Ahmadi Muslim VideoTube Rahe Huda,Youtube Rahe Huda – Musleh Maood Khalifa II Mirza Bashiruddin Mahmood r.a – Ishqe Quran

Rahe Huda – Musleh Maood Khalifa II Mirza Bashiruddin Mahmood r.a – Ishqe Quran



Rahe Huda – Musleh Maood Khalifa II Mirza Bashiruddin Mahmood r.a – Ishqe Quran

https://youtu.be/KFauPMljrCk

Rah-e-Huda – 8th February 2020 – Qadian India


 ہم تو رکھتے ہیں مُسلمانوں کا دن دل سے ہے خدا میں خط عمل مراسلے دل سے ہے خود آدمی موبائل مرسلین فتح المعلم ورسز اعوذ باللہ من الشیطان الرجیم بسم اللہ الرحمن الرحیم ناظرین کرام اسلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ 8 فروری 2020 ہفتہ کا دن ہے انڈیا میں اس وقت رات کے ساڑھے نو بجے ہیں اور چیونٹی کے مطابق سہ پہر چار بجے ہیں اور ناظرین یہ وقت آپ پروگرامر ہیں خدا کا قادیانیوں سے پروگرام ہے اللہ کی سیریز کے دوسرے پیسوں کے ساتھ اس وقت ہم آپ کی خدمت میں حاضر ہے اگر بیوی سے جانتے ہیں کہ پروگرام راہ خدا میں ہم جماعت احمدیہ کے عقائد اور ا اور ایک ایسے بچے کا پیدا ہونا جس کے اندر بعض مخصوص خوبیاں بھی اللہ تعالی کی طرف سے ودیعت کی جانی تھی اس کے بارے میں خبر دینا درست ہے مگر اللہ کے عمل دخل سے بالکل پاک ہے اور اس بات کا ثبوت ہے کہ یہ جو پیشگوئی حضرت موسی علیہ السلام کو عطا کی گئی ہے وہ ایک زندہ خدا کی طرف سے ان کے طور پر حضرت اقدس مسیح موعود علیہ السلام کو عطا کی گئیس کی تعلیمات کے تعلق سے بات کرتے ہیں اور یہ پروگرام ہمارا ایک انٹرایکٹو ڈسکشن پروگرام ہے جس میں ہم اپنی گفتگو کے دوران اپنے مجاہدین کو بھی اپنے ساتھ اس پروگرام میں شامل کرتے ہیں ٹیلی فون لائنز کے ذریعے ہمارے مشاہدے اپنے سوالات ہمارے علماء کرام کی خدمت میں پیش کرتے ہیں اور اپنے سوالات کے جوابات بھی اسی پروگرام کے ذریعے سے حاصل کرتے ہیں ٹیلی فون لائنز کے علاوہ ٹیکس میسج رسمی سائنس کی سہولت موجود ہے جس کے ذریعے ہمارے ناظرین اپنے سوالات ایم اے قادیان کے سٹی اسپتال پہنچا سکتے ہیں ایک مشاہدہ کر رہے ہیں تو میں آپ کو بتانا چاہوں گا کہ آج کے پاس وڈ میں اگر آپ ہمارے ساتھ اس پروگرام میں جاننا چاہتے ہیں تو ہم سے رابطہ کی تفصیل میں امید کرتا ہوں کہ اس وقت آپ نے لیکن سکرین پر ملاحظہ فرما رہے ہیں ناظرین جانتے ہیں کہ پروگرامر عہدہ کی قادیان سیریز ہم آپ کی خدمت میں پیش کر رہے ہیں اس مکمل سیریز میں ہم پیشگوئی مصلح موعود کے تعلق سے بات کر رہے ہیں جیسا کہ گذشتہ ایپیسوڈ میں بھی ہم نے بتایا کہ ماہ فروری جماعت احمدیہ میں تاریخی اعتبار سے اہمیت کا حامل ہے اس لحاظ سے ہے کہ سنہ 1986 میں اللہ تعالی نے حضرت اقدس مرزا غلام احمد صاحب قادیانی جماعت احمدیہ مسیح موعود اور مہدی معہود علیہ السلام کو ایک عظیم الشان فرزند کی ولادت کی خبر عطا فرمائی تھی جس نے اسلام کی عظیم مثال خدمت کرنی تھی اور اس سے ان کے تعلق سے مختلف خوبیوں کا بھی اس پیش گوئی میں اللہ تعالی نے ذکر فرمایا اور حضرت اقدس مسیح موعود علیہ السلام نے اس پر کوئی کوششیں بھی فرمایا میں آنے والے وقت نے اس بات کا ثبوت دنیا کے سامنے پیش کیا کہ اللہ تعالی نے حضرت اقدس مسیح موعود علیہ السلام کو جس پر زندگی نامی کی پیشگوئی فرمائی تھی وہ دراصل حضرت مرزا بشیرالدین محمود احمد صاحب ہیں جن کو اللہ تعالی نے جماعت احمدیہ میں دوسرے خلیفہ کے طور پر اس عظیم الشان مقام پر بھی مسند خلافت پر بٹھایا جن کے ذریعے سے اسلام کی عظیم الشان خدمات بھی انجام دیں گی حضرت مصلح موعود رضی اللہ تعالی عنہ کے حوالے سے پیش گوئی میں مذکور مختلف علاقوں کے تعلق سے کا بیان سندھی میں بات کر رہے ہیں گزشتہ سیریز میں ہم نے یہ تفصیل آپ کی خدمت میں پیش کی کہ حضرت مصلح موعود رضی اللہ تعالی عنہ نے ہستیاں باری تعالیٰ کے ایک زندہ تصور کو اور توحید کے قیام کے لیے جو عظیم الشان کارنامے سرانجام دیے ہیں اس کے حوالے سے ہم نے آپ کی خدمت میں پیش کی آج کے دن ہم کہ اللہ تعالی نے اس پیشگوئی میں پیدا ہونے والے اس فرزند کے متعلق بتایا تھا کہ کلام اللہ کے مرتبہ کو دنیا پر ظاہر کرنے کے حوالے سے یعنی قرآن مجید کے حقائق و معارف سے دنیا کو آگاہ کرنے کے حوالے سے روشناس کرانے کے حوالے سے وہ جو فرض ہے وہ عظیم الشان خدمات سر انجام دے گا ہم بات کریں گے کہ کس طرح پیش گوئی کی یہ علامت حضرت مرزا بشیرالدین محمود احمد صاحب کی سیرت کے ذریعہ سے پائے تکمیل تک پہنچی اس کے بارے میں آج کے سوٹ میں ہم گفتگو کریں گے ان شاء اللہ العزیز کی آج کے اس اہم موضوع پر گفتگو کے لیے جو علماء کرام اس وقت ہمارے ساتھ ہزاروں کروا دیتا ہوں مکرم و محترم مولانا محمد رمضان صاحب شاہد ہیں اور ان کے ساتھ شفقت و مکرم مولانا منیر احمد صاحب خادم دونوں حضرات پروگرام اہل حدیث قرآن کے خلاف ہے حضرت ابراہیم کا خیر مقدم کرتا ہوں ناظرین کرام پیشگوئی مصلح موعود دراصل اللہ تعالی کی ہستی کا ایک عظیم الشان ثبوت ہے کیونکہ اللہ تعالی نے اس پیشگوئی کے ذریعہ سے بانی جماعت احمدیہ حضرت مرزا غلام احمد قادیانی مسیح موعود و مہدی معہود علیہ السلام کو ایک ایسے فرزند کی ولادت کی خبر دی تھی جس کے ذریعے اسلام کی عظیم مثال خدمت عمل میں لائی جا رہی تھی اور اس کے سپرد اسلام کی عظیم مثال خدمت کا ذریعہ ہے وہ اس پر جانا تھا یہ پیش گوئی اس میں اس موضوع کے تعلق سے مختلف علامات اور اس کی مختلف خوبیوں کا تفصیل سے ذکر کیا گیا ہے  بعد میں آنے والے وقت میں ہم نے اس بات کا جائزہ لیا کہ پیشگوئی مصلح موعود نے اپنی ہم عصر دنیا میں تھوڑا اور باقی دنیا میں کیا اس کی تاثیر رہی ہے اس کے بارے میں بعد میں جماعت احمدیہ کی تعریف ہے اس میں مختلف باتیں جو ہے وہ موجود ہیں موت کے تعلق سے پیش گوئی میں خاص طور پر اس بات کا بھی ذکر ملتا ہے کہ کلام اللہ کا مرتبہ لوگوں پر ظاہر کرنے کے لئے اس موضوع کی طرف سے نمایاں خدمات سر انجام دی جائیں گے یعنی قرآن مجید کے حقائق و معارف سے دنیا کو روشناس کرانے کے حوالے سے وہ جو ہے وہ سر انجام دے گا پھر جب ہم حضرت مصلح موعود رضی اللہ تعالی عنہ کی تفسیر صغیر کو پڑھتے ہیں اور اسی طرح تفسیر کبیر کو پڑھتے ہیں تو ہمیں معلوم ہوتا ہے کہ کس طرح آپ رضی اللہ تعالی عنہ نے قرآن مجید کے حقائق کو مار دنیا کے سامنے پیش کیے ہیں حضرت مصلح موعود رضی اللہ تعالی عنہ  یہ بہت ہی اہم بات ہےکی تفاسیر کو پڑھتے ہیں تو سب سے پہلے ہمیں آپ کی جو قرآن مجید کا جو وعدہ ہے کہ لا یمسہ الا المطہرون اس کا اطلاق آپ کی سیرت پر جو ہے وہ اتفاق پایا جاتا ہے کہ ہمیں پتہ لگتا ہے کہ آپ اللہ کی طرف سے برگزیدہ کیا گیا اللہ تعالی کی طرف سے پاک کیے گئے اور اللہ تعالی کی طرف سے مقدس روح آپ کو دی گئی ہے جس کے نتیجے میں قرآن مجید کے حقائق و معارف بھی اللہ تعالی نے آپ کو سکھائے ہیں اور پھر جب آپ کی تفسیر کو ہم دیکھتے ہیں تو اس سے آپ کی قرآن مجید سے جو محبت ہے وہ بھی ہمیں جھلکتی ہوئی نظر آتی ہے اور پھر آپ رضی اللہ تعالی عنہ اکثر مقامات پر یہ بیان فرماتے ہیں کہ بسا اوقات بعض آیات کی تفسیر اللہ کے حضور دعائیں کرتا ہوں جس کے نتیجے میں اللہ تعالی ان آیات کی تفسیر جو ہے وہ مجھے سمجھا دیتا ہے اس سے ہمیں معلوم ہوتا ہے کہ حضرت مصلح موعود رضی اللہ تعالیٰ عنہٗ کا اللہ تعالی پر توکل بھی بہت غیر معمولی رنگ میں آپ کے اندر پایا جاتا تھا اور قرآن مجید سے عشق ہی نتیجہ تھا کہ آپ قرآن مجید کو مکمل طور پر سمجھنا چاہتے تھے اور وہ فہم اور تعلیم قرآن مجید کی آپ اللہ تعالی سے حاصل کرنا چاہتے تھے تو دوسری طرف جہاں پر آپ کو قرآن مجید کے ساتھ عشق ہے اور جہاں پر آپ کو اللہ تعالی سے توقع ہے وہاں پر ہمیں آپ کی دعاؤں کی قبولیت کے حوالے سے بھی ہمیں آپ کی تفاسیر کو پڑھتے ہیں تو نشان ملتا ہے کہ وہ دعائیں دیں جس کے نتیجے میں اللہ تعالی نے آپ کو قرآن مجید کی وہ فہم اور قرآن مجید کا اگر حق اور قرآن مجید کے حقائق و معارف سے اللہ تعالی نے آپ کو بھرپور رنگ میں آپ کو علم عطا فرمایا جس کو آپ رضی اللہ تعالی عنہ نے آگے دنیا تک پیش کیا ہے اللہ تعالی عنہ کی کبیر کو پکڑتے ہیں برملا یہ کیا ہوتے ہیں کہ گزشتہ جو جو گزشتہ سینکڑوں سالوں میں کبھی اس قسم کی تفسیر معرض وجود میں نہیں آئی ہے بلکہ ایسی عظیم الشان تفسیر بن مسلمہ رضی اللہ تعالی عنہ کے ذریعہ سے دنیا کے سامنے پیش ہوا ہے بہت سے ایسے مسائل جس کے حوالے سے مفسرین پریشان ہوتے تھے اور وہ ان پر کھلتا نہیں تھا ایسے ایسے معاملات کا حضرت مصلح موعود رضی اللہ تعالی عنہ نے اللہ تعالی سے علم پاکر ان آیات کی عظیم الشان تفصیل دنیا کے سامنے پیش فرمائی ہے تو آج کے سونے جیسا کہ میں نے آپ کی عمر کیا ہے آپ کی خدمت میں پیش کریں گے مسلم اور رضی اللہ تعالی عنہ کے حق میں پیش گوئی کے وہ الفاظ کے کلام اللہ کا مرتبہ لوگوں پر ظاہر کرے گا پورا ہوتا ہے آپ کی خدمت میں تفصیل پیش کریں گے ایک مرتبہ پھر میں اپنے ناظرین کو یاد دلانا چاہوں گا کہ حضرت ام سلمہ رضی اللہ تعالی عنہ کی خدمت قرآن کے حوالے سے آج کے سوٹ میں ہم بات کریں گے اگر آپ کے ذہن میں اس حوالے سے سوالات ہیں جو مختلف آن لائن سب کے لیے ٹوئٹر ہیں آپ آن لائن کے ذریعے اپنے سوالات اور علمائے کرام کے بارے میں پیش کرکے ان کے جوابات حاصل کر سکتے ہیں میں گفتگو کا آغاز محترم مولانا محمد کریم الدین صاحب سے کرنا چاہوں گا سب سے پہلے ہم آپ سے پوچھنا چاہیں گے کہ حضرت مصلح موعود رضی اللہ تعالی عنہ کے اندر اللہ تعالی نے قرآن مجید کا عشق جو ہے وہ ابتداء سے ہی ودیعت کر رکھا تھا تو اس حوالے سے آپ کی سیرت کا جب ہم مطالعہ کرتے ہیں تو اس میں کیا واقع ہے اور کیا تفصیلات ہمیں ملتی ہیں وہ میں آپ سے جانا چاہوں گا ناظرین و سامعین کرام جیسے کہ عربی کا ایک محاورھ ہے کہ من احب شیئا اکثر ذکرہ کہ جو شخص کسی سے محبت رکھتا ہے جو شخص کسی سے عشق کرتا ہے وہ اس کا ذکر کثرت سے کیا کرتا ہے اس لحاظ سے حضرت مسلم اور مرزا بشیر الدین محمود احمد اللہ تعالی عنہ کا وجود تھا شروع سے ہی جیسا کہ میں آپ کے ساتھ فرمایا کہ اللہ تعالی کی طرف آپ کی محبت تھی اگر لمبی لمبی دعائیں آپ کیا کرتے تھے کہ اللہ تعالی کا قرب آپ کو حاصل ہو جائے کتنے بجے تک عاشق تھا آپ کے دل میں کہ ہمیشہ آپ کی سوچ کا جو محور ہوتا تھا وہ قرآن مجید ہوا کر قسم کا مسئلہ ہو کسی قسم کی کوئی بات ہو کوئی تحقیق طلب امر ہو جو سمجھ میں نہ آتی ہو تو آپ کا رجحان فوری طور پر قرآن مجید کی طرف جاتا تھا کہ قرآن مجید اس سلسلے میں کیا رہنمائی کرتا ہے کے آپ کا ایک شعر ہے اور ان کے بارے میں بھی آپ کے بہت سارے اشعار بھی کہے ہیں ایک شیر میرے ذہن میں یہ ہوتا ہے کہ فرماتے ہیں کہ ایمان مجھ کو دے دے عرفان مجھ کو دے دے مان جاؤ تیرے قرآن مجید کو دے دے تو اس لحاظ سے اللہ تعالی سے دعا ہے آپ نے ک سو چوالیس میں تیسرے پارے کا مکمل درس آپ نے دیا 1949ی ہے قرآن کے تعلق سے وہ حقائق اور معارف اللہ تعالی نے آپ کو ایسے عطا کیے ہیں کہ ابتدا میں سورہ فاتحہ کی تفسیر ہے وہ فرشتے نے آپ کو سکھائیں اس کے بعد جو علوم آپ نے مختلف تفاسیر میں بیان کیے ہیں وہ ایسے ہیں بلکہ ساری دنیا کو یہ چیلنج آپ نے دیا ہوا ہے میرے ساتھ اگر مقابلہ کرنا ہے تفصیل نویسی میں مقابلہ کر کے دیکھ لو اور ایسے حقائق اور مال بیان کریں میں انشاءاللہ بیان کروں گا جو پہلے کسی تفسیر مسیح موعود علیہ السلام کی تفسیر کو چھوڑ کر باقی کسی بھی پرانے مفسرین کی تفسیری آپ لے آؤں میں اللہ تعالی کے فضل سے ایسی تفسیر اللہ تعالی کی تائید و نصرت سے بیان کروں گا کہ جس کے نتیجے میں وہ حقائق اور معلومات آپ کو ملیں گے جو آج تک کسی مفسر کے ذہن میں نہیں آئے تھے کیا آپ کے اس قرآن کا یہ ایک ثبوت ہے کہ آپ کی عمر ابھی 21 سال تھی 1910 کی بات ہے اٹھارہ سو نواسی میں آپ کی پیدائش ہوئی ہے اور 1910 میں آپ کی عمر 21 سال کی ہوئی تو 21 حضرت عمر میں آپ کو لینے دس دینا آپ نے شروع کیا اس کا اصرار تھا کہ تھے انہوں نے یا آپ یعنی صاحبزادہ مرزا بشیر الدین محمود سی خدمت دین اور اشاعت اسلام کا جوش اپنے سینے میں رکھتے ہیں وہ اب عملی رنگ اختیار کرتا جاتا ہے قوم کے لئے بہت ہی مسرت بخش اور امید افزا ہے اللہ تعالی روح القدس سے آپ کی مدد کریں اور حضرت امیر المومنین کی تربیت اور دعاؤں کے پھلوں سے اسلام کا بول بالا ہو تو یہ کیا ہے آپ نے درس قرآن دینا شروع کیا درس دو قرآن دینا کوئی معمولی بات نہیں ہوتی ہے اس کے حقائق اور معرفت پر خود آدمی جب غوروفکر کرکے اتنا پتا ہے تو آگے لوگوں کو وہ معاہدہ تقسیم کرتا ہے کہ جب تک قرآن کا علم ہی نہ ہو تب تک وہ آدمی مدرسہ بھی نہیں دے سکتا ہو جائے کہ قرآن کا وہ بیان کر سکے چنانچہ اب ہم دیکھیں گے اور اس کے بعد 1983 دن میں نے تو ایک دفعہ کر دیا کرتے تھے انیس سو تراسی پھر اپنے دو دفعہ درس دینا شروع کیا کے بعد جواب دیتے تھے قرآن مجید کا نزول کے بعد بھی آپ درس دیا کرتے تھے تو یہ آپ کا برا نہیں تھا ورنہ دیکھیے کس حسن کی عمر نوجوان جوانی کا زمانہ ہوتا عام طور پر آدمی جو ہے وہ جوانی دیوانی جیسا کہ کہا جاتا ہے اس کے شغل اور الگ ہوتے ہیں اس کی طبیعت تھی اور ہوتی ہے کھیل کود کا سامان تو بچپن کا ہوتا ہے لیکن جو انہیں بھی جو ہے وہ انسان سوچتا ہے کہ کس طرح سے میں اپنی جوانی کو گزاروں تو یہ زمانہ بھی ایک لحاظ سے بڑا اور مہنگا والا دیوانہ ہوتا ہے لیکن تمام نہ چھوڑ کے حضرت خلیفۃ المسیح اگر یہ کے ساتھ قرآن مجید سے اکتا اسے اپنے قرآن کا درس دینا شروع کیا پھر 1913 میں آکے آپ نے قرآن مجید کا درس دن میں دو دفعہ پڑھنا شروع کیا اس کے بعد بھی اور ظہر کے بعد بھی لوگ اس سے استفادہ کرتے تھے اب تفصیل میں آپ کے سامنے رکھتا ہوں دیکھئے کہ کس طرح سے آپ نے قرآن مجید کے درس دینے شروع کیے ہیں پھر خلافت پر متمکن ہوئے ہیں کرامات 1914 میں درس قرآن مجید کا آپ نے باقاعدہ آغاز کیا جو بعد میں آتا ہے قرآن کے نام سے جماعت میں جانا بھی ہو چکا ہے پھر جون 1917 میں قرآن مجید کے پہلے دس پاروں کا درس دیا اگر 1922 کو دوبارہ ابتدائی دس پاروں کا درس دیا سو اٹھائیس میں حضور نے سورہ یونس سورۃ کا درس دیا اسی طرح سے انیس سو چھتیس میں سورہ مریم سے صبح تک کا درس دیاتا تھا 1949 سے حضور نے کوئٹہ میں سورہ مریم کے درس کا آغاز فرمایا اس کے علاوہ آپ کے خطبات قاری رحیم جامی نہیں وہ قرآن مجید کے حقوق اور بارش سے پونے کوئی مضمون آپ نے لے ایسے حقائق اور مال ہے اس کے اندر ملیں گے جو آپ کو حیران کر دیں گے کہ ایک نوجوان کے اندر نئے حقائق اور مارے گا اسے تائید الٰہی کے علاوہ یہ بات ہوئی نہیں سکتی تھی غایت غیر مسلم مستشرقین کے اعتراضات عصمت انبیاء قرآن کریم کی دیگر مذہبی کتب پر برتری قرآن میں تاریخی انکشافات اور سائنسی معلومات جدید مسئلہ ارتقاء کو قرآن کریم سے آپ نے ثابت کیا آپ نے تفسیر کبیر کے نام سے جو زخم جلدی شا جنون تھا کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم قرآن مجید اور اسلام کے نام کو دنیا کے کناروں تک میں پہنچا ہوںہ فرمائی ہیں وہ 5960 صفحات پر مشتمل ہے یہی اور نئے الماری پیسے ہیں کہ بعض آیات قرآن کو پڑھ کر علامہ نیاز فتح پوری جیسے بھی پھوٹے ہے مثال کے طور پر دیکھئے کہ حضرت نوح علیہ السلام کا ذکر آتا ہے مجید میں وہ لوگ جو ہے وہ سب سے جو ہے وہ مشکل لوگ تھے ان سے اپنے تعلقات بنانے والے حضرت لوط علیہ السلام کو سمجھانے کے لیے کہتے ہیں کہ حال ہی بنا یہ میری بیٹیاں ہیں یہ تمہارے لیے زیادہ پارٹی ہے ابوجی وہ نسبت اس کے کہ تم جو غلط کام کر رہے ہو تو اس میں محسن بالکل دونگا وہ سمجھتے ہیں کہ نعوذباللہ من ذالک حضرت لوط علیہ السلام نے اپنی بیٹیوں کو پیش کیا یہ بیٹیاں بے غیرتی والی بات ہے کہ وہ باپ اپنی بیٹیوں کو لوگوں کے سامنے پیش کرے حضرت خلیفۃ المسیح اس کے یہ معنی کی ہے کہ نبی کی امتی ہوتی ہے وہ اس کے بیٹیوں کے برابر جو عورتیں ہیں وہ بیٹیاں ہیں جو ماننے والے متعدد ہیں اردو نہیں ہے جو میری بیٹی ہے تمہاری عورتیں ہیں یہ میری بیٹی ہے ان سے تعلقات قائم کرو تفسیر پڑھ کے علامہ نیاز تھوڑی دیر میں پھلوں کو ٹھنڈے کی یہ تفسیر آج تک کسی نے بھی انہیں نہیں تھی نئے کہ حضرت خلیفۃ المسیح نے نہایت عمدگی سے تمام حقائق قرآن جو ہے غور و فکر کرنے کے بعد اللہ تعالیٰ کی تائید و نصرت سے عشق تھا کہ ہر لمحہ قرآن مجید کو بیاں کے ہاتھ پر غور کیا کرتے تھے تفصیل کھاتے تھے تفسیر کا درس دیں تو ایک آدمی جس کو خلافت میں بہت سارے کام سینکڑوں کام ہے ایسے کاموں کے باوجود جو ہے وہ قرآن مجید کے حقائق اور معرفت کے لئے درس قرآن دینا کوئی معمولی بات نہیں ہے جب تک کہ دل میں عشق نہ ہو بھائی اس سلسلے میں لکھتا ہوں آپ ہی کا ایک اقتباس پیش کر کے اس بیان کو ختم کروں گا آپ نے فرمایا کہ میں ساری دنیا کو چیلنج کرتا ہوں کہ اگر اس دنیا کے پردے پر کوئی شخص ایسا ہے جو یہ دعوی کرتا ہوں کہ خدا کی طرف سے اسے قرآن سکھایا گیا ہے تو میں ہر وقت اس سے مقابلہ کرنے کے لئے تیار ہوں جانتا ہوں کہ آج دنیا کے پردے پر سوائے میرے اور کوئی شخص نہیں جس سے خدا کی طرف سے قرآن کریم کا علم عطا فرمایا گیا والے چوکی لنگدیاں کون دے سکتا ہے لیکن جب کہ قرآن مجید کا اس کے اندر ہو اور اس پر غور و فکر اس نے کیا اور اللہ کی تائید اس کو حاصل ہو حضور فرماتے ہیں خدا نے مجھے یاد میں پر ہے اور اس زمانے میں اس نے قرآن سکھانے کے لیے مجھے دنیا کا استاد مقرر کیا ہے غیرت کے لیے کھڑا کیا ہے کہ میں محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا صلی اللہ علیہ وسلم اور قرآن کریم کے نام کو دنیا کے کناروں تک پہنچا ہوں حرا فرمایا اور اسلام کے مقابلے میں دنیا کے تمام باطل ادیان کو ہمیشہ کی شکست دے دو منظور لگا لے اور اپنی تمام طاقت اور جمہوریت کو اکٹھا کر لے عیسائی بادشاہ کی حکومت میں بھی مل جائے یورپ اور امریکا بھی اکٹھا ہو جائے دنیا کی تمام بڑی مالدار اور طاقتور ی قومی اکٹھے ہو جائیں اور وہ مجھے اس مقصد میں ناکام کرنے کے لئے متحد ہو جائیں پھر بھی میں خدا کی قسم کھا کر کہتا ہوں کہ وہ میرے مقابلے میں ناکام رہیں گی اور خدا میری دعاؤں اور تربیت کے سامنے ان کے تمام منصوبوں اور غریبوں کو ملیامیٹ کر دے گا اور خدا میرے ذریعے سے یا میرے شاگردوں اور اتباع کے ذریعے سے اس پیشنگوئی کی صداقت ثابت کرنے کے لیے رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے نام کے طفیل اور صدقے اسلام کی عزت کو قائم کرے گا اور اس وقت تک دنیا کو نہیں چھوڑے گا جب تک اسلام پھر اپنی پوری شان کے ساتھ دنیا میں قائم نہ ہو جائے رسول اللہ صلی اللہ وسلم کو پھر دنیا کا زندہ نبی تسلیم نہ میں تو یہ وہ اس کے قرآن تھا جس کے نتیجے میں آپ نے ساری دنیا کو چیلنج کیا کہ اگر تمہارے پاس قرآن کا علم ہے تو میں دعویٰ ہے کہ تم اس کے قرآن تمہارے دل میں پایا جاتا ہے اور میرے ساتھ مقابلہ کر کے دیکھ لو دنیا خود جان جائیں گے کہ کس کے اندر اس کے خلاف زیادہ ہے کہ وہ حقیقت اور معرفت ہوئے ہیں جو کہ نئے علوم کے ساتھ ساتھ اس زمانے کے جو حالات ہیں اس کے مطابق پھر اللہ تعالی نے یہ کلام نازل کیا ہے قرآن مجید یہ اندر صلی اللہ وسلم کے زمانے سے لے کے اب تک کے لئے نہیں ہے قیامت تک کے لیے کام ہے یہ جو اندر سلسلہ پر نازل ہوئی ہے یہ پیچھے جو اس کا نہیں رہ گیا بلکہ قیامت تک جتنے بھی علم نکلیں گے جو بھی ہنر معلوم ہوتے چلے جائیں گے ان سب کا حل ان شاء اللہ آگے بھی اس کا بیان آئے گا آپ نے فرمایا سب کا حلوہ قرآن مجید میں موجود ہے اور یہ وہ شخص دعویٰ کرسکتا ہے جس کو قرآن سے عشق ہو جس کو قرآن کا علم عطا کیا گیا ہوں جو ہمیشہ دعاؤں سے اللہ تعالی کی طرف سے لو لگائے ہوئے ہو تو ہمیشہ حضرت موسی قرآن مجید پر غور و خوص کیا کرتے تھے اور باوجود اس کے کہ آپ کسی یونیورسٹی کے پڑھے ہوئے نہیں تھے بلکہ آپ کا حال یہ تھا کہ مختلف کے گلے کی تکلیف آپ کو تھی آنکھوں کی تکلیف آپ کو کئی دیگر کی تکلیف آپ کو پتہ اپنا  اکثر مرتبہ آیا بلکہ شروعات تقوی کا لفظ ہے تو متقی کے معنی یہ ہیں کہ لفظ عربی زبان کا ارتقا سے نکلا جانے بچنا تو حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام نے فرمایا اس کا مطلب یہ ہے کہ اللہ تعالی کی محبت اپنے دل میں موت سے بچنا اس بات سے ڈرنا اللہ مجھ سے ناراض نہ ہو جائے تقوی کے معنی خوف کے بھی معلوم ہوتا ہے کہ خوف کس چیز کا کے کی اللہ تعالی جو میرا محبوب ہے وہ مجھ سے ناراض نہ ہو جائے جو اس طرح خدا تعالی سے ڈرتا ہے ایسے آدمی کو تقوی اللہ کہتے ہیں قرآن مجید میں جو انہوں نے یہ بھی بتایا کہ کیسے کہا جا سکتا ہے فلاں متقی ہے تو اس کی نشانیاں تو قرآن مجید میں شروع سے بیان ہوئی ہے مثلاً قرآن مجید میں ہی سے قرآن مجید شروع ہوتا ہے الف لام میم تعریف خبر للمتقین یہ وہ کتاب ہے جس میں کوئی شک نہیں یہ متقیوں کو ہدایت دے ہدایت دینے والی ہے ریل کے متقی کون ہے اللہ زینا یومنون بالغیب جو غیب پر ایمان لاتے ہیں الگ ہوتی نظر نہیں آتی فرشتے اس کی نظر نہیں آتے قیامت نظر نہیں آتی پھر بھی غائبانہ طور پر چونکہ اللہ نے فرمایا یہ سب ہونے والا ہوگا یقین رکھتے ہیں تو پہلے نمبر پر متقی ایسے لوگوں کو کہا جاتا ہے لائیو کی مون اصلاۃ ایک نشانی یہ بتائی کہ وہ نمازوں کو قائم کرتے ہیں متقی کی نشانی یہ ہے کہ وہ مما رزقناہم ینفقون جو ہم ان کو دیا ہے دیتے ہیں اس میں سے خرچ کرتے ہیں یہ شروع ہوگئی ہے آگے متقی کی کیا علامات ہے اور اس طرح کی بے شمار علامات قرآن مجید ان سے بھرا پڑا ہے کہ یہ فرماتے ہیں کہ پھر اس کا کس شخص میں تقوی ہے پتا لگتا ہے تو اس کی بھی اللہ تعالی نے بہت سی نشانیاں بیان فرمادیا مثال کے طور پر اللہ تعالی بیان فرماتا ہے کہ جو متقی ہوتا ہے اللہ تعالی اس کو کے لئے زیب سے سامان نکال دیتا ہے اگر مصیبت میں پھنسا ہوا ہوں مشکل میں پھنس جائے تو اللہ تعالی ایسے شخص کو مشکل سے نجات دے دیتا ہے اللہ تعالی اس شخص کو ایسی جگہ سے رزق دیتا ہے کے وہم و گمان میں بھی نہیں ہو سکتا مجید میں اللہ فرماتا ہے واما یتق اللہ یجعل لہ مخرجا جو شخص اللہ تعالی کا تقوی اختیار کرتا ہے اللہ تعالی اسے مصیبت سے نکلنے کے راستے کھول دیتا ہے عاصم اور ایسے ایسے رستوں سے اسے رزق عطا کرتا ہے کہ گمان میں بھی نہیں میں بھی نہیں ہوتا کہ یہ کہاں سے آ گیا علامت یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ قبول نیکیوں کی قبولیت ہے یا جو میں قبول کرتا ہوں وہ متقیوں سے قبول کرتا ہوں اگر کوئی ایسا انسان ہی دیکھتے ہیں کہ اللہ تعالی اس کی نیکیوں کو قبول کر رہا ہے اس کی نیکیوں کو پروان چڑھا ہے اس کے اعمال صالح اسے برکتیں عطا کر رہے ہیں اللہ فرماتا ہے علامہ اقبال اللہ من المتقین اللہ تعالی متقیوں سے قبول کرتا ہے تو یہ بہت سی علامات ہیں جو قرآن مجید میں بیان ہوئی تقوی کے مضمون کے لحاظ سے قرآن مجید بھرا پڑا ہے اور میری ایک تحریک ہے آپ سے کہ حضرت اقدس مسیح موعود علیہ السلام کہ جو تفسیر آجاؤ تین جلدوں پر مشتمل ہے اس میں جہاں جہاں تقوی کے کئی آیات ہیں وہاں بڑی کثرت کے ساتھ حضور نے ان آیات کی تفسیر ہے تقوی کے حوالہ سے اس کو بہت کھول کر بیان کیا ہے کہ چھوٹے وقت میں ساری باتیں بیان نہیں ہو سکتی صرف یہی گزارش ہے کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی تفسیر کو کی تفسیر صغیر کو بھی پڑھنے تفسیر کبیر کو بھی پڑھ لیں وقت دینا پڑے گا اور اس کے لیے اللہ تعالیٰ سے توفیق بھی عطا کر دیتا ہے دعا بھی کرنی ہوتی ہے کہ اللہ تعالی ہمیں توفیق عطا کرے اللہ تعالی سب باتیں انسان کو عطا کرتا ہے روزہ خواجہ عبدالمناف ناروے سے انہوں نے اپنا سوال آف لائن ہمیں بھجوایا ہے محترم مولانا محمد قاری محمد یوسف شاہ حسین کا سوال پوچھنا چاہوں گا خواجہ عبدالرحمن صاحب لکھتے ہیں کہ مسلمان رضی اللہ تعالی عنہ کے بارے میں پیشگوئی کے الفاظ کے وہ ظاہری اور باطنی علوم سے پر کیا جائے گا اور اسیروں کی اس کا موجب ہوگا برائے کرم اس حصے کی تفصیل بتائیں تو آپ سے درخواست کروں گا میری وہ باتیں جن سے پر کیا جائے گا اور اسیروں کی اس گاڑی کا موجب ہوگا تو بات یہ ہے کہ میں نے ابھی قرآن مجید کے تعلق سے بیان کیا ہے سلمہ رضی اللہ تعالیٰ عنہٗ ظاہری طور پر ٹیم کبھی جو ہے صحیح سٹوڈنٹ نہیں تھے اس واسطے کہ ایک دفعہ آپ سے ایک صحابی نے آکے ذکر کیا جو آپ کے استاد بھی تھے موت کے بابڑا کمزور ہے حضرت موسی علیہ السلام نے کہا کہ میں ہم ہیں تو اس سے دین کا کام لینا ہے تو بنیے کی دکان پر پھٹا ہوا کے دینی ہے شوکت فرماتے تھے کہ جو جتنا جھکتا ہوں اتنا اوپر لے اس کوبڑا ہوا تھا اور آپ کی صحت اس قابل نہیں تھی کہ آپ باقاعدہ مدرسے میں تعلیم حاصل کر سکتے ہیں اور اس کے جو ہے وہ یہ سمجھے کہ آیا تھا میٹرک پاس کیا استادوں کی مہربانی سے کہ حضرت مسیح موعود کی اولاد ہیں کرکے تو ایسا شخص جس کو کہ ظاہری علوم کچھ آتا نہ ہو لیکن چونکہ اللہ تعالی نے انہیں وحی فرمائی تھی کہ یہ وہ فلم ہے جو علوم ظاہری اور باطنی سے پر کیا جائے گا اللہ تعالی نے علوم ظاہری بھی آپ کو عطا کئے اور اللہ تعالی سب سے زیادہ کچھ ٹیلی فون کالز کی طرف بھی ہم جاتے ہیں اور ان کو بھی اپنے ساتھ پروگرام میں شامل کرکے اپنا سوال پیش کرنے کا موقع دیتے ہیں سب سے پہلے بات کریں گے یوکے سے مکرمہ رفیع صداقت صاحب ہیں جو اس وقت ہمارے ساتھ چلیں پر موجود ہیں ان سے بات کرتے ہیں اسلام علیکم ورحمۃ اللہ مطلب نعت اردو میں کئی بار متقین کا متقین کا معیار کیسے جانچا جا سکتا ہے کا معیار کم ہے زیادہ ہے انسان سوچ سکتے ہیں جیسے آدمی ہے ٹھیک ہے جزاک اللہ شکریہ محترم مولانا منیر احمد صاحب خادم سے درخواست ہے بسم اللہ الرحمن الرحیم متقی اور جو تقوی کا لفظ ہے قرآن مجید میں کئی بار آیا ہے علوم ظاہری اعتبار سے آپ کی معمولی پڑھائی تھی اس واسطے کے جیسا کہ میں نے جگر کی صحت کمزور تھی اور اس کی وجہ سے پڑھائی آپ کے لئے بڑی ناممکن تھی اس کے لیے کافی ہے البتہ آپ نے یہ کہا کہ بھئی تم مولانا نور الدین صاحب سے قرآن مجید اور حدیث پڑھ لیا بخاری پڑھ لیا کرو وہ بھی حضرت مسلم رضی اللہ تعالی عنہ کو حضرت مولانا نور الدین صاحب کے پڑھانے کا طریقہ تھا کہ میں امی پڑھا جاتا ہوں تم سنتے جاؤ یہ آنکھوں کی کمزوری کی وجہ سے پڑھا بھی مشکل تھا آپ کو دوبارہ یہ جو ظاہری علوم ہے کسی یونیورسٹی کے پڑھے ہوئے نہیں تھے لیکن جو کہ ظاہری علوم ہیں چاہے وہ منت ہو لاہور ہستی کے دلائل ہوں موجودہ سائنٹیفیک اعتبار سے جو دلائل ہے وہ قرآن مجید کی آیات سے ان کا تعلق کرنا اور اس کے مطابق ان کا جواب دینا یہ ساری باتیں جو ہے یہ اردو میں ظاہری سے بھی آپ کو اللہ تعالی نے ایسا کیا تھا کہ دنیا کا جیسا کہ ان شاء اللہ آگے سوال کے جواب ہیں اس بات کو میسج کرو آپ نے فرمایا کہ دنیا کا کوئی بھی علم ہو وہ ایک اگر کرے تو میں قرآن مجید سے اس کا جواب دوں گا کہ ساری باتیں قرآن مجید میں موجود ہے پلے علوم ظاہری سے آپ کو پر کیا گیا ہے اور کسی قسم کا بھی اس کو یاد بھی آپ کے پاس آیا ہے آپ نے اس کا منہ بند کر دیا ہے ظاہری علوم اور علوم باطنی کیا ہیں تقوی کے اعتبار سے جیسا کہ ابھی ذکر ہورہا تھا کہ اللہ تعالی کے ساتھ لو لگانا جو ہے وہ اللہ تعالی سے جب تعلق پیدا ہو تو اللہ تعالیٰ اور کلام پر نازل ہوتا ہے سویا خوشی واپس آنے شروع ہو گئے جنگ عظیم اول اور دوم آپ کی خلافت کے ایام میں ہی آئے ہیں دونوں جنگ ہوئی ہیں یہ دونوں جنگوں کے بارے میں حضرت سلیمان رضی اللہ تعالی عنہ کو بڑی وضاحت کے ساتھ خواب دکھائے گی اور ایک ہاتھ تو اتنی اے کے جنگ کے دوران میں فرانس اور انگلینڈ ان دونوں کا جو ہے وہ اتحاد تھا اور امریکا جوہر تھا تو اس جنگ کے دوران ان کی حالت کمزور پڑ رہی تھی تو حضور نے خواب میں یہ دیکھا کہ امریکہ نے دو ہزار آٹھ سو غالب ہیں صحیح تعداد اب مجھے حسین سے اتر گئی ہے یہ اتنی تعداد میں جو ہے وہ ہوائی جہاز کو بھیجے گا جنگ کے موقع پر لے آئے نہیں یہی حال پیش آئی اور ظفراللہ خان صاحب نے جو ہے وہ اس واقعہ کو بھی بیان کیا ہوا ہے جو اس وقت عوامی ذرائع پر ہندوستان میں اس نے کہا کہ جی آپ کے خلیفہ نے تو یہ دیکھا تھا لیکن شہزادی نظر نہیں آرہی ہے تو آپ کہاں کے جو آرہا ہے اس کو پڑھ کے دیکھ لیں تو انہوں نے کہا کہ ہاں جوتے سازوں نے بتائی تھی انہیں اسی تعداد میں امریکہ نے جہاز میں ہے تو باطنی علوم کے اعتبار سے بھی وہ لوگ ہیں جو ہیں پھر دیکھئے منہاج الطالبین یہ یقین کے ذرائع بیان کئے گئے کہ کس طرح سے ایک انسان کا تعلق رسائی حاصل کر سکتا ہے پاکیزگی پیدا کر سکتا ہے قرآن مجید کے حقائق اور معلومات جو آپ نے بیان کئے ہیں یہ بھی تمام علوم باتوں سے تعلق رکھنے والے اور اسیروں کی رستگاری کا موجود ہونا یہ ہے کہ جو لوگ اسلامی تعلیمات کو اپناتے ہوئے بھی مسلمانوں کے اندر بہت سارے رسوم و رواج آ گئے تھے مسیح موعود علیہ السلام نے بھی اس کی تردید کی اور پھر جماعت احمدیہ میں باقاعدہ اپنے انصار کی جگہ کی تنظیمیں قائم کر کے رسوم و رواج کو مٹانے کی کوشش کی گئی یہ بھی ایک بڑا کام ہے رسم و رواج میں انسان جو ان کا اسیر ہو جاتا ہے ان سے بھی درست ہے آپ نے دلائی اس کے علاوہ آپ نے جو ہے مختلف اقوام کو جو آزاد نہیں تھے ان کے بارے میں آواز آپ نے اٹھائی ہے باقاعدہ تفسیر پر جانے کا وقت میں ہی دوبارہ اسی روزگاری سے مراد ہے کہ ایمانی اعتبار سے جو لوگ اور رواج میں جکڑے ہوئے تھے ان کی رہائی کا بھی آپ نے سامان کیا اور خلافت کا وہ بابرکت نظام ہے کہ جس کے نتیجے میں آپ وزارت قائم کی اور اس کے نتیجے میں جو ہے وہ تمام افراد کو جو ہے وہ بہت ساری دعاؤں سے اور بہت ساری مشکلات سے جو ہے اللہ رسول کے واسطے جو آزاد کروا دیا یہ بھی ایک فوجی ہوسکتی ہے اس کے علاوہ افریقہ جو عوام ہے ان کی رہائی کے لیے بھی یہ انگریزوں کے غلام تھے سارے کے سارے اس سلسلے میں بھی آپ نے بہت سارے کام سرانجام دیئے خود ہندوستان کے اندر جو یوم آزادی کا لہر کی ہے اس کے اندر بھی آپ کے ساتھ دیا تو دوبارہ اسی روزگاری سے مراد آئینی طور پر اور ظاہری طور پر بھی جو عوام سمجھی جاتی تھی ان کے خلاف اپنی آواز اٹھائیں اور خاص طور پر اپنے اپنے کام میں بہت سارے مشن آپ نے جو ہیں وہ قائم کیے تاکہ ان لوگوں کو ذہنی غلامی سے بھی اور باقی نیولا میں سے بھی آزاد کیا جائے اور الحمدللہ کے افریقہ میں ہمارے بہت سارے مشن ایسے ہیں کہ وہ لوگ جو خدا کے بہت کچھ جانتے ہو لیکن ان کے مذاہب بھی عجیب تھے بالکل بشر ہوا کرتے تھے ان سے بھی آپ نے رہائی دلائی ان کے بطن سے ان کو چھوڑ آیا غلط عقائد سے ان کو چھوڑ آیا تو یہ تمام باتیں ایسی انوکھی رستگاری کا موجود ہونا یہ بھی اللہ تعالی کے فضل سے ظاہری طور پر بھی اور باقی طور پر بھی آپ کے ذریعہ سے اللہ تعالی سے زیادہ ایک اور لطیفہ نکالا اس وقت ہمارے ساتھ سری لنکا سے مکرم عصمت احمد صاحب اس وقت ہمارے ساتھ لائن پر موجود ہیں ان کا بھی سوال سنتے ہیں اسلام علیکم ورحمۃ اللہ اللہ وبرکاتہ خاطر کا سوال ہے بادلوں کی حرمت مسلم ود رضی اللہ عنہ کے حوالے سے یہ بات کرتے ہیں فرمایا ہے کہ وہ لوگ کہتے ہیں جو زمانے کے امام کو نہیں مانتا وہ کافر ہے تیرا میں وضاحت چاہتا ہے شکریہ جناب جزاک اللہ شکریہ محترم مولانا محمد کریں مجھے سب شاہد سے درخواست ہے آپ ذرا لوگوں سے پوچھے بغیر احمدیوں کی آپ نے بات کی ہے طرح یہ سوال کریں کہ جو شخص کلمہ طیبہ کا اقرار کرتا ہے لا الہ الا اللہ محمد الرسول اللہ کا اقرار کرنے والا ہے وہ لوگ کیسے ہیں ان کو کافر قرار دیتے ہیں پہلے تو ہم ان سے پوچھتے ہیں نہ تے بڑا مشہور واقعہ ہے جنگ کا کے میں تو جو بھی سامنے آتا ہے اس کو تو قتل کیا جاتا ہے یا گولی مار دی جاتی ہے اس زمانے میں یہ بات آتی ہے کہ اسامہ بن زید کے بارے میں آتا ہے لڑائی ہو رہی تھی ایک شخص نے دیکھا کہ اب میں تو قتل ہونے والا ہو تو اس نے کہا کہ میں مسلمان ہوں لا الہ الا اللہ محمد رسول اللہ کلمہ انہوں نے یہ کہا کہ یہ تو ڈر کے مارے کلمہ پڑھنا اس کو قتل کر دیا جب یہ بات اگر آپ صلی اللہ علیہ وسلم تک پہنچی تو آپ نے بڑا برا منایا اور فرمایا حضرت اسامہ سے فرمایا اے اسامہ نے پڑھ لیا تھا تو پھر تم نے اس کو قتل کیا انہوں نے حضور اس میں تو ڈر کے مارے کلمہ پڑھا تھا حضور کے الفاظ تھے کہ ہر شخص تک لو ہو تم نے اس کا دل چیر کر کیوں نہیں دیکھ لیا کہ وہ سچ بول رہا تھا کہ جھوٹ بول رہا تھا تو آپ نے برا بنایا کہ بار بار ہے آپ دوہراتے چلے جاتے تھے تقریب ہو یہ تو پھر کیوں نہیں دے گا اور آپ نے فرمایا اسامہ قیامت کے دن جب وہ ظاہر اللہ محمد رسول اللہ پڑھتا ہوں آئے گا تو تیرا کیا جواب ہوگا تو آپ نے اس شخص پر تو ہم پہلے تو یہ سوال کریں گے ان غیر احمدی بھائیوں سے جو ہم تو ان کو مسلمان نہیں سمجھتے ہیں اس واسطے کہ لا الہ الا اللہ محمد رسول اللہ پڑھتے ہیں قرآن مجید پر ایمان لاتے ہیں اللہ تعالی کی وحدانیت پر ایمان لاتے ہیں اگر آپ صلی اللہ علیہ وسلم پر ایمان لاتے ہیں اور آپ کو اس لحاظ سے تو ہم ان کو کافر نہیں کہتے لیکن وہ ہمیں کافر کہتے ہیں اس کا کیا جواب ہے ان کے پاس ہم تو کلمہ پڑھتے ہیں قرآن کوئی پڑھتے ہیں قرآن مجید کو پڑھتے ہیں اللہ تعالی کی ہستی کے قائل اور توحید کے قائل ہیں ابھی بھی وہ ہم کو جو ہے نا وہ بلال کافر قرار دیتے ہیں تو ایک تو بات یہ ہوئی کہ ذہنی طور پر ہم ان سے پوچھتے ہیں کہ ابھی ہمیں تم پر کیوں کرا دیتے ہو یہ ہے کہ آدم علیہ الصلاۃ والسلام نے بھی کسی کو کافر نہیں کہا کسی مسلمان کو اپنے کافی نہیں قرار دیا آپ نے یہ فرمایا کہ دیکھو ہم اور آپ کون ہوتے ہو فیصلہ کرنے والے ایمان ہے محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وسلم پر آپ کی عدالت میں ہم چلتے ہیں آپ کیا فرماتے ہیں جو شخص کسی پر کفر کا فتویٰ دیتا ہے اگر تو اس کے اندر پایا جاتا ہے تو وہ تو ٹھیک ہے لیکن اگر وہ اس کے اندر اور کل میں لالہ کا قائل ہے تو وہ ادا جو کفر کا فتویٰ حسن دیا ہے وہ لوٹ کر اس شخص پر آکر پڑے گا اسے ہم کہتے ہیں کہ تم جو ہمیں کافی خراب دیتے ہو یہ کفر جبکہ حملہ اللہ محمد رسول اللہ سلم کے قائل ہیں تو وہ کفر لوٹ کر تم پر پڑتا ہے تو انسان کے فتوے کے مطابق تو جس نے کسی مسلمان کو کافر کہا وہ کفر کا فتویٰ اسی پر خرچ کرنا پڑتا ہے اس لحاظ سے جو ہم کو کافر کہتے ہیں وہ باقی رائے حضرت مصلح موعود نے فرمایا ہے کہ جو مصیبت کو نہ مانے وہ کافر آپ کبھی ایسا نہیں فرمایا بلکہ ہم یہ کہتے ہیں کہ بھائی دیکھو سر لا الہ الا اللہ محمد رسول اللہ پڑھ رہا ہے اس کو کیسے کافر قرار دے سکتے ہیں صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا تھا کہ جب مسیح اور مہدی آئیں گے تو تم ان کو ماننا اور یہاں تک کہ آپ نے فرمایا کہ اگر تمہارے اور ان کے درمیان بڑے بڑے برف کے پہاڑ بھی اگر ہیں تو وہ گھٹنوں کے بل رینگ کر بھی ان پہاڑوں کو عبور کرکے جانا پڑے تو جاؤ اور اس کے پاس جا کر اس کی بات کرو بائے وہ کہ جاؤ اور اس کو مانو وسلم کا یہ حکم ہے کہ مسیح موعود کا جو دعوی کرنے والا ہے وہ آ گیا ہو تو مانو اس کو جا کر اس کو انگلش نہیں مانتا ہے کوئی شخص تو کس کا انکار کرنے والا ہوا موت کا انکار نہیں کر رہا ہے وہ اسلام کا بھی انکار کر رہا ہے یہ ہم ہم مسلمان بھائیوں کو کافر نہیں کہتے ہیں ہم یہ کہتے ہیں کہ مسیح بہت کچھ ہو گئے انہوں نے نہیں ماننا ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کا فتح ان کے اوپر لگ رہا ہے جزاک اللہ تعالی سے زیادہ پروگرام کو آگے بڑھاتے ہوئے محترم مولانا منیر احمد صاحب خادم سے یہ پوچھنا چاہوں گا کہ حضرت مصلح موعود رضی اللہ تعالی عنہ کی تفسیر کا جذبہ مطالعہ کرتے ہیں تو معلوم ہوتا ہے کہ قرآن مجید کے ایسے حقائق و معارف پر کئی سالوں سے جو ہے وہ ایک خواب میں رکھا گیا تھا یا وہ ایسی آیات ہیں جس کو سمجھنے سے امت محمدیہ قاصر تھے تو وہاں پر اور یہ ان آیات کی تفاسیر جو ہے وہ اسے دنیا کو روشناس کرایا گیا جس طرح بھی ملک صاحب نے بھی حال ہی بناتی آیت کے تعلق سے تقریر بتائیں تو اس قسم کی روایات ہیں بے نظیر جہاد مسلمانوں تعالی نے دنیا کے سامنے پیش فرمائی ہے اس لیے میں آپ سے سیدنا حضرت اقدس مسیح موعود علیہ السلام کو اللہ تعالی نے جب ماموریت کے خلاف سے سرفراز فرمایا تو آپ نے دعائیں کی کہ اللہ تعالی میرے ذریعہ سے اسلام کو پوری دنیا میں غالب کریں قرآن مجید کا بول بالا ہوا ملالہ ہوں جیسا کہ ہم سب نے جانتے ہی پڑا ہے چالیس دن تک خوشیاں تو میں دعائیں کرنے کے بعد اللہ تعالی نے آپ کو پیشگوئی مصلح موعود صلو الہ اور اس پیشگوئی مصلح موعود کے اندر یہ الفاظ میں اس کا بھی ہم نے سنے ہیں کہ اس کے ذریعہ سے کلام اللہ کا شرف اور اس کا مرتبہ دنیا میں ظاہر ہوگا اور یہاں تک کہ الفاظ ہیں کان اللہ لہ سماء ایسا لگے گا آپ کی تفاسیر پڑھ کے کوئی اللہ تعالی آسمان سے نازل ہو گیا ہے یہودی تفاسیر آپ سے کہلوا رہا ہے تو یہ پیش گوئی حضور کو حضرت مسیح موعود علیہ الصلاۃ والسلام کو اللہ تعالی نے عطا کی اور اس کے نتیجے میں اللہ تعالی نے آپ کو بیٹے سے نوازا اور اس بیٹے کے اندر اس پیشگوئی کے اندر جو باون علامات ہیں کہ وہ بیٹا ایسا ہوگا ایسا ہوگا ایسا ہوگا وہ ان کی 52 سالہ 51 سالہ جو خلافت گزری ہے وہ ساری کی ساری علامات اس میں پوری ہوئی ہے کوئی آج دنیا میں یہ نہیں کہہ سکتا کہ وہ علامات میں سے کوئی ایسی علامت ہے اس نے موت رضی اللہ تعالی عنہ کے اندر والا مجبوری نہیں ہوئی عجوہ میں آ بیٹھے ہیں کہ اس علامتوں کے ایک حصے کو جس میں لکھا ہے کہ اس کے ذریعے سے کلام اللہ کا شرف اور اس کا مرتبہ ظاہر ہوگا تو یقینا وہ مرتبہ وشرف کلام اللہ کا حضرت مسلم اور کیا ہوا اور آگے چلنے سے پہلے بھی اس بات کو بتانا ضروری سمجھتا ہوں کہ حضرت مصلح موعود رضی اللہ تعالی عنہ کلام اللہ کا شرف اور اس کا مرتبہ بیان فرمایا یہ تفسیر عام دوسرے ان کی طرح نہیں ہے اسے مولانا عبد الماجد دریابادی نے لکھی ابوالاعلی مودودی نے لکھیں یا اور جو زمانہ کے درمیان زمانے میں بعض مفسرین بھی لکھ رہے ہیں تو وہ ان کی اپنی سوچ رہی تھی ان میں سے بعض ایسے بھی گزرے ہیں جیسے امام رازی تفسیر کبیر خدا تعالی سے پا کر انہوں نے لکھا ہے آج کے زمانے کے بہت سے مفسرین ایسے ہیں میں بھی آگے بیان کروں گا کہ انسانی عقل جو ہے وہ ان کو پڑھ کر جو ہے وہ سوات کے حسین کرے اور کچھ بھی نہیں تو حضرت مصلح موعود رضی اللہ تعالی عنہ نے جو تفاسیر بیان فرمائی ہیں وہ باز تو ان میں سے ایسی ہیں کہ پہلے لوگوں نے کہہ دیا کہ ہمیں اس کی سمجھ نہیں آئی مثال دیتا ہوں آپ کو کہ قرآن مجید کے شروع میں بعض حروف مقطعات ہیں جیسے الف لام میم الف لام میم میں اتحادی فلم راہ مرحلے کی تفسیریں آپ پڑھ کے دیکھ لیں کہ وہ کسی بھی فرقے سے مفسرین تعلق رکھتے ہوں ان سب نے یہی لکھا ہے کہ یہ ایسے اسرار اور رموز ہیں کہ ان کے بارے میں ہم لوگوں کو علم نہیں دیا بس یہ ہی پڑھو اور اس سے ثواب حاصل کرو حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام نے فرمایا کہ یہ اللہ تعالی نے مجھ پر کھلا ہے چنانچہ حضور نے اپنی تفسیر بیان کی تو آپ نے فرمایا کہ یہاں صفات الہی ہیں ان اللہ و اعلموا اللہ خوب جاننے والا ہوں الف کا مطلب الاعلام کا مطلب اللہ اور جو میں اس کے معنی عالموں کا مخفف ہے اللہ خوب جاننے والو حضرت مصلح موعود رضی اللہ تعالی عنہ نے آگے پھر اس کی تفاسیر بیان فرمائیں کے حضور نے فرمایا کہ یہ جو ایک تفسیر سورۃ کے شروع میں حروف مقطعات آتے ہیں کورم کھولنے کے لیے یہ چابی کا کام دیتے ہیں سمجھ آ جائے گی کہ یہ کیا ہے منظور ہے ان کا کیا مفہوم ہے تو ساری کی ساری قصور تو آرام سے انسان سمجھا جائے تو حضور نے وہ سمجھا کر میں تبدیلی کے بارے میں دکھایا امی میں خدا تعالی کے علیم ہونے کے بارے میں جو اس کی صفات کا ذکر کیا ہے الف لام را میں خدا تعالیٰ کی رویت کی جو صفات ہے اس کے تذکرے کیا جا رہا ہے مفاد میں جو خدا تعالی کے صادق ہونے کی صفت ہے اس کے تذکرے کیا جا رہا ہے گویا کہ حضور نے بڑی تفصیل سے بیان فرمایا کہ جو حروف مقطعات ہیں صفات الہی در اصل اور جب تک ہم ان صفات الہیہ کو نہیں سمجھتے ہم لوگوں کو قرآن مجید کی تفسیر ہے اس کے صحیح سے نہیں آ سکتے اب یہ تو یہاں تک بعض ایک مثال دی ہے صرف حروف مقطعات کی اب ہم دوسری طرف چل کے دیکھتے ہیں جیسے ابھی ملکہ نے بتایا کہ بعض ایسے معنی بھی ہیں مسلمات رضی اللہ تعالی عنہ نے کھولی اور اس سے پہلے لوگ اس کو اس کا پتہ ہی نہیں تھا مثالیں دیتا ہوں مثال کے طور پر قرآن مجید میں ایک آیت آتی ہے جس میں یہ لکھا ہے کہ ایک مرتبہ حضرت ابراہیم علیہ الصلاۃ والسلام نے اس سے پوچھا کہ اے اللہ تو مردوں کو کس طرح زندہ کرتا ہے پل بھر میں کیا تم کو ایمان نہیں میری اس بات پر فرما نہیں مانتے تو ہے لیکن میں اپنے دل کے اطمینان کے لئے پوچھ رہا ہوں اللہ نے فرمایا ایسا نہ کرو چار پرندے پکڑ لو ان کو جو ہاؤس سے تھا لو ان کو بے شک دور کہیں چھوڑ کے اوپر بھی ان تمام کو بلاؤ گے تمہارے پاس بھاگتے ہوئے چلے آئے یہ ترجمہ جو میں آپ کو سنا رہا ہوں یہ غزل محمد نے یہ حضرت مسیح علیہ الصلاۃ والسلام کا ترجمہ اس سے پہلے کیا تراجم کئے گئے اور کیا باتیں بیان کی ہیں اس سے پہلے یہ بات بیان کی گئی ہے آج تک کی جو تفسیر موجودہ دور میں بھی ان دیوبندی علماء کی بھی تفسیر اشرف علی تھانوی کی ہوئی ہے دوسری اور بھی لوگ ان کی تفسیر میں یہ بات کیا کہ اللہ تعالی نے فرمایا کہ اسے کرو چار بجے پکڑو ان چاروں کو جو ہے سرحن الفاظ قرآن مجید کہتے ہیں بس رہنا مطلب یہ ہے کہ ان کو بلا لو ذبح کرکے آپس میں ان کو ذبح کرکے ان کا گوشت کو آپس میں ملا لو اور پھر ان کے گوشت کی ایک پہاڑ پر ایک وار کو پر ایک پرندے کو ایک پہاڑ سے دوسرے پرندے کی ٹانگوں ئے پاڑ تیسرے کی کسی چیز کو کی ایک بار پھر ان کو تم جب بلاؤ گے تو ان تصویروں میں یہ لکھا ہے کہ وہ ایک پرندے کا سسٹم دوسری کے سر سے دوسرے کا سر سے بلا کے پرندہ دوبارہ بن کے حضرت ابراہیم علیہ السلام کی طرف آ گیا جہاں تک پتا نہیں کہاں سے لوگوں نے تفسیروں میں بات نکالی ہیں جس کی سند کہاں سے حاصل کی اللہ ہی بہتر جانتا ہے تاکہ وہ ایک بندہ اس میں سے ایک بولا تھا ایک موڑ تھا ایک کبوتر تھا اس طرح کے چار پرندوں کے نام بھی تفسیروں میں لکھے ہوئے پھر اب آپ دیکھ لے یہی سوچا جو ہم کہہ رہے ہیں کہ ان پرندوں کو مار دو اس کے بعد پھر وہ زندہ ہو جائیں گے زندہ کرنے کی صفت کسی اور انسان کو جسمانی طور پر زندہ کرنے کی دی ہوئی ہے ام سلمہ رضی اللہ تعالی عنہ نے یہ بات بیان فرمائی کہ اس کا مطلب یہ ہے کہ تم ان کو سدھار لو پھر بیشک پہاڑوں پر چھوڑ کر آ جاؤ سورہ نحل کا یہ چابی یہاں تھی سورما کا سرغنہ کا نمبر عربی زبان میں اس کے معنی سدھانے کے بھی ہیں لوگوں نے عرض کیا ترجمہ کیا جواب تفصیلی کتابوں میں لکھا ہوا ہے بلال اور ٹکڑے ٹکڑے کر دوں کرکے بلا اپنے پاس جمع کرکے فرمان نہیں دیکھو عربی زبان میں اس کا مطلب سدھانے کے بھی ہیں حضرت ابراہیم علیہ الصلوۃ والسلام نے فرمایا تھا کہ کیسے زندہ کرتے ہیں متعلق کہ اس پیداکرنے کی طرف علیہ الصلاۃ والسلام نے فرمایا تھا نانی مار دے یہ جو میرے ہاتھ میں ہیں جن کو میں زندہ کرنا چاہتا ہوں کہ زندہ نہیں ہو رہے کیا تم مجھے گوگل سمجھا کہ میں ان کو کیسے کروں اللہ تعالی نے فرمایا کہ تمہیں کس سے کھاؤ ان کو ان کی تربیت کرو ان کو اپنا بولو اور تم ان کو چائے کی کسی پہاڑ کی چوٹی پر بھی چھوڑ تو وہاں سے بھی اور تمہارے پاس یہ تو یہ ہے میں نے آپ بتائیے حضرت مصلح موعود رضی اللہ تعالی عنہ تفسیر کی پہلے مفسرین نے بہت تفصیلی کی اللہ کا شکر اور اس کا مرتبہ کتنا ہوا اور آپ کو بتاتا ہوں تاکہ کچھ کہانی بھی پہلے لوگوں نے کیا کھڑی تھی آج حضور نے کیا وہ اللہ تعالی نے فرمایا کہ کلام اللہ کا شرف کے ذریعے ہوگا اور کس طریقے سے ظاہر ہوا کہ قرآن مجید میں پہلے پارے میں حضرت سلیمان ان کا ذکر میں آتا ہے کہ اللہ تعالی نے دو فرشتے مجھے اب یہ ہاروت اور ماروت فرشتے جو بھیجی تو وہ کیا مسئلہ تھا ان کی بھی مفسرین نے بڑی بڑی کہانیاں گھڑی ہیں کیا کہانی گھڑی کے فرشتوں نے اللہ تعالی سے کہا یا اللہ دنیا میں بڑا ظلم ہو گیا ہے اور تو کہا تھا کہ میں اچھے کے لئے کر رہا ہوں نہیں جب دنیا میں جاتے ہیں انسانوں کے دونوں طرح کے صفحات ہیں اگر وہ تو نہیں ہے عورتن جا اللہ اکبر اللہ نے فرمایا کہ تم اپنے میں سے کسی کو بھیجو وہاں جا کے تم کو پتا لگ جائے گا کیا صورتحال ہے دنیا میں فرشتوں نے مشورہ کرکے دو فرشتوں کو ہاروت اور ماروت کو دنیا میں بھیج دیا وہ گئے وہاں جاکے جب انہوں نے دیکھا تو وہ برائی بھی کر سکتے تھے اچھائی بھی کر سکتے تھے انہوں نے ایک عورت کو دیکھا اس میں شریک ہوں گے تو اس نے ان کو کہا کہ میں عورت نے کہا کہ میں تمہیں مل سکتی ہوں جب تم شرک کرو جتنی شراب پیو تو نے چنانچہ اس عورت نے کچھ حال ہے وہ نشے میں مدہوش ہو گئے اور پھر نشے کی حالت میں ان فرشتوں نے عورت کو آسمان پر چڑھنے گر سکھا دیا اور خود بولیں اور وہ کہتے ہیں کہ پھر وہ جب ہوش میں تو اور جواز نہیں چلے گی اور آسمان میں جو آج وہی عورت ہوئی یہ کہا لڑکے دونوں ان کے بارے میں یہ کہانی بنائی کیا بابل میں کنواں اسکول میں خدا نے ان کو اوندھے منہ لٹکا دیا کہ تم نے وہاں جاکے دنیا میں بنا دیا اس گناہ کی پاداش میں تم کو بہاولپور منٹ کہا جاتا ہے کہانیاں بنائیں اور یہ دی سو تک بھلا دیا کہ حضرت عائشہ رضی اللہ تعالی عنہ کے پاس ہے اللہ کے پاس آکر ایک عورت نے کہا کہ میں نے ان دونوں کو لوٹ کے بہاولپور میں دیکھا اب اصل حقیقت کیا ہے بابل کی اور ہاروت اور ماروت کی جو تاریخ ہے جو بنی اسرائیل کی تاریخ ہے جو حضرت مصلح موعود رضی اللہ تعالی نے بیان فرمائی اور آپ سے پہلے کسی نے نہیں بیان فرمائی کیا حقیقت ہے اور جس ٹرین آج اس کو سمجھتے ہیں وہ کیا کہ حضرت عیسی علیہ السلام سے پانچ سو سال پہلے اے بھائی جو اسرائیل کی سرزمین آج کا یورو شلم پر بابل کا بادشاہ کے ہوگیا اس نے کیا کیا کہ ان کی جو مقدس جگہ تھی اور کتاب تھی اس کو وہ جلایا اور جو ٹیمپل تھا جس کے معنی کیا ہے اور بنی اسرائیل کے بہت سے لوگوں کو قائدین بابل گیا اور پھر ان کو وہاں جاکر پر ظلم کی ہے اور کئی سال تک جوہری 62 سال تک ظلم ہوتے رہے تب اللہ تعالی نے دو فرشتوں کو بلکہ وہ نبی حضرت مصلح موعود رضی اللہ تعالی نے فرمایا قول فرشتہ صفت نبی تھے وہ اور حضور نے اس کی مثال تھی دیکھو حضرت یوسف علیہ السلام کے بارے میں آتا ہے کہ یہ تو ملک کریم ہے قرآن مجید میں جن کے بارے میں پر آتا ہے دونوں فرشتوں کی اللہ تعالی نے دو نبیوں کی اللہ تعالی نے یہ ڈیوٹی لگائی تھی کہ بنی اسرائیل کو باغیوں سے آزاد کروائیں گے ان لوگوں نے پرواہ کچھ پلاننگ کر کے سیاسی بھی مذہبی بھی روحانی بھی اللہ کے نبی تھے تو بنی اسرائیل کو بابل کے بادشاہ سے آزاد اس کی صورت کیا بنی کہ ایران کے بادشاہ کو جس کا نام سائنس بتایا جاتا ہے اس کو ساتھ لے کے اس کی مدد حاصل کر کے پھر دوبارہ جو شام کو پر ان لوگوں نے فتح حاصل کی تو وہ بابل میں جو ہے یہودیوں نے سازش کی یا یہودیوں پر سازش کی گئی تھی قرآن مجید میں اس بات کا ذکر آتا ہے اور حضرت سلیمان علیہ السلام کے بعد جو ان کی حکومت کمزور ہوگئی تھی بنی اسرائیل کمزور پڑ گئے تھے باہر کے لوگوں نے ان پر حکومت شروع کردی ان کے حملے شروع کر دیئے ذکر سے واچ روتی ہے بعد میں پھر بابل کا ذکر آتا ہے اسی آیت میں ذکر آتا ہے کہ حضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانے میں بھی یہ یہودی ایسی سازشیں کریں گے یہ وہ بات ہے جو کھل کر شیشے کی طرح آج وہ تفسیر کبیر پڑھو تو سامنے آجاتی ہے لیکن اس کے مقابلے پر جب آپ پرانی تصویر پڑی تو کیا ہے ہندوؤں کے قرآن پڑھ لوں ہیں اور ان کی تفسیر پڑھ لو پھر بھی یہ لوگ کہتے ہیں کہ مسیح موعود تیاری کی ضرورت کیا تھی اب دیکھ لیں کہ سیدنا حضرت مسیح علیہ السلام کی دعائیں کی عوام کے نتیجے میں اللہ تعالی نے جو پیشگوئی مصلح موعود سے نوازہ غیر مسلم اور پیدا ہوئے پھر انہوں نے جو کام کرکے دکھائے اور جو وہ لکھا ہوا تھا کہ کلام اللہ کا شکر ہے اور اسکا مرتبہ اس کے ذریعے ظاہر ہو گا تو وہ ہوا یا نہیں ہوا ایک چھوٹی سے ایک بات اور بتاتا ہوں ایک آیت قرآن مجید میں وہ خواجہ کا ذوالقعدہ اس کا ترجمہ پہلے لوگ یہ کرتے چلے آرہے ہیں کہ اے محمد صلی اللہ علیہ وسلم اللہ نے تجھ کو گمراہ پایا تو اس کو ہدایت دیں حضرت مصلح موعود رضی اللہ تعالی فرماتا ہے اللہ تعالی مخلوق خدا کے حوالہ سے تجھے اپنے سرخ میں اپنے عشق میں سرشار پایا تو تجھے ہے میرے عشق میں خدا کی مخلوق کی خاطر سرشار تھا تو زال کے معنی بھی ہوتے ہیں مسلمہ رضی اللہ تعالی عنہ کسی کے عشق میں کوئی سردانا پھر وہ بھی زوال کہلاتا ہے تو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی محبت اور آپ کی عظمت کے حوالے سے جو یہ ترجمہ ہے اور جو قرآن مجید کی تفسیر ہے جو از حضرت مصلح موعود رضی اللہ تعالی عنہ کی بہن بھائیوں کو بھی اور آپ نے نوجوانوں کو بھی یہ گزارش کپڑے ان عرفان کے موتیوں سے فائدہ اٹھائے لاسنزا ایک ٹیلی فون کال رہی ان سے بھی بات کر لیتے ہیں ان کا سوال سنتے ہیں انڈیا سے ہی مقری عبدالحکیم صاحب ہیں اس وقت تکلیف ہونے پر موجود ہیں ان کا سبب بنتے ہیں السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ محترم میری درخواست کی ہے اللہ تعالی سے دبا کر سنت رسول اکرم کی روشنی میں سیدنا حضرت الحسین رضی اللہ نے ایک کتاب تالیف قلوب تحریر فرمائیں اس کتاب کا تاریخ پس منظر کیا ہے جب یہ کتاب ہای میر عثمان علی خان ریاست حیدرآباد دکن کھانے کے بعد ان کا یعنی نظام حیدرآباد پہ کا رس اور پھر اللہ کی طرف پیر کر کے کس طرح مولا شکریہ آپ کا جو سوال ہے اس کا جواب تو تفصیل طلب ہے اختصار کے ساتھ محترم مولانا احمد جمشید صاحب شاید کروں گا کے حضرت اللہ تعالیٰ عنہٗ نے افغانستان میں ہمارے بزرگ صحابی حضرت مولانا عبداللطیف صاحب شہید رضی اللہ تعالی عنہ کی شہادت میں آئی اس کے بعد پھر ایک اور صحابی کی شہادت میں حضرت مصلح موعود کے دور میں بھی ہمارے بعض مبلغین کی شہادت عمل میں آئی اس نظریے سے کہ ان لوگوں کو صحیح احمدیت کا پیغام پہنچایا جائے آپ نے دعوت الامیر نامی کتاب لکھی تھی اور اس پر شاہ حبیب اللہ صاحب کو مخاطب کرتے ہوئے ساری باتیں لکھیں اور مسیح موعود علیہ السلام کی صداقت کے دلائل کیا ہیں بڑی وضاحت کے ساتھ اس میں آپ نے تحریر کیا بعد میں آپ کو خیال آیا ہے کہ حیدر آباد دکن کی جو سلطنت ہے وہ بھی ایک والی کی غلط ہے جو مسلمان ہیں مسلمانوں کا ہمدرد بھی ہے اور اسلام ایسے علماء کو اکٹھا کیا ہوا ہے جو اردو میں قرآن اور اسی طرح اسلامی علوم کی ترویج کے لئے بہت ساری کتابوں کے تراجم انہوں نے وہاں پر کروائے اسبانیا یونیورسٹی کی سخاوت ہے اس سے بڑے بڑے علماء کو انہوں نے وہاں جمع کیا ہوا تھا تو ان کے اس جذبہ اسلام کو دیکھتے ہوئے حضرت مصلح موعود نے یہ مناسب سمجھا ان کو بھی جو ہے وہ اسلام اور احمدیت کا پیغام پہنچایا جائے چنانچہ آپ نے کے نام لکھیں اور اس کے اندر احمدیت کی تبلیغ و اشاعت اور بس یہ موت کا آنا اور اندر اسلام کی پیش گوئیاں کا پورا ہونا اور اس زمانے میں اسلام کو حقیقت کے رنگ میں پیش کرنا اور سائنٹیفک رنگ میں اسلام کو کس رنگ میں پیش کرنا آپ نے ان کے کاموں کو بھی سراہتے ہوئے اس بات کا ذکر کیا آج اسلام جو ہے وہ بہت کسمپرسی کے عالم میں اور علوم کی ترویج میں بھیجا ہے ان کو باتوں کو ملحوظ رکھنا چاہیے جو پرانے دھیان سے قسم کی باتیں ہیں ان کو چھوڑ کر جو چوریاں مختلف آرہی ہیں اس کے مطابق ان کی تشریح ہونی چاہئے اور پھر یہ کہ اگر آپ اس پیغام کو قبول کریں گے تو اللہ تعالی دین میں بھی اور دنیا میں بھی دونوں طرف سے آپ کو سرفراز کرے گا اور اللہ تعالی آپ کے جو ہے بہتر ہے قائم کرے گا اور اگر اس کا انکار کریں گے تو آخر کار آپ کو جو ہوا اللہ تعالی کی گوگل آپ اسلام کے خدمت کرنے کے ہیں لیکن مسیح موعود کو نہ ماننے کے نتیجے میں اللہ تعالی پھر کی گرفت میں باہر آپ آ جائیں گے تو یہاں خلاصۃ میں یہ بات بیان کی ہے اس سے آپ دیکھیں اس کا نتیجہ کیا ہوا ریاست حیدرآباد جو ہے وہ بڑی پختہ ریاست تھی اور اس میں کوئی شک نہیں ہے کہ وہاں کی آبادی زیادہ تر جو ہے وہ مسلمان کم ہے اور ہندو زیادہ ہیں یہ عجیب بات ہے کہ معاملہ بالکل ٹھیک ہے اس کے کشمیر میں مسلمان زیادہ تھے لیکن حاکم کون تھا ایک ہندو مہاراجہ تھا اس کے بالکل نہ رکھتا کہ راجا یا بادشاہ جو ہیں وہ مسلمان ہیں اور یا جو ہے وہ اکثریت ان کی غیر مسلم رعایا ہے دوبارہ مسلم رضی اللہ تعالی عنہ نے جب احمدیت کا پیغام ان کو پہنچایا اور تم بھی ہیں کہ اگر اس کو نہیں مانیں گے تو پھر اللہ تعالی کی گرفت میں آجاتا آپ آجائیں گے اور ایسا ہی ہوا چنانچہ دیکھئے کہ جب انیس سو سینتالیس میں انقلاب آیا ہے ملک ہندوستان آزاد ہوا ہے اس وقت ریاست حیدرآباد میں زیادہ تر رنگ اور نظریہ پاکستان کے ساتھ شامل ہوجائیں گے لیکن پاکستان میں اور حیدرآباد میں کتنا فاصلہ سو میل کا فاصلہ ہے کا موسم اس کے بعد سے تو وہ ان کی تھا لیکن یہ کیا اب بھی مشرقی پاکستان کا کیا حال ہوا دیکھیں بنگلہ دیش بن گیا تو یہ حیدرآباد کا پاکستان میں شامل ہونا ایک تو نہ تھا اور پھر دیکھیے کہ کسی ملک پر قبضہ کرنے کے لئے فوج کشی کی جاتی ہے لیکن یہ عجیب اتفاق ہے کہ بڑا مشہور واقعہ ہے کہ حیدرآباد کو فتح کرنے کے لئے ہمارا اللہ بھائی پٹیل کو جو ہے کوئی فوج کشی نہیں کرنی پڑی اس گلن کیا کیا صرف پولیس ایکشن کے ذریعے سے حیدرآباد کی سلطنت کو اپنے اندر متلاطم کر دیا تو کتنی بات ہے عجیب بات ہے کہ ایک ایسا والی ریاست کا والی جو کہ بڑی طاقت رکھتا تھا اور بڑی اس کی جانب وہ صورت تھی اور کروڑوں کیا گیا تھا اس کا فرمایا تھا ابھی اخبارات میں پڑھ رہے ہیں کہ ان کا جو وہاں پر لندن میں فرمایا تھا اس کی تفصیل کے لیے ادھر پاکستان بھی دعویٰ تھا اور ادھر ان کے رشتہ دار لوہے نظام کے وہ بھی دعویدار تھے آخرکار ان کے حق میں فیصلہ ہوا دوبارہ کہنے کا مقصد یہ ہے کہ وہ جاہ و حشمت جو میراث احمدیہ کو ٹکرانے کے نتیجے میں آخر کیا ہوا ان کا بالکل باوجود اس کے کہ بہت سارا کام انہوں نے اسلام کی خدمت کے لیے ضرور کیا تھا اس میں کوئی شک نہیں بڑے علماء کا جنہوں نے جمگھٹا بھی ہے کہ کیا تھا جن کے کام بھی انہوں نے کیے تھے اس میں کوئی شک نہیں بڑے اچھے کام بھی کیے ہیں لیکن احمدیت کو قبول نہ کرنے کے نتیجے میں آخرکار ان کو اپنے دانتوں سے بھی دس اور وہ جاہ وحشمت جاتی رہی وہ عزت و احترام جو پہلے تھا وہ قائم نعرہ علی دہ پروگرام کو ہی آگے بڑھاتے ہیں اور محترم مولانا محمد اکرم صاحب سے ہمارا سوال ہے کہ قرآن کریم پر جو اعتراضات ہوتے تھے طرح اس کے جوابات جو ہے وہ بھی شرماتے اس بارے میں کچھ بتائیں حضرت مصلح موعود رضی اللہ تعالی عنہ نے ایک سو بات کو مد نظر رکھتے ہوئے کہ قرآن مجید کا جو نزول ہوا ہے وہ عربوں کے لئے نہیں تھا بلکہ یہ سارے دنیا کے لیے تھا حضور صلی اللہ علیہ وسلم عالمگیر نبی ہیں اور جیسا کہ قرآن مجید میں آتا ہے اللہ الیکم جمیعا تو اس نے ہاتھ سے تمام دنیا کے لیے اور تمام انسانیت کے لئے آپ کی رسالت تھی اور قرآن مجید تمام دنیا کے لیے ہے تمام لوگوں کے لئے تو بنی نوع انسان کے لیے قیامت تک جو بھی مسائل پیش ہونے تھے اس کے اندر اللہ تعالی نے دی ہے میں قائم رہنے والی صداقت اس کے اندر ہے تو اس نظریے کو لے کر حضرت سلمان رضی اللہ تعالیٰ عنہٗ نے چاہے وہ مستشرقین ہو جو یورپ کے فلسفے سے متاثر ہوئے انہوں نے اسلام پر اور قرآن مجید پر جو اعتراضات انہوں نے کیے ہیں ان تمام اعتراضات کو آپ دیکھئے تفسیر کبیر کا اگر یہ مطالعہ کریں گے تو اس میں آپ کو نظر آئے گا کہ جرمن مستشرقین ہو یا برطانیہ کے مستشرقین ہو کوئی بھی اس تشکیل جنہوں نے قرآن مجید پر اپنے رنگ میں بائبل کو دیکھتے ہوئے یا موجودہ سائنس کے حالات کو دیکھتے ہوئے اعتراضات کیے ہیں حضرت مصلح موعود رضی بڑی تفصیل کے ساتھ قرآن مجید میں ان کے جوابات دیئے ہیں یہ نہیں ہے کہ صرف تفصیل لکھ دی ہے اپنی طرف سے بلکہ ان تمام تفاسیر کو جو غیر مسلموں نے بھی قرآن مجید کی تفسیر لکھی ہیں نوے کی غیر جو ہیں ان کی تفصیل کو بھی دیکھا انہوں نے کیا اعتراضات کیے ہیں پھر یہ ہے کہ جو سیاستدان ہیں انہوں نے بھی اعتراضات باز کئے ہیں یا بعض لوگ ہیں انہوں نے اعتراض کیا اور تمام کو لے کر جیسا کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے فرمایا تھا کہ تین ہزار سے زیادہ اعتراضات اسلام پر کیے گئے تھے آپ نے براہین احمدیہ لکھی ہے اسی طرح سے قرآن مجید کے اوپر جتنے بھی اعتراضات کیئے ہیں مستشرقین کرو یا غیر مسلم دوسرے جو قومیں ہیں ان کی طرف سے اعتراضات کیے گئے ہو اور چائے کی طرف سے ہو یا سناتن دھرم کی طرف سے ہوں وہ سارے اعتراضات کو قرآن مجید کے جن جن آیات پر اعتراضات ہوئے ان کے جوابات آپ نے دیے تھے اس زمانے میں سائنسیں جس قدر ترقی کی ہے آپ نے جو قرآن مجید صحیح ثابت کیا ہے کہ بلکہ ہم یہ برملا کہہ سکتے ہیں حضرت خلیفۃ المسیح کی تحقیق کے مطابق کی کے تین بٹا چار جو حصہ ہے قرآن مجید کے اندر یہ ہستی باری تعالیٰ کے دلائل اور تمام کائنات کی جو حقیقت ہے اس کے اندر بیان کی گئی ہے ابھی میں نے ذکر کیا تھا انا فی خلق السماوات والارض واختلاف اللیل والنہار لایات لاولی الالباب عقلمندوں کے لیے زمین و آسمان کی پیدائش رات اور دن کیسے بنتے ہیں اور دیگر جائے کہ کس طرح سے ان کے اندر جو ہے کہ ترتیب پائی جاتی ہے فرماتا ہے اللہ تعالی کی تخلیق میں کہیں بھی کوئی بحث نہیں پاؤ گے تو باتوں کے لیے آئے ہوئے تھے اور غیر مسلموں کے اعتراضات کو لے کے آپ کے طور پر ان کا حل بتایا ہے اور قرآن مجید سے ان کا جواب دیا ہے پھر آپ نے ساری دنیا کو یہ چیلنج دیا دنیا کا کوئی بھی علم کا ماہر ہو اگر قرآن مجید پر کوئی اعتراض کرتا ہے تو میں اس کا جواب قرآن مجید ہی سے دوں گا چنانچہ میں آپ کا وہ چیلنج وہ پڑھ کے سنا نامناسب ہو واسطہ ہو چنانچہ تمام اہل علم کو چیلنج دیتے ہوئے فرماتے ہیں آج میں دعوے کے ساتھ یہ اعلان کرتا ہوں خاص نہیں بیس پچیس سال سے میں یہ اعلان کر رہا ہوں کہ دنیا کا کوئی فلاسفر دنیا کا کوئی پروفیسر دنیا کا کوئی ایم اے ہاؤ ولایت کا پاسورڈ ہی کیوں نہ ہو اور خواہ وہ کسی فلم کا جاننے والا ہو تو وہ فلسفے کا ماہر ہو تو وہ بنتی کمائے ہو خواہ وہ النفس کا ماہر تھا وہ سائنس کا ماہر ہو خواہ وہ دنیا کے کسی کے علم کا ماہر ہو میرے سامنے آ کر قرآن اور اسلام پر کوئی اعتراض کرے تو نہ صرف میں اس کے اعتراض کا جواب دے سکتا ہوں بلکہ خدا کے فضل سے اس کا ناطقہ بند کر سکتا ہوں تا بلکہ اس کے وہ کہتے ہیں نہ کہ جھوٹ کو جھوٹ کے بارے میں پہنچانا میرے سامنے کیا آپ کی کوئی جیسا کہ میں نے پہلے ذکر کیا ہے کسی نے یونیورسٹی کے کسی کالج کے تربیت یافتہ آپ نے پڑھے لکھے نہیں تھے لیکن اللہ تعالی نے آپ کو علم دیا تھا تو فرماتے ہیں کہ شروع میں اس اعتراض کا جواب دے سکتا ہوں کہ خدا کے فضل سے اس کا نام اردو میں جسے ہم کہتے ہیں بولتی بند کر دے گا ان کی بات نہیں کر سکیں گے فرمایا دنیا کا کوئی علم نہیں جس کے متعلق خدا نے مجھ کومعلومات نہ بخشی ہو اور اس قدر صحیح علم جو اپنی زندگی درست رک سے بھی نوازہ کیا قرآن مجید کا باقاعدہ طور پر کہ اس کے اندر ایسے علوم کے خزانے بھرے پڑے ہیں جو قیامت تک کے لئے ہر قسم کے جوابات دینے کے لئے اس کے اندر موجود ہیںھنے یا قوم کی رہنمائی کے لیے ضروری ہو مجھ کو نہ دیا گیا یہ مسلم عورت کا جو آپ نے بھرپور شرکت کا اعلان کیا تھا اس کے اندر آپ نے یہ بات برملا طور پر بین کی چنانچہ اپنے کیے گئے علم تفسیر حدیث اور فن تقریر میں بھی آپ کو کمال حاصل تھا اور اپنے اترن مخالفین بھی آپ کو داد دیے بغیر رہ نہیں سکتے تھے چنانچہ یہ بڑی ایمان افروز بات ہے کہ مولانا ظفر علی خان جماعت کے سخت مخالف تھے حرامیوں کو مخاطب کرتے ہوئے کہتے ہیں ہیں وہ جنہوں نے قادیانیوں کو تباہ و برباد کر کے بلکہ ایک مینار مسجد کو گرا کر اس کی دریائے بیاس میں پھینکنے کا دعوی کیا تھا وہ کہتے ہیں کان کھول کر سن لو آرائیوں کو مخاطب کرتے ہوئے زمیندار کے ایڈیٹر مولانا ظفر علی خان صاحب کہتے ہیں کہ ان کو رکن تم اور تمہارے لگے بندھے مرزا محمود کا مقابلہ قیامت تک نہیں کر سکتے ڈی مارنے والے مولوی موجود ہیں بڑے بڑے علامہ کہلاتے ہیں وہ کہتے ہیں کہ تم ان کا کچھ نہیں بگاڑ سکتے خراب نہیں کر سکتے کان کھول کر سن لو اور تمہارے لگے بندھے مرزا محمود کا مقابلہ قیامت تک نہیں کر سکتے مرزا محمود کے پاس قرآن ہے اور قرآن کا علم تمہارے پاس کیا دھرا ہے تم نے کبھی خواب میں بھی قرآن نہیں پڑھا ہوں محمد کے پاس ایسی جماعت ہے کہ تن من دھن سے اس کے ایک اشارے پر اس کے پاؤں پر نشان اس پر اس کے پاؤں پر شعر اوپر نچھاور کرنے کو تیار ہے کے پاس مبلغ مختلف اور دنیا کے ہر ملک میں اس نے جھنڈے گاڑ رکھے ہیں خوفناک ساز صفحہ 196 دوبارہ آپ 1932 میں آپ نے فرمایا دنیا کا کوئی ایسا نہیں جس کے اصول کو میں نہ سمجھتا ہوں بغیر اس کے کہ میں نے ان علوم کی کتابیں پڑھیں ہو مجھے خدا نے ان کے متعلق علم دیا ہے اور چونکہ میں قرآن کے ماتحت ان علوم کو دیکھتا ہوں اسے ہمیشہ صحیح نتیجے پر پہنچتا ہوں اور کبھی ایک دفعہ بھی اللہ تعالی کے فضل سے مجھے اپنی رائے کو تب خطبات محمود 13 کی تفسیر میں فرماتے ہیں کے آج دنیا میں دیکھیے ہندوستان میں بھی کیا بلکہ ایتھوپیا جیسے پہلے ہم اپنا کہتے تھے وہاں پر تو بہت زیادہ ہی دنوں اخبارات میں پڑھتے ہیں بلکہ دنیا کی ایک ایسی غلط پوسٹ ہو گئی ہے یا غذائی بحران بہت زیادہ ہے حضرت نوح فرماتے ہیں ویزا کا مسئلہ دنیا میں کوئی دو سو سال سے مختلف ممالک میں زیر بحث چلاتا ہے اس سلسلے میں اللہ تعالی نے قرآن کریم میں فرمایا ہے اس دنیا میں رہنے والوں کے کھانے پینے کے لئے ہر چیز کو اندازے کے مطابق بنا دیں سجدہ کی حالت میں اللہ تعالی نے فرمایا سب کو معلوم ہونا چاہئے کہ یہ اللہ تعالی کا فیصلہ ہے ایک دفعہ مسٹر کپور کے پنجاب یونیورسٹی کے پروفیسر تھے مجھے ملنے کے لیے قادیان آئے اور میں نے قرآنی آیات سے ان کو سزا کا معاملہ سندھ آیا تو بہت حیران ہوئے اور خواہش کی آیات مجھ کو لکھ کر دی چنانچہ میں نے ان کو وہ آئے تھے دنیا کے کسی عالم کا کوئی ماہر انسان ہوں تو آپ نے چیلنج دیا ہوا ہے کہ آؤ قرآن پر جو اعتراض کرنا ہے میں قرآن مجید سے اس کا حل نکال کر تم کو دکھا دیتا ہوں آپ کے علوم میں ماہر قرآنی علوم کی مہارت کا اور موت اللہ کے فضل سے جو اللہ تعالی نے آپ کو قرآن کا علم دیا ہے اس کا اظہار ہے اپنی ذات میں آپ کو کچھ نہیں کوئی علم نہیں تھا آپ کو آپ نے بڑی کتابیں پڑھی ہو بلکہ اللہ تعالی نے آپ کو سکھایا اور جو کہ قیامت تک رہنے والی یہ کتاب ہے اور قیامت کے مسائل کا حل اس کے اندر موجود ہے تو آپ نے فرمایا کوئی دنیا کا مسلہ ہو میں قرآن سے اس کا حل یہ آپ کی قرآن دانی اور آپ کے اعتراض کا جواب دینے کا انداز تھا کہ ہر قسم کا اعتراض کا جواب کسی رنگ میں بھی کیا گیا ہو تو وہ نکال کے آپ نے اس سے انکار کر دیا ہے جو جدید تفسیر القرآن جو آپ نے لکھا ہے اس کے اندر اپنے پروگرام کو آگے بڑھاتے ہوئے محترم مولانا منیر احمد خادم صاحب میرا یہ سوال ہے کہ قرآن کریم کے منجانب اللہ ہونے کے تعلق سے حضرت مصلح موعود نے جو دلائل پیش کی ہیں وہ میں آپ سے ملنا چاہوں گا قرآن کریم کے اہم منجانب اللہ ہونے کے تعلق سے حضرت مصلح موعود رضی اللہ تعالی عنہ نے بے شمار دلائل دیے ہیں اس وقت کی رعایت سے دو بیان کرتا ہوں حضرت مصلح موعود رضی اللہ تعالی عنہ جو قرآن مجید کی تفسیر بیان فرمائیں اس میں آپ نے مختلف جگہوں پر یہ بیان فرمایا کہ دیکھو جو مکی سورتیں ہیں ان میں جو انبیاء علیہم السلام کے واقعات بیان کئے گئے ہیں واقعات صرف کہانی کی شکل میں نہیں ہے کی کوئی واقعہ بیان کر دیا کہ اس طرح کسی کی بیان کر دی کہانی کر کے واقعات کی شکل میں بیان کر دیا تھا نہیں ہے جتنے بھی واقعات مکی سورتوں میں بیان کیے گئے ہیں تصلیح اس میں تحریر اس میں یہ بیان کیا گیا ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی آئندہ آنے والی زندگی میں زندگی میں یہ سارے جو واقعات ہیں اسی بنا پر بھی پورے ہوں گے چنانچہ اس کی ایک مثال دیتا ہوں آپ کو کے سورہ یوسف جو ہے وہ مکی سورت ہے کام نازل ہوئی اور اس کے اندر بہت سی باتیں بیان کی گئی جو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم سے حضرت یوسف علیہ الصلاۃ والسلام کی مشابہت کے طور پر ہے حضور بیان فرماتے ہیں کہ دیکھو حضرت یوسف علیہ السلام کے بھائیوں نے آپ کی مخالفت کی جو مکہ کے وہ بھی آپ کے بھائی تھے انہوں نے آپ کی شدید مخالفت کی گوگل الصلاۃ والسلام کو جب پہلی وحی آئی تو نے اپنے والد کو بھی آپ بتائیں آپ صلی اللہ علیہ وسلم پر پہلی وحی آئی تو وہ بھی اپنے بزرگوں سے رشتہ دار تھے حضرت خدیجہ کی طرف سے ان کو بھی ان کی اس طرح بیوی اپنے مشابہت ہے بہن کی کرتے کرتے آپ یہ بیان فرماتے ہیں کہ دیکھو اس میں سورہ یوسف میں یہ جو آتا ہے انہوں نے جب ہجرت کر کے چلے گیا حضرت یوسف کے بھائی مصر اور وہاں جا کے ان پر یہ راز کھلا کہ ہم تو یوسف کے ساتھ برا سلوک کرتے رہے تو کہنے لگے بھائی اب آپ ہم کو معاف کر دو نعت شریف بہ علیکم الیوم آج کے دن تم پر کوئی ڈانٹ نہیں ہے ہیں جو تم نے کر دیا اللہ کے حوالے اور تم میرے بھائی ہو بھائیوں کی طرح ہو مکی سورت میں حضرت یوسف علیہ السلام ارے یہ آیت قرآن مجید میں درج ہے جو حضرت یوسف علیہ السلام کے حالات کے حوالے سے یہ پیشگوئی اس طرح پوری ہوئی کہ جب مدینہ میں حضور صلی اللہ ہجرت کر کے تشریف لے گئے اور سن ساٹھ ہجری میں مکہ فتح ہوا اور اس وقت جو ہے وہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم ایک عظیم الشان طریقے سے مکہ میں داخل ہوئے پیش گوئی میں بھی تھا بائبل کی پیشگوئی میں یہ دس ہزار قدوسیوں کے ساتھ ہوں آئے گا عراق دوسری آپ کے ساتھ تھے اور وہاں جس وقت آپ مکہ میں گئے ہیں تو مکہ والے لوگ تو دس ہزار آدمیوں کا لشکر دیکھ کر حیران و پریشان ہوگئے ڈر گئے کہ ہمارے ساتھ کیا ہوگا اور ہونا بھی چاہیے تھا کیونکہ تیرہ سال تک مکہ میں اور آپ کے صحابہ کے ساتھ یونس سلوک کیا تھا وہ تو اس قابل تھا کہ وہاں کے لوگوں کو چھوڑا ہی نہ جائے اور خون کی ندیاں بہہ جائیں تو وہ لوگ گرے ہوئے تھے کہ آپ کیا کریں گے اور کیا ہو گا آج کا دن تو بہت برا دن آگیا ہمارے لئے وہ اس وقت حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے ان سے پوچھا کہ مکہ والوں بتاؤ تم مجھ سے کیسے سلوک کی امید رکھتے ہو تو مکہ کے جو وہاں کسی کوئی شخص جو ان کی نمائندگی کر رہا تھا انہوں نے کہا کہ ہم تو آپ سے اسی سلوک کی امید کرتے ہیں جو حضرت یوسف علیہ السلام کے نے اپنے بھائیوں کے ساتھ کیا تھا باب دیکھے مکہ میں ایک سورت نازل ہوتی ہے اس اس میں وہ ذکر آتا ہے الفاظ مدنی زندگی میں فتح مکہ کے دن ان کو فارم کہلوایا جاتے کیا محمد صلی اللہ علیہ وسلم آپ تو بڑے کریم ہی الرحیم ہے ہم آپ سے اصولوں کی امید کرتے ہیں جو حضرت یوسف علیہ السلام نے اپنے بھائیوں سے کیا تھا علیہ وسلم نے یہی الفاظ استعمال فرمائے ہیں کہ ابو جاؤ متعلقہ تم سب آج کے دن آزاد ہو تم سب کے خون کو معاف کیا جاتا ہے سب برابر ہے تاریخ دنیا کی کسی تاریخ میں کبھی نہیں دیکھا گیا ہوگا کیسے جانی دشمنوں کو معاف کر دیا گیا بائبل پڑھ کے آپ دیکھ لیں اس میں صاف لکھا ہے جب خدا تم کو کسی زمین پر فتح بخشے تو وہ ان کے کسی مردہ کو زندہ چھوڑو اور ان کی عورتوں کو غلام بنا لو اور جو ہے وہ اس کے نتیجے میں ہم نے دیکھا بائبل کی ہسٹری بتاتی ہے اس زمانے کی تاریخ بتاتی ہے کہ خون کی ندیاں بہا دیں گی اگر آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانے میں وہ جو سورہ یوسف کا ذکر کر رہا تھا نازل ہوئی یہ بھی حضرت مصلح موعود رضی اللہ تعالی عنہ کی تفسیر کا ایک عظیم الشان پہلو ہے کہ آپ نے اللہ تعالی کے طرف سے ہونے کی جو قرآن مجید کی جو دلیل بیان میں بیان کیا کہ دیکھو جو مکی سورتیں ہیں ان میں جو انبیاء علیہم السلام کے واقعات بیان کئے گئے وہ دراصل آئندہ آنے والے زمانے میں صداقت کے بعد ایک واقعہ بیان کرتا ہے مختصر اس کے حضرت موسی علیہ السلام کے زمانہ میں جو فرعون غرق ہوا اگر میں آپ کا پیچھا کرتے ہوئے تو اللہ تعالی نے اس وقت ہوئے فرمایا کہ لیا کھانا کھانے لگا کہ ان کا ایمان لاتا ہوں اور میں بھی مانتے ہوں لیکن نہیں میں ایسا کروں گا کہ تمہارے جسم کو بچا لوں گا اور طاقت تمہارا جو جسم میں وہ آنے والا نشان بن جائیں قرآن مجید کی وہ جو پیشگوئیاں جو قرآن مجید کا جو وہ فرمان تھا وہ دو ہزار سال کے بعد کیسے پورا ہوا جو یہ مصر کے اندر جواب نکلیں ہم میاں بادشاہوں کی اور جو خانوں کے اندر سے ان میں وہ بھی نکل گئی مہم میں جو اس فرعون کی جو سمندر میں ڈوب کے مر گیا تھا اور ایک انگریز مصنف کا نام مورس بکائی فرانس کا تھا اس نے پھر بعد میں کتابیں لکھیں جب اس نے دیکھا کہ یہ تو جو نکلی ہے تو سمندر سے ڈوب کے مر جاؤ انسان لگ رہا ہے جب تحقیق کی گئی تو بعد میں اس نے قرآن پڑھا تو قرآن بات لکھی تھی کمال ہو گیا اس طرح ان لوگوں کے مسلمانوں کی توفیق ملی تو بے شمار علامات ہے قرآن مجید میں منجانب اللہ ہونے کے پروگرام کے اختتام پر مولانا محمد کریم الدین صاحب شاہد سے یہ پوچھنا چاہوں گا کہ جیسے کہ پیشگوئی کے الفاظ ہیں کہ کلام اللہ کا مرتبہ لوگوں پر ظاہر ہو تو یہ الفاظ کس طرح تم سلمہ رضی اللہ تعالی عنہ کی سیرت کی عکاسی کرتے ہیں میں آپ سے جانا چاہوں گا کیا ہے میں تو اتنا اطمینان تھا کہ اب تک جو ہم نے بحث کی ہے تمام لوگوں کو معلوم ہو گیا ہوگا کہ قرآنی تفاسیر کس رنگ میں بیان کی گئی ہیں کس طرح سے باتیں جو ہیں وہ محض ذہنی باتوں کے طور پر پیش کی گئی ہیں بعض غلط روایات کو لے کر پیش کی گئی تھی لیکن حضرت سلمان رضی اللہ تعالی عنہ نے قرآن مجید کی تفسیر کو اس رنگ میں دنیا کے سامنے پیش کیا اس کے عقائد ہو یا اخلاقی تعلیم ہو ہر طرح سے اس کا دنیا کے اوپر ایک غلبہ ثابت کیا ہے کلام اللہ کے مرتبہ کو ثابت کیا کہ معمولی کتاب نہیں ہے اس کے اندر المسائل بھی ہے اس کے اندر ہے جو ہوتی ہے اس کے اندر بھی ہے اس کے اندر دینی علوم کا بھی خزانہ ہے اور آئندہ آنے والے زمانے کے بارے میں بی رویا ہیں تو ان کے حواریوں کے اعتبار سے دیکھا جائے تو قرآن مجید کی پیش گوئیوں کو ایسا نظر آتا ہے کہ وہاں کے سامنے آنے والی باتوں کو اپنی آنکھوں سے خود دیکھ لیا ہو تو اب کیوں کہ وقت بہت ہی کم ہے یہ ہے کہ جو ابھی ہم نے باتیں جس کی ہیں کی تفسیر کے اعتبار سے مستشرقین اور غیر مسلموں کے اعتراضات کے جواب دینے کے اعتبار سے حضرت مصلح موعود نے جو چیلنج دیے ہیں ان کے اعتبار سے دیکھا جائے تو کران مجید کوئی معمولی کتاب نہیں ہے بلکہ لوگوں نے تسلیم کیا کہ واقعی قرآن مجید کو جیسا کہ ہم سمجھتے تھے کہ ہم کتاب ہے بس ایک عقائد کی کتابیں اور کچھ نہیں ہے تو وہ ایسی بات نہیں ہے بلکہ اس کے اندر علوم قرآن کے علوم کے خزانے اس میں جیسا کہ پہلے شاعر نے کہا ہوا ہے وہ قال العلم فی القرآن لکن تقاصر امین ہو قسم کا علم قرآن مجید میں پایا جاتا ہے وہاں لوگوں کے جو اتنے ہی وہ اس بارے میں جو ہے قاصر ہو جاتی ہیں وہ اس وقت تک پہنچ نہیں سکتی ہیں ان علوم کو ظاہری طور پر بھی حضرت مسلم والے انڈیا کے سامنے ظاہر کر کے دیکھا ایک مختصر حوالہ پڑھ کے میں اپنی بات کو ختم کرتا ہوں حضور 1936 میں آپ نے فرمایا قرآن کریم کو وہ عظمت حاصل ہے جو دنیا کی کسی عورت کو حاصل نہیں اور اگر کسی کا یہ دعویٰ ہے کہ اس کی مذہبی کتاب میں بھی کتابیں اس فضیلت کی حامل ہے تو میں چیلنج دیتا ہوں کے سامنے آئے اگر کویت کا پیرو ہے تو میرے سامنے آئے اگر کوئی عورت کا پیرو ہے تو وہ میرے سامنے آئے اگر کوئی انجیل کا پیرو ہے تو وہ میرے سامنے آئے اور قرآن کریم کا کوئی اس طرح میرے سامنے رکھ دے مجھ کو میں بھی اس طرح اس طرح سمجھوں پھر میں اس کا حل قرآن کریم سے ہی پیش نہ کر دوں تو بیشک مجھے اس دعوے میں جھوٹا سمجھتے لیکن اگر پیش کر دوں تو اسے ماننا پڑے گا کہ واقعی میں قرآن کریم کے سوا دنیا کی کوئی اور کتاب میں صوفیہ کو محمد نہیں ہے تمہارا لیے آپ نے چینج بھی دیا ہوا ہے تو اس لحاظ سے قرآن مجید کا واقعہ اور پر حقیقی جو مرتبہ مقام ہے وہ دنیا پر آپ نے ظاہر کیا ہے کہ اللہ تعالی اس نظام ناظرین کرام اس کے ساتھ آج میں بانی جماعت احمدیہ حضرت مرزا غلام احمد قادیانی علیہ الصلاۃ والسلام کا ایک اقتباس آپ کی خدمت میں پیش کرتا ہوں جو کتاب آئینہ کمالات اسلام سے میرے لیئے ہی حضور فرماتے ہیں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی خبر دے چکے ہیں کہ جب مسیح موعود آئے گا تو وہ شادی کرے گا اور اس کے ہاں اولاد بھی ہوگی اس میں اس بات کی طرف اشارہ ہے کہ اللہ تعالی اس کو ایک ایسا سالہ بیٹا دے گا جو اپنے باپ کے مشابہ ہوگا اور آپ نے عطااللہ کے معزز بندوں میں سے ہوگا اور اس میں راز یہ ہے کہ اللہ تعالی انبیاء اور اولیاء کو کینسل کی بشارت دیتا ہے تو صرف تب بھی دیتا ہے جب اس خدا نے نیک اولاد نام قدر کرلیا ہوتا ہے ہے ہے دی گئی تھی اور اپنے دعوی مسیح مہدی سے بھی پہلے دے دی گئی تھی موت کی جو تاثیر ہے دنیا پر اس کے حوالے سے ہم اپنے آئندہ حصوں میں تفصیل آپ کی خدمت میں پیش کریں گے کی اعلی مقام مرتبہ سے دنیا کو روشناس کرانے کے لیے حضرت مسلم رضی اللہ تعالی عنہ نے جو خدمات سرانجام دی ہیں اس کے تعلق سے گفتگو کریں گے عمرہ ایپیسوڈ مورخہ 15 فروری 2020 ہفتہ کے دن انڈین ٹائم کے مطابق رات کے ساڑھے نو بجے اور چیونٹی کے مطابق سہ پہر چار بجے کا بیان دارلامان سے ہم آپ کی خدمت میں پیش کریں گے علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ دوست خدا آپا کے یہاں تمہیں تار تسلی بتایا ہم

Leave a Reply