Friday Sermon – Khalifa IV – 06-07-1990 – Mirza Tahir Ahmad ra
خطبہ جمعہ خلیفۃ المسیح الرابع مرزا طاہر احمد رح
Delivered on 06 July 1990
مشیت الرجیم ایم عثمان الرحیم الحمد اللہ اھدنا الصراط المستقیم شروع تلبینہ انعمت علیھم ہن ہم غیر محب وطن والے ہیں ربنا لا تجعلنا من ازواجنا قرۃ العیون 51 المطففین آئے مہمان ماں انگلش ترجمہ میں کے مضمون پر کچھ روشنی ڈالی تھی ذکر کیا تھا کہ یہ بہت ہی وسیم تعلق رہا ہے اور تھوڑے وقت میں میں روشنی ڈالی جا سکتی ہو اس سے زیادہ استفادہ کر سکیں 12 سال پہلے کی بات ہے میں نے اسی بات پر پر ایک دو خواب دیکھے تھے اور میرا خیال تھا تھا علی اور اسے وظیفہ بنا کر ہمیشہ اس سے چمٹے رہیں ہیں تو اس کے نتیجے میں ہمارے معاشرے میں عظیم الشان پاکیزہ تبدیلیاں پیدا ہو جائیں گے اور وہ تمام فیل مسائل جن کو حل کر سکتی ہے نہ خزاں حل کرنے میں کامیاب ہو سکیں اسی آیت کی برکت سے سلجھ جائیں گے آگے دن کیونکہ مسلسل ایسی شکایات پہنچتی رہتی ہیں جن سے معلوم ہوتا ہے کہ ابھی بہت سے گھر ہمارے ہیں ہیں جو اس آیت کی دعا کی برکت سے محروم ہیں ہیں اور اس دنیا میں ہر وقت اور جنت نشان نہیں کہلا سکتے کتے کے ہم نے تمام دنیا کے گھر والوں کو صبر عطا کرنے ہیں ہیں اور چونکہ اس آیت کا مضمون صرف حاضرہ سے تعلق نہیں رکھتا بلکہ مستقبل سے اور بہت دور تک مستقبل سے تعلق رکھتا ہے اس لیے اس آیت کو نہ صرف موجودہ نسل نو کی تربیت میں اور گھروں کے ماحول کو بہتر بنانے میں ہے مانو کو سنبھالنے کا بھی اس آیت کے مضمون سے بہت گہرا تعلق ہے ہے پہلی بات بات جو آج میں آپ کے سامنے رکھنا چاہتا ہوں وہ یہ ہے کہ یہ دعا دعا حقیقت میں میں ایک ایسی نفسیاتی کیفیت فطرت کا تقاضہ کرتی ہے ہے جو اگر حاصل ہو جائے تو اس دعا کی قبولیت کا ایک نشان وہی اسی دل میں ظاہر ہو جاتا ہے ہے اور اگر حاصل نہ ہو تو جتنا چاہے یہ دعا کرتے چلے جائیں اس دعا کو قبولیت کا پھل ملے گا وہکرتے ہیں اور نیچا دکھانا چاہتے ہیں اور گھر میں ان کو لونڈیوں کی طرح تابع فرمان اور کام کرتا ہوا دیکھنا چاہتے ہیں ہیں وہ اگر اس کیفیت کو تبدیل نہ کریں کرے تو یہ دعا ان کے منہ سے نکلی نہیں سکتے جب تک ان کے دل میں یہ خواہش پیدا نہ ہو کہ یہ بیوی کو میں چوڑیل سمجھتا ہوں جس کے ساتھ میں ہوں اولاد کے سامنے بےعزتی کرتا ہوں میں اس بیوی سے تسکین مانگ رہا کیسے ممکن ہے ہے پس جو شخص x7 عدل کے خلوص کے ساتھ اسی بیوی سے تسکین چاہتا ہے جس سے وہ سلوک کر رہا ہے ہے جب تک اپنی کیفیت میں اور اپنے سلوک میں تبدیلی پیدا نہیں کرتا اس وقت تک نہیں یہ دعا اس کو زیب دیتی ہے نہ اس کے منہ سے نکل سکتی ہے اور اگر کرے گا بھی تو تکلیف اور بے معنی آوازوں کے سوا اس دعا کی کوئی حیثیت نہیں ہوگی بس وہ لوگ جو اپنی بیویوں سے بچائے اخلاص کے ساتھ خدا کے حضور اپنے معاملات کر دیتے ہیں ہیں اور یہ عرض کرتے ہیں کہ ہم اپنے تعلقات کو سمجھا نہیں سکے جہاں تک میری کوششوں کا تعلق ہے اگر مرد ہے تو یہ دعا کرے گا اور تو بھی دعا کرے گی اگر میری کوششوں کا جہاں تک تعلق ہے ان کو دیکھا جائے کب تک تو ادھر نہیں اور ہمارے تعلقات میں اسی طرح ترقی چلی آ رہی ہیں ہیں میں خلوص نیت سے یہ چاہتا ہوں یا چاہتی ہوں جو بھی صورت ہو ہو یا اگر جمع کی سیرت کے لحاظ سے مضمون کو پیش نظر رکھیں تو ہم کے ذریعہ ہے اس بحث میں پڑے بغیر کے مر دعا کر رہا ہے اور دعا کر رہی ہے مضمون اسی طرح بغیر کسی رکھنے کے حل ہوجاتا ہے یہ دعا کریں دونوں ہی نہیں آپ اپنی جگہ کہ ہم تو اپنے تعلقات کو سمجھانے میں ناکام رہے ہیں ہیں لیکن ہماری خواہش یہی ہے کہ جیسے تو نے ہمیں سکھایا کیا ہم ایک دوسرے سے اور ایک دوسرے سے آنکھوں کی ٹھنڈک حاصل کریں یہ دعا کرنے سے پہلے پہلے قبول ہو جاتی ہے ہے کیونکہ اس سے کے لحاظ سے یہ دعا کرنے والے اگر مخلص ہیں تو لازم نوح اپنے رجحان میں بنیادی تبدیلی پیدا کرکے یہ دعا کرتے ہیں ہیں ہے وہ چھوڑ دیتے ہیں ہیں جیسے کہا جاتا ہے کہ آدھی جنگ لڑی گئی گی ویسی ہی کیفیت اس دعا کی ہے جب خلوص نیت کے ساتھ کی جائے تو گویا آدھی جنگ تو لڑی گئی اور اب الفت ہو گیا کیا اور اس کا جو ہے وہ خدا پر چھوڑا جائے تو لازم ہے ایسے مخلص انسانوں کے لئے خدا تعالیٰ کو تبدیل کر دیتا ہے ہے یہاں تک کہ میں نے جائزہ لیا ہے جن لوگوں کے آپس کے تعلقات بگڑے ہوئے ہوں یا نہ بگڑے ہوئے ہو ہو تو ان میں رویت کا دخل ہو ہو اور دونوں طرف انسانیت کا دخل ہو یا بچپن کی غلط تربیت ہو نے ان کو چھوڑا ہو کہ اس نے معذرت کر سکے کے یہ دوا نہیں کرسکتے جب تک یہ دعا نہ کریں ان کے حالات بدل نہیں سکتے ان تعلقات پر جب نظر پڑتی ہے تو بہت سے سے ایسے مختلف گوشے ہیں جن انجن میں ہمیں بہت ہی زیادہ سے زیادہ تکلیف دہ صورتحال دکھائی دیتی ہے ہے میں تمام امور کا ذکر تو یا نہیں کر سکتا جو جھک مسکرائے سے پوچھتے رہتے ہیں ہیں اور نفسیاتی لحاظ سے ویسے ہی مجھے اندازہ ہوتا ہے کہ گزرے ہوئے گھروں میں یہ کچھ ہو رہا ہوگا لیکن بعض باتیں ایسی تکلیف دی ہیں کہ جن کا واضح طور پر ذکر کرنا ضروری ہےبد نے بد ظنی کی نظر سے دیکھتے ہیں ہیں اور اور یہ خیال کرتے ہیں کہ گویا یہ عورت پر چال چلن کی اچھی نہیں ہے ہے حالانکہ ان کے پاس کوئی ادنی سا بھی قرینہ اس بات کا نہیں ہوتا کہ اس عورت کے متعلق کوئی ایسی غلط سوچ میں جگہ جگہ دے سکے لیکن اگر ان کو یقین ہے کہ کسی بات کا اس کے لئے اسلام نے اسلامی شریعت نے ایک راستہ ہے جسے اختیار کرنا چاہیے اس راستے کو اختیار کئے بغیر ر اپنی بیوی کو اسلامی طعنے دینا ہیں اور دینی کاموں میں بھی کسی حد تک شوق رکھتے ہیں ہیں اگر آپ اس نہ بھی ہو تو جب ان کو کام آتے ہیں اس کے ساتھی استعمال کرتے ہیں بیوی کی اولاد کا ہونا تھا کی راہ کو تو انہوں نے ہمیشہ کے لئے برباد کر دیا یا جب یہ کہا کہ مجھے کیا پتا ہے اولاد کس کی ہے ہے تو اپنے ہاتھوں سے لکھ رہا ہوں کوم ہمیشہ کے لئے محدود کر رہے تھے تھے اور پھر ایسی اولاد سے یہ توقع رکھنا کہ وہ ایسے باپ کا ادب کرے گی اور آئندہ صحیح عمل پرستوں پر چلے گی آئندہ معاشرے کے لئے آئندہ زمانے کے معاشرے کے لیے خوشخبری لے کر آگے بڑھے گی یہ بالکل 1اگست وقت ہے اور عمل یہ لوگ نہ صرف اپنے حال کو تباہ کرتے ہیں بلکہ دور تک مستقبل میں ان کی نفس کی تلخیاں معاشرے میں زہر ہوتی رہتی ہیں ہیں بس یہ دعا ایسے لوگوں کو زیب دیتی ہیں نہ سوچ سکتے ہیں کہ ہم کریں لیکن جب تک دعا کیجئے مدد مانگے آگے بڑھنے کے لیے ہمیں بتاتا ہے کہ اللہ تعالی کو تمہاری کچھ بھی پروا نہیں اور اگر تم دعاؤں کے ذریعے مجھ سے مدد نہیں مانگوں گے تو فرماتا ہے کہ تمہیں اس طرح چھوڑ دوں گا کہ گویا مجھے تمہارے مجھے آپ کی کچھ بھی پروا نیکس حال میں تم کس بلے انجام کو پہنچے جو مجھ سے تمہارا تعلق ٹوٹ گیا کیا اور یہ مضمون اسی دعا کے بعد بیان کیا گیا ہے ہے تو اس آخری خدا تعالیٰ کے فرمان کا اس دعا کے ساتھ بڑا گہرا تعلق ہے ہے اور یقین کی یہ یقین کی حد تک انسان یہ کہہ سکتا ہے کہ ملاقات اور خاندانی تعلقات دعا کی مدد کے بغیر کسی طرح سدھر نہیں سکتے کتے بہت سے رکھنے ہیں انسان کے تعلقات میں جرمنوں کی بعض دفعہ انسان کو خبر بھی نہیں ہوتی اور میں خلا پیدا کر دیتے ہیں تعلقات میں میں اور تعلقات کو کمزور کر دیتے ہیں ہیں جیسا کہ بعض دفعہ بابا کل پرزوں میں تعمیر کے وقت بلب لگائے جاتے ہیں ہیں اور جب غیر معمولی دباؤ میں وہ کل پوری چلی تو جہاں جہاں وہ بلبلے رہتے ہیں وہاں سے ٹوٹ جاتے ہیں ہیں اسی طرح انسانی تعلقات میں بہت سے رکھنے سے رہ جاتے ہیں جو تقوی کی کمی کی وجہ سے پیدا ہوتے ہیں ہیں اور وہ کمزور مقامات ہمیشہ خطرے کے خطرے کام بنے رہتے ہیںنئے اور ابتلاء بڑھ جائے یا مشکلات نازل ہو تو ایسے وقت میں ان کمزور جگہوں پر حملہ ہوتا ہے اور پھر اس نے نمایاں طور پر پھٹ کر کر انسانی تعلقات کو پارہ پارہ کر دیتے ہیں اور کچھ دیتے ہیں ہیں یہ مضمون عمومیت کے لحاظ سے آپ سمجھ لے تو تفصیل سے جب آپ اپنے تعلقات پر غور کریں گے تو آپ کو معلوم ہوگا کہ جب بھی تعلقات کسی دباؤ میں آئے بھائی اس وقت انسان کو پتا چلتا ہے اس کے بغیر نہیں پتا چلتا بچہ بیمار ہو پریشانی ہو ہو اور ضرورت کی چیزیں پوری نہ ہو رہی ہو ہو بے وقت مہمان آ جائیں آئی یا غریب رشتہ داروں کی مدد کرنی ہو یا ماں باپ ایسے حال میں ہوں کہ مجبور ان کو اپنے گھر میں رکھنا یہ سارے وہ امور ہیں جو معاشرے پر دباؤ ڈالتے ہیں ہیں اور میاں بیوی کے تعلقات پر دباؤ ڈالتے ہیں ہیں وہ بیوی جو اس سے پہلے بہت ہی اچھی دکھائی دے رہی ہوتی ہے انسان سمجھتا ہے کہ یہ توکلی وفادار اور میرے ساتھ تعاون کرنے والی ہوں میری زندگی کا ساتھی ہے وہ خاوند بیوی کو ایک فرشتہ دکھائی دے رہا ہے ان دونوں کے اندرونی رکھنے ظاہر ہونا شروع ہو جاتے ہیں ہیں اور وہی بلبلے ہیں جن مقامات سے پھر یہ تعلقات ٹوٹنا شروع ہوتے ہیں ہیں بس انسان کو اپنے اندر خود پتہ نہیں ہے ہے اور اپنے رفیق حیات کے اندر ہونے کا بھی کچھ پتہ نہیں ہے ہے یعنی اس پر نظر نہیں ہے جو درحقیقت باغ غیر معمولی اہمیت اختیار کر لیتے ہیں اس لیے لیے جو بھی چاہیں آپ تعلقات کو بہتر بنانے کے لئے کوشش کریں جب تک دعا سے مدد نہیں مانگی گے آپ کے تعلقات نہیں سکتے اور آپ سے باہر نہیں آ سکتے اللہ تعالی کی نظر ہے ان باتوں پر اور جب انسانی تعلقات دعاؤں میں آتے ہیں تو تقوی کام آتا ہے اس وقت بنیاد بات ہوتی ہے اور بعض دفعہ ایک عام تربیت پر ہوتی ہے یہ دنیا کے دنیا میں ایک انسان کو جس قسم کی طبیعت میں سرائے کی وجہ سے اخلاق پر اچھا اثر پڑ سکتا ہے ہے اور بعض قوموں کے جو خدا کے قائل نہیں ہیں اخلاق سے ہوتے ہیں ہیں لیکن وہ اخلاق جو تقوی پر مبنی نہ ہو جو خدا پر کی ذات پر ایمان پر مبنی نا دباؤ میں آکر ہمیشہ بے معنی اور بے حقیقت واضح کرتے ہیں بظاہر یہ اخلاق کے لحاظ سے آپ کا گھر کہاں ہے جنت کی بنا ہوا ہوا اگر ان اخلاق کی بنیاد تقوی پر نہیں ہے تو ہرگز اس جنت کو بقا کی کوئی ضمانت نہیں ہے ہے لیکن اگر تقوی پر مبنی ہے ہے تو جتنا زیادہ مشکل پیش آئے اتنا ہی زیادہ انسان کو ایک دوسرے کی خوبیوں کا علم ہونا شروع ہو جاتا ہے ہے مصیبت کے وقت اگر بیوی قربانی کر رہی ہیں اور تعاون کر رہی ہے ہے اگر مشکل کے وقت خاوند قربانی کر رہا ہے ہے چونکہ یہ تعاون تقویٰ کی بنا پر ہوتا ہے ہے اور معاشرہ کے معاشرے کے دباؤ کے خلاف ہوتا ہے ہے اس وقت انسان کے اندر کے جوہر میاں بیوی کے تعلقات پہلے سے بہت زیادہ بڑھ جاتے ہیں ہیں میں نہیں رہتا ان میں گہری قدرت کا اصول شامل ہو جاتا ہے ہے اس دعا کو غیر معمولی اہمیت دینے کی ضرورت ہے اور اس کے مضمون کو سمجھنے کے لئے ہے ہے جب تک آپ کے دل میں سب سے پہلے یہ نیت یقین پوری سچائی کے ساتھ اور خلوص کے ساتھ پیدا نہ ہو کہ میں نے اپنے ساتھی سے سے تسکین کی تسکین کی طلب کرنی ہے اور اپنے مولیٰ سے طلب کرنی ہےدرمیان ایک دوسرے کے لئے اس کی طرف دے اور ہمیں آنکھوں کی ٹھنڈک عطا فرما جو یہ تعلق جن کے تعلقات پہلے ہی اچھے ہو اور واقعہ آہنگ ایک طبی محبت کے نتیجے میں ایک دوسرے سے وہ قیمت پاتے ہو ہو جب وہ یہ دعا مانگتے ہیں تو وجہ نا مصطفی نا عمامہ والا حصہ ان کی محبت کی تعلقات میں ایک نیا تعلق پیدا کر دیتا ہے ہے نہ عمامہ نہ ک یہ دعا کہ ساتھ شامل نہ کرنے کی وجہ المطففین امامہ اسد وقت تک ان تعلقات کا کوئی دینی فائدہ نہیں ہے ہے اگر وہ قائم دے رہے ہیں اور اومینہ ٹوٹی بے تب بھی ایسے تعلقات کے نتیجے میں اولاد فیض نہیں پا سکتی جب تک یہ تین تعلقات میں تقویٰ کا عنصر شامل نہ ہو جائے آئے بس دعا کا یہ دوسرا حصہ و جعلنا للمتقین اماما صبح ان تعلقات کے معاملات اور مقاصد کی طرف پھیر دیتا ہے ہے اور انسان کو خیالات میں یہ خیال پیدا کرتی ہے دعا ہے کہ ہمیں صرف حال پر رہنا چاہیے بلکہ مستقبل کی تلاش کرنی چاہیے اور جب تک ہم متقیوں کے پیشوا نہ بن جائیں بھائی اس وقت تک ہمیں آپس کے تعلقات میں خوش ہونے کی کوئی جواز نہیں ہے ہے اچھے ہیں ان کے حق میں یہ دعا کرنے لگتی ہے ہے متقیوں کا امام ہونے کی دعا اس طرف اشارہ کرتی ہے کہ اگر تم واقعہ کا امام بننا چاہتے ہو تو تقوی میں ان سے آگے بڑھنے کی کوشش کرو کروں گا مضمون بتاتا ہے جس کا پیش ہوں ان باتوں میں وہ سب سے آگے ہوں ہو تو یہ دعا صرف ایک دعا ہی نہیں جاتی امن زندگی کی تشکیل نو میں حصہ لیتی ہے ہے اور وہی مضمون جو میں نے پہلے بیان کیا تھا میاں بیوی کے تعلقات میں میں وہی مضمون تقوی کے لحاظ سے انسان کا قدم عملی دنیا میں آگے بڑھنے لگتا ہے ہے اور جب ایک انسان کہتا ہے کہ مجھے متقیوں کا امام بنا اس سے صرف یہ مراد نہیں ہے کہ میری نسلوں میں منتقل ہو کر پیدا ہو جائیں بلکہ مراد یہ ہے کہ مجھ میں تقوی کے وہ جوہر پیدا فرما آئے اس شان کا تو ادا کر کہ میری اولاد یا ہماری اولادیں واقعات نہ میں اپنا امام سمجھیں مجھے ماں باپ سے وہ ہمارے تھے بلکہ تقوی کے لحاظ سے وہ بات فخر کے ساتھ بیان کیا کریں کہ رہی تھے یہ وہی مضمون ہے جیسے وہ لوگ جو صحابہ کی اولاد میں سے ہیں ہیں آج کل جب ان سے تعارف ہو تو بڑے فخر کے ساتھ اور جائز کر کے ساتھ یہ بیان کرتے ہیں کہ ہمارے آواز میں فلاں صحابی تھا ہمارے نہ علماء اسلام بلوچستان کو بہت کی توفیق ملی ہے واقف تھے ہونے میں فخر ہے ہے مگر بعد میں ہیں ہیں ہیں نہیں ہے باہر کے دائرے سے بیٹھے ہوئے بظاہر یہی کرتے ہیں کہ اقتدار میں ہیں ہے کیونکہ اس دعا میں جب یہ فرمایا گیا کہ جعلنا للمتقین اماماکردار میں رہتی ہے اس پہلو سے جماعت احمدیہ کے لیے اس میں بہت ہی گہرا سبق ہے ہے اور وہ یہ ہے کہ آج کے دور میں غیر احمدی ہماری ہمارا سب سے بڑا جھگڑا یہ چل رہا ہے ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم ہمارے ماموں زیادہ ہیں یا تمہارے ہم جا رہے ہیں ہیں وہ کہتے ہیں کلیات نہ ہمارے امام ہیں ہیں اور تم سے ان کا کوئی تعلق نہیں نہیں بلکہ اگر تم نے کوئی تعلق ظاہر کیا تو نے اتنا استحال آئے گا کہ اس کے بعد ہمارے ہم حق بجانب ہوں گے کہ اگر تمہارے گھر لوٹے تو ایک مسجد مسمار کریں اور تمہارے تمہیں قتل کریں یا تمہارے بچوں کو دیتے تھے کیونکہ تم نے ہمارے امام کو اپنا بنا دیا کیا اور احمدی یہ کہتے ہیں کہ اصل تو ہمارے ہی امام ہے ہے اب اس جھگڑے کو کیسے لٹایا جائے یہ سوال پیدا ہوتا ہے کہ آپس میں لڑتے ہو کہ ہمارا بہت زیادہ ہے تمہارا زیادہ ہے اور ماں باپ پر موجود ہی نہ رہے ہو تو کس سے پوچھے کوئی کہ کس کا کوئی ارادہ تھا اب نہیں ہمیں یہ نکتہ سمجھا دیا اور پہچان کی 130 میں عطا کردیں تاکہ آئندہ جب کبھی بھی امت میں جھگڑے پیدا ہو کہ محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وسلم کس کے زیادہ ہیں تجھے آیت کسی کے حق میں گواہی بن کر کھڑی ہو جائے اور یہ بتائیے کہ اس کے زیادہ ہیں اس کے نہیں جو تقوی میں ترقی نہیں کرتے ان کو یاد رکھنا چاہیے کہ یہ دعا کسی اور کے حق میں مقبول ہوئی ہوئی نہ ہوئی ہمارے آقا و مولا حضرت رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے ملازم اپنی تمام شان کے ساتھ ہو چکے ہیں ہیں دوسرا پہلو یہ ہے کہ خدا نے آپ کی حفاظت فرما دی ہے ہے فرمایا ہے کہ آئندہ کے لئے لیے تم میری نظر میں ہمیشہ متقیوں کے امام ہوں اور غیر منطقی سے تمہارا کوئی تعلق نہیں اس کو پیش نظر رکھتے ہوئے جب یہ فرمایا کہ آئندہ امت میں یہ خرابی پیدا ہو گئی تو وہ بخل اور ظاہر بین علماء جن کے متعلق فرمایا کہ وہ آسمان کے نیچے بدترین مخلوق ہوں گے ان کے لیے یہ نہیں فرمایا اور علماؤہم شر من تحت ادیم السماء ایسے بد خلق اور گندے علماء کا میرے سے کیا تعلق میں تو مت ہونا اس لیے یہ غیر منطقی جو ہیں ان لوگوں کے امام ہوں گے جن کے ماننے والے بھی غیر متفق تو اس جھگڑے کا حل تو کتنا آسان ہوگیا اور کتنا واضح مجھے اور کہیں باہر پوچھنے کے لئے جانے کی ضرورت نہیں رہتی تمام رہنما اور سردار جن کی قوم دن بدن بڑھتی چلی جارہی ہے اور بدخلقی میں بڑھتی چلی جارہی ہیں اور تقوی سے ان کا دور کا بھی تعلق نہیں جن میں ہر قسم کی عام ہوگئی ہے جھوٹا ہوگیا ہے فساد عام ہوگیا ہے ایک دوسرے کے حق مارے جا رہے ہیں اور بچے اغوا کیے جارہے ہیں معصوم لوگوں کی عزت لوٹی جا رہی ہیں ہیں ہر قسم کے جرائم ہیں اور اور عزت عزت کا نشان طاقت بن چکی ہے طاقت بن چکا ہے ہے جس کے پاس زیادہ ہے جس کے پاس جاتا ہے جس طرح ہیں وہی زیادہ معزز ہے ہے اور اسی کا ہے ہے یہ اس کا علاج کرتے ہیں ان لوگوں کے امام جو غیر منطقی ہیں ہیں وہ خود متقیوں کے امام بننے کے سے مستفید ہو سکتے ہیں ہیں اور یہ سارے مل کر حضرت محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف منسوب ہونے کا کیا حال کرتے ہیں فرما دیا کہ میں نے مجھ کو کیوں کا امام بنا لیا ہے ہے اور قیامت تک اس امت میں جتنے بھی منطقی پیدا ہوں گے محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وسلم کو نہیں کریں گےمجھے قرآن کریم کی آیات ہمیشہ ان کی حفاظت فرمائے اور ان کا تعلق حضرت محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وسلم کے دامن سے مضبوط تر ہوتا چلا جائے گا کیونکہ وہ تمام تیرا پی کر رہا ہوں بس اسے اس دعا کے کے اس رخ پر بھی نگاہ کریں کریں کہ اس دعا کا آخر بالآخر کیا نام ہے ہے اس کے دو کنارے ہیں ہیں ایک وہ جو مستقبل کی طرف جائے چلنے والا رستہ ہے اور اس میں وہ ضروریات ہیں جو ہمیشہ ایک دوسرے کو بارات چلی جائیگی اور جن کی تقوی کی آپ دعا کر رہے ہیں ہیں دوسرے امامت کے لحاظ سے یہ دعا مانگی پر اثر دکھاتی ہے اور حضرت محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وسلم کی ذات تک انسان کو پہنچ جاتی ہے ہے اور یہ بتاتی ہے کہ اگر تم متقی نہ بنے میں نے تو اس امام کے غلاموں میں تمہارا شمار نہیں خدا نے ہمیشہ کے لئے متقیوں کا امام بنا دیا ہے ہے اس پہلو سے ہے جیسا کہ میں نے بیان کیا تھا یہ دعا ایک حیرت انگیز طور پر وسیع سر دکھانے والی دعا ہے اور اس دعا کے بغیر ہماری زندگی ہم حقیقت میں زندگی کے ساتھ نہیں دے سکتے ہے کیونکہ کیونکہ جن کی زندگی کے ساتھ اس تخلیق سے تعلق رکھتے ہیں ہیں جیسے تقوی کی صحت نصیب نہ ہو جس طرح دمہ کے مریض ہے یعنی مستقبل کے لحاظ سے بھی اور ماضی کے لحاظ سے بھی ہمیشہ سوچ کر اور کے ساتھ یہ دعا مانگا کریں اور خدا طرح سے مدد مانگی کہ آپ کو منطقی بنائے جو محمد رسول اللہ کے غلام بننے کے شایان شان ہو اور آپ کی اولاد کو ایسا متقی بنائے کہ وہ آپ کی اولاد کے رہنے کی شایان شان ہو کو اور ہمیشہ ہمیش کے لئے یہ تعلقات اسی طرح دونوں سے مضبوط تر ہوتے چلے جائیں لیکن اس کا پہلو ہے جس کو اس آیت میں ہمارے سامنے رکھ دیا کہ جن میاں بیوی کے تعلقات ایک دوسرے سے مطمئن ہیں ان کا نام عظیم محفوظ ہے نہ مستقبل محفوظ ہے ہے ہم نے ایک موقع پر فرمایا سب سے بہترین وہ ہے ہے جو اپنے اہل کے لئے بہترین ہے میں آپ کے لئے بہترین ہو یار تم سب میں بہتری اس لئے ہوں کہ آپ کے لئے بہترین اور اہل کے لئے بہترین ان معنوں میں تھے تھے کہ آپ نے ان کے تمام حقوق ادا کیے آئے اور ایک ہفتہ ادنی سا حصہ بھی نہیں رکھا da8 کے ساتھ ان کے اخلاق کی نگرانی کی کی اور ہمیشہ مسلسل کل ان کی تربیت کی طرف متوجہ رہے اور بعض دفعہ راتوں کو اٹھ اٹھ کر اپنی بیٹی کے گھر جایا کرتے تھے حضرت فاطمہ رضی اللہ تعالی عنہ اور ان کو اور حضرت علی کو نماز کے لیے صحت کے لیے جایا کرتے تھے مستقبل آپ اپنی اولاد کی تربیت کا بیان تھا یا یوں کہنا چاہیے کہ لگ گئی تھی کوئی دن ایسا نہیں ہے جب آپ نے اپنی بیگمات اپنی ازواج مطہرات کی طرف اور اپنی اولاد کی طرف تربیت کے لحاظ سے توجہ کی ہو تو خیر و کرم سے مراد صرف یہ نہیں ہے کہ دنیا کے معاملات میں ان کے حقوق ادا کرنے والا بلکہ خیرخواہی سے مراد یہ ہے کہ اول طور پر دین میں ان کے حقوق ادا کرنے والا اور ان کی ضروریات کا خیال رکھنے والا اس کے بعد جب یہ دعا کی جاتی ہے کہ ربنا ھب لنا من ازواجنا وذریاتنا اس دعا میں غیر معمولی طور پر پیدا ہو جاتی ہے اس کو قبولیت کا پھل لگنے لگتا ہے ہے اگر اس کے بغیر دعا کریں گے تو اس کا کوئی اثر نہیں ہوگا دعاؤں کے متعلق یاد رکھنا چاہیے کے انسان یہ سمجھتا ہے ہے جو دل کے جوش کے ساتھ کی جائےان کے ساتھ دعا کر رہا ہے لیکن اس کو پھیلنے لگا گا جس کو اس کے دل میں آئے گا کرتا چلا جاتا ہے اور دعائیں قبول نہیں ہوتیں آخر کیا وجہ ہے ہے اس کی وجہ یہ ہے کہ وہ نیکی کے مقامات رات جن کے لیے اس کے دل میں بھی جوش نہیں ہے ہے وہ ان کے ان مقامات کو حاصل کرنے کے لئے دعا نہیں کرتا تا نہیں اور نیکی کی خاطر نہیں نہیں ہے ہے ہے ہے جہاں اگر تعلقات خراب ہو دل چاہتا ہی دعا کرنا ہو سکتا ہے جب وہ خدا کی خاطر اپنی طبیعت کے خلاف دعا کر رہا ہے ہے تو ضروری نہیں ہے کہ طبیعت کے مطابق دعائیں قبول ہو ہو کے خلاف دعائیں بہت زیادہ مقبول ہوتی ہے ہے یہ ہے کہ ان کی خواہش کی وجہ سے دعا کرتا ہے شادی نیک باتوں کے احترام میں دعا کرتا ہے اللہ کی خاطر ایک نیکی کو حاصل کرنا چاہتا ہے دل نہیں چاہتا ہے واقعہ رد دل سے سے موجود اس علم کے کہ جس دن کے بعد مجھ سے چھوٹی میری زندگی کا مزہ اس جاتا ہے پھر دعا کرتا ہے ہے تو یہ دعا طبیعت کے خلاف ہونے کی بجائے زیادہ مقبولیت کا حل ہو جاتی ہے ہے بس جہاں آج ہم مزاج کے خلاف ہوں جہاں میاں بیوی کے درمیان کبھی دوریاں ہو ایک دوسرے کی صورت پسند میں ایک دوسرے کے ہاتھ میں پسند نہیں اور بے شمار ایسی دیواریں جو درمیان میں حائل ہیں اور پھر اس لیے اس سے کہ میرا خدا چاہتا ہے کہ میں یہ دعا کرو اور مستقبل کی نسلوں کی حفاظت کی خاطر لیے ضروری ہے ہے ہے ہے مگر وسیلے سے دعا کرتا ہے تو اس دعا میں تو نہیں ہو سکتا ہے جیسے ایک امتحان میں پاس ہونے والا پاس ہونے کی خاطر گھبرایا ہوا اور بھرا ہوا طالب دعا کر رہا ہے ہے اسے مارتے ہیں یا خدا میں تو ذلیل و رسوا ہو جاؤنگا ہے میں نے نہیں پڑھا مگر اب رحم فرما اور میرے پاس کر دے ہے اور یہ جو آج بات نہیں مانگا میں نے بیان کی ہیں تو شاید نہیں ہوگا لیکن جبر کرکے اپنے اوپر کو دعا کریں اور میں آپ کو یقین دلاتا ہوں کہ ایسی دعا بظاہر جوش میں کمی کے باوجود زیادہ مقبول ہوگی اور ایسی دعاؤں کی تو خیر آپ کی دوسری زبانوں میں بھی مقبول ہو گئی یہ نقطہ ہے جس کو آپ اگر آپ کی دعائیں محض کب ہیں ہیں خواہشات اور تمناؤں کے تابع ہیں ہیں تو ایک پہلو سے آپ اپنی ہوا کی عبادت کر رہا ہے ہے اپنی خواہشات کی عبادت کرتے ہیں ہیں اور اس کے متعلق قرآن کریم فرماتا ہے کہ جھوٹا خدا ہے تمہاری آواز نہ کرے میرا خدا کو مخاطب ہوتے ہیں مگر جس کی ساری زندگی محض ہوائے نفس کے لیے وقف ہو ہو اور اپنی کبھی تمناؤں کی پیروی میں وہ دعائیں کرتا ہوں عمل کی دعائیں رائیگاں جاتی ہیں اور ان کا نشانہ خدا نہیں ہوتا قبلہ کچھ اور ہوتا ہے ہے اور قرآن کریم نے فرمایا ہے کہ وہ ایسے یہ وہ شخص ہے جس نے اپنے نفس کی تمنا کو اپنا معبود بنا لیا ہےاللہ کا نام لے رہے ہوتے ہیں عفریت نے اپنے نفس کی بات کر رہا ہوتا ہے اس ہو سکتے ہیں ہیں ہیں اس کی دعاؤں کے دائرے میں میں ایسی دعائیں بکثرت شامل ہو جائیں بھائی جس کا اس کے نفس کے رجحانات سے کوئی تعلق نہ ہو اور خالص اللہ کی آخری قسط نو انسان کی خاطر وہ اپنے نفس کو استعمال کرکے دعا کرتا ہوں ہو تو ان دوسری دعاؤں سے شرک کا الزام آجاتا ہے ہے پھر ایک نیا مضمون ہوتا ہے اور وہ یہ ہے کہ یہ ہے خدا کا بندہ بندہ جب ایسی باتوں میں بھی دعائیں کر رہا ہے جس میں اس کی خواہش نہیں نہیں تو جو تب بھی دعائیں ہیں جس کے نتیجے میں وہ بھی پاکیزگی کا رنگ اختیار کرنی چاہیے تیار کر لیتے ہیں اور اس کی نظر سے دیکھیں جانی چاہیے چاہیے ایسے لوگوں کی دعائیں زیادہ مقبول ہوتی ہے ہے ان کو ایک اور مثال میں اس طرح فرمایا کہ ماں کی دعا ہے جو اپنی اولاد کو دیا کیا فرمایا کہ کی دعا جو اپنی اولاد کے حق میں ہوا ضرور قبول ہوتی ہے ہے کیونکہ ہر ماہ گندی ہو یعنی کو پاک ہو یا ناپاک ہو اپنی اولاد کے حق میں توازن بھی ہو تو دعا کرتی ہے اختیار کرتی محبت ہے ہے کیونکہ نفس کی خاطر ہیں اس لیے ان کی قبولیت کی کوئی ضمانت نہیں ہے ہے کہ جب یہ دعائیں کریں گی تو پھر اس لیے قبول ہوگی کہ وہ دوسری جگہ بھی اپنی دعاؤں میں خدا کی خاطر جائیں کرنے کی عادی ہوتی ہے ہے اس لئے وہ اس سے انکار نہیں لیکن میں اگر فطرت کے خلاف صاف کسی بچے کے اوپر بتا دو بچے کو بد دعا دیتی ہیں ہیں تو اپنے مزاج کے خلاف بات کر رہے ہیں ہیں اور دیکھئے ایک اور مثال ایسی ہے جہاں مزاج کے مطابق دعاؤں کی ضمانت نہیں دی جاسکتی مگر مزاج کے خلاف فتویٰ کرنے کی ضمانت ہے کے مضمون کو جب سمجھ لیں اور ان کی گہرائی تک پہنچی تو دعاؤں کے اسلوب آجاتے ہیں دعاؤں کو سلیقہ نصیب ہوتا ہے اور انسان کو سمجھ آجاتی ہے گئی ہے اور بعض دفعہ جوش پیدا ہوئے بغیر دل سے خیال رکھتا اور مقبول ہو جاتا ہے ہے دعاؤں کو بھی تقویت کا باعث بن سکتا ہے یہ ہے آخری نقطہ اور اس کے بغیر نواحی بارگاہ الہی میں قبول نہیں ہو سکتی ربنا ھب لنا من ازواجنا وذریاتنا قرۃ اعین کی دعا کو اس مضمون کو سمجھتے ہوئے ہوئے مستقل مانگنے کی عادت ڈالیں علی اور جب یہ دعا کیا کریں تو آپ نے اپنے تعلقات کے دائرے پر اپنے تعلقات پر نگاہ کیا کریں کہ ان کی کیا نوعیت ہے واقعہ کو بدلنے کے لیے تیار ہیں بھی کہ نہیں نہیں اگر ہیں تو کیا کوشش کر رہے ہیں ہیں اور اگر نہیں تو پھر یہ دعا کیوں مانگ رہے ہیں ہیں پھر اس دعا کی کوئی حقیقت نہیں رہ جاتی بس اس گہری اور تفصیلی نظر سے جب آپ صداقت کے ساتھ حالات کا جائزہ لیتے ہوئے اس دعا کے ذریعے اپنے معاشرتی تعلقات والی تعلقات کو بہتر بنانے کی کوشش کریں گے تو بلاشبہ مجھے کامل یقین ہے کہ اس دعا کی برکتیں آپ پر آسمان سے بھی نازل ہوئی اور زمین سے بھی ملیں گی اور آپ کے گھر دیکھتے دیکھتے جنت نشان بن جائیں گے اس کے بعد اور بھی ہیں جن کا میں تربیت اور جماعتی نظام سے بڑا گہرا تعلق ہے اس کے مطابق ان شاء اللہ آئندہ بیان کروں گا گاغلام الللہ ہم ہیرو فلا ہادی علی sa0na لا الہ الا اللہ وحدہ لا شریک لہ محمد عبدو رسول اللہ اللہ آباد الاذان اہل قربان