Ahmadi Muslim VideoTube Programms,Rahe Huda,Youtube Rah-e-Huda – 1974 Pakistan Constitution 2nd Amendment

Rah-e-Huda – 1974 Pakistan Constitution 2nd Amendment



Rah-e-Huda – 1974 Pakistan Constitution 2nd Amendment

راہ ھدیٰ ۔ ۱۹۷۴ پاکستان قومی اسمبلی کی کاروائی اور دوسری ترمیم

Rah-e-Huda | 12th September 2020

ہمیشہ سے سے ہے اس نے بابا جاناعوذ باللہ من الشیطان الرجیم بسم اللہ الرحمن الرحیم اکرام اسلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ ورحمتہ کے ساتھ ہمیں جمیل صاحب کی خدمت میں حاضر ہیں یار یہ سیریز کا تیسرا میچ جو ہمیشہ کی طرح لائے اور انٹرایکٹو ہیں اسلئے نینا پروگرام کے دوران رابطہ کر سکتے ہیں اپنا سوال پیش کر سکتے ہیں جیسے پچھلے پروگرام بھی آپ کا ہے آپ فون کر سکتے ہیں یا پھر میسج کیسے بھی اس سے خاص کر گیا کہ یہ ہمارے موضوع سے ریلیٹڈ آپ پیش کریں گے شامل کریں اور اس پروگرام میں ہم گفتگو کرنا چاہیں گے انیس سو چوہتر میں جو پاکستان کی قومی اسمبلی میں اقلیتوں کے خلاف جو سازش میں کے تحت کارروائی کی گئی تھی اور ایک قانونی ترمیم پاس کی گئی جس سے متعلق ہم آپ کے سامنے پوچھا کہ کیا لکھنا چاہیں گے کہ اس پروگرام میں شریک گفتگو ہوں گے آپ کے سوالات کے جواب دیں گے یہ اصول مقرر محترم صاحب اور اسی طرح ویڈیو لیگ کے جلسے میں حصہ شامل ہوں گے وہ کرم محترم شمشاد احمد صاحب اسلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ پہلے پاکستان میں یہ سازش کی گئی تھی جس کے نتائج نہ صرف جماعت احمدیہ کو کے لیے انہوں نے باہر تھے بلکہ ان نتائج سے اچھا ملک ہم دیکھ رہے ہیں کہ کس طرح سے دوچار ہے اس وقت امام نے ونڈی کیا تھا کہ وہ ہمارے خلاف کرنے جا رہے ہو یہ صرف ایک بجے تک محدود نہیں رہے گا بلکہ سارے ملک کو بلکہ بیرون ملک بھی یہ اپنے اثرات دکھا سکتا ہے اور ضرور دکھائے گا احمدیوں پر پابندی لگائی گئی تھی ان کے بنیادی انسانی حقوق سے چھین لیے گئے تھے اور اس معاملے میں دخل دیا گیا تھا جو صرف انسان اور اس کے خدا کے لیے اہم قرار دیا گیا ہمارے پیارے امام حضرت علی خان میرے ساتھ ہوتا یا رب العالمین جیز میں نے ابھی حال ہی میں اپنے خطبہ میں پھر سے اس بارے میں فرمایا کہ میں ان کی طرف سے کسی سند کی ضرورت نہیں ہے کہ آپ میں کیا کہتے ہو کہ نہیں کہتے ہیں ہے بلکہ ہم نام نہاد ٹھیکیداروں سے یہ کہنا چاہتے ہیں کہ یہ جو آپنے کیا حاصل بزنجو کے خلاف اپنے کی برکتیں آپ نے پاکستان کے خلاف یہ ظلم کیا ہے تو آج ستمبر ہے جی ایم ٹی وی کے مطابق شام سات بجے ہیں جب کبھی بھی سال میں ستمبر کا یہ ملک ہی نہیں آتا ہے جس میں نے یہ کارروائی کی گئی تھی تو ہم دیکھتے ہیں کہ کس طرح سے بہتر یہ مخالفت کرتے اپنے روم میں عظیم الشان کا نام پر خوشیاں مناتے ہیں اور بہت سے پروگرام بھی کیے جاتے ہیں جس سے بھی نکالے جاتے ہیں تو ان سب چیزوں کو دیکھ کر انسان حیران پریشان ہو جاتا ہے کہ کس طرح سے آپ ثابت شدہ حقائق کو چھپاتے ہوئے ایسا کھلے عام شام ڈھلتے ہوں کہ آپ کو شرم نہیں آتی کہ اس نبی اور رسول کی طرف اپنے آپ کو منسوب کر رہے ہو وہ صادق اور امین تھا اور صداقت کا سب سے بڑا علمبردار تھا اہمیت کی شکست سمجھتے ہیں ہمارا ایمان مضبوط ہوتا ہے ہمارے سامنے وہ تاریخ دہرائی جاتی ہے وہ باتیں سامنے آتی ہے جب وہ ہم قرآن مجید میں پڑھتے ہیں گذشتہ انبیاء کے متعلق اور ان کے ماننے والوں کے متعلق کس طرح سے ان کے خلاف کارروائیوں سازشیں کی جائے بلکہ واقعات جہاں وقت کی حکومتیں اور بادشاہ بھی نبیوں کے خلافت کے خلاف کھڑے ہوں گے سب سے پہلے تاریخی لحاظ سے واپس جائے تو اسے ابراہیم علیہ السلام کا واقعہ سامنے آتا ہے اس وقت نمرود بادشاہ صاحب کے ساتھ جو آپ کی بہن سوئی ہو ساری میں تیرے ساتھ کے ساتھ مذکور ہیں کس طرح سے وہ بادشاہ حسین علیہ السلام کے آگے لاجواب ہوا شرمندہ ہوا لیکن اس کے نتیجے میں کیا ہواآپ کے خلاف کھڑا ہو گیا اور نتیجتا وہ اور اس کے ساتھی ہیں جو لشکر تھا وہ ڈوب گیا ہے چلیں اللہ علیہ السلام کا زمانہ ہمارے سامنے آتا ہے اس وقت اس وقت کے یہود علماء اس وقت حاکم کے سامنے علیہ السلام کو لے کر جاتے ہیں وہ حاکم خود حضرت عیسی علیہ السلام کی سچائی پر یقین رکھتا ہے لیکن مجبور ہے یا تک کے وہ مجبور ہو کر کہتا ہے کہ میں اپنے پانی میں واقع ہے اپنے ہاتھ دھوتا ہے اور کہتا ہے کہ اس بندے کے خون کا قصور نہیں ہے یہ نتیجہ کیا ہوتا ہے آخر میں وہ نبی اور رسول ایک عرصے کے بعد مخالفت کے نتیجے میں کامیاب ہوتا ہے آج عیسائیت ہے یہودیوں کے مقام پر جو غزل پڑھی ہے وہ تاریخ ہے جو انبیاء کے ساتھ ہمیشہ سے ہوتی آرہی ہے ہمارے ساتھ بھی یہی تاریخ دہرائی کی جمع واطیع کے تیسرے خلیفہ حضرت مرزا ناصر احمد صاحب رحمۃ اللہ علیہ کو پاکستان میں حکومت نے قومی اسمبلی میں بل آیا آپ کو پورا موقع ملا یہ بات درست ہے اپنا موقف پیش کرنے کا آپ نے کیا بھی اور اس موقف کا جو اثر تھا وہ بھی ہمارے سامنے ہے لیکن نتیجہ کیا نکلا وہ پہلے سے طے کیا تھا لیکن خدا تعالیٰ کا سیلف رکس کے ساتھ ہی یہ بھی دیکھنا چاہیے اور کریں لیکن خدا تعالیٰ کا ہاتھ کے ساتھ ہیں وہی ہے جو خدا تعالیٰ کے اس دعوے کا مستحق ہو اللہ اکبر بنانا آج بھی ہم اسی کارروائی کے متعلق بات کریں گے اور خاکستر سے پہلے مکرم شادی میں سب سے اس کے پیچھے تھے جو معاملات ہیں اس کے بارے میں پہلے بتائیں مخالفین عام طور پر یہ بات ہی نہیں اٹھاتے ہیں کہ یہ واقعہ کارروائی کو ایک مچھلی بحث کو قومی اسمبلی میں جانے کی وجہ سے پیدا ہوئی کہ اس وقت رب اسٹیشن میں غیر اہم بھی کچھ لمبا سفر کے لیے گئے تھے جاتے وقت بھی کوشش پنجوں کے ساتھ انٹرایکٹ ہوئی باہر واپسی پر راج گل تک نہیں بتایا گیا تھا کہ ستم کے خلاف کیا گیا اور کو مارا پیٹا گیا اور طرح طرح کی باتیں کہ بارہ یہ بات کرے گا چاہے گا کہ بس آپ ہمیں بتائیں کہ یہ ان باتوں کا کیا تعلق تھا اس میں اس کے ساتھ اس کی حقیقت کیا ہے اللہ الرحمن الرحیم سے ہوتی رہی ہیں اور اس قسم کی ہیں جب بھی کی گئی ہیں تو پہلے سے کیا ہوتا ہے اور یہی فیصلہ اور میڈیا کیا ہے اس کو کرنے کا کوئی نہ کوئی بہانہ تلاش کیا جاتا ہے اور اس بہانے کے طور پر خودی کہ یہ کیسی آگ لگا کے اس کو بھڑکا دیا جاتا ہے عوام کو مشتعل کیا جاتا ہے اور پھر اس کے نتیجے میں جو ہے وہ اپنا فیصلہ نافذ کردیا جاتے ہیں جو پہلے سے وہ کر چکے ہوتے ہیں آپ کے گھر کے اندر بھی یہی ہوا کہ فیصلہ اور ریڈی پہلے ہو چکا تھا لیکن جو اسمبلی کے اندر کارروائی کی گئی ہے وہ ایک دکھاوے کی ایک جعلی کاروائی تھی اس کو عوام کو اس سے باخبر نہیں رکھا گیا اور بعد میں پھر غیر مسلم قرار دینے کے شوقینکہ انہوں نے انتہائی گندی حرکتیں شروع کیا گالیاں دینی شروع کر دی اور جو کچھ وہ کر سکتے تھے کیا لیکن ہمارا عام طور پر جو ایک سو سال سے بھی ایکشن ساری دنیا جانتی ہے کہ ہم سب یہ کہتے ہیں ہم نے کوئی وہ اکثر نہیں دکھایا ہمارے لوگوں نے آپ کو کچھ نہیں ہوا وہ گالیاں دے کے جو کرتا تھا کرکے چلے گئے لیکن جو اس کام آئے وہ کام میں اس میں کامیاب نہیں ہوئے پھر جب وہ واپس آرہے تھے جس دن اس دن بھی پلان تھا کہ آج اس سے زیادہ حق کیا جائے تاکہ کسی نہ کسی طرح کوئی بہانہ بن جائے اب اس پہ پھر جب آپ سنائیے آپ کیسے پھر گاڑی روکی پھر انہوں نے وہی حرکتیں کی گالیاں دیں اور بعض ایسی حرکتیں بھی تو یہاں ٹی وی پر بیان کرنا مناسب نہیں ہے اور یہ چیزیں ہیں جب وہاں چاند گرہن نوجوان بھی تھے ان سے برداشت نہیں ہوا وہ ہاتھی پائی ہوئی دونوں طرف سے جو لڑائ ہوئ ہلک سیسی کوئی شک نہیں دونوں طرف سے رقم بھی ہوئے لیکن اس کے ساتھ ہی پورے ملک میں ایک آگ لگا دی گئی ہنگامہ برپا کر دیا گیا کہ سود سے پاک کر دیا گیا کہ ہمارے نوجوانوں کو مارا پیٹا گیا ہے وہاں شہید کر دیا گیا ہے ان کے کان کاٹ دیئے گئے نہ کر دیا گیا زبان نے کاٹ دی گئی ہیں تو ہر وہ طریقہ اختیار کیا گیا جس سے عوام مشتعل ہو عباس یہ باتیں ہیں جن سے عوام کے باتیں لازمی طور پر مشتمل ہو جاتے ہیں کہ قتل کرنا شہید کرنا تو ایک لاکھ باتیں اس کے بعد ان کے اعضا کاٹنا یہ بہت بری بات ہے تو یہ باتیں اس لیے ہم کہہ رہے ہیں کہ یہ ساری چیزیں ہوئی ہیں آپ اس کے بعد پھر کمیشن بنا صمدانی کی مثالیں تحقیقات کے لیے ایک جگہ کہتے ہیں کہ یہ ساری سازش ہے تو کیوں کہتے ہیں اس لیے لڑائی ہوئی میچ کی تفصیل میں نہیں جاتا کیونکہ اس کا قصور تھا کہ نہیں تھا یہ ایک الگ بحث ہے یہ درست ہے کہ وہاں کچھ واقعہ ضرور ہوا اب بھی ہوتی رہتی ہیں انفرادی طور پر بھی گروپوں میں بھی ہو جاتی ہیں تو استحاضہ کے احکام کیا کہتا ہے کہ پولیس نے مقدمہ درج کر دیا عدالت میں کہتا ہے اب یہ ایک انوکھی لڑائی بھی جس کے نتیجے میں پورے ملک میں یہ مطالبہ کیا جا رہا ہے کہ مخالف فریقوں کو غیر مسلم قرار دیا جائے کہ یہ دنیا میں آپ نے سنا ہے کہ کوئی یہ کہے کہ فلاں نے مجھے مارا ہے اس کو غیر مسلم قرار دے دو یہ تو بات سمجھ میں آتی ہے کہ اس نے لڑائی کی ہے مجھے مارا اس کو سزا کو سزا کی حد تک تو چل متعلقہ سمجھ جاتے ہیں لیکن اس کے نتیجے میں غیر مسلم قرار دینے کا مطالبہ یہ بات بتاتی ہے کہ یہ ایک بہانہ تھا اور پھر ابھی وہ ٹرین فیصل آباد میں پھانسی آج کل سوشل میڈیا کا دور ہے فلائٹ جاتی ہے اور بندے کے پاس ہونے اس وقت تو گھروں میں بھی فون نہیں ہوتے تھے لوگوں کے سرکاری عمارتوں میں یہ چند گھروں میں بمشکل ہوا کرتے تھے تو اب ربا سے فیصل آباد تک کا ایک گھنٹے کا سفر ہے لیکن وہ گاڑی فیصل آباد پہنچنے تک بازاروں کا جلوہ نما تھا اس کا کیا مطلب ہے پہلے سے ہی یہ پلا ہوا تھا اسی طرح پھر ہوتا ہے اور اس کا دبا کر قتل کرنے کی سزا محض لفاظی سے لگایا جاتا ہے اس کے بعد پھر ہنگامہ شروع کر دیے جاتے ہیں مظاہرین کو گرفتار کیا جائے اور ثابت کیا کہ ان کے اداروں پر پابندی لگائی جا مسجد کو مسجد کہنے پر پابندی لگائی جائے اور جو کراچی میں جاری ہے لیکن اس میں یہاں پر پابندی اس کا کیا جوڑے آپس میں اگر کوئی قتل ہوتا ہے تو ان کی اذان پر پابندی لگائی جائے ان کی مصنوعات پر پابندی تھی نہر سے پانی لینے پر پابندی تھی اس کے مسلمان کہنے پر پابندیاستاد لانے کے لیے اس کا نتیجہ کیا ہوا کہ جب جماعت احمدیہ پر زمین تنگ کر دی گئی بائیکاٹ کردیا گیا گھروں کو آگ لگائی گئی پابندیوں کو شہید کیا گیا مارا پیٹا گیا جو ہو کر سکتے تھے وہ کیا گیا تو اس کے نتیجے میں جب صمدانی نے جو اس وقت اس فیصلے کے دیکھ رہے تھے جو باقی رکھا ہوا تھا ان کو ہنگامی طور پر ایک ٹرانسفر کے مختصر فیصلہ سنانا پڑا انہوں نے کہا کہ جہاں تک تفصیلی فیصلے کا تعلق ہیں ہم بعد میں سنائے گئے لیکن مختصر فیصلہ انہوں نے بلکہ پریس کانفرنس میں یہ اعلان کیا کہ ہماری اطلاعات کے مطابق جو ہم نے تحقیق کی ہے یہ 11 جولائی 1974 کے اردو اخبار میں چھپا ہوا بھی موجود ہے انہوں نے کہا کہ یہ جو کہا جا رہا ہے کہ یہ بک گئی ہے کہ نوجوانوں کو یہ کر دیا گیا اور زبان کاٹ دی گئی اور نہ کسی کا کان کاٹا گانا گانا زبان کاٹی گئی اور ہماری تحقیق کے مطابق نہ کوئی طالب علم پنجاب حکومت ہے یہ سب باتیں غلط ہیں اس کا فیصلہ میں ابھی سنا رہا ہوں باقی رہ معاملہ کیا ہوا تھا اس کی تفصیلی جائزہ لیں گے اس کے بعد فیصلہ کریں گے اب یہ جو آپ بتا رہے ہیں کہ وہ ہوا ہی نہیں بات بنانا از کاٹے نہیں کٹتی نہیں تیار نہیں ہے لیکن عوام میں جا کے پورے ملک میں آگ لگا کے احمدیوں کے ساتھ بارہ لیے بد سلوکی کی گئی اور پھر اس معاملے کو عدالت میں اسمبلی میں پیش کر دیا گیا اور مولوی حضرت عیسیٰ کے لگا رہے ہیں ہماری وجہ سے ہوا یہ ان کی وجہ سے نہیں بھائی پہلے سے طے شدہ منصوبہ تھا ایسے ہی ٹھیک ہے سیاست ہمیشہ اس وجہ سے آپ سے درخواست کروں گا کچھ نہیں بتا دیں بیانات بھی ملتے ہیں اور ایک نیکی ایسے بیانات رکھ ابھی ملتے بھی ہیں سوشل میڈیا پر لوگ دیکھ نہیں سکتے ہیں یہاں سیاستدان ہیں جو پیپلز پارٹی کے بنیادی بنیاد رکھنے والوں میں سے اہم کردار ادا کرنے والوں میں سے بھی ایک مبشر حسن صاحب ہی ملتے ہیں تو اس میں یہ چیزیں جو میں عرض کر رہا ہوں اس کے بعد یہ اس وقت سے لے کر آج تک آپ اگر پرانے سیاستدانوں کو مقتدر شخصیات ہیں ان میں جسٹس جاوید اقبال صاحب ہم ان سے پوچھا گیا کہ کیا یہ جو این جی او کو غیر مسلم قرار دیا گیا انہوں نے کہا کہ بالکل غلط فیصلہ تھا اس کا مذہب سے کوئی تعلق نہیں تھا پھر ڈاکٹر مبشر حسن تھا انکا بھی آپ نے ذکر کیا گیا سوشل میڈیا کے اوپر ان کی ویڈیوز پڑی ہوئی ہیں انیق ناجی صاحب ایک انہوں نے ان کا انٹرویو دیا تھا انہوں نے جماعت احمدیہ کے متعلق سوال کیا گیا انہوں نے کہا کہ بالکل کالونی پرائزز تھا اس وجہ سے یہ بھٹو کمپرومائز کرنا پڑا اور یہ  ریحان ہمارے اپنے جو مرزا ڈاکٹر مرزا سلطان احمد صاحب نے تاریخ کے حوالے سے وہ بڑا اچھا کام کر رہے ہیں وہ بھی ڈاکٹر مبشر حسن صاحب سے ملے ہیں دونوں نے انٹرویو لیا ہے تو انہوں نے پوچھا یہ کر رہا ہے انہوں نے کہا کہ ابھی یہ اللہ کو پہلے سے فیصلہ ہو چکا تھا ان کو چکا تھا پھر اس کارروائی کو کہتے ہیں کاروائی تعریف تشخیص کروائیں دکھانے کی کاروائی تھی صرف عوام کو دکھانے کے لیے بنا تھا تو انہیں پہلے ہو چکا تھا اب سوال یہ ہے کہ اس وقت عمل نہ جدا سلطانی کہہ رہے ہیں کہ جس بات کو بنیاد بنایا گیا ہے وہاں کوئی ادا کرنے نہیں گئے اور ملک کے جو سرکردہ لیڈر ہیں دنیا تک پیپلز پارٹی کی حکومت تھی اور پیپلز پارٹی کے جنرل سیکٹری کو اس وقت ملی میں موجود تھے وہ کر رہے ہیں کہ یہ بیرونی پریشر کس ملک کا اور اس کی وجہ سے بھٹو کو یہ کمپرومائز کرنا پڑا ان کا کہنا ماننا پڑا اور یہ فیصلہ کرلیا گیا کیا تھا جو اسمبلی کے اندر جو کچھ ہوا ہے وہ صرف ایک کر دکھاوے کے لیے پھرنا فیصلہ عمل پہلے ہو چکا تھا تو جس حکومت نے یہ فیصلہ کیا اس حکومت کے جنرل سیکٹری بیان کر رہے ہیں لیکن مولوی صاحب کو سمجھ نہیں آرہی ہوں سمجھ لیں کہ ہم نے کیا ہے بھائی آپ نے کچھ نہیں کیا آپ کو صرف استعمال کیا گیا ہے ورنہ عملی طور پر یہ پہلے ہو چکا تھا کل سارا جو کچھ کرنا پہلے بھی کوئی شخص کر ہمیں پتہ چلا ہے کہ ہم جو ویڈیو دکھانا چاہتے تھے ڈاکٹر مبشر حسن صاحب کی وہ اب دکھائی جا سکتی ہے تو لازمی یہ بھی شخص اس میں بیان دیا ہے کہ ان کا انٹرویو سے ڈاکٹر سلطان صاحب کے ساتھ تو آئیے ہم آپ کو دیکھ بھی دکھا دیتے ہیں کی کاروائی پڑھیں دیا گیا تھا ایک ایک ریفرنس جہاں سے یہ پچاس پیش کر رہے ہیں وہ ٹریس کیا پرائزاکثر یا بھاری تعداد میں پرسنٹیج نہیں ہے وہ ان جگہوں پر ایگزیکٹ ہی نہیں کر رہے تھے تھے ہوتا ہے ہے جائے وقت یار میں بے وفا ہے یہ تو مزہ بھی ویسے ہی تو ہمیشہ سے چلتی ہیں جو آج کل لوگ ہو جاتے ہیں اور ڈانس کرنا شروع کر دیتے ہیں جو اس وقت کے قریب بھی نہیں تھے کہ ان کی بدبو احمدیوں کے مخالف بھی ہیں کہ ان کی باتیں زیادہ قابل اعتبار ہیں ایک شخص اور ان کا تعارف شاہ صاحب نے بھی کیا آپ کو ایک کا کبھی دکھا دیتے ہیں آپ دیکھیں گے کہ ان کی حیثیت کے تھے تو دکھا دے یا یہ ان کی وفات ہوئی تو کی پاکستان میں پہلے عام طور پر جانتا ہے یہ کون تھے یہ پیپلز پارٹی کے بانیوں میں سے تھے اور نہانے سے اس کے جنرل سیکرٹری تھے اس پارٹی کے جو اس وقت حکومت میں تھے اور اب وہ خود پارٹی کے ممبر تھے وزیر خزانہ بھی پاکستان میں ان کی حالت ذمہ داری تھی تو ایسا شخص یہ بیان دے رہا ہے جو اس سے برکت و مسلک کو بیان نہیں کر کے بارے میں ہمیں یہاں سے آگے چلتے ہیں تو کچھ اسمبلی کے اندر کے حالات کو بھگو کر لیتے ہیں اصولوں صاحب آپ بھی دیکھتے ہیں دیکھ رہے ہیں کہ میں تو ہر شخص کھڑا ہو سکتا ہے اس کے بارے میں بات کر سکتا ہے تو نہیں ملی کوئی ایسی خفیہ رکھا وہ کر کے بھی چھپائے رکھے بارہ سال بعد میں بات کریں گے لیکن لوگ ایسی باتیں کرتے ہیں نہ جاتا ہے کہ آپ لوگوں کو بھی عقل مجتہدین کے سامنے یہ بات بیان کر رہے ہو کہ وہ تحریک انصاف کے قابل نہیں ہوں گے اور تحقیق میں اس حوالے سے بھی کہہ رہا ہوں کہ آج کل کے دور میں ہم گزر رہے ہیں اس سوشل میڈیا کی سب باتیں بہت آسانی سے ہوجاتی ہیں کھل جاتی ہیں جو کہ سپیشل کمیٹی تھی اسمبلی کی عملی تھی دیوبند علماء اور دوسرے کے بغیر ہے اور کچھ جماعت اسلامی کے سارے بیٹھے ہیں بہن کے ساتھ مخالف تھے تو ان لوگوں کے بیانات بھی سامنے آنا شروع ہو رہے ہیں وہ کیا کہتے ہیں یہاں تشریف لائیے انہوں نے باتیں بیان کیں اپنا موقف پیش کیا تھا ان کے موقف کا اس وقت اسمبلی کے اراکین پر کیا اثر تھا اور اور اس کے نتیجے میں کیا آپ مطمئن کرنے والے تھا یہ نہیں تھا اس لئے سب بتائیں کیا 786 بسم اللہ الرحمٰن الرحیم جیسا کہ ابھی ہم سب لوگ تھے وہاں پہ ان کی بات بھی سن لی ہے اب اس ساری کارروائی میں میسج ایک ماہ کے جو مفتی صاحب سے مولوی صاحب تھے جو اس ساری کارروائی میں پیش پیش تھے مفتی محمود صاحب ان کا میچ بیان آپ کے سامنے رکھنا چاہتا ہوں ان کی آڈیو بھی موجود ہے ویسے ان کا یہ بیان ایک ہفت روزہ لولاک میں چھپ چکا ہے انہیں پیش کرنا چاہتا اس کے بعد میں چند ہے اس کے بارے میں گزارش کروں گا مفتی محمود صاحب فرماتے ہیں کہ اس میں شک نہیں کہ ممبران اسمبلی کا ذہن ہمارے موافق نہیں تھا بلکہ ان سے متاثر ہو چکا تھا تو ہم بڑے پریشان تھے کیونکہ ارکان اسمبلی کا سے بھی متاثر ہوچکا تھا اور ہمارے ارکان اسمبلی دی نیمکافر کہیں تو ہم اللہ سے دست بدعا ہوئے کہا یا مقلب القلوب ان دلوں کو پھیر دے اگر تو نے ہماری مدد فرمائیں تو یہ مسئلہ قیامت کسی مرحلہ میں رہ جائے گا اور حل نہیں ہوگا کہ میں اتنا پریشان تھا کہ بعض اوقات رات کے تین چار بجے تک نیند نہیں آتی تھی یہ مفتی محمود صاحب ہیں جو اندر کی کارروائی تمام اس میں موجود تھے تو مفتی محمود صاحب اس بات پر تو پریشان تھے کہ اسمبلی جو ہے وہ دینی مزاج سے واقف نہیں تھے مگر یہ نہیں بتاتے کہ اتنا اہم مذہبی مصلح کے فیصلہ کا اختیار کرنے کا اختیار کس نے ان کو دیا تھا ایسے لوگوں کے ہاتھ میں جن کو دین کا علم نہیں تھا جن کو یہ بھی نہیں پتہ کہ مسلمان کی تعریف کیا ہوتی اور کیا نہیں اور جو دینی مزاج سے واقفیت نہیں رکھتے تھے ان مولویوں کو ان کا حق تو قبول ہے ہے اگر اللہ اور اس کے رسول کا جو ہے وہ ان کو قبول نہیں اگر کسی کو کہا جائے کہ راستہ دکھائے وہ کیا راستہ دکھائے گا تم ان کی پریشانی ظاہر کر رہی تھی کہ وہاں اندر جو لوگ موجود تھے ان کے مزاج جو ہے وہ کبھی ملیں وہ ماہرہ خان کے دل مائل ہو رہے تھے اس کی وجہ یہ ہے کہ مفتی صاحب کو یہ فکر لاحق تھی جب حضرت آپ تشریف لاتے آپ کا انداز بیان آپ کی وہ عظیم شخصیت آپ کے علم و فراست اور اس سے متاثر ہوئے اور وہ خود بیان فرماتے ہیں کہ وہ متاثر ہوئے ان کو یہ فکر لاحق ہو گئی تھی پھر یہ ان کی نیند کیوں اور گئی تھی ان کی نیند میں اس وجہ سے اڑ گئی تھی کہ دلیل کے ذریعہ احمدیوں کو کافر قرار نہیں دیا جاسکتا کیونکہ وہ دلائل جو ان کے خلیفہ وہ اسمبلی میں پیش کر رہے ہیں وہی دلائل ہیں جو قرآن کہتا ہے وہی مسلمان کی تعریف اجوا حضور صلی اللہ علیہ علیہ وسلم نے فرمایا ہے جو انہوں نے اپنے طور پر بنائی ہوئی تاریخ تھی ان کو یہ ڈر تھا یہ ممبران اسمبلی اس کو قبول نہیں کریں گے تو یہ وجہ تھی ان کی راتوں کی نیند اڑ گئی تھی ان کی راتوں کی نیندیں اڑنے کا کوئی بھی وجہ تھی کہ ہم جب گلے پھاڑ پھاڑ کے احمدیوں کے خلاف ختم نبوت کے اس طرح کے الزامات لگاتے ہیں آج احمدیوں نے تو ہمارے جو بزرگ ہیں ان کے حوالے پیش کرکے اپنے ختم نبوت کے بارے میں ان کا عقیدہ ہے اس کی تائید کرنے والے ہیں اور یہ جب عوام کے پاس کے حوالے جائیں گے تو ہم کیا منہ دکھائیں گے یہ تو وہی عقیدہ ہے جو جمعۃ المبارک کے ختم نبوت کے بارے میں تو مولوی صاحب نے ان چیزوں نے پریشان کیا ہوا تھا اور وہ ہمیشہ نظر بھی آتی ہے مجھے ایک اہل حدیث طبقہ بھی تھا انہوں نے برملا اس بات کا اظہار بھی کیا کہ احمدیوں نے دیوبندیوں اور بریلویوں کے حوالے جو اسمبلی میں پیش کی ہیں ان مولویوں کی زبان بند کر دی تھی کہ مولوی صاحب کو یہ بھی پریشانی لاحق تھی کہ اس وقت کے جو سنجیدہ دانشور تھے اور جو ذرائع ابلاغ تھے اور جو صحافی ہلکے ہے ان کی بازگشت مولوی صاحب کے کانوں میں پڑ رہی تھی کہ قومی اسمبلی ایسا فیصلہ کرنے کی مجاز نہیں ہے تو یہ وہ چیزیں جو مولوی صاحب کو بے قرار کئے ہوئے تھے اور یہ وہ چیزیں ہیں جو مولوی صاحب کو رات کو سونے نہیں دیتی تھی ٹھیک ہے اگر سوشل میڈیا میں انسان تھوڑی سی کوشش کرے اس سے تلاش کرنے کی کوشش کرے تو ایسے ایسے بیانات ملتے ہیں مثلا ایک بہت برے جو اس کارروائی میں بم دھماکے دار احمد نورانی صاحب جو بریلی سے تعلق رکھتے تھے وہ بیان دے رہے ہیں کہ دیوبندی سنی مولویوں نے عبد سے شکست کھائی اور مزے کی بات یہ ہے کہ دوسری طرف دوسرے علماء مسلک شیعہ عالم ذاکرہ جو بیان دینی مجلس میں بیان دے رہے ہیں کہ سب سنی ہیں یعنی دیوبندیوں بریلویوں کی نیو بیس کی جماعت احمدیہ کو علماء کو پانی پلا پلا کر رہا ہے اور ایک بیان ڈاکٹر طاہر القادری صاحب کا بھی ہے جو انیس سو چوہتر کی بات کی جو گوٹو سیٹنگس ہوئی تھی اس کے بارے میں وہ کہتے ہیں کہ سارے علماء انہیں امریکہ کی شکست کھا گئے تھے اس میں حافظ ناموس رسالت کا ذکر کرتے ہیں اہل حدیث اہل سنت آپ نے کہا ہے ان سب نے کرائی ان کی اصل حقیقت ہے جو اللہ تعالی خود ان کے منہ سے نکلا ہے اور آج کے دور میں لوگ کھڑے ہوئے تھے اور لوگوں کو پتہ نہیں کہ سمجھتے کیوں نظام میں باتیں کریں گے کہ ان سے کچھ نہ بن سکا یہ ہوا تو نہ ملا ساری پروسیڈنگ آن لائن موجود ہے پہلے تو وہ کسی بھی نکالتے ہیں سے 12 بور سیٹنگ ساری بھی نہیں موجود ہے بلکہ کسی حد تک تمام باتیں درج ہے لیکن جو بات ہے وہ درج ہو چکی ہے کہ جیسے کہ ابھی میں نے اس بات کا ذکر کیا ہے کہ انسان کے سامنے آجاتا ہے کس نے کس سے شکست کھائی ہے اور کس پر اثر ہو رہا تھا اس کے دوران ہم آگے چلتے ہیں ہمارے ساتھ کالر شامل ہیں اور صرف سلاد میں آنے شروع ہوگئے ہیں تو ہم کوشش کریں گے ہمارے پروگرام میں حصہ کچھ سوالات بھی ہمارے نیوز کے مطابق دین محمد اسلم صاحب ہیں جن میں سے ہیں ان کے افسانوں میں لیتے ہیں محمد آرف سلام علیکم ورحمۃ اللہ السلام یہ میں نے اس حوالے سے ایک سوال کرنا تھا کہ 1974 کی اسمبلی کے متعلق ہم ہمیشہ سے سنتے ہیں کہ وہ خلافت ملی تھی اور جو اس کے ممبران تھے کئی لحاظ سے گرم ترین ممبران تھے لیکن جونہی یہ سیاسی فیصلہ جو اسمبلی کے اندر ہوا تو تمہاری کارروائی ہوئی تو اس کو بعد میں شائع نہیں ہونے دیا باوجود اس کے کہ وہ دنیا لوگ تھے ان کو کوئی اس کے ساتھ غلط نہیں تھی لیکن انہوں نے اس کو شائع نہیں ہونے دیا ملک میں بے وجہ کیا ہو سکتی ہے کہ چاہتے تھے کہ اس کارروائی کو جو مذہبی لحاظ سے ہوئی ہے ڈائیلاگ اس کو روکا جائے یہ نہ ہو ایک تو اس کا یہ ہے میرے سوال کا جواب یہ ہے کہ جو کہ جو کے متعلق 15 پیش گوئی تھی کہ وہ اپنا ایک خاص عمر میں اس کے کہا جاتا ہے کہ اس کی موت ہوگئی بڑی برے الفاظ میں استعمال ہوئے مستقبل کا فیصلہ جو اس نے کروایا یہی میسج کریں اس کی وجہ بنا جو ہم چلے اس کے متعلق پیش ہوئے دیکھی ہے جو آپ کا پہلا سوال ہے وہ ہم کو بھی ساتھ لے لیتے ہیں دوسرے سوال کی طرف دیکھیں گے ہمارے پروگرام میں جیسے گنجائش پیداہوگئی اور بیٹیوں سے کچھ باتیں میں اپ ڈیٹس حاصل کرنا چاہتے ہیں تو ان شاء اللہ اس کو بھی ساتھ رکھیں گے ورنہ پھر انشاءاللہ کسی پروگرام میں میں تو کیا ہم آگے چلتے ہیں مکرم شاہ قبرستان سے خاص بات کرنا چاہے گا تو اس سے پہلے ناظرین بھی دیکھے جو حوالہ پیش ہوا ہے مسلم سلیم کا ذکر ہوا ہے اسی طرح سے جو پارٹی کے بانیوں میں شامل تھے مبشر حسن صاحب کا ذکر ہے تو یہ جو ان کے بارے میں کچھ جو بیانات دیے ہیں وہ ہمیں اچھا پروگرام کے بعد ہماری ویڈیو کلپ جو اپلوڈ ہو گئی باپ ڈسکرپشن آپ کو نہیں دیں گے تو آپ کو خود بھی جاکر وہاں پر یہ بات سن سکتے ہیں اسے واپس ایک اور بھیانک بھی لکھ دیں گے جو ڈاکٹر مبشر حسن صاحب کا ہے وہاں پر وہ کہہ رہے ہیں کہ جو عوامل تھے اس کے پیچھے کاروائی کے اس نے بیرونی دوروں کا دباؤ تھا بلکہ وہ ایک ملک کا ذکر کرتے ہیں سعودی عرب کا تو یہ ان کا بہانہ تھا کہاں گئے وہ اس کا بھی ہم آپ کو انتظار لکھ دے دیں گے آگے شاپس سب سے زیادہ جائے گا کہ شاہ صاحب کے سامنے سے ثابت ہوتا ہے اپنے بارے میں بات کی ہے کہ ساری جو اسمبلی جو ساری کاروائی سے الفت تھی تو بیرونی طاقتوں کا بھی ذکر آتا ہے تو آپ کے ساتھ میں آپ نے بتایا کہ آپ کے سامنے سب کچھ کیا تھا اس کے بارے میں مزید کچھ روشنی ڈالیں پھر ہم بات یہ ہے کہ بھٹو صاحب جو کہ وہ خود تو مذہبی آدمی نہیں تھے یہ تو بندہ جانتا ہے کہ مذہبی مزاج رکھنے والے نہیں تھے البتہ یہ درست ہے کہ پاکستان میں ان کو اکثریت حاصل کی عوام کو پسند کرتی تھی جو مذہبی طبقہ ہے مولوی حضرات نے ان کو پسند نہیں کرتے تھے اب ایک تو ان کو یہ درجہ حاصل ہو جاتا تھا کہ میں غیر مسلم کو دعوت دی کہ وہ مولویوں کے دل جیت لیے گے اور مولویوں کے ساتھ دیں گے تو اس میں یہ تھا کہ اس موقع سے فائدہ اٹھایا جائے دوسرا جیسا کہ مبشر لقمان صاحب کے انٹرویو میں آپ نے سن لیااب ان کی طرف سے یہ پریشر کیوں تھا اس کو جب ہم اسمبلی کی کاروائی پڑھتے ہیں تو آغاز میں ہی دیکھے ہیں کہیں اختیار صاحب حضرت یوسف علیہ سلام اللہ علیہا سے بات چیت شروع کرتے ہیں تو ان سے اپنی ذات کے متعلق خاندان کے متعلق کچھ بتائیں سوالات کرنے کے بعد وہ ایک سوال کرتے ہیں کہ اس خلیفہ اسلام نوٹس ہیڈ آفس پر یہ جو خلیفہ ہے کیا وہ ہیڈ اسٹیٹ ہیں کیا وہ اسلام کے اندر گورنمنٹ کا ہیڈ نہیں ہے تو بڑی حکمت کے ساتھ حضرت خلیفۃ المسیح الثالث رحمہ اللہ تعالی اس کا جواب دیتے ہیں کہ دیکھیں جو حضرت نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا زمانہ تھا اور آپ کے بعد کل آپ ایک کام کا زمانہ تھا اس نے روحانی محمد کے ساتھ بادشاہت کا ایک موجود میں اکٹھا ہونا ضروری تھا ایک مجبوری کی اس وقت کی حکومت اسلام کی تھی لہٰذا ہر ایک مرتبہ پڑھے اور آپ فرماتے ہیں کہ انہوں نے اس ذمہ داری کو نبھایا اور بڑے اچھے طریقے سے نبھایا اب امام مہدی علیہ السلام کا زمانہ جو اسلام کا زمانہ ہے تو آپ نے فرمایا کہ ہمارا عقیدہ یہ ہے کہ بے شک فنڈامنٹلسٹ جو خلافت کیا ہے اس کے مطابق خلیفہ بادشاہ نہیں ہوگا کسی ملک کا بادشاہ نہیں ہوگا تو پھر وہ کہتے ہیں کہ پریزیڈنٹ بھی نہیں آپ نے فرمایا نہیں بالکل نہیں پریزیڈنٹ بھی نہیں ہوگا پھر انہوں نے اور پھر کوشش کی آپ نے فرمایا نہیں یہ دنیا کی بادشاہت کا جو ہے یہ آپ کو مبارک ہو ہمیں اس کی ضرورت نہیں ہے اب یہ ایک علیحدہ سوال ہے کہ جو خلیفہ ہے اسلام کے اندر وہ بادشاہ یا بادشاہ کے جسم جو جسمانی بات چاہتے ہیں دنیا بھی بات چاہتے ہیں اور دنیاوی طور پر بھی بادشاہ ہو سکتا ہے نہیں ہوسکتا کیا ہوگا یا نہیں ملے کی ہے یہ بحث ہے محفل اس کو اس میں نہیں جا رہا لیکن یہ بتاتا ہے کہ ان کو اصل پرابلم کیا تھی اور کیوں بیرون ملک سے یہ چیزیں آرہی تھی اس لیے کہ آپ نے بشریٰ صاحب بتا رہے ہیں ایک ملک کا نام لے رہے ہیں جہاں بادشاہت قائم ہے اور وہ بادشاہ کے ہیں کون کنٹرول کر رہا ہے یہ اب آہستہ آہستہ آج کے دور میں یہ پھیلتی جا رہی ہیں اور معاملات باز ہوتے جا رہے ہیں اس وقت کوئی نسبت بھی پہلے چالیس سال پہلے لوگوں کو پورا علم نہیں تھا عوام بیچاروں کو پتہ نہیں تھا لیکن اب وقت کے ساتھ ساتھ انشاللہ یہ تاریخ دیکھ لیں گی اب مسئلہ یہ تھا جو تیر نظر آرہی ہے اس کے ابتدائی سوال سے بھی اور مبشر حسن صاحب کے صدر بیرونی پریشر کیوں تھا اس لئے کہ تو نہ صرف یہ ہے کہ جو اسلام امام مہدی علیہ السلام آئیں گے وہ بادشاہت کام کریں گے اور اس کے بعد بادشاہ نے بھی وہ روحانی بادشاہ کے ساتھ عثمانی بادشاہ ہوں گے اسلام کے اندر بظاہر عام لوگوں نے سمجھا وہی سمجھا ہوا ہے اور جہاں اسلامی ممالک کے اندر بادشاہت قائم ہیں ان کو پیچھے کون کنٹرول کر رہا ہے ان کا بھی کوئی مسئلہ تو یہی ہے لیکن حضرت خلیفۃ المسیح الثالث رحمہ اللہ تعالی نے اپنا کام کر بتا دیا کہ اسلام کے اندر یہ کنسلٹ ہے اور یہی ہمارا عقیدہ ہے کہ خلیفہ بادشاہ نہیں ہوگا لیکن جہاں بادشاہ نہیں قائم ہے ان کو یہ فکر تھی کہ اگر یہ امام مہدی کا ان کا دعویٰ ہے اور اس کے بعد کلاس چل رہی ہے اور جس طریقے سے جماعت احمدیہ منظم طور پر اسلام کو پیش کر رہی ہے اس کی تبلیغ کر رہی ہے لوجیکل یہ لوگ اس کو ماننے پر مجبور ہوتے ہیں یہ جس طریقے سے چل رہے ہیں اگر اس طریقے سے چلتے رہے یہ تصویر میں آگیا تو ہماری بادشاہت وقت ہیں اور پھر ان کی بادشاہت ہی نہیں ان کا کہنا تھا کہ اگر یہاں یہ ہو جاتا ہےیہی اصل میں پوچھنا تھا کہ یہ بادشاہت نہ حاصل کرنے کا ارادہ ہے جبکہ ہمارا اصل میں حقیقت یہ ہے کہ جب اسلام پوری دنیا پر غلبہ حاصل کرے گا تو خلیفہ وقت جو منگا وہ ایک روحانی امام ہوں گے دنیا بھی بادشاہ کے ساتھ نہ حضرت موسی علیہ السلام کاکوئی تعلق کہا ہے کہ حضرت عیسیٰ علیہ السلام بھی جب امت مسلمہ میں آئے تھے تو ان کے بارے میں بھی یہی عقیدہ تھا کہ آئے گا تو بادشاہ ہوں کہ وہ یہودیوں کے بعد کیا ہوگا لیکن حضرت یوسف علیہ السلام نے بھی یہی تشریح کی تھی کہ میرے روحانی تجربات پرانی بات ہے اور یہاں بھی حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے بھی یہی فرمایا تھا کہ یہ ملکوں کے مجھے غلط نہیں فرمایا کہ مجھ کو کیا معلوم ہوتا ہے میرا ملک ہے سب سے جدا مجھ کو کیا تعجب ہے میرا تاجران یار روحانی کی شاہی کے نہیں کوئی نظیر وہ بہت برے ہیں دنیا میں رہو غم زدہ کہ ہمارا ملک تو بالکل الگ ہیں ہم روحانی بادشاہ کے موسیقار ہیں ہم تو اس بادشاہ کو چلانے والے ہیں ہمیں اس بادشاہ کو قائم کرنے کے لیے اللہ نے بھیجا ہے اور خلیفہ وقت مغربی خفیہ کہانی بادشاہ تھے بادشاہ ہوں گے یہ اس کو جسمانی یہ دنیا بھی بادشاہ سمجھ بیٹھا ان کو اپنا سفر کرنا ہوگا اس کے لئے ہمیں اس خبر سے ہمارے بریلی بچنے کے لیے یہ طریقہ اختیار کیا گیا کہ پہلے ان کو مطلع فرمایا کہ غیر مسلم قرار دے کر رہیں گے نہ رہے گا بانس نہ بجے گی بانسری تو لوگ ان کو غیر مسلم سمجھیں گے لیکن وہ کامیابی نہیں ہوئی یا غیر مسلم قرار دینے کے باوجود کامیابی نے دیکھا جماعت کی طرح جاری ہے تبلیغی سلسلہ جاری ہیں کراچی گارڈن جاری کرنا پڑا اور پھر اس کے بعد اب تک تیار ہو رہی ہیں یہ بتا رہی ہیں کہ ان کو اصل خطرہ ہے اور ہیں اور ویسے ہمارے اوپرظلم وستم کوئی کیے جا رہے ہیں جو انبیاء کی جماعتوں کے کیے جاتے ہیں لیکن نہ وہ ناکام ہوئے تھے نا انشاءاللہ ہم ناکام ہوگئے اور خدا جس کے آگے سعد اللہ تعالی عنہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کو مبعوث کیا ہے اور اس علاقے کو قائم کیا ہے دنیا لاکھ مخالفت کر لے ہمارے ساتھ اس وقت ایک کال بھی ہیں ان کے اس فعل سے لیتے ہیں جی اگر شیخ سعدی رحمتہ اللہ ہماری مخالفت کی وجہ سے کی گئی اور ہمارے جلسے بند کیے گئے میرے والد صاحب 915 نے صرف جماعت ملتان تھے لانگے خان باغ میں ہماری شامیانے یہاں گئے اور پولیس کو کہا گیا کہ ان کو یاد کر لو کہ یہ کافی نہیں کہ ان لوگوں کو صحیح طریقے سے لوگ سمجھ آتی نہیں قرآن مجید کے لوگ انڈین میں لوگ نہیں پڑھتے ان کی رہنمائی کیسے کی جائے برائے کرم اس کی وجہ فرما دیں جزاک اللہ تھی تو آپ اس پر ہم جاتے ہیں ہمارے پاس آنا تھا مکرمہ فضل احمد صاحب کا سوال آپ نے بھی سن لیا ہے کہ سندھیوں کاروائی ہے تو پھر کب لکھی گئی اس رات ہمارے پاس مبشر نثار کو آسان ہے جن میں سے بھی پوچھ رہے ہیں کہ ان سے 74 کے فیصلے کی کاپی اس وقت کیوں نہیں ملی اور کہا کہ ابھی آپ نے جانا ہے کہ ہمارے مخالفین اس سوال کا جواب بھی دیتے ہیں وہ کہتے ہیں کہ یہ جو کاروائی ہے اسے پرستی کی گئی کیونکہ میں احمدیوں کی جان کا خطرہ تھا اس کاروائی میں ایسی باتیں ان ججوں کی طرف سے بیان کی گئی اور وہ عوام تک پہنچ جائیں تو عوام تو پہلے سے بھر کی ہوئی ہے ان کے خلاف تو ہم نے ان کی حفاظت کی خاطر اس ساری کارروائی بند رکھے تک این جی او کی جان کو نقصان نہ ہو تو اس حوالے سے آپ مجھے بتائیں کہ کیا اسے کہتے ہیں کہ سر پر ہے کیا اس کے پیچھے ہےاس لئے میں شائع کیا کہیں عوام کے جذبات نہ پڑھ کے اب دیکھتے ہیں کہ جماعت نے اور جماعتیں اپنا موقف اسمبلی میں کیا پیش کیا وہ ایسا کونسا ختم نا کم تھا کہ اگر وہ طاقتور ہیں جو عوام ہے وہ جماعت کے خلاف ہو جاتی اب حضرت خلیفۃ المسیح جو مہاجر نامہ پیش کیا دو دن میں اسمبلی کے اندر اس کی تمام ہر ممبر کو ایک کاپی دی اس نے بڑی حضور نے پڑھا کہ ایک لفظ یا ایک جملہ اس میں سے دکھا دیں جس میں حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی توہین کی گئی ہو بلکہ اس میں تو حضرت موسی علیہ السلام کے وہ حوالے پیش کئے گئے جو حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی مدح اور آپ کی تعریف اور ختم نبوت کی حقیقی تعریف اور حضرت مسیح علیہ السلام کا حضور صلی اللہ علیہ وسلم سے عشق کے بارے میں حوالہ جات اور ہم ان کو چیلنج کرتے ہیں کہ چودہ سو سال میں کسی مصنف کسی رائٹر کسی عالم میں اس طرح کی تعریف کی ہو تو وہ ہمارے سامنے لے آئے تو کیا ایسی یہ جماعت میں اسمبلی میں پیش کی اور اس وجہ سے وہ علماء کے جذبات بڑھنے لگے کہ اچھا آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی اس قدر تعریف کی گئی ہے کہ وہ جو عوام ہے وہ اس کو برداشت نہیں کر سکتی اور اس وجہ سے اس کے جذبات پڑے گی لگے اور یہ ہے کہ اس چیز کو کے رکھ دیا پھر دوسری بات یہ ہے کہ پوری دنیا کا ایک قانون ہے کہ گواہ پر جرح کی کاپی گواہ کو مہیا کی جاتی ہے تاکہ وہ اس کو پڑھے اور اس سے یہ بیان کیا جاتا ہے کہ اگر اس میں جو کچھ لکھا گیا ہے جو آپ نے کہا درست ہے یا نہیں اگر وہ اس کی تصدیق کرتا ہے کہ جو کچھ اس میں لکھا گیا میں نے یہی کہا ہے اس کا جو ہے وہ کو دی جاتی ہے اب گوا کو کاپی نہ دینا یہ کون سے حفاظت ہے وہ بھی اس کے اندر موجود ہے اور بار بار جماعت ان سے کاپی مانگتی رہیں لیکن جماعت کو کاپی نہیں دی جاتی اب گواہ کا تو یہ حق تھا کہ اس کو پڑھتے اور اس کے اندر کی غلطیاں اس کی تسبیح کرتے لیکن دوسری طرف دیکھا جاتا ہے تو تمام ممبران اسمبلی کو دی جاتی ہیں پڑھتے بھی ہیں اور ان سے کہا جاتا ہے اس میں کوئی اضافہ کرنا ہے یا اس کے اندر کوئی کمی بیشی کرنی ہے تو وہ پڑھنے اور پڑھانے ہمیں واپس کر دے زیادہ سے زیادہ یہ کہہ سکتے تھے کہ یہ کاپی آپ باہر نہیں لے کے جا سکتے آپ اپنے پاس رکھ سکتے ہیں کسی کو بتا نہیں سکتے لیکن کبھی نہ دینا یہ دنیا کا کوئی قانون ایسا نھیں ھے کہ گواہ کو کاپی نہ دی جائے تو معلوم نہیں کہ ان کو اس نیک اور وہ جو تاریک متاثرہ ہے وہ مانگ رہا ہے باقی سارے کو دے دیں تو پھر یہ کیسے خفیہ اب دو سو کے قریب ڈیڑھ سو کے قریب ممبران اسمبلی ہیں دی جارہی ہیں تو جماعت کو نہیں دی جا رہی تو یہ ایک بہت بڑی عجیب سی بات لگتی ہے پھر اس سے بڑھ کے کہ ہم یہ دیکھتے ہیں کہ اصل حقیقت کیا ہے تو حقیقت ہم جو انہوں نے کاروائی جاتی ہے اسی کے اندر ان میں بعض ممبران کے میں آپ کے سامنے حوالے پیش کرنا چاہتا ہوں کہ وہ اس جو جماعت میں موقف بیان کیا اس موقف کے بارے میں ان ممبران کی رائے تھی تو اصل وجوہات یہ تھی کہ جس کی وجہ سے یہ یہ جماعت کو کافی نہیں دینا چاہتے تھے مثلا سردارعنایت عباسی صاحب جو ہے وہ اس میں موجود تھے وہ بیان کرتے ہیں کہ لیکن جو مواد انہوں نے اس ہاؤس کے سامنے رکھا انہوں نے حضرت امام صادق نے ہمارے علمائے کرام پر بہت بڑا دھبہ ہے ایک اتنا بڑا چارج ہے میں یہ سمجھتا ہوں اس وجہ سے اس سے چھٹکارہ حاصل کرنے کے لیے انہوں نے مفتی صاحب کے جوابات میں نے بڑے طویل ڈکشنری جس میں انہوں نے اپنے تمام عالم کا ذخیرہ اکٹھا کر دیا تھا تھا سب نے دیکھا میں نے پڑھا لیکن کہیں ایک جھلک ان چارجزکی ان کے حقائق کی جو انہوں نے یہاں پیش کئے خدا جانے وہ سچے ہیں یہ جھوٹے ہیں سردار مہتاب عباسی صاحب مولویوں کو مخاطب یہ کارروائی ختم ہوگئی تو علماء کو مخاطب کر کے کہتے ہیں جو منظر نامہ پیش کیا گیا ہے اس میں جو جماعت میں مقام بڑا مضبوط لی ہے وہ سچ ہے یا جھوٹ ہے لیکن کہتے ہیں اگر وہ جھوٹے دیوتائوں عقلی طور پر تسلیم کرتا ہوں اب آپ نے اس کی تردید نہیں کی تو میرے پاس کیا جواب ہے علماء کو کہہ رہے ہیں کہ جو کوئی جماعت میں موقع پیش کیا ہے آپ لوگوں نے اتنی لمبی کر رہا ہے اس کا جواب نہیں دیا تو جماعت کے موقف کی جواب علموں نے دیا نہیں تو ان کو یہ فکر لاحق ہو رہی ہے کہ دیکھیں یہ کارروائیاں ختم ہو گئی ہے اور آپ نے ان کا جواب کل ہم تین نسلوں کو کیا جواب دیں گے ملیں گے اور جو ممبر ہیں ان کی بات کرتے ہیں ان کا نام ہے کرنل حبیب احمد صاحب یہ فرماتے ہیں کہ جو حضراتآرڈر اور تا قیامت رہے گا اور اس کو تاریخ اور دنیا کی کوئی چیز مٹا نہیں سکے گی اور ہم بھی یہ توقع کر رہے تھے کہ چوہدری صاحب اور ہمارے دوسرے کئی دوستوں نے یا پوائنٹ کرنے کی کوشش کی ہے لیکن ہمارے علمائے کرام جو یہاں تشریف رکھتے ہیں مولانا صاحبان جو ہم سے بہت زیادہ اسلامی تعلیم رکھتے ہیں ہم اس بات کو ایڈ کرنے کو تیار ہیں لیکن کسی نے یہاں کوئی پوائنٹ آف آرڈر نہیں کیا یا دوسری صورت میں پانچ آؤٹ نہیں کیا میں نے اپنی کم عقلی کے باوجود پائنٹ کیا تھا کہ انہوں نے یہ فرمایا تھا کہ اگر یہاں کوئی عالم بیٹھا ہے جو عربی جانتا ہے وہ یہ سمجھے گا کہ عربی میں زیر زبر پیش سے کیا مطلب ہوتا ہے اور کیسے مفہوم تبدیل ہو سکتا ہے ہمارے یہ علماء کے لیے اتنا بڑا چیلنج تھا لیکن ان میں سے کوئی بھی نہیں اٹھا یہ تاریخ ہے اور ایک اسلامی تاریخ ہے تو کیا وجہ ہے کہ انہوں نے جو جواب یہاں دیے ان دلائل کو زیر بحث نہ لایا گیا کہ جو جماعت میں ڈال دیا ان کو زیر بحث نہیں لایا گیا ان کے موقف کو جو نہایت خطرناک تھا ان کے جوابات کتاب کی شکل میں کیوں نہیں آئے کیوں کہ میرا بیٹا اور اس کا بیٹا ہماری نسلوں کی نسلیں بھی ان کو پڑھیں گی ہمارے علماء کے بیانات پڑھیں گے تو وہ اپنے ذہن میں کیا تصور پیش کریں گے یہ تھا کہ جماعت احمدیہ کے موقف کے بارے میں جو کاروائی کے وہ اس بلی کے اندر ممبران کی حالت تھی کہ علماء نے جو جماعت نے قرآن اور اسلام پر مبنی اپنے وقت دیا تھا وہ جن کو مولوی صاحب فرما رہے ہیں کہ دینی مدارس سے ناواقف تھے انہوں نے تو یہ خطرہ بھانپ لیا لیکن علماء کو یہ خطرہ نظر نہیں آرہا تھا یہ نظر آرہے تھے کیونکہ ان کے پاس ان چیزوں کا جواب نہیں تھا یہ یہ کہتے ہیں کہ اس کو چھپانے والی باتیں یہ اصل بنیاد یہ تھی کہ جس کو یہ چھپانا چاہتے تھے کہ کل کو اگر یہ نظر آئے گی تو ہماری نسلوں کے سامنے ہم کیا جواب دیں گے ابھی جس سے محبت کی بات ہے  یوسف کر رہے تھے یہ ایک کتاب کی شکل میں جماعت نے اسے بعد میں شائع کیا ہے جو اس وقت ہمارے امام تھے ان کی دیانت داری دیکھیں انہوں نے کہا کہ آپ نے بھی اسے چھاپنا آپ نے بھی اسے شائع کرنے نہیں کیا اور آپ نے تو بقیہ کاپی بھی میرے پاس موجود تھی کسی ذرائع سے ان ممبران کے ذریعہ حکمران سے ہماری طرف آئی اور پھر یہ جو کتاب ہے اس کی پہلی اشاعت ہے اس نے کی ہے تو یہ یہ سارا بیان اس کارروائی کے ساتھ شامل ہونا چاہیے تھا جو پر سیٹنگ ساری اسمبلی کی تو آپ دیکھیں وہ پریس ریلیز جاری ہے اس میں وہ بیان جس کے دو دن ہمارے نام بات نہیں ہے یہ مان رہے ہیں یہ ساری باتیں کرتی ہیں جیسے پہلے بھی ہم نے بیان آپ کے سامنے رکھے ہیں کہ یہ ساری کارروائی مصنوعی تھی کہ چیست پیچھے سیاسی اگر اس سے بیرونی ممالک کا دباؤ بھی تھا جس کی وجہ سے اس وقت کے حکمرانوں نے اپنا سر تسلیم کیا اور یہ چیزیں اس سے زائد ہیں جو ابھی تک اس کے بعد میں چار دن سے ہی پاکستان بدقسمتی سے گزرا ہے جماعت احمدیہ کو دیکھ رہے ہیں اللہ تعالی کے فضل سے کہاں تک پہنچی ہے خدا تعالیٰ ہر آتے ہوئے دن میں آنے والے دن میں جماعت احمدیہ کو مزید ترقی سے نوازا ہے تو یہ تو خدا تعالیٰ کا فیل ہے جو اصل میں حقیقی فیصلہ کسی صورت میں آج ہمارے سامنے ہے تو شاہ صاحب آپ کی طرف عبدالرشید صاحب کا سہارا لیکر میں آتا ہوں میں ناظرین کی طرف سے ہمارے پاس یہ ابھی آئے ہیں یہ جو صاحب ہیں ریاض احمد صاحب ہیں مبشر احمد ظفر صاحب ہیں رانا صاحب ہی کر لیں آپ کا سوال نہیں تھا جو آپ نے بھی حصہ لیا تھا مجھ سے تو یہ کہ وہآن لائن کو کہہ دے کہ نشانہ تو خدا کے پاس ہیں ہم اس کے غم میں کیا چیز سے آگے کیا سمجھائیں اللہ حافظ اللہ محسود کی نشانات ظاہر ہوں گے تو وہ ایمان نہیں لائیں گے اور یہ دیکھیں حضرت عیسی علیہ السلام کے موضوعات بڑے مشہور مسلمانوں کے اندر بھی عیسائیوں کے اندر بھی لیکن کتنے تھے ان میں نے جواب دیا تھا اور اسی طرح باقی حضرت لوط علیہ السلام کے ساتھ کتنے لوگ تھے حضرت نوح علیہ السلام کے ساتھ کتنے لوگ تھے باقی سارے تباہ کر دیے گئے اور قرآن کریم میں ہی بیان فرما رہا ہے کہ ایمان لانے والے ہوتے ہیں وہ ذلیل ہوتے ہیں اللہ کلیلہ کا لفظ بار بار قرآن کریم نے بیان فرمایا اب یہ اقلیت کو بڑا شور مچاتی کلیئر قرار دے دیا حالانکہ قرآن کریم تو اپنی بات کو صحیح قرار دے رہا ہے کہ ایمان صحیح مان رکھنے والے تھوڑے ہوتے ہیں لیکن جہاں تک ہمارا تعلق ہے وہ ہے پیغام پہنچانا باقی اللہ تعالی فرماتا ہے وہ عین منشائے الٰہی قضاء الصوم عند اللہ واللہ بقدر معلوم کہ حقیقت کے خزانے ہمارے پاس ہیں اور ہم اس کو ایک قدر معلوم کے مطابق کرتے چلے جاتے ہیں بلاک کیسے سمجھیں گے کب سمجھیں گے کتنا غریب ہو گا جہاں تک دلائل کا غلبہ ہے وہ اللہ تعالی کے فضل سے ہمیں اللہ تعالی نے عطا فرمائے قرآن کریم یہی بیان فرماتا ہے کہ ان کا آبائی علاقہ کے ساتھ ادا کرتا ہے تو وہ کلمہ میں اللہ تعالی کے فضل سے حاصل ہے رہا ظاہری غلبہ وہ اللہ فرما رہا ہے کہ یہ ہر چیز کے خزانے میرے پاس ہیں جیسے جیسے وقت ہوگا جب ضرورت ہوگی مجھے پتا ہے کہ میں نے کب اتنا کیا ہوتا ہے تو وہ اللہ تعالی انشاءاللہ آپ کے ساتھ ساتھ ظاہر کرے گا ہمیں اس طرف توجہ دینی چاہئے کہ ہمارا ہر کیا ہے ہمارا فرض یہ ہے کہ ہم اس تبلیغ کو جو خدا تعالیٰ نے ہمارے ذمہ لگائی ہے قرآن کریم کی تعلیم کو اور جس کو حضرت مسیح موعود علیہ السلام دوبارہ دنیا کے سامنے پیش کرنا کرنے کے لئے ظاہر ہوئے حضرت محمد مصطفی صل وسلم کی تعلیم کو اس کو دنیا کے سامنے کھول کر بیان کرتے رہے ہیں آپ سے جب بیان کریں گے تو جو نیک فطرت ہوگی وہ آ جائے کہ جیسا دم سے ملاقات نے فرمایا کہ ہر طرف آواز دینا ہے ہمارا کام آج جس کی فطرت نے کہے آئے گا وہ انجام کا یہ انجام کار کون آئے گا یا اللہ تعالی کا کرم ہے سب لے کے آئے گا لیکن اتنا ہمیں ایمان ہے کہ ان شاء اللہ العزیز باہر نکلتا ہے وہ بھی ایک دن ہو کے رہے گا ہم انشاءاللہ کو بن دیکھے محبت کے ساتھ کب ہوگا یہ تو اللہ کو معلوم نہیں لیکن ہو گا ضرور کہ صنعتی دین اللہ افواجا یہ اللہ کا وعدہ ہے تو یہ خدا کا وعدہ ضرور پورا ہوگا کیونکہ خدا کے بعد بھی کھلا نہیں کرتے ہیں بہت بہت شکریہ اس کے ساتھ ہی ہم اپنے پروگرام کے اختتام کو پہنچ چکے ہیں آپ سے یہ درخواست کرے گا جو خدا تعالیٰ کا بھی حکم ہے قرآن مجید کے اندر بھی کہ جب کوئی تمہارے پاس کوئی خبر لے کر آئے آئے تو اچھی طرح سے اس کی تحقیق کر لو اور پھر اسے پرخلوص دیکھ لو اور یہ جو معاملہ ہے جو قومی اسمبلی کے یہاں سے کوئٹہ کا معاملہ نہیں ہے آج کل سب کچھ کھلا ہے اور اللہ تعالی کے فضل سے جس حد تک کھلی ہے وہ بات کے لئے کافی ہے کہ انسان حقیقت اور حکومت کے درمیان اسی وقت یہ اجنبی سے حاضر ہوں گے اور اکثر ہمارے جو شروع کیے ہیں ان کا شکریہ ادا کرتا ہے اس پر ناظرین آپ کا بھی اور آپ اس طرح کی کوششوں کو شامل کریں تب تک کے لئے اسلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ  ہم تو رکھتے ہیں مسلمانوں کا دیں ہم تو رکھتے ہیں مسلمانوں کا دیں

Leave a Reply