Ahmadi Muslim VideoTube Programms,Rahe Huda,Youtube Rah-e-Huda – Chaudhary Zafarullah Khan ra aor Quaide Aazam

Rah-e-Huda – Chaudhary Zafarullah Khan ra aor Quaide Aazam



Rah-e-Huda – Chaudhary Zafarullah Khan ra aor Quaide Aazam

راہ ھدیٰ۔ چودھری ظفرا للہ خان رضی اللہ عنہ اور قائد اعظم کا جنازہ

Rah-e-Huda | 3rd October 2020

راہ دعا کیے ہیں یہ so6 نبھانا لو جان گا تم تو ہم گھبرائیں بسم اللہ الرحمن الرحیم السلام علیکم ورحمتہ اللہ وبرکاتہ یہ پروگرام ہے جو آج ہفتے کے روز جی ایس ٹی وقت کے مطابق شام چار بجے آپ میں اسٹوڈیو سے براہ راست پیش کیا جا رہا ہے ہے جماعت احمدیہ کے بارے میں تاریخ اسلام کے بارے میں قرآن کریم کے بارے میں آقا و مولا حضرت محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وسلم کے بارے میں جماعت احمدیہ کے عقائد کے بارے میں آپ کے ذہن میں کوئی بھی سوال ہو تو آپ کو چاہیے کہ آپ اس پروگرام میں پیش کریں یہ پروگرام آپ کے سوالات سے ہی چلتا ہے اور سوال نمبر نوٹ کریں جو اس وقت کریں جب کہ دوسرا طریقہ یہ ہے کہ ہمارا واٹس ایپ نمبر بھی اس پروگرام کے دوران یا گلے تقریبا ایک گھنٹے تک آپ کو مسلسل اسکرین پر نظر آئے گا آپ اس کو نوٹ کریں اپنا تحریری یا وائس میسج کے ذریعے سوال ضرور بھجوائیں آئی ایم مولا حضرت محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وسلم کی پیشگوئیوں کے عین مطابق حضرت مرزا غلام احمد قادیانی مسیح موعود و مہدی موعود علیہ السلام نے دعویٰ فرمایا اور گزشتہ ایک سو اکتیس سال سے زائد عرصہ گزر چکا ہے جماعت احمدیہ اسلام کی تبلیغ کا کام ساری دنیا میں کر رہی ہے اسی پیغام کے ساتھ آج کے اس پروگرام کا آغاز کرتے ہیں یہاں لندن سٹوڈیو میں صاحب جب کہ نشریاتی رابطے کے ذریعے ہمارے ساتھ ہی محترم عبدالسمیع خان صاحب آپ دونوں مہمانوں کو خوش آمدید کہتا ہوں اور عبدالسمیع خان صاحب آج گفتگو کا آغاز میں آپ سے کرنا چاہوں گا وہ سوال تو پرانا ہے لیکن رنگ نیا دینے کی کوشش کی گئی ہے ہے ایک طرف صرف جماعت احمدیہ کی دو اہم شخصیات ہیں خاص طور پر حضرت بانی جماعت احمدیہ اور اسی طرح خلفائے احمدیت ان کے بارے میں لوگ اعتراض کرتے ہیں لیکن گاہے بگاہے یہ بھی گزرا ہے کہ جماعت احمدیہ سے تعلق رکھنے والی سیاسی شخصیات جنہوں نے عالمی سطح پر خدمت اسلام کے اہم کام سرانجام دیے ہیں ان کے اوپر بھی الزام لگا کر گویا مخالفین کو جماعت احمدیہ سے متنفر کیا جاتا ہے میں اشارہ کر رہا ہوں تاریخ کو بگاڑنے کی اور تاریخ کو غلط رنگ دینے کی تو اعتراض کیا جاتا ہے وہ حضرت عمر چودھری محمد ظفراللہ خان صاحب رضی اللہ عنہ پر کیا جاتا ہے اور کیا جاتا ہے کہ بانی پاکستان قائد اعظم محمد علی جناح کی انہوں نے نماز جنازہ ادا کی اور پھر اعتراض کرنے والے یہی کہتے ہیں کہ ایک موقع پر جب ان سے پوچھا گیا تو گویا حضرت چودھری صاحب نے یہ کہا کہ مجھے غیر مسلم ممالک کا مسلمان وزیر یا مسلم لیگ کا غیر مسلم وزیر سمجھنے تو کچھ اس بیان کی بھی وضاحت کردیں اور اس بات میں کیا حکمت ہے اس کی وضاحت کر دیںجنازہ کے ساتھ ہے اور وہاں پر موجود ہے اور اگلے دن اسی لئے میں تھوڑا بہت ناراض امامت کر رہے تھے وہ حضرت غلام محمد ظفراللہ خان صاحب کو واجب القتل قرار دے دیا ہے چور کا ساتھ دیا جاتا ہے اس کے بعد میں فساد کیا اللہ خان صاحب نے کراچی میں جلسہ کیا کہ کافر کو کیا حق ہے تو میری کا جلسہ بھی کریں اور صحت تندرستی عطا اللہ خان صاحب نے تو آپ سے بچنے کے لیے اور ملک میں امن و امان قائم رکھنے کے لیے اس کے بعد میں شمولیت نہیں کی اور بعد میں آپ سے پوچھا گیا کہ آپ نے کیوں نہیں پڑھا تو آپ نے جواب دیا کہ میں نے بتایا ہے محمد کر رہے تھے وہ محقق تھے اور میں ان کے طرز کی نماز کس طرح ادا کر سکتا ہوں میں تو محمد کے سربراہ اعظم کے نام اور ہم نے اس کا جنازہ عورتوں نے پڑھا تھا جو اس میں موجود ہے کہ میں کراچی کی لاکھوں عوام اس وقت گھروں میں تھی اپنا وعدہ میں موجود نہیں تھی انہوں نے نماز نہیں پڑھا اور جو لوگ اپنے گھروں میں تھے اور کراچی سے مار تھے انہوں نے بولا نہیں پڑھا ضلع گجرات کے ساتھ ہی خیالات کو ہمارے زیادہ علم کی دعائیں احمدیہ کی ضرورت کب ہوتی ہیں اور ہے اس مسئلے کو حل اسلامی تعلیمات قرآنیہ کے بانی تھے ان کو کافر کہنے کے باوجود لوگوں نے فرمایا کرتے تھے نواب صدیق حسن خان صاحب بہت بڑے امام تھے بہت سی کتابوں کے مصنف ہیں انہوں نے ہر مسلمان اور اسلام صحت کاملہ عطا فرمائے اور وہ قبول کی جائے گی اور آپ کو الہام ہوا کہ سر کو بچائیں گے تو ہم مسلمان رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم پر ایمان لانے والا بہت بہت شکریہ عابد حسین خان صاحب جس طرح آپ نے بڑی تفصیل کے ساتھ بیان کر دیا وہ لوگ جو اعتراض کرتے ہوئے اچھی طرح جانتے ہیں کہ حضرت چودھری سر محمد ظفراللہ خان صاحب اس موقع پر جب حضرت قائد اعظم محمد علی جناح کی وفات ہوئی ہے تو ایک صدمے کی حالت میں تھے اور جو تصویر بھی ملتی ہے تاریخ میں اس میں وہ غم طور پر جھلکتا ہوا نظر آتا ہے اور یہ بھی تاریخ میں ملتا ہے کہ خان صاحب موجود رہے اور تمام دیگر معاملات میں آپ شامل ہوئے اس بات کا ثبوت ہے کہ حضرت چودھری سر محمد ظفراللہ خان صاحب کو جو لگایا تھا قائد اعظم محمد علی جناح سے اور پاکستان سے اور اس کے لیے انہوں نے خدمات کی ہیں ان سے کوئی انکار کر ہی نہیں سکتا اور یہ اس قسم کے الزام لگا کر لوگوں پر یہ آپریشن دینا محض آپ کی دشمنی تو ہوسکتی ہے لیکن اس میں حقیقت کوئی نہیں ہے نام آپ کے سامنے میری عرض کرنا چاہوں گاگویا ان ممالک میں ہم دنیا میں رہتی ہیں اور ہم مسائل لینا چاہتے ہیں میں چاہوں گا کہ وہ ناظرین کے لئے آپ اس الزام کی تردید کردی اور وضاحت کردیں کہ جو سمجھتے ہیں کہ معاملہ کیا ہے ہے نہ مر جائے اے خدا لڑتے ہیں وہاں پہ احمدیوں کے جو بنیادی انسانی حقوق تلف کیے جا رہے ہیں اور قانونی طور پر قانون کا سہارا لے کے طلب کیے جارہے ہیں ہیں وہ سمجھتے ہیں کہ اس کا ذکر جب باہر کے گویا ہم کرتے ہیں اس پر بڑا زور دیتے ہیں بات یہ ہے کہ آج کل تو تو اس ملک کے اندر بھی اور انٹرنیشنل بھی ایسی تنظیمیں ہیں ایسے ادارے ہیں جو ہر چیز پر نظر رکھتے ہیں خاص طور پر جو ایسے ادارے جو بنیادی انسانی حقوق کے پھلوں سے مختلف ممالک میں جو ذیادتی ہوتی ہیں خواہ وہ کسی بھی مذہب یا غیر مذاہب سے تعلق رکھنے والے افراد سے ہو اس پر نظر رکھتے ہیں اور اس کو اس کو شمار کرتے ہیں اس کا ذکر کرتے ہیں ادارے موجود ہیں وہ بھرپور محنت کرتے رہتے ہیں وہ ہمارے بیان کرنے کی ضرورت نہیں ہے تو یہ خیال کہ یہاں کے باہر بیان کرتے ہیں اس کی ضرورت نہیں ہے ہاں آپ جب کوئی اگر ہم سے پوچھے کسی واقعے کی تفصیل تو جو تفصیل ہے جو ہمارے علم میں ہوتی ہے وہ اس کا ذکر کرتے ہیں اور وہ ہمارا حق ہے ہے لیکن حیرت ہوتی ہے کہ اس بات پر تو تکلیف محسوس کرتے ہیں جب باہر جا کے ان باتوں کا ذکر کیا جاتا ہے تو ملک کی بدنامی ہوتی ہے لیکن جو ظلم کیے جا رہے ہیں اس لیے انہیں خود سے شرمندگی نہیں ہوتی کہ ہم وہ کام نہ کریں جس سے ملک کی بدنامی ہو میں آج کل تو وہاں پر تو بہت ہی عام مسئلہ ہے ایک صاحب ہیں وہ کچھ لوگ کہتے ہیں چور ہیں ہیں اور وہ کہتے ہیں چور ہیں تو ان ساری دنیا کو کیوں چاہتے ہو کہ ہم چور ہیں اس سے ملک کی بدنامی ہوتی ہے اس کا ذکر کیا جائے نہ کیا جائے آج کل کے ذرائع سے ہیں اور مسائل کے اور میڈیا کے ساری دنیا کو پتا ہے لیکن لیکن اس بات کی طرف آتے ہیں کہ ہم وہ کام ہی نہ کریں جس سے ملک کی بدنامی ہوتی ہے اور ہمارا تعلق ہے ہم تو بہت سارے ایسے واقعات ہوتے ہیں جن کا ذکر ہی نہیں کرتے اور وہاں پر میڈیا پر ہونے والے مظالم کا ذکر کیا ہی نہیں جاتا کبھی کوئی خبر دیتے ہیں اور خبریں ایسی ہوتی ہے جو چھپا نہیں سکتے زندہ انسانوں کے ساتھ جو آپ سلوک ہو رہا ہے افراد نے جماعت کے ساتھ وہاں وہ تو ایک طرف یعنی ٹارگٹ کلنگ ہوتی ہے مساجد پر حملے ہوتے ہیں گھروں پر حملے ہوتے ہیں آگے لگائی جاتی ہیں لوٹ مار کی جاتی ہے احمدیوں کے جو کاروباری ہیں میں یہ کہہ رہا ہوں پھر اس کے بعد خلافت احمدیہ کی کے نتیجے میں ہم تو صبر اور برداشت کی حد ہے جس کا نام لیتے ہوئے اور عملی تربیت کا نتیجہ ہے یعنی ی گاؤں کوآگ لگا دی جاۓ اسے شہید کردیا جائے مساجد پر حملہ کر دیا جاۓ لیکن امریکا موسی سے اللہ کے حضور اپنی فریاد کرتے ہیں اور انفرادی طور پر جوان بیٹیوں کے ساتھ بہت جگہوں پر زیادتی ہوتی ہیں طلباء کے ساتھ ہوتی ہیں مختصر جواب میں ہوتی ہیں ملازمتوں میں ہوتی ہیں ہیں اس کا تو ذکر ہی اس تربیت کے نتیجے میں اس کو معاذ اللہ کی خاطر صبر سے برداشت کرتے اور بعض جماعت کے نظام کو بھی یہ نہیں بتاتے کہ ٹھیک ہے ہمیں تو تعلیم صبر کریں گے ہمارا معاملہ خدا کے ہاتھ میں ہے وہی جو ہمارے آقا و مولا حضرت محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وسلم کو اللہ تعالی نے فرمایا تھا کہ آپ صبر کریں وہاں سے ہمارے صبر کی بنیاد بھی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی غلامی میں اللہ کے ساتھ تعلق میں ابھی کلنمونہ ہے ہم تو انما اشکو بثی و حزنی الی اللہ کا جو مضمون ہے جو سنت انبیاء ہے اس کے مطابق عمل کرتے ہیں اور اس کے باوجود کے بعض اوقات بعض جگہوں پر بعض عالمی اداروں نے یہ تنظیموں نے یہ کوشش کی کہ ہم اس ظلم و ستم کے بیان میں پاکستان کے خلاف کوئی بات کریں تو خلافت احمدیہ نے ہمیشہ یہ تعلیم دی اور بڑی وضاحت سے کہ انہوں نے پیغام دیا کہ ہم ملک کے خلاف کوئی بات نہیں کریں گے ہم اس ظالمانہ واقعات کے خلاف ہیں جو ظلم کر رہے ہیں ان کی رپورٹ تو ہو رہی ہے لیکن ہم اس کے نتیجے میں ملک کے اوپر کسی قسم کی قدغن لگانے پابندیاں لگانے یا عوام الناس کے لیے تکلیف پیدا کرنے کا ہرگز سوچ بھی نہیں سکتے مجھے جو ہجر میں رکھے تربیت میں بتانے لگا ہوں او جب یہ بزرگ ہوئے امریکہ میں وہ ہمارے آف امریکہ کا نام حدیث کانفرنس کی وہاں پر آواز اٹھائی کہ یہ ہو رہا ہے وہاں پہ تو اب کسی نے کہا کہ یہ مطالبہ کریں گے کہ امریکہ جو ہے وہ پاکستان پر پابندیاں لگانے سے ہمارے برادر مظفرگڑھ مرحوم کی وائف امریکن تھے وہ اس پریس کانفرنس کو کاٹ کر رہے تھے انہوں نے کہا کہ وہ ایک بار پھر سے نو احمدی ہیں لیکن ایسی خلافت کی تربیت اور جماعت کی تربیت میں سیاسی تھی کہ ہرگز پیدا نہیں ہوتا کہ ہم یہ کہے کہ وہ اس ملک کے اوپر کوئی بنیادی اکائی ہے یہ جو ظالمانہ اقدامات ہیں یہ ظالمانہ حرکات ہورہی ہیں کہ ہم یو کے گھروں پر حملے ہو رہے ہیں ان کی جا رہی ہے اس کو روکے عوام کے خلاف عوام کا اس کا کوئی قصور نہیں ہے کچھ فتنہ نہ اداس لوگ ہیں نہ پیدا کر رہے ہیں ہیں ہم تو جماعت احمدیہ کی ساری تاریخ دیکھ لیں کبھی ایسا ہوا ہے کہ جس طرح جس طرح ہمارے ہم لوگوں کو شہید کیا گیا ان کے گھروں کو اس کو جلایا گیا اور نہایت ظالمانہ رویہ ہوا ہے کہ ہم نے جلوس نکالا یوں کسی کی نعش کو میت کو سڑک پر رکھے سڑک بلاک کی ہو ایک مثال ایسی نہیں اور لوگ حیران ہوتے ہیں اب یہ لاہور میں جو واقعہ ہوا تھا ایک ہی دن میں تقریبا سو شہادت ہو رہی تھی تھی کیا جماعت کا ردعمل تھا اور ان کے ہاں آپ نے ایک آدمی کا کوئی واقعہ ہو تو اس کے اوپر ان کا ردعمل کیا ہوتا ہے جو ہماری تو تاریخ اس بات کی شاہد ہے ہم تو ملک کے اندر بھی کوئی ایسی حرکت نہیں کرتے جس سے ملک کی بدنامی ہو اور میڈیا آپ کو اچھا لگے کہ یہ دیکھنی ہو گیا بلکہ ساری شہادتوں کو ہم معذرت کے ساتھ برداشت کیا اس لئے کہ میں تعلیم پائی تھی ہمارے آقا کی تعلیم دی تھی ہمارے خلیفۃ المسیح کی تعلیم دی تھی ایک تو یہ ہے ہمارا نمونہ اور یہ نظام نہایت پر ہوتا ہے اور یہ کہنا کہ یہ سائڈ لینے کے لیے ہمیں حصہ لینے کے لیے بات یہ ہے کہ کتنے لوگوں نے ساحل ملی ہے ہے وہ لاکھوں کی تعداد میں ہیں کتنے لوگ وہاں سے نکلے گنتی کے چند دن کے بس میں تھا جو کچھ اختیار میں تھا کچھ اپنے وہ جو باہر نکلنے کے لئے جو ان کے پاس اگر کچھ پیسے تھے تو وہ کوشش کرکے نکلے جو برداشت نہیں کر سکتے تھے ابھی وہاں پر لاکھوں عوام بھی ہے جو ذہن کو برداشت کر رہے ہیں اور ہجرت کرنا یہ کوئی ایسی بات نہیں ہے جو غلط ہو نہ ہمارے سامنے تو ہمارے آقا و مولا حضرت محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وسلم اور آپ کے صحابہ کا نمونہ موجود ہے جب وہاں پر مکہ میں صحابہ کی زندگی اجیرن کر دی گئی تو کچھ لوگ گنتی کے چند لوگ جو ہے جو وہاں سے ہجرت کرکے تو حبشہ کی طرف جلدی چلے گئے وہاں پہنچے تو بڑے خوش تھے یہاں سے نکل گئے مشرکین کا خیال ہوا کہ یہ کیا اور وہ ان کا تعاقب کیا اور وہاں جا کے وہاں کے بادشاہ کو کہنے لگے یہ ہمارے آدمی تھے آپ کے پاس آگئے ہیں ان کو آپ ہمارے سپورٹ کریں وہ ایک ایماندار مزاج بادشاہ تھا اس نے پوچھا کیا ہوا بات سنی تو میرے ملک میں امن سے رہیں گے تو کچھ عرصہ بعد اب یہ قسم کی آزمائش کر رہی تھی تو ہماری وہ اب تو ان مقدس ہستیوں کے ساتھ ہے جو اس وقت سے بچنے کے لیے ہجرت کر کے دوسرے ملک میں گئے تھے یہ اختیار کر رہے ہیں ہیں اور یہ خدائی تقدیر ہے جو اس بات کو کھول رہی ہے کہ کون حضرت محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وسلم اور صحابہ کے نقش قدم پر ہے قدم پہ ہے اور کون وہ ہے جو ان کے مخالفین کے نقش قدم پر ہے اور وہ جو زمین میں پہلے بھی ذکر کیامیرے ایک طرف ہو گا تو لوگوں نے پوچھا تھا صحابہ رضی اللہ عنہ کون ہوں گے تو آپ نے فرمایا تھا ما انا علیہ واصحابی وہ اسی طریق پر کار بند ہوں گے جس پر میں اور میرے صحابہ ہیں بلکہ ہمارے لئے تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد بہت ہی بات سن رہا ہے کہ ہم صحابہ کے ساتھ خدا کی خاطر کیا کیا کیا ہمارے پاکستان میں کیا کرتے ہیں ہے نعوذ باللہ کسی کرپشن میں مبتلا ہیں کوئی بدکاریاں کے واقعات ہو رہے ہیں ظلم یہ ہے کہ ہم یہ کہتے ہیں یہ ہے کہ وہ ایک لمحہ تو ٹھیک ہے اور ہم پڑھیں تو یہ دل آزاری ہوتی ہے ہمارے ساتھ ہی دشمنی دشمنی اس کلمہ کے ساتھ ہے ورنہ دیکھیں یہ عام طریقہ یا جتنی اس ملک میں ان ملکوں میں بھی آپ دیکھتے ہیں پاکستان میں بھی بعض دفعہ عیسائی جو ہیں وہ مسلمانوں کے گھروں میں آتے ہیں تو وہ بھی سلام السلام علیکم اور وہ ان کو خوشی ہوتی ہے اور اس نے ہمارا ہمارا ایک شعر اپنا اسلام علیکم جناب آپ کے اپنے ہوں جن سے آپ کو اتنی محبت ہو اگر کوئی غیر ان کو اپناتا ہے تو خوشی ہوتی ہے ملکوں میں بھی جب کوئی عیسائی یا دوسرے لوگ کہتے ہیں اسلام علیکم ہوتی ہے اسی لئے تو خوشی ہوتی ہے کہ ہماری ایک بات کو اپنایا ٹکٹ نصیبو بجائے اس کے کہ خوش ہوں میں آپ جو مرضی سمجھو یہ بھی خوش ہوں کہ یہاں سے کربلا کی طرف منہ کر کے نماز پڑھتے ہیں جس پر رسول اللہ نے تعلیم دی تھی اس میں سب جس طرح آپ نے بڑی تفصیل کے ساتھ بیان کردیا ہے ہم نام کو بھی بہت زیادہ اس طرف توجہ دلاتے ہیں کہ ضرور آپ جستجو کریں ضرور تحقیق کریں اور ہر پہلو سے اس بات کا جائزہ لینے کی کوشش کریں اور سوچیں اس پہلو سے کہا آج جو جماعت احمدیہ کے ساتھ ہمارے مخالفین کر رہے ہیں ایک تو نہ دیکھیں کہ تاریخ میں وہ کس کے زیادہ ہے اس کے باوجود جماعت احمدیہ جو نمونہ پیش کر رہی ہے وہ کس کا ہے آپ کو یہی نظر آئے گا کہ جماعت احمدیہ آقا و مولا حضرت محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وسلم کے اسوہ کو اپنا ہوئی نظر آتی ہے اگلا سوال لے کر محترم عبدالستار خان صاحب کی طرف جاؤں گا اور دوسری خان صاحب ہمارے ایک بھائی ہیں میر صاحب پاکستان سے وہ یہ سوال کر رہے ہیں یہ بھی بار بار کیا جانے والا سوال ہے لیکن میں سمجھتا ہوں کہ آپ ضرور اس کا جواب دیں تاکہ اگر کسی ہمارے بھائی کو کوئی غلط فہمی ہے تو وہ دور ہو جائے وہ سوال کر رہے ہیں کہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کی وفات کیسے ہوئی ان کے بارے میں بتا دیں zara112 اس وقت موجود ہے کہ ہمارے مخالف علماء موجود ہے نہ کوئی قانون موجود ہے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کے ہر والے ہیں وہاں موجود ہے جسے تاریخ کو اسلام نے آخری دفعہ سر کی ہے لاہور میں ہے مکمل کیا الحمداللہ ٹھیک ہو طبیعت ٹھیک ہے اس کو صبح کو آپ کی وفات ہوگئی ہے ہر چیز کی رات کو جب آپ سے واپس آئے ہیں تو آپ نے اپنی کتاب پیغمبر صلی مکمل کر لے اس کے بعد رات کو سوتے وقت آپ کو اور آپ کی مدد کی اور اس سال کی حکومت کرے گی تو آپ کو محسوس ہوا کہ اس علاقے ہیں جن کی وجہ سے آپ کو ختم ہوگی گئے تھے مگر موجود ہے ان کو بلایا گیا پھر بعد میں باہر سے بھی اچھا کو بلا لیا گیا تھا کہ جاں سے اٹھتا ہے یہ تین چار دفعہ اسلام حال ہے اور آپ کی طبیعت میں نہ آئے مرے یار صبح کی نماز کا وقت ھو گیا ھے جن کا آپ میں بستر پر لیٹے لیٹے فجر کی نماز پڑھے اور معرفت رہے ہو گیا ہے کیا آپ نے فرمایاکیا کرتا تھا اور آپ نے یاد ہونا چاہیے کہ مجھ سے متعلق اسلام نے انہیں پانچ میں یہ کہ میں بات نہیں کر رہا ہوں ابھی میں سو چکی ہے لیکن 105 میں آپ نے اپنی کتاب الوصیۃ لکھے جس میں اپنا حال ہم بھی درج کیا تھا کہ میری زندگی کے دو یا تین سال باقی رہ گیا اور جب آپ لاہور کچھ ملا تو آپ کو مار الہام ہو رہا تھا رحیم و کریم ہے تو رحیم ہے تو سن رہی ہے میرے پیارے اللہ اللہ میرے پیارے اللہ اور قریب 20 مئی کو صبح دس بجے سے مخالفین کا طرزِ عمل حافظ صاحب کیا بات ہے وہ ہے اسی اعتبار سے اس لیے ان کی لاشوں کا بیان اس موقع پر پہنچ گئے تھے خدا کے ماننے والوں کا کیا ہوا ہے ذکر کرتے ہوئے بیان حضرت اقدس مسیح موعود علیہ السلام کی وفات کے حالات اور ایسے ایسے ثبوتوں کا ذکر کیا ہے جن پر غور کرنا بہت ضروری ہے مجھے امید ہے کہ ہمارے ناظرین کو اس سے فائدہ ہوگا اس وقت ہمارے ساتھ دو کال موجود ہیں ہم کوشش کرتے ہیں کہ ہمارے ساتھ ہی نصیر حبیب صاحب لندن سے پہلے مجھ سے بات کر لیتے ہیں السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ صاحب صاحب کی قائداعظم ہے کہ ہم اس میں نہیں ہم نے جدوجہد کرنی کہ کسی ملک کو مسلمان کے لیے طلب کیا جائے اس کے علاوہ مسلمانوں کی قربانی نہیں دی جاتی ہے اس میں نہ صرف پاکستان بلکہ دوسروں کو بھی کہا گیا ہے کہ کتوں کا پتہ چھوڑ دو کاروان احرار کو بھی مذہب کی طرف چلنے دو رات کو پسند نہیں فرمایا تھا کہ پاکستان نہیں ہے پاکستان پولیس کام کریں ہوتا ہے السلام نے فرمایا تھا اور خلفائے احمدیت کا بھی یہ طرز عمل ہے ہم تو اسی کو فالو کرتے ہوئے جب بھی الزامات دہرائے جائیں گے ہم اسی طرح ان کے جوابات دیں گے نہ صرف صاحب آپ کا بہت بہت شکریہ ہمارے پاس دوسرے ہمارے ریگولر ہیں وہی محمد عبدالرشید صاحب لندن سے ہم ان سے بات کر لیتے ہیں صاحب ایمان کے ہے کتابوں میں بسم اللہ لکھی ہوتی ہے مگر ہم ان کا لفظ اس میں نہیں لکھا ہوا ہوتا کاٹا ہوا ہوتا ہے کیونکہ وہ رحمان کی صفت کو اس صفت کفارہ کو رد کرتی ہے اس بارے میں اور دوسرا چھوٹا سا سوال یہ ہے جی کہ جہاں بھی کہیں اللہ تعالی نے اپنا خاص حکم صادر کیا ہے سوئے دشت میں ہے سورۃ بقرہ میں ہے سنورنے ایک ہم نے ہے وہاں اللہ تعالی نے اپنی دوہا صفات عزیز نہ قیمہ کو استعمال کیا ہے برائے کرم اس کی وضاحت فرما دیں تاکہ لوگوں کو بھی فائدہ ہو اللہ حسن زادہ بہت بہت شکریہ عبدالرشید صاحب آپ کے دو سوالات ہیں پہلا سوال میں عبدالولی خان صاحب سے کے سامنے پیش کر دیتا ہوں محترم عبدالستار خان صاحب اسلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ ہمارے بہت پیارے دوست محمد عبدالرشید صاحب سورہ بنی اسرائیل کی آیت نمبر 111 کے حوالے سے یہ سوال کر رہے ہیں کہ حضرت مصلح موعود رضی اللہ عنہ نے فرمایا کہ عیسائی خدا کی صفت رحمان کو نہیں مانتے اور وہ بائبل میں ان کی دیگر کتب میں اس میں خدا تعالیٰ کا ذکر تو ہوتا ہے لیکن صفت رحمانیت کا وہ لوگ ذکر نہیں کرتے تو میں چاہوں گا کہ جو ہمارے بھائی محمد عبدالرشید صاحب ہیں ان کے سوال کے اس پہلو کا جو ہے وہ آپ جواب دے دیں دی لعنت ہے اس لیے دستیاب ہے اور ہوسکتا تھا اس نے پھر اپنے بیٹے کو نازل کیا اور بیٹا انسانوں کے گناہوں کی خاطر مصلوب ہوا اس طرح انسانوں کے نجات ملے اور انسانوں سے نجات ممکن ہے اپنا سفر عمان کے بتاتی ہے کہ اللہ تعالی نے ہمارے اپنوں کے بغیر ہمارے لئے سارا کچھ نہ دیا اور وہ ہمیں بھی سکتا ہے سزا دے سکتا ہے لیکن مخصوص کرنا اس کی موت اللہ سے تھا اور اس پر کوئی پابندی نہیں سکتا تھا اور اس نے گناہوں کے انسانوں کے گناہوں کی بخشش کی خاطر اپنا میں پڑھایا اور برتن والا کو ذہن میں رکھا کوئی سائل ہی نہیںہاں عورت سورۃ بنی اسرائیل میں بار بار ان کو بتایا ہے کہ اللہ تعالی رحم ہے اس امانت ایمان لاؤ اللہ تعالی کی بخشش فرما کر نے کی ہے جن دوستوں کا شوق ہو تو سورۃ بنی اسرائیل کی تفسیر ماثور ملاحظہ بہت بہت شکریہ عابد حسین خان صاحب نسیم صبا ہمارے جو بھائی محمد عبدالرشید صاحب ہیں انہوں نے جو دوسرا سوال کیا تھا وہ سورہ نساء سورۃ بقرہ سورہ لقمان کے حوالے سے اور بھی جگہ کا ذکر کیا کہ یہاں خدا تعالی کی صفات ہیں عزیز نہ کی ماں ان کا ہمیشہ ایک ساتھ ذکر آتا ہے تو اس بارے میں کچھ ان کی رہنمائی کردیں سردی میں جو بعض آیات کے آخر پر اللہ تعالی کی صفات کا ذکر ہوتا ہے ان کا ان آیات کے مضمون کے ساتھ بہت گہرا تعلق ہوتا ہے کہ عزیز الحکیم آیا ہے تو اس میں غور کرنا چاہیے کہ لفظ عزیز کے ساتھ اس آیت کا یہ اس مضمون کا بہت گہرا تعلق ہے جو جو جس کا اظہار بظاہر بہت لوگ کہتے ہیں کہ یہ کیسے ہوگا یا عموما مستقبل کی کوئی بات ہوتی ہے اور وہ اللہ تعالی اپنا عزیز ہونا بتاتا ہے میرے میں طالب ہوں اور صاحب عزت ہو اور یہ بات ایسے ہو کے رہے گی کیونکہ میرے پر کوئی غالب نہیں آسکتا اور پھر آیات میں جو مضمون ہے اس کے ساتھ خدا کے حکیم ہونے کا بھی ایک بہت گہرا تعلق ہوتا ہے ہے اس لیے اس کی اس صفت کو دہرایا جاتا ہے کہ اس کے ان آیات کے مضمون کو سمجھنے کے لئے اللہ تعالی کی صفت حقیقت کو سامنے رکھیں تو آپ کو 8126 سمجھ آ جائیں گے اور ایک ایسی ذات کو بھی کہتے ہیں جو بہت پکّا اور مضبوط کام کرنے والی ہے تو ان کا آپس میں گہرا تعلق ہے کہ مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام اور خلفاء کرام نے ان آیات پر جہاں پہ آیا ہے مضمون وہاں پر خاص طور پر روشنی ڈالی ہے حضرت مسیح را برای ما معنی اور پھر اس کے بعد رفتن سر خانے سے یہ جو اللہ تعالی نے عزیز نے بھی یہ صفات الہیہ کے متعلق جو وضاحت فرماتے تھے ان میں بھی ان مضامین کو چین سے بیان کیا گیا ہے اگر کوئی ایک معین آئے تو بیان کرتے تو اس کے حوالے سے دیکھا ذکر کیا جا سکتا ہے ٹھیک ہے سر کے رسولی بات کی ہے کہ جن آیات کے بعد اللہ تعالی کی صفات کا ذکر آتا ہے ان صفات کا ان آیات میں مذکور مضامین سے بڑا گہرا تعلق ہے نصیب ہمارے بھائی عبد الرشید صاحب بڑے اتفاق کر کے سوالات نکال کے لاتے ہیں اور اس سے بڑے فائدہ ہو جاتے ہیں اور دیکھنے والوں کو بھی اگلا سوال جو ہمارے بھائی احمد رفیق صاحب کا ہے شیخوپورہ سے اور یہ یہ محترم عبدالسمیع خان صاحب کے سامنے پیش کرنا چاہتا ہوں اب یہاں سب ہمارے بھائی حامد رفیق صاحب لکھتے ہیں کہ ایک غیر احمدی دوست کا سوال ہے اور سوال یہ ہے کہ آنحضور صلی اللہ علیہ وسلم کا جھوٹا مدعی نبوت سے جنگ کرنا میں آ رہا ہوں مجھے امید ہے کہ آپ سوال پر بھی تبصرہ کردیں گے تو احمد رفیق صاحب کے غیر احمدی دوستو یہ ہے کہ آنحضور صلی اللہ علیہ وسلم کا جھوٹے مدعیان نبوت سے جنگ کرنا اور مسیلمہ کذاب کے خلاف حضرت ابوبکر کا لشکر کشی کرنا کیا یہ ثابت نہیں کرتا کہ جھوٹے مدعی نبوت کا سب سے ضروری امر ہوا کرتا ہے اور ہر مسلمان کا اولین فرض ہوتا ہے ہے اور انسان اس میں علماء کی طرف سے غلط فہمی ہوئی ہے یہاں حضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے مسلمہ کذاب کے خلاف لشکر کشی کی اور کہا کہ آپ کے سامنے رکھوں گا جائے گا تو اس نے یہ بات لکھی ہوئی تصویر کے ساتھ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آیا اس کی کوشش کر باہر آیا ہے مدینہ میں آیا رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا صحابہ کے ساتھ اسے ملنے کے لیے تشریف لے گئے اس میں پہلی بات یہ ہے کہ اگر آپ مجھے اپنی نبوت میں شریک کر لیں آپ نے سختی سے اس بات کا اندازہ ہوسکتا رسول اللہ آپ نے بہت محسوس کرتا ہے اور دوسری بات یہ ہے کہ اچھا پھر کر لینا آپ نے نصیحت کی وفات ہو جائے گی تو میں آپ کا حصہ بن جاؤں گا یا نہیں سنا کہ مجھے دیا جائے گا رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نےعلاقہ تھا ویسے بھی پتہ ہے اس نے رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم سیرت کے ہاں میں آپ کو اللہ کا رسول تسلیم کرتا ہوں کیا آپ مجھے بھی اللہ کا رسول تسلیم کرتا ہے آپ کے سامنے آیا اور رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کے خلاف کوئی کروائے یہاں واپس چلا گیا اور جب حضرت ابوبکر جو انہوں نے کہا کہ اللہ کریم صلی اللہ علیہ وسلم فوت ہوگئے ہیں اور مسلمان طرف سے مشکلات میں گھرے ہوئے ہیں اور مختلف علاقوں کی طرف دو مسلمانوں پر ایک تاریخ ہے کپڑے پہناتے ہوئے بالآخر اس پر کلک کر دیا گیا ہے اور دوسری بات تاریخ کی کتابوں سے ثابت ہے کہ وہ لشکر لے کر مدینہ پر حملہ آوراں نہی آرہا تھا کے بعد لکھا تھا اور ان کا حق ہے تو مت اسلامیات لازمی طور پر کام کرتا ہے اللہ تعالی نے آپ کو ہمت اور توفیق عطا فرمائیں  اللہ تعالیٰ نے مسلمانوں کو کامیاب یا ناکام و نامراد کیا عمرہ بہت بہت شکریہ عابد حسین خان صاحب بہت زیادہ ضروری یہ امر ہے کہ ٹھیک ہے ہمارے مخالفین مختلف باتیں تاریخی باتوں کو غلط ملک آپ کے سامنے بیان کرتے ہیں لیکن ہمیں یہ چاہیے خاص طور پر وہ میرے بھائی اؤر میری بہنیں جو تحقیق کرنا چاہتے ہیں ان کو یہ چاہیے کہ ان حوالوں کو چیک کیا جائے ان بیانات کو چیک کیا جائے خاص طور پر تاریخ اسلام سے تعلق رکھنے والے ایسے واقعات کی ایسی باتیں وہ تو آپ بڑے آرام سے آج کل کے دور میں انٹرنیٹ کے ذریعے بھی ان کا مطالعہ کر سکتے ہیں اکثر گزر گیا آپ یقین ہمارے موقف کو سنیں لیکن کم ازکم تاریخی حوالوں کو تو جا کے ہم چیک کر سکتے ہیں کہ اصل باتیں کیا ہیں لیکن میں آپ کے سامنے ہی بھی اس کرنا چاہتا ہوں کہ اگر آپ کے ذہن میں جماعت احمدیہ کے بارے میں کوئی سوال ہو یا ہمارے بارے میں تحقیق کرنا چاہتے ہو تو ہماری آفیشل ویب سائٹ اسلام ڈاٹ جائیں اور میں بیان کرنا چاہوں گا کہ یہ ہماری ویب سائٹ نہ صرف اردو زبان میں برقی انگریزی زبان میں بلکہ دیگر زبانوں میں بھی موجود ہے اور چونکہ بھی دیگر زبانوں کا ذکر ہورہا ہے اس لئے میرے سامنے جو ہمارے بھائی رجسٹرڈ ہیں جو برطانیہ سے اپنا سوال کر رہے ہیں ان کا سوال آ گیا ہے اور وہ ان کے سامنے پیش کروں گا نصیر قمر صاحب ہمارے بھائی رچرڈ اور مجھے پتا ہے کیونکہ پروگرام کی ٹرانسلیشن ہو رہی ہے تو انگریزی زبان میں یہ سوال اور اس کا جواب ہمارے بھائی تک پہنچنا ہوگا اور یہ کہہ رہے ہیں وچ ازدا بیسٹ میں نے بس چلائی وہ پوچھنا چاہ رہے ہیں کہ روحانیت کے طور پر یا روحانی زندگی گزارنے کے لئے کیا بہترین طریقہ ہے ہے قرآن مجید بہت ہیں ہیں ایک عظیم الشان کامل اور مکمل کتاب ہے ہے اور اس سوال کا جواب قرآن مجید میں مذکور ہے نہیں دیکھی روحانیت کا تعلق خود ساختہ اصولوں سے نہیں ہوتا روحانیت کا تعلق یہ ہے کہ اللہ سے تعلق ہو ہو اور وہی حقیقت میں ایک روحانی شخص ایک شخص روحانیت بھی کہہ سکتے ہیں کہ وہ اللہ تعالی کے ساتھ تعلق ہو تو قرآن مجید نے اس کا یہ جواب دیا ہے صبح اللہ ومن احسن من اللہ صبغہ بالکل اسی میں اس بات کو بیان کیا گیا ہے جو مسٹر پوچھ رہے ہیں کہ سب سے بہترین طریقہ کیا ہے تو اللہ تعالی نے فرمایا کہ تم اللہ کے رنگ اختیار کرورات کو اپنائیں اب اللہ تعالی کی بے شمار صفات ہیں اس کا علم حاصل کریں قرآن مجید میں ان صفات کا ذکر فرمایا گیا اور پھر قرآن مجید میں ان صفات کے جو تقاضے ہیں ان سے انسان اللہ کی کس صفت کو اختیار کر سکتا ہے اس میں ہی میں ابتدائی طور پر مثال کے طور پر وقت کی رائے دو تین باتیں کرتا ہوں میں نے اپنی چند صفات کا ذکر فرمایا ہے اور بنیادی طور پر چار صفات کا ذکر فرمایا ہے جنہیں حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام نے اپنی تفاسیر میں امہات الصفات کے طور پر پیش فرمایا اور ان میں سے بھی پھر دو جو ہے وہ ان دو انچ ان کا بھی ایک خلاصہ ہی مین الرحمن الرحیم مالک یوم الدین دین رب العالمین کی صفت کا رنگ اختیار کرنے کے لیے ضروری ہے کہ انسان ان تمام بنی نوع انسان سے تمام اس یونیورسٹی سے اس کائنات سے کائنات میں موجود ہر چیز کے ساتھ ایک وہ تعلق قائم کرے اللہ تعالی کی روایت کتاب قائم ہوتا ہے یعنی بلا وجہ کسی کو نقصان نہ پہنچائے اس سے ہمدردی کرے اس کی نشوونما کرے لاہور کا مضمون ہے اور رحمن یہ ہو نہیں سکتا آپ ہر قسم کے رنگ و نسل کے امتیازات کو مٹاکر اور اعتقادی یا عملی کو مٹا کر سب سے ایک جیسا تعلق قائم نہیں کرسکتے جب تک خدائے رحمن کے ساتھ اپنا تعلق نہیں توڑتے جو ہر ایک پر رحم کرنے والا ہے اور بے انتہا رحم کرنے والا ہے اور بن مانگے رحم کرنے والا ہے یعنی آپ کا دائرہ اتنا وسیع ہو کہ دوسرا آپ سے کچھ مانگے یا نہ مانیں گے آپ کی طرف رحمت آپ کی رحمت اور شفقت اور مہربانی حصہ پانے کے لیے کوئی التجا کرے یا نہ کرے اس کے ساتھ محبت اور پیار کا رحم کا شفقت کا سلوک کریں تب آپ کی صحت کو بنانے والے ہوں گے قرآن مجید میں اس کی مزید تفصیلات بھی موجود ہیں اسی طرح رحیم اللہ تعالی کی صفت ہے کہ جب آپ اللہ تعالی کی رحیم کی صفت کا یہ تقاضا ہے کہ جب کوئی اس سے کوئی رحم مانگتا ہے اللہ تعالی اس کے اعمال کو ضائع نہیں کرتا اس کو بہترین جزا دیتا ہے اس کے منہ سے بڑھ کر دیتا ہے اسی طرح جب آپ کے پاس ہر سوال دراز کرے تو آپ بھی اس کو ساتھ رحم کا سلوک کریں اسی مضمون کو دوسری جگہ مسائل آتا ہے وہ بنعمۃ ربک فحدث کے بیان فرمایا قرآن مجید نے بڑی تفصیل سے اللہ تعالی کی صفات اور کس طرح ان صفات کے رنگ اپنایا جا سکتا ہے اس کا ذکر فرمایا ہے اس پہلو سے خدا کے فضل سے ہمیں جماعت کے قیام کا مقصد اللہ تعالی سے ساتھ تعلق قائم کرنا ہے اور تمام بنی نوع انسان کو کو خدائے واحد کی طرف بلانا ہے اس لیے ہمیں اس زمانے میں حضرت اقدس مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام نے اور آپ کے مقدس خلفائے کرام نے بڑی تفصیل کے ساتھ اپنے خطبات میں خطابات میں صفات الہیہ کے مضمون مختلف پیرایوں میں بیان کرکے اور اس کے تقاضوں کو بیان کرتے ہوئے ہماری رہنمائی فرمائی ہے تو زیادہ تفصیلات معلوم کرنا چاہتے ہیں تو اپنی آسانی کے لئے تو میں کئی کتب ہیں روحانی خزائن کے نام سے آپ کے خلفاء کے خطابات خطبات ہیں ان میں سے بہت سارے چھپے ہوئے ہیں ان کو پڑھیں تو اس سے ان شاء اللہ ان کے ذہن میں وہ ان کو وہ آسانی پیدا ہوگی کہ کس طرح اللہ تعالی کی صفات کا تو جو ہے اپنے رنگ میں اختیار کر ہنس کے سر آپ نے ذکر کیا تھا دل تو بتا صالحین کا یہ مضمون ہے نا اور وہ صحبت صالحین کی نظر آئی ہیں مطالعہ قرآن مطالعہ حدیث اور مطالعہ کتب ہمارا جو کانٹیکٹ نمبر ہے وہ اویلیبل ہے اصل بات یہ ہے کہ آپ نے وقت کے امام کی بیعت کرنی ہے اور ہمارے امام ہیں سیدنا ابوامامہ حضرت مرزا مسرور احمد خلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز جو حضرت مرزا غلام احمد قادیانی علیہ السلام جو بانی جماعت احمدیہ ہیں ان کے پانچویں خلیفہ ہیں تو وہ آپ کو مل جائیں گے وہاں رابطہ کرکے آپ اپنی بات کا خط لکھ سکتے ہیں وہ بھی موجود ہے سکتے ہیں کیونکہ آپ نے کوئی دلیل نہیں دی ہے تو وہ ابھی دنیا کے ہر ملک میں ہر جگہ پر اللہ تعالی کے فضل و کرم کے ساتھ جماعت احمدیہ موجود ہیں آپ لوگ وہاں جاکے بھی رابطہ کر سکتے ہیں امید ہے کہ میرا یہ جتنا بھی ہے جواب ہے اس کا جواب مل گیا ہوگا اگلا سوال لے کر محترم عبدالستار خان صاحب کی طرف چلتا ہوں اب ہماری بہن ہے راشد صاحب صبح کی رضا سے سوال پوچھ رہی ہیں وہ یہ کہتے ہیں کہ آج کل مولوی اور مرتدین دین وہ اس بات کی طرف اشارہ کرتے ہیں کہ جماعت احمدیہ کی جو تعداد ہے وہ اتنی زیادہ نہیں ہے تو اس حوالے سے وہ مزید رہنمائی جاتی ہیں تو آپ ان کی رہنمائی کردیں z1000 یہی کام سے اتنا خوف زدہ ہونے کی کیا ضرورت ہے اس میں ردا قانون سازی اتنے زیادہ ہمارے خلاف جلسے اتنا زیادہ ہمارے خلاف پابندیاں لگانے کی کیا ضرورت ہے اللہ تعالی کا فضل ہے اور ہر سال ہمارے امام اور خلیفہ المسیح الخامس سے جڑاوالا جلسہ سالانہ پرچہ اعلان کرتے ہیں کہ تمام ممالک میں جمع کرنے اور گئے یہاں ان لوگوں پر ہم لوگوں کے نام جماعت کی کتابوں میں جماعت کے رجسٹر میں لکھی ہوئی کتابوں میں چھپے ہوئے آپ سارے نام نہیں لے سکتا ہر سال لاکھوں کی تعداد میں نئے لوگ جماعت احمدیہ میں شامل ہو رہے ہیں کہ سال بھی حضور نے فرمایا جیسا سلوک ایسا تو نہیں کہ ان کی وجہ سے اس کی یاد میں تقریب منعقد کی گئی خطاب کرتے ہوئے فرمایا کہ مثال کے طور پر لاکھ میں لوگ محبت کر کے بعد کامیابی حاصل ہوئی ہے اور وہ ساری باتیں بتاتے ہیں کہ اس طرح کی مشکلات سے گزر کر صوبائی حکومت میں شامل ہوتے ہیں ان سے بھی آپ اندازہ کریں کہ مولوی کتنا جھوٹ بولتے ہیں کہ میری نظر آتی ہے کہ ڈاکٹر میں شامل ہونے والوں کی تعداد بھی اس میں تیس سال ہوتی ہے تم نے عورتوں کے سالانہ میں جماعت کی تعداد 40 ہزار سے زیادہ ہوتی ہے دونوں ملکوں میں یہ منی کہاں سے آجاتے ہیں اور یہ سارے تو نہیں ہوتے تو آپ بھی نہیں سکتے اگر آپ صرف فن کار فرما ہوتے ہیں ہونا مشکل ہوتا ہے وہاں پر بیس ہزار کی تعداد میں ہیں گانا میں سال بہ سال کا جلسہ کے نتیجے میں 41 ہزار افراد شریک تھے جب میں ہم پاکستانی کلثوم بھی نہیں تھے بلکہ شادی شدہ تھے سارے کے سارے مقامی لوگ بھی جان یہ ہے اپنی مقامی زبان میں بول رہے تھے اور جب کوئی تقریر انگریزی میں ہوتی تھی مقامی زبانوں میں ترجمہ ساتھ ساتھ ہو رہا ہوں اب میں بولوں کہ نہ دنیا میں چاند نظر آ رہا ہے میں اپنی آنکھوں سے دیکھتے ہیں اور ہارس علم رکھتا ہوں اور نہ جلسے شریف میں سب کی تصویریں موجود ہیں جو موجود ہے لائیو جلسہ میں چھپتے ہیں وہ کلمہ پڑھ کے ساتھ نہایت محبت کا اظہار کر رہے ہوتے ہیں ہمارے بھائی بھی ھوتے ھین بھائی بھی ہوتے ہیں اپنی زبان میں ڈھونڈتے ہیں محبت کا کلام پڑھتے ہیں رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم پر درود بھیجتے ہیںملک بھر سے لاکھوں کروڑوں میں تو باہر جا چکی ہے مجھے اچھی طرح یاد ہے مولوی منظور احمد صاحب کے سامنے بیان دیا تھا تاہم دی چاند پر چلا جائے تو ہم اس کا تعاقب کریں گے اور میں نے وہ قانون ہم صحیح کرنے والے کا اجر ضرور جائیں گے اور بہت دلچسپ انداز میں کچھ قواعد پیش کرکے آپ کے سامنے اس بات کا اظہار کیا کہ دنیا کے کونے کونے میں پھیل چکی ہے بلکہ مختلف زبانیں بولنے والے اللہ تعالی کے فضل کے ساتھ جماعت احمدیہ سے وابستہ ہیں نصیر صاحب بہت کم واقعہ دیکھنا چاہتا ہوں ہمارے بھائی آج عبدالوہاب صاحب ہیں ان کے سوال کا جواب دے دیں وہ کہتے ہیں کسی زمانے میں حیات و وفات مسیح مناظرہ ہوتے تھے لیکن مایوس ہو گئے ہیں اگر کسی نے آنا تھا وہاں جانا چاہیے تھا اور اگر کوئی زندہ ہوتا تو برائے مہربانی تو ان کو چیلنج دیا تھا کہ آپ دعائیں مانگیں کہ خدایا اس کو بھیج دیں تاکہ فیصلہ ہو جائے اور آپ آپ جتنے مرضی ہی آسان ہوگیا تھا کہ 300 سال گزرے کہ لوگ مایوس ہو جائیں گے ابھی تو دوسری شروع ہوئی ہے جماعت احمدیہ کی اور لوگ مایوس ہوچکے ہیں اور کہتے ہیں کہ یہ باتیں چل پڑی ہیں اور کوئی نہیں آنا اور پھر یہ کہتے ہیں وہ اس سے کیا فرق پڑتا ہے ہم نے قرآن و حدیث سے اور دیگر شواہد سے تاریخی شواہد صحت بھی سوار تھے طور پر یہ ثابت کر دیا ہے کہ حضرت مسیح بن مریم جو ناصر میں پیدا ہوئے تھے وہ بھی زندگی گزار کر دنیا سے رخصت ہو چکے ہیں اور جب ان کے آنے کی بات کی جاتی ہے تو اس سے مراد ان کا احساس ان کا آنا نہیں بلکہ ان کے نام پر اس کے خوابوں پر امت محمدیہ میں ایک آنے والے موعود مسیح کا ذکر ہے جو اسی طرح محبت کا پیغام دنیا میں آئے گا اسلام کی طرف بلائے گا اس لئے آپ لوگ ابھی سے وہ ہمیں دیکھ رہے ہیں اس کو مایوس ہو کر اور کو چھوڑ چکے ہیں اس لیے بات بہت بہت شکریہ نصیر قمر صاحب جس طرح آپ نے ذکر کیا دراصل یہ وہی باتیں ہیں جو حضرت اقدس مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام نے فرمایا آج پورے ہوتے دیکھ رہے ہیں کہ لوگ مایوس ہو رہے ہیں اصل حقائق وہی ہیں جو حضرت بانی جماعت احمدیہ نے بیان فرمائے آپ کا بہت بہت شکریہ عابد حسین خان صاحب آپ کا بہت بہت شکریہ صاحب کے نام ہیں آپ کا پروگرام میں سوال کریں اگلے پروگرام میں آپ کا سوال ضرور شامل کریں گے اگلے ہفتے لندن سٹوڈیو سے انشاءاللہ پھر حاضر ہوں گے اس وقت تک کے لئے اجازت دیجئے السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ ہم تو رکھتے ہیں مسلمانوں کا دیں ہم تو رکھتے ہیں مسلمانوں کا قدیم سے ہے خدا میں ختم علی

Leave a Reply