Rahe Huda – Yaome Khilafat Maseehe Maood PBUH
Rah-e-Huda – 1st June 2019 – Rahe Huda – Yaome Khilafat Maseehe Maood PBUH – Frankfurt Germany
خدا یہی ہے اس وجہ سے نبھانا لو جانم جانم یہی ہے ہے ہوتا ہے اور اس سوال پیش کر دیں تو انشاءاللہ ہم آپ کو یہاں شامل کریں اور اس کا جواب دیں تو آپ کے سوالوں کے جواب کے لیے اور جس موضوع پر گفتگو کر رہے ہیں ہمارے ساتھ یہ اسٹوڈیو مائی شرواں ہمارے لسٹ احمد صاحب ہیں اور فضل الرحمان صاحب اسی طرح سے یوکے سے ہمارے ساتھ فون پر ساتھ رابطے میں ہوں گے مکرم فضل احمد شاہ غلام احمد قادیانی ی علیہ السلام کی صداقت کو ان معیاروں پر کھڑے تھے جو کہ قرآن مجید میں اللہ تعالی نے انبیاء کے لیے وہاں بیان کی ہیں اور آج ہم حضرت علی علیہ السلام کی صداقت کی اس عظیم الشان علامہ کے متعلق بات کرنا چاہتے ہیں جو روز روشن کی طرح ایک نئی دس نہیں سو نہیں بلکہ ہزاروں لاکھوں ایسے نشانات دکھاتی ہے جسے دنیا بھر میں مسلمان اس یقین پر قائم ہے کہ آپ یقینا خدا تعالی کی طرف سے تھے اللہ تعالی کے آپ سے تمام وعدے سچے تھے اور خدا تعالی آپ سے جیسے پہلے آپ کی تائید و نصرت فرما چلا رہا تھا آج بھی آپ کی ٹائپنگ فرماتا ہے اور ان شاء اللہ آگے بھی آئندہ آنے والے وقت میں بھی ہمیشہ کے لئے خدا ہوتا رہے گا آپ کی وفات کے بعد یہ سلسلہ ختم نہیں ہوا بند نہیں ہوا بلکہ وہ برکات اور فیوض عجب جاری ہیں خدا تعالی نے آپ سے وعدہ کیا تھا اور وہ وعدہ پورا کرکے بھی دیکھا ہے جو ہمیشہ خدا تعالی آپ کی بات ہے تو اس کا سلسلہ اس کا کام اب ختم نہیں ہوتا ہے خدا تعالی اس کی جانشینی میں اس کے امت میں سے ہیں اسی کے تابعین میں سے ہیں ایسے لوگ ہی رہتا ہے جو الحمدللہ اللہ تعالی کے فضل سے ہم نے جماعت احمدیہ نے دیکھا ہے کہ کس طرح سے حضرت سلیمان علیہ السلام کی وفات کے بعد یہ قدرت ثانیہ آپ سے ظاہر ہوئی ہے اس کا ظہور ہوا ہے وہ جاری ہے اور اللہ تعالی کے فضل سے ہم حضرت خلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ کی قیادت میں جو آپ کے پانچویں خلیفہ ہیں تو ہم اس سے آگے چل رہا ہے 27 مئی بہت اہمیت کا حامل دن ہے اس دن جو وعدہ حضرت عیسی علیہ السلام سے کیا تھا بلکہ پہلے بھی ایک معاوضہ تھا ایک ماہ سے ہوئی تھی ہم نے اس کو دیکھا اور خلافت سے شروع ہوئی اور اس کا اجرا ہوا اور یہ دن ایسا ہے کہ ہم اسے بھول سکتے ہیں نہ بلانا چاہتے ہیں ہم اس دن کو یاد کرتے ہیں اس دن آتے بھی ہیں تو اس حوالے سے ہم اپنی گفتگو کو سب سے پہلے اس کا آغاز کرتے ہیں کہ ہم یہ معلوم کریں اور فضل الرحمن صاحب آپ سے خاک سے درخواست کریں کہ آپ ہی بتائیں کہ یہ جو آج کا دن ہے اس کا جماعت احمدیہ میں اس کی کیا اہمیت ہے جماعت احمدیہ اس کو کیوں بناتی ہے اور پھر بناتی ہے تو اس کے بنانے کے طریقے ہے تاکہ جو ہمارے جماعت یوز ہیں وہ بھی اس کو جان سکیں جزاک اللہ یوم خلافت کے طور پر منایا جاتا ہے اور اس کی سب سے بڑی وجہ یہ ہے کہ دراصل یہ وہ دن ہے جو اللہ تعالی کی ایک نہایت عظیم الشان نعمت کو یاد کرانے والا دن ہے یہ کیسی نعمت ہے جس کی تلاش میں آج تمام امت مسلمہکالے لیکن جو خدا کی نعمتیں ہیں وہ اللہ تعالی کی مرضی کے بغیر نہیں پائی جاسکتی جو آتے ہیں مدینہ میں حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی وفات کے بعد 27 مئی 1908 کو وہ دن شروع ہوا جب اللہ تعالی کی یہ نعمت احمدیہ میں ظاہر ہوئی اور اس کو منانے کی ایک بڑی وجہ یہ بھی ہے کہ اللہ تعالی نے قرآن کریم میں بار بار اس بات کا ذکر کیا ہے کہ تمہیں چاہیں تو اللہ تعالی کی نعمتوں کو یاد رکھو اور وہ قوم ہیں جنہوں نے اللہ تعالی کی نعمتوں کو یاد نہیں رکھتا مسلم بن عقیل کا ذکر کیا کہ قرآن کریم میں اور ان پر اللہ تعالی کے پھر غزل ہوا اور خاص طور پر وہ دن جس میں جماعت احمدیہ کو یہ امت مسلمہ کو وحدت ہوئی وہ ایک ہاتھ پر اکٹھے ہوئے قرآن کریم نے مسلمانوں کو ایک خاص نعمت کے طور پر ذکر فرمایا اللہ تعالی قرآن میں فرماتا ہے تاکہ تم سب مل کر اللہ کی رسی کو مضبوطی سے تھام لو اور تفرقہ نہ کرو اور آگے ذکر فرماتے ہیں وقت پر رحمۃ اللہ علیہ کے باعث یہ جو تمہیں یاد آتا ہے یہ تعالی کی بہت بڑی نعمت ہے تم اس کو ہمیشہ یاد رکھو اور اس وقت کو بھی یاد رکھو کہ اس وقت تمہارا دان کا لاحقہ ناک لوگوں سے پہلے تم جب آپس میں دشمن تھے اور یہ جو تمہارے اندر آپس میں تعلق پہلے سے کل ہوا ہے تمہارے دلوں میں اللہ تعالی ایک ایک دوسرے کے لیے محبت قائم ہوئی ہے اور اس کا نقشہ کھینچا ہے اس کی وجہ سے آپس میں بھائی بھائی بن گیا ہے اور اسی مضمون کو اسی آیت میں اور آگے اللہ تعالیٰ ہے کہ اس وقت جب یہ نعمت میں اللہ تعالی نے عطا کی تمہاری اپنی حالت کیا تھی تم آگ کے گڑھے کے کنارے پر تھے اور طالبان کے درمیان سے اسے بچا لیا اساتذہ نے کہا یہ اللہ کی معیت ہیں اللہ کرم کر دو اس کو یہ جو اللہ تعالی کی بہت بڑی نعمت ہے اس وجہ سے میں نے ذکر کیا کہ پرانی قوم تھی انبیاء کو ماننے والے بھی خاص طور پر بنی اسرائیل نے جن چیزوں کو بھلا دیا اور اللہ تعالی کی نعمتوں کو یاد نہیں رکھا اس کا قرآن کریم میں مساجد کا ذکر ہے کہ میزائل کا تجربہ علیہ وسلم نے فرمایا جو اللہ تعالی کی اس حملہ کے ساتھ مضبوطی سے قائم نہیں رہتے مجھے ان پر ذلت اور مسلح افراد کی طرف سے نازل ہوتی ہے اور وہ اللہ تعالی کے غضب کا موجب بنتے ہیں یہ وہ دن ہے جب اللہ تعالی نے جماعت احمدیہ کو ایک ہاتھ پر اکٹھا کرکے یہ سب بہت بڑے نقصان سے ایک بہت بڑے آدمی کے خطرے سے بچا لیا کہ اگر خدانخواستہ جماعت یا میں خلافت قائم نہ ہوتی تو جماعت بھی گھر بیٹھ جاتی ہے اور اس کا جماعت کا سارا شیرازہ بکھر جاتا ہے اور ہم اس وجہ سے میں آتے ہیں کہ قرآن کریم میں خلافت کی پیشگوئی موجود تھی پھر حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے بھی فرمایا تھا کہ تم پر ایک ایسا وقت آئے گا کہ میری وفات کے بعد خلافت علی منہاج النبوۃ ہوگئی اس کے بعد اللہ تعالی اس نے مجھ کو اٹھا لے گا اور پھر اس کے بعد بادشاہت قائم ہوگی لیکن جابر بادشاہوں کے بعد پھر ایک دن آئے گا کہ اللہ تعالی خلافت علی منہاج نبوت اور مسلمانوں میں قائم کرے گا اور اس کو بھی حضور صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں کہ یہ اللہ تعالی کی نعمت ہے اس پر بھی تھی کہ خدا کا وعدہ سچا اور غدار اور صادق ہے ساجد خدا ہے وہ سب کچھ تمہیں دکھائے گا جس کا اس نے وعدہ کیا ہے تو یہ اللہ تعالی کے وعدوں کے پورا ہونے کا دل ہے اور جماعت احمدیہ کے خلاف ہمیشہ ہی اس دن کو یاد کرنے کے لئے جماعت کے سامنے وہ پروگرام کرتے رہے ہیں مسلم اور اللہ تعالیٰ عنہٗ نے جماعت کے نوجوانوں کو اس کی خلافت کی اہمیت کو یاد دہانی کرواتے ہوئے فرمایا کہ میں خود ان کو یہ نصیحت کرتا ہوں کہ وہ خلافت کی برکات کو یاد رکھیں اور کسی چیز کو یاد رکھنے کے لیے پرانی قوموں کا یہی دستور ہے کہ وصالاللہ تعالی کا شکر یہ ادا کریں اور اپنی پرانی تاریخ کو ضائع کریں اسی طرح حضور نے نے یہ بھی اگر اس کے وزیر اطلات ہونے نے فرمایا کہ جب یہ خلافت کے جلسے اور آئندہ نسلوں کو خلافت کی اہمیت یاد کروا دی جائے تو اس میں ایک حضور نے عہد بھی جماعت کے سامنے رکھا کہ جماعت اپنے آئندہ نسلوں سے مل کے سارے مل کے جو زندہ ہوں آمدید وہ آیا کریں اس کا کچھ حصہ میں آپ کو پڑھ کر سنا دیتا ہوں عہد کا آغاز اس طرح ہوتا ہے کہ لا الہ الا اللہ وحدہ لا شریک لہ واشہد ان محمد بن عبدالوھاب رحمہ اللہ تعالی کی قسم کھا کر اس بات کا اقرار کرتے ہیں کہ ہم اسلام اور احمدیت کی اشاعت اور محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا نام دنیا کے کناروں تک پہنچانے کے لیے اپنی زندگیوں کے اپنی زندگی کے آخری لمحات تک کوشش کرتے چلے جائیں گے یہ لمبا حد ہے شاعری کی اہمیت میں سے جماعت کی کتابوں میں پڑھا جا سکتا ہے ہے اور اس کا مقصد سے ظاہر ہورہا ہے کہ یہ دن اس لیے بنایا جاتا ہے کہ ہم ایک دفعہ پھر ہر سال اس بات کا عہد کرے کہ ہم کے لیے اپنی جان کی بازی لگانا ہے ہماری جماعت کو یہ توفیق دے اور امن بھی ایک سو سال سے زائد تھا کا جماعت احمدیہ کی تاریخ بتا رہی ہے کہ جماعت احمدیہ کے اندر ہونے والی ہے اللہ بہت بہت شکریہ آپ نے اس دن کی اہمیت ہمارے سامنے رکھی ہے تو نظریں اسے بھی اس پروگرام کے شروع میں بھی اس کی یاد میں اس پروگرام کو بھی چاہتے ہیں کہ ہم خلافت جو بہت ہی عظیم الشان نعمت ہے اس نے محبت کی ہے ہے تو اللہ تعالی نے یہ نعمت جماعت احمدیہ کی وساطت سے اس دنیا کو دی ہے تو آج اس نعمت کے متعلق مختلف پہلو سے گفتگو کرنا چاہتے ہیں تو ہم آپ کو بھی دعوت دیتے ہیں کہ آپ اپنے سوالات پیش کریں جو آپ کے ذہن میں اس متعلق سوالات ہیں اور اس میں یہ بھی درخواست ہے کہ اپنے سوالات کا بھی رکھا اسی پروگرام کے مطابق اسی موضوع سے ریلیٹڈ صبا حمید زھیر سونگ جام طور پر سکے اور زیادہ سے زیادہ اس نعمت کے مختلف پہلو ہیں آپ ہمارے بھی اس کے سامنے بھی اس کے تو بھی ہمیں دیکھ رہا ہوں کہ ہمارے پاس مرضی اور مختلف قسم کے سوالات بھیج رہے ہیں تو ہم اس بات کو نوٹ کرتے جا رہے ہیں وہ ہمارے یہاں بھی آئیں گے لیکن 12 جو سالہا سال سے لیٹ ہو گا ہم نے اس سے بہتر ہے کہ ملا تو ہمیں اپنی گفتگو کو یہ آگے بڑھاتے ہیں آپ کے بارے میں بتایا ہے کہ بود آپ کے ساتھ اس کے بارے میں ہمارے بھی اس کو بتا سکیں کہ خلافت کے حوالے سے کیا کیا بیٹھی ہوئی ہیں جو ہمیں ملتی ہیں اور جن کی طرف ابھی بھی نظر رکھ کر امت مسلمہ خود چاہتی ہے کہ خلافت قائم ہوں گے وہاں سے وابستہ تمام برکات کا مسئلہ نے پہلے کیا ہوا خلافت راشدہ کا تو آپ سے کچھ بتائیں حضرت ابوہریرہ رضی اللہ تعالی عنہ کی ایک روایت ہے وہ فرماتے ہیں کہ جلوس اندر نبی صلی اللہ علیہ وسلم لما انزلت علیہ سورۃالجمعہ البقرہ آخرین منھم لما یلحقوا بہم اللہ اللہ اور رسول صلی اللہ علیہ وسلم فلم حضرت علی مرتضی علیہ السلام فی الفارسی قال ان رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم انہ کان الایمان معلقا کا جو نزول ہوا اس وقت حضرت ابو ہریرہ رض بیان فرمائے ہیں کہ جب حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے آخری جملہ حقوق بحق آیت تھا حضور صلی اللہ علیہ وسلم کا امید میں تو آپ کی بحث ہو چکی ہے اب یہ آخری کون ہے اور اسی طرح مجلس میں سے ایک شخص نے اٹھ کے اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے دریافت فرمایا جب اس نے دو تین دفعہ سوال دہرایا تو حضور نے فرمایا کہ حضرت سلمان فارسی مجلس میں موجود تھے ایک ایسا وقت آئے گا کہ جب آسمان پر ایمان چلا جائے گا ان کے ایمان جو ہےویسے ایک یا ایک سے زائد لوگ ہوں گے اب ہمارا ایمان ہے جیسا کہ ہم سب جانتے ہیں مفسرین نے بھی یہ لکھا ہے کہ آخر ان سے مراد حضور صلی اللہ علیہ وسلم کو دوبارہ دنیا میں نہیں آئیں گے تو یقینا اس میں حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی امت میں آپ کا دل ہوکر آپ کی اتباع میں کوئی ایک ایسا شخص آئے گا تو دوبارہ ایمان کو دنیا میں قائم کرے گا یہ مانتے ہیں کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کو ہی ہی ہی ہی امت نبی ہیں جن کا اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا تھا اور جب ان کا لفظ استعمال کیا حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد جس طرح آپ صلی آپ کے ہیں اسی طرح یہ بھی مقدر تھا کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام جس طرح ذلیل نبی ہیں ان کے بعد حضرت مسیح علیہ سلام کے بعد بھی نبوت کا سلسلہ خلافت کا سلسلہ جاری ہونا ضروری تھا اور اس کی اس بات کی حدیث بھی کرتی ہے ہم مانتے ہیں کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام خدا تعالی کی طرف سے امتی نبی تھے تو یقینا اس کے بعد کے خلاف قائم ہوئی تھی اسی طرح جو آیت استخلاف ہے اس میں اللہ تعالی نے جو مان اور عمل تیار کرنے والوں کے ساتھ خلافت کا وعدہ فرمایا اور فرمایا کہ یہ اسی طرح خلافت قائم ہو گئی جس طرح پہلے لوگوں میں قائم ہوئی پہلے لوگوں میں کس طرح خلافت کیسے قائم ہوئی تھی حضرت موسی علیہ السلام کی امت کے ساتھ اس طرح امت محمدیہ کو تشبیہ دی گئی ہے حضرت اذا صلی اللہ علیہ وسلم کو حضرت موسی کے ساتھ تشبیہ دی گئی ہے اب ہم جب دیکھتے ہیں کہ مسیحت میں ایک لمبے عرصے تک خلفاء اور حضرت موسی کی شریعت کو آگے پہنچانے والے انبیاء کا سلسلہ میں نظر آتا ہے یہ کس طرح ممکن تھا کہ ان دا ورلڈ صلی اللہ علیہ وسلم کی امت میں سے خلافت کا سلسلہ تیس سال تک قائم رہنے سے جاری رہتا ہے اس لیے اس کی تشبیہ دینا کوئی معنی نہیں رکھتا تو یقینا اس میں یہ پیش گوئی کی تھی کہ آج آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانہ میں آپ کی امت میں جب ایمان اور عمل صالح قائم رہے گا یہ اختلافات کا سلسلہ قیامت کے دن تک چلتا رہے گا اس وجہ سے قیامت کے دن تک نبی ہیں آپ ہے یہ یقینی بات ٹھیک ہے پھر آپ کی جو آپ کی ابتدا میں خلافت قائم ہوئی تھی وہ بھی قیامت کے دن تک ہے اور یہ ہماری جماعت کا عقیدہ ہے کہ ان شاءاللہ خلافت احمدیہ جو حضرت مسیح علیہ السلام کے ذریعے جس کا کام ہو انشاء اللہ قیامت کے دن تک جاری رہے گی اس بات کی تائید ان صلی اللہ علیہ وسلم کی ایک حدیث کرتی ہے حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا تو نبوت ایسی قوم ماشاء اللہ ان کو نہ صرف اللہ کی رضا شاہ صاحب رافت علی منہاج النبوۃ فیکم ماشاء اللہ ان کو صحت تندرستی والی لمبی زندگی سے وسلم نے امت محمدیہ کے ایمان اور آپ حالات کا ایک تقابلی جائزہ ہے اور اسلام پر قائم رہنے اور اس سے دوری کا یہ تمام نقشہ جو ہے یہ حدیث بیان کرتی ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ میرے بعد خلافت قائم ہو گی جو علیٰ منہاج النبوہ ہوگی اس دن مختلف ملوکیت کا دور ہو جائے گا پھر اس کے بعد فرمایا تم تکون خلافۃ علیٰ منہاج النبوۃ کہ ایک وقت آئے گا کہ اللہ تعالی کی جو رحمت ہے وہ جوش مارے گی اور پھرگا جو خادم دین ہوگا اور وہ دین اسلام کی حمایت کے لیے اللہ تعالیٰ اس کو کھڑا کرے گا اسی طرح ہم پرانی کتابوں میں دیکھتے ہیں یہود کی یہ کتاب جو تعلق ہے اس میں لکھا ہے کہ جب وہ مسیح فوت ہو جائے گا تو اس کی سلطنت جو ہے اس کے بیٹے اور پوتے میں منتقل ہو جائیں گی یہ ایسی روایات ایسی احادیث قرآن کریم سے ہمیں یہ بالکل پتہ چلتا ہے کہ جو امام مہدی ہو گا اس کے بعد یہ خلافت کا دور شروع ہوگا جو ان شاء اللہ قیامت کے دن تک جاری رہے گا اور خلافتی ہے کہ جو نبی پیغام لے کر آتا ہے اس دنیا میں پھیلانے کا کام خلافت ہی کرتی ہے یہ باتیں میری ذمہ داری ہے کہ دیکھیں گے صنم تشریف لائے آپ نے دعویٰ کیا کہ اللہ تعالی کے بھیجے ہوئے ہیں اور مہدی معہود تو اگر تو نعوذباللہ جھوٹے ہوتے تو آپ کے سارے جو دعوے اور وعدے آپ کی زندگی سے تعلق رکھنے والے نے چاہیے تھے لیکن جب آپ کی وفات کا وقت قریب آتا ہے تو یہ تحریر فرماتے ہیں وہ لکھتے ہیں کہ بار بار آتا ہے مجھے میری وفات کے بارے میں خبر دی ہے اپنی جماعتوں کو تسلی دیتے ہیں اور تسلی اس کے جواب کے بعد ہونے والے ہیں تو ایک دوسرے سے کوئی بھی نہیں کر سکتا ہے اس نے خود بھی اپنے بعد اس خلافت کے اجراء کی طرف اشارہ کیا اور اس قدر ثانیہ کا نام دیا اور پیشنگوئی ہیں آپ کی جو فوراً افاقہ ہوتا دیکھیں تو ان کے سامنے ہیں اکثر وہ چھوٹے سے ایک دن رات اس کتاب کے سامنے رکھنا چاہتا ہے بلکہ یہ رسالہ الوصیت آن لائن بھی موجود ہے اسلام کی تمام تفصیلات بھی آپ کو میں دستیاب ہیں ہماری ویب سائٹ www.ubqre.org تھا تو وہاں پر اردو اردو سیکشن میں آرام سے آپ ساری کتابیں آن لائن بھی بستے ہیں کچھ چھپا نہیں ہے ہمارے بعض کہتے ہیں کہ آپ اپنی کتاب میں چھپا کے رکھتے ہیں بلکہ لوگ ہماری کتابیں پڑھاتے ہیں ان کو بھی اس طرح سے شائع کرنے کی کوشش کرتے ہیں آپ دیکھ سکتے ہیں نہ صرف الحسن فرماتے ہیں کہ یہ دو قسم کی قدر کرتا ہے اب وہ خود نبیوں کے ہاتھ سے اپنی قدر کہاں دکھاتا ہے دوسرے ایسے وقت میں جب نبی کی وفات کے بعد مشکلات کا سامنا پیدا ہو جاتا ہے سب خدا تااللہ دوسری مرتبہ اپنی زبردست قدرت ظاہر کرتا ہے اور گرتی ہوئی جماعت کو سنبھال لیتا ہے پھر آگے ثواب ممکن ہے کہ خدا تعالیٰ اپنی قدیم سنت کو ترک کردے میں خدا کی ایک مجسم قدرت ہو میرے بعد ہوں گے جو دوسری قدرت کا مظہر ہو گے وہ دوسری قدرت کس طرح سے ہوگی اس کا بھی آپ نے بتا دیا کہ اسی طرز پر اسی طریق پر جب رسول اللہ صل وسلم کی وفات کے بعد آپ کی جماعت میں مسلمانوں نے حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ کو خلیفہ بنانا اور آپ کے ہاتھ پر بیعت کی تو یہ اتنی بازی ایک پیش گوئی بھی ہے جو ہم نے پھر یہاں پھر اس کو پورا اترتے دیکھا اور اس کو پورا ہوتا دیکھتے آرہے ہیں سو سے زائد سال ہوگئے ہیں تو ہم آگے چلتے ہیں تو نظر آ رہا ہے کہ اس وقت ہمارے ساتھ کال پر بھی ہمارے دوست جو کہ سے افسوس ہم نکال لیتے ہیں بھارتی اخبار سے گفتگو آگے چلاتے ہیں اس چودھری صاحب اسلام علیکم و رحمۃ اللہ و نبی اور بیوی کا اور خلیفہ بھی کہا ٹھیک ہے سوال یہ ہے کہ جیسے اگر تم اسی موضوع پر تو اسلام کے بارے میں بھی قرآن کریم میں جیسے وہ صورت اختیار ہے وہ بھی آئے آتا ہے اس کا ذکر ہے وہ بھی خلیفہ ہیں ٹھیک ہے تو کیا خلیفہ خلیفہ میں کل آ سکتے ہیں اور نبی بھی کھلا سکتے ہیں اس کے بارے میں تھوڑی سی تکلیف دی جائے تو ضرور اس کو ہم سے رابطہ کریں گے تو ابھی آپ میرا نام لکھے گا انشاءاللہ آپ کا سوال ہے اس لیے جواب نہیں دیا جائے گا تو انشاءاللہ میں آپ جس سے گفتگو کر رہے تھے خلافت کے متعلق بھی افضل صاحب کا ذکر کیا اور فضل الرحمن صاحب کا مطلب کیا والا ہے جس کا وعدہ کیا ہے اس بات کو پورا اترتے دیکھا ہے تو اس نعمت کا اندازہ تو غسل کر سکتے ہیں پتہ چلے گا اس سے وابستہ ہے کیا ہیں خدا کے حوالے سے خلافت کی برکات ہیں اس سے ہی اللہ الرحمن الرحیم قرآن کریم میں جہاں اللہ تعالی نے خلافت کا وعدہ فرمایا ہےاللہ تعالی سورہ نور میں فرماتاہے وعداللہ الذین آمنوا منکم وعملوا الصالحات لیستخلفنہم فی الارض کے نالہ مدینہ ملا عبداللہ شاہ غازی کا آغاز کون سے اللہ کا وعدہ ہے ان لوگوں سے جو ایمان اور عمل صالح کریں گے کہ ان کو لازمی لیستخلفنھم کہ لازمی ان کو زمین میں خلافت عطا کرے گا تو پہلی برکت تو یہی ہے ہے اب دیکھیں بہت سارے علماء دیوبند حضرت مسیح موعود علیہ السلام پر ایمان نہیں رکھتے جو ہم دین کے بعد میں جماعت احمدیہ میں شامل نہیں ہیں وہ بھی اس بات کے قائل رہے ہیں اور اب بھی ہیں کہ اسلام کی ترقی خلافت کے بغیر ممکن نہیں ہے اب تحریک چلی ہی خلافت کی کے خلاف قائم ہوں اگر خلافت قائم ہوگی تو اسلام ترقی کرے گا اس کے بغیر تو جب اللہ تعالی یہ وعدہ بیان فرما رہا ہے کہ اگر ایمان اور عمل صالح کام کرو گے تو میں تمہیں خلافت عطا کروں گا تو خلافت کا قائم ہونا بذات خود ایک انتہائی بابرکت چیزہے جو باقی لوگ انتظار کر رہے ہیں اور ہم کہہ رہے ہیں کہ اللہ تعالی نے ہمیں عطا فرما دی ہے جس کے مطابق پہلی بات تو یہ ہے کہ خلافت اپنی ذات میں ایک برکت دوسرا جب یہ برکت قائم ہو جائے گی تو اس خلافت کے منجانب اللہ ہونے کی نشانی کیا ہو گی آگے فرمایا کہ اس کا یہ ہے کہ لائیو مکہ نہ ہوں مہربانی کرکے نالہ مدینہ ملازادہ کہ ان کے دین کو اس کے ذریعے سے تمکنت عطا کی جائے گی مضبوطی عطا کی جائے گی انہیں دشمن دین کو مٹانے کی کوشش کرے گا لیکن اللہ تعالی خلافت کی برکت سے دین کو دن بدن مضبوط کرتا چلا جائے گا دشمن کی طرف سے خوف پیدا کیے جائیں گے لیکن اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ والا یہ بدلنا ہوں میں بعد خوفہم امنا کے خلافت کی برکت سے وہ جو خوف پیدا ہوں گے خوف نہیں پیدا نہیں ہوں گے دشمن کی طرف سے خوف پیدا کیے جائیں گے لیکن اللہ تعالی اپنے فضل سے خلافت کی برکت سے ان خوابوں کو امن میں تبدیل کرتا چلا جائے گا اور پھر اس سے اگلی برکت بیان فرمائیں کیا بولنا نہیں وہ میری عبادت کریں گے اور نبی آتے ہیں عبادت کے قیام کے لیے ہیں اور عبادت کے فائدے کیا ہیں یہ الگ مضمون ہے ہے اس وقت بات نہیں ہو سکتی عبادت جو ہے وہ اللہ تعالی کے قریب کرتی ہے جب اللہ کے قریب ہوتا ہے انسان تو کیا برکات اس کو حاصل ہوتی ہیں پھر فرمایا گیا کہ وہ میرے ساتھ کسی کو شریک نہیں ٹھہرائیں گے خدا کے ساتھ شریک ٹھہرانے کے نقصانات کیا ہیں آپ جب خلافت کے ذریعے سے شرک کا خاتمہ ہو جائے گا اس کے بعد سے تو شرک کے نقصانات ہیں وہ جماعت اور نقصانات سے بچیں رہے گی تو ایک تو یہ اس آیت کے اندر ہے جس نے اللہ تعالی نے خلافت کا وعدہ عطا فرمایا ہے اس کی برکات کا بھی ذکر فرما دیا کہ ایک تو خلافت قائم ہو جائے گی تمہارے دین کو تم کی نعت پیش کی جائے گی تمہارے خوفا من میں تبدیل کر دیے جائیں گے تمہارے اندر عبادت کا قیام ہو جائے گا اور شرک کی بیخ کنی کر دی جائے گی شیر کا خاتمہ ہوگا لیکن اس کے ساتھ ساتھ سمجھتا ہوں اگر دیکھا جائے قرآن کریم میں متعدد مقامات پر چار رکعت کا بھی اظہار فرمایا گیا ہے ہے آپ اس کے لئے سوچنے والی بات یہ ہے کہ خلافت کا وعدہ کن لوگوں کے ساتھ ہی فرمایا کہ اللہ الذین آمنوا منکم وعملوا الصالحات خلافت کا وعدہ کیا ہے ایمان اور کوئی وعدہ کرتا ہے ایمان اور عمل صالح شرط ہے جب یہ شرط پوری ہوگی تو خدا کا وعدہ پورا ہو گا اور خدا تعالیٰ فرماتا ہے لا الہ الا اللہ وعدہ خلافی نہیں کرتا اللہ اپنا وعدہ پورا کرتا ہے جب انسان ایمان اور عمل صالح کی شرط پوری کرے گا تو پھر اللہ تعالی ان کو خلافت بھی عطا کرے گا جب اس حوالے سے ہم دیکھتے ہیں تو پھر باقی جب وہ بھی دیکھیں کہ کیا ایمان اور عمل صالح کا کہیں ذکر آیا ہے بہت سارے مقامات آپ کو ایسے ملیں گے ان برکات کا ذکر میں نے کیا لیکن دوسری طرف یہ بھی ہے کہ بہت سارے انسان نقصان میں چلے جائیں گے لیکن ان نقصانات سے بچنے کے لئے بھی ایک دیکھنا دوسری دنیا نقصان اٹھا رہی ہوں لیکن اللہ وبرکۃ سے ایک جماعت کو نقصانات سے بچا لے یہ بھی پاک برکت ہے عذاب سے بچ جانا بھی ایک فرقہ ہے جو نیند تو کامل برکت ہے دوسری طرف عذاب سے بچااللہ تعالی نے اس کا بھی زخم ہے مثال کے طور پر سورہ تین دن اللہ تعالی فرماتا ہے کہ ہم نے انسان کو احسن تقویم میں پیدا کیا یا اللہ توفیق نہ دے انسان کی آسان تفہیم پھر کیا ہوا سے مراد لاہور کے پھر ان کو جو انسان ہے ان کے اپنے کرتوتوں کی وجہ سے غلط حرکتوں کی وجہ سے ان کو اسفل سافلین کی طرف لوٹا دیا لیکن وہ انسان جو احسن تقویم میں پیدا ہوا اعلی درجہ کے لیے پیدا ہوا وہ انسان جب گھٹا پانی نیچے کی طرف جا رہا ہے اس لیے میں جا رہا ہے کون بچائے جائیں گے ساتھ استثناء کردیا اللہ الذین اٰمنوا وعملوا الصالحات کہ ان لوگوں کا استثناء ہوگا جو ایمان اور عمل صالح کرنے والے ہوں گے اب ایمان اور عمل صالح کرنے والے کون ہے ان سے کیا وعدہ ہے خلافت کا یعنی یہ وہ لوگ ہیں جو یا تو نبوت کے ساتھ ہیں اگر نبوت میں اس کے بعد پھر اللہ تعالی ان کو خلافت عطا کرے گا تو اس میں گویا دوسرے لفظوں میں اگر ہم یہ کہیں کہ انسان اس فلم میں جا گرتا ہے لیکن جو اللہ تعالی نے نبوت کی خلافت کا انکار ہے اس کے ساتھ وابستہ ہوتا ہے تو پھر وہ اسفل السافلین میں گرنے سے بچ جاتا ہے اس کا استثناء کیا کہ ان کے لئے غیر ممنوعہ شجر نہ ختم ہونے والا جائے کہ دیکھنے والا بھی یہی مضمون بیان ہوا ہے کہ والعصر ان الانسان لفی خسر کے زمانے کی قسم ہے انسان کاٹے جا رہا ہے لیکن کون گھاٹے میں نہیں جائے گا اللہ زین امنو وعملو الصالحات سوائے ان لوگوں کے جو ایمان اور عمل صالح کریں گے ایمان اور عمل صالح کا مطلب کیا ہوا دوسرے لفظوں میں جو خلافت کے ساتھ ہی سے بچائے جائیں گے اور ان کی نشانیاں کے بیان فرمادیں بات عباس عبدالحق کے اسلوب کی ایک دوسرے کو نصیحت کرتے رہیں گے سچ بات آگے بیان کرتے رہیں گے حق بیان کرتے رہیں گے اور ایک دوسرے کو صبر کی تلقین کرتے رہے اس دور میں یہ دیکھنے کون سی جماعت ہے ہے جو ایک دوسرے کو حق بات کہہ کے ایک دوسرے کو صبر کی تلقین کرتی ہے ان کو تکلیف نہیں دی جاتی ہیں ان کو دکھ دیے جاتے ہیں ان کے حقوق سلب کیے جاتے ہیں لیکن بجائے اس کے کہ وہ کوئی احتجاج کریں کوئی جلسے جلوس نکالیں انکا خلیفہ کو صبر کی تلقین کرتا ہے اور وہ ایک دوسرے کو بھی صبر کی تلقین کرتے چلے جاتے ہیں ہیں یہ اللہ تعالی اس خلافت کی برکت سے یہ اس صبر کے اندر برکت عطا فرمائے وہ آگے ترقی پر ترقی کرتے چلے جا رہے ہیں تو یہ قرآن کریم اس نہج پہ اگر اور بہت سارے زمانے کے لیے پہلے تو آپ کو جگہ جگہ خلافت کی برکات نظر آئیں گی کہ جو ایمان اور عمل صالح کے نتیجے میں اللہ تعالی نے خلافت قائم کرے گا جہاں کے دین کو تمکنت ملے گی ان کے خلاف امن میں تبدیل ہوں گے اور میں عبادت کا قیام ہوگا وہ شرک سے بچے رہیں گے وہ ان تمام نقصانات سے جو اس زمانے میں لوگ اٹھا رہے ہوں گے اپنی غلط کاموں کی وجہ سے خلافت کی برکت سے ان نقصانات سے بھی اللہ تعالی بچائے رکھے گا تو یہ قرآن کریم بھرا پڑا ہے اس لحاظ سے دیکھا جائے ان پر اساتذہ کے خلا ف کے ساتھ آئے تھے بہت بہت شکریہ اللہ تعالی کے فضل سے تقریبا ایک سو دس گیارہ سال سے دیکھ رہی ہے اور جب سے خلافت قائم ہے مختلف شکلوں میں اللہ تعالی نے یہ ساری باتیں برکاتہ میں دکھا رہا ہے ان شاء اللہ دیکھیں گے کہ کس طرح کام کر رہا ہے پہلے ہم پر اور ہمارے کالر ہیں بنگلہ دیش سے ہی ان کی کالے لیتے ہیں مکرم صاحب اللہ اللہ خان صاحب السلام علیکم و رحمۃ اللہتمکنت دین کا تعلق جس کا تعلق رکھتا ہے اگر اس حوالے سے آپ ہمارے ناظرین کے سامنے کچھ باتیں بتا دیں اس سے مراد یہ ہے کہ دین اسلام کو دنیا میں پھیلانے کے لئے اللہ تعالی نے خلافت کے ذریعے کیا کیا نشانہ دکھائے اس کے ساتھ ہی یہ بھی نہیں کرنا چاہتا ہوں کہ مسیح موعود علیہ السلام نے اپنے زمانے میں فرمایا تھا جمعرات کو مخاطب کرکے کہ تم خدا کے ہاتھ پر رکھ دیں جو زمین میں بویا گیا خدا فرماتا ہے کہ یہ بیج پڑے گا اور بولے گا اور ہر ایک طرف اس کی شاخیں نکلے گی اور ایک بڑا درخت ہو جائے گا بس مبارک ہو جو خدا کی بات پر ایمان لایا اب یہ اس زمانے کی بات ہے جب کہ جماعت احمدیہ بڑی محدود شکل میں صرف ہندوستان کے چند شہروں میں چند علاقوں میں موجود تھی اور دشمن یہ دعوے کر رہا تھا کہ ہم ساری دنیا ان سے اس طرح جماعت کو مٹا دیں گے بلکہ ان کی گے اور کئی دفعہ انھوں نے ایسے جلوس بھی نکالے اور کی طرح کے قادیانی پر حملے بھی کیے گئے اب میں اس کی تفصیل میں جا نہیں سکتا لیکن آپ اگر یہ دیکھیں کہ جماعت احمدیہ کو اس وقت اللہ تعالی نے دنیا میں عطا فرمائی ہے اپنی آئی ڈی سے پھر مختلف ملکوں میں ہوتی اب تک دنیا کے دو سو بارہ ممالک میں جماعت احمدیہ کا پودا لگتا ہے جہاں خدا تعالی کے فضل سے جماعت احمدیہ قرآن حکیم کی کے تراجم کی شادی کر رہی ہے مساجد کی تعمیر کر رہی ہے کہ یہ جو ایک مرتبہ دین ہے کہ تھا کہ مسلمان اس دنیا سے بالکل رک جائے گا اور رہا دین باقی نہ اسلام آبادی لیکن اس کے لیے جماعت احمدیہ کے اندر جو خلافت قائم کی اس کے ذریعے ہر سال نئے ممالک میں اسلام اور مغربیت کا پودا لگتا چلا جا رہا ہے اس کے ساتھ ساتھ وہاں پر جماعت احمدیہ کو رنگین مزاج افراد کی تیاری کر رہے ہیں اس کے ساتھ اگر آپ دیکھیں تو دنیا بھر میں ہر سال نئی سے نئی جماعتیں جماعتوں کا قیام ہوتا چلا جا رہا ہے اور نہیں ہوتا چلا جا رہا ہے موجود ہیں خلافت کو اگر دیکھا جائے تو ہماری اس کو دیکھا جائے تو صرف خلافت خامسہ کے دور میں دس ہزار سے زائد جماعتیں دنیا بھر میں قائم ہوئی اور یہ وہ جماعتیں ہیں جو اس وقت جماعت کے باقاعدہ ریکارڈ میں آ چکی ہیں اور ایسے لوگ جو جنت کا ایم پی اے کے ذریعے جماعت کا پیغام پہنچ چکا ہے اور وہ لوگ اپنے آپ کو جماعت احمدیہ کی تعلیمات سے وابستہ کرتے ہیں اور ان کے ذریعے اور اپنے آپ آپ کو اسلامی تعلیمات کے ذریعے ڈال رہے ہیں ایم پی اے کی برکت کے ذریعہ اس کے علاوہ ہے لیکن جو ان کا ریکارڈ اس وقت جماعتوں کی تعداد صرف خلافت خامسہ کے دور میں ان کی تعداد دس ہزار سے دس ہزار سے بھی زائد ہے اسی طرح جو دنیا بھر میں مختلف مساجد کی تعمیر ہو رہی ہے ہے اس کی دیکھا جائے تو ہندوستان اور انڈیا کے علاوہ اگر دیکھا جائے تو دنیا میں ہر سال دو مساجد میں اضافہ ہوتا ہے بس دو ہزار تین میں جب خلافت قائم ہوئی تو اس سال صرف ایک سال میں 224 کی مثال دنیا میں قائم ہوئی اور ہر سال اس میں اضافہ ہوتا ہے سال 162 نہیں مساجد تعمیر ہوئی اس میں 369 نہیں قائم ہوئی تو یہ تو ایک کھیل ہے اور 2018 میں 411 نہیں مساجد ہیں جو اللہ تعالی نے جماعت احمدیہ کو عطا کی اور صرف خلافت خامسہ کے دور میں دنیا بھر میں 5684 کا اضافہ ہوا اور مساجد وہ بنیادی ایک فقرہ کسی بھی سے اسلامی معاشرہ کا کے جہاں پر کسی نے مسجد تعمیر کر دی جائے وہ خدا تعالیٰتم اس سے مطالبہ کرتی ہیں کہ ہمیں ہماری جماعت ہماری زبانوں میں قرآن کریم ادا کیا جائے اور یہ ایک ایسا مسلسل ہے جو خلافت کے نظام کے تحت کی دراصل میں ہوسکتا تھا ورنہ دنیا میں آپ دیکھیں تو اپنے طور پر لوگ تبدیلی بھی کرتے چلے جاتے ہیں قرآن کریم کے تراجم بھی کرتے چلے جاتے ہیں اور اس کی وجہ سے اسلام کو نقصان پہنچتا ہے کہ اپنی مرضی سے ترجمہ کرتے چلے جانا اپنی مرضی سے اس طرح کی ہوتی ہیں لیکن خلافت کے سایہ میں اور خلافت کی ہدایت میں ایک ہی نظام کے تحت جو تراجم شائع کیے جاتے ہیں جو تحقیق کی جاتی ہیں جو قرآن کی شہادت کی جاتی ہے اس کا احساس ہے جو اس کے پھول ہیں وہ صرف وہی لوگ محسوس کر سکتے ہیں جماعت احمدیہ کے اندر ہیں یا جن کے دلوں میں اسلام کا درخت پایا جاتا ہے کہ ان لوگوں کے پاس تو جو اس وقت پر اسلام کے دعوے کر رہے ہیں ان کے پاس تو وہ لوگ ہیں موجود نہیں جو یہ تراجم کر سکے ان تراجم کی شادی کر سکیں اسی طرح دنیا بھر میں مقبول تھے مبلغین اسلام کو پھیلانے کے لیے اس وقت دنیا کے 7 ممالک میں ایسے جامعہ محمدیہ کا قیام ہو چکا ہے جہاں پر احمدی مسلمان نوجوان اپنی زندگیاں وقف کر کے آتے ہیں اور سات سال وہاں رہ کر قرآن کریم کی تعلیم حاصل کرتے ہیں اس تفسیر کو پڑھتے ہیں احادیث کو دیکھتے ہیں پھر اسلام پر ہونے والے اعتراضات کو کے جوابات کی تیاری کرتے ہیں اور پھر ساری دنیا میں پھیلتے چلے جاتے ہیں آج دنیا میں کونسا ایسا جماعت احمدیہ کے مطابق رکھا ہے مسلمانوں کے درمیان ہونے والا جس کو اللہ تعالی نے یہ خدمت کی توفیق عطا فرمائے اور جماعت احمدیہ کے اندر بھی یہ جو خدمت ہو رہی ہے اس کی بڑی وجہ یہ ہے کہ ہمارے ساتھ خلافت کا سایہ موجود ہے اور اس کے ذریعے خدمت ہے خدا کے فضل سے نئے اسلام کا ہر سال وقت کر کے آنا اور پھر ان کا میدان عمل میں اترنے چلے جانا اور یہ سارا کام وحدت کی لڑی میں پروئے ہونے کی وجہ سے نہایت خوبصورتی کے ساتھ ساری دنیا میں جاری ہے اس کے علاوہ جو مالی طور پر اللہ تعالی جماعت کو برکت عطا فرمائے ہیں اس کے اتنے عظیم الشان گھر میں کہ ان کو تو اس کی محفل میں بیان کرنا ہی مشکل ہے 2017 سے جو ہمارا ایک جماعت احمدیہ تحریک جدید ایک مالی جہاد ہے جس میں چندہ دینے والے اس لیے دعا دیتے ہیں تاکہ دنیا کے مختلف ممالک میں اسلام کی اشاعت کے لیے لٹریچر شائع کیا جائے مساجد کی تعمیر ہو ملن کی ساعت کو بھیجوایا جائے تو صرف 2017 میں 16 لاکھ سے زائد جو لوگ اس میں شامل ہوئے تھے اور اس کے علاوہ وہ 2018 میں بھی اضافہ ہوا اور 15 لاکھ چوبیس ہزار پانچویں سے 2017 تک جوں ہی اس پر موجود ہیں اس کے علاوہ پھر قائد کے مالی سال جس میں جو دیہاتی لوگ علاقے ہیں ان میں اسلام کی اشاعت کے لیے جو لوگ ہی دے دیتے ہیں اور اس نے بھی لگاتے ہیں اور ان کو ٹریننگ دی جاتی ہے کہ وہ جہاد میں جا کر اسلام کی تعریفیں کر سکے اسی طرح جماعت احمدیہ کے اندر ایک نظام وصیت ہے جس کے ذریعے اپنی صحت اور فراغت کے بعد جو ہے وہ وقت کرتے ہیں کہ ہم مجبور ہوجائیں گے تو ہماری جماعت ہماری وفات کے بعد ہماری جگہ چار پڑھ دا ستا یا اس سے زائد جو ہے اسلام کی اشاعت کے لیے دیا جائے تو یہ فکر بھی اللہ تعالی سب سے ہر سال اضافہ ہوتا چلا جا رہا ہے تو میں تمہیں تو کیے جو ہے جو ہمیں حضرت مسیح موعود کے ساتھ اسلام کے بعد خلافت علی منہاج النبوہ میں یہ چیزیں دکھائی دے رہی ہیں مولانا فضل الرحمن صاحب بہت شکریہ تو اب ہمارے ساتھ ہمارے کولر الرحمان صاحب کے ساتھ شامل ہو گئے ہیں ان کا سہارا لیتے ہیں کیونکہ یہ جو برکات کا یہ سلسلہ چل رہا ہے اس گفتگو کو مکمل کر لیتے ہیں جن کا سب سے اچھا کرے گا تو پھر عرفان صاحب اسلام علیکم ورحمتہ اللہ جی وعلیکم السلام جی آپ کا کیا حال ہے آپ کا سانس لیا ہے جب سے اسلام کے الہام داغ جنت کے مطابق آپ کال کر رہے ہیں اس کی تفصیل اور تفسیر جانا چاہتے ہیں تو ہم اس کو نوٹ کرلیا ہے لیکن اگر ہم اپنے پروگرام میں جو آج ہمارا موضوع ہے جس پر گفتگو کر رہے ہیں تو اس سے ریلیٹڈ اور سوالات آتے ہیں بعض دینی ہے لیکن آپ کے سوال کو نوٹ کرلیا ہے تو اس کو انشاءاللہ پھر ساتھ شامل کرلیں گے اور نہ انشاءاللہ اگلے پروگرام میں ضرور کریں گے میاں صاحب جس سے بھی آپ سے عرض کی تھی آپ نے شروع میں بہت اچھے انداز میں قرآن مجید میں مذکور کا ذکر کیا ہے جو پہلو ہے کہ خدا تعالیٰ کے خوف کو امن میں بدلتا ہے ہے ختم ہوتا ہے تو جماعت احمدیہ میں ہم اس کو خلافت احمدیہ کی قیادت میں اسے دیکھتے ہیں ہیں رضیہ ہے کہ اللہ تعالی کا یہ ارشاد حسین آیت استخلاف جس میں خلافت کا وعدہ اللہ تعالی نے عطا کیا ہے اس میں یہ بھی فرمایا ہے کہ اس کے خلافت کی برکت سے اللہ تعالی ان کے خوف جو ہیں وہ امن میں تبدیل کر دے گا بائیو بدل نہ میں عملہ اب اس کو دیکھیں تو اس وقت بھی اللہ تعالی نے خوف میں پیدا ہوئے ان کو ہم نے تبدیل کیا حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ تعالی عنہ کے دور میں اگر دیکھا جائے تو صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات کے فورا بعد کتنے ہوگئے تھے مرتدین کا فتنہ تھا اور پھر حضرت اسامہ کا لشکر تیار تھا لیکن جب یہ فتنہ پیدا ہوا تو اسوقت اکثریت کی رائے تھی کہ ایسی حالت میں جب مدینہ کے چاروں طرف ارتداد کا فتنہ کھڑا ہوا ہے اگر یہ لشکر چلا گیا تو یہ پیچھے ہمارے لئے بہت سختی پیدا ہو جائے گا بکر صدیق رضی اللہ تعالی عنہ نے اس کی کوئی پروا نہیں کی کہ جو لشکر رسول پاک صلی اللہ علیہ وسلم نے خود تیار کیا ہے میں اس کو نہیں روکوں گا مدینے میں اگر ہماری لاشوں کو کتے بھی گھسیٹ لیا ہے مجھے اس کی کوئی پروا نی تو آپ نے نہ صرف ایک لشکر بھیجا اور وہ بظاہر ایک انتہائی خوف کی حالت تھی جس کی وجہ سے صحابہ یہ مشورہ دے رہے تھے کہ میں نے اس کے ہاتھ کے اوپر اس کو ہم نے تبدیل کیا اور اسی طرح کے دوسرے خلیفہ کے دور میں بھی حضرت عثمان رضی اللہ تعالی عنہ کے دور میں اگر دیکھی حضرت عثمان کی شہادت کے بعد حضرت عمر رضی اللہ تعالی عنہ کی شہادت کے بعد حضرت عثمان کے ساتھ جمع کر دیا اور حضرت عثمان کی شہادت کے بعد حضرت علی کے ہاتھ میں جمع کردیا تو یہ جو ہوتا ہے کہ مومنین کی جماعت کی گمراہی کی طرف چلی جائے اس سے اللہ تعالی نے بہرحال بچا کے رکھے ان کا جو مناسب حال نہیں رہے ہیں ان کے مطابق خلافت ختم ہوگئی لیکن خلافت کے ہوتے ہوئے کوئی خوف جو ہے وہ پیدا نہیں ہوا اسی طرح خلافت احمدیہ کے اندر اگر دیکھیں تو یہاں بھی مخالفین خوف تو بہت سارے پیدا کرنے کی کوشش کیجئے مختلف ادوار ایسے آئے ہیں جب مخالف یہ سمجھتا تھا کہ اب یہ جماعت کے ختم ہوگئی لیکن اللہ تعالی سے خلافت کی برکت سے ہیں آنکھوں کو ہم نے تبدیل کرتا چلا آیا ہے اور مخالفین جو خوف پیدا کرنے والے تھے وہ اپنے ارادوں میں ہمیشہ ناکام اور نامراد رہی یہ درست ہے کہ تکلیف ہے تو آتی ہیں اور تکلیفوں کا نہیہ اللہ تعالی قرآن میں فرماتا ہے کہ یہ آزمائش مؤمن کے لیے آتے ہیں لیکن ان کو ترقی دینے کیلئے تی ہیں ان کو ختم کرنے کے لیے نہیں آتی ہیں اللہ تعالی نے ہمیشہ سے دکھایا مثال کے طور پر چونتیس مئی 1934 میں جو فتنہ ارتداد کا فتنہ ہےلیکن ان تک پہنچ چکا ہو گا ہم اس کو پورا کرنے کے لیے یہ ایک نئی تحریک کا میں کام کر رہا ہوں اور اللہ تعالی اس کے اندر بڑھ کر رکھے گا آج دیکھ لیں کہ وہ جو قادیان کو مٹانے کی کوشش کر رہے تھے وہ کامیاب ہوئے یا وہ تحریک کامیاب ہو رہی ہے جو حضرت خلیفہ المسیح نے اللہ تعالی کے اشارے پر اس کی اجازت سے اس کے فضل سے قائم کی تھی اس تحریک کے حالات دیکھنے اب یہاں ہم بیٹھے ہیں میں تحریک ختم نبوت کا پھول ہے اسی طرح پھر اس کے بعد ان کی ترقی رک جائے دیکھ لیا اور اس وقت کے حکمرانوں نے بھی یہ دعویٰ کیا تھا کہ یہ جو کہ میں ان کے ہاتھ میں کشکول پکڑا کے چھوڑوں گا اب وہ جو ہاتھوں میں ہمارے ہاتھوں میں کشکول پکڑ لے جارہے تھے ان کی اپنی حالت دیکھ لیں اور کیا ہمارے ہاتھوں میں کشکول ہے ہمارے ہاں تو اللہ تعالی کے فضل سے دینے والے ہیں لینے والے ہاتھ نہیں ہے تو خدا تعالی نے وہ کس کو پکڑنے والوں کو کہاں پہنچا دیا اور جن کو کس کر پکڑا جا رہا تھا ان کو کہاں تک پہنچا دیا یہ اب تجزیہ دیکھنے والے کو کر سکتے ہیں پھر یہ خیال آیا کہ نہیں ہم نے تحریک چلا کے دیکھ لی مارکیٹ کے بھی دیکھ لیا گھر بھی جلا کے دیکھ لیا غیر مسلم قرار دے دیا یہ پھر بھی نہیں رکھتے تو پھر ان کو یہ احساس ہوا کہ نہیں ان کی ترقی کا راز خلافت کے اندر ہے اور ایسا انھوں نے ایسا کیا بات تھی لیکن انہوں نے پر ہاتھ ڈالنے کی کوشش کی کے خلاف تک وہیں ختم کر دیا جائے تو وہ دراصل خلافت کو ختم کرنے کا ایک منصوبہ تھا لیکن اللہ تعالی نے اس منصوبے سے بھی الگ جماعت کو محفوظ رکھا اور حضرت خلیفہ المسیح انبیاء کی سنت کے مطابق بڑے محفوظ طریقے سے خدا تعالیٰ ہجرت کا واقعہ کو اس ملک سے باہر لے گیا اور وہی خلافت جس کو ختم کرنے کی کوشش کر رہے تھے اور جہاں سے ہجرت کرکے آئے ہیں وہاں سے زیادہ زور دار طریقے سے اسلام کی خدمت کر رہی ہے اسلام کی تبلیغ کر رہی ہے اور خدا اور خدا کے رسول کا نام زمین کے کناروں تک پہنچا رہی ہے اب یہ وہ چیزیں ہیں وہ خوف ہیں اور آج تک یہ خوف پیدا کیے جا رہے ہیں اور اللہ تعالی مقام نے تبدیل کرتا چلا جارہا ہے چاہتے بھی ہو رہے ہیں تکلیف بھی آرہے ہیں سب کچھ آتا چلا جا رہا ہے لیکن ساتھ ساتھ جن کو تحمل رہے ہیں ان کے گھرانوں میں جا کے دیکھ لیں لوگ ڈرتے ہیں لوگ یہ سمجھتے ہیں کہ اگر ہمارے یہاں شہید ہوگئے ہمارے باپ ہیں تو بھائی سے دو گے تو تمہارے پر کیا بیتے گی لیکن ہمارے ہیں جن کا سائز ہوتا ہے وہ خدا کا شکر ادا کرتا ہے کہ میں اللہ تعالی نے یہ عطا فرمایا اور اس کے بعد ترقی کے دروازے ہم دیکھتے ہیں کیونکہ اللہ تعالی نے کھولی دکان کھول رہا ہے تو یہ وہ چیزیں ہیں ایک تو جو اللہ تعالی ان کی ان کے خوف ہم نے تو دل کر رہا ہے اور جماعت احمدیہ کی اور خاص طور پے خلافت احمدیہ کا 111 سالہ تاریخ اس بات پر گواہ ہے کہ دشمن دشمن جب بھی کوئی خوف پیدا کرنے کی کوشش کی ہے اللہ تعالی کو تبدیل کرتا رہا اور اس کے نتیجے میں ہمارے لیے ترقیات کے مرکزی دروازے کھولتا چلا گیا ہے یا وہ جو نہ آنے والا ایک واقعہ پیش آیا کہ وہ میری عبادت کریں گے اور میرے ساتھ کسی کو شریک نہیں ٹھہرائیں گے اب یہاں حضرت مصلح موعود رضی اللہ تعالی عنہ فرماتی کیا مراد بت پرستی نہیں ہے بت پرستی تو ایک عام مسلمان بھی نہیں کرتا ہوں گے انہوں نے پرستی کی مراد یہ ہے کہ لوگ ان کے لیے خوف کے مقام پیدا کریں گے لیکن وہ کسی کے خوف کی وجہ سے اپنا قدم پیچھے نہیں ہٹے جائیں گے ان کو عبادت سے محروم کرنے کی کوشش کی جائے گی گویا اس کے اندر ایک پیش گوئی ہے یہ ان کو عبادتوں سے منع کیا جائے گا ان کو شرک پر مجبور کیا جائے گا لیکن نہ تو وہ عبادت سے اپنا قدم پیچھے ہٹ آئیں گے اور نہ وہ شرک کر انسانوں سے ڈر کر شیئر کریں گے آج جماعت احمدیہ کے ساتھ کیا ہو رہا ہے ہمیں کیا کہا جا رہا ہے کہ میں کہتے ہیں کہ چونکہ آپ ان کو ہم نے غیر مسلم قرار دے دیا اب تم اپنے آپ کو غیر مسلم تسلیم نہیں کرتے اس لیے چھوڑ دو یہ ہمارا کلمہ ہے نمازپڑھنے چھوڑ دو یہ ہماری نماز تم اپنا کوئی گل نہیں لا الہ الا اللہ کا مطلب کیا ہے کے سوا کوئی معبود نہیں ہے کوئی بات کے لائق نہیں ہے وہ کہتے نہیں تم یہ نہ کہو یعنی یہ کہنا ان کو ملا کرتے ہوئے جب شرک کا پڑھنے کے دلائل اللہ عنہ کو محمد رسول اللہ نعت ہو تو پھر ہم راضی ہیں پھر آپ ہمارے بھائی ہو ہم تمہیں اب تمہارے حقوق دیں گے یعنی کلمہ چھوڑ دو اذان نہ دو نماز نہ پڑھو روزہ رکھو ان باتوں سے ان باتوں سے پیچھے ہٹ جاؤں یہ شرک کرو اگر لائن اللہ کرو گے پھر ہم تم ہم تم دشمن دشمن ہیں ہمارے ساتھ ہوں گے پھر ہمیں تمہارے حقوق دیں گے ہماری حفاظت کریں گے ہم لعنت بھیجتے ہیں خلیفہ المسیح حضرت عیسیٰ المسیح دن رات خلافت نے ہمیں یہی سکھایا ہے کہ ایک خدا ہے اس کے ساتھ چمٹ اینڈ خلافت میں یہی سکھایا ہے کہ جو کچھ ہے اس کو خدا کی طرف سے ملتا ہے اس خدا کی عبادت کے اندر اللہ تعالی نے ساری بات کا یقین ہے ہے تو یہی تو برکتیں جو اللہ تعالی نے ہمیں عطا کی ہیں کہ آج ہمیں عبادت سے ہٹایا جارہا ہے لیکن خلافت کی برکت سے ہم عبادت کے قیام کے اوپر قائم ہے آج نمازوں کے اوپر پابندیاں لگا دی گئی ہیں تین سال کی سزا یہی جرمانے کی سزائیں ہیں لیلا کہنے پر جیلوں کے پیچھے دھکیلا جارہا ہے اذان دینے پر مہاجروں کے پیچھے دھکیلا جارہا اسلام علیکم کہنے پر بسم اللہ الرحمٰن الرحیم لکھنے کے اوپر تو یہ وہ چیزیں ہیں کہ ان کو عبادتوں سے روکا جائے گا ان کو شرک پر مجبور کیا جائے گا لیکن جب خلافت قائم ہو جائے گی تو نہ وہ عبادت سے پیچھے ہٹے گے نحوہ شرکت کریں گے بوائے اللہ کہتے چلے جائیں گے یہی ان کی اللہ تعالی سے دعا ہے کہ اللہ کہنے کے نتیجے میں جو برکاتہ اللہ تعالی کا کیا کرتا ہے وہ برکاتہ اللہ تعالی ان کو دیتا چلا جائے گا تو کا اجر حقیقت میں خدا تعالیٰ فرماتا ہے وہ حقیقی باتیں ہوں گی تو ان عبادتوں کا اجر خدا تعالی عطا فرماتا چلا جائے گا اور ہم ان عبادتوں کے ادھر دیکھ رہے ہیں ان کی برکتیں دیکھ رہے ہیں کلمہ طیبہ کی برکت دیکھ رہے ہیں ہزاروں کی برکت دیکھ رہے ہیں یہ کہا تھا کہ میں نے یہ نہیں روک سکتے ہم تو خوشبو ہیں ہمارا راستہ روکے گا کون کس بلندی تک دیوار اٹھا لے جائے گا کہاں تک ہماری ہمارا راستہ روکنا خدا کا وعدہ ہے ہمارے ساتھ جب خلافت قائم ہو جائے گی تو دنیا کی کوئی طاقت ہمیں عبادت سے نہیں روک سکتی دنیا کی کوئی طاقت ہمیں خدائے واحد و یگانہ کا اقرار کرنے پر اس پر ایمان لانے پر اس کے بعد کرنے سے منع نہیں کر سکتے اور اس کا شرک کرنے پر مجبور نہیں کر سکتی اور یہ دیکھتے ہیں کہ اللہ تعالی نے خلافت کی برکتیں عطا فرما رہا ہے ایسے شخص جو اس جو آپ نے باتیں بیان کی ہیں اس میں جو اپنے آپ کو سونے کی قیمت کرنے والے ہیں جن کے پاس وہ کامل کتاب ہے قرآن مجید ہے اور قرآن مجید میں خود ایسے لوگوں کے طرز عمل کے کنکشن ابھی کھینچ کر لے گیا ہے والے پہلے سے تیار شدہ نہیں ہے وہ نہیں کرتے تو اگر آپ اس حوالے سے بتا دیں گے کہ قرآن مجید کو دیکھ کر کھینچتا ہے جہاں پر یہ لوگ اسے قتل کر دیں گے جو طرز عمل اختیار کیا جا رہا ہے کیا کہ کیا جا رہا ہے کہ یہ غیر مسلم ہے یہ مسلمان نہیں ہیں یہ مومن نہیں ہے یہ ہدایت یافتہ نہیں ہے اس لیے یہ لوگوں کو دھوکہ دیا جا رہا ہے کہ چونکہ یہ ہدایت پر نہیں ہے اس لیے ان کو کافر کہنا جائز ہے اور جب ہم کافر کہہ رہے ہیں تو ان کو ضروری ہے کہ یہ خود بھی اپنے آپ کو کافر تسلیم کریں لیکن اگر کوئی اگر کسی نے اپنی قبر میں پڑھنا اگر کوئی سمجھتا ہے کہ فلاں کافر ہے ٹھیک ہیں اس کا حق ہے کہ وہ سمجھے لیکن یہ ایک اگر زید بکر کو کافر سمجھتا ہے یہ تو اس کا حق ہے لیکن یہ کسی کا حق نہیں ہے کہ چونکہ میں تمہیں کافر کہہ رہا ہوں اب تم تسلیم بھی کرو گے تم کافروں کا خدا کوئی نہیں ہے وہ بھی آزادی حاصل ہے اس نے بھی مرنا اس نے خدا کے سامنے پیش نہیں ہونا اس نے خدا کے سامنے جواب دینا اس لیے تم اگر ہمیں کافر کہتے ہو صاف ہو یہ تمہارا مسئلہ ہے خدا کا مسئلہ ہے لیکن ہمیں اور خدا ہمارا ہے خدا کے درمیان تو نہ ہونا یہ تو نہ کہ چونکہ ہم تمہیں کافر کہتے ہیں تم کافر تسلیم بھی کرو یہی بات اگر ہم ان کو کہیں تو پھر کیا وہ اس بات کو تسلیم کریں گے یہ دھوکہ دیا جا رہا ہے آج اور اس دھوکہ دینے والے نے یہ دھوکہ دیا کہ چونکہ یہ ہدایت یافتہ نہیں لہذا ان کی نماز سے روکنا ان کی اذان روکنا نکلنے پر پابندی لگانا جائز ہے اسی چیز کو بڑی اللہ تعالی فرماتا ہے اللہ حافظ اللہ کیا تم نے اس شخص کو دیکھا ہے جو میرے بندے کو روکتا ہے اس وقت جب وہ نماز پڑھتا ہےاور جس بات کا وہ ذکر کر رہا ہوں حکم دے رہا ہے وہ تقوی کے اوپر مبنی ہے اور پھر فرمایا کہ مجھے یہ بھی بتاؤ کہ اگر وہ جو روکنے والا ہے ان کا جھوٹ بول رہا ہے غلط بیانی سے کام لے رہا ہے اور پیٹھ پھیرنے والا ہے ان لوگوں کو دھوکہ دینا ہے الم یعلم بان اللہ یری خدا دیکھ رہا ہے اس کو ان لوگوں کو دیکھ کر دھوکہ دے سکتے ہیں کہ وہ خدا کو دھوکہ دے گا ہرگز دھوکہ نہیں دے سکتا آگے خدا فرمایا کلا ہرگز ایسا نہیں ہوگا جو وہ چاہتا ہے کہ علم کی انتہا ہے اگر وہ باز نہ آیا لنسفعا بالناصیۃ ناصیۃ کاذبۃ خاطئۃ ہم اس کو پیشانی کے بالوں سے پکڑ لیں گے وہ پیشانی جھوٹی پریشانی ہے خطا کار ہے انہیں خدا بیان فرمایا ہے کہ جب لوگوں کو نمازوں سے روکا جائے گا اذانوں سے روکا جائے گا عبادتوں سے روکا جائے گا تو وہ نمازوں سے روکنے والا جو کہ تو دے گا لوگوں کو بھی ہدایت کی کہ اس لیے لکھ رہا ہوں لیکن اس جھوٹ بول رہا ہے لیکن اس کو یہ پتا نہیں کہ لوگوں کو دھوکا دل میں خدا کو دھوکا نہیں دیا جا سکتا خدا تو دیکھ رہا ہے آگے سے ہرگز ایسا نہیں ہوگا کہ وہ چاہتا ہے اگر یہ باز نہ آیا تھا اس کو پیشانی کے بالوں سے پکڑ یہ جھوٹی عورت کا پہچان نہیں ہے پیشانی کے بالوں کو عزت کی علامت سمجھا جاتا ہے پیشانی سے پکڑنے کا مطلب ہے ذلیل اور رسوا کر دینا تو مطلب یہ کہ ہم اس کو ذلیل و رسوا کر دیں گے لیکن آگے پھر کلاس فرماتا ہے کل یاد اور نہ دیا اس کو چاہیے کہ وہ اپنی مجلس کو بلالے سندھ زبان یا ہم بھی آپ نے پولیس کو بلائیں گے اپنے مددگاروں کو اللہ کی پولیس اس کے فرشتے اللہ کے مرکز کے وہ محبت کرنے والے ہیں لیکن پھر آگے اللہ فرماتا ہے ہرگز نہیں نہیں جو وہ چاہتا ہے وہی ہوگا اطاعت نہ کرنا اس کی پیروی نہ کرنا ہی نہیں تھا تمہارا کس کام میں خدا کی عبادت سے روک رہا ہے اس میں اس کی پیروی کرنا بس جو تم سجدہ کر رہا تھا کے قریب ہوجاتا اب یہ دیکھیں یہ کمال کی چیز ہے کہ اس وقت جب عبادتوں سے روکا جا رہا ہے سجدوں سے روکا جا رہا ہے اس وقت سجدہ کرنا وہ خدا کے فرمائے وقت کرے اس کے قریب ہو جاؤ اس وقت خدا کے حضور سجدے کئے ہوئے خدا کے زیادہ قریب کرنے والے سوچتے ہوں گے انعام دور میں بھی سجدے کرنا آپ بات نہیں کرنا ان کا اجر تو ہے لیکن جب سجدوں پر سزائیں سنائی جا رہی ہوں جب سجدوں کی وجہ سے تین تین سال کے لیے جیل میں کھیلا جارہا ہوں جب سجدوں کی وجہ سے آپ کو جرمانے کی سزائیں دی جا رہی ہوں بے گناہ اور پر آکر ظلم و ستم ڈھایا جا رہا ہوں تو خدا بے وفا خدا نہیں وہ خدا جس کی خاطر ہم سجدہ کیا کر رہے ہیں دل و جان سے سجدہ کر رہے ہیں وہ اس کی حالت کو بھی دیکھ رہا ہے جو میں لکھ رہا ہے اور ہماری حالت کو بھی دیکھ رہا ہے کہ ہم سجدہ کرنے والے ہیں اور ایسے دور میں کئے ہوئے سجدے خدا کے زیادہ قریب کرنے والے سردی ہوتے ہیں اور یہی خلافت کی برکات ہیں کہ آج خلافت کے زیر سایہ یہ ہم اللہ کے فضل سے عبادتوں کا بیان کر رہے ہیں سجدہ گاہ کو آباد کر رہے ہیں مسجد بنا رہے ہیں وہ مسجد سے روک رہے ہیں ہم نہیں سے نہیں سکتے بناتے چلے جا رہے ہیں سجدہ گاہیں بناتے تھے جا رہے ہیں سجدے کرتے چلے جارہے ہیں اور خدا کا ہمیں یقین ہے کہ خدا تعالیٰ کا قرب مل رہا ہے اور آئندہ بھی ملتا رہے گا یہ برکات ہیں جو خلافت کے ساتھ وابستہ ہیں اور اس زمانے میں وابستہ ہے اور یہ برکاتہ اپنی آنکھوں سے دیکھ بھی رہے ہیں اور ان شاء اللہ العزیز ہم آئندہ بھی برکت دیکھتے چلے جائیں گے جنہوں نے سوال کیا تھا کہ جماعت احمدیہ کے طریقے سے پتہ چلتا ہے کہ جماعت احمدیہ کے چوتھے خلیفہ حضرت عمر رضی اللہ عنہ کے زمانے میں پھر اللہ تعالی نے ابراہیم جان رنگ میںشہر کے مختلف ادوار میں جماعت کے خلاف مختلف تحریکیں اٹھتی رہیں اس کا تفصیل کے ساتھ میں نقشہ کھینچا ہے اور اس میں انیس سو چوراسی کے جو حالات ہیں وہ بھی انہوں نے بیان کی ہیں تو اس کی مختصر ایسی بات اپنی بات کو یاد کروں گا ضیاء الحق نے جو انیس سو چوراسی میں جماعت کے خلاف ایک وصال نہ انڈین صدارتی آرڈیننس جاری کیا جس میں جماعت کے بنیادی حقوق کے لیے جس طرح انہوں نے فرمایا کہ اس میں تمام بنیادی حقوق سے محروم کردیا گیا اور جس طرح انہوں نے فرمایا کہ اصل میں یہ حملہ تھا اور حقیقت بھی یہی تھی کہ خدا تعالی نے معجزانہ طور پر ان کی آنکھوں کے سامنے خلیفہ وقت کو وہاں سے نکالا اور باحفاظت خدا تعالیٰ نے محفوظ جگہ پر خلیفہ بنایا تو اس کے بعد جو ضیاء الحق کی جو احمدیت دشمنی تھی وہ بجائے کم ہوتی وہ بڑھتی گئی اور احمدیوں کو پاکستان کے اندر ان پر زمین تنگ کر دی گئی شہید کیا گیا ان کے گھروں کو جلایا گیا ان کے گھروں کو لوٹ آ گیا ان کے ان کے مال کو مال و دولت کو لوٹا گیا اور ان مسجد مسمار کی گئی اور مسلمانوں پر تعیناتیوں پر میں جب اس کا ظلم حد سے بڑھ گیا تو حضرت خلیفۃ المسیح ابن بالآخر اس کو یہ فرمایا کہ اگر تم احمدیوں پر ظلم سے باز نہیں آؤ گے تو پھر کون عطا اللہ کی پکڑ میں آئینگے اور کسی پر احمدیوں پر ظلم کی وجہ سے پریشانی کا اظہار نہیں کرو گے تو پھر خدا تعالیٰ کی پکڑ تم سے دور نہیں ہے نعت حضور نے قرآن کو چیلنج کیا جا سکا اس نے جواب نہیں دیا پھر اس کے بعد انہوں نے فرمایا کہ اگر اب یہ جواب نہیں دیں گے 12 اگست 1919 وسطیٰ اسی کے خطبے سونیک اب اگر انیس سو ستاسی کے خطبہ میں حضور نے فرمایا کہ اگر اب یہ میری اس بات کا جواب نہیں دے گا تو خدا تعالیٰ ان کو نہیں چھوڑے گا اور حضرت علی کی گرفتاری عذاب سے نہیں بچ سکے گا اور یہ اب واپسی کے تمام سارے بند ہوچکے ہیں اور یہی ہم نے دیکھا اور دنیا نے دیکھا کہ خدا تعالیٰ نے کس طرح اس کو نشان عبرت بنا دیا اور تمام تحقیقات کے باوجود آج تک گورنمنٹ پاکستان اور تمام ادارے اس بات کو ثابت نہیں کرسکے اس حادثے کے اندر کوئی انسان یہ تھا کہ یہ کتنی بڑی زبردست خلافت احمدیہ کی صداقت کے لیے دلیل تھی کہ آج 1988 میں تھا اس کی ہلاکت کے بارے میں جو بھی فرمائی تھی مگر ہمیں کس طرح روز روشن کی طرح پوری کی اور ہم نے ہم سب نے دیکھا اور دنیا نے دیکھا کہ خلافت احمدیہ اور احمدی آج بھی اللہ تعالی کے فضل سے تمام دنیا میں کے حضور دعا کرنے والے خدا تعالیٰ کی عبادت کرنے والے ہیں اور آج جو جو اسلام اور مسیحیت کو پاکستان سے مٹانا چاہتا تھا وہ آج خلافت بھی قائم ہے احمدی بھی قائم ہے اور ہر جگہ پر قائم ہے لیکن جو مٹانے والا ہے وہ اس وقت دنیا میں موجود اللہ تعالی نے اس کو نشان عبرت نہ کیا تو ہماری گفتگو آگے چلاتے ہیں جو قرآن مجید میں حضرت آدم علیہ السلام کے متعلق فرماتے ہیں نجات خلیفہ سے جاری ہے تو کیا یہ خلافت بھی اسی طرح کی ایک مضبوط ہے وہ مقام ہے تو اس حوالے سے کچھ وضاحت فرما دیں اور نبوت کی مختلف اقسام رہی ہیں بعض خلافت ایسی بھی تھیں جو خلافت کے ساتھ اللہ تعالی نے ان کو نبوت بھی عطا کی تھی جیسے حضرت آدم علیہ السلام حضرت داؤد علیہامت کے اندر بادشاہت اور مودی کی ہوتی تھی یہ چیزیں تھی لیکن تیسری قسم کی خلافت ہے وہ یہ ہے کہ نبوت و خلیفہ نبی بھی ہوتے رہے ہیں اور غیر نبی بھی ہوتے رہیں اب نبی خلیفہ کے بارے میں جیسے حضرت ہارون علیہ السلام کا قرآن کریم میں حضرت موسیٰ علیہ السلام نے فرمایا کہ فنی کی قومی کے میرے بعد میری قوم میری جان نشینی کا گانا کا خیال رکھنا جو حضرت موسی علیہ السلام کے نبی جو کام نبی کے سپرد ہوتے ہیں خلیفہ جو اس کا ہوتا ہے جو اس کا جانشین ہوتا ہے اس کے وہی کام ہوتے ہیں جو اس کے جس کا جانشین ہوتا ہے تو حضرت موسی علیہ السلام کی طرف سے قرآن کریم میں اس کا ذکر ہے کہ خلیفہ کو میری قوم میری جان سے نکاح مراد یہ ہے کہ جو میرے کام ہیں وہ کام اس قوم کے اندر کا خیال رکھا کرو اس میں جاری رہا رہی تو حضرت محمد مصطفی صلی اللہ وسلم کی امت کے اندر یہ دونوں قسم کی خلافتیں جاری رہی ہیں یعنی حضور صلی وسلم کے فورا بعد کے خلاف جاری ہوئی ہے وہ علیٰ منہاج النبوۃ و تھی لیکن وہ نبی نہیں تھے وہ صرف خلفاء تھے اور وہاں حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے ہی کام کو آگے بڑھا رہے تھے اور دوسرا ایسا خلیفہ بھی عطا کیا جو نبی تھا کیونکہ جو پہلی قومیں ہو نہیں سکتا کہ تمام مصطفی صلی اللہ وسلم کو نہ ملے اور آپ کی عمر تم سے محروم رہے ان حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام حضرت اقدس محمد مصطفی صلی اللہ وسلم کے خلیفہ تھے اور نبی تھے یعنی حضرت محمد مصطفی صل وسلم کی شریعت کو آپ ہی کاموں کو آگے بڑھانے والے تھے آپ کے ذریعے سے دوبارہ اللہ تعالی نے خلافت علی منہاج نبوت کا انکار کردیں اور اس وقت جو خلافت ہے وہ بالکل اسی طرح جیسے حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد ہوئی تھی کہ وہ خلیفہ تھے نبی نہیں تھے تھے آج بھی حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے ذریعے جب دوبارہ خلافت علی منہاج نبوت قائم کی گئی ہے خدا کی طرف سے تو آپ جو خلفائے کرام تشریف لا رہے ہیں وہ خلیفہ توہین نبی نہیں کی خلافت کی آتی ہے ان کے خلاف جاتی ہے بلکہ ڈکٹیٹرشپ کے ساتھ بھی وہی کرتے ہیں کہ خلافت صرف اس طرح کی چیز تو ہم تو بلکہ کہتے ہیں کہ نہیں حقیقت ہے یا پہلے نبوت کی تفسیر میں ہے اگر آپ اس کے خلاف ہے جس کا ذکر ہم کر رہے ہیں نہیں ہے یہ دراصل ایسا اعتراض اسلامی خلافت کے نظام کی خصوصیات سے ناواقفیت کی وجہ سے پیدا ہوتا ہے کہ راشدین کے دور کو دیکھا جائے اس کے بارے میں علم ہو تو اس طرح کا اعتراض ہو ہی نہیں سکتا اب دیکھیں ایک ڈکٹیٹر جو ہے وہ ایک قانون کو توڑتا رہتا ہے کسی پر ظلم کر کے آتا ہے وہ اپنے آپ کو سب سے بہتر سمجھتا ہے اور پھر وہ اس مقام پر فائز ہوتا ہے لیکن خلیفہ جو ہوتا ہے وہ شخص اپنے آپ کو پیش نہیں کرتا ہے فرماتا ہے ان اللہ یامرکم ان کی جماعت کے ذریعہ خلیفہ کا انتخاب کرتا ہے اور کہاں ایک اسلامیہ دوسری بات یہ ہے کہ خلافت اسلامی وہ انسانی حقوق میں مساوی ہے مثلا یہ بات تو دوسرے حکام ہے اور ہمیں نظر نہیں آتی خلیفہ عدالت کے ذریعے اپنے حقوق لے بھی سکتا ہے اور عدالت کے ذریعہ خلیفہ کے حقوق کے لیے بھی جا سکتے ہیں اس میں حضرت عمر رضی اللہ تعالی عنہ کے واقعات ہیں ان میں سے ایک کی طرف اشارہ کر دیتا ہوں بڑا ہوا تو لین دین کا جھگڑا اس وقت ایک مشہور عادل قاضی شریح کے پاس پہنچا وہ حضرت عمر کے خلاف فیصلہ فرمایا اور حضرت عمر نے اس کے خلاف اس کے فیصلے کو پسند فرمایا اور اس کی ایمانداری کی دعوت دی تو اس لیے لیکن ایک ڈکٹیٹر کو ہم دیکھتے ہیں کہ وہ اس وقت کا جو حکمران ہوتا ہے وہ کسی بھی لحاظ سے کسی عدالت کے سامنے اور پابند ہوتا ہے اس کو یہ بھی اللہ تعالی کی طرف سے پشاور فلم دے وہ ان احکامات میں ان ان ان میں وہ مشرک بھی اس کے لیے رکھا گیا عمر نے فرمایا لا خلافت اور ہے لیکن یہ ضروری نہیں ہے کہ خلیفہ وقت جو ہوتا ہے وہ اس مشورہ پر عمل بھی کرے کیونکہ فرمایا تھا عزمت فتوکل علی اللہ از ازل گفتم کہ جب بچے بڑے سب کے لینا چاہیے لیکن خلیفہ کے پاس یہ اختیار ہے کہ ان تمام معاشروں کو راضی کر سکتا ہے اور مشوروں کو قبول نہیں کر سکتا ہے لیکن جب خلیفہ ایک ایک چیز کا ارادہ کرتا ہے تو پھر خود خدا تعالیٰ ان ارادوں میں برکت ڈال دیتا ہے اب حضرت ابوبکر کے زمانے میں دیکھیں یہ پہلے بھی مثال بیان ہوچکی ہے کہ تمام صحابہ ایک طرف تو تم بھی تھے کہ جب یہ جو خلیفہ بنے حضرت اسامہ کا لشکر اس کو نہ بیچا جائے ایسے حالات تھے لیکن حضرت عمر حضرت ابوبکر صدیق میں نے اس کو بھیجا اور ان کے مشورے کو رد کر دیا اسی طرح جب مرتدین کا معاملہ آیا تو اس نے بھی دوسرے صحابہ کی اور ایک تھی لیکن حضرت ابوبکر صدیق کی اور اسی رائے کو یہ پتا نہیں اس میں برکت بخشی اسی طرح ہم یہ دیکھتے ہیں کہ خلیفہ راشد جو ہے وہ علی بلند مقام بلند اخلاق کا مالک ہوتا ہے وہ لوگوں کا امام ہوتا ہے لیکن ایکٹر جو ہے اس میں اخلاق اخلاق صداقت وہ تمام اخلاقی ہیں وہ اس میں ہمیشہ کٹر میں وہ چیز نظر نہیں آتی خلیفہ جو ہوتا ہے وہ کسی سیاسی تنظیم سے تعلق نہیں ہوتا بلکہ وہ ایک باپ کے مرتبہ پر ہوتا ہے اور وہ ہمیشہ انصاف اور عدل کی حکومت کو دنیا میں کام کرتا ہے لیکن ایک بیٹا جو ہے وہ عدل اور انصاف کی دھجیاں اڑا تا ہے وہ صرف اپنی خاطر اپنا اس کا دل ہوتا ہے اپنی ذات کے لیے انصاف ہوتا ہے وہ اپنے لیے وہ دوسروں پر ظلم کرتا ہے جبکہ خلیفہ جو ہے وہ مظلوم کیا ہم آواز بنتا ہے اور وہ وہ ہمیشہ مظلوم کی راحت اور امن کی خاطر وہ اپنے من کو قربان کرتا ہے اسی طرح ایک جو ہے وہ اپنی حکومت کو اپنی سربراہی کو طول دینے کے لئے دوسروں کے حقوق سنتا ہے اور وہ دن رات اس چیز میں لگا رہتا ہے کہ کس طرح اس کی حکومت میں ہے وہ لمبے لمبے عرصے تک چلی لیکن جو خدا تعالیٰ کا خلیفہ ہوتا ہے اس کا ایک ہی کام ہے کہ خدا تعالیٰ کی بادشاہ دنیا میں کیسے کام ہو تو اللہ کی توحید کو کس طرح سے دنیا میں پھیلایا جائے اور یہ توحید کس طرح ہر دل میں داخل ہو یا خلیفہ وقت ہے ایک اسلامی خلیفہ کا کام ہوتا ہے اس لئے یہ بالکل غلط بات ہے اور خلیفہ کا یہ آپس میں موازنہ کیا ہی نہیں جاسکتا ہے ایک چھوٹا بڑا بچے سے لے کر دیکھ لو محبت میں سرشار اور اپنے آپ کو قربان کرنے کے لیے تیار ہےدیتے ہیں ہم کی سالیاں شامل کر لیتے ہیں تو انہوں نے پچھلے پروگرام میں ہم سے سوال کیا تھا کہ جماعت احمدیہ میں وسطی مقبرہ ہے جو سارا قصور ہے اس حوالے سے دو جگہ دے دیں گے اور کہاں پر ہے کہ لوگوں کو انکے نظریات جو بھی اس کے بارے میں ہے لیکن میں اس سے اختلاف ہے بھی تعلق ہے صحافت کے زیر نگرانی ہے تو اس طرح سے بھی کرے سکتے ہیں تو شریف سے درخواست کریں گے کہ آپ ہمیں اس بارے میں بتائیں ہمارے پاس کے منتظر ہیں تو بات یہ ہے کہ جیسا کہ انہوں نے فرمایا ہے کہ کیا پیسے دے کے میں بھی اس نے دفن ہو سکتا ہے مسئلہ یہاں پیسوں کا ہی نہیں یہاں اللہ تعالی کو پیسوں کی ضرورت نہیں اللہ محتاج نہیں ہے کسی کا باپ جو اس ان کے قیام کی ہے وہ ہے ایمان اور عمل صالح اور نیک اور متقی افراد ہونے کی کہ یہ ایک ایسا قبرستان ہوگا جس میں ایمان لانے والے حملے کرنے والے نیک اور متقی اور جو خدا تعالیٰ کے حقوق ادا کرنے کے ساتھ ساتھ خدا کے بندوں کے حقوق ادا کرنے والے لوگ ہیں ان کو یہاں دفن کیا جائے گا لیکن جہاں تک پھر مالی قربانی کا تعلق ہے وہ تو خدا تعالی نے خود فرمایا ہے کہ جب عبادت اور نیک اور متقی کی بات ختم کرتے ہیں تو متقی تو ہوتے ہیں وہ ہے جو اس کو جب خدا کی راہ میں خرچ کرنے کے لیے کہا جاتا ہے کیونکہ ہوسکتا جب تک خدا کی راہ میں کوئی انسان صرف نہیں کرتا اگر اس کے پاس ہے چوتھے پارے کی پہلی آیت ہے البتہ اس سے کہو کہ تم کسی نیکی کو پہنچی نہیں سکتے جب تک تم اس خدا کی راہ میں خرچ نہیں کرتے جو دل سے محبت کرتے ہو یعنی اس میں عام نہیں ہے ایسا کرکے جواب دینے کے بعد آپ کو محسوس ہو جیسے بہت محبت کرتے ہو ئے دو روپئے 12 جاپان دینا نہیں ہے تو یہ چیز ہے کہ اس چیز نے توجہ رکھا گیا ہے پیسوں کا وہ بھی دراصل پچھلے سال اور تقوے کے پیش نظر رکھا گیا اور یہاں گے پھر خدا تعالی نے میں مزید ایسے آپ کی خدمت میں پیش کروں گا لیکن افسوس سے کہنا پڑتا ہے کہ بہشتی مقبرہ کے بارے میں بہت ساری غلط فہمی ہے آپ بے سروپا باتیں ہیں یہ لوگوں نے پھیلائی جاتی ہے اور پھیلائی جا رہی ہیں کہ انہوں نے جنت بنائی ہوئی ہے دوست بنائی ہوئی ہے جو پیسے دیتے ہیں ان کو جنت میں دفن کرتے ہیں جو نہیں دیتے وہ دوسرے جو ہیں وہ نعوذ باللہ قرار دیتے ہیں یہ باتیں بالکل غلط ہے نہ ہم نے تو جنت بنائی ہے وہ بہشتی مقبرہ اس کو ضرور کہتے ہیں مقبرہ کہتے ہیں اس کو بھی یہ ہمارا ایمان ضروری ہے کہ جو شرائط اس میں دفن ہونے کے لیے ہیں ان کو پورا کرتا ہے تو ہم کیوں نہ سمجھے ہی کیوں نہ ہو یقین رکھیں کہ اللہ تعالی ان سے رحمت کا سلوک فرمائے گا ان کو اجر عطا فرمائے گا ان کو جنت میں داخل کرے گا کیوں کہ ایسے کام کرنے والوں کو خدا تعالی ان کو جنت قرار دیا ہے اور دوسری بات یہ کہنا کہ جو وہاں دفن ہیں ان کے بارے میں ہم یہ سمجھتے ہیں کہ دوزخ میں بالکل ٹوٹل غلط بات ہے لیکن جہاں تک مالی قربانی کا تعلق ہے ہر احمدی مال کی قربانی کر رہا مگر اللہ کے فضل سے عبادت کا کام بھی کرتا تھا سب کچھ کرتا ہے لیکن کیا خیال ہے کہ جو اس کے علاوہ ایک بٹا سو تو عام آدمی بھی دے رہا ہے تو اس کو ہم کیسے کہہ سکتے ہیں کہ اس کو قبول نہیں کرے گا اس کو جنت میں جنت اور جہنم کا فیصلہ ہم نے آپ نے نہیں کرنا ضروری ہے کہ جو اس سے پہلے دیکھے ہیں کہ غیر احمدیوں کے اندر جو ہماری جماعت میں شامل نہیں ہے کیا ان میں اس قسم کے قبرستان یا مزار موجود نہیں ہے جتنے اولیاء اللہ کے مزار ہیں مختلف شہروں کے اندر کیا ان کو عام قبرستانوں میں کیوں نہیں کیا گیا یہ شروع سے ہی ہوتا چلا رہا ہے پاکستاناشارے کے پیش نظر یہ کیسا قبرستان بنایا ہے جو غیر معمولی حد تک یہی غیر معمولی حد تک بہت سے کام لینے والے ہیں اور اس کی خوبصورت راہ میں قربانی نہ کرنے والے اس کی راہ میں خرچ کرنے والے ہیں ان کے لیے اکٹھا قبرستان بنا دیا جس کے سبب کی قبریں کاٹھی بنا دیں تو اس پر کوئی اعتراض نہیں اور اگر وہ اکٹھا کرکے استعمال کیا جارہا ہے باقی رہا یہ کہ جس پر جو مالی قربانی ہے میں نے جیسا کہ عرض کیا اصل چیز تقویٰ ہے نیکی ہے قربانی کا جہاں تک تعلق ہے بند کمرے کے اندر شامل ہے قرآن کریم میں اللہ تعالی فرماتا ہے ان اللہ اشتری من المومنین انفسھم واموالھم کے لئے خرید لیا ہے مومنوں سے ان کے نفس بھی خرید لیا ان کے مال بھی خرید لیے ہیں کیونکہ ان کے لیے جنت ہے خدا فرماتا ہے کہ جو نفس کے ساتھ نفس میں ساری عبادتیں آجاتی ہیں ساری قربانیاں جاتی ہیں کے بھی انسان کے آ جاتے ہیں جو انسان کا انسان سے تعلق ہے اس ہے وہ بھی بھارت کے اندر آ جاتا ہے کہ کس قسم کا سلوک کر رہا ہے اس کے پاس وسلم نے فرمایا کہ نماز روزہ نہیں ہے اگر کوئی شخص خدا کی رضا کی خاطر اپنی بیوی کے منہ میں لقمہ ڈالنا ہے وہ بھی اس کے لیے بات ہے تو یہ عبادت اور نیکی اور تقوی کے معیار قائم کرتے ہیں اور پھر اپنی آمد کا ایک حصہ مقرر کرتے ہیں تو خدا فرماتا ہے کہ وہ جنتی سورہ انبیاء اللہ تعالی فرماتا ہے حضور کو ملا تجارہ تنجیکم من عذاب الیم کہ میں ایک تاجر تجارت بتاؤں جو تمہیں عذاب الیم سے بچا لے گی تو میں تو نہ ملا ہے وہ رسول ہیں ہو کس چیز کا کیا کرے گا یا غفارالذنوب حکم تمہاری خطاؤں کو تمہارے گناہوں کو معاف کر دے گا ویڈیو دیکھیں جنت میں جنت میں داخل کرے گا تو جب یہ قربانیاں کرنے والوں کے بارے میں خدا خود فرما رہا ہے کہ وہ ان کو خدا جنت میں داخل کرے گا اور یہی وجہ ہے کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے رکھی ہیں کہ جو نیکی پر قائم ہوگا تجھے کے اوپر قائم ہوگا دوسروں سے اس نے سلوک کرنے والا ہوگا حقوق اللہ اور حقوق العباد کرنے والا ہوگا اور اس کے ساتھ پھر یہ جو اللہ نے ان کو دیا اس نے تو اس کو جنت عطا کرے گا اس میں جو ہوگا کیونکہ یہ مجلس خدام کو جانتی کہ رہا ہے تو ہم کرنے والے ہوتے ہیں ان کا معاملہ اللہ تعالی کی ذات کے ساتھ ہے یہ کہنا کہ جن کو تم جلدی کیوں کہ ہم کیونکہ وہ جانتی نہیں اللہ نے کہا کہ وہ جنتی ہیں کیونکہ ہم تو ظاہری عمل کو دیکھیں گے حقیقت میں ان کے عمل باقی وہ خدا تعالی بہتر جانتا ہے ہم آپ کا سوال جواب تو نہیں لیکن سوال آپ کے ساتھ شامل کریں جس علیکم بناتے ہیں کہ کچھ لوگوں کے بارے میں فرماتا ہے کہ ان عبادی لیس لک علیہم سلطان اور پندرہ سال مسلمانوں کے علمی تحریک کو کیا ضرورت نہیں کہ پھر وہ خلیفہ کا موبائل کے طریقے سے نبی کو خراج تحسین ہے ٹھیک ہے ہنسی سبز آنکھوں والا آپ کا ہمیں یہ پوسٹ اور کتاب کا جواب بھی مل گیا ہے عطاء اللہ مومن کے دل پر صرف کرتا ہے زیادہ سے زیادہ کھاتا ہے اس کے بارے میں مزید بھی بات چیت گفتگو کریں گے لازم ہے کہ پروگرام کا اختتام کو پہنچ چکا ہے تو خان صاحب ہمارے علماء ہی فون پر بھی بھیجے تھے جن کا انتظار کر رہی ہے تو تب بھی اس پروگرام کو دیکھے گا تو انشاءاللہ پھرخود اعتمادی ختم عمر میں نسلی لی