Rah-e-Huda – Mukhlifeen Maseehe Maood pbuh ka Anjam
راہ ھدیٰ ۔ مخالفین مسیح موعودؑ کا انجام ۔ صداقت مسیح موعود علیہ السلام
Rah-e-Huda | 3rd July 2021
ہے بسم اللہ الرحمن الرحیم السلام و علیکم ورحمتہ اللہ وبرکاتہ یہ پروگرام را ہے جو آج تین جولائی 2019 ہفتہ کے روز جی ایم ٹی وی کے مطابق شام چار بجے آپ کی خدمت میں ایم پی اے انٹرنیشنل کے لندن سٹوڈیو سے براہ راست پیش کیا جا رہا ہے پروگرام راھادا جماعت احمدیہ مسلمہ کے عقائد کے بارے میں پیش کیا جاتا ہے اور خاص طور پر جو اس پروگرام کو دیکھتے اور سنتے ہیں یہ ان کا پروگرام ہے آپ اس پروگرام میں براہ راست ہمارے پیغمبر ان سے سوالات پوچھ سکتے ہیں دو طریقے ہیں جن کے ذریعے سوال پوچھ سکتے ہیں ایک تولہ تقریبا ایک گھنٹے تک آپ کو اپنی اسکرین پر اس پروگرام کا لین نمبر 7 آ رہے گا اگر آپ براہ راست بات کرنا چاہیے اور اپنا سوال پیش کرنا چاہیے لینڈ لائن نمبر نوٹ کریں اور اگر آپ اپنا تحریری سوال یہ وائس میسج کے ذریعے سوال بھجوانا چاہیے تو اس کے لیے ہمارا واٹس ایپ نمبر لازمی نوٹ کر لیں نام اللہ تعالی کی سنت یہ رہی ہے کہ جب بھی وہ کسی نبی کو کسی فرستادی کو اس دنیا میں بھیجتا ہے تو وہ خود اس کی تائید و نصرت کے سامان اپنے ہاتھ میں لے لیتا ہے اور اسی لیے اللہ تعالی نے قرآن کریم میں بھی یہ بات واضح فرما دی ہے کہ کتاب اللہ تعالی نے یہ بات لازم کر چھوڑی ہے ہے کہ ایک طرف تو اللہ تعالی غالب رہے گا اور دوسری طرف اس کا رسول اس کا قیام پر یقین کرے گا گزشتہ دو پروگرام سے اسی سلسلے میں ہم نے گفتگو کا آغاز کیا ہے آج کے پروگرام میں بھی خاکسار کے ساتھ یہاں لندن سٹوڈیو میں موجود ہیں وہ کرم نصیر احمد قمر صاحب جب کہ ان شاءاللہ نشریاتی رابطے کے ذریعے گانا سے ہمارے ساتھ ہوں گے وہ کرم ساجد محمود صاحب صاحب ایک بات ضرور عرض کرنا چاہوں گا خاص طور پہ ان لوگوں کی خدمت میں جو جماعت احمدیہ کے مخالفین ہیں ان کے لیے یہ دیکھنے سوچنے سمجھنے اور پرکھنے کی بات ہے کہ حضرت مرزا غلام احمد قادیانی علیہ الصلاۃ و السلام کا دعوی کیا ہے آپ نے صرف یہ ہے کہ ہم محمد مصطفی احمد مجتبیٰ صلی اللہ علیہ وسلم نے جس آنے والے وجود کی پیش گوئی کی تھی وہ مسیح ہم اور امام مہدی کا وجود تھا اور مرزا غلام احمد قادیانی علیہ الصلاۃ و السلام کا دعوی ہے کہ ان پیشگوئیوں کے عین مطابق آپ اس دنیا میں تشریف لائے ہیں اور انہیں اسکولوں میں یہ بھی ذکر تھا کہ آپ نبی اللہ ہوں گے لیکن آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے امتی نبی ہوں گے جو نبوت کا دعویٰ ہوتا ہے وہ براہ راست ایک نبی خدا تعالی سے خبر پا کر دیتا ہے اس لیے جو لوگ کسی نبی کی مخالفت کرتے ہیں وہ دراصل اللہ تعالی کی مخالفت کر رہے ہوتے ہیں تو مخالفین احمدیت کو یہ بات سوچنی چاہیے سمجھ لینی چاہیے کہ اگر آپ جماعت احمدیہ کی مخالفت کر رہے ہیں تو آپ مرزا غلام احمد قادیانی علیہ الصلاۃ والسلام یا ان کی جماعت کی مخالفت نہیں کر رہے بلکہ آپ تو اللہ تعالی کی مخالفت کر رہے ہیں لیکن اس بات کا ایک دوسرا پہلو بھی لیا جا سکتا ہوں یقین ہمارے مخالفین تو یہ کہیں گے کہ جماعت احمدیہ سچائی پر مبنی نہیں ہے اگر یہ بھی حقیقت ہے دیر کے لئے مان لی جائے جان جائے تو بھی اللہ تعالی اس چیز پر قادر ہے کہ وہ اس جماعت کا خاتمہ کردیں اگر حقیقت میں یہ نظر آرہی ہے کہ اللہ تعالی اس بات کی تائید و نصرت کرتا چلا جارہا ہے تو پھر بہرحال یہ سوچنے کا مقام ہے مسلم نصیر قمر صاحبلیکن مخالفین کا انجام وہی ہوا جو تمام سچے انبیاء کے مخالفین کا ہوا کرتا ہے ہے قرآن کریم نے بڑی وضاحت سے فرمایا ہوا ہے کہ دو قسم کے لوگ بہت ظالم ہے ہیں ایک وہ جو جھوٹے طور پر اللہ پر افترا کرے کہ خدا نے مجھ سے کلام کیا مجھ پر وحی نازل کیا واقعی وہ خدا کی طرف سے نہ ہو قرآن کی اس کو مانتے ہیں آج ہم بہت ہی ظالم انسان ہے ہے اور دوسرے یا پھر وہ جو دعوی کرنے والا ہے کہ میں خدا کی طرف سے ہو وہ تو سچا ہو اور جو پھر اس کو جھوٹ جاتا ہے پھر وہ بہت بڑا ظالم ہے اور قرآن کریم میں فرماتا ہے کہ ظالم کبھی کامیاب نہیں ہوا کرتے الصلاۃ والسلام اگر اگر ہمارے مخالف غیر احمدی دوسرے لوگ جو ہیں ان کے خیال کے مطابق نعوذ باللہ اللہ تعالی پر اعتراض کرنے والے تھے مجھے تو یہ ضرور تو اس آیت کی روشنی میں ضرور تھا کہ آپ اور آپ کا سلسلہ نابود ہوجاتا آتا ہوں کہ آپ خدا پر اس طرح کرنے کے مجرم قرار دے لیکن خدا کی فیلم شہادت ہمیں یہ دکھائی دیتی ہے ہے کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام اور آپ کی جماعت تو ہر لمحہ عہد ترک کرتی چلی آ رہی ہے ہے جس جس مقصد کے لیے آپ ہوئے تھے وہ غضب تدریس پائی کمال کو پہنچ رہی ہے اور آپ کے مخالفین تھے تھے وہ جب بھی آپ کے مخالف مخالف ویسا مخالفت میں سامنے آئے کر تو وہ نہایت بری طرح ناکام ہوئے تو میں ناکامی اور نامرادی ہے کہ وہ اپنے ارادوں میں ناکام ہیں دوسرے یہ کہ جنہوں نے نمایاں طور پر از مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کو چیلنج دیا یا آپ کے چیلنج کو قبول کیا وہ خدا تعالیٰ کی گرفت میں آئے اس کی مثالیں علی کا بیان میں آپ سے سب سے پہلے عوام لے لیتے ہیں اسے تھے انہوں نے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کی مخالفت میں بہت زور لگایا لیکن انہوں نے اپنی آنکھوں سے آپ کی سچائی کے بے شمار انسانوں کو دیکھا تھا لیکن ایک دفعہ پھر سے کام لیتے رہے اور حضور علیہ الصلاۃ والسلام کے متعلق نہایت کچی غلیظ الفاظ استعمال کرتے رہے گالیاں دیتے رہے وہاں کا وہ دے دو کے واقعات ہیں جو عبرت کا نشان بنے میں نے وہاں پہ کبھی ان کے حواریوں نے اخبار جاری کیا جس کا نام تھا اس اخبار کا مقصد انہوں نے یہ کہہ دیا تھا کہ مرزا صاحب کو بد نام کرنا ان کے مشن کو ناکام بنانا ہے اس شخص کا اخبار کا ایڈیٹر تھا اچھا اس کا مینیجر اور اس کا بھائی بٹگرام اخبار کا معاون تھا انتہائی دشمن انگلش راضی کرتے رہے ہے اور پھر ہوا یہ یہ کہ ایک موقع ان دنوں میں جب کہ تعاون بڑی میں پھیلی ہوئی تھی اور حضرت موسی علیہ الصلوۃ والسلام نے فرمایا تھا کہ یہ تعاون کا نشان ہے یہ میری سچائی پر ایک گواہ بنے گا اس راہ میں مجھے اللہ تعالی نے خبر دی ہے کہ جو میرے اور میرے گھر کی چاردیواری میں ہوں گے وہ محفوظ رہیں گے اور دوسرے لوگ ہیں وہ اس کا کس سے نشانہ بنائیں گے اس نے یہ کہ جو اچھا جو میں نے آپ کا نکاح لو میں بھی دعا کرتا ہوں کہ میں تعاون سے نہیں مانوں گا اب یہ اس کا کہنا تھا اور پھر کیا ہوا چند دن کے اندر اندر ہی اس اخبار کا پورا عملہ تعاون سے ہلاک ہوگیا کیا اور خدا کے قہر نے ان کی اولاد اور ان آیات کو لپیٹ میں لے لیا سب سے پہلے اخبار کے ایڈیٹر سے مراد اور بھگت رام ادارتی کارکن کی نرینہ اولاد تعاون پر مبنی پھر بھگت رام اور چلنے سے اور سامراج نے جو اس کا ایڈیٹر تھا وہ اپنی اولاد اور دوستوں کی موت کا صدمہ اپنی آنکھوں سے دیکھا اور پھر وہ خود بیمار ہوا اور عجیب بات ہے کہ آسان صدمات کا اس نے جب ذکر کیا تو ایک اور اخبار میں پرکاش چھپنے کے لیے بھیجا تو جس دن وہ آرمی کا وہ مضمون چھپا جس نے افسوس کا اظہار کیا کہ اگر جانور مر گیا اعلان ابھی مر گیا اسی دن اس کی اپنی بھی ٹاون سی وفات ہوئی حضرت حسن علیہ السلام نے خود اس کا ذکر کرتے ہوئے ہلاکتوں کا نمبر تو کا یہ فرمایا یہ ہے پاداش شرارتوں کی قیمت خیال کرو کہ ان تینوں کا تعاون سے مرنا ایک نشان ہے بلکہ یہ تین شعراردو مشاعرے ہیں انہوں نے بھی از مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کی مخالفت میں بہت زور مارا اور وہ اسلام کے سامنے جب دلیل سے وہ کھڑے نہیں ہو سکے اور آپ کی تقسیم میں بڑھتے چلے گئے تو ایک موقع پر مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام نے 1997 میں نام بنام ان سب علماء اور مشائخ اور صوفیائے کو گنوں کو موبائل کا چیلنج لکھ کے بھیجا اور فرمایا کہ تم آؤ وعدہ کرو گھر بیٹھے وہ باہر نکالو یہی کہہ دو کہ یہ جو باتیں مرزا میں نے لکھی ہیں یہ غلط ہیں اور یہ جھوٹا ہے اور لعنت اللہ علل کاذبین اور اپنےمتعلق تو یہ بات واضح کر دوں کہ ہم سے ہیں ہیں اس چیلنج کو کھل کر اس طرح تو قبول کرنے کی ان کو توفیق نہ ہوئی ہے جس میں حضور نے بڑے تحقیق کے ساتھ آرہا ہے اور وہ کابل کے لئے بلایا ہے کہ موبائل اور موبائل اصل میں یہ ہوتا ہے کہ خدا کی درگاہ میں یہ فریاد کی جائے تو عالم الغیب والشہادۃ ہے یہ شخص یہ کہہ رہا ہے کہ مجھے خدا نے بھیجا ہے اگر یہ تیری طرف سے ہے تو پھر یہ تو زندہ رہے یہ باقی رہ گئے پھیلے اور اگر یہ تیری طرف سے نہیں ہے اور تو جانتا ہے ایک طرف سے نہیں ہے تو پھر اس کو حلال تو آکر اور اگر یہ سچ ہے اور ہم جھوٹے الزام پر سزائیں آئی تو یہ جو چیلنج تھا اس کو قبول کرے تو لوگوں نے نہیں کیا لیکن جن لوگوں نے بھی اس کے ساتھ تخفیف کا سلوک کیا وہ خدا کی گرفت میں آئے مسیح علیہ السلام کی تصدیق حال ہی میں کی تاریخی اہمیت میں جلد نمبر 23 میں وہ صحرا جسے ذکر ہیں ان لوگوں میں سے جو مخالفین ہلاک ہوئے ان میں سے ایک مسلا مولانا نذیر حسین دہلوی تھے جو مولوی محمد حسین بٹالوی کے کی تحریک پر سب سے پہلے اور اسلام کے خلاف فتویٰ جاری کرنے والے تھے اسی طرح مولی اللہ بخش تونسوی بھی تو یہ سب جو ہے خدا کی گرفت میں آئے حضور کی زندگی میں جو ہے وہ ہلاک ہوئے اسی طرح مولانا رشید احمد گنگوہی ہے انہوں نے اسلام کے مقابلے میں نہ صرف یہ کہ لعنت اللہ علی الکاذبین کابل کے ایک اشتہار میں علمائے اسلام کے لئے شیطان کا لفظ بھی آپ کے نام کے طور پر استعمال کیا یہ صاحب یہ خود خود سانپ کے کاٹے کے دم کرنے کی شرط رکھتے تھے اس کے بعد حضرت علی کی گرفتاری ہوئی کہ پہلے ہوئے پھر سانپ نے کاٹا اور پھر اس طرح بڑی کے ساتھ وہ ہلاک ہوئی انیس سو ستتر سے وسلم نے یہ بھی فرمایا ہے کہ جو 52 میرے مخالف مولوی تھے جن کو حضور نے خاص طور پر چیلنج کردیا تھا ان میں سے صرف بیس زندہ تھے اور وہ بھی کسی نہ کسی بلا میں گرفتار اور باقی سب موضع میں بے شمار مثالیں ایسی تاریخی اہمیت بھری ہوئی ہے اور آج بھی آج بھی خدا کا یہ سلوک جو ہے وہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کی جماعت کے ساتھ جاری ہے کہ وہ جو مخالف آتے مخالفت میں آتے ہیں جو کہ کیا وہ ہلاک ہوئے حضرت شیخ الاسلام کے دو شعر پڑھ کے مضمون بند کرتا ہوں حضور فرماتے ہیں کہ عزیز جہاں میں لاہور لوگوں کو کچھ نظیر جس کی تائید ہوئی ہو میری جیسی ہیں ہے کہ میں کافر ہوں تم مومن ہوئے بے پھر بھی اس کافر کا حامی ہے وہ مقبول ہوتا یار کیا اچھا ہے خدا مومنوں کا دوست ہے جو اپنے مضمون بیان کیا ہے یقینا یہ وقت کی مناسبت سے آپ نے بہت اختصار کے ساتھ ذکر کیا ہے یہ ہمارے مخالفین کے لئے سوچنے اور سمجھنے کی بات ہے اور وہ بات یہ ہے کہ دیکھیں آپ کے خیال میں جماعت احمدیہ پر مبنی نہیں ہے تو یہ کیسی جماعت ہے کہ ایک طرف تو اس سچائی پر مبنی نہیں ہے اور دوسری طرف اللہ تعالی قدم بقدم اس کو ترقی کی طرف لے کے جا رہا ہے اور ہر لمحہ اس کی تائید و نصرت کے سامان پیدا کر رہا ہے یعنی جس پہلو سے بھی دیکھ لیا جائے کسی ایک ملک میں اگر پابندیاں لگتی ہیں تو پوری دنیا اس جماعت کے پر کھول جاتی ہے کسی ایک جگہ اس کا پیغام پہنچانے میں دقت محسوس ہوتی ہے تو اللہ تعالی ایسے اسباب پیدا کرتا ہے کہ خلیفہ وقتیہ اسلام کی نشاۃ ثانیہ کا زمانہ ہے اور حضرت اقدس مسیح موعود علیہ السلام کے آنے کا اصل مقصد خدمت اسلام ہے تو میں چاہوں گا کہ آپ ہمارے ناظرین و سامعین کو اس بارے میں بھی کچھ بتائیں کہ حضرت اقدس مسیح موعود علیہ السلام نے کیا خدمت اسلام کی ہے ہے جی عرض ہے کہ حضرت اقدس مسیح موعود علیہ صلاۃ وسلام اسلام کی احیائی نو کے لیے آئے تھے اور آپ نے اسلام کی وہ خدمت کرنی تھی جو کہ قرآن کریم میں اللہ تعالی نے آنے والی موت کی بیان کی تھی اور ان کے لیے ایک بہت بڑا کام جانے والے موت کا بیان کیا ہے امام مہدی اور مسیح بن مریم کا وہ یہ ہے لیظھرہ علی الدین کلہ کے تاکہ وہ اسلام کو دنیا کے باقی تمام ادیان پر غالب کر کے دکھا دے تو اس آیت کے ٹکڑے میں جو قرآن کریم میں تین مختلف مقامات پر آیا ہے اللہ تعالی نے آنے والے موت کے مقام اور مرتبہ اور اس کا جو کام ہے اس کا خلاصہ بیان کر دیا ہے چنانچہ حضرت اقدس مسیح موعود علیہ السلام کا زمانہ دیکھیں تو جب آپ آئے ہیں تو انڈیا میں بہت بڑے بڑے مذاہب موجود تھے اور عیسائیت کی گویا کہ یہ لگا رہی تھی حتیٰ کہ اسلام کو جلد ہی دنیا سے ختم کردیں اور تمام مسلمانوں کو حصہ بنا دیں اس زمانے میں اسلامی اپنا دعویٰ فرمایا ہے اور آپ نے وہ اپنے دعوے سے پہلے جو خدا تعالیٰ نے آپ پر وحی الہام کا سلسلہ جاری کی ہے تو اس کے ایک عرصے کے بعد آپ نے براہین احمدیہ کتاب لکھی ہے اور جو پہلی کتاب آپ نے لکھی وہ اس موجودہ زمانے میں اگر کوئی مذہب زندہ ہے تو وہ صرف اور صرف اسلام ہے اگر کوئی کتاب زندہ ہے تو صرف قرآن کریم ہے اگر کوئی صحیح معنوں میں زندہ ہے تو وہ صرف اور صرف ہمارے آقا و مولا حضرت اقدس محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وسلم سے سنا آپ نے اسلام کی زندگی کو ثابت کرنے کے لیے اسلام کی سچائی کو ثابت کرنے کے لئے پہلی کتاب لکھی براہین احمدیہ اور تمام مخالفین کو چیلنج دیا تھا وہ ہندو ہیں ان کے آگے فرقے ہیں خاصا یہاں دوسرے مذاہب ہیں اور چیلنج دے دیا کہ اگر اس کتاب میں اسلام کی زندگی کے حق میں جو میں نے دلائل بیان کئے ہیں اگر وہ اپنے مذہب کی تائید میں یہ دلائل کا صرف پانچواں حصہ بھی بیان کردیں اور ثابت کر کردے تو میں اپنی ساری کی ساری جائیداد جو ہے وہ اس کے نام لگوانے کے لیے تیار ہوں اور آپ کی جائیداد کی قیمت 3000 روپے تھی چنانچہ آپ نے اپنی اس سے دس ہزار روپے کا چیلنج دیا اور کسی انسان خواہ اس آیت کے ساتھ تعلق رکھنے والا تھا تھا ہندو ازم کے ساتھ تعلق رکھنے والا تھا خواہ کسی اور مذہب کے ساتھ تعلق رکھنے والا تھا کسی نے بھی اس کتاب کا جو ہے وہ حقیقی معنوں میں جواب نہیں دیا اللہ علیہ السلام نے اسلام کو ایک اور پہلو سے غالب کیا اور دلائل کے علاوہ بھی آپ نے فرمایا کہ سچا مذہب ہمیشہ سے ہے اور وہاں نئی زندگی عطا کیا کرتا ہے اور روحانی زندگی کی ایک علامت کیا ہے کہ خدا تعالیٰ اس انسان کی دعائیں ثنا کرتا ہے دعاؤں کو قبولیت کا شرف عطا کرتا ہے جو سچے مذہب کا پیروکار ہوا کرتا ہے اور آپ نے سب کو چلیں دیا کہ اگر تم لوگ سچے ہو تو آؤ کے میدان میں مقابلہ کر لو چنانچہ حضرت اقدس مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام نے دعاؤں کے چیلنج کے لئے بار بار اپنے مخالفین کو للکارا ہے یہاں تک کہ آپ نے اپنی کتاب ضرور تو امام نے فرمایا کہ خدا کی قسم کھا کر کہہ سکتا ہوں کہ میری خدا تعالیٰ نے 30 ہزار سے زائد مقبول کی ہیں چنانچہ دعاؤں کے میدان میں بھی کوئی مذہب والا جو ہے وہ آپ کے مقابلے میں نہیں آیا پھر نشانات کے سچے مذہب میں ہمیشہ خدا تعالیٰ کی طرف سے کرامات آتی ہے معجزات آتے ہی نشانہ بناتے ہیں اور اس زمانے میں اگر کوئی اپنے آپ کو سچا کہتا ہے تو او میرا مقابلہ کر کے دیکھ لو میں یہ کہہ رہا ہوں کہ اسلام میں زندہ نشانات موجود ہیں اسلام میں زندہ پیشگوئیاں موجود ہیں اسلام میں زندہ معجزات اور کرامات موجود ہیں اور اگر کوئی اور مذہب والا سچا ہے تو میرے مقابلے میں آئے تو نشان دکھانے کے مقابلے میں بھی اسے اور مذہب کا کوئی آدمی خواب میں بڑا پادری ہو بڑے سے بڑا اینڈ ہو یا کسی اور مذہب کا حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے مقابلے میں نہیں آیا اسی طرح پیش گوئیوں کے میدان میں علم غیب کے میدان میں آپ نے للکارا ہے اس میدان میںوہ عیسائیت بہت بڑا غلبہ حاصل کر لے گی اور اسلام کا جواب نام و نشان مٹا کے ہم رکھنے کے چند دہائیوں کے اندر اس زمانے میں حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کے ہیں وہ اٹھے ہیں اس آیت کے لئے جو سب سے بڑا ہتھیار اس زمانے میں استعمال کر رہے تھے وہ یا تو اسی کا تھا کہ حضرت عیسیٰ علیہ السلام زندہ جسم سمیت آسمان پر بیٹھے ہوئے ہیں دو ہزار سال ہوگئے ہیں اس لیے جب ہم کہتے ہیں کہ وہ ابھی تک زندہ ہیں ثابت ہوا کہ وہ انسان ہیں وہ خدا ہیں کہ اتنی لمبی عمر جو ہے وہ انسان نہیں بن سکتا اور افسوس کے یہ جو مسلمان علما تھے یا مسلمان ان کا اپنا ہی مزہ تھا کہ حضرت عیسیٰ علیہ صلاۃ و سلام دیتا ہے اسی طرح مسلمانوں کااپنا عقیدہ تھا کہ حضرت یوسف علیہ السلام مردے زندہ کرتے تھے حضرت عیسی علیہ السلام پر لوگوں کو پیدا کیا کرتے تھے تو ان عقائد کی وجہ سے عیسائی مذہب جو ہے وہ کہہ رہا تھا اور مسلمانوں نے ہزاروں نہیں بلکہ لاکھوں کی تعداد میں اس آیت کی طرف مائل ہو چکے تھے اور انہوں نے ان میں سے ہزاروں نے عیسائیت قبول کر چکے تھے اور انہوں نے سینکڑوں ایسے مسلمان علماء بھی تھے جن میں آگرہ مسجد جامع مسجد کا امام تھے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کے زمانے ہیں اور خدا تعالیٰ کی طرف سے الہام پا کر آپ نے مسلمانوں کو فرمایا کہ رواں میں آپ کو بتاتا ہوں اور وہ ہر بات یہ ہے کہ ان کے خدا کو ماردو حضرت عیسی کو یہ لوگ کر رہے ہیں اور اس بنیاد پر یہ کہہ رہے ہیں کہ حضرت عیسیٰ علیہ السلام خدا ہیں اگر تم ان کو شکست دینا چاہتے ہو تو اس کا ایک ہی حل ہے اور وہ یہ ہے کہ خدا کی وجہ سے وہ ثابت کر دو آج تم سارے مناظر ہیں اپنے ملازم کے نام تبدیل کر دو کسی اور موضوع پر مناظرہ کرنے کی ضرورت نہیں ہے صرف اسی پر زور دوں جس نے عمران خان کے خدا کی وفات ثابت کی اس آیت کے اس کا جو ہے دراز تو ہو گا کہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام نے اٹھارہ سو نوے کے آخر میں یہ نظریہ پیش کیا انیس سو آٹھ میں حضور کی وفات ہوئی تقریبا اٹھارہ انیس سال میں اتنی عظیم الشان کامیابی حاصل کی حضور نے یہ اندوستان کے چار لاکھ سے زیادہ افراد آج ہے وہ امجد کی آغوش میں آگے اور نہیں آئے تھے ان میں سے جو شریف طبقہ تھا جو انصاف کا قبضہ تھا کم از کم اس بات کو تسلیم کرنے پر مجبور ہوگیا کہ اس آیت کا اگر دفاع کیا ہے تو حضرت مرزا غلام احمد قادیانی علیہ السلام نے کی ہے چنانچہ مولانا ابوالکلام آزاد صاحب بہت بڑے انڈیا کے لیڈر تھے انہوں نے حضور کی وفات پر کہا کہ فتح نصیب جرنیل تھے یعنی کے ایسے جرنیل جس میدان میں رہ جاتا ہے وہ فتح حاصل کرتا ہے مولوی نور محمد صاحب جو ایک غیر اہم بھی تھے انہوں نے اس بات کو تسلیم کیا کہ مرزا غلام احمد قادیانی علیہ السلام کے وفات مسیح کے حربے کے نتیجے میں ان کا تذکرہ ہے کہ ہندوستان سے لے کر ولایت کے باغیوں کو شکست دی علماء اس بات کا اقرار کیا کہ جو لٹریچر اور جو کام ہے وہ ہمیں کسی اور انسان میں ایسی خدمت نظر نہیں آرہے بہت بہت شکریہ ساجد صاحب اور یہ یہ بھی وہ پہلو ہے جو ہم بار بار اپنے ناظرین کے سامنے پیش کرتے ہیں خاص طور پر ان ناظرین اور سامعین کے سامنے جو جماعت احمدیہ کے بارے میں تحقیق کرتے ہیں جماعت احمدیہ کے بارے میں مزید معلومات لینا چاہتے ہیں ہم آپ کے سامنے بار بار یہ باتیں رکھ رہے ہیں نہ صرف یہ کہ حضرت مرزا غلام احمد قادیانی علیہ الصلاۃ والسلام نے اپنی زندگی میں ہمیشہ خدمت اسلام میں اپنا وقت گزارا بلکہ آپ کی وفات کے بعد سے لے کر اب تک جماعت یا کام ہی دراصل صرف یہ ہے کہ ہم تو خدمت اسلام میں لگے ہوئے ہیں قرآن کریم کے تراجم ہیں دنیا کے ہر کونے میں مساجد کا قیام ہے اور ہر جگہ ہی دیکھتے ہیں ہمارے ساتھ موجود ہیں محمد عبدالرشید صاحب عبدالرشید صاحب السلام علیکم و رحمۃ اللہ و برکاتہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے اللہ کی قسم کھاکر فرمایا ہے کہ میں وہ نبی ہوں جو رسول اللہ کے تابعدار ہوں اور میں وہ نبی ہوں جس کی دنیا انتظار کر رہی تھی تو پھر ہمارے لوگوں کو کیا اینڈ کی عقل کو کیا ہو گیا ہے کہ وہ نہیں مانتے اور رد کر رہے ہیں دوسرا سوال یہ ہے جی اسلامی اصول کی فلاسفی میں حضرت مسیح علیہ السلام نے فرمایا علیحدہ کی روحانی حالت وہ ہے جو دین بھی ہو اس کے بارے میں وضاحت فرما دیں جزاک اللہ بہت بہت شکریہ محمد عبدالرشید صاحب آپ کے دو سوال ہیں میں ایک اپنی پین نمبر ان کے سامنے پیش کر دیتا ہوں نصیب سے پہلے تو وہ جو حرام دی کہ یہ ہے کہ حضرت اقدس مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کا کہہ رہے ہیں کہ وہ اللہ تعالی کے نبی ہیں تو مخالفین اس کو کیوں نہیں مانتے تھے اور میں جو دوسرا حصہ ہے اسلامی اصول کی فلاسفی سے ریلیٹڈ میں ساجد صاحب کے سامنے پیش کر دوں گا تو سنت انبیاء میں یہ بات ثابت ہے اور سب سے بڑھ کر سید رسول حضرت محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وسلم کی حیات طیبہ میں آپ سے آپ تو دیکھے تھے اور اس کے باوجود کی مخالفت کی وہ اپ کو جھوٹا کہتے رہے لیکن کیا ان کے جھوٹا کہنے سے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم چھوٹے ہوگے نہیں یہ پروپیگنڈا اور آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے کے خلاف جھوٹا ہونے کا جو وہ واپس نہیں پڑتا ہے حضرت علی کی شہادت نے ثابت کر دیا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سچے اور بچوں کے سردار تھے اور آپ کو جھوٹا کہنے والے خود جھوٹے اور بدکردار تھےاعلان فرمایا ابھی جب پہلے سے ذکر کیا کہ جو حضور نے وہ والے کی دعوت دی تھی تو یہی نہیں تھی کہ خدا سے ہم فیصلہ چاہتے ہیں کہ سچے اور جھوٹے کے درمیان فیصلہ کرے اور بہنیں حضور علیہ الصلوۃ والسلام کے ایک شعر پڑھا کے سچے اور جھوٹے میں وہ فرق کرتا ہے اگر وہ جھوٹے اور سچے میں فرق کرکے دکھائے تو پھر یہ تو سارا معاملہ تو ہوجائے انبیاء اور رسول کی مصدقہ کہ جھوٹوں کے ساتھ بھی وہی سلوک اور سچوں کے ساتھ بھی وہی سلوک کو بچوں کو غلاظت دیتا ہے خدا دیتا ہے اور کامیابیوں سے نوازتا ہے اور ان کے مخالفین اپنے بتا دو میں ناکام ہوا کرتے ہیں تو وہی بات ہے کہ انہوں نے پوچھا جانا چاہیے کہ وہ اس کے باوجود کیوں نہیں مانتے اتنے کھلے نشانات سامنے ہی نشانات مانگنا ان کا حق تھا نشانات دکھائے گئے دیے گئے آج بھی دیکھنا چاہیے تو دیکھ سکتے ہیں لیکن اگر اس خدا کی قسم کھا کر جب اعلان کیا تو مسیح موعود علیہ السلام کی قسم کھانے میں یہ لعنت ہے اللہ میرے ساتھ ہے اور اس بات کو اکثر جگہ عطا فرمائے فرمایا کا اور جوڑوں میں خدا کی طرف سے ہونے کا مدعی ہو اگر میں خدا کی طرف سے نہ ہوتا تو مجھے کچھ نہ آج تھی تمہاری نے تمہارے مگر کی مدد کرتا ہے وہ جہاں کا شہر یار لیکن جب وہ میری پہلے طور پر میرے حق میں گواہی دے رہا ہے میرے پیغام کی سچائی جو ہے وہ کہہ رہی ہے تمہاری زمین سکڑ رہی ہے تم میں سے لوگ نکل کر اس سچائی کو قبول کر رہے ہیں تو قرآن کریم کی اس بات کو اس طرح بیان فرمایا پلا دو نہ نہ دیکھتے نہیں کہ وہ سوچتے نہیں کہ وہ نہیں کرتے مجھے کہ ہم ان کی زمین کو کناروں سے چھوٹا کرتے چلے آرہے ہیں کم کرتے چلے آرہے ہیں یا پھر بھی وہ سمجھتے ہیں کہ وہ غالب آئیں گے تو یہ کھلے حقائق ہیں اللہ تعالی کی پہلی شہادت سے بڑھ کر کوئی شہادت نہیں ہوتی ہمارے جو مخالفین وہ مولویوں کی اندھا دھند تقلید سے باز آئیں اور خدا سے رہنمائی جاۓ اے خدا تیری طرف سے ہونے کا یہ شخص موجود ہے اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی اطاعت اور غلامی کے نتیجے میں وہ کہتا ہے کہ مجھے یہ مقام ملا ہے اگر یہ بات درست ہے اور تو عالم الغیب و الشہادہ ہے تو ہم میں ہماری رہنمائی فرما دیں کہ گل جائے تو تمام آثار دکھائی دیتے ہیں اور یہ ایسی کامیابی ہیں جو انسان اپنی کوشش سے حاصل نہیں کر سکتے جس کی طرف ہم اس پروگرام میں ہمیشہ زور دیتے ہیں جس پہلو کی طرف آپ نے توجہ دلائی لیکن ہمارے وہ لوگ جو جماعت احمدیہ کے بارے میں سننا چاہتے ہیں پڑھنا چاہتے ہیں جانچنا چاہتے ہیں حضرت مرزا غلام احمد قادیانی علیہ الصلاۃ والسلام اور آپ کے خلفاء اور تمام جماعتیں ہیں یہ ہمارا تو صرف ایک ہی دعوی ہے کہ جماعت کی طرف سے کھڑی کر باجماعت ہے اگر جماعت احمدیہ کی سچائی کے بارے میں کس نے پوچھنا ہے تو سب سے آسان طریقہ یہ ہے کہ آپ خود اللہ تعالی سے اخلاص کے ساتھ وفا کے ساتھ سچے دل کے ساتھ دعا کریں ہمیں تو گزشتہ ایک سو تیس بتیس سال کی تاریخ بتا رہی ہے کہ خدا تعالیٰ خود رہنمائی کرتا ہے لوگوں کی اور لوگ جماعت احمدیہ میں داخل ہوتے ہیں اور ہورہے ہیں اور انشاء اللہ یہ سلسلہ قیامت تک جاری رہے گا محمد عبدالرشید صاحب کا جو سوال تھا وہ میں ساجد محمود صاحب کے سامنے پیش کر دیتا ہوں سب سے ہمارے بھائی محمد عبدالرشید صاحب حضرت اقدس مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کی کتاب اسلامی اصول کی فلاسفی کے حوالے سے پوچھنا چاہیے کہ وہ جو درج ہیں کہ اعلی درجہ کی روحانی ترقیات تو اس سے کیا مراد ہےانسان کے تزکیہ نفس کے حصول کا حضرت اقدس مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام نے تزکیہ نفس کے حوالے سے ایک مثال بیان فرمائی ہوئی ہے دوبئی کی مثال اپنی ایک کتاب میں گورنمنٹ انگریزی اور جہاد میں کہ جیسے تم جو بھی کو دیکھتے ہو کہ میں نے کپڑے لیتا ہے پھر اس کو گرم پانی میں ڈالتا ہے اور وہ اس میں ڈالے رکھا ہے پھر باہر ان کو نکالتا ہے پھر سامنے آتا ہے پھر ان کو ملتا ہے اسی طرح یہاں تک کہ ان کو صاف و شفاف کر دیا کرتا ہے یہ ساری مثال دے کے انھوں نے بیان فرمایا کہ یہی انسان کے اپنے نفس کو پاک کرنے کا طریقہ ہے کرنے کے لیے ذکر الہی ایک بہت بنیادی چیز ہے اور اس کے ساتھ ساتھ نماز باجماعت کا کام ہے وہ بنیادی چیز ہے اور اس کے ذریعے سے انسان جب تک یہ فصل کر لیتا ہے تو اعلی روحانی ترقیات جو ہیں وہ ایسے انسان کو حاصل ہو جاتی ہو بہت شکریہ ساجد صاحب ایک سوال موصول ہوا ہے وہ ہمارے بھائی ہیں محمد ہیں ان کا سوال ہے اور وہ میں نصیر صاحب کے سامنے پیش کر دیتا ہوں نصیب تمہارے بھائی نصیبہ ملک کراچی پاکستان سے یہ پوچھنا چاہ رہے ہیں کیا نبی کے لیے کتاب یا صحیفہ کا ہونا ضروری ہے ہے قرآن کریم سے معلوم ہوتا ہے کہ یہ ضروری نہیں ہے ہے آپ مثال دیکھ لیں کہ قرآن مجید میں حضرت موسی علیہ الصلاۃ والسلام کے بعد بہت سارے رسولوں کے بھیجنے کا ذکر فرماتا ہے ہے لیکن ان کو کوئی نئی کتاب نہیں دی گئی تھی کوئی صحیفہ نہیں دیے گئے تھے کہ خود حضرت عیسی علیہ الصلاۃ والسلام جو اس سلسلے کے بہت اعلی درجے کے نبی تھے تھے ان کے متعلق بھی یہ قرآن کریم نے بیان فرمایا ہے اور خود انہوں نے بھی یہی فرمایا کہ میں تم کو منسوخ کرنے نہیں آیا اس میں کسی تبدیلی کے کاپی کرنے کے لئے نہیں آیا بلکہ اسی کے جو وعدے ہیں جو ہیں ان کو پورا کرنے کے لئے آیا ہوں تو ایک کتابیں اسی کے پیغام کو آگے پھیلانے کے لئے نبی آسکتا ہے یہ ضروری نہیں ہے کہ ہر نبی کے پاس کچھ صحیح ہو یا کوئی نئی کتاب ہو بلکہ وہ پہلے سے موجود شریعت کی وضاحت اور اس پر لوگوں کو قائم کرنے کے لئے بھی ہو سکتا ہے ہے اور ہوتا ہے یہ سب جس طرح اکثر یہ بیان کرتے ہیں کہ کئی دفعہ تاریخ سے پتہ لگتا ہے کہ ایک وقت میں ایک سے زیادہ نبی بھی موجود رہے ہیں تو جس طرح آپ نے ذکر کردیا یہی بات درست ہے اگر سوال جو ہے ہماری بہن راشدہ چودھری صاحب ہونے کینیڈا سے میں بھیجا ہے اور وہ میاں ساجد محمود صاحب کے سامنے پیش کرتا ہوں ہماری بہن کے پوچھنا چاہ رہی ہیں انہوں نے جس طرح سوال بھیجا ہے اسی طرح پڑھتا ہوں وہ کہتے ہیں کہ یہ اعتراض کیا جاتا ہے کہ ہم نے کیا تو پھر احمدیت ہندوستان میں زیادہ تعداد میں کیوں نہیں نہیں پھیلی ساجد محمود صاحب صاحب یہ ہے کہ آیا تھا اور جب آپ فری ہے اس وقت متحدہ ہندوستان تھا اور اس میں موجودہ پاکستان اور بنگلہ دیش بھی شامل تھا چنانچہ پاکستان جو بنائی ہے وہ تو پارٹی شروع ہوئی ہے انیس سو سینتالیس میں اس سے پہلے کے سارا یہ ایک ملکہ لاتا تھا یہی وہ لا صلاۃ وسلام اس وقت ہندوستان میں آئے تھے اور جو میں نے پہلے سوال کے جواب میں عرض کیا تھا کہ آپ کی وفات سے پہلے چار لاکھ کے قریب لوگ اندھے ہو چکے تھے وہ زیادہ بڑی تعداد ہے بلکہ آپ کے پیسے زیادہ ہیں کہ دونوں ممالک کے تھے باقی سارے ہندوستان کے تھے اور ہندوستان میں سے وہ دیکھیں کہ جو متحدہ صوبہ پنجاب تھا اب تو پنجاب بھی دو بن چکے ہیں کہ انڈیا کی طرف ہی پاکستان کی طرف تو جو بڑی تعداد میں جماعتیں ہیں وہ ایک بنی ہیں وہ پنجاب کی رہنے والی تھیں لیکن جب یہ پھر پارٹی شروع ہوئی ہےمیں پھیلی ہے دوسری اقوام تک گئی ہے اور وہاں پہ جاکے تبلیغ کے فرائض سرانجام دیے ہیں اور وہاں سے بھی لاکھ افراد نے مختلف قوموں کے وہ حضرت اقدس مسیح موعود علیہ السلام کی غلامی میں وہ آئے صاحب نصیر قمر صاحب میں چاہتا ہوں کہ سوالات کا سلسلہ جاری رکھیں ایک سوال ہمیں موصول ہوا تھا مرزا اسامہ عبدالسلام صاحب کی طرف سے انڈیا سے میں چاہتا ہوں اس کے بارے میں بھی آپ ہمارے ناظرین کو بتا دیں ان کا سوال یہ تھا کہ غیر احمدی کہتے ہیں کہ سورہ الحاقہ آیت نمبر 46 میں خدا تعالی نے فرمایا ہے ولو تقول علینا بعض الاقاویل کے حوالے سے کہ یہ حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے دعویٰ نبوت سے تعلق رکھتی ہے نہ کہ جھوٹے مدعی نبوت کے بارے میں غیر کیا کہتے ہیں کہ اس کا تعلق محض ان کے ساتھ ہی اس کے بعد اگر کوئی دعویٰ کرتا ہے اور اس سے زیادہ نہیں ہو سکتی ہے تو بتا دیتا ہوں کیونکہ اب اس کے ذہن میں وہ نہ ہو کیوں ہیں اللہ تعالی فرماتا ہے والا حوالہ مطلب یہ ہے کہ اگر یہ مودی باتیں جھوٹے طور پر ہماری طرف منسوب کرتا تو ہم اس کو داہنے ہاتھ سے پکڑ لیتے اور اس طرح کاٹ دیتے اور پھر تم میں سے کوئی اس کو بچانا سکتا کتا اس میں کتاب ہے اس میں کوئی شک نہیں لیکن اصولی بات بھی ہے کیونکہ اگر اس کو صرف یہ کہا جائے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم سے خاص ہے ہے اور اور عمومی طور پر اس کو درست مانا جائے آئے تو اس کا مطلب یہ ہوگا کہ کسی جھوٹے نبی کو تو اس وقت بھی ملک میں لے سکتی ہے کہ وہ جھوٹ بولتا جائے خدا پر افتراء کرتا چلا جاۓ اور وہ اس وقت تک وہ یہ کام کرتا ہے پھر بھی خدا کی گرفت میں نہ آئے آئے اگر واقعات کی رو سے ایسا کبھی ہوا ہے تو پھر منکر ہیں اسلام کے سامنے یہ دلیل پیش ہو نہیں سکتی یہ آپ کے نبی محمد ہیں صلی اللہ علیہ وسلم نے اگر 23 سال تک کوئی تو اور بھی کئی لوگ تھے جو جھوٹے تھے اور ان کو گرفت میں نہیں دیا گیا خدا نے ان کو پکڑا نہیں تو پھر یہ دلیل کیسے بنے گی زندگی اسی طرح اگر اس دلیل کو صرف انسانوں کے منکرین کے لئے حجت قرار دیا جائے اور حضرت مسیح موعود علیہ السلام کو اس معیار پر پرکھا جائے تو مخالفین اسلام کے سامنے اس دلیل کا کوئی وزن نہیں رہتا اور وہ کہہ سکتے ہیں کہ مرزا صاحب کو نعوذباللہ جھوٹا دعوی کام کرکے اس برس تک ملک ملی ہے تو پھر یہ دلیل رسول کریم کی صداقت کی کے لیے کیسے استعمال ہوسکتی ہے تو یہ کوئی بات بنتی نہیں سوائے اس کے کہ یہ کہا جائے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے لئے اول طور پر اور پھر وہ یار جو ہے سچائی کا وہ ایک قائم کر دیا گیا اور مسیح موعود علیہ السلام نے اس بارے میں بڑا چیلنج دیا تھا حضور نے فرمایا کہ اگر یہ بات صحیح ہے کہ کوئی شخص نبی یا رسول اور مامور من اللہ ہونے کادعوی کرکے اور کھلے طور پر خدا کے نام پر کلیمات لوگوں کو سنا کر کر پھر باوجود مفتی ہونے کے برابر 23 برس تک جو زمانہ یوں ہی اندر صلی اللہ علیہ وسلم نے زندہ رہا ہے تو میں ایسی نظیر پیش کرنے والے کو بعد اس کے جو مجھے میرے ثبوت کے موافق کیا قرآن کے ثبوت کے موافق موت دے دے پانچ سو روپیہ نقد دے دوں گا آج تک کسی کو اس چیلنج کے قبول کرنے کی توفیق نہیں ہوئی کیونکہ ایسی ہی راستہ نہیں تو حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام تو اپنی سچائی کے لئے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی غلامی میں آپ کے قیام قائم کردہ معیار کو پیش کرتے ہوئے بتا سب کے سامنے رکھ رہے ہیں عجیب بات ہے کہ ایک طرف اور ان کو ماننے کا دعویٰ رکھتے ہیں ایک طرف صلی اللہ علیہ وسلم سے محبت کا دعوی رکھتے ہیں اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا جو معیار صداقت اللہ تعالی نے مقرر فرما دیا تھا اس میں یار پر آپ کے غلام کی صداقت کو پرکھنے کے لیے تیار نہیںآپ نے بیان فرمایا گیا ہے یہ وی آرٹسٹ ہے جس کے مطابق آپ سب انبیاء کی سزا کا خوف رکھتے ہیں مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کی زندگی کا ایک حصہ یہ بھی ہے کہ آپ کی زندگی جہاں ایک طرف عشق الہی میں ہمیں نظر آتی ہے وہاں دوسری طرف آقا و مولا حضرت محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وسلم سے حقیقی عشق کرتے ہوئے حضرت اقدس مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام نے ہمیں نظر آتے ہیں اور جماعت احمدیہ کو بھی حضرت اقدس مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام اور خلفائے احمدیت نے ہمیشہ یہی سکھایا اور سمجھایا اور بتلایا ہے کہ جو کچھ بھی ہے وہ آقا و مولا حضرت محمد مصطفی احمد مجتبیٰ صلی اللہ علیہ وسلم کی پیروی سے ہے اگلا سوال جواب ہے طاہر صاحب کی طرف سے آیا تھا صاحب کے سامنے پیش کرتا ہوں سب عزیز احمد طاہر صاحب نے بھی ایک راز ہے بات کا سوال از پیش کیا ہے وہ آپ کے سامنے پیش کرتا ہوں اور میں چاہوں گا کہ آپ اس کی وضاحت کر دیں وہ یہ کہتے ہیں کہ سیرت المہدی کی روایت نمبر 88 پر یہ اعتراض کیا جاتا ہے کہ مرزا صاحب نے ہوشیار پور میں ایک چلا کیا اور یہ لکھا کہ ہوشیار پور میں ایک پرانی قبر پر متوجہ ہوا تو میری توجہ سے سو سال پہلے کا مردہ قبر سے باہر نکل آیا اور دوزانو ہو کر میرے روبرو بیٹھ گیا تو اعتراض یہ کیا جاتا ہے اور بتائیں کہ ایسا کیسے ہوا جب کہ آپ خود یعنی مرزا صاحب خود اقرار یہی کہ مردہ واپس نہیں آ سکتا یعنی جو حضرت عیسی علیہ السلام کی وفات کے بارے میں حضرت مسیح موعود علیہ السلام اور آپ کی جماعت کا نظریہ ہے ہے دیا ہے اس بات کا اقرار یہی کہ جو ایک دفعہ مر جاتا ہے وہ دوبارہ زندہ ہو کر اس دنیا میں نہیں رہا کرتا اور بلامبالغہ بھی صفات ہے جو آپ کی کتب میں اور ملفوظات میں اس بات کے درج ہیں اس الہامی ہونے تفصیلی بحث کی گئی ہے آج میں رضوی موت آئی تو مر جاتے ہیں وہ دوبارہ زندہ ہو کر اس دنیا میں نہیں آیا کرتے تھے جہاں تک تعلق ہے تو وہ ظاہری واقعہ نہیں ہے بلکہ کشمیر طور پر ہے کہ کچھ تھا جس میں حضرت مسیح موعود علیہ السلام جب گئے ہیں تو ظاہری صورت میں وہ نہیں آیا بلکہ کے طور پر جو ہے وہ آیا ہے جیسے خار میں ایک انسان کے ہے کسی اور اپنے بھائی کو دیکھتا ہے جو فوت ہو چکا ہوتا ہے لیکن میں اس بات کا اندازہ نہیں ہوتا کہ آدمی وفات پا چکے ہیں وہ اس کو دیکھ رہا ہوتا ہے اسی طرح بیداری میں نظر آجائے تو وہ کچھ بھی نہیں ہوا کرتا ہے حضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی زندگی میں کئی واقعات ملتے ہیں مثلا ایک دفعہ رسول اکرم صلی اللہ علیہ علیہ وسلم تشریف فرما تھے صحابہ بھی وہاں پہ بیٹھے ہوئے تھے تو ایک آدمی آیا اور کہا کے صاف ستھرا لباس پوشیدن لباس سادہ کھانوں کے اندر صلی اللہ علیہ وسلم کے سامنے بیٹھا ہے اور سوالات یہی اصول ہے سانو الایمان والاسلام تفصیلی جواب عطا فرمائے گئے تو آپ نے صحابہ سے پوچھا کہ کیا تمہیں پتہ ہے کہ انسان کون تھا تو اس پہ صحابہ نے عرض کی کہ اللہ ہمیں تو نہیں معلوم کہ حضور نے فرمایا کہ جبرئیل علیہ السلام سے جو آئے تھے تاکہ وہ تمہیں ایک علم سیکھنے کا طریقہ سمجھائیں تو گویا وہ بھی ایکشن میں واقع تھا جو ظاہری صورت میں نظر آیا اور صحابہ کو پتہ بھی نہیں چلا اسی سے ملتا جلتا واقعہ یہ ہے کہ حضرت اقدس مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام علی ہے ظاہری طور پر وہ مردہ ہے وہ دنیا میں نہیں آیا بلکہ کشمیر ہے وہ صورت ہے ہے شکریہ ساجد محمود شہر اور ناظرین کرام اس سوال سے وابستہ ایک بات میں آپ لوگوں کی خدمت میں عرض کرنا چاہتا ہوں چائے کتاب سیرت المہدی ہو یا اور بھی دیگر کتب جو جماعت احمدیہ کی کتب ہیں یا جماعت احمدیہ نے لکھی ہوئی اشیاء کی ہوئی ہے وہ اللہ تعالی کے فضل وکرم کے ساتھ جماعت احمدیہ کی مرکزی ویب سائٹ ہے اسلام ہی میں خاص طور پر وہ لوگ جن کا جماعت احمدیہ سے تعلق نہیں ہے اور اگر ہمارے آمدید بھائی بہن بھی کسی کتاب کے صفحہ نمبر سے تعلق رکھتے ہیں جہاں وہ عبارت ہوسکتا ہے وہ بھارت میں موجود ہو لیکن اسے بھارت کوروٹھے ہیں ٹھیک ہے آپ کا حق بنتا ہے بہتر اٹھائیں لیکن ہر ایسی عبارت میں خود اسی جگہ پر اسے بھارت کا جواب اللہ تعالی کے فضل وکرم کے ساتھ موجود ہوتا ہے محترم سر کے مسام ایک اور سوال آج کل عام طور پر پوچھا جاتا ہے اور وہ سوال یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ قرآن کریم میں فرماتا ہے کہ وہ پکارنے والے کی دعا کو سنتا ہے تو پھر فلسطینی مسلمانوں کی دعائیں اب تک کیوں نہیں سنیں گے گئے بڑا یہ سوال اس لحاظ سے اہم ہے کہ اس وقت میں مسلمانوں کی جو حالت ہے صرف فلسطینی مسلمانوں کی بات نہیں دنیا بھر میں مختلف ممالک میں مسلمان ہی مسلمان حکومتیں بھی ہیں لیکن جو حالت ہے اس وقت امت مسلمہ کی بہت ہی تکلیف دے دے اور ابھی ہم یہ بھی جانتے ہیں سب جانتے ہیں کہ کہ خانہ کعبہ میں ہر سال لاکھوں مسلمان حج بیت اللہ کے لئے جاتے ہیں عمرہ کے لئے جاتے ہیں دوسرے مقدس مقامات پر جاتے ہیں مدینہ تو نبی صلی اللہ علیہ وسلم جانتے ہیں آپ کے مزار مبارک پر بھی دعا کرتے ہیں میں بھی دعا کرتے ہیں اتنے برے بھی ہیں لیکن حالت نہیں بدلی دل تو یہ سوال بہت اہم ہے فلسطینی مسلمانوں کا استعمال نہیں کرتے قرآن کریم پر نظر ڈالی جہاں پہ آپ نے جس آیت کا حوالہ دیا ہے وہیں پر اگر دیکھا جائے تو اس کا جواب مل جاتا ہے آپ نے جو بات بھی کی تھی وہی بات کہ قرآن کریم پر بھی جب یہاں پر کیا اعتراض ہو سکتا ہے تو وہ اسے تھوڑا سا آگے پیچھے پڑے تو پتہ چل جائے گا گا جب میرے بندے تم سے میرے متعلق سوال کریں تو میں غریب ہوں ہو یہ بھی فرمایا کہ تم نے کیا کہ رہی ہو رہی ہو ہو وہ جی وہ دعوت داعی اذا دعان نہیں جو بھی ہے اس کو قبول کرتا ہوں جب وہ مجھے پکارے چلا گیا فرمایا یا علی رضی اللہ عنہ کو قبول کریں کریں اور مجھ پر حقیقی معنوں میں ایمان لائے اس کے نتیجے میں وہ انہیں وہ رشک آتا ہوگا انہیں وہ راہ سوجی گئی جس کے نتیجے میں وہ مخالفین کے چنگل سے نجات پا سکیں گے اور ان کے مخالف جو ہیں وہ ناکام ہوں گے اور انہیں کامیابی حاصل ہوگی قربانیوں کا مضمون ہے وہ دینی پڑتی ہے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اور آپ کے صحابہ میں سب سے بڑی قربانی ہی تھے لیکن انجام کیا ہوا اگرچہ یہ بات بھی کرنی پڑی جنگ بھی دفعہ میں لڑ پڑیں قسم کی تکلیف برداشت کیں اور مومنین غالب ہے کہ خدا کے بعد ایران اور رسول مقبول مدینہ منورہ اس دنیا میں بھی اور آخرت میں بھی تو یہ سوال بہرحال غور کرنا چاہیے کہ کیا وجہ ہے کہ ہم اتنی دعائیں کرتے ہیں تو ہے یہ ہمارے کل بھی کرتے ہیں تو خراب ہو جائے اللہ وجہ سے چند سال پہلے ذکر بھی کیا کیا کیوں نہیں سنی جاتی آتی ہمارے ساتھ خدا کے دو مختلف علوم آتا ہے ہے اور سورۃ فاتحہ کے بغیر نماز نہیں ہوتی رسول اللہ سلم نے فرمایا کہ نماز ہوتی نہیں جب تک فاتحۃ الکتاب نہ پڑھی جائے سورۃ فاتحہ نہ پڑھی جائے اور بیسیوں آدمی انسان بنتا ہے بہت سارے لوگ مایوس ہوگئے ہیں کہ خدا سنتا نہیں یا ہے یا مر گیا ہے ہماری اتنا چیخ چیخ کے مرے بیٹھے ہیں کہ مسلمانوں کی حالت نہیں بدلتی مسلمانوں سے ذلیل و خوار ہو رہے ہیں تو ہم کیوں اس معنی میں پڑے ہوئے ہیں بات یہ کہ ایک پہلو کی طرف توجہ دلاتا ہوں کہ وہ جو خدا نے کہا تھا میری مانو جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم پر اترنے والی شریعت کے مطابق آپ کے اس میں مذکور پیش گوئیوں کے مطابق صلی اللہ علیہ وسلم کے دیئے کی پیشگوئی اور وعدوں کے مطابق آنے والے ماحول کو نہیں مانتے تو وہ کیوں آپ کی دعا قبول کرےبظاہر انسانوں کے بنائے ہوئے امام اس امام کو ٹھکرا دے جسے خدا نے بھیجا ہے تو انہیں ماموں کی حیثیت کو نہیں ہوا کرتیں ان کی دعائیں پھر وہ ادا الکافرین اللہ فی ظلال کتاب رد کر دی جاتی ہے خدا کہتا ہے کہ میں نے جسے امام بنا کے بھیجا ہے اسے تم کو قبول نہیں کرتے اس کا انکار کر رہے ہیں اور کہتے ہیں کہ ہماری دعا قبول کر لو میں کیسے تمہاری دعا کرنا میری تو تم مانتے نہیں تو فلیستجیبوا لی ولیؤمنوا بی میں یہ پیغام ہے اللہ تعالی کی طرف سے کہ اگر آپ یہ چاہتے ہیں کہ آپ کی دعائیں قبول ہو تو پھر میری آواز میں نے تم سے مطالبہ کر رکھیں ان کے تقاضوں کو پورا کرو پھر تمہاری دعاؤں کو قبولیت کا شرف عطا ہوگا ہم خدا کے فضل سے آمد یا جماعت کے افراد سعد انفرادی طور پر زید بکر میں فارغ میرے میں بے شمار کمزوری ہے لیکن اس ہفتے کے نتیجے میں جو الہی امام کے ساتھ ہمیں حاصل ہے خدا کے قائم کردہ امامت اور اس کے قائم کردہ خلافت کے ساتھ وابستہ ہیں اس کی مجموعی مالیت کی جماعت جماعت کی دعاؤں کو بھی قبول فرماتا ہے اور میں نہیں صرف جماعت کے بعد مسلسل ترقی کرتی چلی جارہی ہے اور یہ ایک کھلی حقیقت ہے اس کی تفصیلات جاننا چاہتے ہیں ہماری ویب سائٹ پر جائیں اور مسیح کے خطابات و خطابات اور مجالس سوال و جواب آپ کے فرمودات اور شہزاد کو سن لیں تو آپ کو پتہ چل جائے گا کہ خدا کس کی دعائیں سن رہا ہے اور خدا کا ہمارے ساتھ سلوک کیا ہیں اور ہمارے مخالفین کے ساتھ سلوک کیا ہے ابھی راجہ صاحب جیسے بتایا کیا پابندیاں لگانے کی کوشش کی شادی کی کتابیں جو ہے وہ شاہ نہیں ہو سکتی ہے اگر ایک قول یہ ہے کہ اگر تم اب تمہارے ہاتھ میں ہے یہ آپ کی خوش قسمتی ہے ہمارے کو پڑھے یا نہ پڑھے لیکن پابندی ایک جگہ لگائیں خدا نے ساری دنیا میں اس کی شادی کے سامان کر دیا وہاں پہ آواز کو دبانے کی کوشش کی کہ خلیفہ نے فرمایا پھیلتی جائے گی شش جہت میں یہ صدا تمہاری آواز دبئی کی وہ دو قدم دور 245 جائے گی لیکن یہ جو الہی تضادات سے میری دعا ہے کہ تو پھر کبھی جائے گی اور واقعات سے ہاتھ میں ہاتھ پھیر رہی ہے تو یہ خدا کے اصولوں کو دیکھیں بار بار پھر مانے درمیان دعا کے طور پر کافی ہے اس سے بڑھ کر دلیل اور کوئی ہو نہیں سکتا تھا بہت بہت شکریہ ایک سوال میں ساجد صاحب کے سامنے پیش کر دیتا ہوں مختصر وقت میں مجھے لگتا ہے کہ وہ ضرور جواب دیں گے اس کا ہمارے بھائی عارف و زبان سے بنگلہ دیش سے انہوں نے ایک سے زائد سوال بھیجے ہیں لیکن ایک سوال کے براہ راست تعلق ہمارے آج کے موضوع سے ہے صاحب عارف و زمان صاحب کہتے ہیں قرآن کریم کی سورہ مائدہ آیت نمبر 57 میں ہے اس سے کیا مراد ہے ہمارے بھائی کو بتا دیں zee11 گروہ نے فرمایا یہ کہ یقینا اس میں کوئی شک نہیں کہ جو اللہ کا گروہ ہوگا وہ کامیاب ہوگا انجام کا نہیں ملے گا ہے جو حقیقی مومنین ہوں گے خدا تعالیٰ کی نظر میں جو کامل متقی ہوں گے خدا تعالیٰ کی نظر میں ان کو کہا جائے کہ یہ اللہ کا گروہ ہے چنانچہ جب اللہ کی طرف سے نبی آئے گا اور وہ نبی سچا ہوگا اس پر جو ایمان لانے والے لوگ ہوں گے اسے ہم کہیں گے ہر دور میں یہ اللہ کا گروہ ہے یہ اللہ کے کامل مومن کا گروہ ہے اور ان کو خدا نے بشارت دی کہ لازمی انجام کا غلبہ جو ہے وہ ان کو ملے گا اور اس نبی کے منکرین جو ہیں جو اس پر ایمان نہیں لانے والے ہوتے تو اس کے متعلق بات نہیں بتا دیا کہ انہیں اللہ عنہما سے روایت ہے کہ جتنے مرضی سے ہے وہ مخالفت کر لیں جتنی مرضی ہے وہ بائیکاٹ کر لیں جتنی مرضی ان کو خطاس نے اپنے سوالات بھیجتے ہیں چاہے آپ کا تعلق جماعت احمدیہ سے ہے یا آپ جماعت احمدیہ سے تعلق نہیں رکھتے ان کا تقاضا یہ بھی ہے اور انصاف کا تقاضا بھی یہی ہے کہ اگر آپ کو جماعت احمدیہ کے عقائد کے بارے میں کوئی سوال پوچھنا ہے کوئی وضاحت طلب کرنی ہے تو اس کے لیے بہترین طریقہ کار یہ ہے کہ جو لوگ ان عقائد کی پیروی کرتے ہیں جو لوگ ان عقائد کو مانتے ہیں ان سے سوال کیا جائے جماعت احمدیہ حضرت مرزا غلام احمد قادیانی علیہ الصلاۃ و السلام کی تعلیمات کے مطابق صرف اس بات کا دعویٰ کرتی ہے کہ وہ مسیح ہم اور امام مہدی جس کا بیان آقا و مولا حضرت محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا تھا وہ اس دنیا میں آ چکا ہے اس نے اپنی جماعت کا قیام کیا ہے اور اس کے مطابق وہ جماعت دن بدن ترقی کرتی جا رہی ہے اب دیکھنے سوچنے سمجھنے اور سننے کی بات یہ ہے کہ تحقیق کی جائے تو جس کیا جائے اور اللہ تعالی سے اس بارے میں رہنمائی حاصل کی جائے گا غلام احمد قادیانی علیہ الصلاۃ و السلام کی تعلیمات آپ کی کتب ہیں وہ السلام ڈاٹ پر موجود ہیں جماعت احمدیہ تو خود کہتی ہے کہ حضرت مرزا غلام احمد قادیانی علیہ الصلوۃ والسلام کی کتابوں کو پڑھا جائے ہم تو ان کتابوں کو ہرگز نہیں سمجھ پاتے اور ان کتب میں آپ صرف ایک ہی چیز پائیں گے اور وہ یہ ہے قرآنی تعلیمات سیرت النبی صلی اللہ علیہ وسلم اور احادیث نبویہ صلی اللہ علیہ وسلم چمچے خود حضرت مرزا غلام احمد قادیانی علیہ الصلاۃ و السلام نے اللہ تعالی سے جو وعدہ فرمایا اس کا اظہار آپ نے اپنی ایک کتاب اربعین نمبر دو میں ان الفاظ میں فرمایا حضرت مسیح موعود علیہ السلام فرماتے ہیں ہیں مجھے اس خدائے کریم وہ عزیز کی قسم ہے جھوٹ کا دشمن اور مفتری کا نیست و نابود کرنے والا ہے کہ میں اس کی طرف سے ہوں اور اس کے بھیجنے سے عین وقت پر آیا ہوں اور اس کے حکم سے کھڑا ہوا ہوں اور وہ میرے ہر قدم میں میرے ساتھ ہے اور وہ مجھے نہیں کرے گا تمام کام پورا نہ کر جس کا اس نے ارشاد فرمایا ہے جماعت احمدیہ تو ہر لمحہ ہر دن اس بات کی گواہی دیتی ہے کہ اللہ اپنا وعدہ پورا کر رہا ہے اللہ تعالی ہم سب کو اللہ تعالی سے جوڑنے کی آقا حضرت محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وسلم کی تعلیمات پر عمل کرنے کی اور وقت کے امام کو ماننے کی توفیق عطا فرمائے اگلے پروگرام تک کے لئے اجازت دیجئے السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ مسلمانوں کا دیں ہم تو رکھتے ہیں مسلمانوں کا قدیم سے ہی میں ختم رُسل ی