Ahmadi Muslim VideoTube Rahe Huda,Youtube Rahe Huda – Bibile Men Muhammad PUBH Ki Peshgoian

Rahe Huda – Bibile Men Muhammad PUBH Ki Peshgoian



Rahe Huda – Bibile Men Muhammad PUBH Ki Peshgoian

https://youtu.be/ROTGFkl61sE

Rahe Huda – 28th September 2019 Bibile Men Muhammad PUBH Ki Peshgoian – Frankfurt Germany

Topic: Prophecies of Prophet Muhammad PBUH in Bible

اس سے کم نہ بھانپ گیا ہے ہے اس نے بالوں جانور کا دم ہے ہے شام شام 4 بجے ہیں اور یہاں جرمنی میں شام کے چھ بجے ہیں اور عمرہ کے صدر کی خدمت میں حاضر ہیں جیسا کہ آپ جانتے ہیں ہمارا یہ پروگرام راہداری لائیو نشر کیا جاتا ہے براہ راست ہوتا ہے کہ مقصد یہ بھی ہے کہ پروگرام انٹری پروگرام کی اور اپنا جو سوال ہے اسلام کے حوالے سے جماعت احمدیہ اور اس کا عہد کے متعلق تو وہاں پہ میں یہاں پیش کر سکتے ہیں اس سوال کے لیے نہیں کر سکتے ہیں مسجد میں استعمال کر سکتے ہیں تو انشاءاللہ ہماری یہ کوشش کی ہے اور آگے بھی رہے گی کہ آپ کا نام لے کر رہے ہیں اس کا جواب دیں ہے پروگرام اسکرین پر دکھائی جاتی رہی تو ہمارے آج کے اس پروگرام میں ہمارے یہاں ہمارے مہمان ہیں شرقی گو جر مکمل صاحب ہیں اس طرح مکرم صاحب ہیں احمدیہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کو ماننے والے ہیں اور اس کی بنیادی وجہ یہی ہے کہ ہم نے رسول اکرم صلی وسلم کے حکم کے مطابق اللہ تعالی کے فرمان پر اس وقت کے مسئلہ کو یہاں پہ جانا ہے وہاں آپ بھی کیا ہے اور نہ ہی حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے آنے کے جو مقاصد تھے جہاں ایک طرف مخلوق خدا کو خدا سے ملانا تھا کہ جس قدر کرنا تھا خدا تعالی کے وجود کو سچے نشانہ اور اسلام علیکم جی اسلام کے کتنے رکن کی حیثیت سے اپنے شناخت کروانا تھا آیا آیا دین کا کام کرنا تھا وہاں ایک بہت بنیادی مقصد جو اپنے مختصر مختلف جگہوں پر بھی اس کا ذکر کیا ہے اور اپنے عمل سے یہ دیکھا ہے کہ رسول کی صلی اللہ علیہ وسلم کی صداقت کو آپ نے دنیا پر واضح کرنا تھا اور ثابت کرنا تھا کہ خدا تعالی کی طرف سے ایک سچے نبی ہیں اور وہ نبی ہیں جو تمام انبیاء سے سب سے بزرگ ترین اور سب سے بڑا شوق رکھتے ہیں مقصد کو لے کر جماعت احمدیہ آج دنیا بھر میں ہر طرف جہاں کی بھی جماعت قائم ہیں وہاں اسی پیغام کو مل کر چلتے ہیں اور لوگوں پر اسلام کے شہدا کو ظاہر کرتے ہیں ابھی کچھ پروگرام سے کچھ دیر پہلے آپ کے یقین کو دیکھا ہوگا کہ حضرت امیر مومنین جو حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے جانشین ہے اور آپ کے پانچویں خلیفہ ہیں وہ اس وقت ہم بھی ماحول میں تشریف فرما ہیں اور آپ کا وہ کتاب جو آپ کو ہالینڈ میں مقیم وہاں کے لوگوں سے کیا جہاں ہم نے اس ملک میں خاص طور پر ایک مہم کے ذریعے سے رسول اکرم صل وسلم کی ذات ہے اس طرح کے اعتراضات کیے جا رہے ہیں تو آپ نے بہت ہی مؤثر انداز میں ان تمام اعتراضات سے پاک و صاف کر کے ثابت کیا اسلام کی برتری خواب ہی دکھائی تو نظریہ ہمارے اس پروگرام کا بھی نہیں تھی نہ ہی ہم اس پروگرام میں گفتگو کر رہے ہیں پچھلے دو پروگراموں میں ہم اسی مضمون کو مختلف پہلو سے آپ کے سامنے رکھ رہے ہیں ایک بہت بڑا ذریعہ انبیاء کی سزا کو پرکھنے کا اصول دعوت اسلامی یہ بھی فرمایا ہے کہ دیکھا جائے کہ جو نبی ہے اس کے متعلق گزشتہ بیان کے پیش ہویا کیے اس کے متعلق خبر تھی تو ایک چھوٹا سا ہے تو اسے وہاں سے واپس لیتا ہے الاسلام فرماتے ہیں کہ ہر اک نبی کی سچائی تین طریقوں سے پہچانی جاتیہونے کی پیش گوئی کی ہے یا نہیں تیسرے نصرت الہی و تائید عثمانی یعنی دیکھنا چاہیے کہ اس کے شامل حال کوئی تائید عثمانی بھی ہے یا نہیں یہ تین علامتیں سچے مومن اللہ کی شناخت کے لئے قدیم سے مقرر ہے تو اذان جاتا یہ تعلق ہے کہ شرعی کونسل کے موجودہ دور میں جانے کی ضرورت تھی یا نہیں تھی اس کا ذکر کیا ہے قرآن مجید میں ملتی ہے تو اس سے پہلے بھی گفتگو کی ہوئی ہے ہمارے اس مضمون میں اس کے جو علامتوں کے دوسرے پہلو ہے اس لوگوں کو کہتے ہیں انہیں دیکھ رہے ہیں کہ پہلے کوئی پیش گوئی تھی کوئی خبر تھی تو اس لیے ہم نے آپ کے سامنے تورات سے گفتگو میں اس کا ذکر کیا جو اسلام سے پہلے کہ وہاں پے پیش ہوئے ہیں وہ آپ کے سامنے رکھیں اسی طرح سے پھر عہد نامہ جدید انجیل میں جو مشکل پیش کی ہیں وہ اس کے متعلق ہم آپ سے پروگرام کر گفتگو کرتے ہیں تو اسی طرح آج بھی ہمارے اس پروگرام میں ہم سے لے کر چلیں گے کہ پہلے ہم آپ کے سامنے رسول اکرم صلی وسلم کے مطالعے کی پیشن گوئیاں ہیں چند پھر سے اہم اور قدیم و جدید سے یہاں رکھیں گے اور پھر آگے اس کے ساتھ زیادہ تعداد تھی جو غیب سے متعلق اعلانات وخبریں دی تھی جو پھر اللہ نے اپنی نصرت کے ذریعے سے تائید کے ذریعہ سے آپ کو سچ کر دکھایا ان کا ذکر اللہ کے سامنے ہوگا تو سب سے پہلے خاکسار مکرمہ شھدا میں سب سے درخواست کرے گا اور دوسرے کا بھی ذکر آیا تھا میں سے بھی کچھ پیش کریں گے آپ بیان کر چکے ہیں جس پر کوئی کام نہیں کرنا چاہتا ہوں وہ سب کو نبی کی پیشگوئی ہے اور یہ نبی حضرت عیسی علیہ السلام سے کچھ باتیں اچھے سو سال پہلے آئے تھے تھے نبی کی پیشگوئی عہد نامہ عتیق کیانی اور ٹیسٹا منٹ کے اندر باب نمبر 3 میں بیان ہے اس میں وہ بیان فرماتے ہیں کہ خدا تعالیٰ اس سے آیا اور وہ جو قدوس ہے اور ان سے آیا صلاح اس کے شوکت سے آسمان جھک گیا زمین اس کی ہم سے معمور ہوئی اس کی جگمگاہٹ نور کی مانند تھی اس کے ہاتھ سے کرنے نکلی پر وہ بھی اس کی قدرت کا پردہ تھی مری اس کے آگے آگے چلیں اور اس کے قدموں پر ہاتھیوں باردانہ ہوئی کھڑا ہوا اس نے زمین کو لرزا دیا یا اس نے نگاہ کی اور قوموں کو پراگندہ کر دیا اور قدیم پہاڑ ریزہ ریزہ ہو گئے میں نے دیکھا کہ کوشش ان کے گھر خیموں پر بتلاؤ رمضان کے پردے کا مچاتے تھے یہ پیش گوئی ہے جو ہم کو دین کی آیت نمبر 3 سے 7 تک انہوں نے بیان فرمائی ہے اس کے اندر یہ جو بائبل کے بیان ہوئی ہے اس میں نبی نے ایک نبی کے آنے کی پیش گوئی فرمائی ہے جو قرآن کی چوٹیوں سے ہی ظاہر ہونا تھا  تھا اور اللہ تعالی کا ایک ایسا جلوہ جو انتہائی کامل درجے کا جلوہ ہونا تھا اس کا ذکر فرما رہے ہیں اس جلسے سے یہ توقع ظاہر کی کہ وہ فاران میں ظاہر ہونا تھا اور اس کا ہم پہلے بھی ذکر کر چکے ہیں کہ قرآن سے مراد مکہ اور مدینہ کی اس کے ارد گرد کا جمعہ وہ پہاڑیاں پہاڑی علاقہ ہے تو اس نے حضرت محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وسلم ہوئے تھے حضرت عیسی علیہ السلام مراد نہیں ہو سکتے اس لیے کہ وہ جمالی نبی تھے کہ انہوں نے جنگی رہنے کی لیکن جو اس سے ظاہر ہوتا ہے وہ ایک شان و شوکت کے ساتھ آنے والے نبی کا اظہار ہوتا ہے تو وہ حضرت عیسی علیہ الصلاۃ والسلام جس طرح کے انداز میں آئے تھے اس کا ذکر اس میں نہیں ہے تو اس میں ساتھ یہ بھی طوفان سے آنا تھا اس نے دوسرے پیج کو نے بھی ایک دس ہزار قدوسیوں کے ساتھ آیا کہ دس ہزار قدوسیوں کے ساتھ حضرت اقدساور یہ نام صرف یہ نہیں کہ آپ کے والدین نے رکھا تھا بلکہ آپ کو جو کلام اللہ تعالی نے عطا فرمایا اس کلام کے اندر بیان قرآن کریم میں چار دفعہ لفظ محمد ہوا ہے خدا تعالی نے محمد رکھا ہے اور جب خدا تعالیٰ کی ذات کسی ہستی کا نام رکھتی ہے تو وہ ویسے ہی نہیں رکھتی اس کا مطلب ہے آپ کی مدد کی جانی تھی اور زمین آپ کی ہم سے معمور تھی اور آپ کی ذات وہ ذات تھی کہ دشمن بھی اس دور میں جب نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم تشریف لائے ہیں اگر آپ کی مخالفت کرتا تھا برا بھلا کہنا چاہتا تھا تم محمد کیا آپ کو برا بھلا نہیں کیا جاتا تھا کیونکہ وہ علم لوگ جانتے تھے کہ اگر محمد کہ ہم اس سلسلہ کو گالیاں دیں گے تو وہ ایک طرف محمد کہہ رہے ہیں کہ دوسرے دوسری طرح بھلا کہہ رہے ہوں گے تو یہ ان کا اپنا ضمیر کا برا نہیں کرتا تھا یہ بھی اس بات کا ثبوت تھا کہ وہ جس کی زمین جس کی ہم سے معمور ہوئی محمد صلی اللہ وسلم تھے اور دشمن آپ کو پھر محمد کرنی نعوذباللہ من کہہ کر آپ کو برا بھلا کہتے تھے جس پر صحابہ کو غصہ بھی آتا تھا تو کسی مزمل نامی شخص کے بارے میں باتیں کر رہے ہیں میرا نام تو خدا نے محمد رکھا ہے میں تو محمد ہو تو یہ وہ پیشگوئی یعنی ہم زمین اس کی ہم سے معمور ہو یہ صلی اللہ وسلم کے معجزات میں پوری ہو رہی ہے حضرت عیسی علیہ السلام کی ذات میں پوری نہیں ہو رہی اور پھر جو اگر آپ کی طرح ہے کہ میری اس کے آگے آگے چلیں یعنی جہاں وہ جاتا تھا موت اس کے آگے چلتی تھی مراد یہ تھی کہ اس نبی کو جنگ لڑنی پڑیں گے جارحانہ نہیں اپنے دفاع میں یا دوسری وجوہات کی بناء پہ تو جب دوسری قوم حضرت محمد مصطفی صلی اللہ آپ کے ساتھیوں کے خلاف اٹھیں ہیں تو اس کے بعد جس انداز میں رسول پاک صل وسلم نے اور آپ کے ساتھیوں نے سے مقابلہ کیا ہے اور دشمن کو تباہ و برباد کیا ہے تو یہ پیشگوئی پوری ہوئی ہے میری کاشف سے عام طور پر مراد لیا جاتا ہے کہ جو بعد میں لوگ کہتے ہیں لیکن صرف آپ کے ساتھ یہ لفظ وابستہ نہیں ہے بلکہ ہر وہ تباہی اور بربادی جس کا جسم مافی کثرت کے ساتھ ہو اس کے اوپر لفظ ثابت کرتا ہے اور پھر فرمایا کہ وہ کھڑا ہوا اور اس نے زمین کو لرزا دیا اور اس نے نگاہ کی اور قوموں کو پراگندہ کر دیا یہ بھی آپ دیکھیں کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی زندگی میں بڑے واضح طور پر نظریں نظر آتی ہے یہ بات کہ آپ جہاں کھڑے ہوتے تھے وہاں بڑی بڑی قوموں پر سجا کرتی تھیں آپ کے ساتھ ہیں جہاں آپ کے صحابہ جس طرف نگاہ کرتے تھے تو بڑی بڑی طاقتوں پر کپکپی طاری ہو جایا کرتی تھیں اور پھر فرمایا کدیم پہاڑ ریزہ ریزہ ہو گیا پرانی پہاڑ میں اس کے آگے دھنس گئی اب یہ چیز بھی ہیں یا طاقتور سردار یعقوب کے جو سرکردہ لوگ ہوتے ہیں وہ مراد ہوتے ہیں تو یہ پیش گوئی بھی حضرت عیسی علیہ السلام کے بارے میں نہیں بلکہ ہم دیکھتے ہیں کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی ذات میں پوری ہوتی ہے کہ جو قوموں کے بڑے بڑے سردار تھے جو آپ کے مخالفین تھے ابو جہل جیسے بھی وہ بھی آپ کے سامنے ڈھیر ہو گئے اور بڑی بڑی جو حکومتیں تھیں قیصروکسریٰ جاں سے اٹھتا ہے وہ آپ نے تو آپ کے ماننے والے آپ کے صحابہ کے ہاتھوں فتح ہوئی ہیں اور پھر اگلے الفاظ میں آتے ہیں کو شام کے خیموں پر مشتمل بر لب پر بس یہی مصیبت آئی ہوئی تھی اور میں ان کے پردے کام پر جاتے تھے اور شام سے ملاقات سے میں یہ شام کا علاقہ ہے اب اس میں ایک تو یہ بتایا گیا کہ وہ آنے والا شام کے علاقے میں نہیں آئے گا شام سے باہر یعنی مکہ کی طرف آئے گانہیں پوری ہوتی ہوئی ہے میں نظر آتی ہیں اس سے یہ ثابت ہوتا ہے کہ خدا تعالیٰ کی تجلی کا وہ مزہ جو فاران کی چوٹیوں سے ظاہر ہونا تھا حقوق نبی کی اس پیشگوئی کے مطابق وہ دراصل حضرت عیسی علیہ السلام نہیں بلکہ حضرت محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وسلم ہے جو جلالی انداز میں آئے اور زمین آپ کی ہم سے معمور ہوئی اور پریشان اور خیموں پر یعنی انسانوں پر آپ کے آنے کی وجہ سے ایسی بتائیں اور عیسائیوں کو اسلام قبول کرنا پڑا ان کے لحاظ سے مصیبت کی لیکن اصل میں تو وہ مصیبت نہیں بلکہ دین میں داخل ہوئے تھے تو جتنی پیش بینی ایک ایک فقرے کے اندر یہ اس میں جن کا ذکر ہے اللہ کے فضل سے ٹھیک ہے بہت شکریہ آپ نے بہت تفصیل سے بیان کی وضاحت فرمائی ہے تو یہاں سے ہی پتہ چلتا ہے کہ نہ صرف حضرت موسی علیہ السلام علیکم محترم خدا تعالیٰ کو خبر دیتا ہے کہ رسول اکرم صل وسلم کی آمد کے متعلق جو مختلف  قرآن میں وہ بیان بھی کرتے رہے ہیں پھر جب بنی اسرائیل کے آخری نبی علیہ السلام فی توادھم نے بھی مختلف رنگ میں آنے والے رسول اعظم ص کی خبر دی ہے پروگرام میں بھی اس بارے میں بات چیت سے گفتگو کی تھی تو آپ سے درخواست ہے کہ میں مزید کوئی ایسی بات بتائیں جو حضور علیہ السلام نے رسول کے متعلق کی ہو جواب ملا طارق مسعود باللہ من شیطان الرجیم بسم اللہ الرحمن الرحیم نے بیان کیا ہے کہ حضرت محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وسلم کا تذکرہ نہ صرف آپ کے زمانے میں لوگوں پر جلوہ گر ہوا ہے آیا ہوا ہے بلکہ اس میں جہاں تک پہنچایا ہے تورات و انجیل کے خاص طور پر اس کا تذکرہ تورات میں بھی انجیل میں بھی بیان ہوا ہے ابھی کے حوالے سے نام کے حوالے سے نبی کی کتاب سے پیش بھی بیان کی ہے علیہ السلام کی طرف منسوب کتاب انجیل جو ہے جس میں درج ہیں اس میں بھی جگہ اپنے اپنے بعد ایک عظیم الشان بھی کیے برپا ہونے کے موسم کا تذکرہ کیا ہے تفصیلات میں کلام کرنے کے حوالے سے مشہور ہیں انجیل کے باب 21 میں جو ایک ہے اس پیشگوئی کا تذکرہ موجود ہے ابھی سلام کہتے ہیں میں اپنے مخالفین کو اپنے مخاطبین کو مدنظر کے بیان کرتے ہوئے کہ ایک تمثیل سنو ایک مالک ہے جس کو کہتے ہیں ان کو کہتے ہیں تو حالات نہیں ایک مالک ہے اس نے خوبصورت باغ لگایا ہے اور اس میں ہاؤس بنایا ہے برج بنایا ہے اور اس سے مختلف چیزیں بنائی ہو اس کو خوبصورت بنانے کے بعد طالبان کو ٹھیکے داروں کے سپرد کر دیا جائے جب گھر چلا جاتا ہے دیتا ہے جب ہلانے کا موسم آتا ہے تو مالک اپنے نوکروں کو بتاتا ہے کہ جاؤ وہاں سے جو بھاگ ہے اس کا پھل رسول کرو پھل کون سے ملک کو انہوں نے جو نوکریاں نہیں پکڑا کچھ کون ہمارا الاسلام آتے ہیں کہ کچھ انہوں نے قتل کیا کچھ نثار کیا جب ان کے حالات معلوم ہوئے اس نے دوبارہ کچھ اور کربلامچھروں کو سزا بھی دے گا ان سے وہ ٹھہرا جو ہے واپس لے کر کسی اور کو دے دے گا تو ایسا سلام کہتے ہیں کہ یہی بات مقدس کتاب میں لکھی ہوئی ہے کہ جس پتھر کو معماروں نے رد کیا وہی کا پتہ ہوگا اور خداوند کی طرف سے ہوگا اور ہمیں خدا کی بادشاہت تم سے لے لی جائے گی اور ایک اور قوم کو دی جائے گی جو وقت پر پھیلے گی اور باقی حفاظت کریں گے ٹھیک ہے جو پتھر ہے اس کے لحاظ سے میں جو اس در پر جائے گا جس پر مجبور کرنا پڑے گا وہ بھی تباہ و برباد ہو گا جب ہم اس علیہ السلام کی اس پیش گوئی کو کھول کر سمجھنے کی کوشش کرتے ہیں تو ہمیں علم ہوتا ہے کہ صالح علیہ السلام نے جہاں غم سے مراد دنیا ہے اس کو بھلانے کے لیے بلایا جاتا تھا اس سے کیا مراد لئے ہیں اور بیٹے سے اپنے آپ کو سارے ایمان رکھتے ہیں اور جو مالک ہے وہ رسول پاک صلی اللہ علیہ وسلم کرنے میں مشغول تھے اب دیکھتے ہیں کہ قرآن کریم نے بیان کیا ہے کہ سارے انبیاء کے ساتھ دشمنی دشمن جو ہمیشہ منفی ردعمل کا اظہار کرتے ہیں وہیں اس نے کہا تھا کہ کسی کو مارا کسی کو زخمی کیا کسی کی عقل عطا فرماتا ہے کہ یا رسول اللہ کے ساتھ برا سلوک کرتے رہے ہیں انبیاء کے ساتھ کیا سلوک ہوا تو پھر آخری روزہ اسلام کا میں اسرائیل میں آئے ہیں اور اس قوم نے بجائے حدیث علیہ السلام کی عزت دینے کے معنی  آپ کو حاصل کرنے کی کوشش کی تو محبوب خدا ہے حضور صلی اللہ علیہ وسلم مالک جو ہیں وہ خود آئے ہیں مجھے صرف قرآن کریم کی آیات میں اس طرح کا تذکرہ کیا ہے گویا قدرت خداوندی کا جلال جو حضور صلی وسلم کے ہاتھ سے بنایا ہوا ہے اس کا مطلب ہے کہ خدا نے خود مالک قرار دیا ہے دوسری جگہ فرمایا اللہ کے دین میں حضور صلی اللہ علیہ وسلم کا ہاتھ قبر اور آپ کے ہاتھ کو اللہ کا اقرار دیا گیا جو عیسی علیہ السلام میں اپنے بیان کی تھی وہی تو مسئلہ رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف منسوب کی گئی ہے جو اس پتھر پر گرے گا وہ بھی آجائے گا جس پر بندہ مجبوری کو کرنا پڑے گا وہ قومیں تباہ ہوگئی تو ہم دیکھتے ہیں وسلم کے ساتھ نوٹ کر لو آپ پر چڑھائی کر کے وہ خود ان کو نیست و نابود کیا ہے جن کو میں قیام امن کے لیے علیہ وسلم کو پر حملہ کرنے کا حکم ہوا جنہوں نے حکم دیا جائے گئے ہیں وہ بھی تباہ و برباد ہوئے حالات بیان کرنے کے بعد عیسی علیہ السلام کو ڈراتے ہیں کہ اگر آپ لوگ باز نہ آئے تو پھر کیا ہوگا آپ اللہ کی بادشاہت آپ لوگوں سے لی جائے گی اور دوسری قوم کو دے دی جائے گی جس کو مزدوروں نے ٹھیکیداروں نے رد کیا ہے تو حضرت علی کے پروگرام میں انتقال کر چکے ہیں کہ قومی حضرت ابراہیم کے دو بیٹے تھے اسماعیل اور اسحاق اور دونوں میں استثناء کی پیش گوئی کے مطابق حضرت موسی علیہ السلام نے کہا کہ آپ کے بھائیوں میں غدار نکلا تھا آگے بتائی جاتی تھی تو اس حوالے سے مختلف واقعات آپ کے سامنے رکھے یا سوری کی سب سے مقبول ہوئے تھے وہ سونے کے قریب تر سے اس وقت کے دور میں عظیم الشان نبی کی بعثت کی توقع کی جا رہی تھی بلکہ جو یہودی تھے وہ تو اسی وجہ سے مدینہ کے بچے کیوں نہیں پتا کہ اس سے موسوم ہے اور ان کی خواہش تھی کہ ہم تو وہ خود موجود ہیں تو ہمیں سے پھر بھی نبی پیدا ہوئے لیکن جیسا بھی کہا کہ بنو اسحاق کی بجائے نبی بنی اسرائیل میں سے پھر ہوا جس پر انہوں نے قبول کرنے کے لیے مخالفت کی تو آج بھی ہم میں ہارر واقعی آپ کے سامنے رکھنا چاہیں گے جو رسول کے زمانے میں جہاں خدا تعالی نے وہاں موجود بعض احباب کو ایسا بھی تھا جس سے اس نے بھی کو شناخت کر سکتے تو پہچان سکتے تھے تو مکرم افضل صاحب آپ سے درخواست ہے کہ آپ ہمیں بتایں اور ہم انہیں حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے جب نبوت کا اوئے فرمایا تو آپ کے زمانے میں اس وقت دو سب سے طاقتور قوم تھی اور دوسری قیصر اور ان کی آپس میں شدید رقابت تھی مسلمانوں ہے وہ قیصر روم کو زیادہ پسند کرتے تھے اس وجہ سے مسلمان حضرت عیسی علیہ السلام پر ایمان لاتے تھے اور یہ اس کی حکومت تھی اور مشرکین مکہ جو ہے وہ کس طرح کو پسند کرتے تھے اس لیے کہ وہ آتش پتا آتش پرست اور بت پرست تھے حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی بعثت ہوئی ہے تو اس وقت کس طرح فتوحات فتوحات حاصل کر رہا تھا یا ترک کر کے وہ علاقے جو شام مصر اور ایشیائے کوچک یہ تمام کے تمام علاقوں پر قبضہ ہو چکا تھا اور اس کے بعد وہ قسطنطینہ جوان کا دارالحکومت تھا کہ سر کہاں تک اس کی فوج پہنچ چکی تھی اللہ تعالی ان صلی اللہ علیہ وسلم کو الہام کے ذریعے ایک پیشہ ور فرماتا ہے کہ غلبت الروم فی ادنی الارض محمد جب یہاں فارم کرنا ہوگا یقینا اس کا مذاق اڑایا ہوگا اس لئے کہ ایک فوجی فتوحات کی فتوحات حاصل کرتی جا رہی ہیں اور وہ یاد تک کہ قیصر کو تمام علاقے سے محروم کرکے اس کو بالکل اس کے گھر کے دروازے تک پہنچ گئی ہیں اللہ تعالی فرماتا ہے کہ کہیں اس وقت کیا ہوتا ہے جب آئیں گے گے 

——————نو یاد پانچ ہجری میں پیش گوئی کرنا اس کے بعد پانچ سالہ زندہ رہنا اور دشمن کا دوبارہ مدینہ پر حملہ آور نہ ہونا بلکہ مسلمانوں کا دشمن کے پیچھے جانا یہ آپ نے کل بارش ہوئی ہے جو سلم کے لیے بھی ہمارے لیے بھی اور سب مسلمانوں کے لیے بھی خصوصی دعا ہے کبھی دور تو چند واقعات ہے اس کے بارے میں ابھی کچھ گفتگو کریں گے اور یہ بہت دلچسپ گفتگو ہے لیکن ہمارے رویوں کے سوالات بھی یہی تو مسئلہ یہاں پہ ہم کو جو سوال ہے تو اسے رہتے ہیں ان پر انہوں نے پوچھا تھا کہ اس طرح کا جو سفر ہے اور وہاں پر جو ظلم کا واقعہ ہے اس کی کیا وجہ ہے تو پھر آپ بتا دیں اصل میں یہ ایک شخص ہے جو اللہ تعالی نے آپ کو ان کی کشش نہیں وہ بغیر دکھائے اس کو کہتے ہیں کہ اسراء اور معراج ایک ہی اکٹھے ہوئے حضور صلی اللہ علیہ وسلم کو کو جو وہ رسول کرنے والے پوچھ رہے تھے کہ مقدس کے ساتھ اس کا کیا تعلق یہ روشن تھا یہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے کشف کے ذریعے وہ دکھائے تھے اور بیت المقدس کی سیر کروائی تھی اور نہ ہی بات یہ ہے کہ اگر ہم دیکھا جائے قرآن کریم جو ہے یہ اس بات کی وضاحت کرتا ہے کہ یہ ایک نہیں تھے بلکہ اسراء اور معراج دوا لگا صلی اللہ علیہ وسلم اور جیسا کہ ہمارا یہ ایمان ہے کہ یہ اسراء اور معراج وہ جسمانی نہیں تھے کہ یہ روحانی طور پر تھے اللہ تعالی نے آپ کو بشارت تھی ان کی پیشگوئیاں ان دونوں جو اللہ نے ایک عظیم  انکشفت دکھا دے فتوحات اور ادا کی اپنے وقت پر پوری ہوئی مثلا اثرات کا جو واقعہ ہے وہ بنی اسرائیل صورت میں آتا ہے سبحان اللہ یاسر عبد ہی لیلا من المسجد لفظ المسجد الحرام والمسجد الاقصیٰ عقل دی بارکنا حولہ لنریہ من آیاتنا فی سورۃ الاسراء میں ہے یہ واقعہ جب کہ معراج کا واقعہ جو ہے وہ سورۃ النجم میں ہے اور اس میں اللہ تعالی فرماتا زلفاں ہمارا یہ بھی اللہ تعالی نے فرمایا یہ نہیں فرمایا کہ جو حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی آنکھوں نے دیکھا وہ درست فرمایا کہ وہ غلط نہیں تھا جو آپ کے دل میں دیکھا تو دل کی کیفیت تو وہ روحانیت کے ساتھ ہوتی ہے اسی طرح جب ہم دوسری چیز دیتے ہیں قرآن کریم احادیث بھی اس بات کی گواہ ہے کہ یہ ایک واقعہ نہیں ہوتا الگ الگ ہے اور اسی طرح تاریخ بھی یہ بتاتی ہے کہ یہ ایک واقعہ نہیں تھا مصر سورہ نجم جو ہے وہ تقریبا چار پانچ دنوں میں میں بنی اسرائیل جو ہے وہ 10 نبوی کے بعد نازل ہوتی ہے تو اب ایک اس میں میرا ذکر ہے اور کتنے سالوں کے بعد پھر یہ سراج واقع ہے وہ سورۃ بنی اسرائیل میں آتا ہے دوسری بات یہ ہے کہ جہاں اس طرح کا واقعہ ہے وہ اللہ تعالی فرماتا ہے کہ آپ کا بیت الحرام سے مسجد اقصی کی طرف سفر تھا یا مسجد اقصیٰ کا ذکر ہے آسمانوں کا ذکر نہیں ہے جہاں میرا ذکر ہے وہاں پر مسجد کا ذکر نہیں ہے وہاں آسمانوں کا ذکر ہے یہ تمام اگر آپ جو شہادت کو جمع کریں تو یقینا یہ ایک واضح نظر آتا ہے کہ یہ چیز ہے حضور صلی اللہ علیہ وسلم کو اللہ تعالی نے روحانی طور پر کشف کے ذریعے باتیں دکھائے پھر پھر اس طرح کا واقعہ حضرت ام ہانی کے گھر میں اور جو معراج کا واقعہ حضور بیت الحرام میں سوئے ہوئے تھے اور حضرت عائشہ کی ایک لمبی روایت ہے جس میں حضرت عائشہ بیان کرتی ہیں پھر یہ ہے کہ جب اس رات کا واقعہ ہوا تو کفار مکہ نے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم سے مطالبہ کیا کہ وہ کفار جنہوں نے بیت المقدس زیادہ دیکھا ہوا تھا کہ میں آپ کہتے ہیں کہ میں نے اللہ تعالی نے مجھے وہاں کے دکھایا ہے تو آپ بتائیں اس کے بارے میں تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے دل میں تھوڑی سی بے چینی پیدا ہوئی اللہ تعالی نے میرے سامنے لا کر کھڑا کر دیا اور پھر فتویٰ خبروں مانانوالہ بیت المقدس دیکھا تھا تو پھر دوبارہ اللہ تعالی تکشف وحی کے ذریعے کشف کے ذریعے وہ دکھانا اور موقع پر پھر دوبارہ علیہ وسلم کو ملا وہ نظارہ دیکھا کے وہ کفار مکہ کو بتانا یہ اس بات کی دلیل ہے کہ حضور صلی علیہ وسلم نے جس میں وہ چیزیں دیکھی تھی جب کفار مکہ نے مطالبہ کیا کہ اللہ تعالی علیہ وآلہ وسلم کو وہ چیزیں بھی دکھا دیں اس کا مطلب ہے اس کے متعلق بتایا تو دراصل یہ جو آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو اس راہ ہوا ہے اس میں جیسے کہ میں نے بتایا اس میں جان پیش گوئی تھی یہ تھی کہ ایک وقت قریب آنے والا ہے کہ آپ کو چھوڑنا پڑے گا ہجرت کرنی پڑے گی اور ایک نیا مرکز اسلام تعمیر کرنا پڑے گا اور وہ مسجد اقصیٰ سے مراد یہاں سے دور جا کے نیا ایک مرکز اسلام کا تعمیر مسجد نبوی بھی ہو سکتی ہے کہ وہاں پر اسلام کا اثر مرکز بنے گا پھر اس میں جو مختلف اللہ تعالی نے آپ کو وہ چیزیں بتائیں نبیوں کی امامت کرنا اس سے مراد یہ تھی کہ اللہ تعالی نے نہ صرف عربوں کی پر بلکہ اور بھی دوسری قوم پر بھی آپ کو حکومت اور بادشاہ تھا کرے گا اور نہ صرف یہ درس جو ہے اس یہ اسلام قبول کریں گے بلکہ کیا یہود و نصاریٰ تمام جو دوسری قوم ہیں دوسرے مذاہب ہیں وہ بھی اسلام میں داخل ہوں گے اور انشاء اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا پیغام ہے وہ دوسرے لوگوں تک بھی پہنچے گا اور دوسرے انبیاء کیے جو ماننے والے ہیں وہ بھی اسلام میں داخل ہوں گے اور حقیقی طور پر بھی چست کے تمام علاقے جو ہے وہ ماں جو صلی اللہ علیہ وسلم کی امت ہے آپ نے وہاں تک فتوحات آپ کو ملے گی جب ہم اس کی تفسیر میں جاتے ہیں جن میں جاتے ہیں تو حقیقت میں جو اللہ تعالی فرماتا ہے کہ اے لوریاں میں آیات میں بے شمار نشانات ہمیں بے شمار پیش کی ہیں جو بعد میں ایک کرکے پوری ہوتی ہیں اللہ نے وہ تمام آئندہ مستقبل کے نظارے آپ کو دکھائے تھے جو اپنے وقت پر ہمیں یقین ہے اور ہم یہ جس کی شاہد ہے کہ وہ اپنے وقت پر تمام کے تمام ہوتے ہوئے پوری سزا مل افضل صاحب بہت بہت شکریہ پیش گوئیوں پراور پھر جب ایک دلچسپ عجیب یہ ہے کہ جب اس سے کہیں بڑی جمیعت اکٹھی ہے اور تاریخ سے پتہ چلتا ہے دس ہزار روپے 15 24 ہزار تک اتنی بڑی جماعتوں کو بھی اس سے پہلے سے جنگ کی صورت میں کہیں بھی نہیں ہوئی تو وہاں جب صحابہ نے وہ دیکھا تو ان کے الفاظ قرآن مجید میں اس سے محفوظ نہیں کہ از ہم آباد لاہور والوں نے اور پھر سے واپس آتا ہے آپ کو بھی فتوحات پتا نہیں یار آپ نے جو تو چاہے میرے پیچھے پروگرام میں ہم ہیں جن سے متعلق بات کی تھی جس سے اللہ تعالی علیہ وسلم کو پہلے سے خبر دی تھی اور یہ بھی خبر تھی کہ پھر سے واپس مکہ واپس آپ آئیں گے اور وہاں پر وہ سارے حالات تبدیل ہوگئے تو یہ جو واپسی کا سفر ہے رسول کی پن تھا اس نے جاری رکھا ہوا ہے توہم کے آگے فتح مکہ کے متعلق بات چیت کرنا چاہتے ہیں تو غم میں جو شہید ہیں تو اس کے متعلق بات کرنے کی کوشش کرتا ہوں کہ دو لحاظ سے یہ بہت اہمیت کا حامل ہے ایک تو یہ کہ آجکل جو اسلام کے نام پر اعتراض کیا جاتا ہے کہ اسلام تلوار کے ذریعے پھیلا ہے تو صلح حدیبیہ ایک ایسی بنیادی تھی جو آج بھی یہ ثابت کرتی ہے کہ اسلام تلوار کے ذریعے نہیں بلکہ امن کے زمانے میں زیادہ پھیلا ہے اور اسلام اپنی خوبصورت تعلیم کی وجہ سے پھیلا ہے نہ کہ تلوار کی وجہ سے کیونکہ مکہ کے اندر سے مسلمان بہت زیادہ تکلیف میں تھے وہاں سے ہجرت کی اس کے بعد ان کو جنگوں کا سامنا کرنا پڑا دوسری ہجری سے کبھی ہر وقت خطرہ تھا ادھر سے حمل ہو سکتا ہے ادھر سے حمل ہو سکتا ہے تو اس وقت تک پوری طرح تبلیغ کے اوپر توجہ نہیں دے سکے اور جب ان جنگوں کے حالات پڑھتے ہیں تو جتنے مختلف جنگوں میں صلح حدیبیہ تک اگر آپ آئیں تو وہ افراد جو جنگوں میں مسلمانوں کی طرف سے حصہ لیتے تھے جنگجو دنیا نے جو جوان تھے یا جنگوں میں حصہ لینے کے قابل مرد تھے ان کی تعداد یعنی ڈیڑھ ہزار سے تین ہزار جنگ خندق قابل ذکر ہوا ہے اس میں جو جنگ میں حصہ لینے والے مسلمان تھے اور چونکہ اندر لڑی گئی تھی اس لیے اس لحاظ سے ایسے لوگ بھی اس میں شامل تھے جو عام طور پر باہر جاکر جنگ نہیں لڑ سکتے بھی تھے بچے بھی وہ سارے شامل کر کے تین ہزار تعداد پہنچ گئی ہے  ہے اب چھے جنت کے بعد بھی اگر دیکھیں تو 6سال میں جو جنگ کے قابل ہیں مدینہ کے اندر وہ تین ہزار تک ہوتی ہے جب سلو حدیبیہ ہوتی ہے تو اس کے بعد مسلمانوں کو کچھ امن نصیب ہوتا ہے اس کے بعد وہ توجہ کرتے ہیں عملی طور پر تبلیغ کی طرف لیکن اس کے دو سال بعد ہی پتہ ہوتی ہے تو جب فتح مکہ ہوتی ہے تو جنگ جو مسلمان تھے ان کی تعداد دس ہزار ہو جاتی ہے سالوں میں بمشکل تین ہزار تک پہنچی تھی دو سال بعد کو تبلیغ کا موقع ملا ہے تو وہ دس ہزار ہو جاتے ہیں اور اس دفعہ بھی وہ ہیں جو مدینے سے چل کے مکّے تک آ جاتے ہیں تو ایک تو اس سے یہ ثابت ہوتا ہے صلح حدیبیہ کے بعد کہ یہ ایک سنگ میل تھا یہ ثابت کرنے کے لئے کہ اسلام امن کے زمانے میں زیادہ پھیلا ہے بنسبت جنگوں کے جو اس بات کا واضح ثبوت ہے ہے جہاں تک اس کا تعلق اس کا پس منظر میں صلح حدیبیہ کب ہوئی ہے کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے خواب دیکھا کہ ہم کے اپنے صحابہ کے ساتھ عمرہ کر رہا ہوں کھانا کعبہ کا طواف کر رہا ہوں اب یہ خواب تو سچی تھی لیکن حضور صلی علیہ وسلم نے یہ سمجھا کہ شاید اس سے مراد اسی سال ہے کہ اسی سال ہم جائیں گے اور عمرہ کریں گے تو آپ نے اپنے صحابہ کو ساتھ لیا اور عمرہ کرنے کے لئے چل پڑے اپنے ہتھیار ساتھ نہیں لے جو تلوار عام رواج تھا اس وقت کے چلنے کا بھی نام کے اندر تھی اور شام کے اندر تلوار رکھنے کا مطلب یہ ہوتا ہے کہ یہ لڑائی کے لیے نہیں جانے نہ جانے کا ارادہ ہے تو جب علم ہوا تو انہوں نے اس ایک دوسرے کو ملتی رہی ہے صلی اللہ وسلم کو علم ہوا تو حضور راستہ تبدیل کرلیا بلکہ دشوار گزار راستے سے ہوتے ہوئےکہ ہمیں عمرہ کرنے دیا جائے ہم ان کے ساتھ اور طمع کے ساتھ واپس چلے جائیں گے لیکن اس میں کوئی کامیابی نہیں ہو رہی تھی تو بالآخر یہ سوچا گیا کہ کسی ایسے شخص کو بلوایا جائے جو مکہ والوں کے ساتھ اثرورسوخ رکھنے والا ہے اور وہ حضرت عثمان رضی اللہ تعالی عنہ کی نظر پڑی تو حضور صل وسلم نے ان کو بھیجا کیونکہ ابو سفیان کے آپ کا رشتہ دار بھی تھے برادری میں سے تھے اور وہ ان صاحب کے بعد مسلمان ہوئے رضی اللہ تعالی عنہ تو اس وقت حضرت عثمان رضی اللہ تعالی عنہ تشریف لے گئے ہیں تو وہ بھی بات چیت کامیاب نہیں ہوسکی اور اس وقت بھی مکے والے جو تھے وہ اس بات پر راضی تھے کہ کچھ دنوں ہو جائے گا معاہدہ طے پا جائے لیکن وہ اس بات پر ہے کہ مسلمانوں کو اس سال ابھی آنے دیا جائے تو ابھی اس گفت و شنید نے کافی دیر ہوگئی جب دیر ہوگئی تو کچھ شرپسند تھے جنہوں نے حضرت عثمان رضی اللہ تعالی عنہ کو واپس دینے سے روک دیا ہے اور ان کا مقصد یہ تھا کہ ہم ان کو روک لیں گے تو ہمیں بہتر شرائط طے شدہ مل جائے گا جب آنحضور صلی علیہ وسلم کو یہ خبر پہنچی کہ فواد کہ حضرت عثمان کو نعوذباللہ شہید کر دیا گیا ہے تو اس وقت پر آنحضور صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک درخت کے نیچے ببول کا درخت اس کے نیچے تمام صحابہ کو جمع کیا بات کی کہ اگر یہ واقعہ ٹھیک ہے تو پھر ہمیں یہ بات کریں عہد کریں کہ کوئی بھی ان میں سے واپس نہیں جائے گا جب تک حضرت عثمان کا بدلہ نہیں لے تو اس کا ذکر قرآن کریم میں اللہ تعالی نے سورۃ فتح میں فرمائے گا اللہ عن المؤمنین اذ یبایعونک تحت الشجرۃ سے راضی ہو گیا جب وہ درخت کے نیچے تمہاری بات کر رہے تھے  تھے اب جب مکہ والوں کو یہ خبر ملی کہ آنحضور صلی وسلم کے ہاتھ پر انہوں نے یہ عہد کر لیا ہے آپ کے صحابہ نے اس کا مطلب ہے کہ اب جنگ ہوسکتی ہے پھر وہ کچھ برے لوگوں نے حضرت عثمان رضی اللہ تعالی عنہ کو چھوڑ دیا حضرت عثمان واپس آگئے اور پھر مکہ والوں نے سہیل بن عمر کو کچھ اور ان کے ساتھ تو کوئی دو چار بندے اور بجے تک جا کے بات چیت کریں تو جب وہاں حضور صل وسلم کی خدمت میں حاضر ہوا وہاں پھر دوبارہ بات چیت ہوئی بات چیت کے نتیجے میں ایک معاہدہ طے پا گیا اور وہ معاہدہ بظاہر اگر دیکھا جائے تو ایسے شرائط کے پر مبنی تھا جو مسلمانوں کے صریح خلاف جاری تھی اور مکہ والوں کے حق میں جا رہی تھی اور یہ چیز صحابہ کو بھی ناگوار گزر رہی تھی لیکن حضور صلی اللہ وسلم کسی رنگ میں بھی امن کو خراب کرنا نہیں چاہتے تھے کہ جو بھی ہو ہم بہرحال اس کو اللہ تعالی کے سلسلہ میں مقام عطا فرمائے گا کیونکہ نبی تو اللہ اللہ کی ہدایت کے مطابق چلتا ہے اس وقت معاہدہ لکھنے لگے اس وقت آدمی شروع ان حضرت علی رضی اللہ تعالی عنہ رسول پاک نے فرمایا کے تحریر کریں بسم اللہ الرحمن الرحیم سے شروع کیا تو سہیل نے اس کے اوپر بھی اعتراض کیا کہ ہم رحمان اور رحیم کو نہیں مانتے بسم اللہ رکھا جائے کہ جس طرح نیچے لکھا گیا کہ یہ معاہدہ محمد رسول اللہ صلی وسلم اور اس نے اعتراض کیا کہ ہم تو آپ کو نہیں مانتے اللہ کا اس لیے محمد بن عبداللہ لکھا جائے تو حضرت علی رضی اللہ تعالی عنہ کو یہ گوارا نہیں تھا کہ محمد رسول اللہ سلم کے ساتھ رسول اللہ کا لکھا جا پر لٹا دوں آپ نے انکار کیا کہ میں نے نہیں بتانا رسول پاک صل وسلم نے فرمایا کہ اچھا تو ان کا اہتمام تھا تو آپ نے اپنے دست مبارک سے وہ لفظ اس وقت مٹا دیئے اور ان کا کہ جو ایک دوسرے سے کہتے ہیں سے لے کر آئے گا شراب اے مسلمان کے خلاف ہیں ایک تو یہ تھا کہ بیس سال واپس لے جائیں اور اگلے سال ہم آپ کو آنے دیں گے لیکن اس کے اوپر کوئی اصل نہیں لائیں گے تلواریں جو آپ کے ساتھ ہوں دنیا کے اندر ہونگے اور نام کا مطلب میں نے عرض کیا کہ وہ امن کی علامت تھا کہ جنگ کے لیے نہیں آ رہے اور پھر اس نے یہ بھی تھا کہ اگر کوئی شخص کے سے مسلمان ہو کر مدینہ جاتا ہے تو مدینے والے نے مسلمانوں کو واپس کریں گے اور اگر کوئییہاں صرف دو اور قربانیاں کرو لیکن صحابہ اتنے پریشان تھے کہ ان میں ہمت نہیں پڑھتے تھے اتنے کی آپ اسی کیفیت میں اپنے خیمے میں تشریف لائے تو حضرت ام سلمہ رضی اللہ تعالی عنہ آپ کے ساتھ ہیں اس وقت تک ہم مسلمان ہیں آپ کو تسلی دی کہ یہ آپ کے نافرمان نہیں ہیں ویسے سید ضیغم کی وجہ سے اس طرح کر رہے ہیں آپ پریشان نہ ہوں آپ اس طرح کریں انہوں نے مشورہ دیا کہ آپ بتائیں آپ اپنے بال منڈواۓ اور قربانی لے اور اپنی قربانی کے جب آپ شروع کریں گے تو یہ آپ کے ساتھ ضرور کریں گے تو اس کے حضور صلی وسلم باہر تشریف لائے اپنے بال باۓ قربانی کی جب رسول پاک صلی وسلم کو صاب نہیں کرتے ہوئے دیکھا تو پھر وہ سب ٹوٹ پڑے اس بات کے اوپر کے مراکز مولا حضرت محمد مصطفی صل وسلم جو کر رہے ہیں تو اب کرنی ہے کیونکہ دل غمگین سرور تھے اب اس میں فائدہ یہ ہوا کہ اس وقت آپ واپس چلے گئے اور اس کے بعد آپ کو امن کے ساتھ جو تبلیغ کرنے کا موقع ملا ملا دوسری طرف جو معاہدہ طے پایا تھا اس نے یہ بھی تھا کہ جو حنیف جو قبائل ہیں جو مسلمانوں کا خلیفہ بننا چاہیے وہاں ان کا بن سکتا ہے جو مکہ مکرمہ کالج بنا چمک بن سکتا ہے لیکن مکہ والوں نے اس معاہدے کی پابندی نہیں کی جب مختلف حیلوں بہانوں سے وہ معاہدہ توڑ دے رہے ہیں کیونکہ ان کو تو عادت ہے چیٹ کرنے کی تو پھر رسول پاک صلی اللہ وسلم کو یہ موقع ملا کہ آپ پھر بچوں کے انہوں نے معاہدہ توڑ دیا تھا جب معاہدہ توڑ دیا جائے پھر فریق مخالف کو یہ حق حاصل ہوتا ہے کہ وہ صرف اپنی مرضی کی کاروائی کرے اور یہ وہ چیز تھی جو جب آپ سی کا سفر ہو رہا تھا صلح الحدیبیۃ سے اس وقت اللہ تعالی نے وحی کے ذریعے سورہ فتح میں جو آیات نازل فتحنا لک فتحا مبینا کہ یہ اس کی بشارت دی تھی کہ تم بظاہر یہ سمجھ رہے ہیں کہ ناکام لوٹے ناکام نہیں بلکہ ایک بہت بڑی فتح ہے تمہارے لئے رکھ دی ہے  ہے تو وہ دراصل اس فتح کی بنیاد تھی کہ جس نے مکہ فتح ہوا تھا کیونکہ والوں نے چھیڑ خانی کے چیئرمین کے نتیجے میں رسول پاک صل وسلم کو یہ موقع ملا کہ آپ کا ذکر اللہ کے فضل سے مکہ امن کے ساتھ بتاؤ جیساکہ اللہ تعالی نے قرآن کریم میں بتاتا نہیں ٹھیک ہے جزاک اللہ بیان کریں گے تو ہمارے پاس سوالات آرہے ہیں کرم شیخ نبیل نعیم صاحب ہینڈسم کا سوال ہے تو ان کا سوال اس علیہ السلام کے متعلق ہے کہ احادیث میں السلام کی وفات کا ذکر ملتا ہے تو اگر ایسا نہیں ہے تو صرف اس کو کیوں بیان کیا ہے تو اس سے حدیث سے متعلق اہم کتاب ہے جس کو کہا جاتا ہے کہ اس وقت بعد کتاب اللہ کے سب سے صاف ستھری اچھی کتاب صحیح ترین کتاب کے بعد وہ بخاری شریف حدیث علیہ السلام کی وفات کا تذکرہ تو بخاری شریف نے بھی ایک سے زائد جگہ موجود ہے ہے ہے اس کے بارے میں رسول ہوں اللہ کا رسول تمہیں دے اس کو پکڑ لوں جو تشریح دے اسے لے لو اور جس چیز سے منع کردے اس سے رک جاؤ او اللہ کے آخری نبی علیہ السلام کا ایک روز قیامت ہونے والے واقعہ کا تذکرہ کیا ہے کہ حدیث سے سوالات جوابات ہوں گے اللہ علیہ السلام ایک جملہ کہیں گے کہ حکومت والے حیدرآباد وفی مسلم باغ پاکستان کی بارے میں اپنی قوم پر اس وقت تک شاید تھا نگران تھا جب تک موجود رہا جب تو نے مجھے فائدے ہیں تو اس کے بعد از خدا تو ہی ان کا نگران تھا آج اس میں تمہاری شریف میں حضور صلی اللہ علیہ وسلم قیامت کا دن ہوگا تو میں دیکھوں گا کہ میرے کچھ صحابہ کو جو میری حیات میرے ماننے والے تھے ان کو دوزخ کی طرف لے جایا جا رہا ہوگا تو وہ صحابی کے ساتھ ہیں جن کو میں نے تبلیغ کی تبدیلی کے نتیجے میں مسلمان ہوںواقعہ جب ان کو دوزخ کی طرف لے جایا جا رہا ہوں گا تو میں اس نے میرے ساتھ باخلاق اللہ فرمائے گا میرے صحابہ نہیں بلکہ یہ وہ لوگ ہیں جنہوں نے تیرے بعد محبت دین رہے اپنے آقا پر کل حشر اسلام سے پھر گئے مرتد ہو گئے اس لئے ان کو دوزخ میں لے جایا جائے گا فرماتے ہیں بخاری کتاب تقریب میں جائے گی جس طرح انہوں نے کہا تھا جب انہوں نے مرتدین کا سامنا کیا کہ حماد وسیم فلما توفیتنی کنت انت الرقیب والے ہیں یا خدا میں بھی آپ کو اس وقت تک نگران تھا جب تک میں نے موجود رہا تھا تو نے میری تو اس کے بعد میں نگران نہیں تھا اور میں تیرے حضور حاضر ہوا اس کے بعد انہوں نے اس کا مجھے علم نہیں ہے گویا وفات مسیح کے لئے حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے وہ الفاظ استعمال ہوئے ہیں جو صرف اپنی ذات کے لیے استعمال کی ہیں اگر آج وسلم نے موجودہ زندہ باد پا چکے ہیں مسلم حدیث کے متعلق وفات پا چکے ہیں کہ امام بخاری مولانا مختلف کتابوں کے نام رکھے کوئی کتاب البخاری کتاب تفسیر قاسمی تفسیر کا بیان ہوگا کتابوں میں زکوۃ کی تفصیلات ہوگی کتاب الحج میچ کی تفصیلات ہوگی جو کتابوں کے نام ہے ان میں متعلقہ مضامین کی تفصیل بیان ہوئی ہے تو میں نے بیان کی ہے کتاب تفسیر میں اس وقت سورۃ آل عمران کے تحت سورج سورہ المائدہ کے تحت آل عمران میں متوقع الفاظ آتے ہیں حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہ کے بھی تھے ان کے بیٹے بھی تھے جن کے لیے حضور نے دعا بھی کی تھی کہ اللہ ان کو علم میں دین میں انفرادیت فرما ان کا ایک قول نقل ہے وہ دراصل بات یہ کہ اس قول کے علاوہ کسی اور صحابی کا کسی کتاب میں حدیث کی ہو تفسیر کی وہ تاریخ کیوں متوفی کو نقل کیا گیا ابن عباس کا قول متوفیکا میں تو ڈان لوڈ کرنا ذمہ داری کا کسی اور کا نقل نہ کرنا اس کے مخالف کال اور کسی اور کتاب میں بھی نکل نہ ہونا اس بات کی دلیل ہے کہ نہ صرف حضور صل بلکہ صحابہ کے سپاہی تھا کہ دینے والا ہو مطلب لڑنا تلف کرنے والا ہے اسی طرح علیہ السلام کا تذکرہ بخاری میں باقی دنوں میں بھی تذکرہ ملتا ہے ملتا ہے ہم آگے چلتے ہیں تو میں دیکھ رہا ہوں کہ اس وقت تمہارے ساتھ ایک دوست کال پر بھی ہیں تو ان کا حصہ لے لیتے ہیں تو اس کے بعد پھر سے مفاہمت اور بات کرنی ہے جی اسلام کے علاوہ دیگر مذاہب میں کیا اس تصور پایا جاتا ہے بالخصوص ہندو مذہب میں اگر آپ اجازت دیں تو ایک اور چھوٹا سا سوال ہے وہ پوچھ لیتے ہیں کیونکہ ہمارا پروگرام تھوڑا سا رہ گیا ساتھ ہی اس وقت جزاکم اللہ صاحب بہت شکریہ تو سے متعلق ہو جانا چاہیے تو انشاءاللہ آپ سے آپ بتا دیجئے گا تو ہم یہاں گفتگو کر رہے تھے رسول اللہ صل وسلم کی زندگی کے متعلق اور خدا تعالیٰ کی طرف سے کی تائید عطا فرماتا رہا ہے گویا اسے پتا لگایا ہے اور خاص طور پر ختم کیا ہے جو جس کے متعلق مکہ میں یہ خدا تعالی آپ کونہیں آج اور صلی اللہ علیہ وسلم کی زندگی کا ایک اہم واقعہ بطور پیش کرتا ہے علامات اب یہ کی آیت ہے عظیم الشان پیش ہوئی تھی اور جب یہ آیت اتری ہے تو آنسو صلی اللہ علیہ وسلم کو بھی اس بارے میں اس طریقہ سے علم نہیں تھا کیونکہ اس کے بارے میں پیشگوئی کی تھی کہ ایک دن ایسا آئے گا کہ تو واپس آئے گا ما شاد کا مطلب بار بار لوٹنے کی جگہ جیسے اللہ تعالی نے مسابقت الفاظ استعمال کیا ہے مکہ کے لئے تو اسی طرح کھانا کعبہ کے لئے تو اسی طرح اور صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ تم واپس اب لوٹتا تو وہی ہے جو پہلے اسے گیا ہوں اس میں یہ پیش گوئی تھی کہ ایک ایسا وقت آئے گا کہ آپ کو چھوڑنا پڑے گا لیکن اللہ تعالی آپ کو ایک عظیم الشان فتح کے نزدیک 717 بند کی حیثیت سے آپ اور وہ معاہدہ ممکن کی مثلا جیسا کہ بعض وہاں سے مکہ سے لوگ مسلمان ہو کر انسانوں کی خدمت میں حاضر ہوئے اور آج السلام نے اس معاہدے کے تحت ان کو واپس کردیا تھا کہ اس میں نے ان سے وعدہ کیا اس وعدے پر قائم رہو اور سلیم کی طرف سے اس معاملے کی مکمل طور پر ڈالی ہوئی ہے لیکن حسن کی ہے جیسا کہ مشاہدہ نے ذکر کیا تھا کہ دو قبائل تھے ایک بنو بکر اور 19 خزہ خزہ ایک جو بنو بکر تھے یہ والوں کے خلاف بن گئے اور دوسرے قبیلہ تھا وہ آج دور صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ مل گیا ابو بکر نے موقع سے فائدہ اٹھا کے ساتھ بات کر کے حوالوں کے ساتھ ان پر حملہ کر دیا یہاں تک کہ انہوں نے خانہ کعبہ میں پناہ لی اس کے باوجود ان کے ایک لوگوں نے قتل کر دیے اور بے دردی سے قتل کیا ہے وہ اسے باقاعدہ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوئے لیکن میں نے ان سے پہلے حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے متعلق خبر دے دی تھی آپ نے یہ بتا دیا تھا جب وہ اپنی فریاد لے کر آنا اور صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس پہنچے تو انہوں نے فرمایا تمہارا کام میرا کام اور یقینا اس کا بدلہ لیا جائے گا والوں کو بھی اس بات کا علم ہو گیا یا تو ابوسفیان جو ہے وہ زبان کو علم ہوا کہ یہ ایسا نہ ہو کہ مسلمان جو ہیں وہ کتھے ہو جائے کیونکہ معدے کی خلاف ورزی ہے انہوں نے بڑی کوشش کی مدینہ پہنچے حضور صلی اللہ علیہ وسلم سے ملے علیہ وسلم کی کسی بات کا جواب نہیں دیا حضرت ابوبکر سے ملے اور حضرت عمر سے ملے حضرت علی سے ملے دوبارہ معاہدہ کرنے کی کوشش کی لیکن اس نے کہا کہ آپ ہی نہیں تھے کرنے والے تو وہ تھے جنہوں نے وعدہ توڑا ہے تو ان کو ترس جاو گی لیکن حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے کسی قسم کا ذکر فرمایا کرتے تھے اور صلی اللہ وسلم نے ان کو جنگ کی تیاری کا حکم دے دیا لیکن یہ نہیں بتایا کہ یہ جو ہے کس طرف جانا ہے اور آنحضور صلی اللہ علیہ وسلم کو خفیہ رکھنا مقصد یہ تھا کہ کفار مکہ جو ہے وہ تیاری نہ کرسکے اور تیاری نہ کرنے کی صورت میں جو بات کی حالات بتاتے ہیں کہ بغیر جنگ کے اور بغیر قتل و غارت کے اور بغیر خون  کہا کہ پختہ ہو جائے چنانچے جب تیاری مکمل ہوگئی تو اذان سلسلہ میں پوچھ کا حکم فرمایا تو رستے میں جو ملتے گئے تو جب یہ فاران کے جنگل میں اسلامی لشکر اکٹھا ہوا تو اس وقت تاریخ بتاتی ہے کہ وہ دس ہزار کی تعداد تھی تو وہ پیشگوئی جو بائبل کی پیش گوئی تھی وہ کس شان کے ساتھ اللہ تعالی نے پوری فرمائے اور ان کی چوٹیوں سے وہ لوگ رمضان کو دوسروں کے ساتھ لوہارو اللہ تعالی نے اس پیج کو کس شان کے ساتھ پورا کیا تو امام علیہ السلام نے فرمایا کہ ہر جو قبیلہ ہر شخص جو اپنے خیمے کے سامنے وہ آپ بلائیں تو ابو سفیان کے چند اور لوگوں کے ساتھ جب اس نے دیکھا کہ یہ تو لمبے علاقے میں پھیلی ہوئی ہے تو حالات معلوم کرنے کے لیے وہ باہر نکلا تو کسی نے کہا کہ یہ اسی قبیلے کا جس کے لوگ قتل کیے گئے ابو سفیان کا یہ ممکن ہی نہیں کر رہے تھے مسلمان بھی وہاں پےکی نماز اور وضو کرتے ہوئے حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ محبت کو دیکھا تو کہنے لگے کہ میں نے کس طرح کے بادشاہ بھی دیکھے ہیں اور قیصر کی بادشاہت بھی دیکھے ہیں ان کے درباری بھی دیکھتے دیکھتے ہیں لیکن اس قدر محبت جو محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے ماننے والوں میں ہے اپنے رسول کے ساتھ یہ محبت میں نے کبھی نہیں دیکھی اسلام نے قبول کرلیا اور حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ جو ابو سفیان کے گھر میں داخل ہوا اس کو بھی امان دی جائے گی جو بلال کے جھنڈے کے نیچے آ جائے گا اس کو بھی امان دی جائے گی تو حضور صلی اللہ علیہ وسلم کا ہر ممکن کوشش تھا تھی تھے جو ہے وہ جان کے لیے نہ آئے بلکہ امن کے ساتھ وہ سرزمین جو اللہ تعالی نے جہاں سے آپ کو کچھ کرنے کا حکم دیا تو وہ ہو جائے جو ہے وہ اصل میں کس جگہ پر کھڑا کردیا مسلمانوں کا لشکر گزرے گی تو ایک قبیلہ گزرتا گیا اور وہ دیکھتے گیا اور اس قدر وہ کون سی جگہ تھی تو شرم کرو بیلہ ذرائع تو ابوسفیان بڑے ہیں رات حیرت سے پوچھا یہ کون ہے تو نے کا اصول ہے کہ اللہ تعالی کے کیا رنگ ہے یہ وہ قبیلہ جو عرب کی سرزمین عرب میں سب سے زیادہ مشہور تھے اور آج کل کے جھنڈے کے نیچے والوں کے ساتھ لڑائی کرنے کے لیے جا رہے ہیں اسلامی لشکر جو ہے وہ مکہ میں داخل ہوا اور جیسے تاریخ بتاتی ہے سوائے ایک طرف جو حضرت خالد بن ولید تھے اور اس طرف عکرمہ بن ابی جہل نے پہل کی تھی اس نے مزاحمت کی اس نے تیروں کی برسات کردی اس وجہ سے حضرت خالد بن ولید کو مجبورا پر لڑائی کرنا پڑی اور اس کے نتیجے میں چند ایک لوگ جائے مسلمان بھی بسی ہوئی اور چند ایک فارم کی طرف سے قتل ہوئے اس کے علاوہ امن کے ساتھ مقابلہ ہوا اور کسی قسم کا کوئی خون نہیں بہا اور اللہ تعالی نے اس طرح جیسے آزار صلی اللہ علیہ وسلم کی خواہش تھی کہ وہ آپ سے جنگ و جدال نہ ہوں نہ میں نے بڑے بڑے فاتحانہ انداز سے آپ کو داخل فرمایا اور اس طرح سے مکہ فتح ہوا اور رسول صلی وسلم کی ایک خواب کی تعبیر کے بارے میں آپ کو جنت میں دیکھا جب عکرمہ بن ابی جہل اسلام قبول کیا اللہ تعالی نے آپ کے ساتھ بہت ساری ایسی چیزیں ہے لیکن وہ اس وقت نہیں ہے ان تمام چیزوں کو بیان کرنا جی بالکل سے باتیں بیان کی ہیں ہمارے پاس عبدالہادی صاحب ہیں وہ کیسے ان کا بھی سوال آیا تھا کہ فتح مکہ میں قتل کیے گئے تھے اس وجہ سے اس کی وضاحت کردیں کہ ایک طرف سے عکرمہ بن ابی جہل نے تیر برسائے تھے تین سوال کیا تھا خالد بن ولید رضی اللہ عنہ تو اس سے ان کا بھی سوال نمبر لیا ہے تو ہم آگے چلتے ہیں ابھی بھی اس سے نہ صرف عشق سے آیا تھا اس کے متعلق ہمارے پاس اساں کہتے ہیں کسی چیز کو مٹا دینا عموما یہ ہندوؤں کے اندر عقیدہ پایا جاتا ہے کہ اس کا مطلب ہے کہ نیکی یا بدی آ سکتی ہیں ان کے نتیجے میں بار بار انسانی جگر میں آنے میں ایک چیز سے ختم ہوگی دوسری چیز میں ابھر جانا اس سے ختم ہو گئی پہلی میں آ جانا وغیرہ وغیرہ یہ ہے کہ روح اللہ تعالی نے پیدا نہیں کی اللہ تعالی صرف یہ کرتا ہے کہ جب کوئی انسان ہو یا جس جون میں بھی کوئی جانور یا انسان یا کوئی بھی پیدا ہوتا ہے اگر وہ نیکیاں کرتا ہے اچھے کام کرتا ہے اپنی زندگی میں تو مرنے کے بعد پھر وہ دوبارہ واپس لوٹ آتا ہے لیکن اللہ تعالی یہ کرتا ہے کہ اگر اس نے اچھے کام کئے ہیں تو اس کو بہتر زندگی بہتر جانور کی زندگی دے دیتا بہت اچھے کیا تو اس کو انسان پیدا کر دے گاپہلے شخص کو ختم نہیں کر رہا جو پہلا نبی گزر چکا ہے یا جس کی خوشبو آیا ہے اس کی زندگی ختم نہیں ہوگی اس کی اپنی زندگی کے عملی استعمال کے نتیجے میں وہ جنت میں یہ اللہ تعالی نے اس کو جو درجات عطا فرمائے کا رزلٹ دیکھ رہا ہے ان کی جزا پا رہا ہے لیکن اس کی خوشبو آنے کا مطلب یہ ہے کہ وہ یہ نہیں کہ وہ دوبارہ آ گیا کسی اور کی شکل میں نہیں بلکہ مطلب یہ ہے کہ اس کے رنگ میں رنگیں نوا ہے وہ اپنی جگہ میں آپ دیکھیں قرآن کریم میں اللہ تعالی نے فرمایا انا ارسلنا الیکم رسولا شاہدا علیکم ایسا ہی ہے جیسا کہ حضرت موسی علیہ السلام کے مشابہ قرار دیا تو مشابہ قرار دینے کا یہ ہرگز مطلب نہیں کیا موسی علیہ السلام کی زندگی ختم ہوگی اور آپ کے جو رسول پاک صل وسلم کی شکل میں آئے یا حضرت علی علیہ کے رنگ میں جو آنا تھا جو حضرت عالیہ نے تو وہ نہ تو آپ کی جو چینج کرکے اپنا شوق رنگ میں یہ مطلب نہیں ہے کسی نبی کے کاموں کو پورا کرنے کے لئے اس کی رنگت اور بو پر اس کے رنگ میں رنگین ہو کر آنا یہ بالکل مختلف چیز ہے اور تناسخ مختلف چیز ہے لیکن اس سے پہلے زندگی کو مکمل ختم کر دیتا ہے ان کے عقیدے کے مطابق جب کہ اسلام کا حصہ قید سے کوئی تعلق نہیں کہ تم بہت بہت شکریہ بہت بڑا سبق دے گیا ہے اور صاحبہ کا یو ایس ایم ایس سی میس جاتا ہے بابے کے حوالے جاننا چاہتی ہیں جو پیش نظر انداز کر رہے ہیں تو آپ سے عرض ہے کے جو مرضی ہے www.upr.edu.pk ہم کتاب ہے جماعت کے دوسرے خلیفہ مرزا بشیرالدین محمود احمد محمد بائبل اور اردو میں بھی ہے اس کے پیچھے ہو یا بائبل میں تو وہ ساری پریشانیاں بلکہ اس سے کئی زیادہ پیش ہوئے جہاں میں آئے رسول اللہ رہے ہیں اور اس کی وضاحت کی ہے اور جو بالکل صلی وسلم پر ہو سکتی ہیں اور کسی اور پر نہیں تو آپ سے پھر یہی ہیں کہ مر جائیں گے چلتے ہیں اور کیوں کہا جاتا ہے اگر آپ ایک دو جملوں میں یہ جواب دے دیں تاکہ ہماری ہر نہیں ہے مخالفین نام الٹی رکھا کرتے ہیں اس کا کیا کرتے ہیں تو پہلے میں نے سوچا حسین کے پیش کی دعائیں پڑھ کر سنا دیتا ہوں کہ اس قسم کے ہوتے ہیں ان کے لئے اس میں کافی پیغام ہے ہے کہ یا حسرۃ علی العباد ایسا نہیں گزرا جس کے مخالفین کو نشانہ بنایا ہو تو اگر کوئی استہزاء کے رنگ میں کہتا ہے تو برا لگتا ہے وہ اپنا شمار کمی کرتا ہے بہت ڈر لگتا ہے بلکہ عین مطابق بھی پوری ہوتی ہے مشابہت کا ذکر ہے حضرت یوسف علیہ السلام کو نصرانی کہتے تھے نہ وہاں پر جو آپ کیا مراد لیتے ہیں  ظاہر کے مطابق دیکھا جائے وہاں غلطی ہوتی ہے تو یہی سرمایہ کار ملک ایک جھگڑالو کام ہے یہ جن کے والدین کے نام کہ وہ شام میں یعنی کے گلے میں الگ تو بہت زیادہ بحث کرنے والا بہت زیادہ چپ گراں پیدا کرنے والا ہے تو جب یہ فرمایا کہ قوم لوط پر وہ نہ مقامات پر دجال کو قتل کرے گا اور دوسری جگہ فرمایا لیا لے کا م نہ اللہ کا نبی حسن تو اس کا مطلب دونوں آیتوں کو ملاتا ہے یہ بنا کہ وہ بحث کے مقام پر بحث مباحثہ کرکے کیونکہ جنگ تو ختم کر دے گا باقی رہ گئے بحث اور مباحثہ اور وہ دلیل کے ساتھ مارے گا کیونکہ قرآن میں فرماتا ہے کہ مارنا وہ ہے جو دلیل کے ساتھ ہمارا دل اللہ کا منہ اللہ کا نبی تو یہی مراد ہے کہ یہ جو دجال کو قتل کیا جائے گا میں تو پر بحث اور مباحثے کے دوران میدان سجنے لگے اور دلیل کے ساتھ ان کو ہلاک کیا جائے گا جیسا کہ دلیل کے ساتھ رسول پاک صل وسلم نے فرمایا جیسا کہ دلیل کے ساتھ حق آیا اور باطل بھاگ گیا ایسا ہی دلیل کے ساتھ کو بھی ابلیس رجال کی حقیقت ہر کسی کو بتا دیا تھا کہ مختصر آپ ایک منٹ میں تو بیان نہیں ہو سکتی اب یہ کہ یہ ساری کیا کہتے ہیں اس طیارے کے رنگ میں ہیں ان کو حقیقت میں ہم نہیں لے سکتے یہ اس سے مراد وہ کون ہے یعنی ایسا ہی قوم ہے جو خدا تعالی کو جشن مناتی ہے حضرت عیسیٰ علیہ السلام کو خدائی کا مقام دیتی ہے نشانی یہ بھی کہ دوست نے فرمایا کہ جو دجال کو پائے وہ سورہ کہف کی ابتدائی دس آیات بڑے ہوتے ہیں تو ان میں سے ایک دفعہ کا ذکر ہے اس کا ذکر ہے خدا کا بیٹا بناتے ہیں تو پھر انہیں کے ساتھ بحث کر رہے ہو گئی انہوں نے کے ساتھ مباحثے ہوں گے اور ان کے ساتھ ہوتے ہیں ان کو دلیل کے ساتھ ہلاک کرے گا نہ کہتی تھی گھر گھر جاکر شاہ صاحب بہت شکریہ آپ یہاں تو بہت مشکل ہوتا ہے چند منٹوں میں ایک کتنے بجے سوال کو اور زیادہ وقت کا متقاضی ہے اس کو ادا کرنا بہت شکریہ تو اس سے آپ سب کا اس کا خرچہ بہت شکریہ ادا کرتا ہے جو ناظرین آپ کا بہت شکریہ پروگرام میں شامل کریں گے تو اس کے ساتھ ہم آپ سے زیادہ چاہتے ہیں ان شاء اللہ اگلے ہفتے پھر اسی وقت کے مطابق انسانوں کی خدمت حاضر ہوں گے تب تک یہ سلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ ہم تو رکھتے ہیں مسلمانوں کا دیں ہم تو رکھتے ہیں مسلمانوں کا دیں

Leave a Reply