعد ایسی حالت میں پکڑا جاتا ہے کہ اس کا پیسہ اس کے لیے کچھ خوراک کا انتظام کر سکتا امیر قوم ہیں جن کے ہاں کھانے پر پڑھ سکتی ہیں ہیں لیکن بعض ایسے حالات آتے ہیں وہ بھی بھوک کا شکار ہو جاتی ہیں گزشتہ جنگ عظیم میں انگلستان کی حکومت وقت جو کسی زمانے میں بہت ہی بڑی اور کبھی حکومت ملی آتی تھیں جن کا اقتصادی نظام بہت مستحکم تھا اس حکومت کے باشندوں کے لیے بھی اس ملک کے باشندوں کے لیے بھی ایسی بھوک کا سامنا کرنا پڑا na.ja میں ان کے قریب ان کے چھوٹے ان کے بڑے شہروں کو لباس جو پہنا دیا گیا ہے وہ ان کا لباس بن گئی چھوٹی چھوٹی چیزوں کے لئے ترستے تھے میٹھا دیکھنے کو ان کی آنکھیں ترس گئی تھی تھی عام کھانے کی چیزیں مثلا ڈبل روٹی جو عوام اس کی کوئی حیثیت نہیں سمجھی جاتی ہیں پڑھاتے ہیں اس کے لئے بھی لائے لگانی پڑتی تھی بڑے بڑے لمبے کیوں ہوتے تھے اور خوش قسمت ہوتا تھا جیسے ڈبل روٹی مل جائے آئے جرمنی میں کیسی حالت آئی اے کی کی کہ بعض اوقات دنوں کے فاقے کرنے پڑتے تھے لوگ اور جوہرات میں نے مطالعہ کئے ہیں اس زمانے کے حیران رہ جاتا ہے انسان کی کتنی سخت جانی کے ساتھ اتنی ہمت کے ساتھ ان قوموں نے ان تکلیفوں کو برداشت کیا اور ان کا مقابلہ کیا ہے کیا نہیں جاتا ہوں یا بھلا ہوں سارا ان میں سے ہر ایک انسان کرتا ہے قرآن کریم نے اس کا محاورہ استعمال فرمایا ہے لباس جو ایسے وقت آتے ہیں کہ جب ہم قوموں کو بھوک کا لباس پہنا دیتے ہیں ہیں ان کے لیے چارہ نہیں رہتا بھوک کے سوا ان کا اوڑھنا بچھونا ہو جاتی ہے تو دنیا میں بسنے والے دنیا کی خاطر بھی بھوک کا شکار ہو جاتے مجھے اللہ تعالی فرماتا ہے کہ میں اپنے بندوں کو دی اپنی خاطر تھوڑی سی بھوک سے آزمانے والا لا بعد فان کو اس وجہ سے فاقہ کرنا پڑے گا بے وفا سے محبت کرتے ہیں خدا سے پیار کرتے ہیں ہیں اور کوئی اور قصور ان کا نہیں ہوتا یہ وجہ نہیں ان کی وجہ نہیں ہے کہ ملک میں اور ناکام رہا دنیا میں کیا بیان نہیں کر سکتے سوائے اس کے کہ وہ اللہ سے محبت کرتے ہیں ہیں محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھیوں کو کسی قسم کی بھوک میں مبتلا کیا یا تین سال تک شعب ابی طالب میں ایک وادی تھی ابو طالب کی کی ماں ان کو قید کیا گیا اور ان کا اقتصادی بائیکاٹ کیا گیا اور بڑے لمبے عرصے تک قبیلے پہ دیتے رہے کہ کوئی ان کا دوست مخفی طور پر بھی ان کو کھانے کی چیز نہ پہنچا سکے کے بہت سے صحابہ ان تکلیفوں کی وجہ سے جاں بحق ہوگئے حضرت خدیجہ رضی اللہ تعالی عنہا کا وصال ہوا اور بہت سے ثابت ہے ہے جو انتڑیوں کی بیماریوں کی وجہ سے اور بھوک کے لمبے اثرات کے نتیجے میں اجتہاد گل مر گئے اتنا شدید تھا کہ تھا بعض دفعہ اس کی تکلیف اتنی بڑھ جایا کرتی تھی ایک بھی بیان کرتے ہیں کہ میں گزر جاتا کہیں سے میرے پاؤں کے نیچے ایک نرم سی چیز ہے مجھے ڈر تھا کہ اگر میں نے دیکھا کہ وہ کیا ہےتاکہ وہ ایک گندگی ہے مجھے یہ معلوم ہو جاتا کہ وہ تیرا ہے تو قسم کا جس کو میں کسی قیمت پر بھی کھا نہیں سکتا لیکن بھوک کی شدت تھی نہیں کر سکتا اس لئے میں نے اسے دیکھا نہیں نہیں اور اپنے گلے میں اس طرح لٹایا اپنے حلقے میں کی زبان کو مذہبی نہ کر سکے یہ پتہ لگے کہ وہ چیز کیا ہے یا کسی بھی حالت میں جا کے گھر اور اس سے آگے مجھے آج تک پتہ نہیں وہ کیا چیز میں لکھا گیا درختوں کے پتے بھی صحابہ نے کھائے اللہ تعالی فرماتا ہے کہ ایسی حالت میں ہم ان کو آزماتے ہیں ہیں اور یہ وہ ہے جو صرف اللہ کی خاطر دی جاتی جو اللہ کے بندے ہیں وہ اس پر صبر کرتے ہیں وہ راضی رہتے ہیں ہیں وہ کوئی والے کی بات نہیں کرتے وہ شکوے کلمہ زبان پر لاتے ہر حالت کو خدا کی رضا کی خاطر تسلیم کے ساتھ قبول کرلیتے ہیں ہیں پھر خدا تعالیٰ فرماتا ہے ہے وہ نقص من الاموال ابھی دنیا میں لوٹ جاتے ہیں کئی وجوہات سے قوم پر یلغار کرتی ہیں جو لے جاتے ہیں ان کے کے بعد فرماتا ہے کہ ان کے مال محض تیری رضا کی خاطر لوٹ جاتے ہیں ہیں وہ خود لوٹے نہیں ہوتے وہ کسی پر ظلم نہیں کر رہے ہوتے بلکہ ان کی کیفیت یہ ہوتی ہے کہ اگر کسی کے مال کو نقصان پہنچنے کا خطرہ ہو تو وہ جدوجہد کوشش کر کے بھی اسے خطرے سے بچانے کی کوشش کرتے ہیں ہیں دنیا دیکھتی ہے اس خدا کی خاطر انہیں اس وجہ سے کہ وہ ہلاک ہو چکے ہیں لوٹے جاتے ہیں اور کچھ جان بھی ہوتی ہے اب دیکھ خدا کے جان لینے کے کتنے طریقے ہیں ہیں ہزار حاضری ہی جاتی ہے ہے ہیں بیماری کے سوئے جان دے دیتے ہیں ہیں یہ بھی ایک بیماری کہلاتی ہے جس کے بیماری کا کوئی علم نہیں کیوں ہے کیوں ہے ایک انسان اچھا برا ہے اور نیند کی حالت میں ڈوبتے ڈوبتے وہ موت کا شکار ہو جاتا ہے ہے تو کر لیتی ہے تو بعض لوگوں کی جان نکل جاتی ہے دھماکہ ہوتا ہے بالوں کی جان نکل جاتی ہے چھوٹی چھوٹی بیماریاں یا برداشت نہیں کر سکتے وہ ان کی چھوٹی بیماری سے بھی جان دیتے ہیں بات بڑی بیماری سے جان دیتے ہیں بات چھوٹے جانور کی صحت کے ڈسنے سے بھی مارے جاتے ہیں چنانچہ یہ ایسے واقعات بھی ہوتے ہیں کہ گھر کاٹ کیا کسی کو سجانے کے لئے بے شمار ہے رستے موت کے کے اور اللہ تعالی فرماتا ہے کہ ان میں سے ایک رستہ ہے میری رضا کی خاطر بنا اور میں اپنی قوموں کو جو میرے ہوچکے ہوتے ہیں اس لحاظ سے بھی آزماتا عطا کے بعد دفعہ ان کو کوئی ان کا قصور نہیں ہوتا پھر بھی دشمن کر دیتے ہیں ہیں وہ مان کی وجہ کوئی اور نہیں ہوتی سوائے اس کے کہ اللہ اور اللہ کی طرف سے آنے والوں پر ایمان لا چکے ہوتے ہیں ہیں ہیں ایک دشمنی کی وجہ بن جاتی ہے ہے تو ان آزمائشوں میں میں خدا تعالیٰ نے ایک وعدہ بھی دیا ہے اور عشق بھی ہے جیسا کہ میں نے بیان کیا تھا یہ جوانی کی خاطر نہیں ہے یار بلکہ حوصلہ دلانے کی خاطر ہے ہے اللہ تعالی یہ بتانا چاہتا ہے کہ دنیا میں انسان کی مصیبتوں کا شکار ہوتے ہیں ہیں اور ان کی مصیبتیں ہماری مصیبتوں سے زیادہ ہوتی کراچی شاہین کے لفظ نے واضح فرما دیا یا مذہبی قوموں کے مقابلے پر غیر مذہبی کاموں کی مصیبتیں اور مشکلات بہت زیادہ ہوتی ہے لیکن ان کا والی کوئی نہیں ہوتا نہیں ہوتا مذہبی قوموں کا خدا معلوم ہوتا ہے اور ان کا ولی بن جاتا ہےاور مقابلے پر ہمیشہ کم نقصان پہنچتا ہے ہے لیکن جو بھی نقصان پہنچتا ہے کیونکہ رضائے باری تعالی کی خاطر ہو برداشت کرتے ہیں اور اللہ کے نام پر ان کو آسان پہنچایا جاتا ہے اس لیے اس نقصان کا بھی خدا مت فیل ہو جاتا ہے ہے اور وہ تو قتل ہو جاتے ہیں پورا کرنے کا یہ خوشخبری دی گئی ہے کہ ان کے آخر پر نتیجہ نکالا وہ بشر الصابرین عجیب کلام ہے یہ یہ کہ ایک طرف گھرانے کی باتیں ہو رہی ہیں مسلسل مضمون یہ بتا رہا ہے کہ ہم تمہیں خبر دیتے ہیں کہ تمہارے سب کچھ ہونے والا ہے ہے خوف کے خیالات آنے والے ہیں بھوک کے حالات آنے والے ہیں خدا تمہارے سر پر ملائیں گے تمہارے بے وجہ بغیر اس کے کہ تم نے کسی کا قصور کیا معلوم ہوتے جائیں گے یہ سارا مضمون تو خوف کا مضمون ہے اور ڈرایا جا رہا ہے لیکن نتیجہ دیکھی جائے کی خاطر میں نہیں کہہ رہا یہ خوشخبریاں دے رہے ہیں ہیں کہ وہ مومن جس کا مال خدا کی خاطر لوٹا جاتا ہے اللہ اس کے مال میں بہت زیادہ برکت دیتا ہے ہے لیکن وہ دن یاد جس کا دنیا میں مالٹا جاتا ہے اس کا کوئی غم نہیں نہیں وہ مومن جس کی جان خدا کی راہ میں طلب کی جاتی ہے اللہ اس کی جانوروں میں برکت دیتا ہے ہے اور وہ جان دینے والا جو ہے جیسے مر جاتا ہے یہ ایکسیڈنٹ سے مر جاتا ہے یا پھر کاٹنے سے مر جاتا ہے یہ سوچتے جان دیتا ہے اس کا شکار 47 بی شاہین کہہ کر یہ بھی فرما دیا کہ یہ آزمائش ہیں دنیا والوں کی آزمائشوں سے بہت کم ہے ہے یہ بھی تمہارے لیے خوشخبری اور آزمائشوں میں اگر تم ثابت قدم رہو گے تو تمہاری یہ بے انتہا اجر ہے جب کہ دنیا والوں کے لئے کوئی حرج نہیں نہیں کس لیے بشر الصابرین فرمایا لیکن صابرین میں ایک ایسی مومن کی خاصیت بیان کردی ہے جس کے ساتھ بشارت کو وابستہ فرما دیا ہے ہے جو ان مسائل میں سے گزرے گا انتقال کیف کو برداشت کرے گا اس کے لئے بشارت نہیں دی بشر المؤمنین نے فرمایا فرمایا ان لوگوں کے لئے بشارت ہے جو صبر کرتے ہیں ہیں صبر کا کیا معنی ہے ایک مہینہ تو عام ہے دنیا میں یعنی جب کوئی تکلیف پہنچے تو وغیرہ نہ کرے میرے بے وفا نور جہاں کا گانا ہو جائے پیٹنا شروع کر دینا شروع کر دے اس کو صبر کہتے ہیں کہ گوشی سے اپنے دکھ کو برداشت کرے اور اپنے دل پر لے اور ایک صبر کا معنیٰ ہے جو حضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے بیان فرمایا بیٹھ جائے جس میں کی چھین لینے کی کوشش کی جاتی ہے اور کسی حالت میں بھی اپنی کی حالت کو ہاتھ سے نہ جانے دے ان معنوں میں صبر کے بہت ہی وسیع ہو جاتا ہے ہے مراد یہ ہے کہ خدا کی خاطر جب تم دنیا میں ایک جہاد شروع کرتے ہو جس کے ساتھ دنیا کی بقا واپس ہوتی ہے جس کے ساتھ دنیا کا امن وابستہ ہوتا ہے تو اس کے اوپر دنیا تم سے ایک مجاہد نہ شروع کر دیتے ہیں ہیں اور نہ تم پر مظالم شروع کر دیتی اور کوشش کرتی ہے کہ تمہارے پاؤں کی ردی اور تم ان مقاصد کے پیچھے ہر جن مقاصد کی خاطر ہر تمنا میں ایک عظیم الشان الہی جہاد کا آغاز کرچکے ہوتے ہو ہو تو سوری کا مطلب یہ ہو گا کہ نہ کوئی خوف ہے نہ کوئی نہ کوئی مالک نہ کوئی جان کا نقشہ مقصد سے پیچھے کر سکتا ہے ہے جو مرضی قیامت ٹوٹ جاتا ان کا ہر قدم ملازمان آگے بڑھتا ہے ان نیکیوں میں جنتیوں کی خاطر پر مظالم کیے جاتے ہیں ہے ان کے لیے بشارت اللہ تعالی فرماتا ہے تم ایسے لوگوں کے لیے ہم بشارت دیتے ہیں کہ لامتناہی ترقیات الذین اذا اصابتہم مصیبۃ قالوا انا للہ وانا الیہ راجعون جب ان پر کوئی مصیبت ٹوٹتی ہےاور اللہ ہی کی وجہ سے ہم پر ایک مصیبت ٹوٹ رہی ہے ہے اس کا نتیجہ کیا نکلے گا یہاں بھی اس کے دو معنی ہیں ہیں ایک ماہانہ توام یہ کیا جاتا ہے کہ ہم اللہ کی طرف مرنے کے بعد لوٹ جائیں گے گے ہے خوف کے نتیجے میں طوفان اللہ تعالی کی طرف انسانوں کے جایا کرتا تھا یا بھوک کے نتیجے میں تو ہر بھوکا مار لے جایا کرتا تھا مالک نے تو نہیں سمجھا جائے کرتے ہیں یہاں ہر مصیبت کے نتیجے میں جب وہ یہی کہتے ہیں اناللہ واناالیہ راجعون کا کیا مطلب اس کا مطلب یہ ہے کہ وہ یہ کہتے ہیں ہیں کہ تم مصیبت ہے ہم پر اسی لئے ڈال رہے ہو کہ ہم اپنی خوراک سے دور ہٹ جائیں آئی لیکن تمہاری یاد کردہ مصیبتیں ہم یاد خدا کے قریب کر دیتی ہے ہم اپنے رب کی طرف اور تیزی کے ساتھ لوٹ جاتے ہیں ہیں چنانچہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے ایک شعر میں ذرا سی بھی اسی آیت کی تفسیر فرمائی ہے فرماتے ہیں جب پڑھنا شروع میں گم ہوگئے ہیں انا للہ وانا الیہ راجعون کی تفسیر ہر محنت کر جاتی ہے تم جو نتیجہ حاصل کرنا چاہتے ہیں اس سے محروم رہ جاتے ہیں ڈراتے ہو اس لئے ہم پر مظالم کرتے ہو کہ ہم اپنے خدا کو چھوڑ دیں اور تمہیں خدا تسلیم کریں تمہارے سامنے سر جھکانا لیکن یہ مصیبت سے ہمیں دور ہونے کی بجائے اور زیادہ قریب کر دیتا ہے بہت زیادہ اپنے رب کی پناہ میں آ جاتے ہیں انا للہ وانا الیہ راجعون میں جو طرز بیان بہت پیاری ہے راجعون فیل نہیں ہے بلکہ قسم کی حالت میں اس مضمون کو بیان فرمایا ہے آئے ہیں ان کا لفظ ہے ہماری کال اور نہ ہی ان کا ماننا ہے ہماری تو فطرت ہے ہے ہماری زندگی کا لازمی حصہ بن چکی ہے ہے کہ جب بھی ہمیں خدا کے نام پر خود ڈرا جائے گا اور تکلیف پہنچائے تو ہمارا رخ ملازمین خدا ہی جانے دو خدا سے دوری کی جانب سے کبھی نہیں ہو سکتا تو جس قوم کی یہ تقدیر ہو ہو کہ ہر حالت اس کو اپنے مقصد کے قریب تر کر دی اور دودھ میں کر سکے کے یہی کہا جائے گا کہ شریف صابری اے محمد مصطفی میرے رسول خوشخبری دے دے پہ صبر کرنے والا ان لوگوں کے مقدر میں کوئی نہ کوئی نقصان نہیں نہیں ہے لوگوں کی کوشش ہیں تو وقت سے دور کیا کرتی ہیں دشمنوں کی کوششیں دنیا میں اپنے دشمنوں کو مخصوص دور کر دیا کرتی تھی عجیب قوم ہے جب پڑتی ہے ان کا مقصد چور کر دیا تھا نہ کہ موسم یہی وہ لوگ ہیں جن پر اللہ تعالی سلام بھیجتا ہے ہے صلی علی محمد ن جواب کہتے ہیں ہیں تو سلامت کا کیا معنی ہے کبھی اس پر غور کریں کریں ہر وہ چیز چیز جو بہتر ہے ہر وہ چیز جو اللہ کی طرف سے بطور رحمت نازل ہوتی ہے اس کو سلا کہا جاتا ہے کی نسبت سے صلاۃ کے معنی روشن ہوتے ہیں جب آپ کہتے ہیں صلی علی محمد ن جو کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے رب سے بہترین کے حقدار ہیں ہیں تو سوالات کے معنے عثمان گے کہ خدا جو تیرا سب کچھ کچھ تیری ساری کائنات میں سے جو سب سے اچھا ہے ہے وہ ہمارے آقا و مولا صلی اللہ علیہ وسلم اول آئے گا علیہ الصلوۃ من ربہم ورحمۃ یہی وہ لوگ ہیں جن پر اللہ تعالی کی طرف سے سلام قبول ہوتی ہے اور اس کی رحمت نازل ہوتی ہے ہے تو اس نے بھی یہ ہوں گے کہ دنیا تو ہر بری چیز ان کی طرف دیکھ رہی ہوتیکراچی جیون کے اوپر نازل فرما رہے ہیں اور کثرت کے ساتھ اللہ تعالی ان پر سلام بھیجتا ہے اور ان پر رحمت فرماتا ہے یہی وہ لوگ ہیں جو ہدایت پانے والے ہیں ہیں یہ وہ کیفیت ہے جو ایک دائمی حالت کا نام ہے ہے جب سے دنیا میں نبوت ظاہر ہوئی کوئی ہمیشہ سے یہ آیت یا عیسائیت کا مضمون کا فرما رہا ہے ہے ایک دن بھی ایسا نہیں آیا کہ اللہ کے نام پر کسی نے کوئی آواز بلند کی ہو اور مخالفوں نے اس کے ساتھ وہ سلوک نہ کیا اور جن کا اس میں ذکر ہے ہے اور ایک دن بھی ایسا نہیں آیا آیا کہ جب مخالف آپ نے سلوک کے نتیجے میں کامیاب ہوگئے ایک دن بھی ایسا نہیں آیا جب کہ وہ لوگ جن کو خدا کی خاطر ظلم کا نشانہ بنایا جاتا ہے وہ ناکام ہو گا ان کے مقدر میں ہمیشہ کامیابی ہوتی ہے اور اللہ تعالی ان کو مگر یہ نصیحت فرماتا ہے ہے کہ تمہاری اپنی کوشش میں کچھ نہیں ہو سکے گا اس لئے ہم تمہیں یہ ہدایت دیتے ہیں کہ ہماری طرف رجوع کیا کرو کثرت کے ساتھ عبادت کو بھی اپنی بڑھا دو اور دعا کو بھی پڑھا مختلف ہوتے ہیں ہر شخص کی ایک جیسی ایمانی حالت نہیں ہوتی ہر شخص میں ایک جیسی صبر کی طاقت نہیں ہوتی خدا تعالی نے یہ بنایا ہے خطرات کے بیان سے پہلے یا ایہا الذین آمنوا استعینوا بالصبر والصلاۃ ان اللہ مع الصابرین وہ لوگو جو ایمان لائے ہو ہو ہم تمہیں بتاتے ہیں کہ تمہارے اندر کی ذات سے ہی کوئی طاقت نہیں نہیں نہ تم نے صبر کا حوصلہ ہے نہ تمہیں برداشت کی طاقت ہے نہ مقابلہ کرسکتے ہیں تو پھر تمہیں کمزور جماعت ایسی کمزور ہو کہ لوگ تمہیں ظلم کا نشانہ بناتے ہیں طاقتور کو تو کوئی ظلم کا نشانہ بنایا گیا تھا نظر رکھتے ہوئے اللہ تعالیٰ فرماتا ہے استعینوا بالصبر و صلاہ ہم یہ حالت میں بتاتے ہیں کہ تم خدا سے مدد مانگنا نا سماعتوں کے ذریعے اور صبر کے ذریعے یہ ان کا ماننا ہے کہ عبادت کرنا na 25 جو ہماری ہماری طرف سے خدا کی طرف جاتی ہے ہے اور یہ معنی عثمانی کہ جاہلیت ہیں جب خدا سے لعنت بھیجتا ہے تو عبادت نہیں کرتے کے نتائج پیدا فرماتا ہے ہے اس لیے وہاں بھی لفظ استعمال ہوتا ہے ہے جب بندے کو صلوۃ کی تاکید کی جاتی ہے تو یہ سراسر بالکل اور ماں نہیں بن جاتی عبادت کرنا خدا کے حضور جھک نہ اپنا کچھ نہ رہنے دینا سب کچھ اس کا بنا لینا اس سے پیار اور محبت کا تعلق جوڑنا زنا اور اس کی تشریح نماز میں اللہ اور رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے ہمیں یہ بتائیں یہ جو اتحیات میں ہم پڑھتے ہیں آپ صلی اللہ علیہ وسلم کیا چیز ہیں یہ آیات میں ہے فیصل آباد میں بہترین کا مضمون وہاں بھی تھا جہاں خدا بندے پر صادر فرماتے ہیں ہیں اور بہترین کا مضمون یہاں بھی ہے جہاں بندہ ہے بھارت کے لئے خدا کا خوف ہے ایسا حیرت انگیز کامل نظام ہے اسلام کا کہ ہر چیز ایک دوسرے کے ساتھ مربوط ہے ہیں جب بندے کو صلوۃ کا حکم دیا تو اس کا معنی یہ کر دیا خود بھی اتاحیاتو تو سلات نام ہے تمہاری تمہارے تحفوں کا کا اور یہ جاھل سے جاھل آدمی بھی جانتا ہے کہ طوفاں چنتے وقت انسان گندی چیز نہیں چلا کرتا تا بلکہ بہترین جانتا ہے اور اس کی پیکنگ بھی بات ہو تو اچھی کرتا ہے ہے بہت خوبصورت اور رنگوں سے سجا کر پیش کرتا ہے ہے تو اس کے اندر یہ بات داخل ہے کہ سب سے اچھی چیز ہے اور تحفہ ہر دوسرے مالی تبادلے سے مختلف ہےدے رہے ہیں وہ عدنان چوم لیا کرتے ہیں ٹیکس دیتے وقت لوگ کم سے کم دینے کی کوشش کرتے ہیں ہیں جب زمینوں کی حد بندی ہورہی ہو اور کچھ زمین دینی پڑے تو وہ کلر والا ٹکڑا چونے یا ناکارہ تو نہیں دیا جائے آئے صرف ایک تو فر جس میں تحفہ دینے والا بہترین چیز سنت ہے ہے اور اگر وہ بدترین سنے گا تو وہ رہے گی یتوفی کی ذات کے خلاف ہے یہ بات کی جائے آئے فرماتا ہے تم ہم تمہیں نصیحت کرتے ہیں ایسے واقعات آنے والے ہیں ہیں جن کے نتیجے میں تمہیں سلاد کی ضرورت پڑے گی گی ہیں جو بہترین ہو ہو جس میں انسانی زندگی کا بہترین حصہ شامل پیار اور محبت کے نتیجے میں کی جائے آئے اور تحفے نہیں یہ بات بھی نمبر روشن کردی کہ عبادت قبول نہیں ہو سکتی جب تک اس میں محبت ہے نہ نہ کیوں کہ طوفاں صرف محبت کے نتیجے میں ہوتا ہے ہے جبکہ کوئی فائدہ نہیں ہے ہے بے کار کا نام تو تحفہ نہیں رکھا جا سکتا ہے جس کا نام نہیں رکھا جا سکتا تو ہے وہ جو دل کو مجبور کر دے گی تو اس میں مذاق کر رہا ہوں اللہ تعالی فرماتا ہے کہ ایسی عبادت کرو جس کے نتیجے میں اس کی وجہ محبت الہی ہوں اس میں تمہارا پیار جان ڈال دے اے زندگی پیدا کرے اور اسی حالت میں اپنے رب سے مانگا کرو کرو گے محبت سے اس کے لئے کہا کتب اور نماز پر سے قائم ہو جاؤ کسی حالت میں بھی اس طرح کی حالت کو نہیں چھوڑنا انا اور دوسرا معنیٰ ہے اس کے علاوہ ستہ تمہاری دعا قبول نہ بھی ہوتی ہو تب بھی تمہیں دعا نہیں بظاہر تو یہ دیکھ رہا ہے وہی خدا تعالی سے مانگ رہے ہیں اور وہ نہیں دے رہا تو اس ٹائم بستر کا مطلب یہ ہے کہ تم نے پیچھے ہٹنا بنتے چلے جانا ہے جیسا کہ رہا ہے حضرت خلیفۃ المسیح الثانی یہ بتا دیا کرتے تھے اولیاء اللہ کی اس آیت کے متعلق بیان کیا جاتا ہے ہے کہ وہ ہر روز رات کو تہجد میں دعا مانگا کرتا تھا اللہ تعالی کی طرف سے اس کو آواز آیا کرتی تھی کہ ہم نے تیری دعا قبول نہیں کی اس کا ایک مرید تھا جو اس کے ساتھ کھڑا ہوا کرتا تھا چند دن اس کو بھی لے آؤ آئی آدمی کو بھی شامل کر لیا جاتا ہے یہ تو اگر صلی اللہ علیہ وسلم سے بھی ثابت ہے کہ یہ قرآن کے دفع کر دیے یہ دعا کرنا میرا پیر اور اللہ کہتا ہے کہ تیری دعا نہ مقبول چند دن میں وہ تھک گیا اور بیدار ہو گیا اس نے اپنے پیرومرشد سے عرض کی کہ یہ کیا حالت میں دیکھ رہا ہوں کہ اللہ تعالی آپ سے فرماتا ہے کہ میں رب کردی ہے آپ کی دعا اور روزانہ اس کا پھر وہی دعا شروع کر دیتے ہیں انہوں نے کہا تم اتنی جلدی تھک گیا ہوں میں 12 سال سے یہ دعا کر رہا ہوں ہاں پر میں نہیں آ سکا کیونکہ میں جانتا ہوں کہ وہ مالک ہے اور میں فقیر ہوں فقیروں کا کام ماننا ہے اور مالک کا کام ہے چاہے تو دے چاہے تو نہ دے اس لئے میں دوبارہ اپنی عبودیت کی حالت کو قائم رکھوں گا مانتا جاؤ یہ لکھ رہا اس وقت کو الہام ہوا کہ میرے والد کے لیے دعا بھی قبول کرلی اور اس عرصے میں تو نے جتنی دعائیں مانگی ہے وہ سارے مل کر یہ مانے ہی استعینو بالصبر والصلاۃ یہ تو اپنی دعائوں سے آج نہ آجانا اس غلط فہمی میں مبتلا نہ ہوجانا کہ خدا تالا کھل نہیں رہا بعض وقتی طور پر بعض کمزور انسانوں پر اندھیروں کا وقت آ جاتا ہے ہے اور وہ قومی مسئلے کو نہیں سمجھ رہے ہوتے وہ بھول جاتے ہیں صاحب کے مضمون کو کچھ نہ کچھ کے اوپر تو لازم تو نہیںسمجھتے ہیں غلطی سے کہ ہماری دعائیں قبول نہیں نہیں تو اللہ تعالی شروع ہوئے کو بتا دیتا ہے کہ تم نے صبر کا دامن ہاتھ میں ہاتھ سے نہیں چھوڑنا na50 پہلی آیات میں یہ دو چیزیں بیان فرمائی گئی گی گئے کشتی نوح صبر و قناعت میں صبر کی تلقین فرمائی اور طلعت کی تلقین فرمائی آئے اور نتیجہ نکالا بشری دے دیا ہے محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وسلم الصلوۃ کا جواب تھا وہ اس طرح دے دیا اولاد تمثلات بھیج رہے تھے آپ نے خلع کے دو اب خدا کی لعنت تم پر نازل ہوئے خدا سے بے انتہا پڑھ کر لوٹ رہے ہیں یہ ہے خوشخبریاں جن کا اس آیت میں ذکر ہے اور بازو غلطی سے سمجھتے ہیں کہ ڈرایا جا رہا ہے ہے اس میں ڈرانے کی کونسی بات ہے اس میں تو خوشخبری ہو کامیابیوں اور عظیم کامیابیوں کی بشارت دی گئی ہے ہیں اور جماعت احمدیہ بھی باتوں میں سے ہے ہے جن کے اوپر والا کسور اور ظلم کیے جاتے ہیں باوجود اس کے کہ دنیا کے ہم خیرخواہی ہی بتائیں کے نتیجے میں کافروں کیا جاتا ہے ہمارے ساتھ ہم دعائیں دے رہے ہوتے ہیں مخالف گالیاں دے رہے ہوتے ہیں ہم سچائی سے کام لے رہے ہوتے ہیں وہ مسلسل جھوٹ پر جھوٹ بولتے چلے جاتے اور یہاں تک کہ رات ہو چکی ہے کہ اگر ہم جھوٹ کے جواب میں یہ لکھیں یہ تو جھوٹ بول رہا ہے خدا کے واسطے پردہ نہ کرو تو کہتے ہیں اچھا تو ہمیں اس سے رابطے تمہی کو ڈھونڈتے رہے ہو کیسے ہو سکتا ہے تمہیں یورپ کہ ہم چھوٹے لائن لگائیں اور تمہیں انکار کردوں کی نظامت نہیں کوئی حادثہ ہو سکتی ہے کسی قوم پر پر اور پھولا جماعت احمدیہ کے خلاف اشتعال انگیزی کی تعلیم دی جا رہی ہے سارے ملک گھر لوٹنے کی تعلیم دی جارہی ہے معلوم کرنے کی تعلیم دی جا رہی ہے قتل و غارت کی تعلیم دی جا رہی ہے اور ان سب سے زیادہ تکلیف سے یہ کہ خدا کے گھر لوٹنے کی تعلیم دی جا رہی ہے ان کو برباد کرنے کی تعلیم دی جا رہی ہے کے میں بیچارے نادان کو خود نہیں ایسی حرکتیں کرتے ہیں ہیں اور جگہ جگہ سے جماعت احمدیہ کی طریقے بیم ہیں ہیں ابھی پچھلے دنوں کچھ عرصہ پہلے سندھ میں ہمارے ایک بہت ہی ہر دلعزیز ستاروں سارے علاقے میں بڑی محبوب تھے کیے چوہدری عبدالحمید صاحب کو بھی شہید کر دیا گیا ہے ہے اور وہ ان کو ایسے معصوم انسان ایسے نیک دے اور بھلائی کرنے والے تھے تھے کہ قاتل کو غیروں نے پکڑا اور وہ پولیس کے سپرد کیا ہے ہے اور سعی میں ایک یہ کہہ رہے ہیں یہ سمجھتے ہیں کہ سب سے آسان ٹیفکیٹ جنت کا یہ ہے کہ کسی اور کو مار دیا جائے اگر کر دیا جائے اس لیے کیونکہ باقی نیکیوں کی توفیق نہیں ملتی یہ آسانی کر دیتے ہیں ہیں لیکن ایک بات میں آپ کو بتا دیتا کہ قرآن ہمیں یہ بتا رہا ہے کہ شہید کرنے والے کبھی نہیں تھے شہید ہونے والے بھی کرتے ہیں معلوم کرنے والوں کے علم و عمل میں برکتیں پر ان کے علم و عمل میں برکتیں ہے جن کے خلاف کی وجہ سے معلوم ہو جاتے ہیں ہیں ہر حال میں کا شکار ہو جاتے ہیں اور وہ اپنی محنتوں کے پھلوں سے محروم کر دیا جائے گا اور خدا کی وجہ سے جن کے پھل برباد کیے جاتے ہیں اللہ تعالی ان کے برابر کر دیتا ہےاور جہاں تک ہمارا تعلق ہے ہمیں تو اپنے مقصد سے کوئی چیز ہے سکتی ہر دو کہ میں فلاں سے اور زیادہ قریب کر دے گا na.ja خوف کے ختم نہیں آتے بلکہ یہ خط آتے ہیں مناتی لئے ہوئے کہ خدا کے لئے ہمارے لیے دعا کریں کہ اللہ ہمیں بھی شہادت کی توفیق عطا فرما جس قوم کی یہ حالت ہو اس قوم کو کون سی کر سکتا ہے کوئی سوال پیدا نہیں قرآن کریم فرماتا ہے لے جانے کا من ھلک عن بینہ نہ آھی نہیں کالے قتل و غارت آگے لگانا گانا ان کے اسلوب کی مقدس مقامات مذہبی معاملات میں دخل انداز ہوتی ہیں صاحب کو دبانے کی کوشش کرتی ہیں اور قتل و غارت اور عوام کو لوٹنا اور پھلوں کا نقصان اللہ تعالی فرماتا ہے کہ ہمیشہ ان کے مقدر میں ناکامی بھی کی جاتی ہے اور جیت کون ہے اس کے لیے یہ دوسری آیت میں بتاتی ہے نہ ہے کوئی دلیل نہیں ہے ہے جس کے پاس کوئی نشان نہیں ہے جو کہ بینا کا معنہ ذلیل کے بھی ہیں اور بینا کا معنیٰ نشان کے لیے ہے اور وہ جیت جائے جس کے پاس برہان جس کے بعد دلائل اور وہ جیت گیا جس پر خدا تعالی کی امتیازی نشانات نصیب ہو اور غیر معمولی طور پر اللہ تعالیٰ اس کی نسلوں فرما رہا ہے ہاں اگر جماعت احمدیہ کے خلیل ہے اور ہے ہے تو دلیل کے مقابلے پر تلوار کبھی بھی نہیں دیتی ہے جو اللہ تعالیٰ بیان فرمانا چاہتا ہے ہے اور دلیل کے مقابلے پر جب تلوار آتی ہے تو تلوار کو ہو جایا کرتی ہے اور نہ کام ہوگا اور ہر ایسے مقابلے میں ایک نئی زندگی ملتی ہے دل منور وہ فلسفہ ہے جو زندہ رہنے کے قابل وہ زندہ کرتا ہے ہے ہے ہے جانے کے لائق ہے وہ مل جائے گا کی طرف سے غیر معمولی نصرت ایسا نشان جو فرق ظاہر کردے ان لوگوں میں جو خدا کے ہیں اور ان لوگوں میں یہ کھلا کہ نہیں ہے ہے تو اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ محض ایک عام قانون کے طور پر ہم بیان نہیں کر رہا ہے ہے کہ دلیل والے جیتا کرتے ہیں یا وہ ہیں اس سے بھی بڑھ کر ہوتے ہیں اور جب وہ نشان ظاہر ہوتے ہیں تو لازماً ہلاک ہونے والے ہلاک ہو جائے کرتے ہیں اور جن کو ملا زندہ رکھنے سے لکھنا چاہتے ہیں ان سب باتوں کو یہی ہے کہ استعینو بالصبر والصلاۃ احمدیہ کو کبھی صبر کا دامن ہاتھ سے نہیں چھوڑنا بنا کر کے حرم کو صدر کے ساتھ پکڑ کر بیٹھے ہیں ہیں اور عبادت میں ترقی کرنی ہے اور عبادت میں محبت ڈال دینے اس کے بعد آپ نے آپس میں خوشیاں مل کر دینا کچھ پودے پھل نہیں کیا کرتے تھے اسی طرح خوش کے بعد میں بھی ظاہر ہو جایا کرتی عبادت میں وہ مفہوم پیدا کرتے ہیں جو اللہ تعالی پیدا فرمانا چاہتا ہے پھر دیکھیں کہ کس طرح کثرت کے ساتھ آپ پر طلبہ آپنا حق لینگے ترانہ صبر والا مقام پیدا کر دیں تو آسمان بشارت دے دے گا آپ صبر کرنے والوں اور کوئی دنیا کی طاقت نہیں جو آپ کو نقصان پہنچا سکے یقینا ایسا ہی ہوگا نادان چند دن کی زندگی میں چند اور اور یہ دیکھیں گے کہ ہم بظاہر فتحیاب ہو رہے ہیں چند دن کی زندگی میں تھوڑا آسان تو یہ نظر آئے گا کہ گویا ہم نے بتا دیا لیکن تاریخ ہمیں یہ بتا رہی ہیں ایسے مصیبتوں کے سائے سے گزرنے کے بعد جماعت پر اللہ کا نہ شان کے ساتھ حاضر ہوا ہےاور میں گزرنے کے بعد زیادہ قوی ہو کر جماعت پچھلی ہماری تاریخ گواہ ہے ہمارا قرآن گواہ ہے ہمارا خدا ہمیں بچا نہیں دے رہا ہے اور وہ کبھی اپنی شرطوں کو جھوٹا نہیں ہونے دے گا اور اگر ہم جیتیں گے اللہ کے فضل کے ساتھ کیونکہ خدا کی خاطر ہم نہیں ہے جو ڈالے اور کوئی نہیں ہے جو خلا کی خاطر آج دنیا میں تو کہہ رہا ہوں دور فروت آتے مہیا دے لا الہ واحد لا الہ الا اللہ لا الہ الا اللہ وحدہ لا شریک لہ محمد عبدہ و رسول سورج گرہن کی نماز کے بعد عبدالحمید شہید کی نماز جنازہ غائبانہ ہوگی اور اس میں ان کے لیے جو دعا ہے مغفرت کی جو بھی مسنون دعائیں ہیں وہ ہم کریں گے آگے کے علاوہ وہ ان کے جو بھائی ایم بی نہیں ہیں ان کے لئے بھی دعا کی جائے آئیے اللہ کا وعدہ ہے جو ایک لیتا ہے تو زیادہ دیتا ہے ہے اس رنگ میں ان کا خاندان زیادہ مستحق ایسے نام کا کا بانی کر کے اپنے خاندان میں سے الگ ہو کر آئے تھے اس لئے جو بھائی یہ جو رشتے دار ابھی تک احمدیت کا فیض نہیں پا سکے یہ بھی دعا کریں کہ اللہ تعالی ان کو توفیق عطا فرمائے اور آپ کی بجائے دسو نہیں بلکہ سینکڑوں اور جو نماز جنازہ ہے اس میں یہ بات یاد رکھیں صرف مرنے والوں کے لیے دعا نہیں جاتی بلکہ زندوں کے لیے پہلے دعا بتائی گئی ہے اللہم اغفرلی حینا و میتنا اس کے لیے پہلے دعا مانگی ہے والوں کے لیے دعا کی جاتی ہے ہم زندگی کیوں کریں تو میں غلط کر رہا ہوں ابھی اور اس قوم کے لئے بھی جس سے تعلق رکھتے تھے طالب بھائی مقروض لاعت ن

Leave a Reply