Deeni O Fiqahi Masail: Episode 95 (Urdu)
دینی و فقہی مسائل ۔ قسط ۹۵
Uploaded on May 10, 2016
لا الہ الا اللہ محمد الرسول اللہ اللہ محمد الرسول اللہ اللہ محمد الرسول اللہ ولا من الشیطان الرجیم بسم اللہ الرحمن الرحیم السلام علیکم و رحمۃ اللہ و برکاتہ دینی و فقہی مسائل کے ساتھ اللہ تعالی کی توفیق سے ہم آپ کی خدمت میں حاضر ہے آج کے ہمارے اس پروگرام میں ہمارے پاس مختلف نوعیت کے سوالات ہیں جو آپ لوگوں نے ہمیں ای میل کے ذریعے پروگرام میں اکمل صاحب اور اگر وقت ہوا تو ایک نوالہ ضلع کراچی کی طرف سے موصول ہوا وہ بھی شامل کرلیں گے جتنا وقت نہیں جانتی ان پر عمل گفتگو کریں گے لائے ہیں خان صاحب اور محترم مولانا منظور احمد صاحب شامل ہیں سوالات کے ساتھ انجام کی طرف جاتے ہیں اور باری باری سوالات کے جوابات آپ سکیں گے منصور حلاج کا پہلا یہ سوال ہمارے پاس طارق بخاری صاحب کا ہے جس میں انہوں نے پوچھا کہ کیا باجماعت ادا کی جا سکتی ہے سب سے پہلے تو یہ دیکھنے والی بات ہے کہ نماز تسبیح پڑھنے کا ذکر کس حد تک مستند ہے والی بات تو کے بعد میں آئے گی پہلے تو یہ کہ انفرادی طور پر پڑھی جا سکتی ہے کیا اس نماز کا ذکر قرآن حدیث سے میں یہ سب سے پہلی بات تو یہ ہے کہ قرآن کریم میں نماز کے بعد دو کتابیں اصل کتب کہلاتی ہیں بخاری صحیح بخاری اور صحیح مسلم صحیح لکھا جاتا ہے ان مستند حدیث کی کتابوں میں صلوۃ تسبیح پڑھنے کا انفرادی طور پر یا باجماعت کسی طور کسی رنگ میں بھی ذکر نہیں ملتا بازی روایات میں یہ ملتا ہے کہ صلاۃ و تسبیح پڑھنی چاہیے اور ان کا خلاصہ میں بیان کر دیتا ہوں اور خلاصہ یہ ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے چچا حضرت عباس رضی اللہ تعالی عنہ کو یہ نصیحت کی کہ آپ روزانہ صلاۃ و تسبیح پڑھنا کریں کریں اگر روزانہ نہ پڑھ سکیں تو پھر ہفتے میں ایک مرتبہ پڑھ لیا کریں کریں اگر ہفتے میں ایک مرتبہ نہ پڑھ سکیں تو پھر مہینے میں ایک مرتبہ پڑھ لیا کریں اور مہینے میں نہ پڑھ سکے تو ایک سال میں کم از کم ایک مرتبہ صلاۃ تسبیح پڑھ لیا کریں تاکہ اگر ایک سال میں بھی نہ پڑھ سکیں تو کم از کم زندگی میں ایک مرتبہ ضرور پڑھ لینی چاہیے تاکہ زیادہ تاکید فرمائی لیکن حیرت کی بات یہ ہے کہ جس بات کی انہوں نے اتنی تاکید فرمائی ایک ضعیف سے ضعیف حدیث میں بھی نہیں ملتا صحابی نے بعد میں یہ نماز جاری کی ہویا پڑی ہو کسی بھی رنگ میں اور جو خلفائے راشدین حضرت علی علیہ وسلم کے بعد اس نے فرمایا کہ علیکم بسنتی وسنت الخلفاء الراشدین کے میرے بار تو میری سنت اور خلفائے راشدین کی سنت کی پیروی کرو تو کسی جگہ بھی یہ میں کل نہیں ملتا کے خلفاء میں سے کبھی کسی نے یہ پڑی ہو پھر تابعین آتے ہیں پھر تبع تابعین ہیں ان میں کبھی بھی یہ نماز کا تذکرہ کس رنگ میں نہیں ملتا یہ نماز کبھی انہوں نے پڑھی ہو یا کوئی واقعہ اسلامی ہوا ہو تو اس لیے وہ نماز کے بارے میں اتنی تاکید کی گئی ہے اور ان سب کا ان سب کا بیان تبع تابعین کا نہ پڑھنا بتاتا ہے کہ لازم اس روایت میں کسی قسم کا کوئی احساس کم رہ گیا ہے اس کے نتیجے میں یہ روایت ہم تک اس رنگ میں پہنچی ہے کہ گویا بہت زیادہ فائدہ یہ بھی ہے کہ اگر کوئی پڑے گا توواقعہ حضرت حسن نے نہیں پڑھی قرآن کریم میں ذکر نہیں بخاری میں ذکر نہیں مسلم ذکر نہیں البتہ بعض دوسرے درجے کی وقت بیان میں اس کا تذکرہ ملتا ہے اور دلچسپ بات یہ ہے کہ پڑھنے کا طریقہ ہے ہے ایسا طریقہ کہ انسان اس میں گنتی کی طرف توجہ زیادہ ہوتی ہے اور ذکر الہی کی طرف توجہ کم ہو جاتی ہے مختلف مواقع پر اپنے تسبیحات پڑھنے ہیں وہ خاص قسم کی تسبیحات ہے اللہ اکبر لا الہ الا اللہ سبحان اللہ تین چار قسم کی ہے کہ ان کی حالت میں پڑھنی ہے رکوع کی حالت میں پڑھنی ہے پندرہ سو مرتبہ اپنے دیہات پڑھنی ہے اور ساری توجہ ان کی طرف دیکھنا پڑے گا لیکن یہاں پیار کرنا چاہوں گا کہ کہ ان ممالک بھی نہیں کہ اعمال کے ساتھ تعلق ہوتا ہے اگر کوئی کسی ایسی نیت کے ساتھ پڑھ لیا کہ ایک ضعیف حدیث میں تکلیف روایت میں یہ ذکر موجود ہے اور وہ ثواب کی نیت سے پڑھے تو اس کا فیصلہ اس کے ساتھ ہے حضرت علی رضی اللہ تعالی عنہ کے متعلق واقعہ ملتا ہے تاریخ میں ملتا ہے کہ ایک شخص ایسے وقت میں نماز پڑھ رہا تھا جب نماز کا وقت نہیں تھا اور وہ ممنوع اوقات میں سے تھے جب انہوں نے منع فرمایا ہوا کہ اس وقت نماز نہیں پڑھنی آتی ہیں تو اس کے خلاف تھا تو اللہ تعالی عنہ نے فرمایا کہ ان کو کہا گیا کہ ان کو منع کریں فرمایا کہ دیکھو میں تو اس بات سے ڈرتا ہوں کہ کہیں اس آیت کی روایت کے تحت میں آج اس میں اللہ تعالی نے فرمایا آیت اللہ جناب ماشاء اللہ کیا تم نے اس شخص کو دیکھا جو ایک نماز پڑھتے ہوئے شخص کو روکتا ہے ہے تو ہمارا بھی جواب یہی ہے کہ ہم ہر کوئی پڑھ رہا ہے تو ہم اس کو منع نہیں کریں گے نماز پڑھتے ہوئے لیکن مسئلے کی حد تک یہ واضح ہوجانا چاہیے کہ اتنی تاکید اس کی ملتی ہے یا کتنی مستند جو ہے وہ بات ہے ہم یہ بتانا چاہتے ہیں کہ علمی لحاظ سے کس درجہ پر ہوں ملتی ہے اور اس میں وسلم کی سنت خلفاء کی سنت صحابہ کی سنت سے ہمیں کیا نظر آتا ہے کیونکہ بعض لوگوں نے اس میں بیان کرنا اس لئے ضروری ہے کہ جو ہے وہ خیال کرتے ہیں کہ بس یہ کام کرلوں وقت نکال کے محنت کرکے یہ کام کر لو تو باقی سارا کچھ جاؤ محفوظ جگہ پر جائے گا جو گناہ کیے ہیں جو کمی زیادتی جو ہے نیکیوں میں عبادات میں ہے وہ اس کے ذریعہ سے گویا پوری ہوجائے تو اس نقطہ نظر سے شروع کر دیا جائے تو وہ باقی چیزوں سے جو اس سے زیادہ بنیادی ہیں اور ہم ہیں اور فرض ہے اس سے انسان مر جاتا ہے اس کو چھوڑ دیتا ہے اور ایک چیز پر اور اس کی طرف مائل ہو سکتی ہے اس لئے اس کا وہ باہر سے بیان کر دینا اور غالباً حضرت خلیفۃ المسیح الرابع رحمہ اللہ نے فرمایا کا عمل دخل ہے یا اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے مزاج سے ملتی جلتی بات نظر آتی ہے اس کے بعد کرنا اور کوئی واہ صابر کے یہاں نسلوں کی طبیعت سے یہ جو ہے مزاج سے ہمیں بات ایسی نظر آتی نہیں کہ انسان کے پاس کتنی طبیعت ہو گئی اب کتنی ہوگی آپ کتنی ہوگی زیادہ اس کو یہ ہم اس پروگرام میں سے بھی کھول رہے ہیں کہ جو کہ جس طرح آپ نے کہا کے لوگوں نے اصل میں کیا چھوڑ کے اس کی اتنا رواج شروع علاقوں میں ہو گیا کہ جس طرح یہ سوال ہیں کہ باجماعت ادائیگی شروع کی جا سکتی ہے اور خاص طور پر رمضان میں خواتین کو باجماعت بعض جگہوں پر ادا کرتی ہیں اور اس کو ادا کرنا بڑا ضروری سمجھتے ہیں تو اس میں جس طرح منصور صاحب نے کہا کہ دیکھنے والی چیز یہ ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے اگر اس کی طرف اتنی تاکید کی تو صحابہ سے تو کبھی بھی اس کا ملتا ہی نہیں ہے تو ہمیں اس بات کو خاص طور پر دیکھنا ہی جب شعبہ نے نہیں کیا تو پھر اس کو اس طرح اس کو پرمیشن مل رہی ہے جس طرح اس کا رواج بڑھ رہا تھا اور آفتاب کا اپنے خاص طور پر ذکر کیا ہے یہ بھی درست ہے اس زمانے میں بھی بہت کثرت کے ساتھ خاص طور پر پاکستان پاکستان کے علاقوں میں جہاد کے علاقوں میں خواتین میں اس کا بہت زیادہ رواج ہو گیا تھا اور اس لیے حضرت صاحب نے حلقے میں سیلاب نے بڑی وضاحت کے ساتھ اس کو فروغ دینے کے لیے انہوں نے فرمایا کہ ہوتے ہیں یہ چیز بہت ضروری ہے جس کی طرف توجہ کی حاضری سوال جو ہے یہ ہمارے پاس ہمارا سلم صاحبہ ہیں ان کا سوال ہے ہے کہ وہ پوچھتے ہیں کہ کیا نومولود بچی جو ہے اس کا بھی حدیث میں بچوں کا یہ ملتا ہے کہ ان کے جو ہے وہ دن گئے بالواسطہ کے بارے میں حدیث کے الفاظ جو ہیں یہ حدیث جو ہے سنن نسائی جو سیاست اچھے صحیح کتابیں جو کی جاتی ہیں ان میں سے کون سی میں یہ حدیث موجود ہے حضرت سمرہ بن جندب رضی اللہ تعالی عنہ سے روایت ہے کہ انہوں نے کہا کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس پڑھتا ہوں کہ کلو غلام رہینۃ بعقیقتہ ہیں بس اب یہی وہ اس کا مطلب یہ ہے کہ ہر جو بچہ ہے وہ لڑکا ہے یا لڑکی اس کے بدلے میں گروی رکھا ہوا ہے ہے لہذا اس کی طرف سے ساتویں دن قربانی ذبح کی جائے اس کے سر اس کا سر منڈا جائے اور اس میں عقیقہ کر لیں اور اس کا عنوان اور نام رکھنے کی بات کی ہے ہے اس حدیث کی کتاب سنن سے اس کی تشریح میں بادشاہ غلام ہے یہ متعلق ہے یعنی مطلب صرف مولود کے لیے آیا ہے جو پیدا ہونے والا بچہ ہے یابچی ہے یہ غلام کا لفظ اس کے لئے استعمال دونوں معنوں میں ہو رہا ہے اور خاص طور پر وہ کہتے ہیں کہ چونکہ اس میں تین باتیں کی گئی ہیں جس میں سے ایک سر منڈوانا ہے باقی کا جو ہے وہ دوسری احادیث میں بچی کی طرف سے بھی ہوتا ہے اسی طرح نام جو ہے وہ بچے کا بھی رکھا جاتا ہے بچی کا بھی ہے وہ کہتے ہیں کہ سر منڈوانا جو ہے اس میں بھی بچہ ہو یا بچی ہو دونوں شامل ہوں گے اور جب بچہ پیدا ہوتا ہے تو اس میں تو کوئی ایسی خاص ضرورت نہیں ہوتی کہ ضرور چونکہ یہ بچی ہے توعقیقہ بھی کیا جاتا ہے بچے کا بھی اور بچے کا بھی تو پھر تیسری چیز ہے اس میں پھر فرق رکھا جائے وہ بھی بچہ ہو یا بچے ہو دونوں کی طرف سے وہ ہوتا ہے جو مشکل کی ایک حدیث میں باتیں بیان ہے اور کسی اور الگ حدیث نے اس کی ممانعت بھی نہیں کی اس لئے اگر ایک جگہ وہ کم اور اس میں سے دو باتیں جو ہے وہ بلا تفریق بچی پر بھی بھلا کب آتی ہیں اور کوئی حدیث میں منع بھی نہیں کر رہی اس لیے نہیں نظر آتی ہے ہمارے پاس یہ مقبول اکمل صاحب کا منصب سنبھالا انہوں نے یہ پوچھا ہے کہاں ہے ہو جاتا ہے استعمال جو بناتے وہ پاک ہو جاتا ہے اصل میں یہ چیز بھی تحقیق طلب ہے کہ آیا وہ اسی پانی کو جو ویسٹ ہوتا ہے اس کو قابل استعمال بنا تے ہیں یا کوئی اور بات کی تھی تو مجھے پتا لگا کہ مجھے باقی ممالک مثالیں تو نہیں میں نے چیک کی کے کے حوالے سے میں نے چیک کیا کہ پانی وہ دریا سے لیتے ہیں یا بارشوں کا پانی کسی جگہ اکٹھا کیا جاتا ہے پھر وہ پانی جو دریا سے لیا جاتا ہے اس پانی کو پھر اس کیا جاتا ہے قدرتی طریقہ سے اس کو صاف کیا جاتا ہے صاف کرنے کے بعد پھر وہ گھروں میں سپلائی کیا جاتا ہے اور اس کو استعمال کیا جاتا ہے پھر جو پانی نکلتا ہے جو اخراج ہوتا ہے جو اس پانی کا ذکر کے صاف کرکے پانی کو وہ بھی اس کا بھی توسی ہے کہ قدرتی پراسیس ہے کہ جس طرح پتھروں کی طرف سے پانی نکالا جاتا ہے حسینیت کی ٹیم سے گزارا جاتا ہے اس کے بعد دوبارہ پھر اس کو دریا میں پانی کی حالت میں کارخانوں سے نکلنے والا پانی یا گھروں سے نکلنے والا پانی پانی ناپاک اور کی حالت میں دریا میں پھینکا جاتا ہے اسی طرح سے وہ پانی دوبارہ جواب لیا جاتا ہے لیکن اس میں یہ نہیں ملتا کہ وہ والا پانی کے اخراج کا اخراج ہورہا ہے وہ پانی 2019 استعمال کیا جاتا ہے اس کو ری سائیکل نہیں کیا جاتا اس لئے تو یہ بات بھی وضاحت طلب کی تھی اس لیے میں نے اس کا دوسرا یہ کہ پانی کی ناپاکی ہے کیا چیز ہے یہ بھی اس پر بھی غور کرنے والی بات ہے یہاں تک کہا جو اس نے بنائے ہیں ان قائد کے 10 اگست صرف دس میٹر اگر کوئی جگہ ہے اور وہاں پانی موجود ہے تو وہ آپ سے اگر کوئی گندگی ہلکی پھلکی سی چلی جاتی ہے تو وہ صاف پانی وہ جو یار ہے وہ پانی کا ذخیرہ ہے وہ صاف ہو ہم سے آگے آگے نہیں نہیں ہے لیکن اگر اس سے زیادہ چلی جائے گی یا صرف تبدیل ہوجائیں تو اس صورت میں میں پھر اس پانی کو چھوڑ دیا جائے اور اس کو نہ استعمال کیا جائے وہ کسی طرح سے خوبصورت جواب عنایت فرمایا حضور نے فرمایا کہ ہمارا یہ مذہب نہیں ہے کہ جس طرح وہ کہتے ہیں کہ اگر اتنا پانی ہے اس وجہ سے چلی گئی ہے تو اتنے ہی تو پانی صاف ہوجائے گا یہ نظریہ پیش کیا جاتا کہ اتنے ڈول نکالنے تو وہ پانی جو پانی کا ذخیرہ کو صاف ہو جائے تو ہمارا یہ مسئلہ نہیں ہے ہمارا مذہب یہ ہے کہ اگر تمہیں اصل بتا دیتا ہوں کہ قرآن کریم میں آیا ہے ورزہ پہ جو کہ ہر گندگی کو چھوڑ دو کو چھوڑ دو فرمایا کہ جب پانی کی حالت اس قسم کی ہو جائے جس سے صحت کو ضرر پہنچنے کا اندیشہ ہو تو صاف کرلینا چاہیے سادہ سا عام فہم اصول حضور نے بیان فرمایا کہ جب صحت کو ضرر پہنچےآجائے تو اس کو چھوڑ دو فرمایا کہ مسلمان پر پڑھیں یا کیڑے پڑ جائیں تو یہ جو فرمایا کہ اللہ کے اس پر یہ حملہ وغیرہ نیچے سونا پاک ہونے کا فتویٰ نہیں دیتے لیکن اس کو ہم استعمال نہیں کرے گا کہ یہ کوئی بھی دور نہیں ہے کہ جب تک ایران اور مزہ نجاست سے نہ بدلے وہ پانی پاک ہے ایسا کوئی معیار نہیں ہے قرآن کریم نے ہمیں ایک ہی مار دیا ہے اور اسی میں آپ کو ہم استعمال کریں گے ورز پہ چل کے اگر ناپاکی آگئی ہے صحت کے لحاظ سے ہو گیا وہ پانی کو چھوڑنا استعمال کرے اور جہاں تک اس بات کا اندازہ پانی صاف کیا جاتا ہے تو یہاں پے جو پانی صاف کرکے پیش کیا جاتا ہے ان میں تو جراثیم عمدہ خیال میں تو شاعر ہوں لیکن اس میں تو کسی طور پر بھی جراثیم نہیں رہنے دیتے اور بار بار پائپ لائن کی صفائی ہوتی ہے اور ہر جگہ ان کی صفائی ہورہی ہوتی ہے پھر رینڈم چیکپ کرتے ہیں جو کمپنیاں کرتی ہیں ہیں ان کا یہ چیک کرتے ہیں کہ واقعی ان کی صفائی ہورہی ہے کہ پانی اس کی مثال یہ ہے کہ روزانہ ہر گھر سے اور کمپنی سے 51 مختلف طریقوں سے پانی کا ٹیسٹ کیا جاتا ہے ہے نہ اور کیا تھا کہ پانی پینے کے لئے ٹھیک ہیں اور اس کے بعد لوگوں کو دیا جاتا ہے اور اگر یہ پانی اتنا خراب ہوتا تو اتنے لوگ جو روزانہ پانی پی رہے ہیں وہ بیمار ہو جائے تو یہ یورپین ممالک کے لیے یہ بہت بڑی پرابلم تھی تو فرمایا کہ جب صحت کے لیے نہ ہو جائے تو پھر اس کو چھوڑ دیں اور اس کے علاوہ اور کوئی نہ پا کی کوئی اور مثال موجود نہیں ہے اور یہ بھی یہ عرض کروں گا کہ اسلام نے اس بات کو بھی پیش کیا ہے کہ غیر ضروری باتوں کی طرف غیر ضروری بحث نہیں کرنا چاہیے بعض لوگ ایسے ہیں کہ ان کا بس چلے تووہ خود دل لے کر مائکروسکوپ لے کے پانی میں دیکھیں کہ اس میں کوئی مسئلہ تو نہیں ہے تو وہ پانی بھی نہ پیس کے مطابق کتنا تجھے محسوس کرتے ہیں سے ضرور لگ رہا ہے کیونکہ اس میں ضرور نظر آئیں گے سانس بھی نہیں دے سکتے ہیں بنیادی پیاری ہے نہیں کرتی اور جب دیکھو کہ صحت کے لیے نقصان دہ ہے تو اس کو چھوڑ دو کرتے رہو گے جو پانی ہمارے ہاں مسلمان ہر کا دریا کا جو نظر آتا ہے اور بظاہر لگے گا کہ صاف ہے اور اس کے اندر بہت سی چیزیں ہوتی ہیں لیکن یہاں پر جو ہے وہ خود بھی رو سے دیکھ کے اس کے جو باریک باریک جراثیم وغیرہ یہ بھی ہیں وہ بھی ان کو نظر آتے ہیں اس کا ٹیسٹ کر کے اور ایسی ساری مدرسے ختم کر کے مطابق تیار کرتے تو پھر وہ مہیا کیا جاتا ہے جو ہے اس کا معاملہ ضلع کراچی کی نمائندگی میں یہ سوال بھیجا گیا ہے انہوں نے یہ لکھا ہے کہ آج کل اس کا واٹس ایپ نمبر جو ہے دور بیٹھے ہوئے رابطے ہو جاتے ہیں انسان آواز بھی سن لیتا ہے یہ بھی دیکھ لیتا تھا کہ اس ذریعے کو استعمال کرتے ہوئے لوگ قرآن کریم پڑھاتے ہیں اور اس کا معاوضہ جو ہے وہ ہوتا ہے ہے دل میں تھوڑی قیمت نالوں اس آیت کی موجودگی میں اس کے ہوتے ہوئے کیا اس طرح کی آمدنی اسلام میں جائز ہے قرآن کو پڑھ کے ان آیات کو تو آمد پیدا کی جائے آیت میں جو بیان ہوا ہے وہ یہ ہے کہ لا تشترو بایات یہ ہے کہ کوئی آیات کو بیچنا یا ان کے ماضی کی بات نہیں ہو رہی بلکہ اس میں یہ بیان ہو رہا ہے کہ میری آیات میں جو دین کی تعلیمات دی جارہی ہیںطرف نہ جاؤ یہ اس میں بیان ہوا ہے اور حضرت مسلم اور اللہ تعالیٰ عنہٗ نے تفسیر کبیر میں بڑی وضاحت کے ساتھ ان آیات کا ترجمہ کیا بلکہ وہاں پے حضرت ام سلمہ رضی اللہ انہوں نے بڑا خوبصورت لطیفہ بھی بیان کر واقعہ بیان کیا کہ اس آیت کا غلط استدلال کرتے ہوئے حضور فرماتے ہیں دور کی بات ہو رہی تھی کہ بعض حملہ دو چار آنے کا قرآن کریم خرید کے تو دیہاتیوں کو 24 روپے میں فروخت کیا کرتے تھے تو ان سے جب یہ کہا جاتا کہ یہ تم دو چار آنے کا ثرید کے 24 واقعات نا زیادہ منافع تو اس میں وہ یہ آیت سناتے تھے کہ قرآن کریم میں یہ کہا گیا ہے کہ میری آیات کے بدلے میں تھوڑی قیمت نہ لو مطلب یہ ہے کہ وہ انہوں نے اپنے مقصد کے لئے اس کو استعمال کیا اور کہا کہ زیادہ قیمت لی جا سکتی ہے زیادہ سے زیادہ ہی نہیں ہے اس کا مطلب یہ ہے کہ کہ دین کو چھوڑ کے دنیا کی طرف نہ جاؤ تواسلام جدائی میں تعلیم اور دائمی حقیقت اور دین و دنیا کو سنوارنے کے لئے جو تعلیمات بیان کر رہا ہے اس کو چھوڑ کے صرف اپنی اس دنیاوی زندگی کو سنوارنے کے لئے ان کی معلومات ہمیں ان کی تائید کے معنوں میں نہ پڑ جائے بلکہ دین کی طرف آؤ تو اس لیے یہ جو کھائے یا تھوڑا بہت اجرت مقرر ہوتی ہے تو اس میں کوئی حرج نہیں ہے ورنہ تو جو مدرسے ہیں جن میں دینی تعلیمات دی جاتی ہیں ان کے ٹیچرز اساتذہ جو ہیں وہ سارے بند ہوجائیں اور ان کے چہروں کا گزارا ہے نہ ہو کہ تم تو قرآنی تعلیم دے کے اس کا مزہ لے رہے ہیں تو بڑا ظلم ہے قرآن استاد کو نہیں ملے گا صبح جو باقی حدیث اور کلام اور باقی جو پڑھا ہے اس کو پیسے ملتے ہیں صحیح بات ہے پھر حضرت اس دور میں جو دین کی تجدید کے لئے سب سے بڑا پہلوان جو ہے حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے جب حضرت مسلم رضی اللہ تعالیٰ عنہ کو قرآن کریم کی تعلیم دلوائی تو جس سے پہلی دفعہ میں قرآن کریم ختم کروایا حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے بھی ان کو پڑھانے والے استاد کو کچھ معاوضہ پیش کیا تو یہ کوئی حرج کی بات نہیں ہے اور اس سے اگر چند تھوڑے سے جس طرح تعلیم دے رہے ہوتے ہیں بڑی محنت سے ایک ہے وہ آخر اس کا خرچ بھی کرتے ہی انہوں نے انٹرنیٹ بھی لگایا ہو گا ابھی کو کمپیوٹر یہ سارا ہے اور سب سے بڑی بات یہ ہے کہ اس کے نتیجے میں اگر بچوں کو یہ جو پڑھ رہے ہیں ان کو قرآن کی تعلیم مل جائے تو اور اس سے بڑھ کر اور کیا ہے ہے سب سے بڑا خزانہ یہ مل رہا ہے تو والدین اس پر کچھ دیتے ہیں وہ ماضی کے طور پر دی یا ہدیہ کے طور پر دیا تحفے کے طور پر دی اس میں کسی قسم کا کوئی حرج کی بات نہیں ہے پڑھانے کا وہ ساری دنیا میں ساری امت میں قائم ہے اس میں کسی ایک مکتبہ فکر کا کوئی دخل نہیں تو اس لئے جو بات مسلمہ ہے وہ چلی آ رہی ہے جو آج جو سوال کے اندر تھی اس نے مجھے ختم ہوگی یاد رہے کہ بات تو یہ ہے کہ قرآن کے بدلے میں جو بھی قیمت لی جائے گی جو بولے وہ تو ان کا اللہ تعالی نے زندگی گزارنے کا ایک انسان کے لیے ایک طریقہ بھی تو مقرر کی ہے اس بار ضرور تھی اس کی اپنیپاکستان میں اور ہندوستان کا دیا ان میں بڑی عمر کی خواتین باقاعدہ گھرا ہوتا تھا اس میں پڑھتے ہیں اور روزگار یا ہے کہیں یہ آیت یا اس کو روک رہی ہے بارہ سوالات کا یہ سلسلہ جو ہے آج اس کا یہاں پر اختتام ہوتا ہے اگلے پروگرام ہے جو مزید سوالات آ گیا جس کے ذریعے ان پر عمل کرتے رہیں گے مہمانوں کا شکریہ ادا کرتے ہیں جنہوں نے وہ سوالات جو آئے اور آپ کے لیے بھی وہ کا باعث ہوں گے اور آپ کی وجہ سے اور بھی بہت سے لوگ اس سے فائدہ اٹھا لیتے ہیں آپ سب کو اس میں شرکت کرتے ہیں انشاءاللہ پھر ملاقات ہوگی اجازت دیجیئے السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ الہ الا اللہ محمد الرسول اللہ اللہ محمد الرسول اللہ