Friday Sermon – Khalifa IV – 06-09-1985 – Mirza Tahir Ahmad ra
خطبہ جمعہ خلیفۃ المسیح الرابع مرزا طاہر احمد رح
Friday Sermon 06-09-1985
عائشہ تالا الا ہو محمد عبد الو بسم اللہ الرحمن الرحیم الحمد للہ رب العالمین الرحمن الرحیم وہ بتائے اھدنا صراط المستقیم والی نہ طالب آمنوا وعملوا الصالحات کانت لہم جنات الفردوس سے نوراللہ فاروق برادران نعت عربی ملے ہیں بعد مدت کے معاذ سلیم اعتبار نماز کال غلام نبی قرآن کریم کی جو آیات میں نے تلاوت کی ہیں یہ صورت ہے کہ آفس دی گئی ہیں اور سورۃ کہف کی آخری چند آیات ہیں ہیں ان آیات میں میں ان آیات ہیں ان میں بظاہر ایک مضمون کا دوسرے سے کوئی تعلق نظر نہیں آتا عطا سر سے دیکھنے والا سمجھتا ہے ہے کہ ہر ایک ہےفردوس بطور مہمانی کے آتا ہوں گی خالدین فیہا لا یبغون عنہا حولا وہ ہمیشہ ہمیشہ کے لئے ان میں رہیں گے بے اور کبھی بھی ان سے الگ نہیں ہوں گے آگے یا وہ نہاں کا معنی ی طور پر الگ ہونا نہیں نہیں بلکہ کبھی ان سے کھائیں گے نہیں نہیں کبھی ان کی ان سے ان جنتوں سے ان کا پیٹ نہیں بھرے گا ان کی نظر نہیں آئے گی اور ہمیشہ ان میں ان کے لئے لذتوں کے سامان رہیں گے ان جنتوں سے چمٹے رہیں گے نہ نکالے جائیں گے نا خود نکل نہ چاہیں گے اس کے بعد فرماتا ہے ہے لو کان البحر مدادا لکلمات ربی محمد صلی اللہ علیہ وسلم کر دے لو کان البحر مدادا لکلمات ربی اگر خدا تعالی کے کلمات میرے رب کے کلمات نعت لکھنے کے لئے لیے سمندر سیاہی بن جاتے آتے ہیں باہر اہل نظر تو خوش ہو جاتے آتے لیکن کل جب بھی میرے رب کے کلمات خوش نہیں ہو سکتے ختم نہیں ہو سکتے کے لیے ویسے ہی اور سمندر لے آتے یہ ایک اور مضمون ہے ہیں اور ایک تیسرا مضمون یہ ہے ہے کہ کل انما انا بشر یہ بھی اعلان کر کے میں بھی تو تمہارے ہی جیسا ایک بشر تھا تا ہے کہ یہ اعلان کر دے کہ میں بھی تمہاری طرح کا ایک بچہ ہی تو تھا ہے نکلا da7 کی وحی کا مرکز بن گیا کیا اور کس عظیم الشان مقام تک جا پہنچا لیکن یہ فضل الہی صرف میری ذات پر نہیں نہیں ہر کسی کے لئے ایک کھلا ایک کھلی دعوت ہے ایک عام ہے ہے لیکن پھر میرے جیسا بننا پڑے گا جو کچھ میں نے کیا ہے تم بھی وہی کرو کرو اور وہ کیا ہے دیکھ کر تمہارے دل میں تمنا پیدا ہوئی ہے کہ ہم بھی ان کو حاصل کر سکتے ہیں اپنے رب کی خاک پا جاتے مجھے تو پھر تم بھی عمل آسانی کرکے دکھاؤ او اور خدا کا کوئی شریک نہ ٹھہراؤ یہ مضمون بھی ایک الگ مضمون ہےاور بظاہر آمین میں کوئی تعلق نظر نہیں آ رہا ہاں ہے زیادہ کھل کر سامنے آجاتا ہے ہے قرآن کریم اللہ کے کلمات کا ذکر فرما رہا ہے ہے کہ خدا کے کلمات کبھی ختم نہیں ہو سکتے ye ق عیسائیت کے رد کے ساتھ ہے ہے اس کی پہلی آیات اور اس کی آخری آیات آیات اس آیت سے تعلق رکھتی ہیں اور عیسائیت کے رد کے مختلف پہلو ان آیات میں بیان فرمائے ہیں ہیں حضرت عیسی علیہ السلام کو کلمہ کہا گیا قرآن کریم میں میں نے اس بات کی تصدیق کی گئی کہ وہ کلام تھا تھا عیسائیت وکلا معنوں میں لیتے ہیں کہ وہ منفرد حیثیت تھی تھی جو خدا کی خدائی میں شریک تھا تھا اور وہی کلام تھا اس کے سوا کوئی کلام نہیں تھا قرآن کریم نے ایک دوسری جگہ کلمۃ من ہو کر کر لو بات کو واضح فرما دیاان کے علامات میں سے ایک کلمہ مسیح بھی تھا تھا ہیں اور مختلف رنگ میں کلمات کا اطلاق کرکے قرآن کریم نے بتایا یا کہ گلے میں کا مضمون بہت ہی وسیع مضمون ہے ہے ہر کلام جو کسی نبی پر نازل ہوتا ہے وہ بھی کلمات پر مشتمل ہوتا ہے ہے ہر وہ نیک شخصیت ہے جو اللہ تعالی سے تعلق جوڑ لیتی ہے ہے اور سوال سے ختم اختیار کرتی ہے ہے جس کی شاخیں آسمان تک دراز ہوتی ہیں ہیں اور وہ خدا سے فیض پایا کر کر دیئے روحانیت کے پھول خود بھی کھاتی ہے دنیا کو بھی دیتی ہے ہے فرمایا گیا یا تو سوال یہ پیدا ہوتا تھا کہ کلمہ ماں اگر اس کو انسانی معنوں میں لیا جائے جائے تو ایک ہے دو ہیں یا تین ہیں یا کس حد تک کلمات ہیں پہلے تھے اور اب بتاؤ نے بند ہوگئے ہیں یا آئندہ بھی جاری رہیں گے گے اور اسی طرح کلمہ نہ ہر کلام الہی کے ہر جس پر بھی صادق آتا ہے ہے اور اس کے ہر معاملے پر بھی لفظ کلمہ جاتا ہے ہے نہ سہی دو یا تین دنوں میں درج ذیل باتوں کی سیاہی کی دوات تو میں لکھا جا سکتا ہے ہے تو پھر یہ کہنا کہ لکھنا شروع کروں تو سمندر خشک ہو جائیں اور سمندر ہم لے کر آئے ہو جائیں گے ماہ ہی ختم نہیں ہوں گے نہیں کہ ہر کلی میں کے اندر ہر بے انتہا کلمات ہیں نہیں نشانات ہیں اللہ تعالی کے اور خصوصی مضامین ہیں اگر مضامین کے اعتبار سے کھولا جائے آئے تو لامتناہی کلمات جاتے ہیں ہیں کے بعد انبیاء کی ذات کی کلمات کہلاتی ہے ہے اور صرف حضرت عیسی علیہ السلام نے نہیں بلکہ ہر نبی کا نام تھا اور خدا کے تمام نیک بندے کلمات ہوتے ہیں ہیں چنانچہ ہے ان الذین آمنوا وعملوا الصالحات میں جن مومنین کا ذکر ہے ہے کہ ان کو جنت الفردوس عطا ہوگی وہ ہمیشہ ہمیشہ رہیں گے نہ وہ کبھی ان سے تھی گے نہ کبھی ان کو کو خود خدا کی طرف سے باہر نکالا جائے گا گا ہیں اور خوشخبری غلط کمنٹس محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وسلم کو یہ دی جا رہی ہے ہے کہ آئی تو ایک پل میں کیوں پر فخر کر رہے ہیں ہیں اور وہ سمجھتے ہیں کہ وہ منفرد تھا ہم نے مسیح کو توکل میں کہا ہاں لیکن تجھے ہم کلام مگر بنا رہے ہیں ہیں تجھ سے بے شمار کلمات وجود میں آئیں گے اور وہ سارے مومن ہیں جن سے لامتناہی کے وعدے کیے جا رہے ہیں نہ ختم ہونے والی جنت وعدے کیے جا رہے ہیں ہیں وہ سارے کلیمات اعلٰی ہو گی تجھے نصیب ہو یہ اعلان کر کے میرے رب کے کلمات کبھی ختم نہیں ہو سکتا اس کثرت سے اللہ تعالی تجھے کلمات طیبات عطا فرمائے گا کا پیدا ہونا بھی ختم نہیں ہوگا اور ان میں سے ہر وجود کے اندر معنی کے سمندر ہوں گے اور نیکی اور تقوی کے سمندر ہوئے یہ کیوں ہے ہے اس لیے کہ حضرت محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وسلم کے مطابق کے نتیجے میں ان کو یہ نصیب ہونا اس طرف توجہ مبذول فرمانے کی خاطر تیسری آیت میں حیران کروایا گیا کہ کلیم اگر تو میں میں تمہارے جیسے ہی ہوش تھا کتا کی طرح کے کام انسان تھا تھا آئے جب تم میری پیروی کرو اور جیسے نیک اعمال میں نے کیے ہیں ویسے تم بھی کرنے لگوںتم بھی توحید کو اکساتی میں جاؤ او تو پھر یہ وحی الہی کی نعمت جو کلام بناتی ہے ہے میں بھی نصیب ہو جائے اور میں اس نے مجھ کو میں اپنی ذات تک محدود کرنے کے لیے نہیں آیا یا میں تو اس نعمت کی طرف متوجہ کرنے کے لئے آئے ہو اللہ تعالی کی ذات کے ساتھ تعلق کی تمنا پیدا ہو اور اس کے نتیجے میں تو نیک اعمال کروں میری پیروی کرو میری طرح محمد بن جاؤ جس تک ممکن ہے تمہارے لئے اور پھر دیکھو کہ خدا کے کلیمات لامتناہی ہے اور یہ کبھی ختم نہیں ہو سکتے کلیم اس کا ایک ہی ہمارا بھی ہے ہے کہ خدا تعالیٰ کی طرف سے جو نعمتیں عطا کا سلسلہ ہے یہ نہ بندہ ہونے والا ہے اللہ تعالی نے اس زمانے میں اسی آیت کے زندہ نشان کے طور پر پیش آیا آیا اور حضرت محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وسلم کی قوت قدسیہ نے نے اس زمانے میں بھی اثر دکھایا کیا اور اس زمانے میں بھی ایک لمحہ پر پیدا کر دیا آپ نے میں اور وہ سلسلہ جو بظاہر بند ہوتا دکھائی دے رہا تھا پھر اس مقدس کے نتیجے میں جو حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے ذریعہ انتیسویں پھر بہت سے کلمات پیدا ہونے شروع ہوئے عظیم الشان صحابہ ہیں جن میں سے ہر ایک کا وجود ایک لمحے کی حیثیت رکھتا ہے ہے اور ہر ایک کے باوجود اپنے اندر اتنی گہرائی رکھتا ہے ہے کہ عام انسانی نظر اس گہرائی کو پا سکے یا نہ پا سکے کے لیکن حقیقت میں ان کے کے باطن میں میں جو لازوال حسن جھلک رہا ہے اللہ تعالی کی اللہ تعالی کی محبت کا کا ایک نہ ختم ہونے والا ہے ہے اور یہ ہیں ہیں اور دنیا کی نظر میں سوائے پورا کی طرف سے مقرر کیا گیا ہے اور مجبور ہو اظہار پر پر اکثر ایسے لوگ خوشی کے ساتھ ابھی باقی ہے اور مجھے بھی جاتے ہیں ہیں اور انسانوں کی نگاہوں کا مرکز بھی نہیں بنتے اور اس کے علاوہ وہ اپنی ذات میں یہ سلسلہ بھی نا ختم ہونے والا سلسلہ ہے ہے ہے چوہدری محمد افضل خان صاحب جن کا وصال لال قلندر کو ہوا میں یقین رکھتا ہوں کہ آپ بھی اللہ تعالی کے کلمات میں سے کلمہ تھے اور ایک عظیم الشان مقام خدا تعالیٰ کی طرف سے آپ کو تقوی کا نصیب ہوا جب میں کہتا ہوں ہو تو میں اس رنگ میں کہتا ہوں ہو میری دعا ہے ہے اور جب خدا کے مومن بندوں بندوں کو کو اپنے فوت شدہ باپ اور بزرگوں کا ذکر خیر کرنے کا حکم ہوتا ہے ہے ک ہ ے نیکی اور تقوی کا فیصلہ کرنا صرف خدا کا کام ہے ہے وہ عالم الغیب ہے سادہ ہے ہے فرماتے ہیں ولا تفرقوا کرو باپ کے متعلق فتوی دیا کرو کہ وہ قیامت ہی ہیں ہیں اور حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں ہیں کہ تم ان کا خیر کے ساتھ ذکر کیا کرو وزن کے ساتھ لے کر کیا کرو ان دونوں میں تضاد تو کوئی نہیں ہوسکتا کلام الہی اور حضرت محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وسلم کی ذات میں کوئی تضاد نہیں نہیں مراد صرف یہ ہے ہے کہ اپنے بھائیوں اپنے بزرگوں اپنے دوستوں کا حسن کے ساتھ ذکر کرو خیر کے ساتھ ذکر کرو کرو ان معنوں میں کہ تم اللہ تعالی سے امید رکھتے ہو کہ ان کے بارے میں تمہارے انداز کے ساتھ ہوں گے گےاور جب میں کہتا ہوں کہ میں یقین رکھتا ہوں تو ایک دعا کر ہمیں کہتا ہوں احوال تک میرا علم ہے اس ان کے اظہار کے طور پر کہتا ہوں آہو لیکن فتویٰ دینے کا حق ہے نظر کام کرتی ہے ہے جہاں تک دور سے میں نے ان کو بھی دیکھا رات کو دیکھا اور قریب سے ان کی ذات کو دیکھا اثرات کے متعلق علم حاصل کیا جو میری پیدائش سے پہلے بھی موجود تھی گزارش کی تھی اور اس ذات کے متعلق بھی غور کیا جو جس میں میری زندگی کا وہ حصہ پایا یہ خواہش کہ زمانہ کہلاتا ہے ہے اور علمی لحاظ سے بھی آپ کا جائزہ لیا یا آپ کی کتب کا مطالعہ بھی کیا آپ کے متعلق لکھنے والوں کی تحریروں کو بھی جائزہ لیا یا آپ کے متعلق الف خدا تعالیٰ کے بندوں کے تاثرات کو بھی سنا اور بعض دفعہ آپ کی ایسی خوبیوں میں جھانکنے کا بھی موقع ملا جو عمل لوگوں کی نظر سے پوشیدہ رہتی ہے ہے خط و کتابت کا بھی موقع ملا da22 یہ علت میں ان کو دیکھا تو مان جاتا ہے لیکن خط لکھتے وقت اپنی اندرونی کیفیات کو ظاہر کر دیا کرتا ہے ہے تو ان سب کے ہمارے اس یقین کو سچا کر دکھائے آئے یہ ہمارے بہت ہی پیارے وجود لگتا تھی جو چند دن ہوئے ہمیں بنا کے رخصت ہوئے ہیں ہیں یہ اللہ کی نظر میں بھی منتقل ہے اور پیار کی نظر ان پر پڑ رہی ہو یہ راضیۃ مرضیہ اپنے رب کے حضور حاضر ہوئی ہوں ہو آپ بھی قرآن کریم کی اس آیت کے مصداق اور ان تمام غلام محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے گروہ کے مستحق ق کے مطابق ق جو اپنی اپنی جگہ یہ گواہی دیتے رہے ہے کہ محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وسلم یقینا کلمہ تھے حضرت مسیح موعود علیہ السلام اسلام میں جو نور پایا جو فیض آپ کو حضرت محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وسلم کی رحمت و برکت کے نتیجے میں ہوا اور آپ کو بھی اسی فیصد سے سیراب ہو کر آگے جاری کرنے کا پر مامور فرمایا گیا یا اس سے رابطہ رسول میں آپ بھی کلمہ پر بنائے گئے اور چوہدری محمد افضل خان صاحب ہوئے ان میں حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی صداقت کے نشان جلتے ہیں ہیں اور اس بات کا سب سے بڑھ کر آپ کو احساس تھا اتنا شدید احساس تھا کہ وہ اس ہر وقت زین پہ حاضر رہتا تھا میں نے مختلف حیثیتوں سے آپ کا جائزہ لے کر دیکھا ہے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کے ساتھ عشق آسان کے احساس کے ساتھ ساتھ یہ میری زندگی کا پڑتی ہے ہر وقت آپ کے ذہن پر سوار رہتا ہے یہ ہندوستان کی بات ہے برمنگھم میں ایک دفعہ بی بی سی کے نمائندے نے سوچنے کے لئے کرتے ہوئے جواب دیا کہ میری زندگی کا سب سے بڑا واقعہ تھا جب میں اپنی والدہ کے ساتھ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی خدمت میں حاضر ہوا کہنے پر نظر ڈالی اور آپ کے ہاتھ میں اپنا ہاتھ دیا یا اس دن کے بعد پھر آپ نے وہ بات کبھی واپس نہیں لیا یا اس سلسلہ میں لے رکھا ہے ہے اور جو عظمت بھی آپ کو ملی ہے اس کے نتیجے میں ملیں میں ملی ہے ہے اختیار کرنے کے لئے نہیں ہاتھ پھر کبھی واپس نہیں آیا یا ہمیشہ اپنے آپ کو حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کے تابع فرمان کے طور پر زندہ رکھا dor3mon میں ہر علم کے میدان میں ہر جدوجہد کے میدان میں میں ہر اندرونی تجربے کے میدان میںآ گئی ہے ہے اور جہاں تک میرا بس ہے جہاں تک میرے اندر خدا کی طرف سے یہ توفیق عطا ہوتی ہے میں اس کے تاج برا کرتا ہوں اور خدا کے فضل اور رحم کے ساتھ محنت کی عمدگی کے ساتھ نہایت کے ساتھ پورا کیا کیا اور آپ کے حق میں حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی پیش گوئی پوری ہوئی جو بار بار اللہ تعالی نے آپ کو عطا فرمائے اور اس بار بار میں بھی نہیں تھا جو آپ کو دیا گیا یا پھر فرماتے ہیں خدا تعالی نے مجھے بار بار خبر دی ہے کہ وہ مجھے بہت عظمت دے گا گا گا گا انگلش دعا سب کو درمیان سے اٹھا دے گا کا اور اپنے وعدہ کو پورا کرے گا گا کیا میں تجھے بھلا دوں گا یہاں تک کہ بادشاہ تیرے کپڑوں سے برکت ڈھونڈیں گے یہی وقت فرنگ میں میں مختلف وجوہات کی شکل میں پوری ہوتی رہی ہے ہے مگر چودھری ظفر اللہ خان صاحب مرحوم رضی اللہ تعالی عنہ کو کو خصوصیت کے ساتھ ظاہری طور پر بھی اس کو پورا کرنے کا اسلام میں مقام لا لا کہ آپ نے اپنی سچائی کے نور اور اپنے دلائل اور نشانوں کے رو سے سے سب کے منہ بند کر دیں دیا سیاست کے میدان میں بھی بی بی اور تبلیغ کے میدان میں بھی ایسی عمدہ بہ اس نہیں آتا تاکہ میں پھنس چکے ہیں ہیں لیکن بڑی حکمت بڑی فصاحت و بلاغت بڑی قابلیت کے ساتھ آپ نے پھر سیاست کی دنیا میں عظیم خدمات حرفوں سے لکھی جائے گی اور کوئی مورخ جو تقوی اور دیانت سے کچھ بھی حصہ بن چکا ہوں وہ چودھری ظفر اللہ خان صاحب کی ان خدمات کو نظر انداز نہیں کر سکتا اس کانفرنس میں اس کے علاوہ بہت سے مواقع آئے تیار کروائی تو بہت لمبی ہوگئی تھی یہ تو ممکن نہیں ہے چھوٹے سے قصبے میں ایک وسیع اور بھرپور زندگی کے سارے کا ذکر کردیا جائے تو باتیں بیان کر رہا ہوں جو آپ کی تحریک کے طور پر پر اور اس تحریک کے طور پر یاد دلایا رہا ہوں کہ آپ نے ابھی میں سے پیدا ہو ہو اور میں آپ کو یہ بتانا چاہتا ہوں ہو کہ جن آیات کی میں نے تلاوت کی ہے ہے کر کوئی وجود اور ہو ہی نہیں سکتانازل فرما رہا ہے ہے سب کو صلاۓعام دے دو دو اور کہہ دو کے اب تم ہی تم میں ہمت ہے تو آؤ او ان رستوں کو اختیار کرو جن پر میں نے توڑا تھا پکڑ کے دکھاؤ اور میری پیروی کر کے دکھاؤ او اور یہ لامتناہی رہتے ہیں کوئی روک نہیں ہے کوئی مثنوی بھائی حدیث ایسی نہیں ہے جو تمہارے لئے ثابت ہو اس لیے لڑنے کی اجازت ہے اور جوڑنے کی توہین ہے چلنا پڑے گا کیوں کہ یہ جو حضرت محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وسلم نے ٹھیک کر کے دکھائیں ہیں اگر ان کی طرف بڑھنے کی بھی کھلی اجازت ہے ہے اور حد امکان کے لحاظ سے کوئی فرق نہیں ہے ہے اگرچہ یہ بھی بڑی وضاحت کے ساتھ رکھا گیا ہے ہے کہ کبھی ایسا نہیں ممکن نہیں ہوگا کہ کوئی شخص حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے پیچھے چلتے ہوئے آپ سے آگے نکل جائے لیکن روکا نہیں گیا بلکہ بلایا گیا ہے ہے کے مقام کے آخری ہونے کو کو ما یو سی کے لیے استعمال نہیں فرمایا بلکہ دعوت عام طور پر استعمال کیے تحریک کے طور پر استعمال کرنا ہے آئے تو آپ سے ادنیٰ جتنے بھی بندے ہیں ہیں ان کے رستوں پر چل کر ان سے آگے نکلنے کی توہین قانون بھی موجود ہے ہے تو کتنی عظیم خوشخبری دی گئی امت محمدیہ کو آپ کو اگر حضرت محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی عظمت بھی میں ان رستوں پر دوڑ کر جدوجہد سے روک نہیں رہی تو چھوٹے چھوٹے عدنان غلام اس کے کے ان کو تم کیسے آخری سمجھو گے کیسے تم مایوس ہو جاؤ گے کہ اتنی بلندیوں تک جا پہنچے ہیں کہ ہم آگے نہیں بڑھ سکتے تم ایک کھلا ہوا راستہ ہے ہے اور جہاں تک کلیمات بننے کا تعلق ہے ہے محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وسلم چند کلمات بنانے نہیں آئے تھے ایک یا دو یا تین یا چار یا دس عشرہ مبشرہ دیکھ کر چلے جانے والے موجود نہیں تھے جو کلمات آپ کو عطا کرنے کی صلاحیت بخشی گئی ہے ہے اگر تم اپنے حصے کے حق ادا کرتے رہو ہو تو یہ صلاحیت لا محدود ہے ہے تو لوکاں نوں میرا دل لے گیا تختی لامحدود ہے ہے یا کلمات کے معنی ختم بھی بن جاتا ہے ہے اگر تم لینے والے بنو تو وہ خزانہ کبھی ختم نہیں ہو سکتے ہیں اللہ انہیں ترقیات کے رستے مالیکولی تمہیں اس لیے ذکر کر رہا ہوں ہو کہ جہاں ایک طرف آپ کے دل میں دعا کی تحریک پیدا ہوا اور حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کی پیشگوئی پر نظر کرتے ہوئے ہے ہے میرے محمد کا نام آسمان سے عطا فرمائے عطا کہا جاتا ہے اور جس کے کلمات بھی نہ ختم ہونے والے والے آپ مایوسی کا کوئی خیال نہیں اللہ خان ہمیں چھوڑ کر جارہا ہے تو آئندہ کے لئے ظفر اللہ خان تھا انہوں نے راستے بند ہوگئے بکثرت اور بار بار حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کو ایسی عظیم الشان غلاموں کی خوشخبری دی گئی ہیں ہیں جو آپ چلے جائیں گے ہمیشہ اور ایک گزرے گا تو دوسرا اس کی جگہ لینے کے لیے آگے بڑھے گا گا کریں ان طلبہ کی راہ کو اختیار کریں جو حضرت چودھری صاحب اختیار کرتے رہے رہے ہیں وفا کی خصلتوں سے مزین ہیں جن سے وہ غلط ہے صبر اور ہمت پیدا کریں جو آپ کی ذات کا ساتھ ہے ہیں اور اللہ تعالی کی محبت اور پیار میں میں اسی طرح رنگین ہو جائے بلکہ اس سے بڑھ کر نہیں ہونے کی کوشش کریں کریں جس طرح چودھری صاحب کو اللہ تعالی نے اپنی محبت کے خاص رنگ عطا فرمائے تھےبعد کوئی نہیں کہہ سکتا کہ وہ آئندہ ایسا نہیں ہوگا وہ ایک ہی تھا جس نے سکھایا نہیں ہوا نہ ہو سکتا ہے نہ ہوگا اور وہ ہمارے آقا و مولا حضرت محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وسلم لیکن ایک ہونے کے باوجود پیدا کرنے کی صفات آپ کو بخشی تھی ویسے آپ بھی تو بننے کی کوشش کریں کریں جو آصف کے ذات کے مختلف پہلو ہیلو یہ بیان کرنا چاہتا تھا وہ اتنی زیادہ وسیع نکلے پلے اور جن کا انتخاب کیا ہے وہ بھی پوری طرح ہو نہیں سکتے مت مطاوعت کی خدا نے عظمت عطا فرمائی تھی کہ جتنے بھی منصب آپ کو ملتے تھے وہ منصب سب ہمیشہ آپ سے چھوٹے رہتے تھے اور وہ منصب جب آپ کو چھوٹا نہیں دکھا سکے آپ کی ذات میں حوصلہ تھا مجھ پر تھی اور کسی منصب پر بیٹھ کر یہ نہیں لگتا تھا کہ منصب نے آپ کو اونچا کر دیا ہے ہے بلکہ حقیقت میں آپ ہمیشہ مناسب کو پوچھا کرتے رہے رہے ان کے معیار کو بڑھاتے رہے رہے یہاں تک کہ وہ نسل جو اپنے چھوڑے ے تو پہلے سے زیادہ بلند مقام پر دکھائی دیا کرتے ہیں ہیں اور یہ خصوصیت اس کے نتیجے میں انسان کو عطا کرتی ہے ہے اگر گہری نظر سے آپ غور کریں تو اس اور حوصلہ کی وسعت ایک ہی چیز کے دو نام ہیں اور کم فہم سرسری نگاہ رکھنے والا یہ سمجھتا ہے کہ کرنے کے نتیجے میں بلندی بھی عطا ہوتی ہیں اور غصہ بھی آتا ہے لیکن فطرت انسانی سے واقفیت رکھنے والا جس نے قرآن کریم سے انسانی کے راستے ہیں وہ حقیقت کو خوب جانتا ہے ہے کہ اس ہی میں بلندی ہے اور ہیں میں فرق اور یہ دونوں مضامین میں روزانہ پانچ وقت کی نماز کی ہر رکعت میں بتاتی ہوں پہلے اس کا اظہار عمرکوٹ کی صورت میں کرتے ہیں اور وہاں سبحان ربی العظیم پڑھتے ہیں ہیں ان حسرتوں کی طرف خدا تعالیٰ ہمارے ذہن کو منتقل فرما دیتا ہے ہے کہ تم جھوٹے ہو تو تمہیں غصہ آتی رب عظیم کے سامنے جھکے اور دوسری حرکت جو ہم ان کے گھر کی طرف کرتے ہیں جو منتہا ہے اور وہ خدا تعالیٰ ہمیں سکھاتا ہے سبحان ربی الاعلی جو کہ وہ بلندیوں کی طرف سے ہو رب اعلیٰ کی طرف جو اللہ خان صاحب رضی اللہ تعالی عنہ نہ ان دونوں باتوں سے ان دونوں راستوں سے خوب واقف تھے چنانچہ ان کی عظمتیں مفتی اور ان کی رفتی دونوں ان کو اس کے نتیجے میں نصیب ہوئی وہ واہ ان کے اندر ہر خدمت دین کا جذبہ تھا تھا اور کوئی دنیا کا منصب اس سے ان کو روک نہیں سکتا کتا اور دنیا کے منصب کے نتیجے میں وہ اپنے آپ کو کبھی ایسا بلند سمجھتا ہی نہیں وہ ہمیشہ اس دنیا میں جو کچھ بھی نہیں کرتا تھا دین کی خدمت میں نظر آئے وہ جو عارف باللہ کی ضرورت ہے وہ اس کی بات نہیں کر رہا ہوں ہو کراچی دین کی خدمت میں اپنی بلندی دیکھتے تھے دین کی خدمت نہیں آپ کی ساری باتیں ایک دفعہ کا کا انیس سو اکتالیس میں آپ کو کا جج مقرر کیا گیا ہے ہے تو اسی زمانے میں حضرت مسلم ابن تحریک کی تھی کہ فاتح قادیان الذکر جو دیہات ہیں ان میں تبلیغ کے لیے لوگ اپنے آپ کو پیش کریں کا جسٹس 48 اڑتالیس میں اس درد میں تبلیغ کے لیے باقی سب مبلغین کے ساتھ مل کر جایا کرتا تھااتنا بڑا مقام ہے کوئی دیکھے گا یہ سنے گا تو کیا کہے گی کیا کر رہا ہے ہے کہ چھوٹے چھوٹے گاؤں ڈی پی اور بہنیں اور اقوال وغیرہ بے شمار چھوٹے چھوٹے گاؤں تھے جن میں ایک عام آدمی احمد کے طور پر شامل ہوا کرتے تھے اور فخر کے ساتھ اس اس کے ساتھ ساتھ ہیں اللہ تعالی کی عطا ہے اللہ تعالی کی طرف سے مجھے سعادت نصیب ہو رہی ہے ہے اور یہ تمنا میں ایسے ایسی خدمات کے لئے نہیں تھی جو عام حالات میں سہولت کے ساتھ ادا ہو سکتی ہے ہے بلکہ نہایت خطرناک خدمات کے لیے انہیں کسی قسم کی تمنا آپ کے دل میں پیدا کرتی ہے جب کابل میں انیس سو چوبیس میں حضرت نعمت اللہ خان صاحب کو شہید کیا گیا یا محمود میں نا مطلب کی ہے ان لوگوں کے جو جو تمام خطرات کو اچھی طرح جانتے ہوئے ہوئے پھر وہ اس بات کا عہد کریں کہ وہ قابل میں جائیں گے اور ایک شہید کی بجائے آئے وہ مثال خدمات سر انجام دیں گے جو شہید شہادت کی بنا پر مزید نہیں سرانجام دے سکا کا اور اس سلسلے کو ٹوٹنے نہیں دیں گے یہ تھی اس کی روح اور جو نام پیش ہوئے اسے چودہ سال ہو گئے تھے ر ہونے والوں میں سب سے پہلے کرتے ہوئے لکھا ہے کہ ماؤں کی خدمت میں میں وہ خدائی ساخت ہے ہے کیونکہ وہ اپنے امام کو لکھ رہے تھے اس لئے باوجود بیعت کی ہو کے جن کا خود ذکر کر رہے ہیں نہیں نسبت زیادہ آسانی کے ساتھ کھل کر دل کی اپنی کیفیات کو ظاہر کر سکتے تھے تھے ایسے موقع پر آپ کی ذات کے اندر جھانکنے کا موقع ملتا ہے ہے تقویٰ یہ کیمرہ سے آپ گزر رہے تھے تھے کیا آپ کے کے قلبی جذبات اور کیا آپ کی تھی جب آپ نے اپنے آپ کو پیش کیا ہے اور تنقیدی نظر ڈالی ہے آپ پر تجزیہ کیا ہے اس خوف کے ساتھ ہیں کا مظاہرہ نہیں کر رہے ہو جائے گی کے آئینے میں آپ کو نظر آئیں گی لکھتے ہیں ہیں سیدنا ابوامامہ نہ السلام علیکم ورحمتہ اللہ وبرکاتہ پتہ نہیں زندگی آج تک ایسی ہی گزری ہے ہے کہ سوائے اندھوں نظامت کے اور کچھ نہیں سیاست میں بھی آپ کو دخل ہو چکا تھا اور ان کے حل کی نگاہ تھی آپ کی طرف رضیہ کا اپنے آپ کو کس مقام پر دیکھ رہے تھے تھے اس کا اظہار ہوتا ہے ہے سوائے اردو نظامت کے اور کچھ نہیں یہ بھی کوئی زندگی ہے کسی اور کام کی فرصت ملے حالانکہ ہمارے لاہور کے بھی بھرپور فرائض سرانجام دے رہا تھا اس کا اور دنیا کے دھندوں میں پھنسا ہوا انسان طرح طرح کے گناہوں میں مبتلا رہے آج وہ ایک خوش قسمت کے محبوب حقیقی کے ساتھ وصال کی خبر آئی آئی تو جہاں دل میں شدید درد پیدا ہوا وہاں یہ بھی تحریک ہوئی یہ تمہارے لیے یہ موقع ہے کہ اپنی ناکارہ زندگی زندگی کو افغانستان کی سرزمین میں حق کی خدمت کے لیے پیش کروں کرو پھر میں اچانک کا کیا یہ محض میرے نفس کی خواہش خواہش نمائش تو نہیں نہیں یقین پر مجھے نہیں بھیجا جائے گا گا ہو اور میں نے مشکلات کا اندازہ کیا جو اس راستے میں پیش آئیں گی گیتی سمجھایاجو ہر ایک کو نصیب نہیں ہوتی اور کیاتم محض اس لیے اپنے ہی پیش کرتے ہو کہ جاتے ہیں شہادت کا درجہ حاصل کروں اور دنیا کے افکار سے نجات حاصل کر لو آلو میاں تمہارے اندر یہی مت ہے ہے ایک لمبا عرصہ زندہ رہ کر ہر روز اللہ تعالی کے راستے میں جان دو اور متواتر شہادت سے منہ موڑ ہو ہو آرام طلب ہو لیکن غور کے بعد میرے نفس نے یہی جواب دیا ہے کہ میں نمائش کے لئے نہیں نہیں فوری شہادت کے لئے نہیں نہیں دنیا کے کے افکار سے نجات کے لئے نہیں نہیں بلکہ گناہوں کے لئے توبہ کا موقع میسر کرنے کے لئے لئے گناہوں کے لئے توبہ کا موقع میسر کرنے کے لیے اپنی آخرت کے لئے ذخیرہ جمع کرنے کے لئے لئے اللہ تعالی کی رضا کے حصول کے لئے اس خدمت میں پیش کرتا ہوں ہو اگر مجھ سے لے کر نہیں نہیں کسی نے کہا ہے بے زبانی ترجمان شوق بے حد ہو تو ہو ورنہ پیش آتی ہے نا ورنہ پیش یار کام آتی ہیں تقریریں بے زبانی ترجمان شوق بے حد ہو تو ہو ہو ورنہ پیچھے یار کام آتی ہیں تقریریں بھی یہ حسرت موہانی کے شعر ہے جو آپ نے کوٹ کیا کیا اس لیے اسی پر بس کرتا ہوں کہ جس وقت حضور حکم فرمائیں افغانستان کے لیے روانہ ہونے کو تیار ہوں اور فخر حضور کی دعاؤں اور اللہ کی رضا کا طلب گار ہوں السلام حضور نظر کرم غلام خاکسار ظفر خان ان آٹھ نومبر 1924 20 یہ آپ کا جذبہ خدمت تھا تھا اور اللہ کی ذات کے ساتھ محبت تھی دراصل اور اللہ تعالی کا ناراضگی کا خوف جو آپ کے سر پر سوار نہ کرتا تھا کے حصول کی خواہش یہ دو تھے وہ جذبات جو چودہ خان سے پوچھا کیا میں ایک منزل سے دوسری منزل کی طرف رواں دواں رکھتے رہے ہے یہ وہ قوت تھی جس سے آپ نے کم عمر ہے نصیب ہو جائے اس کے لئے اللہ تعالی کی طرف سے لامتناہی نعمتوں کے دروازے کھل جاتے ہیں ہیں اور ہر قدم پر خدا کی طرف سے رہنمائی نصیب ہوتی ہے ہے اللہ کا خوف خدا کی محبت سے محروم ہونے کا خطرہ اور اللہ تعالی کی محبت کی ہیں ان میں کچھ ایسے کام کرنے کی توفیق ملے کے خلاف محبت اور پیار سے دیکھنے لگے یہ دو بنیادی قوتیں ہیں ہیں جن سے مل کر بہت خوشی ہوتی ہے ہے اس کی دعائیں بھی اسی دور کے ساتھ اونچی ہوا کرتی بلند ہوا کرتی ہیں جس سے وہ بچایا جاتا ہے ہے اور غیر معمولی تائید الہی کے نشان اس کو عطا کیے جاتے ہیں ہیں اور خدا کی راہ میں قربانی کے مختلف مظاہر ہیں اس جان کی قربانی عزت کی قربانی ی یہ دو جذبے ہیں فقط میں جن کا نام تقویٰ ہے اور اسی طرح سے یہ ساری نیکیاں پیدا ہوتی ہیں ہیں کبھی حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام شام کو ملا کر ہم نے بتایا کہ اگر یہ ڈر رہیں سب کچھ رہا ہے ہے اپنے شیر کہنے کے لئے ایک مصرع کہاکہاں ہے ہے ایسا پیارا معرفت کا نقطہ تھا تھا ابھی اب دوسرا مصرع کہ نہیں پائے تھے کہ اللہ تعالی کی طرف سے دوسرا مصرع ہوا اگر یہ بڑھ رہی سب کچھ رہا ہے تو جہاں تک میں نے جائزہ لیا ہے چودھری ظفر اللہ خان سے زیادہ تعالی عنہ ہو تقوی کی جڑ سے اس طرح چلتے رہے ہیں ساری عمر کے اصل وہ اب تو ان کا مضمون دکھائی دیتا تھا تھا تھے جو بات کہی اس پر قائم ہے طبیعت میں کوئی دوگلا پن نہیں تھا زبان سے کچھ اور عمل سے کچھ اور اس قسم کا تضاد آپ کی ذات میں کھلی تنخواہ کے تضاد کا کیا تعلق تھا اس کے بعد جو آپ کو خدمات کی توفیق ملی ہے وہ ایک تو بھی نتیجہ تھا اس کا اس میں یہ بھی کسی اور کی ضرورت نہیں رہتی جس کو یہ روشنی نصیب ہو جائیں انہیں تقوی کا یہ ماہ سے مل جائے کہ خدا کی محبت ہونے کا خوف اور اس کی محبت حاصل کرنے کی تمنا نا اس کے لیے باقی سب چیزیں آسان ہو جاتی ہے قربانی ہو رہی ہے بڑا زور مار رہا ہے قدم قدم پے اس کی تمناؤں کا خون ہورہا ہے مصیبتوں میں مبتلا ہے ہے لیکن ایسا انسان اندرونی کیفیت میں خود جانتا ہے کہ بس وہ پہلی دو چیزیں تھیں مشکل تھی فی الحقیقت تقوی کے مفہوم کو سمجھ کر اس پر اس رہنا یہ ہے سب سے مشکل کام ہے سب مناظر آسان ہو جاتی ہیں حیرت انگیز زندگی ہے اتنی بھرپور ہے ہے کہ ملنے کے لیے آئے تو اس کا افسوس کر رہے تھے تھے میں نے ان سے کہا کہ کہ آپ تو ایک ذات کا افسوس کر رہے ہیں ہیں وہ ایک ذات کے طور پر زندہ نہیں رہے ہے ان کے اندر کی شخصیت کی زندگی تھی عرصہ تک مسلسل کی شخصیت سے ان کے اندر بھرپور زندگی گزار ہیں لوگ ان کو ایک خوش سیاستدان کے طور پر بھی دیکھتے رہے اور ساری عمر نہیں سمجھتے رہے رہے اور اس لحاظ سے بھی وہ سمجھتے تھے کہ میں بھرپور زندگی گزاری ہے ہے لیکن کچھ لوگوں نے ان کو برداشت کر سکیں ہونے کے باوجود یہ نہیں تھا کہ انسانیت کو سستا ہوا دیکھیں اور بہی سے گزر جائے حوصلے ہی چھوٹا تھا بلکہ زمین کے ساتھ بیٹھا ہوا تھا اور اس کے ایک بھی مانی ہے روحانی ہے دنیا کے دکھوں کا تعلق ہے ہے ان کے حوصلوں کو پست کر دو تاکہ تم بھی رحمت اللعالمین بن سکوں اس آیت میں جتنی بھی نیکی عطا ہوتی ہیں وہ اس قسم کے حوصلہ کی پستی سے عطا ہوتی ہے حیرت کی بات ہے کہ آپ نے جتنی خدمت خلق کے کام کی ہی دوسری ذمہ داریوں کے علاوہ وہ ان کا شمار میرے خیال میں ایک بھی انسان اس وقت ایسا نہیں ہے جو یہ کہے کہ میں نے سارے شمار کرنی ہے کچھ ظاہر بھی تھے اور میں بھی تھے اور اس کے ساتھ کے لئے ممکن نہیں کر سکے ان کا کاغذات میں ذکر نہیں ملتا ان کا نوٹس میں ذکر نہیں ملتا جو ٹرسٹ نے قائم کیے تھے اس کے ساتھ آپ کی خدمت کی ہے ہے کہ تم نہ جب بعض اوقات بات مجھ سے واسطہ پڑتا تھا اس کو دکھائی دیتا تھا یہ معاملہ اللہ کا ذکر کیا اس مصیبت تکلیف میں مبتلا تھے تو سب کو اطلاع بھیجیں اور اس کے نتیجے میں اس کے بعد پھر اس معاملہ میں کوئی شک نہیںمفلوج لوگ بعض بیماریوں میں مبتلا اور ہر طالب علم جو غریب تھے مجھے تیری جستجو کے ساتھ آپ نے خدمت خلق کا کام کیا ہے ہے اور اتنی جسم میں ہے اور یہی نہیں بلکہ اس سے دیا کرتے تھے تھے کہ یہ معلوم ہوتا ہے کہ ساری زندگی کی کمائی ہو رہی ہے اور پھر جب آپ جماعت کے چندوں پر نگاہ ڈالتے ہیں جماعتی خدمات پر نظر کرتے ہیں تو یوں معلوم ہوتا کہ ساری کمائی اس کے سوا کوئی فرق نہیں ایس یو سی حوصلگی کے ساتھ دے دیے ہیں اس وقت جورڈن کی ساری مارتے ہیں یہ ان کی ذاتی کوشش کرتے ہیں تم جاتی جیب ذاتی آمد سے اپنے سارے مسائل پیدا کیے ہیں ہیں ہمیشہ ہوس کی حالیہ لاہور عورتوں کے لیے یہ عمارت رہائشی اچھی اچھی ساری خدا کی رضا کے ساتھ ان کو توفیق ملی اور آپ نے بھی ایک چھوٹا سا ایک کمرا تھی جب جماعت کو ضرورت پیش آئی ہے آخر کیا شادی کے لیے کہ وہ سیڑھیاں چڑھ سکتے سے زیادہ دہ وہ باہر بھی چھوڑ کے چلے گئے تھے اور اس کے علاوہ بھی الوقت تو میں جب تحریکات ہوئی ہیں اور حضرت مصلح موعود کے زمانے میں میں پیش کرنے کی تحریک میں اس وقت آپ اولین میں سے تھے سریز پیش کرنے میں اور جس طرح کے اندر کہانی کی تھی صاحب اعظم تھے تھے ظاہر ہے اس خط سے بھی بھر کے سنایا ہے ہے یہی تھی ایک بھائی کی داد بھی میں آپ نے بھی نہیں رکھوں گا خطرات کے پیش نظر ہر مسلمان ہیں وہ پیش نہیں آئے آئیے اس لیے وہ جہاد نہیں دی گئی ہے لیکن اس کے علاوہ بھی جب بھی جتنی ضرورت پیش آئی ہے کبھی ایک لمحہ بھی تردد آپ نے محسوس نہیں کیا بلکہ کوشش ہوتی تھی کہ وہ خود یہ کیفیت کی آپ کے کندھوں میں جو ہمیشہ اسی طرح گی اور احسان ایک قوم اس میں سے پانی پئے گی کیا ہوا ہے طاہر قوم نے اس سرچشمے سے پانی دیا کیا یعنی یونائیٹڈ نیشنز کی آپ کو صدارت نصیب ہوئی وی میں اگر کسی ایک تاریخ کے ساتھ یاد کیا جائے تو وہ یونائیٹڈ نیشنز کی اخلاقی طور پر آئے گا اخلاقی قدروں کو آپ نے وہاں نافذ کیا ہے ہے اور وہ ایک دور تھا جب کہ دہریہ سیاستدان بھی جو حصہ لیا کرتے تھے رینجرز میں اور کے الفاظ استعمال کرنا مجھ سے میں آپے سے باہر ہو جانا یہ ساری برکتیں اس کی تھی اور قرآن کریم کی تلاوت کرنا ان سے پہلے دن سے اس دن بعد کرنا اور اخلاقی تعلیم دیتے چلے جانا قطع نظر اس کے کہ کوئی مانتی ہے کہ نہیں آپ کو یہ قرآن کریم کو کو یہ آپ کا شیوہ تھا اسی طرح خدا نے عطا فرمائی تھی اور بعد میں عظمت تھی کہ ہر کے نتیجے میں میں مجھے بات کو عظمت و کردار سے نصیب ہوا کرتی ہے لفاظی سے نہیں کرتے اس کے نتیجے میں گھروں پر بھی رو بیٹھا تھا کہ ایک دن رہا تو اس نے مجھ سے خود ذکر کیا بہترین شکل دکھانے پر پر جنسی تعلقاس لیے یہ کمیشن میں کیا کرتے ہیں اللہ تعالی کا خاص فضل ہے احسان ہے کہ اس نے ان کے دن میں گروپ سے نکال دیا تھا اور وہ میری باتوں کو مانتے تھے اللہ کے بظاہر کوئی حق نہیں تھا میرا اس طرح ان کو پابند کرنے کا عذاب کے کے ملزم کی حیثیت معلوم ہے معروف ہے لیکن سیاست کی دنیا میں جو کی جاتی ہے گروپ کے متعلق کوئی عمل نہیں ممالک ہی دیش میں آئے تو سب کچھ بھول جاتے ہیں کون بیٹھا ہے نظم و ضبط کیا ہوتا ہے ہے اور وقت کی پابندی کروانا یہاں تک بھی آپ کو آداب سکھانے پڑے گا اور بلا شبہ اس وقت حضرت مسیح موعودعلیہ الصلوٰۃ والسلام کا یہ کلام ویسے تو بکثرت ایسے ہیں جن سے قوموں نے فائدہ اٹھائیں آئی کی ہوگی ایک سرکش میں سے جو حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کی غلامی پر فخر کیا کرتا تھا اور سیراب ہوئی اور پھر قوموں کی بھرپور خدمت میں میں آپ کو بلاک کرنے ایسے مواقع نصیب فرمائے آئے کہ وہ وقت ایسا تھا جب کہ نئی تاریخ کی شکل بن رہی تھی جو جدید تاریخ ہے آج کی اس کی بنیاد ڈالی جارہی تھی اس دور میں جب کہ آپ کو یونائیٹڈ نیشنز میں میں پیش ہونے کے موقع عطا فرمائے اللہ تعالی نے ایک نمبر کی حیثیت سے ایک نمائندے کی حیثیت سے رضا کی سیرت سے چنانچہ ایک لمبے دور تک اور جو آپ پاکستان کے وزیر خارجہ بنے ہیں اس وقت سے سے ایشن کی صدارت تک پہنچنے کا خدشہ ہے ہے یہ ایک بہت ہی اہم حصہ ہے جس میں نئی تاریخ بن گئی تھی فلسطین کی خدمت کا آپ کو موقع ملا کر آپ کے ہاتھ چومتے تھے بڑے سربراہ شاہ اور اپنے اپنے ممالک میں بڑی عظمتوں کے مالک اور اس بات پر فخر کرتے تھے اس تھا تھے انہوں نے آخر دم تک اس کو دیکھا ہے ہے صرف فلسطین کا معاملہ نہیں تھا تھا ان کے حق میں آپ نے باتیں کہیں ان کے حق میں نے جن کے حق حاصل کرنے میں آپ کی مدد کی کی مسلمان ممالک میں یونائیٹڈ نیشنز میں آپ کی تاریں جو ریکارڈ ہے وہ دو سال قبل میں نے بڑی محنت سے کوشش کر کے حاصل کر لیا ہے جو اس وقت دنیا کے سامنے پیش کیا جاتا رہے کیونکہ بعض لوگ تو خیر بھول جاتے ہیں بعض لوگ نہیں کر مسلمانوں کی خدمت کی ہے الزام لگانے والے بدقسمت ہیں کہیں مسلمان ممالک کے مفادات کے خلاف کوشش کی آواز بلند کریں تو میں نے تو اس نے سپورٹ کیا تھا تھا کی کی کی یہ تو بہت ہی لمبی فہرست ہے اور لمبا ذکر ہے ہے میں اپنے ذاتی تاثرات بیان کر رہا تھا اور وہ میں اسی پر پھر بات ختم کرنا چاہتا ہوں کہ چوہدری صاحب کے ساتھ خط و کتابت بھی بہتر ہے ہے اور میں جانتا ہوں ہو کہ بہت ہی نرم دل تھا عطا شاد کی اللہ تعالی کی کی اور خشوع و خضوع خشوع و خضوع تھاکبھی غور نہیں سکتا تھا کہ وہ لاہور میں ہوں اور میں بجلی بغیر یا آپ کے ساتھ کھانا کھائے بغیر یا آپ کے ساتھ کچھ وقت گزارے بغیر واپس جا سکیں کیوں کہ مجھ میں ہمت نہیں تھی ان کے شکوے کی اور وہ اس بات پر بہت یقین بہت شوقی ہو جاتے تھے تھے اس لیے جب ہم نماز پڑھتے تھے تو مجھے کہا کرتے تھے کہ تم نماز پڑھتے ہو او اور اس وقت ان کی کیفیت ہوتی تھی قریب سے وہ صرف سننے کا ثواب نہیں وہ محسوس ہونے لگتی تھی تھا ان کی نمازوں میں اور ہر لفظ جو ادا کرتے تھے اک موتی کی طرح سجا کر خدا کے حضور پیش کیا کرتے تھے تھے سمجھ رہے ہیں جانتے ہیں کہ عبادتیں قبول ہوگی اگر تحفہ کے طور پر پیش کریں گے پھر وہ پرائیویٹ مجلسوں میں گفتگو کرتی ہے ہے مختلف پہلو سے ان کی طبیعت میں جھانکنے کا موقع ملا ملا پر خط و کتابت کے ذریعے بیان کیا ہے ہوئے ہیں لیکن چونکہ وہ ان کا مزاج نہیں تھا کہ لوگوں کو ان کی بعض اندرونی کیفیات کا پتہ چلے صرف چند چند دوستوں کے ساتھ چند آدمیوں سے بے تکلف ہو جاتے تھے ہر خط میں اتنا حیرت انگیز ہے ہے کہ جو خط پڑھنے والے کو شرمندہ کردیا کرتا تھا تھا اسی وجہ سے ان کے ساتھ مجھے خاص ایک اللہ تعالی کی طرف سے ایک تعلق ہوتا ہوا تھا اور اور جب خلافت کے بعد بعد ملتا ہے پہلا کاش دکھایا ہے تو تعجب کی بات نہیں کہ پہلے کشمیر چوہدری ظفر اللہ خان صاحب بھی دکھائے گئے اور وہ بھی عجیب شخص تھا میں حیران رہ گیا کہ اس طرف کسی نے پوچھا مجھ سے خفا بننے کے بعد کو الہام ہوا ہے مجھے ابھی تک کچھ نہیں ہوا بس میں گزرا ہوں جس طرف ہے خدا تعالیٰ فرما رہا ہے تو پھر ٹھیک ہے ہے تو اس کے چند گھنٹے بعد ہی میں نے صبح کی نماز کے بعد آزاد کشمر واضح طور پر یہ دیکھا دیکھا کہ چودہ خان صاحب لیتے ہوئے ہیں اللہ تعالی سے باتیں کر رہے ہیں ہیں اور میں وہ باتیں سن رہا ہوں اور فاصلہ بھی ہے مجھے علم ہے کہ لیٹرین میں ہوئے ہیں ہیں لیکن جس طرح فلموں میں دکھایا جاتا ہے قریب اور ٹیلیفون کہیں دور رہے ہیں اور سن رہا ہے کے اس کے نظر کس کے ہو جاتے ہیں ہیں جن میں یہ دیکھ رہا تھا کہ وہ اپنے بستر پر لیٹے ہوئے اللہ تعالی سے باتیں کر رہے ہیں کچھ اور میں اس دن بھی رہا ہوں اور اور اس طرح ذہنی تبصرہ بھی ہو رہا ہے ساتھ ساتھ لیکن وہ میری آواز نہیں پہنچ گئی یہ کہہ رہے ہیں اللہ تعالی نے اس سے پوچھا کہ آپ کا کتنا کام رہ گیا ہے ہے یہ کام تو چار سال کا ہے ہے لیکن اگر آپ ایک سال بھی عطا فرمائے تو کافی ہے ہے یہ سن کر مجھے بہت سخت دھچکا سا لگا اور میں یہ کہنا چاہتا ہوں اس سے آپ کو چار سال مانگ خدا سے یہی کہہ رہا ہے کہ ایک سال بھی عطا ہو جائے تو کافی ہے اور کام شاستر کا بیان کر رہے ہیں اور پھر کہتے ہیں کہ ساری کافی ہے تو مجھے اس میں بے چینی پیدا ہوئی بات نہیں سکتا تھا صرف سن رہا تھا کہ یہ گفتگو ہو رہی ہے ہے وہ میں نے پھر دوسرے دن ہی تو اللہ صاحب اور ان کی بیگم کو لکھ کے بھیج دیا اور مجھے اس سے تشویش پیدا ہوئی کہ ہوسکتا ہے اللہ لمبی زندگی میں مثبت ملے لیکن کام کر صرف ایک سال ہی ملے ایسا ہی ہوا ہے انیس سو تراسی میں بیماری کا حملہ ہوا اور اس وقت تک جو وہ کام کر سکتے ہیں عمل اس کے بعد پھر رفتہ رفتہ پھر پھر عمل بالکل ان سے الگ ہونا پڑا ان کو کو کو بھرپور کام صرف ایک سال توفیق ملی ہے پھر آپ کو پاکستان آنا پڑا بیماری کی وجہ سے اور اس کے بعد بھی گرتی چلی گئی ہے ہےجو شریف بیماری کا حملہ ہوا جس میں ڈاکٹر نے کہا کہا کہ بچنے کی کوئی آثار نہیں ہے ہے یہ دوبارہ ہوا ہے اس قسم کے دو سال کے بعد انہیں بھی اسی میں کراچی تھا تھا وہ فروری کراچی میں یہ اطلاع ملی کہ ابھی لاہور سے فون آیا ہے کہ نہیں مجھے یقین ہے میں نے کی پھر رات رونیاں میں عطاء نہیں آیا یا خدا یا خدا تعالیٰ کی طرف سے جو چودھری صاحب کی بیماری کے متعلق میں پڑھ رہا ہوں صرف ایک صحرا ہے جس پر نظر جمی ہوئی ہے ہے اور اس کا مفہوم یہ ہے کہ میں زندہ بھی کرتا ہوں اور اور مجھے بھی اتار دیتا ہوں میں ابھی کر دیتا ہوں آہو بھی وہی کا مضمون تھا دونوں معنوں میں دوسرے کے ساتھ بھی کی محبت بھی کرتا ہوں اور زندگی یہ تھی کہ انہوں نے چندا وہ ہم نے ہو چکا ہے میں ادا نہیں کر سکتا کتا نہیں کی کیا گیا ہے تو اس سے فائدہ اٹھایا گیا ہے اندازہ کرو جب میری آخری ملاقات ہوئی ہے اس وقت بھی ابھی اس کا بہت بہت تھا یہ سے ہے ہے تو اس نے نے جو مضمون بتایا اس نے مجھے یہ بھی یقین ہوگیا کہ ان شاءاللہ ایک اس صورت میں تو اللہ تعالی ان کو نہیں دے گا اور جب تک وہ نہیں اترتا اس وقت خلافت اللہ زندہ رکھے گا چمچہ ہلاتے رہنا اختراعات کی خطرات پیدا ہوئے کی بحران آئے اور ڈاکٹروں کی نظر میں تو وہ ہر دفعہ اور یہاں رائٹ آف کر چکے تھے اس کی کوئی امید نہیں نہیں اس میں کچھ کوشش کی توفیق عطا فرمائی ہیں رفیع الدین ایڈووکیٹ ان کو بھی پتہ نے کراچی سے بھی بتا دیا یا رب رکھا بلکہ ہیں اور ہر کمپنی کے ذریعے ہوئی تو قانونی طور پر اس طرح ان کو قابو کر لیا یا جو ان کو پریشان کیے ہوئے سے چند مہینے پہلے کی بات ہے کہ انہوں نے مجھے بتایا کہ حملہ نہ صرف یہ رقم کے میں مل جائے گی کی بات نہیں نہیں وہ عمارت جو دو لاکھ سے زائد کی ہے وہ ہمارے قبضے میں آ گئی ہے آپ کو لگتا ہے وہ ایک چونکہ اس خوشخبری میں یہ دونوں باتیں اکٹھی میں ہوئی تھی تو پہلا دھڑکا تو مجھے اس بات کا افسوس ہوا خدا کی زندگی دیتا ہے اور جب چوتھے سال میں داخل نہیں ہوئے اس وقت خدا نے نہیں بلایا کیا چار سال مکمل نہیں ہوئے لیکن چار سال میں داخل ہو کر کر کے مہینے میں تھے جب کہ اللہ تعالی ان کو آپس میں ملا دیا یا آپ کی قسم کے نشان رکھتی تھی محبت کے کچھ لوگ تھے جو براہ راست ان پر ہمیشہ ناز ہوتے رہے ہے کچھ کھلا نے دوسروں کو بھی دکھایا مجھے بھی دکھایا یا کہ میں اس سے پیار کرتا ہوں ہو اس لئے جب میں یقین کرتا ہوں تو کچھ یہ پہلو بھی ہے یقین کا کا کہ وہ عالم میں مرے تقع خدا تو بہرحال طلبہ کو جانتا ہےمحبت اور پیار کے نشان دکھانے لگے آگے تو پھر یہ امید ہے کہ وہ اور یہ حسن اللہ تعالی سے محبت اور پیار کا سلوک کرے گا کہ کون منزل میں داخل ہو جاتے ہیں ہیں ہمیں دعا کرنی چاہیے کہ چول خان صاحب کے اوپر اولاد پر پر ان کے عزیزوں پر ان سب پر جو آپ کو پیارے تھے اس رنگ میں بھی رحمت نازل فرمائے ان کی خوبیاں اختیار کرنے کی توفیق بخشے اور جماعت احمدیہ کو اس مثال پر صدمہ تو ہے میں اس کا ساتھ ہونا چاہیے ہونا چاہیے رحمت بے شمار ہیں بس یہی اس کی آتا کے دروازے کوئی بند نہیں کر سکتا کتا اور جن راہوں میں وہ کھلتے ہیں وہ لامتناہی رہے ہیں ہیں اس لئے آپ کو اپنی اولاد کو بنانے کی کوشش کریں کریں اور اولاد در اولاد کو یہ بتاتے چلے جائے کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام سے وعدہ ہے نہیں بکثرت ایسے غلام عطا فرمائے گا جو عالمی شہرت حاصل کریں گے جوعلم و فضل کے مضامین میں حیرت انگیز ترقی یاد کریں گے اور فلسطینیوں کے منہ بند کر دیں گے اور قومی ان سے برکت پائیں گے قوم عاد و قوم بھی نہیں کل عالم کی قوم میں ان سے برکت پائیں تو خدا کرے کہ کس طرح تو بار بار مسیح علیہ السلام کی صورت گوئی کو پورا ہوتے دیکھیں دیکھیں تو سروہی میں نہیں اپنوں نے بھی غیروں کے گھر میں نہیں اپنے گھروں میں بھی ہم اللہ تعالی کے فضل کے ساتھ ان عظیم پیش گوئی کو پورا ہوتے دیکھیں الحمد للہ نحمدہ ونستعینہ ونستغفرہ ونؤمن بہ معیاد اللہ فلا مضل لہ قلعہ لاہور محمد عبدالغفار رسول ہوں کبھی انشاء اللہ جمعہ کے بعد صاحب کی نماز جنازہ ہوگی کروٹ کروٹ جنت نصیب کرے آپ خود تو ہر وقت آپ کے پاس حاضر ہوئے دوسری دنیا میں ہے ہے یہ ذہن میں ایک بات تھی جس طرح ہوتا ہے ہر صبح ہر شام ہر پہر کو تیار ہوا کرتے تھے ہر رات کو تیار ہوتے تھے تھے یہ کوئی ایسی بات ہے جس میں کوئی انسان فکر کرے لوگ خواب دیکھتے ہیں مجھے بتاتے نہیں کہتا ہوں ٹھیک ہے جب بلایا ہے اور یہ بھی کہا کرتے تھے کہ میں تو اکثر پیار ہوئے بیٹھے ہیں ہیں ہے تو اس میں ڈرنے کی کونسی بات ہے ہے یقین ہے کہ سب سے زیادہ عشق اور محبت تھا آپ کو حضرت محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وسلم اور اس کے بعد حضرت موسی علیہ السلام اور والدہ ماجدہ بہت ہی عظیم اور تھی اور والدہ بھی روحانی تعلقات میں یہی خلاصہ تھا ان کی محبت ہوگا اور یہ اس دنیا کے لوگ تھے تو وہ تو یہاں رہتے ہوئے بھی ایک عالم بقا میں رہے تھے تھے اس لئے اللہ تعالی ان پر بے شمار رحمتیں نازل فرمائے آئے وہ تو خوش ہیں وہ خوش رہیں گے ان شاء اللہ میرے خدا کے گھر سے یہی امید ہے اللہ آپ کو خوش رکھےعبادالحق ملالہ ان اللہ یامر بالعدل والاحسان وایتاء