Rah-e-Huda – Khilafat Ki Ahmiyyat aor Taaruf
راہ ھدیٰ ۔ خلافت کی اہمیت اور تعارف
Rah-e-Huda | 12th June 2021
سب سے بڑا شہر اعوذ باللہ من شیطان الرجیم بسم اللہ الرحمن الرحیم ناظرین کرام اسلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ حضرت میں حاضر ہے جس کے جانے والے سلسلے کا ایک چھوٹا سا پروگرام ہے جو ہمیشہ کی طرح سے لائق اور ان ٹریکٹر ہے آج بار ہی جیم کے مطابق شام چار بجے ہیں ہمارے اس پروگرام میں آپ سے درخواست کریں گے اب سے رابطہ کریں یہ لائف نیٹ ٹی بہت ہے جیسے کہ آپ دیکھتے آرہے ہیں مقصد یہی ہے کہ میں اس کے لئے آیا ہوں جس کے بارے میں جماعت احمدیہ کی عقائد و تعلیمات کے بارے میں آپ کے دل میں جو بھی سوال حضور آپ ہم سے کریں انشاءاللہ کوشش کریں گے کہ اس پروگرام میں شامل کریں ہمارے آج کے اس پروگرام میں مرثیہ گو ہوں گے آپ کے سوالات کے جوابات دیں گے صاحب حیثیت سے مقری انقلابی گانے سننے کو ہمارے ساتھ ساتھ ہی اس پروگرام میں شامل ہوں گے نہیں آرہے ہیں ہمارے اس پروگرام میں اس میں خلافت حقہ کے متعلق بات چیت گفتگو کر رہے ہیں اللہ تعالی کے فضل سے آج امت مسلمہ جس چیز کی سب سے بڑھ کر ضرورت ہے کہ ہمیشہ سے زیادہ تر ہے وہ خلافت کا بابرکت نظام ہے جمعہ میں خدا تعالیٰ نے اس کو قائم کیا ہوا ہے پروگرام میں ہم نے خلافت خلافت راشدہ کے متعلق بات چیت کی اس گروپ کی خلافت کے مقام کے بارے میں بات کی پھر حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی آمد اور آپ کی آمد کے ساتھ وابستہ خدا تعالیٰ کا وعدہ کیا پھر سے وحدانی قدرت طاقت ثانیہ ظاہرہوگئی خلافت علی منہاج نبوت کا کیا ہوگا میں خدا تعالیٰ کا یہ وعدہ ہے وہ خدا جو وعدوں کا سکتا ہے جو اپنے پیارے رسول حضرت محمد مصطفی صلی وسلم کے ساتھ کئے گئے وعدوں کو ہمیشہ سے ہمیں سچا ہوتا دکھاتا ہے بس ضروری ہے جو چیز ہوتی ہے کہ یہ ہے کہ ہم دیکھیں گے کی جا رہی ہے کہ جو شدید کمی یہ خلافت کی محسوس ہوئی اس کو قائم کیا جائے تو ہمارے سامنے وہ نتائج بھی ہیں کہ انسان اپنے ہاتھ سے جس حد تک بھی کچھ بھی کرلے وہ خلاف کوئی کام نہیں کر سکتا اور جہاں تک کہ اس کے خلاف قائم ہوئی ہے اس کا انجام بھی منع ہے آج کون ہے کہاں ہیں کوئی بھی نہیں جانتا ہوں نام نہیں ہے صرف وہی ہے جسے خدا تعالی کام کرتا ہے اور اصل وجہ بھی یہی ہے کہ وہ خلاف ہے جو اپنی مرضی سے قائم کرنا چاہتے ہیں وہ جتنی مرضی کوشش کرنا ہرگز نہیں کر سکتے ہیں خدا تعالیٰ کے واقعات اللہ کے فضل سے خلافت حقہ جو خلافت راشدہ کیا حال ہے جس کے ساتھ وہ تمام برکات ہیں جو گزشتہ سال اس کے ساتھ تھی وہ جماعت احمدیہ میں 100 سے قائم ہے جونبی آتا ہے وہ جو راستبازی میں جاری کرنا چاہتا ہے اس کی تخم ریزی کرتا ہے پھر بعد میں خلافت کے بابرکت نام سے اسے تصانیف کے نام سے موسوم کیا جاتا ہے جس میں برکت برکتیں ہیں وہ نبی کے مقاصد وہ آہستہ آہستہ پایہ تکمیل کو پہنچتے ہیں اور آج جس جگہ پر موجود ہے جماعت احمدیہ کی تاریخ اس بات کی گواہ ہے کہ خدا تعالیٰ کی نصرت ہمیشہ اس کے ساتھ رہے تھے خلیفہ کے ذریعہ سے پورا کرتا ہے آج کے اس پروگرام میں آپ سے وعدہ تھا کہ آپ کے بہت سارے سوالات ہمارے پاس آئے ہیں لفظ متعلق سوالات ہیںریاستی وہ ایک محدود زمانے کے لیے تھے ہمیں پتا ہے مجھ پر بات چیت بھی کی ہے اور 30 سال کا عرصہ صلی وسلم نے فرمایا تھا آپ نے جو خلافت علیٰ منہاج النبوہ قائم ہوئی ہے اس کے بارے میں ہمارا کیا ہے یہ بھی محدود ہے یا یہ ہمیشہ اور قائم رہنے والی ہے اکثر من الشیطان الرجیم بسم اللہ الرحمن الرحیم حضرت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی صداقت جو ہے اس کا ایک طریقہ یہ ہے کہ آپ صلی وسلم کی زبان سے اللہ تعالی نے جو وادی پیشگوئی فرمائی ان میں سے کچھ آپ کی حیات میں پوری ہوگی اور کچھ آپ کے بعد پوری ہوئی تو پوری ہوئی اس بات کی نشان بن گئی کہ بعد میں آنے والی ہے وہ پیشگوئی پوری ہوگی جب آدمی نے پوری ہو بھائی تو زمانے کے لیے پیش گوئیاں جو تھیں ان کے پورا کرنے کا سلسلہ شروع ہوئی قرآن کریم میں جہاں وعدہ فرمایا ہے خلافت کا وعدہ کیا ہے وعدہ اللہ الذین آمنوا منکم وعملوا الصالحات لیستخلفنہم فی الارض اور عمل صالح بجا لانے والے ہیں ان سے وعدہ کیا اللہ تعالی نے انسان کو زمین میں خلیفہ بنائے گئے اس سے پہلے لوگوں کو خلیفہ بنایا تھا تو پہلے خلافت جیسی بھی تھی تھی نبوت کے قائم مقامی میں جو نبی کے کام کو جاری رکھنے والی صلی اللہ علیہ وسلم نے خلافت علی منہاج نبوت کے قائم مقام کے طور پر خلافت جاری ہوئی تھی مجھے محمدیہ میں اس کے بارے میں پیشگوئی فرمائی تھی وہ آدمی جو حدیث موجود ہے کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کیا کہ خلافت خلافت النبوۃ ثلاثون سنہ کے بعد فوری طور پر شروع ہونے والی خلاف ہے وہ تیس سال ہے یعنی دس ہجری میں حضور صلی وسلم کی وفات تھی 40 ہجری میں حضرت علی رضی اللہ تعالی عنہ کی شہادت ہوئی ہیں جو بیان کرنے والے دو سال بکر کی خلافت دس سال حضرت عمر رضی اللہ عنہ اور حضرت عثمان کی خلافت اور چھ سال حضرت علی رضی اللہ عنہ خلافت مل کے تیس سال بنے ہوئے حضور صل وسلم نے جو پہلے سے پیش گوئی فرمادی تھی کہ تیس سال تک خلافت ہے وہ پوری ہوئی تنظیمیں بھی یہ حدیث موجود ہے جس میں انہوں نے کہا تھا کہ میرے پاس لفٹ ہوگی اور میں رہے گی تو جب اللہ کے نبی ایک بات بیان کرتا ہے اس کا پہلا حصہ ہے کہ تیس سال خلافت تیس سال رہے گی پوری ہوئی تو دوسرا حصہ ایک اور حدیث میں حضورصلی آتا کہ تیس سال کے بعد خلافت کے بعد ملوکیت شروع ہو جائے گی گی مثلاً میں حدیث ہے کہ جن میں پہلے خلافت علی منہاج نبوت ہو بادشاہ تحقیقی ظالم بادشاہ دا جائے گی پھر اس سے بھی زیادہ ظالم بادشاہ تھا جائے گی کہ آخر کار وہ فرماتے سنا تو پھر ایک دفعہ بارہ بجے سے پہلے خلافت علی منہاج النبوہ قائم ہوئی تھی پھر ایک دفعہ دوبارہ خلافت علی منہاج النبوہ واقع ہو گئی تو خاموش ہوگئے تھے انہوں نے یہ نہیں کہ وہ ختم ہو جائے گی یہ چیز آ کے جیسے ملک کے بوس اسلم نے خلافت انٹرنیٹ کا طریقہ کیا ہے لیکن باقی خلافت کا تذکرہ کیا حضور صلی علیہ وسلم کی پیش گوئیوں کے مطابق حضرت مسیح موعود علیہ السلام اور رسول ہیں اور حضرت مسیح علیہ السلام علیکم میں وہ امام مہدی ہوں میں وہ مسیح موعود ہو جس کا رسول اللہ صلی اللہ وسلم نے آج سے چودہ سو سال پہلے بتا دیا تھا تھامجھے اس بارے میں کوئی بحث کر سکتا ہے کہ کیا آپ مرزا غلام احمد قادیانی وہی مسیح موعود ہیں جمعہ بھی موجود ہیں تو نہیں لیکن جو بھی مہدی آنا ہے کہ باقی دنیا میں جو بھی لے آنا ہے اگر وہ سچا ہے تو جو ہے وہ پیشگوئیاں کرے یا وہ بعض استادان کہتا ہے ہم پیشگوئی پوری کر دیتے ہیں نہ کہ آپ اس بات کی حیات میں اور اس کے بعد دیکھی گئی بات ہے کہ ایک شخص جو اپنا دعویٰ کرتے ہیں کہ خدا تعالیٰ کی طرف سے گزرے جو تامل زبان دیتا ہے کوشش کر لیں تاکہ بعد میں نے کی ہے کسی سے کہ اس کو پورا کرو لیکن وہ شخص جس کو وہ یہ سمجھتا کہ میں جھوٹا ہوگا قیامت تک رہے گا یہ بات ہی نہیں کی خدا کو منظور تھا اس وقت ہے جھوٹے خدا تنگ نیست و نابود کر دیتا ہے مرزا صاحب نے اللہ کا نام لے کر بتایا کہ خدا نے مجھے بتایا ہے کہ آپ کے سلسلے میں موت کے بعد خلافت قائم ہو گی کیسے جس طرح اللہ کے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے ہیں وہ پیشگوئی پوری ہوئی ایک دفعہ پوری ہوئی دوسری جگہ پوری ہوئی چل رہی ہے مست ہوتی جا رہی ہے کہ یہ خلافت خلافت ہے جانی ہے درخواست کرے گا اللہ تعالی کے فضل سے حضرت مسیح موعود اسلام سے کہ وہ وعدے خدا تعالیٰ آپ کی زندگی میں بھی پورا کرتا آرہا تھا اور آپ کی زندگی کے بعد بھی ہم دیکھتے ہیں کس شان کے ساتھ وہ تمام وعدے اللہ تعالی ہمیشہ پورا کرتا ہے اور یقینا آگے بھی کرتا آئے گا ان میں سے یہ خلافت کا ایک واقعہ آیا جہاں ایک طرف وہ خلافت کو دیکھتے ہی رہتا ہے اور یہاں پر ایک اعتراض ہے جس میں جانا چاہے گا کہ یہ جو بات پر کی جاتی ہے کہ ٹھیک ہے حضرت انس رمضان کے پہلے خلیفہ خاندان تھے رضی اللہ عنہ کے بعد آپ کے دوسرے خلیفہ آپ کے بیٹے تھے پھر ان کے بیٹے خلیفہ بنے پھر ہم پر بھی بیٹے جو خلیفہ ہیں پھر اگے ان کے پوتے تھے نہیں ہے بلکہ یہ تو نہیں ہوتی ہے اس کے خلاف کیا کہتے ہیں ہم نہیں مل رہی ہمارا عقیدہ یہ ہے کہ کوئی بھی وجہ ہو ہو وہ چاہیے منصب خلافت ہو یا دوسرے عہدے ہو ہو کسی قوم یا خاندان کے ساتھ کوئی عہدہ مخصوص نہیں ہے ہے اور نہ ہی قرآن کریم یا حدیث سے حدیث میں ہمیں کوئی ایسی بات ملتی ہے کسی بھی عہدے کو کسی قوم کی برائی است کرا دیا گیا یا اور ہم تو وہ عقیدہ رکھتے ہیں جو قرآن کریم میں خدا تعالیٰ نے بیان فرمایا اور آنحضور صلی اللہ علیہ وسلم نے جو اصول بیان فرمائے انہیں کے مطابق اللہ تعالی نے خلافت کا اعلان فرمائی ہے اور اسی کے مطابق منصب خلافت پر اللہ تعالی جس کو چاہتا ہے اس کو فائز کر دیتا ہے ہے قرآن کریم میں اللہ تعالی نے جو طریقہ کار جو اصول بیان فرمایا ہے اس میں کسی بھی عہدے کیلئے کیونکہ ایک امانت ہوتی ہے ہے وقت بھی یہ منصب خلافت بھی یہ منصبی ایک امانت ہے نبوت بھی ایک امانت ہے دیا گیا ہے فرماتا ہے کہ ان اللہ یامرکم بالعدلقبیلے کو دیکھ کر نہیں بلکہ متعلقہ شخص کی اہلیت کو دیکھ کر پھر اس کے سوا کوئی ادا کرو اسی طرح اللہ تعالی فرماتا ہے کہ وجعلناکم شعوبا وقبائل لتعارفوا ان اکرمکم عنداللہ قبیلے اور یہ گروپ بنائے ہیں ذات پات وغیرہ یہ ساری چیزیں ہیں یہ صرف تاروں کے لیے ہیں یہ تار تار کے لئے نہیں ہیں کہ ایک دوسرے پر فخر کریں کہ ہم ان سے بڑے ہیں یا فلاں ہم سے گھٹیا غیرہ یہ خدا کے حضور نہ تو کوئی بات کوئی کسی کی کوئی حیثیت رکھتی ہے نہ کسی کا کبھی بحیثیت رکھتا ہے یہ صرف تعارف کے لئے ہے ہے تاکہ پہچانا جائے کہ یہ شخص کون ہے جیسے نام کے ساتھ آج کل ولدیت لکھ دیتے ہیں تو بلدیۃ لکھنے کا مطلب بھی دراصل اس کی پہچان کرنا ہوتا ہے کہ ایک نام کے ایک ایک سے زیادہ افراد ہو تو پتہ چلے کہ یہ کون ہے اور جہاں تک اہلیت کا تعلق ہے عزت اور تکریم کا تعلق ہے اللہ تعالی فرماتے ہیں کہ یہ گروہ قبیلوں یا ذاتوں سے نہیں ہوتی بلکہ فرمایا انا اکرمکم عند اللہ اتقاکم کہ تمہارے اندر سے جو زیادہ کریم والا ہے عزت والا ہے وہی شخص ہے جو اللہ کے حضور زیادہ متقی ہے وہ شعر ہے ہے کوئی ان آیات میں اللہ تعالی نے واضح طور پر یہ بیان فرمادیا کہ کوئی بھی عہدہ ہو وہ کسی قبیلے کو دیکھ کر نہیں دیا جائے گا کسی ذات کو یا خاندان کو دیکھ کر نہیں دیا جائے گا بلکہ کتے کے اوپر اس کی بنیاد ہوگی اور خدا تعالیٰ کے حضور بھی عزت اور تکریم جو ہے وہ تکلیف کو حاصل ہے تو منصب خلافت سے بڑھ کے نبوت کے بعد منصب خلافت سے بڑھ کے اور کون تھا قابل تقسیم ہوتا ہے یا عزت والا ہوتا ہے تو اس عہدے کے لیے بھی اللہ تعالی کا یہی اصول کام کر رہا ہے کہ جو اللہ کے حضور زیادہ متقی ہیں اللہ تعالی اس کو یہ منصب عطا فرما دیتا ہے ہے اس لیے یہ کہنا کہ خاندان سے ملاقات نہیں جانتے ہیں کہ درست نہیں ہے جیسا کہ ابھی آپ نے خود بیان فرمایا کہ حضرت حکیم مولوی نورالدین صاحب رضی اللہ تعالی عنہ جو حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے پہلے خلیفہ تھے ان کا خاندان سے کوئی تعلق نہیں تھا تو گیا آغاز میں یہ اصول بیان ہو گیا یہ قرآن کریم میں اللہ تعالی نے بیان فرمایا تھا کہ خلافت کی بنیاد کوئی خاندان نہیں ہے بلکہ خلافت کی بنیاد نیکی اور تقویٰ ہی اس وقت صحابہ کرام نے جس ہستی کو نیکی کرنے میں اس قابل سمجھا اور اسی میں خدا تعالی کی رضا کو سمجھتے ہوئے خلیفہ منتخب کرلیا پھر جماعت احمدیہ کے اندر خلافت کا انتخاب خاندان کے افراد تو نہیں کرتے کہ وہ خود اپنے میں سے کسی کو چوم لیتے ہیں بلکہ یہ سینکڑوں ارکان پر مشتمل ایک کمیٹی اس کا انتخاب کرتی ہے اور کمیٹی ہے یا نہیں خاندان حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام سے کوئی جسمانی رشتہ نہیں ہے روحانی رشتہ تو یقینی طور پر مومن کا ہے لیکن کمیٹی کے بارے میں ارکان کی بھاری اکثریت فرقان کی وہ کچھ عثمانی رشتہ داری نہیں رکھتی اور پھر جو طریقہ انتخاب ہے اس کو بھی اگر دیکھا جائے کہ انتقام سے پہلے کبھی کسی کو یہ اجازت نہیں ہے کہ وہ اپنے بارے میں یا کسی دوسرے کے بارے میں کسی بھی قسم کی کوئی راہ نہ کرے یا کسی سے مشورہ کریں کہ کس کو خلیفہ ہونا چاہیے کس کو نہیں ہونا چاہیے یعنی ہر چک جو بھی کمیٹی کا ممبر ہے وہ اپنی ذات تک اپنے دل میں اللہ تعالی کے حضور دعائیں کرتا رہتا کہ خدا مجھے رہنمائی فرما کے آئندہ کون بہتر ہے تیرے حضور پاک میں اسی کے حق میں اپنی رائے استعمال کر سکیں کسی دوسرے کے ساتھ نافذ کرنے کی اجازت ہے نہ مشورہ کرنے کی اجازت ہے نہ کوئی پروپیگنڈہ کرنے کی اجازت ہے عجب انتخاب اب ہوتا ہے تو اس وقت اس انتقال اجلاس کے اندر جس کی صدارت صدر محترم کر رہے ہوتے ہیں تو ان کی اجازت سے ھی پھر نام پیش ہوتے ہیں وہیں پہ ہر شخص اپنی رائے کا اظہار کرتا ہے جتنے جتنے وہیں پہ نام پیش ہوں گے اور وہی کے ہر بندہ اپنی اپنا ووٹ دے گا اپنی رائے کا اظہار کرے گادونوں باتیں کرتے ہیں یعنی خاندان میں سے ہونا اس بات کی اہلیت کے لیے لازمی نہیں ہے کہ وہ خلیفہ بن جائے اور خاندان میں سے کوئی گناہ بھی نہیں ہے کہ اس کو خلیفہ نہیں بنایا جائے تو ارکان کی اکثریت جو دیکھتی ہے کہ اس شخص کے اندر یہ اہلیت ہے نیکی اور تقوی کے لحاظ سے کہ جماعت کو گائیڈ کر سکتا ہے یہ لیٹ کر سکتا ہے تو اس ہفتے کے بارے میں اپنی رائے کا اظہار کر دیتے ہیں تمہارے خاندان یا قبیلہ یا کوئی ذات پات اس قسم کا نہ تو کوئی قصور ہوتا ہے اس بارے میں کوئی فیصلہ کیا جاتا ہے اور قرآن کریم کے کی بنیاد کے اوپر احادیث کی بنیاد پر نیکی اور پتلے کو صرف پیش نظر رکھا جاتا ہے یہ بات درست ہے کہ کسی کوئی خلیفہ اپنے بیٹے کو نامزد نہ کریں اسے مناسب نہیں سمجھا جاتا کیونکہ اس بات سے شکوک و شبہات پیدا ہو سکتے ہیں جیسا کہ حضرت عمر رضی اللہ اللہ تعالیٰ عنہٗ نے بھی ایسا کیا تھا کہ آپ نے جو کمیٹی مقرر کی تھی اس نے حضرت عبداللہ بن عمر کو اس کمیٹی کا ممبر نامزد کر دیا تھا لیکن یہ ہدایت فرمائی کہ اس کو خلیفہ بنایا جائے معاشرے میں اس کو شریک کر لیں تاکہ جماعت کے اندر بھی ایسا ہی ہے جو طریقہ کار خلفاء کو منتخب کرنے کا حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد وہ اسی طریقہ سے جماعت کے اندر بھی ہے کہ مومنین مل کے انتخاب کرتے ہیں یا اگر خلیفہ کا مناسب سمجھیں تو وہ کسی اگلے خلیفہ کو نامزد نہیں کر سکتا ہے لیکن اپنے بیٹے کو نہیں اور اسی طرح ایک کمیٹی جیسا کہ آج کل ہمارے ہی کام کر رہی ہے ایک کمیٹی بنا دی جاتی ہے اور اس کو بھی مناسب سمجھتے ہیں لیکن کسی اور کو پیش نظر رکھتے ہوئے اس کے حق میں اپنی رائے کا اظہار کرتے ہیں اور ہمارا ایمان ہے کہ جس کی رائے میں اگر جو اکثریت رائے ہوتی ہے اللہ تعالی کی تائید و نصرت شامل حال ہوتی ہے وہ دراصل اللہ ہی کا انتخاب ہوتا ہے مومنوں کا انتخاب کے اندر شامل کر لیتا ہے اس بات کا اس سے کوئی تعلق نہیں ہے کہ جس کے بارے میں ارکان کی اکثریت رائے دے رہی ہے وہ کس خاندان سے تعلق رکھتا ہے کس خاندان سے تعلق نہیں رکھتا ہے خاندان سے اگر کوئی ایسی ہستی سے تعلق رکھتی ہے اور نبی کے خاندان سے تعلق رکھنا کوئی گناہ کی بات تو نہیں ہے کیونکہ پہلے انبیاء کے بیٹے نبی بنتے رہے ہیں تو اگر پہلے انبیاء کے بیٹے نبی بھی بنتے رہے ہیں تو اب انبیاء کا بیٹا ہونا یا خاندان میں سے ہونا کیا خلافت کی اہلیت بھی نہیں رکھ سکتا یہ سوچنا یہ تصور کرنا غلط بات ہے تو کہنے کا مطلب یہ ہے کہ محض خاندان یا قبیلے کی بنیاد میں نہ تو کسی کو خلیفہ بنایا جاتا ہے لیکن اس بنیاد پر کسی کو رد بھی نہیں کیا جاسکتا بلکہ بنیاد وہی وہی ہے جو اللہ اور اس کے رسول نے بیان فرمائی ہے وہ یہ ہے کہ نیکی اور تقوی میں مومنین جس کو سمجھتے ہیں کہ یہ ہستی ہمارے لیڈر ہو سکتی ہے اور خدا تعالیٰ عنہ کے فیصلے اس کے ذریعے ظاہر ہوں گے تو مشورہ کرکے اپنی رائے جو ہے اس کے اندر اپنی رائے دیتے ہیں وہ اسی رائے کو مشورہ دیا جاتا ہے کہ ان کا ہے جو وعدہ کرتا ہے نظریاتی کہتے ہیں کہ میری ذریت میں سے خون آتا ہے یا نہیںاس سے بھی اور دنیاوی حکمرانی ہے وہ بھی ان میں شامل ہونی چاہیے اور جماعت احمدیہ پر یہ تنقید کرتے ہیں کہ آپ کس سے کہہ سکتے ہیں کہ آپ کے پاس خلافت ہے جبکہ آپ کو روحانی سلسلہ کوئی کوئی دنیا میں بادشاہ ہے یا نہیں ہے ہے بسم اللہ الرحمٰن الرحیم شکریہ صاحب بات یہ ہے کہ مشابہت کا یہ مطلب نہیں ہے کہ ہر رنگ میں مشابہت ہو بلکہ حصول میں مشابہت دیکھی جاتی ہے اور مسئلہ ایک شخص جو بہادر ہوتا ہے اس کو شیئر کہتے ہیں کہ یہ شیر آیا اب کیا وہ جانور ہے جو حیوان ہے کیا تم اس کی صفات انسان میں پائی جاتی ہے نہیں بلکہ اس کی شجاعت اور طاقت جو شعر میں پائی جاتی ہے اس وجہ سے اس کو پوری فرماتا ہے انا ارسلنا الیکم رسولا شاہدا علیکم السلام علیک یا رسول اللہ اسی آیت پر غور کرے تو حضرت موسی فرعون کی طرف رسول بنا کر بھیجے گئے تھے جبکہ آج آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی ایک بادشاہ کی طرف رسول بنائے گئے گئے پھر حضرت موسی بنی اسرائیل کے رسول تھے حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے بارے میں اللہ تعالی فرماتا وماارسلناک الارحمۃ اللعالمین پھر حضرت موسی جو نبوت تھی وہ چند سال تک میری تھی لیکن انہوں صلی اللہ علیہ وسلم کی نبوت قیامت کے دن تک ہے یہاں تشبیہ دی گئی ہیں وہ دراصل صرف یہی تھی کہ جس طرح حضرت موسی علیہ السلام کو شریعت کی کتاب عطا کی گئی اور صلی اللہ علیہ وسلم کو بھی ایک شریعت کی کتاب عطا کرے اس کے مشابہ قرار دیا ابن خلدون میں لکھا ہے کہ کی خلافت جو ہے کیخلاف آج جو ہے وہ بادشاہت ان کے ساتھ ان کے برخلاف ہے کہ بادشاہت میں نہیں تھی اور اسی طرح کی بادشاہت جو ہے وہ خلافت اور بادشاہت کی یکجائی طور پر پائی گئی اسی طرح حضرت شاہ ولی اللہ محدث دہلوی ازالۃ الخلفاء میں لکھتے ہیں کے نہایت ضروری ہے کہ خلیفہ اپنی صورت میں نبی کے مطابق ہو اگر نبی بادشاہ ہے تو اس کا خلیفہ بھی بادشاہوں اور اگر نبی ظاہری حکومت کے بغیر درویش اور صحت کے لباس میں ہو تو خلیفہ بھی اسی رنگ میں ہوگا تو بہت سارے ایسے نبی گزرے ہیں جن کو اللہ تعالی نے بادشاہت نہیں دی اور ان کے خلاف ابھی بادشاہ نہیں تھے اور بہت سارے ایسے نبی ہیں جن کو اللہ تعالی نے ثبوت بھی دے دیا اور بادشاہ بھی دی اور ان کے خلفاء کو بھی نبوت اور بادشاہ کیا نکلا جو اللہ تعالی نے قرآن کریم میں خلافت کا وعدہ فرمایا ہے کہ اصل بات یہ ہے کہ امن وعمل الصالحات کی شرط ہے کہ جس جماعت میں یہ شرط پوری ہوگی اللہ تعالی نظام خلافت اس میں قائم فرمائے گا اب حضرت مسیح علیہ السلام جو دنیا میں آئے اور جو نبی آتا ہے ہے جو ہے جس رنگ میں ہوتا ہے جہاں بھی اسی رنگ میں اسی تعلیم کو آگے پہنچاتا ہے اب حضرت مسیح علیہ الصلوۃ والسلام کو دنیاوی بادشاہ ہیں جنہیں عطا کی گئی کیسے ممکن تھا کہ اس کے خلفاء کو دنیاوی بادشاہت اورحکومت عطا کی جاتی ہے تو اس بات سے بھی آپ کو حاصل کر کیا حضرت مسیح علیہ السلام کی موسیٰ علیہ السلام سے ہے اس لیے ایسا کا نام بھی اس سلسلے میں آنے والے مسیح کا استعمال کیا کہتے ہیں اور میں ہوں آسمان پر تو وہاں پر بھی بات سے انکار ہے اور یہاں پر بھی بادشاہت نہیں ہے مجھے اسی طرف آتا ہے حضرت مسیح علیہ السلام کو جب دنیا بھی بادشاہ ہی نہیں کی گئی کہ آپ کے خلاف ابھی لے کر آئے تھے اسی کے جمال کو آپ کے خلفاء نے بھی جاری کرنا تھا حضرت مصلح موعود رضی اللہ تعالی عنہ کو اس کے بارے میں فرماتے ہیں فرماتے ہیں ایک بات یاد رکھنی چاہیے کہ خلیفہ کے کام کی نگرانی کے لئے ہوتا ہے اسی لئے اندر صلی اللہ علیہ وسلم کے خلفاء کو دین کی حفاظت پر مامور تھے کیونکہ اگر صلی اللہ علیہ وسلم کو اللہ تعالی نے دونوں بادشاہت عطا فرمائی تھی لیکن مسیح موعود جس کے ذریعے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کا اجمالی ذکر ہوا صرف دینی بادشاہ تھا اس لیے اس کے خلاف ابھی اسی طرز کے ہوں گےبڑے چراں توں پطرس جو آپ کے خلیفہ تھے ان کو کوئی دنیاوی بادشاہ نہیں ملی لیکن وہ خلیفہ تھے اسی طرح عجوبا جو کہ خلافت کی کیا صورت حال صورت ہے جو لیکن اس نے حضرت عیسی کی اسی تعلیم کو ان کے مطابق وہ اس کو لے کر ان کے جانشین سمجھے جاتے ہیں اس کی خلافت کا انکار دنیاوی اس طرح کی بادشاہت عطا نہیں فرمائی گئی تو اصل یہی بات ہے کہ جو خلیفہ جو اللہ کے نبی جو مقام اللہ تعالی اس کو عطا فرماتا ہے اور اسی مقام اور مرتبے کے مطابق اللہ تعالی اس کو وہ مقام عطا فرماتا ہے کہ بالکل واضح اور انسان سکتا ہے کہ خلافت ہوتی ہے وہ اس نبی کی جس کی وہ جان شریف اللہ تعالیٰ اس کو بخشتا ہے تو یہاں پہ ہم مرتے ہیں مسافر درخواست کرے گا ابھی دیکھی ہے شاہ صاحب نے اس موضوع کے متعلق بات کی جو جماعت احمدیہ میں خلافت ہے یہ یہ سمجھنا کیا کوئی خاندان کی بنیاد پر ہو رہا ہے بالکل غلط ہے ہے ہم جانتے ہیں کہ سنی مسلمانوں کا اختلاف ہے شیعہ اور سنی مسلمانوں کا اختلاف ہے ماں بھی اس میں یہ نظریہ بھی شامل ہے جس کی وجہ سے لوگ ہیں وہ پہلے تین خلفاء کو برحق مانتے کو مانتے ہیں تو اس کے متعلق بات کرتے ہیں جو ہے وہ یہ ہے کہ اس بات کو سمجھتے ہیں کہ اپنی امت کو تیار کر رہا ہوں گے حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے غدیر خم کے موقع پر خصوصی پیغام میں اس کو بھول گئے یار وسلم نے مرض الموت میں جو کہا تھا کہ مجھے اس طرح کر رہے تھے وہ اپنے دوستوں سکتے ہیں تو اگر یہ مان لیا جائے کہ علیہ وسلم کی وفات کے بعد ہوجائیں گے اللہ نے ایک وعدہ کیا اللہ نے یہ ہزاروی اللہ نے ایک اور اللہ آپ کو فار جو ہے نعوذ باللہ شیعہ کے نزدیک خلیفہ برحق نہیں ہیں جو نا شکر گزار ہیں جو منافقین ہیں تو وہ کیسے ممکن تھا اسی لیے اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ اللہ تعالیٰ ہمیشہ فلاح پاتا ہے ہے وہ ناکام رہتا ہے اللہ کا گروہ تھا جو سارے کے سارے خلیفہ برحق تھے کبھی کامیابی ہوئی ہے اگر نعوذ باللہ نعوذ باللہ میں تصور کرنے کے تین خلفا برحق نہیں تھے علی رضی اللہ عنہ پر حقاعتزال مین میرا وعدہ ظالموں تک نہیں پہنچے گا اللہ کو معاف فرمائے ہم چپ کر کے اس کو ملا بھائی کے خود بات خطابات اور جو تقاریر کیں ہیں اس کا جو مجموعہ اس کا نام نہ لوں گا یہ شیعوں کے نزدیک نہایت معتبر کتاب ہیں جب حضرت امیر معاویہ کے اختلافات ہوئے اس کے بعد شہادت کے بعد تو میں نے تب بھی خلافت کا جو بوجھ ہے اس کو اٹھایا ہے کر حضرت علی رضی اللہ عنہ کا بڑا ہی فیصلہ کیا ہے نہج البلاغہ میں جو حضرت علی نے امیر معاویہ رضی اللہ عنہ کے بالمقابل اپنی تلاوت کو کے لیے پیش کیا ہیں اور ہر خلافت کا وہ مہاجرین اور انصار کو لگانے کے ٹائٹل دیا ہے وہ ہی پر ہو جائیں اکٹھے ہو جائیں بس سمو ہوا مال اور اس کو امام پکارے اپنا کھانا لے کر اللہ کی رضا ہو جاتی ہے یہ بیان کر کے مجھے مہاجرین و انصار کی تعریف کر رہے ہیں کہ اگر انہوں نے خلیفہ اول کون آیا نہیں مہاجرین و انصار نے حضرت علی کو خلیفہ بنایا انہیں کے خلاف اس لیے دوستانہ مہاجرین و انصار نے مجھے دکھایا تو ہمارے شیعہ دوستوں کا یہ کہنا اللہ دتہ منافقت سے مرتے تھے وہ بیٹا دن کا میدان کربلا میں حق کے لئے قربان ہو گیا زمانہ حسین الجسمی دیکھو لاحق نہیں ہیں تو بھی ہیں جو اپنی جان تک پیش کر سکتے تھے چاہیے کہ آپ کے ساتھ چل رہے ہیں مجھے دیا ہے اس کے خلاف کھڑے ہوئے یہی بیان کیا حال ہے سب چیزیں موجود ہیں نبوت میں لکھے پرانی میں لکھا ہے کہ نبوت بھیجتا ہوں تب ہے کہ دنیا میں صرف سادہاس کے باوجود پر اعتراض ان خلفاء پر جو صحابہ لین صحابہ جو آپ کے اولین ایمان لانے والے تھے یہ تو بہت بری ایک ظلم ہے جمعہ میں دو عالم صلی اللہ علیہ وسلم نے جن لوگوں کی تربیت کی ہے تو میں وہ ان کانوا من قبل لفی ضلال مبین کی بیس سے پہلے وزیر اعلی نبی نہیں تھے اس سے پہلے سنا ہے اس نے چار کام کیے ہیں سے مسلمان ہو سکتا ہے خدا تعالیٰ کی طرف سے یہ حکم ہے تو اب جب عہد بنتے ہیں تو شاید میں یہ الفاظ آتے ہیں کہ ہر معروف حکم کی پیروی کریں گے اس کے پیچھے چلیں گے ہے وہ یہاں پر بھی اس معروف حکم کو لے کر بیٹھ جاتے ہیں آپ کے لئے راستے نکلتے ہیں یا جو کمزور ایمان والے ہیں کہ بعض احکامات معروف میں شامل نہیں ہیں اس لیے ان کی ہم پلہ نہیں ہے ابھی کیسے ہو سکتا ہے آپ لوگوں کے پاس ایک پیمانہ ہے وہ کیسے سیٹ کریں گے تو میری کون سی نہیں ہے یہ تصور ہی خلافت کے مقام کو بارہ تبریز پہنچ جاتا ہے تو آپ اس کے متعلق بتائیں بات یہ ہے کہ اس سلسلے میں میں وہ لوگ جو غلط فہمی سے کہتے ہیں وہ تو خیر عمل میں ہے اللہ تعالی معاف کرنے والا ہے لیکن جو اس سوال کو آتے ہیں جان بوجھ کے تو اس لحاظ سے تو بظاہر یہی لگتا ہے کہ وہ نفاق کی علامت ان میں پائی جاتی ہے نعوذ باللہ من ذالک اس سے بچنا چاہیے کہ خلیفہ وقت اللہ تعالی کا مقرر کردہ خدا کا نمائندہ ہوتا ہے اب اس کے فیصلے کے متعلق یہ کہنا کہ ہم جو معروف ہوگا وہ مانیں گے جو معروف ہوگا نہیں معلوم ہوگا وہ نہیں مانیں گے تو اس بات کا فیصلہ کون کرے گا کہ خلیفہ وقت کا کا کونسا فیصلہ معروف ہے اور کونسا معروف نہیں ہے کیا ہم کریں گے ہر حال میں کبھی بھی نہیں تصور غلط ہے سوچ بھی نہیں سکتا کوئی اور اگر کوئی یہ سمجھتا ہے کہ وہ یہ فیصلہ کرے گا کہ خلیفہ وقت کا فیصلہ کونسا معروف ہے اور کونسا معروف نہیں تو اس کو ہی خلیفہ کیوں نہ بنا لیا جائے تو پھر خلیفہ بنانے کا فائدہ کیا ہے حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے بعد خلافت کے قیام کی پیشگوئی فرمائی تھی کہ تو میرے فورا بعد طلاق ہو گئی پھر آپ نے کچھ بادشاہتوں کا ذکر فرمایا آخری میں آخری زمانے میں پھر فرمایا کہ خلافت علی منہاج نبوت کا علم ہو گی بی بی حلافت جو آخری زمانے میں خلافت علی منہاج نبوت کا ایم ہوگی ہمارے بغیر جماعت دوست جو مسلمان ہیں وہ بھی آج اس بات کے قائل ہیں کہ خلافت علی منہاج نبوت قائم ہوگی اور اس کے ذریعہ سے ہی ہماری ترقیات ہوگی تو سوال یہ ہے کہ وہ خلافت اس کی پیشگوئی انہوں نے بیان فرمائی تھی تو ظاہر ہے اگر آنحضرت صلی اللہ وسلم نے پیشگوئی فرمائی ہے تو یہ اللہ کا وعدہ تھا اللہ نے علم عطا فرمایا تھا تو پیشگوئی ہوئی تھی اور اس سے اس خلافت کا مسلمان انتظار کرتے چلے آ رہے ہیں کیا وہ اس لئے انتظار کر رہے تھے کہ جب خلیفہ وقت آ جائیں گے اللہ تعالی کسی کو خلافت کے منصب پر فائز فرمائے گا تو ہم اس کے حکم بن جائیں گے ہم فیصلہ کریں گے کہ اس کا فیصلہ کون سا درست ہے کون سا درست نہیں ہے یا وہ ہمارا حکم بن کر آئے گاآیا تھا اور دوسرا آنے والے جو مسیح موعود تھے ان کو حضور نبی کردیا ہے اور پھر اسی مسیح موعود کو حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے حاکم بن لادن کے الفاظ سے یاد فرمایا کہ وہ آنے والا مسیح حکم اور ہو گا وہی فیصلہ کرے گا تمہارے اختلافات کا اور اگر حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی پیش گوئی کے مطابق اللہ تعالی ان کو حکم اور عدل بنا کر محفوظ فرما رہا ہے تو پھر یقینی بات ہے کہ آپ کے خلاف ابھی حکم اور عدل ہیں ہیں میں آپ یا کوئی تیسرا حکم اگر بننے کا کیسے تصور کر سکتا ہے کہ سوچ بھی کیسے سکتا ہے یہ تو بالکل نامعقول بات ہے کہ یہ کہیں کہ چونکہ ہم نے کہا کہ ہم خلیفہ وقت کے معروف فیصلے کو تسلیم کریں گے یہ بات بالکل درست نہیں ہے اس لیے کہ خلیفہ وقت کا جو بھی فیصلہ ہوتا ہے وہ دراصل معروف ہی فیصلہ ہوتا ہے ہر فیصلہ جو بھی خلیفہ فرمائے وہ معروف فیصلہ ہوگا اور ہر فیصلے کو ماننا اسی طرح ضروری ہوتا ہے اسی طرح اس کی اطاعت ضروری ہے جیسے نبی کی حساب کرنا ضروری ہوتا ہے کیونکہ خلیفہ نبی کا جانشین ہے ہے اور پھر اگر یہ اعتراض اٹھایا گے کہ یہ فیصلہ کریں گے اس لئے کہ بیعت کرتے وقت ہم نے یہ کہا ہے کہ ہم معروف فیصلے کو تسلیم کریں گے تو پھر یہ اعتراض حزب اللہ کے حضور صلی اللہ علیہ وسلم پر بھی پڑے گا اور اگر آنحضور صلی علیہ وسلم قرآن کریم فرماتا ہے تو پھر نعوذباللہ من ذالک خدا تعالیٰ کی ذات کر دیا ایسے لوگ اعتراض کیا کر رہے ہیں کیونکہ یہی الفاظ بالکل قرآن کریم میں آنحضور صلی اللہ علیہ وسلم کے متعلق بھی آئے گا اللہ تعالی فرماتا ہے کہ اے نبی جب مومن عورتیں تیری بیعت کرنے کے لئے اور اس بات پر غور کریں کہ وہ اللہ کا کسی کو شریک نہیں ٹھہرائیں گے چوری نہیں کریں گے بدکاری نہیں کریں گے اپنی اولاد کو قتل نہیں کریں گے کسی پر بہتان نہیں باندھے گی اور پھر فرمایا بنائی ہوئی نہ کافر دی یاسین کافی معروف ہے اور وہ معروف کاموں میں تیری نافرمانی نہیں کریں گی یہ سورہ ممتحنہ کی آیت نمبر تیرا یا اب جب خدا تعالیٰ فرماتا ہے کہ وہ اس بات پر بیعت کریں کہ وہ تیرے یعنی معروف باتوں میں تیرے حکم کی نافرمانی نہیں کریں گے پاپا یہ نہ تو پھر ان کی بیعت لی اور ان کے لیے صرف کر اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ اگر ان الفاظ کی وجہ سے یہ فیصلہ زیدی اب کرنا ہے کہ کونسا فیصلہ معروف ہے کون سا غیر معروف تو کیا یہاں کے متعلق بھی یہی فرمایا جا رہا ہے کہ اللہ کے جواب کا معروف فیصلہ ہوگا وہ تو مان لیں گے اور جو معروف نہیں ہوگا اس کو وہ نہیں مانے گی یا قرآن کریم میں بھی یہ مطلب ہے بیان کرنے کا کیا خدا تعالیٰ نے اس لئے کہ یہ بیان فرمایا ہے ہے کوئی مسلمان آج تک یہ تصور کرسکتا تھا کہ ایسی بات ہے ہے اگر قرآن کریم کے الفاظ کے بارے میں کوئی مسلمان تصور بھی نہیں کر سکتا کہ نماز کا یہ مطلب ہے تو آج خلیفہ وقت کے معروف فیصلے کے بارے میں یہ تصور کرتے ہوئے کیوں سے بدن کانپ نہیں جاتا کہ وہ خلافت جس کا وعدہ اللہ نے فرمایا تھا جس کا وعدہ حضرت محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا تھا کہ آخری زمانے میں تمام برکات خلافت کے ساتھ وابستہ ہیں اس کے بارے میں کوئی ایک ہے کہ جو فیصلہ ہوگا ہم کو مارنے کے جو فیصلہ ہوگا نہیں ہوگا وہ نہیں مانیں گے کے اللہ تعالی نے فرمایا یہ تو نماز والی بات ہے اور اللہ تعالی قرآن کریم میں ایسے لوگوں کے متعلق فرماتے ہیں کہ یہ کلا تھ والمن القدیم کہ تم سے کہوں گا اللہ کو دین کیا ہوتا ہے بلاول ہو یا اللہ مافی السموات ومافی الارض اللہ زمین و آسمان کی تار کو ہر چیز کو جانتا ہے اور پھر فرمایا ممنونہ علیک ان اسلمو کے وہ تیرے اوپر اس بات کا احساس دلاتے ہیں کہ وہ عین مسلمان ہوگئے قلات من علیہ السلام علیکم آپ نے اسلام لانے کا میرے اوپر احسان نہ جتاؤ بلاؤں کیا علی کو خدا کا نام لیا کہ یہ اللہ کا احسان ہے تمہارے اوپر کہ اس نے تمہاری ایمان کی طرف رہنمائی فرمائی ہے اب یہی بات یہاں پہ ہے کہ ایسے لوگ کیا خدا کو سکھا رہے ہیں کہ معروف فیصلہ کون ہو گا کونسا نہیں ہوگا جب نبی کے بارے میں یہ حکم ہے تو خلیفہ وقت کے بارے میں بھی یہی حکم ہے تو ان کے متعلق بھی یہی جواب ہے کہ اللہ کو اس کا دن نہیںبلکہ یہ اللہ کا ہمارے اوپر احسان ہے کہ اس نے ہمیں اس بات کی توفیق عطا فرمائی ہے ہمیں یہ رہنمائی فرمائی ہے کہ خلیفہ وقت کے ہاتھ پر بیعت کریں اور ان برات کے بارے سب نے جو اللہ تعالی نے خلافت کے ساتھ وابستہ فرمائیں گے اسی طرح آگے اللہ تعالی اس آیت استخلاف کی اگر دیکھیں تو اس سے پہلے بھی یہی حکم ہے کہ وہ قسم کھاتے ہیں کہ اگر تم ہو کہ آپ ہمیں حکم دیں گے لائن عمارت تعمیر کی ضرورت نہیں ہے وہ آپ سے منہ اللہ فرماتے ہیں کہ کس نے لکھا تھا کہ یہ کام کا بیان نہ کرو بات معروف معروف اتحاد کی بات کرو تو یہاں بھی معروف کتاب کا ذکر ہے تو کیا معلوم کسی بات کا فیصلہ کریں اور اس کے بعد پھر آیت استخلاف ہے تو گویا آیت استخلاف کا یہاں معروف اس سے پہلے معروف کتاب کا ذکر کرنا یہ خدا تعالیٰ نے وضاحت کردی کہ خلیفہ وقت کی بھی اسی سرایت کرنا ضروری ہے ہے اور جن کے اندر اس قسم کا نفع پایا جاتا ہے اور جو خود حاکم بننا چاہتے ہیں کہ ہم فیصلہ کریں گے کہ فیصلہ کون سا معروف ہے کون سا نہیں ہے یہ بھی اللہ تعالی نے بہت پہلے قرآن کریم میں پندرہ سو سال پہلے بیان فرما دیا تھا کہ یہ کچھ لوگ ایسے بھی ہوں گے یا ایہا الذین آمنوا اطیعواللہ و اطیعوالرسول و اولی الامر منکم اور پھر اس میں آگے جاکے اللہ تعالی فرماتا ہے کہ یورید ونہایتہا کا حال بتاو ہو یہ وہ لوگ ہیں آیات احکام ہیں کہ شیطان کو اپنا حاکم بنایا ان کو منع کیا گیا تھا کہ مقامی روایات پر بھی کہ اس کا انکار کرنے کا کیا کہنا تھا کہ شیطان کی باتوں کا تم نے انکار کرنا ہے تو آپ کی بات کو نہیں ماننا ضروری ہے بھائی جان کو اس قسم کی باتیں اٹھا کہ تمہارے اعمال کو خوب صورت کر کے دکھاتا ہے تم کو دور کی گمراہی میں ڈالنا چاہتا ہے کیا تم شیطان کو اپنا حاکم بنایا گے یہ تصور کرنا کہ ہم فیصلہ کریں ہم بن جائیں یہ تصور ہی کہانی ہے قرآن کریم کی اس آیت کے مطابق ق اور پھر سورہ نساء میں اس کے بعد ایک دو آیتوں کے بعد اللہ تعالی فرماتے ہیں بلاول بھٹو زرداری ہرگز ایسا نہیں ہوتا جاتا ہوں جاتے ہیں تیرے رب کی قسم لائیو وہ ایمان دار ہو ہی نہیں سکتے حضرت ایوب کے موقع جہاں تک کہ تجھے حکم نہ بنائے جو منافقین کے وہ اس قسم کی حرکتیں کرتے تھے وہ یہ گویا ایک پیشگوئی اللہ نے فرمایا ان آیات کو قرآن کریم میں جو دائمی شریعت اس کا حصہ بنا کے اینڈ کے آئندہ بھی ایسا ہوگا بعض لوگ اس قسم کے سوالات اٹھیں گے تو یہ ان کے لئے بھی یہی آیت علان کر رہی ہے کہ تیرے رب کی قسم ہم یہ لوگ ایماندار نہیں ہو سکتے یہاں تک کہ تجھے یعنی رسول پاک صلی اللہ وسلم کو اور رسول کی غیر حاضری میں اس کا جو بھی جانا نصیب ہو گا جو بھی خلیفہ وقت ہوگا اس کو حق نہیں بناتے ہیں ان باتوں میں جن میں ان کا آپس میں اختلاف ہوتا ہے اور صرف حق ہی نہیں بنانا بلایا جائے تو میری آنکھوں سے مارا جا سکتا ہے اس کے بارے میں اپنے دل میں کسی قسم کی کوئی تنگی محسوس نہ کریں تو سلیم اللہ سلیم مکمل طور پر تسلیم نہیں کرتے اس لیے جو لوگ یہ کہتے ہیں کہ معروف فیصلہ ہوگا تو مانیں گے ورنہ نہیں مانیں گے اور اللہ تعالیٰ ہت کے ساتھ فرما رہے کہ یہ منافقت کا رنگ ہے اور منافق کبھی کامیاب نہیں ہوتا شیطان ایسے وسوسے دل میں ڈالتا ہے اور شیطان تو چاہتا ہے کہ تمہیں دور کی گمراہی میں ڈال دے تو ایسے ویسوں سے ہمیشہ بچنا چاہیے اور ایسے لوگوں سے بھی ہمیشہ بچنا چاہیے جو ایسے وقت سے ڈالتے ہیںبالکل قدرتی طور پر یہ چیز یہ مل نہیں سکتی یہ خلافت راشدہ ہے خلافت برحق ہے دراصل یہ جو اعتراض ہے یہ اسلامی نظام خلافت اور اس کی خصوصیات سے ناواقفیت کی وجہ سے پیدا ہوتا ہے اگر خلفائے راشدین کے دور کا انسان کو علم ہوتی ہے پیدا نہیں ہوتا ہے فرماتا ہے ان اللہ یامرکم ان تودو الامانات الی اھلھا خدا کا خلیفہ ہوتا ہے وہ اپنے آپ کو نامزد نہیں کرتا بلکہ مومنین کی جماعت اس کا انتخاب کرتی ہے جبکہ ڈسٹرکٹ جو ہوتا ہے وہ تو اپنے آپ کو خود پیش کرتا ہے بلکل اور پھر اپنی ہر بات جو ہے وہ منوانے کی کوشش کرتا ہے تو یہ ہے کہ ڈکٹیٹر اور خلیفہ وقت میں بالکل ایک کسی لحاظ سے بھی ان کے آپس میں بات نہیں کر سکتی ہے جو ہوتا ہے وہ قانون ساز ہوتا ہے جبکہ خلیفہ جو ہوتا ہے وہ خدا تعالیٰ کے قانون اور شریعت کا پابند ہوتا ہے وہ اسی طرح پابند ہوتا ہے جس طرح عام آدمی ہوتا ہے وہ خدا تعالیٰ کے اس نظام کو دنیا میں لاگو کرتا ہے اور خود بھی ہے جب کہ جو ہوتا ہے وہ اپنے نظام کو چلانے کی کوشش کرتا ہے یہی وجہ ہے کہ خلافت کے زیر سایہ میں حلب کا ازالہ ہوتا ہے جب کہ جو ایکٹر ہوتا ہے وہ ہر ظلم کی انتہا کرتا ہے ہے پھر پھر خلافت خلیفہ وقت ٹھیک ہے کہ اس کے اوپر کوئی نگران نہیں لیکن وہ شریعت کا پابند ہوتا ہے اس کے وہ بالکل آزاد نہیں ہوتا حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ تعالیٰ عنہٗ کی پہلی تقریر ہے جس میں آپ نے فرمایا اور اس کے رسول کی نافرمانی کروں تو میری دعا بیٹا اسی طرح خلافت خلیفہ وقت ہوتا ہے شریعت کی پابندی اس کے ساتھ ساتھ اس کو وشاورھم فی الامر اس کو مشورہ کا بھی حکم دیا گیا ہے جیسا کہ حضرت عمر رضی اللہ تعالی نے فرمایا اللہ خلافت کا اعلان مشورہ دے تو وہ مشورہ بھی لیتا ہے لیکن ضروری نہیں کہ خلیفہ وقت کے وہ اس مشورہ کو سو فیصد اسی طرح اس پر من و عن عمل بھی کرے گا عزمت فتوکل علی اللہ حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ تعالی عنہ کے بارے میں آپ سے مشورہ لیا اعظم کی بات مانی بات نہیں مانی اور مشورہ بھی دیا اور یہ بھی اللہ تعالی کی ہدایت کی روشنی میں اس پر عمل بھی کروایا اسی طرح جو لشکر اسامہ رضی اللہ تعالی عنہ کو دیکھا تھا ان کو بھی جاتی تھی لیکن حضرت عمر رضی اللہ تعالی عنہ کی ضرورت کے وقت حاصل ہوتا ہے جو انسانی قوانین ہے جو انسانی کالونی میں واقع ہے جو ہے وہ عدالت کے ذریعے اپنا حق لے بھی سکتا ہے اور عدالت کے ذریعہ سے تکلیف بھی جاتا ہے ہوتا ہے وہ دن رات یہ تدبیریں کرتا ہے کہ اس کی جوڑی ہے اور اس کی حکومت کس طرح دی جائے اس کے لیے وہ ہر ظلم کی حد ہے جو ہوتا ہے وہ ہر رات اور ہر دن اس غم میں گھلتا رہتا ہے کہ خدا تعالیٰ کی بادشاہت کس طرح قائم کو خدا تعالیٰ کا نظام کس طرح ذلت اللہ کی توحید دنیا میں کس طرح کے ہوں دن رات اس میں لگا رہتا ہے اور جو ڈیڈ لیٹر ہوتا ہے وہ دن رات لوگوں پر ظلم کے اپنی کے لیے وہ جاری رکھتا ہے جب کہ خدا تعالیٰ کا خلیفہ جو ہوتا ہے وہ ان مظلوموں کے لیے دن رات اپنا سکون جو ہے اس کے خلیفہ کے ساتھ تو بلکل بالکل درست ہے ہمارا وقت اختتام کو پہنچا ہے جو اس سلسلے میں آپ کا ذکر کیا جو تعلق خلیفہ کا جمعماریا سیریز جنسی تشدد میں پیش کی جا رہی ہے آپ کے پروگرام سے ختم ہوتی ہے تو انشاءاللہ اگلا پروگرام کی کسی ایک آنٹی سیمسنگ ملاحظہ کریں گے تو ہمیں آپ کا دین اسلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ ہم تو رکھتے ہیں مسلمانوں کا دیں ہم تو رکھتے ہیں مسلمانوں کا دیں