Rahe Huda – Musa PBUH Ki Peshgoi aor Maseehe Maood PBUH
Rahe Huda 15th June 2019 – Musa PBUH Ki Peshgoi aor Maseehe Maood PBUH – Qadiani India
ہم تو رکھتے ہیں مسلمانوں کا دیس دل سے ہے خودی میں ختم کر لیں بسم اللہ الرحمن الرحیم ناظرین کرام اسلام علیکم ورحمتہ اللہ وبرکاتہ آج 15جون 2019 ہفتے کا دن ہے انڈیا میں اس وقت رات کے ساڑھے نو بجے ہیں اور چیونٹی کے مطابق سہ پہر چار بجے ہیں اور نظریں یہ وقت پروگرام رہے خدا کا قادیانی دارلامان سے پروگرام مرحلہ کی سیریز کے دوسرے سوٹ کے ساتھ اس وقت ہم آپ کی خدمت میں لائیو حاضر ہیں ہمارے رویوں خود بھی جانتے ہیں کہ یہ پروگرام ہم آپ کی خدمت میں لائیو پیش کرتے ہیں اور آپ اس کو براہ راست ذریعہ سے مشاہدہ کرتے ہیں انٹرویو بھی ہے یعنی اسے اپنی سٹوڈیو کے ساتھ دیتے ہیں کہ وہ بھی ہمارے ساتھ اس پروگرام میں شریک گفتگو ہو جائیں اور ان کے ذہنوں میں جو سوالات ہیں جو استفسارات ہیں وہ اس وڈیو میں موجود ہمارے علماء کرام کی خدمت میں پیش کر کے ہمارے اس پروگرام کے ذریعے ان کے جوابات بھی حاصل کریں آپ لوگ ہیں کے ذریعے آپ ہمارے ساتھ رابطہ کر سکتے ہیں اس کے علاوہ ٹیکس میسج سیکس میں زیادہ اور ای میلز کی سہولت موجود ہے جن کے ذریعہ سے آپ ہمارے سٹوڈیو کے ساتھ کانٹیکٹ کرسکتے ہیں اور اپنے سوالات ہم تک پہنچا سکتے ہیں اگر آج میں آپ ہمارے ساتھ جوڑنا چاہتے ہیں تو میں امید کرتا ہوں کہ آپ سے آپ کی تفصیل کو پر ملاحظہ فرما رہے ہیں ہیپی سوڈ پر مشتمل ایک سینئر صحافی کرتے ہیں جس میں ایک ہی موضوع کے حوالے سے ہماری گفتگو ہوتی ہے جس کے تعلق سے 4 اپیسوڈ ہم پیش کرتے ہیں جو سیریز کا کیا جائے دوسرا ایپیسوڈ ہے جنہوں نے ہمارے گوشت ایپیسوڈ کا مشاہدہ کیا ہے وہ جانتے ہیں کہ ہم بانی سلسلہ عالیہ محمدیہ سیفیہ غلام احمد صاحب قادیانی علیہ السلام کی تصنیف ایام صلح کے تعلق سے اس مکمل سیریز میں بات کریں گے گزشتہ ایپیسوڈ میں نے انتہائی اہم موضوع یعنی دعا دبیر اور اسے اسی طرح سورۃ الفاتحہ کے جو حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے لطیف تفسیر فرمائی ہے اس سے ہم نے اسلام کی خدمت میں پیش کی ہے حضرت مسیح اور اسی طرح مہدی کی آمد کے تعلق سے مسلمانوں کے دلوں میں بھی اور اسی طرح دیگر مذہب والوں کے ذہنوں میں بھی مختلف توہمات پائے جاتے ہیں ان کے ازالہ کے حوالے سے اسلام نے جو پر معروف باتیں دلائل سے قرآن مجید اور احادیث اور بزرگان سلف کی جو گواہی پیش کی ہیں اس میں وطیرہ کو مدنظر رکھتے ہوئے اس کی تفصیل ہم آپ کی خدمت میں پیش کرنے کی کوشش کریں گے کہ موضوع پر گفتگو کے لیے جو ہمارے ساتھ صاحب ہیں مولانا نثار احمد 2019 پروگرام کے دوران پہلے سن میں حضرت کا پروگرام میں گھر پہنچ گیا ہوں ین یہ بات توجہ کے لائق ہے کہ اللہ تعالی کی طرف سے جو بھی مور اس دنیا میں بھیجے جاتے ہیں ان سے گذشتہ کتابوں کے ذریعے یا گزشتہ رسولوں کی معرفت سے پیشغضب ہے وہ متشابہات کو پکڑ لیتا ہے اور جو باتیں اس طرح کے طور پر بیان کی گئی ہیں اس کو بھی ظاہری طور پر پورا دیکھنے کی پورا ہوتے ہوئے دیکھنے کی وہ کوشش کرتا ہے اور اس کے نتیجے میں جو خدا تعالیٰ کے سچے بندے ہوتے ہیں ان کی تقریب میں وہ جلدی کرتا ہے جو طالبان حق تے ہیں جو صادق کی شناخت کرنے کی اپنے اندر ضمیر رکھتے ہیں وہ جو محکمات اور واضح پیش گوئیاں ہیں ان کی پیروی کرتے ہیں اور اس کے نتیجے میں ان کو مامور من اللہ کو ماننے کی توفیق ملتی ہے اور اس کے کی ہویا موجود ہیں مثال کے طور پر اس میں باتیں بیان کی گئی ہیں اور بعض پیشگوئیاں مقامات ہیں جن میں واضح طور پر بیعت کے طور پر پیش کی گئی ہیں جن کو دیکھتے ہوئے ایک طالبہ باآسانی اور بخوبی امام وقت کو شناخت کر سکتا ہے اور اس حوالے سے بھی بات کی ہے کہ امام مہدی کی آمد کے تعلق سے قرآن مجید میں بھی احادیث میں بھی اسی طرح ایم سلف نے بھی مختلف جگہ بیان فرمائی ہیں لیکن دیکھنے میں یہ آتا ہے کہ جو مسلمان تھے انہوں نے مثال بیان کی جاتی ہے کہ اسلام کے کو انکار کردیا اسی چیز کی پیروی کرتے ہوئے اس سے فائدہ اٹھا سکے مسلمان بھی دیہات پر زیادہ زور دینے لگے اور وہ جو باتیں کی تھیں ان کے انتظار میں امام مہدی کی بیعت سے محروم ہو چکے ہیں چنانچہ حضرت اقدس مسیح موعود علیہ السلام نے اس کتاب میں بڑی وضاحت کے ساتھ امام مہدی اور مسیح کی آمد کے تعلق سے مختلف ہے جو یہاں قرآن مجید احادیث اور دیگر کتب میں پائی جاتی ہیں ان کو دلائل صحیحہ کے ساتھ اور دلیل صریح کے ساتھ دنیا کے سامنے یہ بات پیش کی ہے کہ یہ جو باتیں بیان کی گئی ہیں وہ دراصل آپ علیہ الصلاۃ والسلام کے حق میں پوری ہوتی ہیں اور آپ دلائی ہے کہ ہی طور پر جو پیشگویی امام مہدی اور مسیح موعود کی آمد کے تعلق سے بیان کی گئی ہیں اس نے دیکھی جس میں آپ کی ہے ہماری ویب سائٹ ہے اسلام ڈاٹ او آر جی اس میں یہ کتاب موجود ہے روحانی خزائن میں جب جائیں گے تو اس میں السلام بنی اسرائیل کی جس قدر بھی موجود ہیں اس کو پڑھیں دعا قدر تعبیر اور اسی طرح مسیح اور مہدی کی آمد کے تعلق سے مختلف علامات ہیں اس نے بڑی تفصیل کے ساتھ بیان فرمائی ہے تو میں آپ کو یقین دلاؤں گا کہ اس کتاب کا پڑھنا اس کتاب کے مطالعہ کرنا ثابت ہوگا اور امام مہدی کو شناخت کرنے کا ذریعہ بھی ایک کتاب ضرور بنے گی اس مختصر سی تمہید کے بعد ناظرین کو یاد دلانا چاہوں گا کہ ان سے اس وقت سے آپ کے لئے ایکٹر ہیں اگر اس موضوع سے متعلق کتاب ہے کہ کسی بھی موضوع سے متعلق آپ کے سوالات ہیں تو ہمارے جو علماء کرام اس وقت موجود ہیں ان کے جوابات دینے کے لئے بالکل تیار بیٹھے ہیں ان سے بھی درخواست کروں گا کہ آپ مولانا محمد امین کھوکھر صاحب سے کہ عیسائیوں کا یہ عقیدہ ہے کہ وہ کہتے ہیں کہ مسئلہ موجود ہے وہ حضرت عیسی علیہ السلام ہیں اسی طرح مسلمان بھی تھے میں نے ان کے ساتھ مشترک ہو گئے ہیں اور وہ بھی اسی بات کا انتظار کرتے ہیں کہ مسیح جو بنی اسرائیل میں موجود تھے وہی دوبارہ زندہ ہے وہ آئیں گے اور مسلمانوں کی اصلاح کریں گے یہ ساری جو توہمات ہیں وہ مسلمانوں کے دلوں میں اور دماغوں میں جو ہوا ہے حضرت اقدس مسیح موعود علیہ السلام اپنے دعوے کو پیش کرتے ہوئے یہ جو تم آتے ہیں ان کا کس طرح فرمایا ہے میں حضرت موسی علیہ السلام کی ایک پیشگوئی اور رات میں موجود ہے ہےآتا ہے میں ان کے لیے بھائیوں میں سے تیری مانند ایک نبی برپا کرونگا میں لیے یعنی بنی اسرائیل کے لیے بھائیوں میں سے تیری مانند ایک نبی پر برپا کرونگا یہ وہ پیش گوئی ہے جو اس تصنیف میں ہے ہے پہلے تو کم لیکن حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی بعثت کے بعد عیسائیوں نے خاص طور پر آمدنی رمتا مل یہ بات پھیلانا شروع کی گئی یہ پیشگوہی حسن سید محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے بارے میں پیشگوئی حضرت عیسی علیہ السلام پر اطلاق پاتی ہے حضرت عیسی علیہ السلام اس کے مستحق ہے اب یہاں پر یہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے اس کتاب میں یہ ثابت کیا ہے کہ عیسائیوں کا یہ کہنا یہ صحیح نہیں ہے حقائق کی روشنی میں اور دلائل کی روشنی میں سب سے پہلی بات یہ ہے کہ قرآن مجید نے اس پیش گوئی کی تصدیق کی اور قرآن مجید کیا فرماتا ہے کہ ہم نے تمہاری طرف ایک رسول بھیجا جا جو تم پر نگران ہے جیسا کہ ہم نے پیش گوئی کی تھی کہ میں بھائیوں میں سے حضرت ابراہیم علیہ السلام کے دو بیٹے تھے تھے ایک حضرت اسحاق علیہ السلام اور حضرت اسماعیل علیہ السلام اور حضرت اسماعیل علیہ السلام نے تھے حضرت اسحاق علیہ السلام چھوٹے تھے حضرت اسماعیل علیہ السلام کی اولاد بنی اسمٰعیل کہلاتی ہے اور اسحاق علیہ السلام کی اولاد بنی اسرائیل کہلاتی ہے یہ پیش گوئی کی تھی تیرے تھا وہ بھائی نہیں ہے بھائی بنی اسمٰعیل تھے حضرت اسماعیل علیہ السلام کی اولاد میں سے اس نبی کو آنا تھا جس کی اس میں پیش گوئی کی جا رہی تھی نمبر 1 حضرت عیسی علیہ السلام وہ بنی اسرائیل میں سے ہے باپ تو ان کے نہیں تھے لیکن والدہ کی طرف سے جو ان کی نسل ہے وہ بنی اسرائیل لی ہے اس لیے وہ بھائیوں میں سے نہیں ہے السلام ایک شریعت والے نے بھی تھے اور انہوں نے شریعت پیش کی شریعت موسوی پیش کی حضرت عیسی علیہ السلام شاعری نبی نہیں تھے صاحب شریعت نہیں تھے یہ خود کہا کہ جو کہ رات کی کتاب کو منسوخ کردیا ہو منسوخ کرنے نہیں بلکہ پورا کرتے رہے وہ منسوخ کرنے نہیں آئے تھے وہ تورات کی تکمیل کے لئے چلانے کے لیے آئے تھے ان کی کتابوں پر چلانے کے لیے تھے اس کو حضرت موسی علیہ السلام کی طرح شریعت والے تشریح نبی نہیں تھے خود ان کا اعتراف اناجیل میں موجود ہے کہ میں شریعت والا نبی نہیں ہوں کتاب ہی موسی کی کتاب ہے اور جو نبیوں کی کتابیں ہیں ان کے اوپر تو نہیں چلانے والا ہو اس لیے یہ پیشگوئی جو باپ استثناء آیت میں ہے کہ حضرت عیسی علیہ السلام کی شکل بنی جو مروجہ عیسائیت پہلو سے شروع ہوئی حضرت عیسی علیہ السلام کی بات تو میں نے بتا دیں لیکن ایک عیسائیت کا جو رخ ہے جو اس وقت تک سایت حوائج ہے اور ان کے مختلف فرقوں میں ہے اللہ تین میں سے ایک ہے اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ یہ جو عقیدہ عیسائیوں کا مروجہ عیسائیت میں جو رائج ہے موجودہ عیسائیت میں رائے جو پولیس سے شروع ہوا اس کے مطابق تو یہ پیشگوئی حضرت عیسی علیہ السلام پر اطلاع کیوں نہیں پاتی حضرت موسی علیہ السلام سے پیش گوئی تھا پیش گوئی میں گیا تھا کہ میں تیس سال ایک نبی پر برپا کرونگا حضرت موسی علیہ السلام کی پیش گوئی میں یہ نہیں تھا کہ میں تجھ سا خدا برپا کرونگا خدا نہیں کہا تھا انہوں نے تو حضرت عیسی علیہ السلام حضرت مسیح علیہ السلام کو خدا کا موسم کی پیشگوئی بہت پسند آئے گا یا یہ نہیں تھا کہ تین خدا جیسے تو ہے موسی تیرا ہی مسئلہ بعد میں آئے گا یہ بات بالکل غلط ہے اور اس نہیں رکھتا پھر یہی مروجہ جو عیسائیت ہے اگر اس کے عقائد کو دیکھا جائے حضرت موسی علیہ السلام شریعت ہے یہ آپ کے ذریعہ سے شروع ہوئی اور آپ نے شریعت کے مطابق بنی اسرائیل کو چلانے کی کوشش کی بعد میں آنے والے انبیاء نہیں شریعت کے مطابق بنی اسرائیل کو چلانے کی کوشش کی مگر جو پولیس کے ذریعہ سایت معرض وجود میں آئی اور جو دنیا میں زیادہ رائے پائی گئی اس میں تو شریعت قرار دیا گیا ہے جیسا کہ وہ غلطیوں کے خط میں لکھتے ہیں جو ہمارے لئے لعنتی بنا اس نے ہمیں پڑھایا وہ شریعت کو لعنت قرار دے رہے ہیں موسی علیہ السلام کس شریعت والے نبی تھے اور یہ شریف رات کو لعنت قرار دے رہے ہیں تو پھر یہ موسی علیہ السلام کے مسائل کیسے ہو سکتے ہیں یہ موسی علیہ السلام کے مطابق کیسے ہو سکتے ہیں تو حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے اپنی کتاب ایام صلح میں سمجھا ہے کہ یہ غلط فہمی پیدا نہ کرو یہ ایسی باتیں نہ پیدا کرو جو کہ عیسائیوں کو اور غلطی کی طرف دھکیل دیں اور مسلمانوں کو غلط لکھ دیں بلکہ اس پیشگوئی کے مصداق سیدنا حضرت محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وسلم ہیں جو کہ ایک شریعت والے نبی ہیں اور یہ بھی ایک عجیب بات ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم پر پہلی وحی غار حرا میں نازل ہوئی تو آپ اپنے گھر تشریف لائے تو آپ کے اوپر ایک ہر وقت طاری تھا اور آپ جب آ گئے تو آپ نے نے اپنے گھر جب تشریف لائے تو حضرت خدیجہ رضی اللہ عنہ سے فرمایا اے زمہ لیونئ مجھے چادر پڑھتا ہوں چادر کا نام سن کر حضور نے وہ سارا واقعہ بیان کیا کہ کیسے جبریل علیہ السلام آئے اور کیسے نزول وحی شروع ہوئی حضرت خدیجہ کے چچا زاد بھائی ورقہ بن نوفل کے پاس لے کے گئے ان کو واقعی نوفل نے ساری تفصیل سننے کے بعد حالانکہ وہ خود ہی تھے ورقہ بن نوفل نے کہا حاضر ناموس رسالت غازی یہ وہ شریعت ہے جو موقع پر نازل ہوئی تھی اس نے یہ نہیں کہا کہ شریعت جائز ہے علیہ السلام پر نازل ہوئی تھی اور بڑی وضاحت سے اللہ تعالی نے ابتدا ہی سمجھا دیا کہ یہ وہی جو حضرت محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وسلم پر نازل ہونا شروع ہوئی ہے یہ وہی نبی ہیں جن کی پیشگوئی حضرت موسی علیہ السلام نے کی تھی بالاختصار یہ پیش گوئی کسی بھی طرح حضرت عیسیٰ علیہ السلام پر صادق نہیں آتی ہے اول تو یہ کہ وہ صاحب شریعت نبی نہیں تھے موسیٰ علیہ السلام صاحب شریعت نبی تھے عیسی علیہ السلام کا اپنا موجود ہے کہ میں شریعت کو رات کو منسوخ کر دیا بلکہ میں استھا کہ تیرے جیسے تین خدا پیدا ہوں گے یہ عقیدہ نہ تھا نہ موسی علیہ السلام نے بیان کیا وہ اسلام کی اور بھی بہت سی باتیں ہیں جس کا اخلاق حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم پر ہوتا ہے اس لئے صرف نیت کے ساتھ ہمارے وہ عیسائی دوست و احباب جو اندر یا غیر محمد لوگوں کو بھڑکاتے رہتے ہیں اور اس پیشگوئی کے بارے میں بتاتے ہیں کہ یہ حضرت محمد صلی وسلم پر صلوٰۃ نہیں پاتی ہے وہ غلط بیانی سے کام لیتے ہیں ان کو بچنا چاہئے اور باتوں سے اور جیسا کہ قرآن مجید میں بتا دیا کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم ویسے ہی رسول تھے جیسے موسیٰ علیہ السلام اور جیسا ہی ہے نا اور رسول کے محمد صلی اللہ علیہ وسلم رسول جیسا کہ ہم نے فرعون کی طرف بھیجا تھا یہ حضرت علی نے اشارہ کنایہ تھا اپنی کتاب ایام صلح میں تفصیل سے بیان کی جگہ اب ہم آپ کی طرف چلتے ہیں اور کچھ سے ٹیلی فون کالز اس وقت ہمارے ساتھ موجود ہیں جو مختلف سوالات آپ نے ہمارے علماء کرام کے بارے میں پیش کر رہے ہیں سب سے پہلے ہم بات کریں گے ہمارے گھر ہی بنگلہ دیش سے مکرم عارف زمان صاحب ان سے بات کرتے ہیں اور ان کا سوال سنتے ہیں السلام علیکم ورحمتہ اللہ خان صاحب میرا سوال ہے رائے میں یا رسول اللہ کی کتاب میں حضرت نے فرمایا یا ایمان کا مطلب کیا ہے ہے میرا سوال ہے ایمان کا مطلب کیا ہے اور دعا کس طرح ایمان کو بڑھاتا ہے شکریہ محترم مولانا محمد کا صلہ اسلام نے ایمان کی بڑی تفصیل سے وضاحت کی ہے اور وہ راہ میں اور اس کو کھول کر بیان کر دیتا ہوں ہو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ان کی تفصیل یہ بیان کی ہے ان کا نام ہے جو کہ اللہ تعالی پر ایک انسان کو ہوتا ہے ان تؤمن باللہ اللہ کے اوپر ایمان لانا جو کہ وہ غیب سے تعلق رکھتا ہے فرشتے غیب سے تعلق رکھتے ہیں لیکن یہ ایمان کیسے تقوی پکڑے اس کے لیے حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے فرمایا کہ دعا سب سے بڑا ذریعہ ہے وہ دور تھا جب ایک انسان دعا کرتا ہے تو اللہ تعالی اس کی دعا کو قبول کرتا ہے اور جب قبول کرتا ہے تو اس سے اس کے ایمان میں اضافہ ہوتا ہے قبولیت دعا اس کے ایمان کا باعث بنتی ہے اور یہی اسلام کے زندہ ہونے کی دلیل ہے کہ اس میں جس خدا کو پیش کرتا ہے جس کے وجود کو پیش کرتا ہے وہ سمیع الدعا ہے وہ مجیب الدعوات ہے وہ سلطاں ہے وہ جواب دیتا ہے وہ بولتا ہے وہ مشکل کشا ہے وہ حاجت روا ہے دوسرے اور کوئی بت کوئی قبر کوئی معبود اس طرح کی صفات اپنے اندر نہیں رکھتا تو حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام نے ایام صلح اور دوسری کتابوں میں یہ بھی بتایا کہ دعا عزت دے ایمان کا باعث بنتی ہے اور بعض دفعہ یہ دعا قبول نہیں ہوتی جس طرح انسان کر رہا ہوتا ہے اور وہ یہ سمجھتا ہے کہ میری دعا اس طرح قبول نہیں ہوئیہوتی ہے اللہ تعالی اس دعا کو قبول نہیں کرتا بلکہ اللہ تعالی اس کا کوئی اور اس عطا کر دیتا ہے کسی اور رنگ میں اس کو پورا کرتا ہے اور ہمیں اس بات پر بھی یقین رکھنا چاہیے اور رضی اللہ تعالی عنہ نے فرمایا تیرا یار یا کوئی مسئلہ ہو رہی ہے ہم اسی میں جس میں تیری رضا ہو اللہ تعالی کی رضا پر راضی رہنا چاہیے دعا قبول ہوتی ہے تب بھی نہیں قبول ہوتی تب بھی اس کے معاوضہ ادا کرے گا ٹیلی فون کال رہی انڈیا سے مکرم سید تصور صاحب ان سے بات کرتے ہیں اور ان کا سوال سنتے ہیں اسلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ اللہ اللہ داؤ فرمایا لیکن کس کو ایمان نصیب ہوئی وہ کہتے تھے اراضی ون آباد رہیں ہمیں سے کمزور ہے ان کو ایمان نصیب ہوتا ہے تو بہت سارے لوگ ہیں ابو جہل کے بارے میں ہم جانتے ہیں وہ اپنی حکمت و دانائی کی وجہ سے ابوالحکم مشہور تھے لیکن کیا ہوا آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کا یہ مال ان کو نصیب نہیں ہوا تو باوجود اس کے بے شمار دلائل ہیں تو ایمان کیا ہے کہ لاتا ہے بالکل سورج چڑھا ہوا اور سورج اپنے ایمان سورج پر ایمان لانا اس کے وجود کو تسلیم کرنا یہ کوئی بات نہیں بنتی نہیں ہوتی بلکہ انسان کو بعض ایسے قرائن دیئے جاتے ہیں جس کو اختیار کرتے ہوئے کسی کے حق کو پہچاننے کی کوشش کرتے ہیں تو کیا کریں کہ ہماری غیرت بھائی ان کا ایمان ہے اس وقت کے ساتھ وعدہ لیا گیا ہے نہ تو من نبی ولا رسول نہ تو جو بھی خدا کی طرف سے دنیا کی اصلاح کے لئے جو بھی آئے ان پر ایمان لانا ان کی مدد کرنا ان مذاکرات سے انکار کرتے ہیں یہ دنیا کا عام دستور ہے سارے کا سارا ایمان نہیں لاتے لاتے ہیں اور اللہ تعالی سے دعا ہے کہ وہ سب کو ایمان نصیب فرمائے جو حضرت مسیح علیہ الصلوۃ والسلام کے زمانے میں حضرت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے دین کے احیاء کیلئے مبعوث ہوئے بے شمار آسمان و زمین دلائل آپ نے بیان کی ہیں بے شمار ثبوت مہیا کی ہے اور قرآن مجید بہت باغ میں بیان کرتے ہیں کہ واقعی یہ سچے ہیں اور اس بات کے ہیں جو لوگ ہیں پہنچے ان کو اچھے طریقے ہمارا پیغام پہنچ جائیں پھر انشاءاللہ جیسے کہ نصیب فرمایا ایجاز کی حجت نہیں ہے مکرم قریشی عبدالحکیم صاحب بھی ہمارے پروگرام کے کلر ہیں ان کا سوال سنتے ہیں اسلام علیکم ورحمۃ اللہ کا ذکر کیا یا تو قرآن مجید میں موجود ہے پھر احادیث میں بھی اس کا ذکر آتا ہے حضرت ایوب علیہ السلام کا ایک امتحان تھا اللہ تعالی نے ان کو مختلف امتحانوں اور صبر کے دور سے گزرا ایوب علیہ السلام کی پہچان صبر کے ساتھ ہے کہ باوجود اتنی تکلیف ہو کے اور آپ نے ان کی طرف دیکھا تھا اور آپ ہمیشہ اللہ تعالی سے دعا کرتے رہے اور اسی کا نتیجہ تھا کہ حضرت ایوب علیہ السلام کو بعد میں شروع ہوگیتکلیف پر بات کی اور پھر آکے آپ نے ڈھال ہو کے جب ایک جگہ پر بیٹھے تو بخاری میں آتا ہے کہ پہاڑوں کا فرشتہ آپ کے پاس آیا اور یہ کہنے لگا کہ اے محمد اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اللہ تعالی یہ پوچھتا ہے یا اللہ کا شکر ہے کہ یہ جو دوائی پہاڑ ہے ان کے درمیان اس بستی کو پیش کیا جائے تو رسول اللہ نے فرمایا ان کی نسلوں میں سے نیک بندے پیدا کرے گا جو تیری عبادت کرنے والے ہوں گے چنانچہ قبیلہ بنو ثقیف طائف کا رہنے والا تھا اس میں بڑے بڑے 16 پیدا ہوئے بڑے بڑے مسلمان پیدا ہوئے جو انہوں نے بڑے عظیم کام کیے حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے جو تکلیف ہے کی جو حضرت مسیح موعود علیہ السلام کو جس طرح کی مخالفت کا سامنا زنا کرنا پڑا آپ نے اس کو بڑے صبر کے ساتھ برداشت کیا اور اسی کے نتیجے میں اللہ تعالی نے ترقیاتی احمد یا بعض جگہ ہے دید کے ظلم کی مخالفت ہوتی ہے اور وہ حالات جو حضرت ایوب علیہ السلام حضرت مسیح موعود علیہ السلام کو بھی ایوب کہا گیا صبر کے لحاظ سے آپ دیکھیں آج بھی جماعت احمدیہ پر باہر گا اتنی شدید مخالفت ہوتی ہے اور اس کا ذکر کرتے ہیں کرانے کی کوشش کی جاتی ہے کے فضل سے ان کا ایمان خیر متصل ہے وہ کبھی بھی ایمان سے نہیں کرتے رہتے ہیں اور ہمارے علاقے میں سب سے بڑی مثال حضرت صاحبزادہ عبداللطیف شہید ہوئے اللہ تعالی عنہ کی ہے کتنی تکلیف ہونے برداشت کی ہے ہے اتنا اتنی برداشت کی ہے جیل میں کوئی اس کا تصور بھی نہیں کر سکتا اور جب ان کو گڑھا کھود کے کمر تک زمین میں دفن کیا گیا اور سنگسار کیا جانے لگا آخری دفعہ وہاں کا حکمران تھا داتا صاحب کے پاس گیا اور کہنے لگا اگر مرزا غلام احمد کے اوپر ایمان سے دستبردار ہوا میں ابھی بھی نہیں ہو سکے گا آپ نے جو کرنا ہے کریں اللہ تعالی کے فرشتے میرا انتظار کرتے تو یہ ہے صبر ایوب جو حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی جماعت نے ایک نہیں دو نہیں سینکڑوں مثالیں مل جائیں گی کہ کس طرح کیا پچھلی دفعہ حضرت خلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے انعام اللہ جرمنی کے دفاع کے موقع پر خطاب فرمایا اس میں احمدی خواتین کے حقوق کا ذکر فرمایا کہ کس علاقے میں سب اختیار کی اور ایوب علیہ السلام کا ثبوت اور پھر حضرت موسی علیہ السلام اور رسول کے مسائل کی تعدا میں یہ ہے وہ خط جس کی مثالیں آج بھی افراد جماعت اللہ تعالی کے فضل سے پیش کر رہے ہیں پروگرام کو آگے بڑھاتے ہوئے محترم مولانا ضیاء الدین صاحب حامد صاحب یہ سوال ہے کہ جب ہم قرآن مجید کا مطالعہ کرتے ہیں تو اس سے معلوم ہوتا ہے کہ موسوی سلسلہ اور محمد آصف کی مشابہت پائی جاتی ہے اور جس مسیح اور مہدی نے امت محمدیہ میں ملبوس تھا تو اس سے بھی وہی ہے جو ہے وہ احادیث پائی جاتی ہے تو اس صورت میں حکمت کیا ہے یہ رحمن رحیم اس موضوع پر مولانا کوثر صاحب نے بیان کی ہے کہ دنیا کی تاریخ جو ہے نبی علیہ السلام کے ستو کی تاریخ ہے کہ احادیث کا دنیا کی دیگر کتب کا تو اللہ تعالی رب العالمین ہے تو اس کی ربوبیت کا تقاضا کیا ہے کہ انسان کی دونوں قسم کی ضرورتیں پوری کی جائے اور مادی ضرورتیں بھی پوری کی جائے روحانی ضرورتیں پوری کی جائیں تو سلسلے انبیاء کا ایک وسیع سلسلہ وسیع مضمون ہمارے سامنے اوپر کیا ہے اس میں بیان کئے ہیں رسول اللہ اللہ ہو جتنے وہ فرمایا ہر قوم میں ہر علاقے میں اللہ تعالی نے انبیاء بھیجے ہیں ان کی روحانی ضرورت کی تکمیل کے لیے رویت کے تقاضہ کرتا ہے توخوشی عطا کی گئی ہے بعض نبیوں کو بلا شریعت سابقہ شریعت کی تجدید کے لئے اس کے حل کے لئے تعلیم کو زندہ کرنے کے لیے مختص کیا جاتا ہے تو آپ دیکھیں گے کہ موسی علیہ السلام کو اللہ نے تورات کی شریعت عطا فرمائے اور اس کے بعد کیا ہوا اور اس کے بعد اور میں بے شمار انبیاء ہوئے اور وہاں پر ہزار ہا ہاں اور اولیاء اس صورت میں پیدا ہوتے ہیں اب علیکم کال شاہد علیکم السلام علیکم سر رسول اللہ کی ابھی تمہیں ایک ایسا رسول جو نگران نے شاہد ہے ہم نے بھیجا ہے جس طرح حضرت موسی علیہ السلام کو بھیجا ہے ایک مسلسل سلسلہ ہے دوسری طرف محمد سلسلہ ہے ان دونوں میں بہت زیادہ مشابہت پائی جاتی ہے معذرت پائی جاتی ہے کہ شروع میں حضرت موسی علیہ السلام صاحب شریعت نبی مبعوث ہوئے اور بالکل ویسا ہی حضرت محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وسلم کی شریعت نے بھی بن کر آئے وہ طرح کی تعلیم میں اسرائیلی محدود تھی لیکن آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی شریعت لے کے آئے وہ تا قیامت آنے والی تمام نسل انسانی کی ہدایت کے لئے اور اور آپ ہی کا دعویٰ تھا کہ انہیں عیون الناس انی رسول اللہ الیکم جمیعا اور نبی کے نہیں تھا لیکن علیہ السلام تشریف لائے اور شریعت کے ساتھ اور اس کے پاس بے شک یا نبی آپ کے در پہ آتے رہے اور بے شمار اولیاء تیرے اب یہاں پر اس سلسلے میں کیا مصیبت ہے حضرت محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وسلم قرآن مجید کی کامل شریعت لے کر مبعوث ہوئے آپ کے بعد بے شمار ایسے ہیں جن کے متعلق سامان کیا یہ تو یہ ہے کہ حضور نے فرمایا علماء امتی کانبیاء امت کے علماء بنی اسرائیل کے انبیاء کے برابر ہے میں بنی اسرائیل کے انبیاء محدود پیمانے پر جو تبدیلیاں اصلاح کا کام کرتے رہے ہیں جو میری امت کے علماء ہے یہی کام کرتے رہے آگے دوسری طرف فرمایا ان اللہ یبعث لھٰذہ الامۃ علی اس امت کے لئے اللہ تعالی مبعوث کرتا رہے گا العریس کلیات ساغر صدیقی کے سر پر یقین کرنے والے تو دیکھیں اللہ تعالی نے کس طریقے سے یہ وعدہ پورا فرمایا ہم تاریخ کا مطالعہ کرکے دیکھ لیں کہ مفتی محمد شفیع کی تاریخ دیکھ لیں بالکل ویسا ہی ہوا صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد ہر صدی میں مجدد دین آتے رہے اور آخر میں جس طرح منہ سے بھی اس سلسلے میں موسی علیہ السلام کی بعثت کے چالیس سال بعد تقریبا حضرت ابراہیم علیہ السلام تشریف لائے اور ان کی تجویز کے لیے تورات کے احیاء کے لیے بالکل میں بھی امت محمدیہ میں ایک مسیح کے آنے کی خبر دی گئی جو ایک ایسا موضوع ہے جس کے نتیجے میں ہزاروں لاکھوں لوگ بے گھر ہوئے وہ کہتے ہیں کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے بیان کیا کہ ابن مریم نازل ہوں گے تو ابن مریم کوئی آنا چاہیے تھا کوئی اور شخص کی سے یہ نہیں کرونگا کہ یہاں پر یہ نہیں فرمایا کہ جب رمضان آئے گا اور اصلاح امت کے لئے آئے گا صاف حدیثسپورٹ کرتا ہوں فرمایا کیف تہلک امۃ من انا فی اولیاء المسیح ابن مریم کی آخری ہے حکومت وہ ایک ایسی آواز میں شان امت محمدیہ کیسے ہوسکتی ہے جس کے آغاز میں ہو المسیح ابن مریم کی آخری ہمنوائوں آخر میں اب یہ تو کنونشن میں کیسے دور کر سکتے ہیں کہ آنے والے مسیح کے جنم سے مراد علم سے مراد وہ ابن مریم نہیں ہوئے تھے بلکہ ایک اور وجود ہی ہے اب دیکھیں اس کی ایک مثال حضرت مسیح علیہ السلام نے خود پیش کیا ہے کہ الیاس علیہ السلام کے دوبارہ آنے کی پیشکش کو ہی پائی جاتی ہے ہے ہے تو اس وقت علماء یہی کہا کرتے تھے کہ نے لگے کہ مسیحی اس کے دوبارہ آنے کی پیش گوئی پائی جاتی ہے پہلے مسیح کے آنے سے پہلے اس نے بھی کاروبار حاضری ہے لیکن میں اس کی تشریح بیان فرمائی کہ انڈیا سے مراد علی اس کا وہ وہاں نہیں تھا بلکہ آپ کے جو عورت اور خوشبو میں ایک اور شخص ہلاک ہوئی ہیں کی آمد کے ساتھ ہی پوری ہو چکی ہے لیکن اس وقت کے بیشتر لوگ اس بات کو قبول کرنے کے لیے تیار نہیں ہوئے ابھی یہیں پر دیکھیں ابن مریم کا نزول کی پیشگوئی سے بیشتر علماء امت کا یہ خیال رکھتے ہیں کہ ابن مریم سے مراد وہی ابن مریم نے جو چودہ سو سال پہلے بنی اسرائیل میں مبعوث ہوئے تھے تو انہوں نے یہ آنا ہے اور ان کا یہ عقیدہ ہے یا دو ہزار سال سے ابھی دو ہزار سال ہو گیا کہ وہ عیسی علیہ السلام زندہ ہے وہ یہ قیامت کے قریب میں واپس آجائیں گے آگے اب اس میں حکمت کیا ہے حضور صلی اللہ علیہ وسلم بھی تو کہہ سکتے تھے نہ کہ مریم کی طرح ایک اور شخص آئے گا اب میں بیان کرنا چاہتا ہوں کسی بات کو کسی چیز کی تشریح بیان کی جاتی کسی چیز کے ساتھ کہتے ہیں کہ زید کالاسد زید شیر کی طرح ہے مطلب یہ ہے شعر کی بعض خاص عادت ہے یہ ہیں جیسے دل ہی ہے جیسے بعض صفات پائی جاتی ہے عدالت تشبیہ نہیں دے سکتا ہیں اس کو حضرت بھی کیا جاتا ہے ہے یہی ہے تو ہم تیرے ہیں یہ کہنا ہے کہ بیان کرنا بہت ہی معنی خیز ہے اور تشریح کے اعلی ترین صورت میں سے ایک ہے اب دیکھتے ہیں کہ ہم کیسے کہہ سکتے ہیں کہ ابن مریم کے نزول سے مراد وہ حقیقی معنوں میں نہیں بلکہ مجازی میں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے بیان فرمایا ہے ایک حقیقی معنی ہوتا ہے ایک مجازی ہوتا ہے ہے اس پر مبنی ہوتی ہے لیکن بعض ایسے ہیں جو قرائن سے معلوم کرنا ہوتا ہے حقیقت پر مبنی نہیں ہے یہاں پر حقیقت کے معنی میں استعمال ہوا ہے یا مجازی معنی میں استعمال ہوا ہے اس کے لیے علماء کا یہ کہنا ہے اس کی مثال کے ساتھ اس بات کو میں سمجھانے کی کوشش کروں گا مثلا ہم مزید کے بارے میں ہم یہ کہتے ہیں کہ کی طرح ہے اب مسئلہ ہم کہتے ہیں کہ شعر وہاں سے ایک وہاں سے آ رہا ہے یہ کہتے ہیں کہ شیدے کو ہار آرہا ہے تو جو ہمارا رہا ہے یہ لفظی قرینہ ہے اس بات کا اشارہ سے مراد اصلی جنگل والا شیر نہیں ہے بلکہ زیادہ ہے جس کے اندر شعر کی خوبیاں ہیںیکسر الصلیب ہوئے اختر الخنزیر صلیب کو توڑ دے گا اور اسی طرح خنزیر کو قتل کرے گا اور ان کی گئی ہے یہ سب باتیں بتاتی ہے کہ اس کا مقصد ہرگز یہ نہیں کہ دنیا میں نہیں بلکہ مجازی استعمال کیا آپ نے دیکھنا ہے کہ یہ وہ کون سے قائم ہے جس سے ہمیں معلوم ہوگا کہ یہ حقیقی معنوں میں استعمال نہیں بلکہ مجازی معنوں میں استعمال ہوا کہ یہ دیکھنا ہے کہ یہاں قرینہ موجود ہیں قرینہ حالیہ بھی موجود ہے آپ حیران ہوں گے اس طرح وضاحت کے ساتھ حضور صلی اللہ علیہ وسلم پیشگوئی فرمائی ہے ہر پڑھا لکھا ان پڑھ کر اس بات کو سمجھ سکتا ہے کہ حضور نے جہاں ابن مریم کا نزول کی پیشگوئی فرمائی ہے وہاں فرمایا مومنین و مومنات کو یہ جوش و جذبہ انسان کے دماغ میں پیدا ہو سکتا تھا کہ بننے والے مسلم رات کو ہی دن میں بنی اسرائیل نے گزر چکے ہیں اور حضور نے فرمایا مومنین کو یہ غلط فہمی میں مبتلا نہیں ہونا وہ تمہیں میں نے تمہارے تمام ہوگا فرمایا وہ مہک ملک موت ماری امامت کرے تو امام ہوگا تو یہاں پر یہ جو محکوم عوام الناس کے الفاظ اس بات کی طرف اشارہ کرتے ہیں کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم کا علم کے نور سے مراد ہرگز حقیقی مومن ہیں جو بنی اسرائیل میں گزر چکے ہیں یہ حقیقی معنوں میں نہیں بلکہ مجازی معنوں میں ایک وہ کونسا پرندہ ہے جو میں نے ابھی حال ہی نہیں سمجھ سکتے ہیں کہ واقعی ابن مریم کے نزول سے مراد وہ حقیقی بہن مریم ہرگز نہیں ہے اس بات کو پیش فرمائے فرمایا ہے فرمایا ابن مریم علیہ السلام حضرت مسیح علیہ السلام بنی اسرائیل میں گزرے ہیں ان کی وفات بھی تھے اور آپ کو الہام ہوا کہ اللہ تعالی نے بتایا ہے کہ مسیح بن مریم فوت ہو چکا ہے اور وعدہ کے معنی فتویٰ قرآن مجید اور احادیث اور تاریخی شواہد سے یہ ثابت ہو جانا غزل مسیح علیہ السلام کی وفات ہوچکی ہے اور وفاقی افطار واپس نہیں آتے تو یہ اس بات کے لئے اسکرین ہیلی ایک ماہ میں کرینہ ہے کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم کا یہ فرمان امام نازل ہوں گے وہ دراصل آمنہ کے ساتھ ہے جس سے اس کا تھا کہ جب ہم سب کا غلبہ تھا کہ بہت سارے اس لیے عیسائیوں کے بے بنیاد ہیں اس کی تردید کے لئے آپ نے آنا تھا اس لیے بھی انعام رکھا گیا حضرت آدم علیہ السلام نے اپنے ایک شعر میں بہت لطیف انداز میں ان کو بیان فرمایا آپ نے کیوں مسلم امہ کے بیشتر لوگ علماء اسلام کے جو اب وہ علیہ السلام کے نزول کے اعتبار کا مشاہدہ کرتے ہوئے مظفر سے کہنے لگے علامہ اقبال صاحب نے یہاں تک فرمایا کہ وضع میں تم ہو نصاریٰ تو تمدن میں ہنود یہ مسلماں ہیں جنہیں دیکھ کے شرمائیں یہود وہ یہودی صفت کے بچوں کے مسلمان حضرت یونس علیہ السلام کا یہ کہنا حسرتوں میں اول ما تحول بہ بیننا وبین قومنا فون کروں گا نہ ہی گیا جب یہودی مسلمان مسلمان یہودی صفت کے ہوں گے تو یہتو اس لیے تو وہی دروس الغتۃ کہتا ہے تمام انبیاء ایک ہی وجود میں آپ طبیعت کیسی ہو سکتا حضرت موسی علیہ السلام تشریف لائے اور فرمایا اللہ نے انبیاء یہ اللہ کے پہلوان کے تمام انبیاء کی نماز میں تشریف لائے تو اللہ تعالی کرے مسلمان میں فرق کو سمجھنے کی کوشش کرے اور آنے والے مسیح کو ماننے اور آپ کی جماعت میں شامل ہونے کی توفیق فرمائے میر احمد صاحب انڈیا سے انہوں نے اس نے اپنے سوال بھیجا ہے مولانا محمد امین کھوسہ سے پوچھنا چاہوں گا وہ لکھتے ہیں کہ حضرت مسیح علیہ السلام کے زمانے میں جب ٹاؤن آئی تھی تو اس کے بعد جو لوگ ایمان لائے تھے اور تعاون کے خوف سے ایمان لائے تھے یا امام مہدی کو پہچان گئے تھے یہ ان کا سوال ہے میں آپ سے میں بیان کی تھی اس سے نکلے گا تو بعض لوگوں نے یہ دیکھ کے کہ وہ ساری علامات یاجوج ماجوج کی مسیح موعود کے ظہور کی تعجیل ظہور کی تصوف کی یہ ساری علامات پوری ہوگئی ہیں اور یہ تعاون کا فیصلہ ہے اس لئے وہ لوگ ایمان لائے اور حضرت موسی علیہ السلام کی جماعت میں شامل ہوئے اور دوسرا یہ کہ خواب تھا اس میں کوئی شک نہیں ہے کیونکہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے ایک شخص مقرر کر دیتی ہوں حافظ غلام مصطفی جو میرے دار میں رہے گا اللہ تعالی آپ کی حفاظت کرے گا اور اس کی تشریح دور فرما دی تھی کہ اس سے مراد صرف میرا یہ گھر نہیں جو قادیان میں ایک اور پتھروں کا بنا ہوا ہے بلکہ اقتدار سے مراد ہر احمدی کا گھر ہے خواہ وہ دنیا کے کسی کونے میں ہے اور واقع ہیں وہ اسلام کی اور قرآنی تعلیمات پر صحیح طور پر عمل کر رہا ہے تو اللہ تعالی اس کو تعاون سے بچائے گا اور واقعی لوگوں نے دیکھا کہ ایک پڑوسی کے گھر میں تو طاعون سے موت ہو رہی ہے لیکن ساتھ ہی احمد کا گھر ہے اللہ تعالی نے وہاں کے رہنے والوں کو محفوظ رکھا تو یہ دونوں ہی باتیں اس کے اندر شامل تھیں ایک تو یہ تجویز پیش گوئیاں تھی وہ پیشگوئی پوری ہوئی اور دوسرا یہ کہ حضرت مسیح علیہ السلام کے بعد جو یہ ایک شرط لگا دی گئی تھی کہ تعاون کا انجکشن لینا دینا نہیں لینا ہے اللہ تعالی اس اس ٹیکانہ لینے والوں کو بچائے گا جو اس کے لیے ٹی کاروباری تدابیر بھی اختیار کرے گا وہ نہیں سکے گا تو یہ بہت بڑی علامتیں اور تاریخ نے تو یہاں تک کہا جاتا ہے کہ اس زمانے میں جو احمدی ہوتے تھے ان کے نام الحق میں شائع ہوتے تھے تعاون کے زمانے میں اتنی کثرت سے احمدی ہوئے کہ وہ شائع کرنا مشکل ہوگیا عادت بیلا حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام یہ لوگ جو اور اس عرصہ میں جماعت میں شامل ہوئے ان کو تعاونی احمدی بھی فرمایا کرتے تھے کہ وہ یہ وہ لوگ ہیں جو کہ تعاون کا نشان دیکھ کر وہ جماعت میں شامل ہوئے تھے تو اس کی دونوں ہی وجوہات تھی اور ابھی بھی یہ ٹاؤن آنے والی ہے حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے فرمایا ان کو عقل دے اور ریلی نکال رہے ہیں اس وقت ہمارے ساتھی انڈیا سے ہی ہمارے ساتھ اس وقت راستے میں پڑے ہوئے ہیں ان کا بھی سوال سکتے ہیں اسلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ ان کے کریئر کی خدمت میں سلام اور دعا کی درخواست ہے کہ تم کو اندازہ ہے کہ قرآن کریم میں شہر کا ذکر ہے یادوں کا ذکر ہے اس سے زیادہ ہونا یا دماغی امراض کے لیے علاج کرانے کے طور پر بھی آنے والی رہ جاتی اور اس کو بیان کرکے سورہ فلق اور سورہ الناسایران کے برخلاف ہوں جہاں غیر موجودگی میں کیا کیا عقیدہ ہے وہ کچھ بھی ہو یہ کوئی سند نہیں ہے بلکہ میں یہی کام ہے تو کس شخص پر وحی اترتی ہے وہ اس قابل ہو چکے ہوتے ہیں اللہ تعالی کے نور کو اپنانے کے لئے تو اعمش پروا ہی نہیں ہوتا تو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی شان میں اللہ بیان فرماتا ہے وہ موت کے بعد تین بنیادی و منفی کیا آپ کے آگے بھی پیچھے بھی ہمیشہ آپ کی حفاظت کے لئے فرشتے مقرر ہوتے ہیں تو دوسری طرف فرمایا واللہ یعصمک من الناس علی لوگوں سے ہمیشہ آپ کو بچائے گا ہر قسم کے کتنے واقعات ایسے ہوئے ہیں بے شمار ایسے واقعات ہے جہاں پر موجود ہر رنگ میں اللہ تعالی آپ کی حفاظت فرمائے آپ کو کوئی تکلیف نہ پہنچانے میں انگلش میں کامیاب نہیں ہوئے آپ اپنی مرضی سے کوئی کلام نہیں کرتا کہ وہ جو کچھ کر کھلا محبت کرتے ہیں وہی روشنی میں کرتے وہی ہوتی ہے تو وہی روشنی میں آپ کا کلام ہوتا ہے جب اس قدر شان اہل بیت بیان کی ہے کیسے ممکن ہے ایک مومن کی ہے تصور بھی کرے کہ آپ گھر سے جادو سے متاثر ہوتے تھے یہ بھی بدعت ہے یا غلط ہے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم ہر قسم کے جو حملوں سے خواب وہ ظاہری حملہ ہو یا روحانی حملہ کی طرف سے کسی کرتے ہو آپ ہمیشہ محفوظ رہا کرتے تھے میں موجود ہے کتاب اللہ میں بھی اس کی تفصیل بیان فرمائی ہے تمہیں اللہ تعالی نے سورہ جمعہ میں فرمایا کی طرف اب یہاں پر تھوڑا سا رکھتے ہیں نہ سمجھیں واہ سے جڑا ہوا ہے وہاں آخری دا کے آخری دن میں بھی اللہ نے رسول بھیجا یہ بات ہے اس کے اندر جو بڑی وضاحت سے بیان کی گئی ہے کیونکہ آخری نہیں آتا ہے ان کی جارہی ہے جب یہ سورت نازل ہوئی تھی اس وقت حضرت ابوہریرہ رضی اللہ تعالی عنہ اس میں موجود تھے اور ان کی روایت بخاری اور تقریبا حدیث کی تمام کتابوں میں موجود ہے کتاب و تفسیر تفسیر سورۃ الجمعہ میں انہوں نے یہ سوال کیا وجہ ہے نہ کے ہم رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی مجلس میں بیٹھے ہوئے تھے کہ سورج منازل کوئی نازل ہوئی لیکن حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ تعالی عنہ کے ذہن میں یہی ایک سوال تھا کہ یہ آخرین سے مراد کیا ہے جو آپ کی 20 تا آخرین میں ہونی ہے اگرچہ ان کا یہاں ذکر نہیں لیکن ان کا انداز سوال یہ تھا جواب نہیں دیا الاصفپاک تین دفعہ اس سوال کو دعوت دے رہے ہیں حضرت علی علیہ السلام اس کی تفصیل یہ بیان فرمایا کرتے تھے کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم الہی تفہیم کا انتظار فرما رہے تھے کہ اللہ تعالی کی طرف اشارہ ہوتا ہے ورنہ ایک دفعہ آدمی سے سوال دریافت کیا جاتا ہے تو وہ فوراً جواب دے دیتا ہے کم از کم دو دفعہ دیتا ہے دیتا ہے مگر حضور خاموش رہے اور حضور نے جواب نہیں دیا جب تیسری مرتبہ حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ تعالی نے سوال کیا تو حدیث کے الفاظ ہیں فواد ہار سول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم یعلم انہ لا الہ الا اللہ کے رسول نے اپنا ہاتھ سلمان فارسی رضی اللہ تعالی عنہ پر رکھا اور یہ کہا اگر ایمان ثریا پر بھی چلا جائے گا تو ان میں سے ایک شخص کو دوبارہ وہاں سے لائے گا نہ سکے گا اب آپ دیکھیں کہ یہاں پر سلمان کا رضی اللہ تعالی عنہ پہ آپ نے ہاتھ رکھا یہ نہیں کہا کہ سلمان کی اولاد میں سے ہوگا بلکہ اعلائے یعنی فارسی نسل قوم میں سے وہ ہوگا جو کہ جس طرح حضرت سلمان فارسی الاصل ہیں اور اس وقت یہ نہیں اس میں نہیں ہے فارس کے باہر رہیں گے اسی طرح جو آنے والا امام مہدی ہے وہ ابنائے فارس میں سے ہوگا لیکن وہ اس وقت ایران میں اور فارسی میں نہیں ہوگا بلکہ باہر کے علاقے میں ہوگا یہ اس پر فخر ہے یہ اتنی واضح پیش گوئی تھی جو اللہ تعالی نے حضرت رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے ذریعہ مسلمانوں تک پہنچائیں ای-کتابوں سید امام علی علیہ الصلاۃ والسلام آبنائے فارس میں سے ہیں ہیں اور یہ دیکھیں کہ بڑی عجیب بات ہے کہ ایک دوسری پیش کو یہ تھی کہ وہ شرقی دمشق میں آئے گا اور آبنائے فارس میں سے ہوگا حضرت مسیح موعود علیہ السلام کو اللہ تعالیٰ علیہ وسلم کے خاندان کو حضرت مرزا حامد بیگ رحمہ اللہ کو کیسے تحریک کرتا ہے کہ وہ سمرقند کے علاقے سے سفر کرتے ہوئے مختلف پڑاؤ تہہ کرتے ہوئے آخر اس جگہ جہاں ابھی ہم بیٹھے ہوئے ہیں ان کی مقدس بستی یہاں آکے آباد ہو اور اس جگہ کا نام اسلام پر اور بعد میں اسلام پر راضی ہوجائے کیونکہ آنے والے حکم بھی ہونا تھا اس لیے اللہ تعالی نے اس کا نام شروع سے ہی قاضی اور قادیانی پر آپ یہ دیکھیں کہ جو قاریان ہے یہ دمشق سے مشرق کی طرف ہے اور جو حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام ہیں وہ فارسی حاصل ہے اور وہ ابنائے فارس میں سے اب ہمارا مسلمانوں سے بڑی وضاحت سے سوال ہے بہت سے لوگوں نے جب اس پیج کو ہی غور کیا اللہ تعالی نے ان کو حضرت انسان پر ایمان لانے کی توفیق عطا کرتے ہیں ہے کہ اس کےاوپر غور کریں کہ آخرین سے مراد کون ہے ایک 20 تا آخرین میں ہونی تھی اور اس سے کوئی نہیں کر سکتا کیونکہ وہ یفعل اللہ فائل فعل جو امید میں تھا وہ آخری میں بھی ہونا تھا اس سے کوئی انکار نہیں کیا جاسکتا اور حضرت مسیح موعودعلیہ الصلوٰۃ والسلام کا نام نامی اس بارے میں فرماتے ہیں اور آیت آخری نہ میں یہ اشارہ ہے کہ جیسا کہ یہ جماعت مسیح ماعود کیسا ہے صحابہ رضی اللہ عنہ کی جماعت سے مشابہ ہے ایسا ہیں جو شخص اس جماعت کا امام ہے وہ بھی دلی طور پر عزم رکھتا ہے اور پر غور فرمائیں کہ وہ آپ سے مشابہ ہوگا امام مہدی علیہ السلام اور رسول کی حفاظت کا دل ہی امتی نبی ہیں اور اسی کیوں آخر میں پیش گوئی کی گئی تھی کہ وہ امتی نبی و ولی ہے نبی اللہ تعالی اس کو بھیجے گا جو ایمان کو دوبارہ لائے گاانشاءاللہ شروع ہوئے چنانچہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام فرماتے ہیں تیرہ سو برس کے بعد از رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے معجزات کا دروازہ کھل گیا دیکھیں کتنی بڑی اور اہم بات حضرت مسیح موعود علیہ السلام فرماتے ہیں کہ تیرہ سو سال کے بعد رسول اکرم صلی وسلم کے معجزات کا دروازہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے ذریعہ سے کھلا اب دیکھیں گے معجزات ہیں کیا حضرت مسیح موعود علیہ السلام اپنی کتاب حقیقت الرحیم فرماتے ہیں اللہ تعالی نے چار لاکھ اگر میں فردن فردن شمار کرو چار لاکھ نشانات ہیں جو اسلام کی تائید میں اللہ تعالی نے ظاہر فرمائے آپ دیکھیں ہیں مثال ابھی ہم یہاں یہ پروگرام پیش کیا حضرت مسیح موعود علیہ السلام کو اللہ تعالی نے یہ خبر دی تھی میں تیری تبلیغ کو زمین کے کناروں تک پہنچاؤں گا آپ یہ کسی کے بس کی بات نہیں تھی کہ حضرت حسان کی تخلیق کو دنیا کے کنارے تک پہنچائے گا کون تصور کرسکتا تھا اس سے ایک سو تیس سال پہلے علامہ رہے تھے کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی تبلیغ دنیا کے کناروں تک پہنچائے گی یہ ہمارا ایم پی اے کا نظام یہ جو ہم یہاں سے پروگرام پیش کرتے ہیں حضور کے خطابات دنیا کے سامنے پیش ہوتے ہیں کیا یہ وہ عظیم نشان نہیں ہے جس کو اللہ تعالی نے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کو جس نے خبر دی تھی اور آج یہ نشان ہر روز دنیا کے سامنے ہے کہ کیسے اللہ تعالی اس تک وہ بھائی جو کے ان باتوں کو سنتے ہیں اور اس کی مختلف بھی کرتے ہیں یہ درست نہیں ہے حضرت مسیح موعود علیہ السلام اور آپ تو ان کے اوپر لگی ہوئی ہے لیکن جیسے گدھا ایک جانور ہے اس کو یہ نہیں سمجھ آتی کہ اس وقت کیا ہے سکم تمہیں اللہ تعالی نے قرآن دیا احادیث بھی وہ طریقہ اختیار نہ کرو جو یہود نے افطار کرلیا 24 انبیاء کا قرآن مجید میں ذکر کی ہے کیوں کہ امت محمدیہ جب اس امت میں تمہارا امام مہدی اور امتی نبی آئے تو اس کے ساتھ جو مختصر ترین ہتھیار نہ کرو جو کہ یہود اختیار کرتے ہیں اللہ تعالی کے فضل سے بہت بڑی تعداد جماعت احمدیہ میں شامل ہوئیں اور اس اختلاف سے بچ گئی ورنہ حضرت حسن رسول اللہ نے فرمایا تھا عطا اللہ بنی اسرائیل سے حضور نے مثال دی تھی کہ دونوں اس فرق کو کم ہو جائیں گی تو اللہ تعالی مسلمانوں کو اس پیش گوئی کو سمجھنے کی توفیق دے ورنہ ان کا ایمان ہے یہ کہنا کہ حضور تعلیمات لئے یہ بات غلط ہو گئی تھی طور پر حدیث میں فرمایا کہ زرعی تو وفائیوں پر ایمان لانا تو اللہ تعالی ان کو توفیق دے کہ حضور کی اطاعت کر سکیں جزاک اللہ آگے بڑھاتے ہوئے محترم مولانا دین محمد صاحب سے یہ سوال ہے کہ جیسے کہ معلوم ہوتا ہے کہ اور اسلام کا ایک مقصد یہ بھی بتایا گیا ہے کہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کی آمد کا اہم ترین مقصد اصلی بھی عقائد کو پاش پاش کرنا ہے کہ وہ حدیث کے الفاظ پہلے بھی بیان کئے گئے ہیں ایک اور روایت میں اس طرح آیا ہےحربہ بعض آیات میں اختلاف کا سبب بھی بعض اور باتیں بھی بیان کی جاتی ہے اس کو توڑے گا علیہ السلام کی پسند کی ذمہ داری ہے اس کو توڑنا بہت اہم ایک ذمہ داری میں شامل ہے ابلیس سے توڑنے سے کیا مطلب ہے یہ تو ممکن ہی نہیں جیسا کہ پہلے بتایا تھا کہ یہ حقیقی کو توڑنا ہرگز نہیں ہو سکتا یہ انبیاء کی شان میں ایک نبی کی شان نہیں کہ دنیا بھر کا دورہ کرے اور جو ظاہری لکڑی کے بنے ہوئے یا دوسرے جو صلیب کو توڑ کر پھر یہ تو ممکن ہی نہیں اگر ساری دنیا میں توڑتے بھی جیسے تھوڑا سا بھی چلا جائے گا تو ان صلی اللہ علیہ وسلم کا جو نہایت حکیمانہ عرفان اس کو اس ملک میں طویل ہرگز نہیں دینا چاہیے کہ یہاں مراد صلیبی عقائد کو پانچ کرنا ہے تو بہت سارے ایسے عقیدہ ہیں جو قرآن مجید اور حدیث کی تعلیم سے برخلاف عیسائیوں نے اپنایا ہوا تھا کہ جیسے مسئلہ تثلیث کا عقیدہ ہے خدا تین ہے اور دوسری طرف یہ دعوی کیا ہے کہ مسیح اللہ ہی ہے تو الوہیت مسیح کا عقیدہ رواج پا گیا تھا اور اس کے تعلیم کے بعد خلافت حضرت اقدس مسیح علیہ السلام نے چونکہ زمانے میں جو اب آپ بوس ہو آپ مجبور ہوئے تھے ابھی عقائد کا زمانہ تھا اسی وجہ سے جیسا کہ میں پہلے بھی عرض کیا تھا اس کی وجہ سے ابن مریم اور آسیہ رکھا گیا تھا اگر تو شریک سفر کے ساتھ ان غلط عقائد کی تعریف بیان کی ہے دوسرا جو ہے یہ بھی مختلف رنگ میں حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام نے بہت سارے براہین قاطعہ دلائل کے ساتھ یا کے ذریعہ سے نکلنا قابل تردید دلائل بیان کرتے ہوئے اس کو کیا خطرہ ثابت کیا ہے وہ تاریخی تحقیق جو حضرت مسیح علیہ السلام کا قرآن مجید اور احادیث اور مختلف تاریخی شواہد کے ذریعے سے اپنے سابقہ سرمایہ آپ فوت ہوچکے ہیں یہ جو عقیدہ ہے اس کی تبدیلی اس کے اس کے لیے پیش کیے صلیب کے خلاف عقائد کے خلاف عقیدہ کیا ہے ان کا یہ عقیدہ تھا وہ رات کی تعلیم میں انجیل کی تعلیم نہیں بلکہ بعد میں جو اس میں جو ردوبدل کیا گیا اس کے مطابق یزید بن گیا تھا علیہ السلام پر چڑھائے گئے اور بات ہوگی ان کے تین دن کے بعد زندہ ہو کر آسمان پر چلے گئے وہاں پر اللہ تعالی کے دائیں ہاتھ پر بیٹھے ہوئے ہیں اور وہی دوبارہ دنیا میں عیسائیت کی اصلاح کے لئے آئے گا تو یہ جو صلیبی موت کا تعلق ہے جو عقائد پر مبنی ہے ہے کیا ہے حضرت مسیح علیہ السلام نے بنی نوع انسان کے گناہ کو دور کرنے کے لئے بددعا کفارہ اپنے صلیبی موت کو اپنایا ہے اول تو یہ ہے کہ صلیبی موت کے لیے تیار ہی نہیں تھے کہ میں ملتے ہیں ہیں یہ خدا اے خدا مجھے کیوں چھوڑ دیا ہے آپ کے ساتھ بہت گریہ و زاری کے ساتھ دعا کرتے ہیں یہ مصیبت ٹل جائے تو حضرت موسی علیہ السلام نے قرآن مجید اور احادیث اور تاریخ کے حوالے سے اس بات کو بیان فرمایا ہے کہ یہ جو عقیدہ ہے سلیم سے صلیب پر موت ہونے کا کفارہ بننے کا یہ بالکل بے بنیاد ہے آپ کا آیا تو آموختہ وہ مسئلہ حل کر سکے جس کے بلاگ کی شکل ہوںکیا یہ کنفیوژن پیدا کرنے کی کوشش کرتی ہے کہ حضرت مسیح علیہ السلام کی جو شکل ہی کسی اور سے اس پر چیک بنا دی گئی کسی اور شکل میں اتاری گئی اور وہ صلیب پر چڑھایا گیا اور مسیح آسمان کے نیچے والی باتیں شبیہ کا مطلب یہ ہے اس کے پہلے بھی کسی کا ذکر نہیں ہے یہ بات ثابت ہے باقی ہے آپ لوگوں نے سمجھ گئے ہوں گے سب چھوڑ کے چلے گئے پھر آپ کے حواریوں نے آپ کو بچائے اور تین دن تک ایک اور جگہ پر جاکے ان کا علاج کیا بعد میں ہجرت کر کے وہاں چلے گئے کشمیر کے وہاں پر طباطبائی نے جماعت احمدیہ کی طرح دیگر متعلقین ہے تفسیر میں یہ بات بیان کی ہے وہ فرار ہو الہند محمود فی ہی نہیں سے بھی بڑی داخل القلب حضرت موسی علیہ السلام کا سلیمی واقعے کے بعد ہندوستان کی طرف ہجرت کرنا فرار ہوجانا وہ موت ہوئی اور ہندوستان میں وفات پا جانا یہاں ایسی کوئی بات نہیں ہے یہ دراصل نظر تک اسلام کی طرف سے پیش کردہ ان کا اصرار تھا کہ اس دور کے ہم عصر علماء اس بات کو سمجھ کرنے پر مجبور ہوں گے میں زیادہ وقت کی قدر کرنا چاہوں گا فرماتا ہے مسیح کے نام پر آج بھیجا گیا کرنے کے لئے بھیجا گیا ہوں میں آسمان سے اترا اور فرشتوں کے ساتھ جو میرے دائیں بائیں تھے جن کو میرا خدا میرے ساتھ جن کو میرا خدا جو میرے ساتھ تھے میرے کام کے پورا کرنے کے لئے ہر ایک مسجد میں داخل کرے گا بلکہ کر رہا ہے اگر میں چپ رہوں اور میری قلم لکھنے سے رکن بھی رہے تھے تو حضرت آدم علیہ السلام کے کے ساتھ کے مقاصد میں سے ایک عظیم مقصد یہ تھا یکسر خالی پڑے گا آپ نے فرمایا ہندوستان میں آپ نے بے شمار ایسے شواہد پیش کئے جس سے آپ ہم سے صلیبی موت سے نجات پانا پھر وہاں سے ہجرت کر کے کشمیر کے جانا اور گمشدہ قبائل کی طرف اسلام کا اپنے وسائل کا پیغام پہنچانا یہ سب آپ نے فرمایا ہے اور ایک سال کی عمر میں وہ بات ہوئی اور یہ بھی ایک عظیم الشان علمی انکشاف ہوا تھا کہ آپ میرے سینے کا آسان حل موجود ہے ہے تو کا سلیمان علیہ السلام کے زمانے کا تعین کرتے ہوئے نبی کریم صل وسلم نے کیا عورتوں کا ذکر فرمایا ہے ثابت کر دیا وہ مسیح اور مہدی جو آنے والا ہے عیسائی سلطنت کے وقت میں اس کا آنا ضروری ہے کیونکہ اگر کسی اور وقت میں آئے تو پھر پیشگوئی کسی اور کیوں کر پوری ہو حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے فرمایا کہ وہ خلیفہ کے وقت آئے گا دیکھیں کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کا تھوڑا سا تاریخی پس ماندہ بتاتا ہوں پاک صاف ہو گئی تیرا فروری 1835 یہاں قادیان میں پیدا ہوئےاور عیسائیت کی تبلیغ یہ دیکھیں گے جب ابتداء میں ان کی 91 ہزار سال ہندوستان میں تعداد تھی دو تین سال میں وہ تقریبا چار لاکھ تک پہنچ گئی اور اتنی تیزی کے ساتھ یہ مسلمان عیسائی ہونے لگ پڑے یہ تو ان کو اردو کا لالچ اور دوسرا سب سے بڑا ہتھیار جو انتہا تھا کہ دیکھو تم تو یہ کہتے ہو یہ سن کر جو تم نے اس کو ماننا ہے ابھی اور یہ مسلمانوں کو قائل کرنے کے لیے بہت اہم بات تھی حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام ان ساری باتوں کو دیکھتے رہے ہے جس چیز میں حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی جس کتاب نے ابتدائی طور پر روک لگائی وہ تھیں جن کے مقدس کتاب 1893 میں اور جون کے شروع میں حضرت مسیح موعود علیہ السلام کا ایک معجزہ ڈپٹی عبداللہ آتھم اور مارٹن گپٹل کے درمیان تصادم ہوا خود انہوں نے اس کا نام جنگ رکھا جنگ مقدس کہ یہ کتنی بڑی جنگ ہے عیسائیت اور اسلام کی کہ اس سے پہلے اس طرح کا عظیم نقصان نہیں ہوا ہوا مناظرہ موجود ہے وہاں حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام نے کسر صلیب کا آغاز فرمایا یا اس کے بعد یہ سارے سال جتنے بھی تھے 1893 سے لے کے ننانوے تک 1995 میں اللہ تعالی نے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کو بتایا کہ عیسی علیہ السلام پر فوت نہیں ہوئے تھے اور حضور نے سب سے بڑی دلیل تھی کہ یوحنا انجیل میں ہے کہ جب ان کو صلیب سے اتارا گیا ان کو چھلکا سزا مارا گیا اس سے خون اور پانی نکلا جو کہ زندہ ہونے کی علامت ہے اور اس کے بعد کی تحقیقات نے کفن اور دنیا کے سامنے پیش کیا اور علیہ الصلوۃ والسلام کی اس تھے جو بڑی تیزی کے ساتھ چلی آرہی تھی اس کے اوپر ایک روک لگی اور بری عادت نہیں رہی آپ دیکھیں گے اس زمانے میں ہجری بہ روز یہاں ہندوستان میں آیا اور اس نے یہ اعلان کیا کہ عنقریب اس آیت کے آغوش میں آنے والا ہے لیکن یہاں سے اب ہم حجاز کا رخ کریں گے وہ لکھتا ہے حتی کہ صلیب کی چشم کا ہر ایک کو چھوڑتے ہوئے مکہ شہر خانہ کعبہ کے حرم میں داخل ہوگی یہ ان کی امیدیں تھیں لیکن حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے آکر اس سیلاب کو روکا اور جب حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کی وفات ہوئی دشمنوں نے بھی اس کی خدمات کو سراہا کے واقعی حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے اس کو روکا ورنہ اگر حضرت مسیح علیہ السلام کی بعثت نہ ہوئی ہوتی تو آج پین کی طرح یہاں پر بھی شاید کوئی مسلمان نہیں رہتا اور ساری ایک ایسی دنیا بن گئی لیکن حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے دلائل پر یہ سب خاموش ہو گئے مشہور عالم ہے دو بول کلام آزاد ہندوستان کے مشہور لیڈر ہیں وہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے بارے میں لکھتے ہیں کہ حضرت مرزا صاحب کی اس بات نے نہ صرف عیسائیت کے اس ابتدائی اثر کے پرخچے اڑا دیے اور یکسر ہو سکتا ہے پرکھچے اڑانا یہی صورت صلیب کا صحیح مفہوم ہے اور ہزاروں لاکھوں مسلمانوں کو اس کے خطرناک حملے کی زد سے بچا لیا اور خود عیسائیت کا طریقہ دوا اور لڑنے لگا ایک دوسرے ہیں کہ مرزا صاحب سے لے کر ولایت کے پادریوں کو شکست دے دی مولانا نور محمد نقشبندی یہ وہ کس لی تھی جو حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے کی اور آج تک اللہ تعالی کے فضل سے عیسائیت کو روکنے والےجناب عزیز اور قرآن کریم میں ان کو مت ہوں میں کی جماعت میں داخل کر چکا ہے اور سارے قرآن میں ایک دفعہ بھی ان کی کارکردگی اور ان کے دوبارہ آنے کا ذکر نہیں بلکہ ان کو صرف اور صرف یہ کہہ کر چپ ہو گیا لہذا ان کا زندہ بھی ہیں العنصری ہونا اور پھر دوبارہ کسی وقت دنیا میں آنا نہ صرف اپنی ہی عوام کی رو سے خلاف واقع سمجھتا ہوں بلکہ اس خیال حیات مسیح کو نو سے بیانات ہے یقین یہ قرآن کریم کی رو سے لگو اور بادل جانتا ہوں نا یہ اللہ کی طرف سے ہم اپنے آئندہ کی سوچ میں بات کریں گے ہمارا اگلا ایپیسوڈ مورخہ 22 جون 2019 ہفتہ کے دن کے مطابق رات کے ساڑھے نو بجے آپ کے مطابق سہ پہر4بجے قادیان دارالامان سے ہم آپ کی خدمت میں پیش کریں گے تب تک کے لئے اجازت دیجیے گا السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ طہ کی حیات نو نورت آباد کے آگے تھا تسلّی بھی کم بتایا ہے کہ یہیں نور خدا آباد کے تسلی بتایا ہے تمہیں دار تسلی دی ہم نے