Ahmadi Muslim VideoTube Rahe Huda,Youtube Rahe Huda – Musleh Maood Khalifa II Mirza Bashiruddin Mahmood r.a – Ilhamat

Rahe Huda – Musleh Maood Khalifa II Mirza Bashiruddin Mahmood r.a – Ilhamat



Rahe Huda – Musleh Maood Khalifa II Mirza Bashiruddin Mahmood r.a – Ilhamat

Rah-e-Huda – 1st February 2020 – Qadian India


ہے مُسلمانوں کا دیس دل سے ہے خدا میں خط عمل السلام علی دل سے ہے خود آدمی ایمور صلی اللہ علیہ وسلم نے اعوذ باللہ من الشیطان الرجیم بسم اللہ الرحمن الرحیم ناظرین کرام اسلام علیکم ورحمتہ اللہ وبرکاتہ آج یکم فروری انڈیا میں اس وقت رات کے ساڑھے نو بجے ہیں اور چیونٹی کے مطابق اس وقت شہر کے چار بجے ہیں ان حاضری یہ وقت کہاں پر ہے اللہ کا انڈین دارالامان پروگرام رائے کی ایک نئی سیریس لے کر اس وقت ہم آپ کی خدمت میں حاضر ہیں ایم پی اے کی مرضی وہ جانتے ہیں کہ پروگرامر عہدہ کی سیریز میں 4 ایپیسوڈ قادیان دارالامان سے پیش کرتے ہیں اور ہمارا یہ پروگرام نشر کیا جاتا ہے اپنے مجاہدین کو بھی اپنے ساتھ اس پروگرام میں شامل کرتے ہیں اور ان کے سوالات سنتے ہیں اور اس پروگرام کے ذریعے ہیں ہمارے مجاہدین کے سوالات کے جوابات دیئے جانے کی بھی کوشش کی جاتی ہے باہمی رابطہ کرنے کے لئے مختلف سہولیات موجود ہیں جس میں ٹیلیفون لائن ہمارے ہمارے دین کے لئے ایکٹیویٹ ہیں جس کے ذریعہ سے کال کرکے آپ اپنے سوالات ہمارے علماء کرام کے اندر تک پہنچا سکتے ہیں اسی طرح ٹیکسٹ میسجز میں سائنس کی بھی سہولت موجود ہے جس کے ذریعے ہے پہنچا سکتے ہیں ہمارے ساتھ اس پروگرام میں جوڑنا چاہتے ہیں اور اپنے سوالات پیش کرنا چاہتے ہیں تو میں امید کرتا ہوں کہ اس وقت آپ اپنے کلین پر ہم سے رابطہ کی تفصیل کو ملاحظہ فرما رہے ہوں گے زرین قادیان دارالامان سے پروگرام رابطہ کی دوسری اس وقت ہم آپ کی خدمت میں لے کر حاضر ہوئے ہیں جس کا کہ آج یہ پہلا پی سوڈ ہے جو ہم آپ کی خدمت میں پیش کر رہے ہیں اس میں ان شاء اللہ العزیز ہم حضرت مصلح موعود رضی اللہ تعالی عنہ کی سیرت کے مختلف پہلو کے تعلق سے بات کریں گے جیسا کہ آپ جانتے ہیں کہ ماہ فروری جماعت احمدیہ کی تاریخ میں ایک اہمیت کا حامل مہینہ ہے کیونکہ بات اسلام کو اللہ تعالی نے اسی مہینے میں بھی اس فروری کو ایک ماہ فرزند کی پیشکش کریں عطا فرمائی تھی جس نے دنیا بھر میں اسلام کے پیغام کو پھیلانا تھا کسی تاریخی پس منظر کو مدنظر رکھتے ہوئے اس مہینے میں جو چار ایپیسوڈ پر مشتمل سیریز ہم آپ کی خدمت میں پیش کریں گے اس مکمل سیریز میں ہم حضرت مرزا بشیرالدین محمود احمد جو وہ وہ لڑکے ہیں بانی جماعت احمدیہ حضرت مرزا غلام احمد قادیانی کی جو بعد میں خلافت کے عظیم مقام پر بھی متمکن ہوئے اور اسلام کی جنگ میں خدمات کیا ہیں کو جماعت احمدیہ میں مسلم عود کے نام سے جن کو یاد کیا جاتا ہے ان کی سیرت کے مختلف پہلو کے تعلق سے ہمراہ کی سیریز میں روشنی ڈالنے کی کوشش کریں گے اور آپ کی خدمت میں معلومات بہم پہنچانے کے حوالے سے ہم کوشش کریں گے گے ہم بات کریں گے کہ اللہ تعالی کی ہستی کے ثبوت کو دنیا کے سامنے واضح طور پر پیش کرنے کے لئے حضرت مصلح موعود رضی اللہ تعالی عنہ کے جو عظیم الشان کرنا میں رہے ہیں اس کے حوالے سے اہم موضوع پر گفتگو کے لیے جو علماء کرام اس وقت ہمارے ساتھ قادیان سوال کرتے ہیں ان کا تعارف کروا دیتا ہوں مگر محترم مولانا محمد کریم الدین صاحب ہیں اور ان کے ساتھ تشریف رکھتے ہیں مکرم و محترم مولانا عطاءالمجیب صاحب جو ان دونوں حضرات پروگرام راہداری قادیانی سیریز کے پہلے ٹیسٹ سے معروف ہیں آپ دونوں حضرات کا پروگرام ہے تو خیال کر ناظرین کرام بانی جماعت احمدیہ حضرت مرزا غلام احمد قادیانی مسیح موعود و مہدی معہود علیہ السلام کی زمانے میں ہندوستان میں زمانہ دراصل ہندوستان جو کہ ایک مذہبی اکاڑہ کے طور پر جانا جاتا تھا اس زمانے میں اس زمانے میں اسلام اور مسلمانوں پر چوطرفہ مل ہو رہا تھا عیسائیت اسلام کو مٹانے کے عزم سے ہندوستان میں اپنے مشنری کے ذریعہ سے کام کو جاری رکھا ہوا تھا ہندو صاحبان بھی اسلام اور مسلمانوں کو کمزور کرنے کے لیے منصوبے بنا رہے تھے تیسری طرف مسلمانوں کی خود اپنی حالت اس قدر کمزور تھی کہ ہستی باری تعالی سے اور خدا تعالیٰ کی مختلف صفات سے ان کا یقین اٹھ گیا تھا اور چوتھے طرف جب ہم دیکھیں گے تو مغربی تہذیب اور نیچریت کے خیالات ہندوستان میں پھیلنے لگا جس کے نتیجے میں یہاں کی عوام کو یکسر بھلا بیٹھا تھا حضرت اقدس مسیح موعود علیہ السلام نے دنیا کے سامنے یہ اعلان فرمایا کہ اسلام توحید کا علمبردار مذہب ہے اسلام ایک زندہ خدا کا تصور پیش کرتا ہے اور اگر زندہ خدا کے نشانات کو دیکھنا چاہتے ہیں تو میرے پاس آئی میں وہ زندہ خدا آپ کو دکھاؤں گا چنانچہ حضرت اقدس مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام نے دنیا بھر میں نشان مائی کا اشتہار شائع کرکے تقسیم فرمایا جس میں آپ نے تمام دنیا کو دعوت دی ہے کہ اگر کوئی خدا تعالیٰ کی ہستی کا ثبوت تو وہ میرے پاس آئے میں اس کو اپنے ذاتی تجارت سے ایسے نشانات دکھاؤں گا جس کے نتیجے میں خدا تعالیٰ کی معرفت اس کو عطا ہوگی جب آپ علیہ الصلاۃ والسلام نے دنیا بھر میں اس کا اعلان فرمایا تو قادیان کے باشندے تھے انہوں نے آپ سے مطالبہ کیا کہ آپ تو دنیا بھر میں لوگوں کو نشان ماتھے کی دعوت دے رہے ہیں تو ہمیں بھی خدا تعالیٰ کا کوئی نشان دکھائیں آپ علیہ الصلاۃ والسلام نے اس موقعے کی مناسبت سے آپ نے ضروری سمجھا کہ خدا تعالیٰ کے حضور نذرانہ دعائیں کی جائیں جس کے نتیجے میں قادیان کے باشندوں کو خدا کی صداقت کا ایک ایسا ثبوت اللہ تعالی کی طرف سے عطا کیا جائے جو رہتی دنیا تک ان کے لیے اس کا ثبوت دینے والی کو یقین دلانے والا ایک ثبوت ان کو عطا کیا جائے چنانچہ اللہ تعالیٰ کے اذن سے ہوشیار پور تشریف لے گئے جہاں پر آپ نے چالیس دن کی تلاشی فرمائی اور وہاں پر آپ نے اللہ تعالی کے حضور نذرانہ دعائیں ہیں کہ اسلام کے غلبے کے لیے آپ نے دعائیں کیں اور خدا تعالیٰ کی ہستی سے دنیا کو روشناس کرانے کی توفیق دے جس کے نتیجے میں ایک عظیم الشان پیشگوئی اللہ تعالی کی طرف سے عطا کی گئی جس کو جماعت احمدیہ کی تاریخ میں پیشگوئی مصلح موعود کے نام سے جانا جاتا ہے کوئی مسلم اور ایک عظیم انسان کی ولادت کے تعلق سے ہمیں خبر دیتی ہے جس میں اس انسان کی خوبیوں کا بھی ذکر ہے کہ کس طرح اسلام کی اس عظیم الشان اس کے اندر کیا کیا صفات اللہ کی طرف سے ودیعت کی جائیں گی ان تمام امور کا پیشگوئی مصلح موعود میں اللہ تعالی کی طرف سے وعدہ دیا گیا ہے چنانچہ حضرت اقدس مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام نے اشتہار کی صورت میں وہ جو پیش گوئی ہے اس کو تقسیم فرمایا اور اللہ تعالی کے زندہ خدا کے زندہ نشان کے طور پر آپ نے پیشگوئی مصلح موعود کو دنیا کے سامنے پیش کر دیا بک حضرت مرزا بشیرالدین محمود احمد صاحب کی ولادت حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے ہاں میں ہوتی ہے اور اس لڑکے کو بعد میں جا کر اسلام کی عظیم الشان رنگ میں خدمت کی توفیق بھی ملتی ہے پتی اہمیت رکھنے والے کسی ہیرو کے تعلق سے کوئی پیش گوئی نہیں ہے بلکہ یہ ایک ایسی پیشگوئی ہے جس میں خبر دی گئی ہے جس کے ایسے عظیم الشان کام ہو گئی جس کے نتیجے میں اسلام کی شان و شوکت دنیا میں قائم کی جائے گی اس کی ایسی خدمت ہوگی جس کے ذریعے اسلام کا پیغام دنیا کے کناروں تک پہنچانے کے لیے وہ کام کرے گا اور خدمت کرے گا تو اس عظیم الشان پیشگوئی ظہیر الدین محمود احمد قاضی اللہ تعالی عنہ کے تعلق سے خبر دی گئی ہے جو بعد میں جا کر اللہ تعالی کی قدرت ثانیہ کے دوسرے مظہر کے طور پر خلیفۃ المسیح الثانی کے طور پر جماعت احمدیہ کی قیادت سنبھالنے کا ان کو اللہ تعالیٰ نے توفیق عطا فرما خدمات دنیا کے سامنے پیش کرنے کی توفیق ملی اور آپ رضی اللہ تعالی عنہ کے دور میں ایسا بابر کا دور رہا ہے کہ رہتی دنیا تک وہ خدا تعالیٰ کی صداقت کے ایک ثبوت کے طور پر تمام لوگوں کے لئے قائم رہے گا تو انشاءاللہ عزیز نہیں جیسا کہ میں نے آپ کو بتایا کہ آج کے سوٹ میں ہم حضرت مصلح موعود رضی اللہ تو اس پہلو کے تعلق سے بات کریں گے جس میں آپ نے خدا تعالیٰ کی ہستی کے ثبوت کو دنیا کے سامنے پیش کرنے کے لیے جو کوششیں فرمائیں ہیں اس وجہ سے آج کی صورت میں پیش کریں گے ایک مرتبہ پھر میں اپنے ناظرین کو مجاہدین کو یہ یاد دلانا چاہوں گا کہ کوئی مسلمانوں کے تعلق سے اگر آپ کے ذہن میں کوئی استفسارات ہیں سوالات ہیں ان سب کے لئے ایکٹیویٹ ہیں آپ ہمیں کبھی بھی فون کر سکتے ہیں ہم کوشش کریں گے کہ آپ کی رائے کو مدنظر رکھتے ہوئے آپ کو بھی اپنے پروگرام میں شامل کریں اور آپ کے سوال سنے اور اس کے جوابات بھی پاکستان سے آپ کی خدمت میں پیش کرنے کی کوشش کریں گے اس مختصر سی تمہید کے بعد اس کے علمی گفتگو کا آغاز محترم مولانا محمد کریم صاحب سے کہنا چاہوں گا سب سے پہلے میں آپ سے پوچھنا چاہوں گا کہ ہستی باری تعالی کے ثبوت میں حضرت اللہ تعالی عنہ کے ذاتی تجربہ ہے اس کے متعلق کچھ تفصیل بتائیں کوٹلہ بسم اللہ الرحمن الرحیم ناظرین و سامعین کرام عام طور پر محاورہ مشہور ہے بروا کے چکنے چکنے پات جو درخت بڑا ہونے والا ہوتا ہے اور نشوونما پانے والا ہوتا ہے کتے بھی بڑے اچھے ہوتے ہیں اور خوبصورت ہوتے ہیں اور آہستہ آہستہ پروان چڑھتا ہے بعینہ یہی حالت حضرت مرزا بشیر الدین محمود احمد المسیح الثانی المصلح الموعود رضی اللہ تعالی عنہ کی تھی کون سے ہیں آپ کو ہفتہ سوچ و بچار کرنے کی آپ کو بڑی عادت تھی اب دیکھئے کہ دس گیارہ سال کا جو بچہ ہے کوہ طور پر ہم سمجھتے ہیں کہ بچپن میں کھیل رہے ہوتے ہیں بچے تو کھیلنے کودنے کی عمر ہوتی ہے اس عمر میں بھی آپ کو زیادہ تر توجہ اللہ تعالی کی ذات کی طرف تھی اسلام کی طرف تھی جو بچے نے مجید میں ہے یہ جو ارشاد ہے کہ ان فی خلق السماوات والارض واختلاف اللیل والنہار اتلا پہلے زمین و آسمان کی پیدائش اور رات اور دن کے آنے جانے میں عراق تلافی لیور ناریل آیات بہت سارے نشانات ہیں کس کے لیے جواب جو عقل سے کام لیتے ہیں جو سوچ و بچار سے کام لیتے ہیں تو یہی عادت ہے کہ جب تک انسان کسی بات پر غور و فکر نہیں کرتا ہے اور حقیقت پہنچ حقیقت تک پہنچنے کی کوشش نہیں کرتا وہ دنیا میں کامیاب نہیں ہوتا مسلم اور رضی اللہ تعالی عنہ حضرت مفتی محمود احمد صاحب رضی اللہ تعالی عنہ کی بچپن سے ہی عادت تھی کس طرح سے عقائد کو جو ہے وہ درست سمجھا جائے کیسے ہستی باری تعالیٰ کا ہمیں یقین کریں سنائی بات کو ہم عام طور پر قبول کریں یا یہ کہ آپ نے تجارت سے بھی ان کو حاصل کیا جاسکتا ہے چنانچہ اس زمانے میں جب کہ آپ آپ ایک بیان کرتے ہیں کہ میں نے سنا تھا کہ آگیا سماجی وہ حضرت علی کی اس قدرت پر یقین نہیں رکھتے اور مادہ کو پیدا کر سکتا ہے بلکہ روح مادہ کا خالق نہیں ہے بلکہ ان کو چھوڑ کر باقی کام مکمل کیا کرتا ہے تو آپ کہتے ہیں کہ مجھے بڑا تعجب ہوتا تھا چنانچہ میں آپ کے الفاظ ہیں اس بات کو پیش کرتا ہوں کہ حضور فرماتے ہیں کہ میں نے بچپن میں یہ اعتراض آئی یو کا کہنا تھا کہ خدا کچھ پیدا نہیں کر سکتا وہ کسی چیز کے پیدا کرنے کے لیے روح اور مادہ دونوں کا محتاج ہے ٹھیک ہے ایسے مسائل کو لے کر جو عقل کے مخالف ہوتے ہیں اور کیا کرتا تھا بچپن سے یہ عادت تھی آپ کی غلطی کرکے تم مجھے حضور فرماتے مجھے خوب یاد ہے کہ میں ایک دفعہ رات کے وقت دیوار سے ٹیک لگائے ستاروں پر غور کر رہا تھا میں نے یہ خیال کرنا شروع کیا کہ ان ستاروں کے اوپر بھی کوئی چیز ہے تو میں نے خیال کیا کہ اگر کوئی چیز نہیں تو کھلا ناممکن چیزیں نہ ہو یہ تو ممکن نہیں ہو سکتا اور اگر کہو کچھ اور بھی ہے تو پھر اس کے بعد کچھ اور بھی ہوگا غرض سے اسی طرح سوچتے سوچتے میں نے دیکھا کہ انسان تو اس نظریے مسئلے کو بھی حل نہیں کر سکتا ایسا مسئلہ جو کہ سوچ بچار کے پیار کرنے کے قابل ہوتا ہے اس کو نظریں کہتے ہیں تو ضرور فرماتے ہیں کہ دیکھا کہ انسان تو یہ نظریہ مسلے کو بھی حل نہیں کر سکتا اور اس سوال کے دو ہی جواب ہے اور تو نہیں ناممکن ہے تو یہ سوچ بچار کی عادت ہی ایسی تھی کہ آگے آپ نے یہ بھی فرمایا ہے میرا ایمان ہے میں اپنے والد صاحب کا دعویٰ ہے کہ میں مسیح موعود ہو ان کی غلامی مجھے نبوت کا ادا کیا گیا ہے تو ایسی صورت میں میں نے سوچا یہ سنائی بات ہے کیا واقعی میں میرے والد جو ہے وہ بس یہ محمود ہیں خدا تعالی سے آپ کا تعلق ہے تو اس بارے میں پھر میں نے غور کرنا شروع کیا اور میں نے دل میں یہی ارادہ کیا تھا کہ اگر میری سوچ اس قابل ہوئی کے واقعات پر ہے اور صداقت پر ہیں تو میں کال کرلونگا ورنہ میں نے دل میں ارادہ کیا کہ وہ میں گھر چھوڑ کے بھاگا کی سوچ جس کی ہوں بچپن سے ہی نازک مسائل پر غور کرنے کی عادت تو اس بارے میں ہستی باری تعالیٰ کے تعلق سے بھی آپ نے غور کرنا شروع کیا تو نیچے آپ ہی کے الفاظ میں یہ بات بیان کرنا چاہتا ہوں آپ فرماتے ہیں کہ جو میں میرے قلب کو اس کی طرف توجہ دلانے کا کیا ہوا یہ اس وقت آپ کی عمر فرماتے ہیں اس وقت میں گیارہ سال کا تھا سو میں گیارہ سال کی عمر آپ کی تھی تو وہ فرماتے ہیں کہ میرے قلب کو اسلامی احکام کی طرف توجہ دلانے کا یہ سال ملا ہوا اس وقت میں لگتا تھا حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے لیے کوئی شخصیت کی قسم کا کپڑا کپڑے کا ایک بال آیا تھا میں نے آپ سے پہلے لیا تھا اور خیال سے نہیں بلکہ اس لیے کہ اس کا رنگ اور اس میں اس کے دامن میرے پاؤں سے نیچے لٹکتے رہتے تھے تو یہ خیال آیا تو پھر اگر میں گیارہ سال کا ہوا اور انیس سو نے دنیا میں قدم رکھے رکھا میرے دل میں خیال پیدا ہوا خدا تعالیٰ پر کیسے ایمان لاتا ہوں اس کے وجود کا کیا ثبوت ہے میں دیر تک رات کے وقت اس سوال پر سوچتا رہا اللہ تعالی نے فرمایا دفع کرو نا فی خلق السماوات والارض بارے میں یہ بنیادی چیز ہے اللہ تعالی نے توجہ دلائی ہے کہ غور و فکر کرو یہ زمین و آسماں جو بنائے گئے ہیں یہ اپنے آپ تو نہیں ہو سکتے تھے محرم کو ان کا حق ہوگا تو حضور فرماتے ہیں کہ میرے دل نہیں ہے اس وقت اس پر رات کے وقت سوچتا رہا آخر دس گیارہ بجے میرے دل نے فیصلہ کیا کہ ہاں اے خدا ہے وہ گھڑی میرے لیے کیسی خوشی کی گھڑی تھی جس طرح ایک بچے کو اس کی ماں مل جائے تو اسے خوشی ہوتی ہے اسی طرح مجھے خوشی تھی کہ میرا پیدا کرنے والا مجھے مل گیا انڈیا کا سونگ سننا سنی سنائی بات جو ہوتی ہے اور فرماتے ہیں کہ ہم ایمان علمی ایمان سے تبدیل ہو گیا میں نے تو سنی سنائی بات تھی لیکن اب میرے دل میں یہ خیال پیدا ہو گیا ہو حضور فرماتے ہیں کہ علمی ایمان سے تبدیل ہو گیا میں اپنے جامے میں پھولے نہیں سماتا تھا میں نے اسی وقت اللہ تعالی سے دعا کی اور ایک عرصے تک کرتا رہا کہ خدایا مجھے تیری ذات کے متعلق بھی شوق پیدا نہ ہو اس وقت گیارہ سال کا تھا بڑا فرماتے مگر آج بھی اس دعا کو قدر کی نگاہ سے دیکھتا ہوں میں آج بھی یہی کہتا ہوں خدایا تعویذات کے متعلق ابھی تک پیدا نہ ہو ہاں اس وقت میں بچہ تھا اب مجھے ذاتی تجربہ ہے کیا مجھے تیری ذات کے متعلق اقوال یقین پیدا ہو تو یہ دور کی سوجھی شعر کا اندازہ تھا کہ خدا تعالیٰ کو ایسے ہی نہیں مان لیا بلکہ زمین و آسمان کی پیدائش وغیرہ کے بارے میں آپ نے غور و فکر کیا پھر رات آپ نے دیکھا کہ یہ ستارے اور تارے جو پیدا ہوئے یہ آخر کیسے ہیں یہ یا یہ ہے ان کے آگے بھی کوئی چیز ہے تو یہ باتیں بچپن میں یہ دس گیارہ سال کی عمر کا بچہ جب سوچتا ہے تو آہستہ آہستہ اس کا دماغ سوچتے سوچتے اس نتیجے پر پہنچتا ہے کہ نہیں اس کا کوئی خالق ضرور ہونا چاہیے جس سے ان شاء اللہ تعالی آگے دلائیں گے کہ ہستی باری تعالیٰ کے دلائل کے تعلق سے بھی یہ بات آ جائے گی حضور نے بچپن کی عمر صحیح طریقہ آپ کا یہ تھا کہ نہ صرف یہ کہ خدا تعالیٰ کی ہستی کے بارے میں بلکہ اسلام کے بارے میں آپ نے کہا کہ میں مسلمان کیوں یہ ہے کہ مسلمانوں کو اور میرا اعتقاد کیوں نہیں ہے اس پر بھی آپ نے غور کیا پھر یہ کہ میرے والد نے دعویٰ کیا ہے مسیح موعود ہونے کا دعویٰ تو سچا ہے کہ نہیں ہے اگر میں سوچ کر اس نتیجے پر پہنچا کہ آپ کا دعوی سچا ہے تو پھر تو ٹھیک ہے اگر سچا نہ ہوا یا میرے دل میں یقین کیا کہ سچا نہیں ہے تو میں گھر سے نکل جاؤں گا لیکن اللہ تعالی نے آپ کے دل میں آپ کی سوچ ایسی واضح کر دیں تو یہ باتیں ایسی ہیں کہ بچپن سے ہی حضرت مصلح موعود رضی اللہ تعالی عنہ کی ہستی کے بارے میں سوچتے تھے اور پھر اس کے بعد آپ نے ہستی باری تعالیٰ کے تعلق سے ایسے دلائل دیے ہیں کہ ہر قسم کے سوالات کا جواب آپ نے دیا ہے دلائل آپ نے دیے ہیں بحث انشاءاللہ آگے آتی جائے گی تو یہ آپ کے ابتدائی بچپن بچپن کے واقعات ہیں اور پھر اللہ تعالی کے فضل سے جب آپ کو اللہ تعالی نے بلوغت تک پہنچایا مسیح موعود علیہ السلام کے زمانے میں آپ نے اسلام کی خدمت کے لیے جو قدم اٹھائے ہیں شیر علی خان کا رسالہ میں شائع کرنا شروع کر دیا اس میں بھی ایسے مضامین لکھے جو اسلام کی حقیقت پر ہنستی ہے اللہ آپ نے جاری کروایا حضرت خلیفہ اول کے زمانے میں بھی آپ نے اسلام کی خدمت کے لیے کمر بستہ رہ کر ہر قسم کے دلائل کا رد کرنا جو اعتراضات اسلام پر ہوتے تھے ہستی باری تعالیٰ پر ہوتے تھے ان تمام کام کرنا شروع کیا اور ایسے معقول دلائل دیے بلدیہ کوئی شخص کسی قسم کا بھی اعتراض کر کرے تو بھی اس کا جواب قرآن مجید سے دوں گا تو قرآن مجید کے تعلق سے بھی انشاءاللہ ہماری بحث آئے گی کہ آپ کو اللہ تعالی نے کس قدر قرآن کا علم نہیں تھا کہ وہ اس موضوع پر ان شاء اللہ اس میں تفصیل مزید آئے گی تو حضرت خلیفۃ المسیح الثانی رضی اللہ تعالی عنہ کی سیرت کا یہ نمایاں پہلو باری تعالیٰ کا آپ کا ایمان سے معافی نہیں تھا سنی سنائی بات آپ کی نہیں تھی بلکہ غور و فکر کے آپ بھی اس نتیجے پر پہنچے کہ اس تمام کائنات کا آخر پیدا کرنے والا کوئی نہ کوئی موجود ہونا چاہیے ہوگئی ہے بلکہ اس کا پیدا کرنے والا ہے یہ کیوں اس واسطے کہ اتفاق سے جو چیز پیدا ہوتی ہے اس کے اندر یہ چودتی بابا بلھے شاہ کلام نہیں رہ سکتی ہے جو بات بھی ہوتی ہے وہ گھڑی میں کچھ ہوتی ہے گھڑی میں کچھ ہو جاتی ہے اس کے اندر جو ہے نظام نہیں ہوتا تو جو یہ نظام چل رہا ہے یہ بتانا ہے کہ اس کا کوئی خالق ہے ترتیب کے ساتھ یہ تمام کائنات پیدا کی ہے تو یہ باتیں سوچ سوچ کے آپ نے اس کے دس گیارہ بجے رات تک اپنے آپ پر غور کیا اور غور کرنے پر اس نتیجے پر پہنچا کہ یہاں خدا واقعی موجود ہے اور آپ کو پھر جب بلوغت کو پہنچے ہیں جب آپ آئے تو پھر آپ نے کہا کہ اے خدا تیری ہستی کے بارے میں تو مجھے کوئی شک نہیں ہے اور آئندہ کبھی کبھی پیدا نہ ہو ہاں میں یہی دعا کرتا ہوں کہ تیری ہستی سے متعلق آپ مجھے حق یقین پیدا ہونا چاہیے اور اللہ تعالی نے وہ بھی آپ کو پیدا کرکے دے دیا کیوں آپ کا تعلق کہاں سے ہو گیا مسلم عورت کی پیشگوئی میں یہ بھی تھا کہ یہ جو نشان حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کو دیا جا رہا ہے یہ رحمت اور قدرت کا نشان ہے اللہ اسے اللہ تعالی کا قرب بھی آپ سے حاصل کیا اور اللہ تعالی سے جو تعلق آپ کا تھا وہ بہت سارے رویہ کشوف و الہامات بھی ہیں جن کا ان شاء اللہ تعالی اپنے وقت پر ضرور ہوتا رہے گا ذکر ہوتا رہے گا تو بہار آپ کا جو ایمان ہے ہستی باری تعالیٰ کے متعلق سنی سنائی بات نہیں تھی سوچ بچار کے بچپن سے ہی آپ نے اس کو ڈیولپ کیا اور اس کے بعد پھر ایسی اللہ تعالی کے ساتھ قربت حاصل کی ہے کہ اللہ تعالی سے ایسا رابطہ ہوا کہ اللہ تعالی کے ہاں سے آپ کا علامات بھی آپ کو ہوئے رویے اور خوش ہوئے اور بہت سارے ایسے رویے جو اپنے اپنے وقت پر پورے ہوتے رہے ہیں تو یہ ثبوت اس بات کا کہ اللہ تعالی موجود ہے اللہ تعالی کی ہستی موجود ہے اللہ تعالی نے اپنے بندوں کے ساتھ اپنا تعلق قائم کر کے یہ ثابت کر دیا کہ میں موجود ہوں اور خود اندر موجود ہیں اور وہ تمام لوگوں کو یہ تسلی دیتا ہے اور اس کے بارے میں ان شاء اللہ آگے بھی حسن رضا قادری نعت عبداباسط ٹیلی فون کالز کی طرف ہم جاتے ہیں ان کو بھی اپنے پروگرام میں شامل کرکے ان کا ان کے سوالات سنتے ہیں سب سے پہلے ہم بات کریں گے بنگلہ دیش سے مکرم عرف الزمان ہیں جو کہ سولہ لائن پر موجود ہیں اور اپنا سوال پیش کرنا چاہتے ہیں طارق زمان صاحب السلام علیکم ورحمۃ اللہ اللہ وبرکاتہ پھر آپ لوگ دوسرا بات یہ ہے کہ مسلمانوں کو قرآن نے مسلمانوں کے بارے میں جو اظہار کیا تھا اور ابو کے نام سے تاریخ میں میرا سوال ہے اس کا نام کیا رکھا ہے دوسرا سوال ہے وہ تین کو چار کرے گا یہ بات کا فلم چاہیے جزاک اللہ شکریہ محترم مولانا طالوت صاحب سے درخواست کروں گا ان کا سوال جو ہے کہ سبز اشتہار کا نام سبز اشتہار کیوں رکھا گیا ہے اس سے تھوڑی وضاحت پیش کرتا ہوں کہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام نے مصلح موعود کی بشارت اللہ تعالی نے اپنے صلاۃوسلام کو عطا فرمائے آپ نے 20 فروری 1986 اشتہار اس تعلق سے شائع فرمایا جس میں پیشگوئی مصلح موعود کا تفصیلی ذکر کیا ہے اور کہاں ہے یہ بات پھر 1887 میں آپ کے ہاں ایک بیٹا پیدا ہوا اور چند ماہ زندہ رہ کر اس کی وفات ہوگئی چنچی جو مخالفین تھے کیونکہ آپ پہلے مسلح موت بیٹے کی بشارت کے تعلق سے پیش آیا کرتے تھے کہ اپنے اشتہار میں تو مخالفین جو تھے انہوں نے اعتراض شروع کر دیا کہ یہ لو جی انہوں نے تو کرلی تھی لیکن بیٹا پیدا ہوگیا وہ پیدا ہوکر تو اس طرح کے مختلف قسم کے اعتراضات ہر طرف سے ہونے لگے اور بالآخر ہم نے سالوں سے اٹھائے چنانچہ اسلام آباد اور اشتہارات بھی تعلق سے شائع فرمائے تھے لیکن ایک اور اشتہار پر اعتراضات کے جوابات میں حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام نے فرمایا جن میں اعتراضات کے جوابات آپ نے بیان فرمائے اور اس بات کو واضح فرمائیں بھلا ہوا اس کے بارے میں کہیں پر بھی نہیں بتایا گیا تھا کہ یہی موضوع ہے اور حالانکہ اس نے عورت کو بیٹا پیدا ہوگا نو سال کے عرصے میں کسی کو پیدا ہوگا تو ایک اشتہار اس مضمون پر مشتمل حضور علیہ الصلوۃ والسلام نے ارشاد فرمایا اور اس اشتہار کو سبز رنگ کے کاغذ پر شائع کیا گیا جس کی وجہ سے اس پر رکھا گیا اور یہ اشتہار جو ہے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کی کتب کے مجموعے روحانی خزائن کی جلد میں موجود ہے تو یہ اس بظاہر کی مختصر میں نے پہلی نظر بتایا اور سب سے اس کا اصلی نام کیا ہے جس پر اس کو شائع کیا گیا تھا دوسرا سوال ان کا کہنا تھا کہ تین کو چار کرنے والا حضرت مصلح موعود رضی اللہ تعالی عنہ کے تعلق جو پیشگوئی مصلح موعود ہے 52 کے قریب علامات مسلمہ کے تعلق سے اللہ تعالی نے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کو اپنے الہام کے ذریعے مطلع فرمائیں اب ان صفات کے تعلق سے ان میں سے ایک صفت جو ہے وہ یہ ہے جو الفاظ میں ہے کہ وہ ٹیم کو چار کرنے والا ہوگا اور اس کے ساتھ ہی حضرت مسیح علیہ الصلاۃ والسلام نے پیش گوئی میں ہی الفاظ اپنی طرف سے درج فرمایا ہے کہ اس کی سمجھ میں نہیں آئی کیا ہے مسلمان حسین علیہ السلام نے بیان معنی سمجھ میں نہیں آئے تو اس لیے واضح کوئی تشریح اس وقت حضرت محمد السلام نے نہیں فرمائی لیکن بعد میں مختلف طریقوں کے ذریعے مختلف واقعات جو تاریخ احمدیت میں واقع ہوئے رونما ہوئے ان کے ذریعہ سے ہی پتا لگا کہ کی صورت میں یہاں پورا ہوا اور جس نے ایک میں ذکر کرنا چاہوں گا کہ حضرت مصلح موعود رضی اللہ تعالی عنہ سے پہلے تین مراکز اسلام کے تھے ایک مکہ تھا ایک مہینہ تھا اور ایک مرکز قاریان تھا جو حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے ذریعہ قائم ہوا اور چوتھا مرکز اسلام کا مرکز جماعت احمدیہ کا مرکز آپ رضی اللہ تعالی عنہ نے قائم فرمایا کی صورت میں اس کا نام رکھا تو یہ بھی ایک ایسی پیش گوئی کی کہ پورا ہونے کا ایک نشان تھا جو آپ رضی اللہ تعالی عنہ کے ذریعے ہوا اور اس کے علاوہ اور بھی کوئی ذریعہ سے یہ نشانی حضرت خلیفۃ المسیح الرابع رحمہ اللہ نے ایک موقع پر یہ بھی فرمایا کہ ضروری نہیں کہ جس کے بارے میں پیشگوئی کی گئی ہے وہ ساری ساری نشانیاں اس کے ذریعہ پوری ہوجائے اس کی اولاد کے ذریعے یا اس کی اولاد کی اولاد کے ذریعے باآسانی پوری ہوسکتی ہیں یہ بھی ممکن ہے کہ یہ جو پیشگوئی کے الفاظ ہیں یہ حضرت مصلح موعود رضی اللہ تعالی عنہ کے بعد اور خلفاء کے ذریعے بھی پورا ہو اور آئے بھی پورا ہوتا ہے کرنا چاہتا ہوں کہ ہر مسلمان میں خود علم اور آپ کی تحریر ہے اس میں اس بات کا ذکر کیا اور اس مسلے موت کے پیدائش کی علامت دراصل اس میں بیان کی گئی ہے وہ اس طرح کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی جوہر شادی نہ تھی پہلے دو بیٹے تھے پہلی بیوی سے پھر پنجویں کے بعد جو پہلا بشیر اول پیدا ہوا وہ بھی لڑکا تھا تو یہ تین بیٹے تھے تینوں کو شرک کرنے والا علامات بیان کی ہے چوتھا جو بیٹا ہوگا وہ دراصل اس پیشگوئی کا مصداق ہو گا تو اسے موت اس نے بھی اس کو چسپاں کیا اور جیسا کہ ذکر کیا کہ اس کے بہت سارے توجیہات عام طور پر لوگ کیا کرتے ہیں تو بھارت باقی اللہ تعالیٰ بہتر سمجھتا ہے اور کس کس نبی کی باتیں خواجہ عبدالمومن صاحب ہیں ناروے سے انہوں نے آف لائن اپنا سوال ہمیں بھجوایا ہے محترم مولانا محمد کریم الدین صاحب شاید سے میں ایک سوال پوچھنا چاہوں گا وہ لکھتے ہیں کہ حضرت مسلموں کے بارے میں یہ پیش گوئی ہے کہ وہ تیرے ہی تخم سے تیری ہی نسل سے ہوگا اس پر روشنی ڈالی کیونکہ کی جالی مسلم موجود ہیں جن کا حضور کی ضرورت سے کوئی تعلق نہیں لیکن وہ مسلم ہو کہ جھوٹے دعوے پیش کرتے ہیں محمد تیری ذریت اور نسل ہوگا ارشاد ہے اس میں تو کوئی نہ سمجھنے والی بات ہی نہیں ہے کہ اللہ تعالی نے فرمایا میں تیرا ہی تو اور تیری ضرورت و نسل ہوگا یا ابھی نہیں بلکہ تین سو سال کے بعد ہو گا جا کر اس لئے بہت ہیں اس کی تشریح کر دی ہے کہ بات یہ ہے کہ جیسا کہ بھی پس منظر میں آپ نے ذکر کیا کہ یہ پیشگوئی کب کی کن حالات میں کی گئی قادیان کے لوگوں نے کہا تھا کہ ہم جو دنیا کو عالمگیر طور پر ذیشان بھائی کیا آپ کو دعوت دے رہے ہیں ہم آپ کے پڑوسی ہیں زیادہ حقدار ہیں کہ آپ نے فلم دکھائیں وہ آپ ہوشیارپور میں اپنے چلا کشی کی تو اگر کئی سو سال کے بعد اس نے ہونا تھا یا آپ کی دوری تو نسل میں سے نہیں ہونا تھا تو یہ الفاظ لکھنے کی ضرورت ہی نہیں تھی کہ وہ تیرے ہیں تو اور تیری ہے تو نفل ہو گا جب ہم پر محاورہ بھی استعمال کرتے ہیں کہ بھائی یہ تیرا تو ہے تو اس کا مطلب ہے تیرا ہی بیٹا ہے تیرے نخرے یہ پیدا ہوا ہے اس میں تاویل کرکے اگر کوئی مسلمان ہونے کا دعویٰ کرتا ہے تو یہ ہم کہیں گے کہ اس کی عقل کا دیوالیہ پن ہے دوبارہ دوسری بات اس میں یہ ہے کہ ہم نے اپنے پڑوسیوں کو یہ نشان دکھانا تھا اردو زبان میں پنڈت لیکھ رام اور اندرمن مرادآبادی یہ دونوں ایسے مخالف تھے کہ مسیح علیہ الصلوۃ والسلام کی پیشگوئی کے بالمقابل خاص طور پر لے کر ہم نے یہ دعویٰ کیا تھا کہ اس سال کا عرصہ کام کیا تھا اس نے کا نو سال کا عرصہ تو کیا تین سال کے اندر آپ کا خاتمہ ہو جائے گا میں اپنے طور پر اس نے پیش گوئی کی تھی اور زمین کے کناروں تک شہرت پانے کے بارے میں غزل بن کے کناروں تک کیا ہے وہ تو قادیانی ہے منٹ کے ختم ہو جائیں گے تو اس نے اپنے بالمقابل پیشگوئی کی تھی پھر مسلم عورت کا زمانہ اوکے میں آپ کی پیدائش عمل بنانی تھی آپ کی نسل میں سے نہیں ہونا تھا تو پھر یہ نشان قادیان کے یار غیر مسلم دوستی ان کے لیے نشان کیسے بنتا ہے یہ کہ یہ جاکر کی شادی کے بعد پورا ہونا ہو یا دوسری کے بعد پورا ہونا یہ تو ایسی غلط ہے کہ جن کو نشان دکھانا تھا ان کو دکھایا نہیں بعد میں جو ہے محمد حسین بٹالوی مر گئے سارے مر گئے جنہوں نے نشان دیکھنا تھا وہ مر گئے اور جنہوں نے مطالبہ نہیں کیا تھا ان کو جو ہے وہ کے مسلم اور آپ پیدا ہو رہے ہیں تو بات اصل میں یہی ہے کہ جب اللہ تعالی کا نشان ظاہر ہوتا ہے اور اس کی علامات ظاہر ہوتی ہیں اور اس کے نتیجے میں جو ترقیات کے ذریعے اللہ تعالی نے مقرر کی ہوئی میں جو جیسا کہ آپ نے بھی ذکر کیا 57 علامات اس میں بیان ہوئی ہیں ایک علامت آپ کے اوپر چسپاں ہوتی ہے جب جذب ہونے کے نتیجے میں اللہ تعالی کے ایک عظیم الشان شان عثمان ہوا ان کی دیکھا دیکھی بعد میں آنے والے اگر کوئی دعویٰ کرتے ہیں تو ویسے ہی نہ ماخوذ قسم کی بات ہے مسلمان کہاں سے بن گئے کرنا تو مسیح علیہ السلام کی ضرورت و نسل ہی کوئی ایسی بات بتائیں کہ اللہ تعالی نے وعدہ کیا ہو کہ یہ تو اس مال میں سے ہوگا حضرت ابراہیم علیہ السلام کو اللہ نے وعدہ کیا تھا جو ہے وہ بڑھے گی اور زمین کے ریت کے ذرے تو کہاں جائیں کی جائے گی اور یہ کیا ہے کسی اور زمانے میں جاکے پیدا ہونی تھی یہ تو حضرت ابراہیم کے ذریعہ سے پھر حضرت اسماعیل اور حضرت اسحاق اور یعقوب جو ہے ہے جن لوگوں نے بعد میں دعویٰ کیا ہوئے دیکھا دیکھی دعویٰ کیا جو مسئلہ حضرت مصلح موعود رضی اللہ تعالی عنہ کے ذریعہ سے جماعت کی ترقی ہوئی آپ کا تعلق بلا جو تھا اور آپ کے ذریعہ سے جو نشانات ظاہر ہوئے ان کو دیکھ کر اپنی ایک دوکان داری ان لوگوں نے چلانا شروع کیا ہے پہلے تو نسل ہونے کے علامات اس کے اندر موجود ہیں پھر یہ انکار کرنا کے اس سے مراد ہے کہ اگر کسی زمانے میں جا کر وہ مسیح موعود علیہ السلام کا کوئی موقع ہوگا اگر موجود ہے تو مسلم کی کتابوں سے بھی گیا کہ وہ برگشتہ ہے جس نے مسلمان ہونے کا فیصلہ کیا ہے حضرت موسی علیہ السلام لکھا ہے کہ نو سالہ مدت کے اندر وہ بیٹا پیدا ہوا اب وہ اس کی عمر کتنی ہے اور آپ کا اسی سال سال یہ پیدا ہوتا ہے اور آپ کے علامات بیان کی ہے اللہ کے فضل سے حضرت مرزا بشیر الدین محمود احمد یہ بیٹے ہیں جو ماحول بیٹے ہیں اور آپ کے بعد آنے والے حضرت خلیفہ اول رضی اللہ تعالی عنہ نے بھی ہے آپ نے یہ خاص طور پر آپ کی طبیعت کیسی رنگ میں کیا آپ جانتے تھے کہ آپ مسلمان تھے ہاں یہ ضروری تھا کہ مسلم موجود ہے اسی کو دعوت دیتے ہیں سن انیس سو چوالیس میں حضرت مصلح موعود رضی اللہ تعالی عنہ کو جو اللہ تعالی نے بتایا کہ المسیح الموعود و مسیح و خلیفتہ ایسی موت ہوئی اس کا مسئلہ ہو اور اس کا خلیفہ ہو اور آپ نے جو ہے اس بات کا اظہار کیا مسجد اقصیٰ قادیان میں اپنے اس دعوے کا پہلا اظہار کیا اس کے بعد پھر میں بھی آپ جاکر وہاں کے ساتھ کیا تو یہ سارے علامات آپ کے اندر پوری ہو چکی ہے اب اگر کوئی دعوی کرتا ہے کہ میں مسلمان ہوں تو وہ کس نے مانا جائے گا ہم کہیں گے کہ نکال کر رہا ہے اور اس کے اندر ہیں تو وہ دنیا کے سامنے پیش کرے کیا اس نے سر انجام دیے ہیں پیش گوئی کے مطابق جو علامات ہیں کیا اس کے اندر اس کے ماننے والے کی ساری دنیا کے اندر موجود ہے ایسی دعائیں موجود ہیں جس کے بارے میں حضرت مصلح موعود رضی اللہ تعالی عنہ نے فرمایا تھا ایک جلسہ نے کہا کہ اگر خودکشی حرام نہ ہوتی تو اس جلسے میں کہا تھا کہ سو آدمیوں کو حکم دیتا کہ آپ تو شہید ہوجاؤں تو اسی وقت میرے حکم پر عملدرآمد کرتے ہیں کا دیا ہوا قرآن کا علم معلوم ظاہری و باطنی سے پھل کیا جائے گا یہ علامات ان شاء اللہ آگے ہم زیر بحث لائیں گے یہ تمام علامات کا ہونا کیا وہ انکے مضمرات ہیں یہ خود ان کو غور کرنا چاہیے کہ ہم کس قسم کا دعوی کر رہے ہیں دوبارہ مسیح موعود علیہ السلام کی نسل میں سے ہونا تھا آپ کی وجہ سے پیدا ہونے والا بچہ تھا وہ اور ریت اور نسل آپ کا ہونا تھا یہ لازمی طور پر بات ہے اور جن کو نشان دکھانا تھا وہ تو مر مٹ گئے ہیں اور اب جو ہے وہ مسلمان ہو رہے ہیں سوچنے والی باتیں کیا وہ نشان جو نشان دکھانا تھا اللہ تعالی نے دکھا دیا اور قادیان کے جن لوگوں نے مطالبہ کیا تھا انہوں نے وہ نشان دیکھا اور جس نے دعوی کیا تھا کہ تین سال کے اندر ان کا خاتمہ ہو جائے گا اللہ تعالی کے فضل سے آپ کا سلسلہ چلا آپ کی سب سے بڑی اور جیسا کہ رسول اللہ نے فرمایا تھا دعا کی تھی کہ بابر کو باہر ہوئے اک سے ہزار ہوئے مولا کے یار ہوئے تیار ہوئے اللہ تعالی کے فضل سے آپ کی تمام جو ہے خدا کتے والی اور بابر کو بارہویں اور ساری دنیا میں آپ کی اس وقت اللہ تعالی کے فضل سے نسل پھیلی ہوئی کورٹ آف نکال رہی انڈیا سے ہی مکرم قریشی عبدالحکیم صاحب ان کو بھی اپنے پروگرام میں شامل کرتے ہوئے ان کا سوال ملتے ہیں اسلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ اسلام علیکم ورحمۃ اللہ اب دوبارہ ان سے رابطہ کرنے کی کوشش کریں گے اب ہم پروگرام کو آگے بڑھاتے ہوئے میں محترم مولانا طالب جان صاحب سے یہ سوال پوچھنا چاہوں گا کہ جیسے کہ ہم مسلمانوں کے تعلق سے بات کر رہے ہیں اور مسلم نے بتایا تھا کہ کس طرح اپنے ذاتی تجارب سے اور خود بڑی جستجو کے ساتھ اللہ تعالیٰ کی ہستی کی معرفت حاصل کرنے کی کوشش کی ہے کرنے کے لئے بڑے دلچسپ اور عمدہ ادلیل بھیجنا دنیا کے سامنے پیش فرمائیں آپ کی کتابیں بھی ہیں سوائے سے تو ان دلائل میں سے میں کچھ دلائل آپ سے جاننا چاہوں گا کہ وہ کیا دلیل ہے جس کی وجہ سے مسلسل تعالیٰ عنہٗ اس کے بعد دعا کا ثبوت دیا ہے جزاک اللہ عربی سوال پوچھتے ہوئے آپ نے ذکر کیا ہے اگر تم سلمہ رضی اللہ تعالی عنہ نے اپنی کی کتابوں میں اللہ تعالی کی اللہ تعالی کی ہستی کے ثبوت بیان فرمائے ہیں آپ غدیر میں خطابات میں خطبات میں ہر جگہ کیوں کہ جب بھی کوئی مسئلہ ہے تو یہی ہے کہ وہ دنیا کے لوگوں کو اللہ تعالی کی ہستی کا ثبوت بہم پہنچا ہے تو سب سے زیادہ بڑھ کر کوشش ایک مسلہ ہیں اسی سلسلے میں ہوتی ہے اور آپ زیادہ کوشش کی اور سب سے زیادہ دلائل اسی مضمون کے تعلق سے آپ نے بیان فرمائے مختلف کتب حضرت ام سلمہ رضی اللہ تعالی عنہ کی اس سلسلے میں موجود ہیں میں نے اس سلسلے میں حضرت مصلح موعود رضی اللہ تعالی عنہ کی ایک چھوٹی کتاب ہے جس کا نام ہے دس دلائل ہستی باری تعالی اس کتاب میں ہستی باری تعالیٰ کے دلائل پر طور پر بیان کی ہے انہیں دستر ایل کا خلاصہ میں اس وقت آپ نے جو سوال پوچھا اس کا جواب ملازمین کی خدمت میں پیش کرنا چاہوں گا اس سال کے ساتھ سب سے پہلی دلیل اور یہ دشت یہ دریا یہ دوسرے اللہ تعالی عنہ نے بیان فرمایا سارے کے سارے قرآن مجید سے آپ پر قرآن مجید کی آیات کو بیان کرتے ہوئے ان کا ترجمہ بیان کرکے پھر اسے لفظ کرکے اس کو بیان کیا تو سب سے پہلی دلیل جو اس چھوٹے کتابچے میں حضرت مصلح موعود رضی اللہ تعالی عنہ نے بیان فرمائی ستمبر حدیث کو بیان کرتے ہوئے آپ نے فرمائی جس میں اللہ تعالی فرماتا ہے قد افلح من تزکی وذکر اسم عربی ہی فصل پر کوئی آیت اس کا ترجمہ پیش فرمایا جس میں حضور فرماتے ہیں یعنی مظفر و منصور ہو گیا وہ شخص کہ جو پاک ہوا اور اس نے اپنے رب کا زبان سے اقرار کیا اور پھر زبان سے ہی نہیں بلکہ عبادت کرکے کا ثبوت دیا رضی اللہ تعالیٰ عنہٗ نے اس سے جو ہستی باری کیا ہے وہ آپ نے یہ بیان فرمایا کہ جتنے بھی لوگ خدا تعالی کی ذات کا اقرار کرنے والے ہیں اور پھر اس کی فرمانبرداری اختیار کرنے والے ہیں وہ سب کامیاب ہوتے ہیں یہ ایک مسلمہ حقیقت ہے اور جتنے بھی مذاہب دنیا میں ہوئے ہیں وہ اس پر متفق ہیں تو حضور رضی اللہ تعالی عنہ نے اس کو ہستی باری تعالیٰ کے ثبوت کے طور پر بیان فرمایا وہ اس بات پر متفق ہے کہ اللہ تعالی پر ایمان لانے والے اللہ تعالی کی ذات کا اقرار کرنے والے کامیاب ہوئے حضور فرماتے ہیں جتنی بھی معلوم تاریخ مذاہب کی ہے وہ اس بات پر متفق ہے اور یہاں تک کہ وہ فرماتے ہیں کہ بعض جو ممالک کا آپس کا اختلاف ہے ماحول کا اختلاف ہے مختلف اختلافات کے باوجود میں وہ تمام کے تمام مذاہب متفق ہیں کہ افریقہ افریقہ امریکہ کہاں ایشیا دور دور دراز ممالک میں مزاح پیدا ہونے کے باوجود اس چیز میں ان کا عقیدہ ہے کہ حضور نبی اللہ تعالی عنہ نے فرمایا کہ یہ اللہ تعالی کی ہستی کا ثبوت ہے میاں کی یہاں تک کہ وہ مذاہب جو دنیا سے مٹ چکے ہیں تو ملتے ہیں آثار قدیمہ کے ذریعے ان سے بھی ہمیں یہی پتہ لگتا ہے کہ وہ بھی اللہ تعالی کو ماننے والے لوگ تھے اللہ تعالی کے نزدیک پر ایمان رکھنے والے لوگ تھے تو یہ جو اتفاق ہے یہ اس عقیدے پر یہ اس بات کی بہت بڑی دلیل ہے کہ ایک وجود ہستی موجود ہے جس نے ہمیں پیدا کیا اور جس کی ہمیں عبادت کرنی چاہئے دوسری دلیل کسی زبان میں احمد سلام کو بیان کرتے ہوئے سورہ الانعام کی آیت نمبر 84 سے 87 کو پیش کروایا جس میں اللہ تعالی نے بنی اسرائیل کے کی اہمیت کا ذکر کیا حضرت ابراہیم حضرت اسحاق اور حضرت یعقوب حضرت اسماعیل حضرت سلیمان حضرت یوسف حضرت یوسف الموسی سورہ سب کا ذکر کرنے کے بعد اللہ تعالی نے فرمایا کل میں نے صالحین یہ بہت نیک اور پاک لوگ تھے فرماتے ہیں کہ یہ اللہ تعالی نے جو اس آیت میں ان کا ذکر کرتے ہوئے فرمایا ہے کہ یہ سب نیک اور پاک لوگ تھے اللہ تعالی نے ان کو پیش کرتے ہوئے فرمایا کہ ان نیک اور پاک لوگوں کی بات ہمیں ماننی چاہیے یا پھر ان لوگوں کی بات ہمیں معنی چاہیے جن کے چال چلن کا ان کے ساتھ کوئی مقابلہ ہی نہیں ہو سکتا ایک لوگ اللہ تعالی کی طرف سے انبیاء کی صورت میں مبعوث ہوئے انہوں نے اپنی نیکی سے اپنی دھاک بٹھا دی دنیا میں اور کوئی دنیا میں نہیں کہہ سکتا کہ یہ لوگ ٹھیک نہیں تھے یہ لوگ نیک نہیں تھے یہ لوگ پاگل نہیں تھے بلکہ سب لوگ اس بات کا اعتراف کرتے ہیں اور اس حقیقت کو مانتے ہیں حضور فرماتے ہیں یہ تمام کے تمام نیک لوگ ایک بات لے کر آئے تھے اور ایک بات کو دنیا کے سامنے پیش کرتے تھے کہ اللہ تعالی کی ہستی موجود ہے تو ان نیک اور پاک لوگوں کی بات کو مانا جائے یا پھر ان لوگوں کی بات کو مانا جائے جن کا ان کے ساتھ ہی نہیں مختلف قسم کی تکالیف برداشت کیں ان کو گھروں سے نکالا گیا ان کو قتل تک کرنے کی سازش کی گئی لیکن وہ اپنی بات سے ہٹے نہیں انہوں نے جھوٹے طورپر دنیا کے سامنے یہ نہیں فرمایا بات سے واپس مل جاتے ہیں مگر جاتے ہیں اور انتقال کی وجہ ہمیشہ وہ انتقال کے باوجود اس بات پھر ہے کہ اللہ تعالی کی ہستی موجود ہے کیونکہ ہم نے اس کو دیکھا ہے اس کے ساتھ ہم نے کلام کیا تو یہ اللہ تعالی کی ہستی کی ایک اور زبردست دلیل ہے کہ دنیا میں جس قدر بھی نیک اور پاک لوگ آئے ہیں ان تمام لوگوں نے اللہ تعالی کی ہستی کی اللہ تعالی کے وجود کی بات کی ہے ایک بھی ایسا ہو جو دنیا میں نہیں جو نیکی اور پاکیزگی میں کمال رکھتا ہو اور اس میں اللہ تعالی کی ہستی کا انکار کیا تو یہ بھی ایک بہت بڑی دلیل ہے پھرحضور نے ایک اور دلیل تیسری دلیل انسان کی فطرت کو بیان فرمایا فرماتے ہیں کہ انسان کی فطرت ہے وہ بھی زبردست ثبوت ہے پائے جاتے ہیں کیا ہی برے ہیں چاہے نیت ہی چاہے بد ہے ان کے اندر یہ فطرت پائی جاتی ہے کہ وہ برائیوں سے وہ روکنے کے طریقے سے شکیل اور برائیوں میں ملوث ہو جاتے ہیں جھوٹ ہے لیکن بطور مجموعی ہر انسان کے اندر برائیوں اور گناہوں سے دور رہنے کی فطرت ہے تو حضور اللہ تعالی عنہ نے اس کو ہسپتال کی ھستی کا ثبوت کے طور پر پیش کرتے ہوئے فرمایا کہ یہ انسان کی فطرت میں بالادستی کا روپ ہے جس کی وجہ سے انسان کی فطرت ہے اللہ تعالی نے قرآن مجید میں بیان فرمایا کہ الہمحہتہرفہ جو رہا ہوتا ہر انسان کو اس چیز کی پہچان ودیت کی ہوئی ہے شامل ہیں کہ کون سی چیز اچھی ہے اور کونسی چیز بری ہے اور یہ جو چیز ہے یہ اللہ تعالی کی ہستی کا ایک زبردست بھوت ہے کیونکہ اللہ تعالی کی ذات نے ہیں یہ چیز انسان کے اندر رکھی ہوئی حقیقت ہستی باری تعالیٰ کا ثبوت حضرت مصلح موعود رضی اللہ تعالی عنہ نے قرآن مجید کی اس آیت سے فرمایا کہ انا العرب فی کل منتہا تیرے رب کی طرف ہیں ہر چیز کی انتہا ہے ہر چیز جو دنیا میں ہے دنیا میں موجود ہے ہر کام کا ایک فائل ہے ہر موجود چیز کا کوئی ایسا موجود ہے جس نے اس کو بنایا ہو انسان کو اسی آیت میں آگے اللہ تعالی فرماتا ہے انسان کو مخاطب کرتے ہوئے کہا کہ مجھے ایک نطفے سے حقیر چیز سے پیدا کیا حضور فرماتے ہیں کہ انسان نے اپنے بارے میں غور کرتا ہے اور جتنا پیچھے چلا جاتا ہے تو اس کو اس حقیقت کا اندازہ ہو جاتا ہے کہ وہ کتنے حقیر چیز سے پیدا کیا گیا تو وہ فرماتے ہیں کہ جب انسان کی یہ حالت ہے انسان کو اللہ تعالیٰ اس طرح مخاطب کرتے ہوئے فرماتے ہیں کہ یہ چیز سے پیدا ہوا ہے تو ایک حفیظ چیز سے پیدا ہونے والا انسان اپنے وجود کا خود خالق کیسے ہو سکتا ہے تو اللہ تعالی نے اس ہر چیز کا خالق ہے انتہا ہے انسان جتنا غور کرتا ہے جتنا پیچھے چلتا چلا جائے اس باب کو ڈھونڈتا رہے الاسباب کو ڈھونڈتا رہے بالآخر وہ ایک جگہ رک جائے گا جس کے آگے نہیں جا سکے گا اور جس جگہ وہ رکے گا وہیں پر اس کو خدا تعالیٰ کا ثبوت ملے گا اور عدالت کی حیثیت کا ادراک اس کو حاصل ہو گا حضرت مسلم رضی اللہ تعالی عنہ نے ایک بندے کی مثال یہاں پر بیان فرمائیں خدا تعالیٰ کی ہستی کا ثبوت جب پوچھا گیا تو اس نے بتایا کہ ایک بار تو دو البعیر پسا معوذات تو ابراج ارضعتہ داجن الفلاح جوال الخیر کی منگنی ہے جنگل میں ہوتی ہے وہ اونٹنی کا پتا دیتی ہے پتہ لگ جاتا ہے کیا اس سے اتنی گزری ہے پتہ کر لیتے ہیں کہ ان سے کوئی مسافر گزرا میں نے اللہ تعالیٰ کی ہستی کا ثبوت دیا یہ جو آسمان ہے برج والا اتنا آسمان کی مقدار عثمان ہیں اور زمین راستوں والا و سیاست والی تو زمین ہے کیا یہ ایک بڑا کا پتہ ہی نہیں دیتی تو حضرت مصلح موعود رضی اللہ تعالی عنہ نے اسی آیت کے زمرے میں اس کو بیان کیا کہ جتنا انسان غور کرے ان اس بات کو دیکھے اور مسبب الاسباب کی طرف اپنی توجہ دے تو اللہ تعالیٰ کی ہستی کا ضرور پتہ لگے گا پھر ایک اور دلیل حضرت مصلح موعود رضی اللہ تعالی عنہ نے سورۃ الملک کی آیت پیش کرتے ہوئے فرمایا جس کا ایک حصہ میں پیش کرتا ہوں جس میں اللہ تعالی فرماتا ہے کہ اللہ سب اسلام آباد رحمان انتخاب وطن سارا حرام الفتوۃ ثمر بسر کر رہے نہیں طالب حسین کے ساتوں آسمان بھی پیدا کیے اور ان میں آپس میں موافقت اور مطابقت رکھیے کبھی کوئی اختلاف اللہ تعالی اس میں نہیں دیکھے گا بس اپنی آنکھوں کو لوٹا کیا تجھے کوئی شگاف نظر آتا ہے دوبارہ اپنی نظر کو لوٹا لوٹا کر دے تیری نظر تیری طرف تھک کر اور ماندہ ہو کر لوٹے گی تو اس آیت میں اللہ تعالی نے اپنی ہستی کا ایک زبردست پیش فرمایا ہے فرماتے ہیں کہ بعض لوگ یہ کہتے ہیں کہ یہ کائنات جو ہے یہ اتفاق سے وجود انہی لوگوں کو اللہ تعالی نے اس پر مجید کی اس آیت کریمہ میں جواب دیا ہے اور تو کرو ایک دن یا ایک ایسی چیز جو اتفاق سے پیدا ہوتی ہے کیا اس کے اندر ایسا انتظام ہو سکتا ہے جیسا انتظام اللہ تعالی نے اس کائنات میں پتہ ہے کہ چند رنگوں سے مل کر تصویر بنتی ہے اگر ان لوگوں کو تو کیا یہ تصویر خود بخود وجود میں آجائے گی ذاکر عمارت کھڑی ہو جاتی ہے لیکن اردو کو بہتر طور پر بیٹھ کر دیا جائے تو کیا خود بخود کے کنارے کھڑی ہو جائے گی تو حضور فرماتے ہیں کہ جب تک کوئی بنانے والا نہیں ہوتا تب تک ایک انتظام کے ساتھ ایک چیز وجود میں نہیں آ سکتا انسان جانور حیوان چرند شجر اس تمام مخلوقات کی ضروریات کے مطابق چیز ہے دنیا میں موجود اربوں کھربوں جتنا انسان اور وہ تھک جائے گا لیکن اس کو کسی قسم کا کوئی انتظام میں اس کائنات میں نظر نہیں آئے گا اور یہی آیت اللہ تعالی نے قرآن مجید میں پیش فرمایا پر الملک کی روایت ہے اور اس نے یہ فرمایا کہ یہ جو انتظام کائنات میں موجود ہے اور کائنات کی ہر چیز میں موجود ہے یہ اس بات کی واضح دلیل ہے کہ یہ خود بخود نہیں اور مدبر اور بالارادہ  مولانا وہ ہیں جو اللہ تعالی کے حضور سجدہ ریز تھے اور گرا رہے تھے روتے ہوئے دعا کر رہے تھے اور اپنی جو بھی ہمارا دل والےبنانے والی کسی کا پتا دیتی ہے اس کا ثبوت دیتی ہے زبردست ہے اور بہت ساری مثالیں درج ذیل ہیں دلائل ہیں جن میں سے میں نے ابھی تک آپ کی خدمت میں پانچ دلائل پیش کئے ہیں ہیں مسافر کی طرح کے 12 ایک اور دلیل بہت اہم دلیل حضرت مصلح موعود رضی اللہ تعالی عنہ نے بیان فرمائی وہ حضور نے دعا کے تعلق سے بیان فرمائیں جو ہے اللہ تعالی کی ہستی کا زبردست ثبوت ہے کی آیت ہے اذا سالک عبادی عنی فانی قریب اجیب دعوۃ الداع ولیؤمنوا بی لعلھم یرشدون یعنی جب میرے بندے میری نسبت سوال کریں تو انہیں کہہ دو کہ میں ہوں اور میں قریب ہوں پکارنے والے کی دعا کو سنتا ہوں جب وہ مجھے پکارتا ہے بس چاہیے کہ وہ بھی میری بات مان اور مجھ پر ایمان لائیں تاکہ وہ آیت پر کی قبولیت کو حضرت مصلح موعود رضی اللہ تعالی عنہ نے ہستی باری تعالیٰ کا ایک زبردست موت کے طور پر پیش کرنا یا یہاں پر خود ایک بار اٹھائی ہے کہ بعض لوگ بعض قریبی کہا کرتے ہیں دوائی تو اور بھی ہو جاتی ہیں کی دعائیں قبول ہو جاتی ہیں تو حیرت بھی ہو جاتی ہیں اگر ساری دعائیں قبول ہو جاتی تو ہم کہہ سکتے ہیں کہ کوئی ہے جو سننے والا ہے تو حضور رضی اللہ تعالی عنہ نے اس کا جواب یہ بیان فرمایا کی قبولیت جو ہے وہ اپنے ساتھ نشان رکھتے ہیں اس موقع پر حضور نے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کی قبولیت دعا کا ایک واقعہ بیان فرمایا مجھے ایک اکثر ہمیں یہ پروگرام بھی پیش کرتے رہے ہیں اس واقعے کو ایک آپ علیہ الصلاۃ والسلام کے صحابی کو ایک باغی کتے نے کاٹا تھا اس کا علاج ہوا علاج ہونے کے بعد پھر وہ واپس قادیان آئے لیکن پھر وہ آثار ظاہر ہوگئے تو رسول یا چلتے ہوئے ان کا علاج کیا گیا تھا وہاں بھیجا گیا لکھ کے بھیجا گیا کہ اس طرح صاف ظاہر ہو گئے تو وہاں سے جواب آگیا کچھ نہیں ہوسکتا تھا ٹھیک ہے ابھی ڈنڈہ عبدالکریم کا کچھ نہیں ہوسکتا ظاہر ہوگئے ہیں گلے کی کوئی صورت نہیں لیکن حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام نے ان کے لئے دعا کی گریہ و زاری کی اور اللہ تعالی نے آپ کی دعا کو سنا اور وہ شفا یاب ہوئے اور سالہا سال تک زندہ رہے اور ان کی اولاد در اولاد اس کے بعد شہباز قلندر سلسلہ کی خدمت بھی بجا لاتے رہے تو حضرت ام سلمہ رضی اللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ یہ قبولیت دعا کا نشان ہے جو اس بات کا ثبوت ہے حضرت علی کا ہمیں پتا لگتا ہے اللہ تعالی کا ہمیں پتہ لگتا ہے کوئی دلیل پیش کر کے دو تین کھلاڑیوں نے چھوڑ دیے ہیں کہ مختصر ہے بات لمبی ہو جائے گی اب آخر میں ایک دن پیش کرکے اپنی بات ختم کرتا ہوں جو دسویں دلیل کے طور پر حضرت مصلح موعود رضی اللہ تعالی عنہ نے بیان فرمائی قرآن مجید کی آیت العنکبوت آیت نمبر 70 پیش کرتے ہوئے جس کے الفاظ اس طرح ہیں قادیان ہم سب مولانا کی تقریر جو بات حضور نے بیان فرمائی ہے میں حضور کے الفاظ میں پیش کر کے اپنی بات کو ختم کر دیتا ہوں حضور فرماتے ہیں اس آیت پر جن لوگوں نے عمل کیا وہ ہمیشہ نفع میں رہے ہیں وہ شخص جو خدا تعالی کا منکر ہو کی اگر خدا ہے تو اس کے لیے بہت مشکل ہو گی بس اس خیال سے اگر سچائی کے دریافت کرنے کی اس کے دل میں تڑپ ہو تو اسے چاہیے کہ گڑگڑا کر اور بہت زور لگا کر وہ اس لیے دعا کریں کہ اے خدا اگر تو ہے اور جس طرح تیرے ماننے والے کہتے ہیں تو غیر محدود طاقت والا ہے تو مجھ پر رحم کر اور مجھے اپنی طرف دعوت اور میرے دل میں بھی یقین اور ایمان دار لے کر جاؤ اگر اس طرح سچے دل سے کوئی شخص دعا کرے گا اور کم سے کم 40 دن تک اس پر عمل کرے گا خواہ اس کی پیدائش کمشندہ ہو رب العالمین اس کو ضرور ہدایت کرے کو جلدی کھلے گا کہ اللہ تعالی ایسے رنگ میں اس پر اپنا وجود ثابت کر دے گا جس کے دل سے شکر کی نجاست بالکل دور ہوجائے گی اور یہ تو ظاہر ہے کہ اس کا طریقہ ستا پہ سچایی کے طالب علموں کے لئے اس پر عمل کرنا کیا مشکل ہے تو بیان کرتے ہوئے حضور نے اس دلیل میں یہ بھی بتادیں امن کے لیے انکار کرنے والے کے لیے یہ وہ کس طرح اللہ تعالی کے پاس طرح اس کو اللہ تعالی کی ہستی کا پتہ لگ سکتا لہٰذا اس وقت ہمارے ساتھ آن لائن موجود ہیں اور وہ انتظار کر رہے ہیں ان کو اپنے پروگرام میں شامل کرتے ہیں پاکستان سے ٹلیفونک الرحیم کر محمدیہ دانیال صاحبہ ان کا سوال سنتے ہیں اسلام علیکم ورحمۃ اللہ وعلیکم سلام یہ سوال بھی میری ہے سوال یہ ہے کہ حضرت مصلح موعود رضی اللہ تعالی عنہا کا مقام ومرتبہ کیا ہے وہ اس لحاظ سے مختلف ہے ایک دوسرے کے محتاج ہیں اور اس کا جواب دینا میں مسلم عورت فرقہ فی امام مبین جی آپ کا سوال ہم تک واضح نہیں پہنچا ہے کہ آپ کیا پوچھنا چاہ رہے ہیں کمال کرتے ہو چکے ہیں جو مقام ہے مقام ومرتبہ ہے وہ باقی دفعہ مجید ہے ان سے افضل کہا جاتا ہے محترم مولانا محمد کرم 2019 درخواست اللہ ان دیکھی ہے اللہ تعالی نے قرآن مجید میں اس بات کا ذکر فرمایا ہے کے بارے میں کل کرو سو فضلنابعضھم العباس جو رسول ہیں ان کو بات پر ہم نے بعض پر فضیلت عطا کی ہے تو وہاں کے رسولوں میں بھی بات جو ہے وہ اذا مرتبہ رکھنے والے ہوتے ہیں اور بات جو ہے وہ کم مرتبہ والے ہوتے ہیں اور جب سے جیسا کہ حضرت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے بارے میں قرآن مجید میں آتا کہ آپ کو خاتون بنایا ہے اگر اللہ تعالی نے فرمایا من قبلہ الرسل فضلنا بعضہم درجات اللہ تعالی نے قسم سے مکالمہ کیا ہے اور بعض کو جو ہے وہ درجات کے اعتبار سے زیادہ مرتبہ عطا کیا ہے تو گلوں کے اندر بھی جو ہے وہ کچھ زیادہ مرتبہ ہوتا ہے کچھ مرتبہ ہوتا ہے تو خلفائے احمدیت کے بارے میں یہ سوال اٹھانا ہی نہیں چاہیے کہ کون خلیفہ افضل ہے اور کون افضل نہیں ہے کیوں اس واسطے کے خلیفہ تو اللہ تعالی ہی بناتا ہے خلیفہ تو حضرت مولانا نور الدین صاحب رضی اللہ تعالی عنہ کو بھی اللہ تعالی نے خلیفہ بنایا حضرت مسلم اور کبھی خلیفہ بنایا پھر آ گئے یا ثالث رابع خامس اللہ تعالی کے بنائے ہوئے خلیفہ اور سب کے ساتھ اللہ تعالیٰ کی تائید و نصرت ہے اور ان کے ساتھ ساتھ اللہ تعالیٰ کا تعلق بھی ہوتا ہے اور اللہ تعالی کی ہدایت کے مطابق ہیں وہ دنیا میں ہدایت وراثت کا کام بھی کرتے ہیں اور اسلام کی ترقی کا کام بھی کرتے تھے البتہ یہ ہم کہہ سکتے ہیں کہ چونکہ حضرت مرزا بشیرالدین محمود احمد صاحب باوجود اس کے کہ خلیفۃالمسیح تھے لیکن چونکہ آپ ایک ماں اور بیٹے تھے اور اللہ تعالی کا ایک زبردست نشان آپ کے ذریعے ظاہر ہؤا جس میں 57 علامتیں بیان کی گئی تھی اور وہ بتاؤ نا اس لحاظ سے ہم بھی سکتے ہیں کہ بلاشبہ اللہ تعالی نے آپ کو عید مبارک میں بھی اتنی ترقی عطا کی تھی کہ علوم ظاہری و باطنی سے پھر کیا جائے گا جیسے یہ ان کے الفاظ تھے آپ کو معلوم ظاہری بھی عطا کئے گئے بات نہیں بھی عطا کئے گئے قرآن مجید کا بھی علم آپ کو دیا گیا ہے اور اسی طرح سے کی تنظیم خلافت کا استحکام کے سارے عمر آپ سے وابستہ ہیں تو اس لحاظ سے آگے آنے والے جتنے بھی ایک خلفاء ہوں گے وہ اللہ تعالی کے فضل سے حضرت مصلح موعود رضی اللہ تعالی عنہ کے شاگرد ہی کہلائیں گے وا یہ بحث اٹھالیں نہیں چاہیے کہ کون خلیفہ مرتبے میں افضل کون افضل نہیں ہے ہاں جس کو اللہ تعالی نے اپنا نشان قرار دیا ہے اور اسلام اور احمدیت کے لیے نشان قرار دیا ہے مسیح موعود اور حضرت محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وسلم کی صداقت کا نشان قرار دیا ہے یقینا اس کی فضیلت ثابت بھی ہے اور ہر کوئی اسے مانتا بھی ہے لیکن بحیثیت خلیفہ ہونے کے اللہ تعالی کے فضل سے سارے ہوں خلفاء کا مرتبہ ایسا ہوتا ہے نیو کیسے اور ٹیلی فون کالز آرہی مکرمہ رفیع کا صداقت صاحبہ ان سے بھی بات کرتے ہیں ان کا فون سنتے ہیں اسلام علیکم ورحمۃ اللہ وعلیکم السلام ورحمۃ اللہ وبرکاتہ خدا شناسی کی صدارت کرتے ہوئے میں کچھ بول دے چکی ہیں انسان کی اپنی فطرت کو تعالی کی مدد کیسے ہو سکتی ہے اس سے پہلے سنہ دین سے محترم مولانا تو مظلوم سب سے درخواست ہے دی کے دو حصے ہیں خدا تعالی کی جو پہچان ہے خدا شناسی ہے اس کی ابتدا کیسے ہوئی اس سلسلے میں کوئی تاریخ تو ہے نہیں ہے کہ بتایا جاسکتا ہے لیکن قرآن مجید سے ہمیں اس بات کا مطالعہ کرنے سے اندازہ ہوتا ہے پتہ لگتا ہے کہ خدا شناسی جو ہے اللہ تعالی کے انبیاء کے ذریعے ہی لوگوں تک پہنچائی گئی ہیں کیونکہ انبیاء کا ہیں یہ کام رہا ہے کہ وہ دنیا میں آکر انسان کو خدا تعالیٰ کی پہچان کر آئے اور خدا کی حجت خدا تعالیٰ کی ہستی کے ثبوت ان کے سامنے بیان کرکے گمراہ لوگوں کو خدا تعالی کی طرف فقہ کی روشنی سی کی ہوئی ہے اور کیسے ہوتی رہی جس سے پوچھیں کہ انسان کی فطرت اللہ تعالی کی ہستی کا ثبوت کیسے ہیں میں نے ابھی حضرت مصلح موعود رضی اللہ تعالی عنہ کی بیان فرمائے کے دلائل ہیں ان کی زندگی میں بھی اس بات کو اختصار کے ساتھ بیان کیا تھا کہ آپ رضی اللہ تعالیٰ عنہٗ نے بھی انسان کی فطرت کو اللہ تعالی کی ہستی کے ثبوت کے طور پر پیش کرنا ہے اور عقائد کا ذکر کیا ہے الطاف علامہ فجورھا و تقوھا گوئی کے اللہ تعالی نے انسان کو نیکی اور بدی کی پہچان جو ہے اس کو ہدایت کی ہے اس آیت پر غور کرتے ہوئے جب ہم انسان کی فطرت کو دیکھتے ہی انسان کی حقیقت کو دیکھتے ہیں تو ہمیں آگاہ موازنہ کریں دنیا میں اس وقت جتنے بھی چاہے وہ مذہب کو ماننے والے ہیں یہ مذہب کو نہیں مانتے والے ہیں دریا ہیں والے ہیں یا اللہ تعالی کا انکار کرنے والے تو ہمیں ان کی نظر آئے گی جو گناہ سے نفرت کرتے ہیں ٹین وائی نائن پرسنٹ اگر ہم کہیں ایسا تو یہ مبالغہ نہیں ہوگا ہوتے ہیں جو جرائم پیشہ ہوتے ہیں اور جنہوں نے اپنی فطرت کو مسخ کیا ہوتا ہے آخرت کو برباد کر دیتے ہیں میں پھر ان کو ان کے ذہن سے ان کی فطرت سے برائی کی پہچان ہی ختم ہو جاتی ہے لیکن اس کے علاوہ جتنے بھی انسان دنیا میں موجود ہیں وہ برائی کو ناپسند کرتے ہیں اور اچھائی کو پسند کرتے تو حضرت مصلح موعود رضی اللہ تعالی عنہ نے اس کو اس کی دلیل کے طور پر پیش کیا ہے کہ یہ چیز جو انسان کے اندر ہے یہ کسی ہستی نے انسان کے اندر یہ فطرت جو ہے وہ تھکی ہوئی ہے یہ خود بخود انسان کے اندر پیدا نہیں ہوسکتی صلاۃ و سلام نے بھی اس کو ریاضی کے ثبوت کے طور پر انسان کی فطرت کو پاکستانی سونگ کی فلاسفی میں جو ہستی باری تعالیٰ کے دلائل حضرت مسیح علیہ الصلاۃ والسلام نے بیان فرمائی اس نے یہ بھی فرمایا اور قرآن مجید کی اپنے سامنے قرآن مجید کی ایک آیت کا ذکر فرمایا جب انسان سے پوچھا جاتا ہے انسان کی فطرت سے سوال کیا جاتا ہے اللہ تعالیٰ سے سوال کرتا ہے کہ اس تجربے کو اس کا جواب ہوتا ہے تو ہے تو انسان کی فطرت جو ہے رب کا اللہ تعالی کا ہمیشہ اقرار کرتی ہے اور کبھی بھی اللہ تعالی کی اطاعت کا انکار نہیں کرتے شا برائی کو ناپسند بھائی کو پسند کرتا ہے پھر جو دہریہ لوگ ہوتے ہیں انسان کی فطرت کی وجہ سے حضرت نیک ہونے کی وجہ سے اللہ تعالی کو ماننے کی وجہ سے ہی ایسا بھی ہوتا ہے جب کوئی مصیبت آن پڑتی ہے کسی تحریر پر بھی اللہ تعالی کا نام نکالا نکل آتا ہے اے اللہ دیتا ہے کوئی ہے حرام کیا جاتا ہے کوئی گھاٹ کہہ دیتا ہے اور ملنگ والا کا انکار کرنے والے ہوتے ہیں لیکن جب کوئی مصیبت ان کے اوپر آتی ہے تو ان کے منہ سے اللہ تعالی کا نام نکل آتا ہے وہ اللہ تعالی کو پکارنے لگتے ہیں اور یہ جو آواز ان کی سے نکلتی ہے ان کی زبان سے نکلتی ہے یہ دراصل انسان کی فطرت کی آواز ہوتی ہے اللہ تعالی نے ان کی فطرت میں ودیعت کیا ہوا ہوتا ہے اللہ تعالی نے اپنے وجود کو جس کی وجہ سے یہ آواز ان کے منہ سے نکلتی ہے تو اس طرح لگتا ہے کہ انسان جو ہے وہ ہے اور اللہ تعالی کی ہستی کا پتہ دیتی ہیں اور مولانا محمد کریم نسبت شاہد سے ہمارا سوال ہے کہ مسلم اور اللہ تعالی عنہ کے زمانے کو دیکھتے ہیں تو وہ ایک مادہ پر زمانہ ہے جس میں اللہ تعالیٰ کی ہستی پر مختلف قسم کے اعتراضات کئے جاتے تھے اور اللہ تعالی عنہ اس کا کس رنگ میں جوابات آپ نے ارشاد فرمائے ہیں اس کے بارے میں میں آپ سے جانا چاہوں گا شاہ تصویری مضمون ہے دراصل ہستی باری تعالیٰ کے تعلق سے ہی جو ہے وہ اس کے اندر سمایا ہوا بھی ہے اور علیحدہ طور پر بھی حضور نے اس کو بڑے وسیع رقبے بیان کیا ہے دلائل ہستی باری تعالیٰ کے بڑا افسر قبول ہے آپ کا یہ بیان کی کہ ہم لوگ اعتراض کرتے ہیں کہ واقعی کیا خدا موجود ہے اگر ہے تو ہمیں دکھاؤ اعتراض ہوا کرتا ہے تو اس بارے میں حضرت سلیمان رضی اللہ تعالی عنہ نے جواب دیتے ہوئے فرمایا کہ ہر چیز کو دیکھنے کے الگ الگ مسائل ہوتے ہیں الگ الگ ذریعہ ہوتا ہے مثال کے طور پر آپ ہی کے الفاظ پڑھ کے میں سونا چاہتا ہوں کے دیکھیے میں آپ کے سامنے ایک آدمی بیٹھا ہوں سردار صاحب تھے جو کہ اس بحریہ تھے خدا کی ہستی کو نہیں مانتے تھے ان کو سمجھانے کے لیے فرماتے ہیں دیکھیے میں آپ کے سامنے ایک آدمی بیٹھا ہوں اسی طرح میں آدمیوں کی اسی طرح کے میں اجنبیوں کی طرح بولتا دیکھتا ہوں اور وہی صفات مجھ میں پائی جاتی ہیں جو آدمیوں میں پائی جاتی ہے لیکن اگر ایک آدمی پردے کے پیچھے بیٹھا ہوا باتیں کر رہا ہوں تو آپ کس طرح اسے پہچانیں گے کہ آدمی ہے اس کے سر سے کیونکہ وہ تو نظر نہیں آتا تو ایک چیز کے معلوم کرنے کے لئے کی تاریخ ہوتے ہیں مثال کے طور پر فرماتے ہیں ایک قول خوشبو ہے تو آپ یہ نہیں کہیں گے کہ مجھے خوشبو دکھا دو یہی کہو گے کہ سزا دو عمدہ آواز ہے اس کی نسبت آپ یہ نہ کہیں گے کہ سنا دو بلکہ یہی کہیں گے کہ سنا دو ایک چیز کڑوی یا میٹھی ہے تو آپ یہ نہیں کہیں گے کہ سنا دو بلکہ یہی کہیں گے کہ جادو معلوم ہوا کہ مختلف چیزوں کے معلوم کرنے کے لیے مختلف طریقے ہوتے ہیں ٹھیک ہے میں خدا کو آنکھوں سے دیکھا گے بعض باتیں ایسی ہیں جن کو انھوں اسے ظاہری سے معلوم نہیں کیا جاتا بلکہ عورت کی مارنا پڑتا ہے حضور نے ذکر کیا کہ لندن ایک شہر ہے مثال کے طور پر پہلے میں نہیں مانتا کے اندر کوئی چیز ہے ہے کہ جن لوگوں نے لندن دیکھا ہوا ہے اور آگے وہ بیان کرتے ہیں ایک دو نہیں بلکہ سینکڑوں لوگوں کے جنہوں نے لندن دکھائیں اس صورت میں یہ کہنا کہ نیند نہ آئے کوئی چیز نہیں ہے تو غلط ہوگا کیوں اس واسطے کہ دنیا میں جو شہادت ہے جیسا کہ ابھی وہ جج صاحب نے لگتی تو بارہ تعالیٰ کے تعلق سے یہ بھی ہے جن لوگوں نے لندن دیکھا ہوا ہے ان لوگوں کی گواہی مانتے ہیں اس طرح سے جن لوگوں کا تعلق ہوتا تعالیٰ کی ذات سے رہا ہے وہ ایک دو نہیں ہے بلکہ جیسا کہ پورا حدیث سے ثابت ہوتا ہے کہ حضرت علی علیہ السلام نے فرمایا کہ دنیا میں ایک لاکھ چوبیس ہزار انبیاء آئے 12 ارب کی گواہی نہیں ہے ایک لاکھ چوبیس ہزار انسانوں کی گواہی ہے کہ خدا ہے خدا سے ہمارا تعلق ہے خدا ہم سے نشانہ دکھاتا ہے چند لوگوں کی گواہی سے مانتے ہیں کہ لندن شہر ہے یا اور دوسری بات مانتے ہیں وہاں پر ایک لاکھ چوبیس ہزار آدمی جو ہے ہیں انہوں نے یہ گواہی دی ہے کہ واقعی خدا موجود ہے اس کا ہمارے ساتھ تعلق ہے پھر یہ بھی دلیل آپ نے دی ہے کہ لوگ یہ اعتراض کرتے ہیں کہ ہمیں کیسے معلوم ہوگا کہ واقعی خدا تعالیٰ ہے تو خدا تعالی کے نشانات ظاہر ہوتے ہیں یہ الصلاۃ والسلام نے فرمایا قدرت سے اپنی ذات کا دیتا ہے حق ثبوت اس بے نشاں کی چہرہ نمائی یہی تو ہے تو نظر نہیں آتی لیکن وہ ایسے نشانات ظاہر کرتا ہے چنانچہ ہم دیکھیں گے حضرت آدم علیہ السلام کو اللہ تعالی نے کی تائید و نصرت کی کہ ان کے جو مخالف تھے ابلیس وغیرہ ان سب کو ناکام اور نامراد کیا پھر آپ آگے دیکھے نوح علیہ السلام ان کے دشمنوں کو تباہ و برباد کیا اور اللہ تعالی نے فرمایا ہے تو کشتی بناؤ اور تمہارے ساتھ جو شریک ہوں گے ان کو بچایا جائے گا السلام کو نبوت جو بادشاہ تھا اس وقت کا ہر غم کی ہستی کا منکر تھا اس نے جو آپ کو آگ میں ڈالنا چاہا لیکن اللہ تعالی نے وہاں ٹھنڈی کر دی یہاں پر ایک اور بعد میں بیان کرتے ہیں یہاں پر تعویز کیا کرتے ہیں کیا آج سے مراد یہاں پر مخالفت کی ہے حضرت مسیح موعود علیہ السلام جو اس زمانے کے ماما زبان ہے میں جب یہ بات پیش ہوئی حضرت خلیفہ اول کا جواب لکھ رہے تھے یہ دراصل مخالفت کی آگ تھی جس کو اللہ تعالی نے ٹھنڈا کر دیا حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے فرمایا کہ یہ تاویل کرنے کی کیا ضرورت ہے اس زمانے میں موجود ہیں ہمارا بھی دعا ابراہیم ہونے کا ہے میں کبھی اعظم کا بھروسہ کبھی ڈیزائر یعقوب بن ابراہیم حوصلے میری بے شمار تو ہمیں کوئی آج میں ڈال کر دیکھیں کیا آپ وہاں گزار ہوں حضرت ابراہیم علیہ السلام کو اللہ تعالی نے آج سے محفوظ رکھا یہ اللہ تعالیٰ کا زبردست نشان تھا پھر اس کے بعد دیکھیں حضرت عیسی علیہ السلام کو موسی علیہ السلام کو فرعون کے عذاب سے بچایا اور پھر ان کو تو غرق کیا اسلام کی مدد کی پھر اس کے بعد یوسف علیہ السلام کو اللہ تعالی سے صلیب پر لٹک کر مرنے سے بچایا اور آپ کا جو ہے حفاظت کے ساتھ کشمیر تک پہنچا دیا رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی ذات ہے کہ کیسی مخالفت کی ہوئی مکہ سے ہجرت کر کے مدینہ جانا پڑا وہاں پر بھی جنگ آپ کے والد کی گئی لیکن اللہ تعالی کا وعدہ تھا کہ آپ غالب آئیں گے غالب آئے اور مکے میں پھر فاتحانہ انداز میں داخل ہوئے اور یہ بڑا عجیب واقع ہے سفیان کی بیوی ہندہ مخالف تھے یہ وہی آئندہ ہے جنہوں نے حضرت حمزہ رضی اللہ تعالی عنہ آنحضرت کے چچا بھی تھے یہ جنگ احد میں ان کو شہید کیا اور ان کا کلیجہ نکال کر آ گئی تھی جب واہ آپ بہت لینے کے لیے عورتوں کی بات لینے لگے تو آپ نے فرمایا کہ ہم شرکت نہیں کریں گی اور باتوں کے علاوہ یہ بھی آپ نے بیان کیا کہ ہم شرکت نہیں کریں گی تو ہندا سے ضبط نہ ہوا بولا ٹھیک ہے یا رسول اللہ ہم سب کیسے کر سکتے ہیں کہ جب کہ ہمارے 360 جو ہے وہ ہار گئے اور آپ کا یہ خدا جیت گیا اب ہم آگے کیسے شروع کریں گے اللہ تعالی نے نشان دکھایا کہ وہ نبی جو انتہائی کمزوری کی حالت میں آیا اس کو اللہ تعالی نے فتح یاد کیا اور نہ صرف قابل کہ سارا شہر مسلمان ہوگیا اور اس زمانے میں حضرت موسی علیہ السلام کو اسلام کی اشاعت اور اسلام کے بولنے کے لئے بہت سارے نشانات دکھائی اگر کسی کو دلچسپی ہو حقیقۃ الوحی پڑے اس کے اندر آپ نے جو ہے دو سو آٹھ سے زیادہ نہیں نہ آپ کے بیان کئے گئے ہیں تو اس لحاظ سے یہ ثبوت اس بات کا کہ اللہ تعالی اپنے بندوں کے ذریعہ سے اپنے نشانات دکھاتا ہے بھائی کرتا ہے اور ایسی باتیں ظاہر کرتا ہے کہ جو عام طور پر تو یہ دن ہے نہ رات کی اللہ تعالی کی حقیقت جو انکار کرنے والے ہیں ان کے لئے بھی آپ نے یہ نشان دیکھا کہ ایک دو نہیں بلکہ کی نشانات زمین میں موجود ہیں اللہ تعالی کی ہستی کے نبیوں کی شہادت دینا پھر نبیوں کے ذریعے سے نشانات کا ظاہر ہونا کمزوری کی حالت سے جو ہے ان کو بامِ عروج تک پہنچا یہ ساری علامات اس بات کی ہے کہ جو ہستی باری تعالیٰ کا انکار کرنے والے ہیں وہ سمجھ جائے ان کو سمجھ آ جانی چاہیے کہ یہ غیر معمولی باتیں اور پھر بھی آجاتی ہیں توبہ کرنے والے موٹا اعتراض یہ کہ میں اللہ تعالی دکھا دو ہر چیز دکھانے والی نہیں ہوتی بلکہ مختلف ہو اس کو معلوم کیا جاسکتا ہے اور اسی طرح سے بہت ساری شہادتیں ہیں جو ایک کروڑ ایک لاکھ چوبیس ہزار شہادتیں موجود ہیں اس کے علاوہ اللہ تعالی کے وہ نشانات ہیں جو انبیاء کے ذریعے ظاہر ہوئے اور اللہ تعالیٰ کے نیک بندوں کے ذریعے ظاہر ہوئے اور اس زمانے میں بھی اللہ تعالی خلفائے احمدیت کے ذریعے اگر آج وہ اللہ تعالیٰ کی ہستی کا ثبوت ہے حکومت چلاتے ہوئے محترم مولانا طارق بلوچ صاحب سے میرا یہ سوال ہے کہ اس کے بارے تعالیٰ کے تعلق سے کس طرح اس کا ثبوت مسلم اور پیش فرماتے تھے یہ سنتے ہی تو تم مسلم عورتیں اللہ تعالی عنہ کا عشق الہی کا پہلو ہے اس کے بارے میں چند واقعات آپ سنائیں الصلاۃ والسلام کا ایک الہامی مصرع ہے پنجابی زبان کا عشق الہی و سے مہرولی آخری نشانی ولیوں کی نشانی ہوا کرتی ہے کہ اللہ تعالی کا عشق ان کے چہرے سے نمودار ہوتا ہے حضرت مسیح علیہ الصلوۃ وسلام ایک مقام پر فرماتے ہیں کہ جس قدر زیادہ محبت ہوتی ہے اسی قدر انسان بہ اپنے محبوب کی صفات کیا ہے اس سے وہ محبت کرتا ہے یہی بھی ہے کہ جو شخص خدا سے محبت کرتا ہے وہ ذہنی طور پر بقدر اپنی استعداد کے اس نور کو حاصل کر لیتا ہے جو خدا تعالی کی ذات میں وہ چیز ہے جو پیشگوئی مصلح موعود میں حضرت مصلح موعود رضی اللہ تعالی عنہ کے متعلق یوں بیان ہوئی ہے کہ ان لاہن مسئلہ دماغ کھاؤ جب آئے گا تو وہ ایسا ہوگا کہ گویا خدا تعالیٰ آسمان سے خود نہ ہوں گے وہی حقیقت ہے جو حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام نے اس کے بعد میں تھوڑا سا بزی جو پیش کیا اس نے بیان کیا ہے کہ جب ایک انسان محبت میں فنا ہو جاتا ہے جو جس سے محبت کرتا ہے رضی اللہ تعالی عنہ بھی اللہ تعالی کی محبت میں اس قدر فنا ہے فنا ہونا تھا کہ اللہ تعالی کا وجود آپ رضی اللہ تعالی عنہ کے چہرے کے ذریعے آپ کے وجود مبارک کے ذریعے سے لوگوں نے دیکھا تھا اور لوگوں نے پہچانا نہ تھا مولانا محمد کریم سب شاہد نے حضرت مصلح موعود رضی اللہ تعالی عنہ کا تفصیلی واقعہ ہستی باری تعالی کے تعلق سے بیان کیا ہے حضرت مسیح موعود علیہ السلام فرماتے ہیں کہ جس قدر اللہ تعالی کی ہستی پر زیادہ ایمان ہو گا اسی قدر انسان کی محبت اللہ تعالی سے زیادہ ہوتی ہے اور بڑھتی مولانا محمد کریم جب شاہد نے جب یہ واقعہ بیان کیا اس سے ہمیں پتہ لگتا ہے کہ کس طرح حضرت مصلح موعود رضی اللہ تعالی عنہ کو اللہ تعالی کی ہستی کا ذاتی طور پر تجربہ کرکے اور فکر کرنے کے نتیجے میں اللہ تعالی کا ایمان حاصل ہو اللہ تعالی کی ہستی کا پتہ لگا جو از حضرت مصلح موعود رضی اللہ تعالی عنہ نے فرمایا اس کے تعلق سے رمی کرنا چاہتا ہوں جس سے اس بات کا اندازہ بھی ہو جاتا ہے کہ کس ملا کے سمجھنے کے نتیجے میں محبت آپ کے دل میں پیدا ہو گئی کس قدر اللہ تعالی کا عشق آپ کے اندر پیدا ہو گیا حضور فرماتے ہیں کہ ان ہی دنوں کی بات ہے جب یہ بھی گزرا کہ ذبح کے وقت ایک عشرے میں چلا گیا میں نے چادر بچھائی اور نماز پڑھنی شروع کی اور خوب روئے خوب روئے خوب رویہ اور ایک عزم کیا اور وہ آدم آپ رضی اللہ تعالی عنہ نے یہ کیا کہ آج کے بعد میں کبھی بھی نماز نہیں چھوڑوں گا اللہ تعالی کی عبادت جو ہے وہ ہمیشہ ادا کروں گا اور کبھی کبھی بھی اللہ تعالی کی نماز نہیں چھوڑوں گا یہ جواز ہے جو حضرت مصلح موعود رضی اللہ تعالی عنہ نے اللہ تعالی کی ہستی کا ثبوت ملنے کے بعد کیا ہے اس بات کا اندازہ ہوتا ہے اللہ تعالیٰ کی محبت کس قدر رچ بس گئی تھی کہ آپ نے ایک ایسا عزم کیا کہ میں اپنی پوری زندگی اس محبت کا اظہار نماز کی ادائیگی کی صورت میں کرونگا اور املا اپنے اس عہد کو کیسے نبھایا آپ خود اپنا ایک واقعہ بیان کرتے ہیں کہ ایک روز میں دفتر میں بیٹھا ہوا تھا سورج غروب ہونے کا وقت ہوا تو کام میں مصروف کی وجہ سے مجھے پتہ نہیں لگا سورج غروب ہونے کا وقت ہوا میں اٹھا تو اچانک میرے ذہن میں آیا کہ شاید میری عصر کی نماز رہ گئی ہے اور میں عصر کی نماز نہیں پڑھ سکا خیال میرے ذہن میں آتے ہی مجھے ٹکرانے لگے اور قریب تھا کہ میں زمین پر گر کر مر جاتا اس غم کی وجہ سے کہ میں عصر کی نماز ادا نہیں کر سکا تو پیسے میں اسی ہو رہا تھا کہ اچانک مجھے یاد آیا کہ جب میں نماز ادا کر رہا تھا تو کسی نے مجھے آواز دی تھی اس وقت تو مجھے یاد آیا تو اس نے پھر مجھے تسلی ہوگئی مجھے اس بات کا یقین ہو گیا کہ میں نے نماز ادا کی ہے اور فرماتے ہیں کہ اگر یہ واقعی مجھے یاد نہیں آتا تو شاید مجھے یہ جو واقعہ جنہوں نے بیان فرمایا ہے اس نے ہمیں اس بات کا اندازہ ہوتا ہے کہ کس قدر لگاؤ تھا اللہ تعالی کے ساتھ غربت کس قدر رکھی ہوئی تھی اور اس محبت کے نتیجے میں اب کبھی بھی نماز کو ضائع نہیں کرتے تھے اور کبھی بھی نماز کو ضائع نہیں ہونے دینا چاہتے تھے بلکہ اس کا خیال بھی آپ کو فرماتے ہیں جیسے میری آواز گر کیا اس اس نے مجھے غصہ آنے لگ جاتا ہے جیسا کہ میں نے عرض کیا کہ یہ نماز ایک ایسی چیز ہے جو ایک مومن کی محبت کا اظہار ہے اللہ تعالی کے پڑا پیمانہ ایک مومن کے لئے اللہ تعالی کی محبت کا کوئی بھی نہیں ہو سکتا آپ کی محبت کا بھی تھا نماز میں کس قدر نرم ہو جاتے تھے آپ اس کا ایک واقعہ بیان کرتا ہوں ایک صحابی حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کے ہیں وہ بیان کرتے ہیں کہ ایک روز رات کو میں مسجد میں نوافل ادا کرنے کے لیے چلا گیا تو جب مسجد میں پہنچا تو میں نے دیکھا کہ ایک نوجوان سجدے میں ہے اور دعا کر رہا ہے اور اللہ تعالی سے گریز نہیں کر رہا جب میں نے ان کو مسجد میں دیکھا تو میں نماز نہیں پڑھ سکا کی آواز میں میں نماز پڑھنے نہیں سکتا تھا جب ان کی اس طرح کی صورتحال یہی دعا شروع کر دی یا اللہ یہ نوجوان جو بھی دعا کر رہا ہے یہ دعائیں قبول کر اور اس سے مراد ہے اس پوری دنیا میں بہت دیر تک یہ دعا کرتا رہا اور اس بات کا انتظار کرتا رہا کہ نوجوان سجدے سے سر اٹھائے اور مجھے یہ علم ہوجائے کہ یہ کون ہے میں رہنے کے بعد جب انہوں نے تجھے دیکھا تو وہ حضرت مرزا بشیر الدین محمود ڈاکٹر ایک اور مختصر سیکس عشقت کیونکہ وقت ہوگیا ہے آپ مجھے بتا رہے ہیں کہ بہت مختصر ہے ایک چھوٹا سا واقعہ اسی نوعیت کا پیش کرکے اپنی بات ختم کرتا ہوں حضرت ڈاکٹر حشمت اللہ صاحب رضی اللہ تعالیٰ عنہٗ یہ واقعہ بیان کرتے ہیں وہ فرماتے ہیں کہ ایک موقع پر مسالہ گئے ہوئے تھے حضور رضی اللہ تعالی عنہ وہاں پر یا اس سے پہلے وہ جانے سے پہلے کچھ بیماری کا حملہ بھی ہوا تھا بخار بھی ہوا تھا ان کا قتل ہے لیکن حضور اپنے پاس جو ساتھی تھے ان کے ساتھ سیر کو نکل گئے اور ایک جنگل کی طرف چلے گئے اور وہاں دورکعت نفل ادا کرنا شروع کر رحمت اللہ صاحب بیان کرتے ہیں کہ اس قدر لمبے لمبے سجدے اور لمبے لمبے رکوع آپ رضی اللہ تعالیٰ عنہٗ نے فرمائے وہ فرماتے ہیں کہ کم و بیش ڈیڑھ گھنٹے سے زیادہ عرصے تک صرف دو رکعت نفل آپ رضی اللہ تعالی عنہ تو یہ ہمیں اس سے اس بات کا اندازہ ہوتا ہے کہ کس حضرت مصلح موعود رضی اللہ تعالی عنہ کے اللہ تعالی کی یاد تھی اللہ تعالی کا ذکر تھا اور اللہ تعالی کی محبت اور اللہ تعالی کا عشق تھا کہ نہایت ہی اسے گرا کے ساتھ نہ آئی تھی انہماک کے ساتھ اور محویت کے ساتھ اللہ تعالی کی عبادت بجالاتے ہیں چلاتے تھے اور یہ تب ہی ممکن ہوسکتا ہے جب کامل درجے کی محبت اللہ تعالی کی ذات سے ہوں اور کامل درجے کا عشق اللہ تعالی کے ساتھ ہوں اور جو آپ کے اندر اللہ تعالی نے جزاک اللہ تعالیٰ ہمارے آج کے سوٹ کا آخری سوال ہے محترم مولانا محمد اکرم صاحب چائے سے پوچھنا چاہوں گا کہ پیشگوئی مصلح موعود کی یہ الہامی الفاظ ہیں بظاہر الاول مظہرالحق کی آسماں اس کا نزول بہت مبارک اور لیکن ظہور کا موجب ہوگا تو حضرت مرزا بشیرالدین محمود احمد رضی اللہ تعالی عنہ ان الہامی الفاظ کے کس طرح مذاق ہوئے ہیں اس کے بارے میں ہمارے کچھ بتائیں جو حضرت مصلح موعود رضی اللہ تعالی عنہ کے جو بارے میں جو یہ الفاظ ہیں ہر ایک لفظ جو ہے کہ علامت کے طور پر ہم دیکھیں تو وہ 57 علامت بنتی ہیں ان میں سے یہ چار علامتیں اور بھی آجاتی ہیں اسی کے اندر ہونا چاہیے اللہ تعالی کی صفات ہے اور اس میں یہ بتایا گیا ہے کہ جیسے کہ اللہ تعالی نے دنیا کی ابتداء کی ہے پھر اس کی انتہا بھی اسی کے ہاتھ میں ہے اور جیسے اسلام کو اس میں شروع کیا اور اس کا انتہائی ترقی ہے وہ حضرت مسلم موت حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے ذریعہ سے وابستہ ہیں یہ دراصل حضرت مصلح موعود رضی اللہ تعالی عنہ کی ایک علامت بیان کی گئی ہے اس کے وجود کے اندر اللہ تعالی ایسی برکتیں اور اس کی خصوصیات رکھے گا کہ جس کے در سے ایک طرف تو اللہ تعالی کا وجود کا اظہار ہو گا اور جیسے کہ اللہ تعالی سے تعلق ہونے کے نتیجے میں بہت سارے بشارات آپ کو بھی عطا کی گئی تو اس لحاظ سے اول اور آخر کے اعتبار سے جو ہے اللہ سے تعلق بلاک بھی اس میں اضافہ ہوتا ہے اور یہ ایک مظہر الحق کو لائے ہے عجز بندگی ہے وہ سرور ندی اس ذات کے ذریعے اللہ تعالی کی جو ہے وہ دنیا کے سامنے آئے گی اور جیسے کہ آپ نے اللہ تعالیٰ کی ہستی کے بارے میں بہت سارے دلائل دیئے نہ صرف دلائل دیے بلکہ آپ کا اپنا وجود خود اللہ تعالی کی ایک عظیم الشان نشانی کے طور پر تھا غزل اسماء یوں معلوم ہوتا ہے کہ آپ کا دور خلافت حضرت علی کی صفت جلال کا ظہور ہونا تھا وہ خدا تعالیٰ خود آسمان سے اتر آیا ہوں چنانچہ ہم یہ دیکھتے ہیں کہ حضرت مصلح موعود رضی اللہ تعالی عنہ کا وصال جو دور خلافت ہے آپ دیکھیں گے ابتدا دے حضرت موسی علیہ السلام کی وفات ہوئی ہے تو آپ کہتے ہیں کہ میرے دل میں پھر ایسا خیال پیدا ہوا کہ ایک طرف تو غیر ہیں جو مولوی ملا تھے شور مچا رہے تھے کہ نعوذباللہ گئے ہیں اب ان کا خاتمہ ہو جائے گا حضور کہتے ہیں اس میں آپ کے سامنے کھڑے ہوکر یہ عزم کر رہا تھا کہ اس وقت آپ کی عمر 19 سال کی تھی آپ کہتے ہیں کہ ساری جماعت آپ کو اگر چھوڑ دے تو میں اکیلا جو ہے مسیح موعود علیہ السلام کے مشن کو آگے بڑھ آپ میں وہ سوچ لیا اس کے بعد پھر آپ کے جو گھر میں علمی لحاظ سے دنیا تباہ صحیح ہے اس میں خلافت کے لحاظ سے یہ سارے ایسے معلوم ہوتے ہیں کہ یہ خدا تعالیٰ کے کام ہے یہ گویا کہ خود نازل ہو کر یہ کام کروا رہا ہے تو یہ ان کا بڑا عظیم الشان زیادہ تفصیل میں نہیں سکتے تو یہی سمجھا کہ اس کا وجود جلال ہی کے ظہور کا موجب ہوگا کتنے فتنے اٹھے ہیں خلافت کے دور میں کے سب سے پہلے تو یہ کہ حضرت خلیفہ اور اللہ تعالی عنہ کی خلافت کے بارے میں فتنہ اٹھا پھر یہ کہ خلافت کو ختم کرنے کا فائدہ اٹھا کر اور پھر اس کے بعد دیکھیں گے کہ شادیوں کے شو شروع ہوئی قادیان کو ملیا میٹ کرنے کا ان کا کیا تھا وہاں دنیا سے نابود ہو گئے پھر اس کے بعد جو ہے جماعت کے اندرونی فتنے اٹھے بیرونی فتح اٹھے یہاں تک کہ ان 53 میں جو جماعت کے خلاف فتنہ اٹھے ان تمام کا اپنے بڑے مردانہ وار مقابلہ کیا ہے اور جماعت کو جو ہے ایک نئی زندگی دی اور جماعت کو مضبوط بنائیں پر قائم کیا اور ہر قدم پر فرمایا کہ میرا خدا میری تائید کے لئے آ رہا ہے اور دنیا نے دیکھا کہ اللہ تعالی کی تائید و نصرت آپ کے ساتھ الٰہی کا ظہور آپ کے ذریعہ سے ہوا جزاک اللہ تعالی آپ کو جزائے خیر ہم اس کے ساتھ آج کا ایپیسوڈ اختتام پذیر ہونا چاہتا ہے اس موقع پر میں حضرت اقدس مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کے پاس آپ کی خدمت کرنا چاہتا ہوں جس نے وضو فرماتے ہیں میدان بھی سمجھ سکتا ہے کہ مفہوم پیش گوئی کا اگر بنظر ایک جائزہ لکھا جاوے تو ایسا بشری طاقتوں سے بالاتر ہے مسئلہ ہی ہونے میں کسی کو شک نہیں رہ سکتا اگر شک ہو تو ایسی قسم کی جو ایسے ہی نشان پر مشتمل ہوں پیش کرے اس جگہ آنکھیں کھول کر دیکھ لینا چاہیے کہ یہ صرف دو ہی نہیں بلکہ ایک عظیم الشان شان آسمانی ہے جس کو خدا ہے نبی کریم رؤف الرحیم محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وسلم کی صداقت و عظمت ظاہر کرنے کے لئے ظاہر فرمایا ہے اور درحقیقت یہ نشان کے زندہ کرنے سے سجدہ درجہ اولی و اعلی و اکمل و افضل ہے کیونکہ مردہ کو زندہ کرنے کی حقیقت یہی ہے کہ جناب الہی میں دعا کرکے ایک روح واپس منگوائے پیشگوئی مصلح موعود نے اپنی ہم اس دنیا میں کیا اثر چھوڑا اور بات کی دنیا میں اس کی کیا تاثیر رہی ہے ہم اپنے ایپیسوڈ میری بات کریں گے ہم اپنے اگلے پیسہ حضرت مسیح موعود حضرت ام سلمہ رضی اللہ تعالی عنہ کی قرآنی خدمات ہیں اس کے تعلق سے بات کریں گے ہمارا گل اپیسوڈ مورخہ 8 فروری 2020 ہفتہ کے دن انڈین ٹیم کے مطابق رات کے ساڑھے نو بجے اور چیونٹی کے مطابق سہ پہر چار بجے کا بیان دہ علماء کی خدمت میں لائیو پیش کریں گے دیجئے گا السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ لوگو کہ یہیں نور جہان آباد او گے لہنگے تار تسلی بدعیات بولو کہ یہیں نور خدا پاؤ بعد جہاں کے تاجدار تجھے سلام بتایا ہے لاہور تم نے تار تثلیث بتایا ہمت

Loading

Leave a Reply